شعبان 15 کی رات کی فضیلت یا بدعت؟ بحث اور فتوے

بسم الله الرحمن الرحيم
لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ
شروع اللہ کے نام سے، ہم اللہ کی حمد کرتے ہیں اس کی مدد چاہتے ہیں اوراللہ سے مغفرت کی درخواست کر تے ہیں. جس کواللہ ھدایت دے اس کو کوئی  گمراہ نہیں کرسکتا اورجس کو وہ گمراہی پر چھوڑ دے اس کو کوئی ھدایت نہیں دے سکتا. ہم شہادت دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ﷺ اس کے بندے اورخاتم النبین ہیں اور انﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں ہے. درود و سلام ہوحضرت محمّد ﷺ  پر اہل بیت (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور اصحاب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اجمعین  پر.


Read full in English with quotations of Hadith and videos:
Muslims should not Waste effort and energies in discussing minor Fiqh issues, concentrate on Faith and Good Works. More  << click here >>

Image result for 15 shaban significance
 مسلمانوں کی اکثریت ١٥ شعبان  کی رات کو فضیلت بخشش اور عبادت کی رات سمجھتی ہے کیوں کہ بے شمار حدیثوں سے اس رات کی فضیلت ثابت ہے- اس رات کی فضیلت سے فایدہ اٹھانے کے لیے وہ عبادات  نوافل ،تلاوت قرآن اور ذکر  کرتے ہیں اوراللہ سے بخشش کی دعا  کرتے ہیں.۔

دوسری طرف مسلمانوں کی  ایک اقلیت سمجھتی ہے کہ١٥ شعبان  کی رات ایک عام رات ہےجس کی کوئی مخصوص فضیلت نہیں جو احادیث اس کی فضیلت کو بیان کرتی ہیں ان کی اسناد کمزور ہیں۔ اس لیے وہ اس رات کی نسبت سے عبادت کو بداء (بدعت) سمجھتے ہیں۔ 

 حدیثوں کے کمزور یا مستند ہونے کی بحث کو الگ رکھتےہوے رات کی عبادت کی اہمیت دیکھیں –

سورة المزمل (ترجمہ)
بسم الله الرحمن الرحيم


اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے (1) رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم (2) آدھی رات، (3) یا اس سے کچھ کم کر لو یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو، اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو (4) ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں (5) درحقیقت رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کارگر اور قرآن ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے (6) دن کے اوقات میں تو تمہارے لیے بہت مصروفیات ہیں (7) اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو اور سب سے کٹ کر اسی کے ہو رہو (8) وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، لہٰذا اُسی کو اپنا وکیل بنا لو (9) اور جو باتیں لوگ بنا رہے ہیں ان پر صبر کرو اور شرافت کے ساتھ اُن سے الگ ہو جاؤ (10) اِن جھٹلانے والے خوشحال لوگوں سے نمٹنے کا کام تم مجھ پر چھوڑ دو اور اِنہیں ذرا کچھ دیر اِسی حالت پر رہنے دو (11) ہمارے پاس (ان کے لیے) بھاری بیڑیاں ہیں اور بھڑکتی ہوئی آگ (12) اور حلق میں پھنسنے والا کھانا اور دردناک عذاب (13) یہ اُس دن ہوگا جب زمین اور پہاڑ لرز اٹھیں گے اور پہاڑوں کا حال ایسا ہو جائے گا جیسے ریت کے ڈھیر ہیں جو بکھرے جا رہے ہیں (14) تم لوگوں کے پاس ہم نے اُسی طرح ایک رسول تم پر گواہ بنا کر بھیجا ہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا تھا (15) (پھر دیکھ لو کہ جب) فرعون نے اُس رسول کی بات نہ مانی تو ہم نے اس کو بڑی سختی کے ساتھ پکڑ لیا (16) اگر تم ماننے سے انکار کرو گے تو اُس دن کیسے بچ جاؤ گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا (17) اور جس کی سختی سے آسمان پھٹا جا رہا ہوگا؟ اللہ کا وعدہ تو پورا ہو کر ہی رہنا ہے (18) یہ ایک نصیحت ہے، اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کر لے (73:19) اے نبیؐ، تمہارا رب جانتا ہے کہ تم کبھی دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات عبادت میں کھڑے رہتے ہو، اور تمہارے ساتھیوں میں سے بھی ایک گروہ یہ عمل کرتا ہے اللہ ہی رات اور دن کے اوقات کا حساب رکھتا ہے، اُسے معلوم ہے کہ تم لوگ اوقات کا ٹھیک شمار نہیں کر سکتے، لہٰذا اس نے تم پر مہربانی فرمائی، اب جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو اُسے معلوم ہے کہ تم میں کچھ مریض ہونگے، کچھ دوسرے لوگ اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کرتے ہیں، اور کچھ اور لوگ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں پس جتنا قرآن بآسانی پڑھا جا سکے پڑھ لیا کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ کو اچھا قرض دیتے رہو جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں موجود پاؤ گے، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے اللہ سے مغفرت مانگتے رہو، بے شک اللہ بڑا غفور و رحیم ہے (73:20)

