صفات متشابہات کی بحث – Allegorical Attributes of Allah

القواعد فی العقائد
﴿ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاء﴾ کے ذیل میں بعض علماء نے صفات متشابہات کی بحث چھیڑی ہے، اس مناسبت سے اہل سنت والجماعت کا عقیدہ اختصار کے ساتھ نقل کیا جا رہا ہے، اس موضوع پر تفصیلی مباحث اور سلف صالحین کا تفصیلی موقف جاننے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ کریں۔”القول التمام بإثبات التفویض مذھباً للسّلف الکرام“ مؤلف سیف بن علی․

﴿ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾․
اہل سنت والجماعت کا اجتماعی اور اتفاقی عقیدہ ہے کہ ذات باری تعالیٰ زمان ومکان کی حدود سے اور سمت وجہت کی قیود سے پاک اور منزّہ ہے (ولا محدود ولا معدود، ولا یوصف بالماھیة ولا بالکیفیة، ولا یتمکن فی مکان (إذا لم یکن فی مکان لم یکن فی جھة، لاعلو ولاسفل ولا غیرھما) ولا یجری علیہ زمان، العقائد النسفیة، ص:43، مع شرح التفتازانی)

وہ عرش کا محتاج ہے نہ فرش کا، عرش وکرسی کے وجود میں آنے سے پہلے وہ جس شان میں تھا اب بھی اسی شان میں ہے ۔

البتہ جہاں تک بحث قرآن وحدیث کے ان الفاظ کے متعلق ہے جو الله تعالیٰ کے لیے عرش پر قرار پکڑنے:﴿ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾․ (الاعراف، آیت:54)اور چہرہ:﴿وَیَبْقَی وَجْہُ رَبِّک﴾․ (الرحمن، آیت:27)ہاتھ:﴿ یَدُ اللَّہِ فَوْقَ أَیْْدِیْہِمْ﴾․ (الفتح، آیت:10)آنکھ: ﴿وَلِتُصْنَعَ عَلَی عَیْْنِی﴾․ (طہ، آیت:39)پنڈلی:﴿یَوْمَ یُکْشَفُ عَن سَاق﴾․(القلم:42) وغیرہ ہونے پر دلالت کناں ہیں ، تو انہیں اسلاف نے صفات متشابہات قرار دے دیا ہے۔ کیوں کہ اگر انہیں حقیقی معنی پر محمول کیا جائے تو تجسیم وتشبیہ کی راہیں کھلتی ہیں اور اگر صرف تنزیہ وتجرید کے تقاضے ملحوظ رکھے جائیں تو انکارِ صفات کے پہلو نکلتے ہیں۔

فرقہ مجسمہ اور مشبہہ نے تو ان صفات کے حقیقی معنی مراد لے کر تجسیم وتشبیہ کی تمام منزلیں طے کر ڈالیں اور برملا یہ دعویٰ کر دیا کہ الله تعالیٰ بھی اس طرح ہاتھ ، پاؤں رکھتے ہیں جس طرح ایک مخلوق رکھتی ہے۔ (شرح المقاصد، المقصد الخامس، 37/3)

اور آسمان وزمین کی تخلیق کے بعد اسی طرح عرش پر بیٹھے ہیں، جس طرح ایک بادشاہ ملکی امور کی انجام دہی کے بعد تختِ شاہی پر فروکش ہوتا ہے۔

دوسری طرف تنزیہ وتجرید کے علم بردار معتزلہ، معطلہ جہمیہ نے مذکورہ صفات کو توحید باری تعالیٰ کے منافی قرار دے کر انہیں مجازی معنی پر محمول کیا اورپھر اسی کو حرف آخر اور حتمی بھی قرار دیا ہے۔ ( التمہید لابن عبدالبر،145/7)

افراط وتفریط کی اس کش مکش میں اہل سنت والجماعت ہی ایسا گروہ تھا جو اعتدال کی راہ پر گام زن رہا اور سلف صالحین کے نقش قدم پہ چل کر تعبیر وتشریح کے اس پیچیدہ مقام سے باسلامت گزر گیا۔

اہل سنت والجماعت کا مسلک
متقدمین سلف صالحین کا موقف: متقدمین سلفِ صالحین کا مسلک یہ ہے کہ جو صفات متشابہات قرآن وحدیث او راجماع امت سے ثابت ہیں ان کے متعلق بس اتنا ہی جان لینا کافی ہے کہ :

جو لفظ صفت باری پر دلالت کناں ہے اس کی نسبت الله تعالیٰ کی طرف ثابت ہے۔

اس لفظ سے اس کا ظاہری اور حقیقی معنی ہر گز مراد نہیں ۔

نیز ذات بار ی مخلوق کی مشابہات سے پاک ہے۔ (” نؤمن بأن الاستواء ثابت لہ تعالی( بمعنی یلیق بہ ھو سبحانہ اعلم بہ) کماجری علیہ السلف رضوان الله تعالیٰ علیہم فی المتشابہ من التنزیہ عمالا یلیق بجلال الله تعالیٰ مع تفویض علم معناہ إلیہ سبحانہ․“ المسایرہ شرح المسامرہ لابن الہمام، ص:45)․

” وانما یسلک فی ھذا المقام مذھب السلف الصالح، الأوزاعي والثوری واللیث بن سعد والشافعی وأحمد بن حنبل واسحاق بن راھویہ وغیرہم من أئمة المسلمین، قدیماً وحدیثاً، وھو إمرار،کما جاء ت من غیر تکییف ولا تشبیہ ولا تعطیل، والظاہر المتبادر