  • اب  یہ معلوم  کرتے ہیں کہ نوافل ادا کرنا (ما سواے ممنوع اوقات جیسے طلوع و غروب آفتاب، سورج نصف النہار، یعنی عین زوال کا وقت) اور نفلی عبادات یعنی  ، تلاوت قرآن اور ذکر  کرنا اوراللہ سے بخشش کی دعا  کرنا کیا گناہ ہے؟
  • صلات تہجد مسمانوں کی نفلی عبادت نصف رات کے بعد تنہائی میں ادا کی جاتی ہے. وہ مسلمان جو اس نفلی عبادت کو ادا کرنے سے قاصر ہیں اگر وہ کسی رات اس کو ادا کرنے  اور مزید تلاوت قرآن و ذکر کا اہتمام کریں تو کیا یہ بدعت ہو گی کیوں کہ ١٥ شعبان کی رات ہے؟
  • نوافل میں قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے.  مسلمان قرآن کی کسی بھی آیات کی تلاوت کر سکتا ہے- اگر مسلمان خاص قرانی آیات کی تلاوت کرتے ہیں جن میں بخشش کی دعا یں ہیں تو اس میں کیا غلط ہو گیا؟
  • کیا ١٥ شعبان کی رات نفلی عبادات ممنوع ہیں، کیوں؟
  • بہت مسلمان پانچ وقت کی فرض نماز اپنی کاہلی کی وجہ سے ادا نہیں کرتے مگر اکثر جمعہ کے دن مسجد پہنچ جاتے ہیں. کیا ایسے مسلمانوں کو اگر کوئی روکے کہ تم پانچ فرض نمازیں تو ادا نہیں کرتے جمہ پر کیوں آگیے ہو؟ 
  • اگر اس طرح کی نفلی عبادات ممنوع نہیں بلکہ مستحب ہیں تو پھر ان اللہ کی عبادات کو بدعت قرار دینا مسلمانوں کو ان نفلی عبادات سے روکنا جائز عمل ہے؟  ہم نادانستگی میں مسلمانوں کو عبادات سے روک کرکس کے مدد گار  بن رہے ہیں؟
  • اے اوﻻد آدم! کیا میں نے تم سے قول قرار نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرنا، وه تو تمہارا کھلا دشمن ہے (60) اور میری ہی عبادت کرنا۔ سیدھی راه یہی ہے (61) شیطان نے تو تم میں سے بہت ساری مخلوق کو بہکا دیا۔ کیا تم عقل نہیں رکھتے (سورة يس 36:62) 
  •  شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کرا دے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے سو اب بھی باز آجاؤ (5:91 سورة المائدة) 
  • اگر کسی رات کے متعلق اکثریت سمجھے کہ وہ فضیلت والی رات ہے مگر رسول اللہﷺ  کی نسبت سے مخصوص  عبادات کی تفصیلات معلوم نہ ہوں تو کیا کریں؟
  •  (ا ) سو جاییں، جو نفلی عبادات کریں ان کو منع کریں.
  • (ب) روزانہ کے معمولات پر عمل کریں، ٹیلیویزن پر ڈرامے دیکھیں کام کاج میں مشغول رهیں
  • (س) ذاتی طور پر تہجد اور نفل عبادت کا اہتمام کریں، استغفار کریں، اللہ سے بخشش کی دعا کریں-گھر کے افراد، عزیزوں، دوستوں اور دوسرے مسلما نوں کو بھی اس کی تلقین کریں.(اگر اس رات کی مخصوص فضیلت نہ بھی ثابت  ہو تو بھی نفلی عبادات کا ثواب ملے گا- اور اگر نیت اچھی ہے تو صلہ بھی اچھا ملنے کی امید ہے )

یقیناً اللہ کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (8:22 قرآن) 

اب آیئں ١٥ شعبان کی رات کی فضیلت کی احادیث کی طرف جو اسناد میں بہت طاقتور نہیں مگر لا تعداد ہیں. علماء (مولانا تقی عثمانی) کے مطابق جب ایسی احادیث کی تعداد زیادہ ہو تو وہ طاقتور بن جاتی ہیں ان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لہٰذا ١٥ شعبان کی رات کی فضیلت ہے مگر عبادات کی تفصیل نہیں معلوم تو بہتر ہے کہ نوافل، تلاوت قرآن اور ذکر کا اہتمام کیا جائے مغفرت، بخشش کے لیے  اللہ سے طلبگار ہوں مگر تنہائی میں- خرافات آتش بازی ، تقریبات، شغل میلہ سے پرہیز کریں اورغیر اسلامی ممنوع غیر شرعی اقدامات سے دور رہیں. رسول اللہﷺ  کا اس رات ایک مرتبہ قبرستان جانا معلوم ہے مگر اس کو ضروری نہ سمجھیں, قبرستان جانے میں کوئی حرج نہیں- اگلے دن روزہ رکھنا ممکن ہے  کیونکہ  رسول اللہﷺ شعبان کو اکثر روزے رکھے تھے اس کو ١٥ شعبان سے مخصوص کرنا ضروری نہیں-
یہ معلوم رہے کہ اسلام میں شرعیت کے چار ماخذ ہیں:قرآن، حدیث و سنت ، اجماع،  قیاس (logical reasoning, analogy).

 مزید تفصیلات اس ویڈیو میں موجود ہیں:

  
ہم مفتی بن بیٹھے اور فتوے  جاری  کر رہے  ہیں بغیر علم  کے – افسوس کہ دنیا ترقی کر رہی ہے اور ہم اپنے سادہ اور آسان دین اسلام پراچھے طریقه سے عمل کی بجایے غیر  ضروری تفرقہ بازی کے مباحثوں میں الجھ کر رہ گے ہیں- تحقیق  حاضر ہے. . اس  میں مولانا مفتی  تقی  عثمانی  اور مولانا طارق  جمیل  صاحب  کی اردو  میں ویڈیو بھی  ہیں  ملاحظہ فرماییں اس  لنک  پر: 
Muslims should not Waste effort and energies in discussing minor Fiqh issues, concentrate on Faith and Good Works. More at above link ♤♤♤

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

بدعت بنیادی طور پر عربی لفظ “بدعۃ” سے ماخوذ ہے جو کہ “بَدَعَ” سے مشتق ہے جس کے معنی وجود میں لانا یا وقوع پذیر ہونا کے ہیں۔ کسی شے کے عدم سے وجود میں آنے کو بدعت کہتے ہیں۔ اس طرح بدعت کرنے والے فاعل کو مبتدع یا بدعتی اور عربی میں “بَدِيع” کہا جاتا ہے۔ لغوی اصطلاح میں بدعت کسی مفعول کے عدم سے وجود میں آنے اور مبتدع اُسے وجود میں لانے والے فاعل کیلئے استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ 
ترجمہ: (وہی اللہ) موجد (نیا پیدا کرنے والا) ہے آسمانوں اور زمین کا

اس آیتِ میں اللہ نے آسمانوں اور زمین کے وجود میں آنے کا بیان کرتے ہوئے اپنی ذات کو آسمانوں اور زمین کا بدیع یعنی مبدع (وجود میں لانے والا) کہا۔ اسی وجہ سے اللہ کا ایک صفاتی نام “البَدِيع” یعنی مبتدع(وجود میں لانے والا) بھی ہے۔ شرعی اصطلاح میں بدعت کا حکم ہر اُس فعل یا مفعول کیلئے استعمال ہوتا ہے جسکا وجود قرآن و سنت کی نص سے ثابت نہ ہو اور وہ مابعد قرآن و سنت ظاہر ہو۔

بدعت کی بنیادی طور پر دو اقسام ہیں ایک بدعتِ حسنہ یعنی احسن بدعت اور دوسری بدعتِ سیئۃ یعنی بری بدعت جیسا کہ ذیل کی حدیث نبوی میں بیان کیا گيا ہے۔

مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً، فَلَهُ أَجْرُهَا، وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ، وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً، كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ، رواہ جامع صحیح مسلم 
 (صحیح مسلم از امام مسلم ۔ کتاب الزکوٰۃ، باب الحث علي الصدقہ)

ترجمہ : ـ جو آدمی اسلام میں کوئی اچھا کام جاری کرے پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا جائے تو جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان کے اجر کی مثل اس (جاری کرنے والے) کے لئے بھی لکھا جائے گا، اور خود ان عمل کرنے والوں کے اجر میں سے کچھ کم نہ ہوگا۔ اور جو کوئی اسلام میں کوئی برا کام جاری کرے پھر اس کے بعد لوگ اپنے عمل میں لائیں تو ان سب کو جو گناہ ہوگا وہ اس (جاری کرنے والے) کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جائے گا ، جبکہ عمل کرنے والوں کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہوگی۔

اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے دین میں کوئی نیا اچھا عمل جاری کرنا جو شریعت کے بنیادی اصولوں کے مخالف نہ ہو نہ صرف جائز بلکہ مستحب عمل ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رمضان المبارک میں باجماعت نمازِ تراویح شروع کرنے کے اپنے عمل کو از خود ( قَالَ عُمَرُ نِعْمَ الْبِدْعَۃُ ھَذِھِ ۔ یہ اچھی بدعت ہے، بخاری
(صحیح بخاری از امام بخاری ۔ کتاب صلاۃ تراویح، بابُ فَضلِ مَن قامَ رَمَضَانَ)
 فرماکر نبیِ کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی حدیثِ مبارکہ کی عملی تشریح کی۔

اسی طرح بہت سے ایسے افعال جو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں اس طرح سے نہیں تھے اور صحابہ اکرام علیہم الرضوان یا اَن کے بعد امتِ مسلمہ میں مروج ہوئے جیسے قرآنِ مجید کو خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور خلافت میں کتابی شکل میں جمع کرنا یا بعد ازاں حجاج بن یوسف کے دور میں قرآنِ پاک پر اعراب لگانا، فقہ، نحو، عید میلاد النبی، درود و سلام، ایمانِ مفصل و ایمانِ مجمل، چھ کلمے، مساجد میں مینار گنبد و محراب، تصوف و طریقت و معرفت، سوئم، چہلم، ختم، عرس اور گیارہویں شریف وغیرہ ایسے افعال ہیں جو امت میں مروج ہوئے اور کسی شرعی حکم سے ٹکراؤ اور مخالفت نہ رکھنے کے باعث یہ افعال حدیثِ نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی روشنی میں بدعتِ حسنہ کے ضِمن میں آتے ہیں۔
اسی طرح جو افعال شریعت سے ٹکراو رکھتے ہیں وہ بدعتِ سیئۃ یعنی بری بدعت کے زمرے میں آتے ہیں اور شرعی لحاظ سے ممنوع ہیں۔

اہل حدیث مکتبہ فکر: بدعت کے بارے میں اہل حدیث مکتبہ فکر کا موقف بدعت کو یکسر مسترد کرتے ہیں اور اسے صرف جہنم میں لے جانے والا عمل گردانا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث سے جو بات ثابت نہیں، وہ بدعت ہے:

دیوبندی مکتبہ فکر: مفتی کفایت الله صاحب (المتوفی ١٣٧٢ ھ) لکھتے ہیں :
بدعت ان چیزوں کو کہتے ہیں جن کی اصل شریعت سے ثابت نہ ہو، یعنی قرآن مجید اور احادیث شریفہ میں اس کا ثبوت نہ ملے، اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم، صحابہ کرم رض، تابعین اور تبع تابعین کی زمانہ میں ان کا وجود نہ ہو، اور اسے دین (ثواب) کا کام سمجھ کر کیا جاۓ. [تعلیم الاسلام : حصہ چہارم ، صفحہ ٢٧)
https://ur.wikipedia.org/wiki/بدعت_(اسلام)
~~~~~~~~~~~~~~~~~

مزید پڑھیں:
  1. مسلما نوں اور علماء کے نام کھلا خط : آج کے حالات میں مسلم معاشرہ نظریاتی  ابتری اور انحطاط کا شکار ہے. مادہ پرستی، دہشت گردی، عدم برداشت، اور جہالت انسانیت، امن اور مذھب کے لیے خطرہ بن چکے ہیں- ان حالات میں صاحب علم و ذی فہم حضرات سے ممکنہ حل کی توقع کی جا سکتی ہے. ہمارا مقصد ہے کہ آپ کی توجہ ضروری حل پذیر مسائل کی طرف مبذول کرنا ہے تاکہ جلد حل تلاش کیا جا سکے- آپ کی توجہ اور مدد سے ہم کوشش کر سکتے ہیں کہ معاشرہ کو اس  گہری دلدل سے نکال سکیں. مکمل خط اس لنک پر پڑھیں : http://goo.gl/y2VWNE
  2. نظریاتی اور فکری کنفیوژن اور ممکنہ حل

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~

Humanity, ReligionCultureSciencePeace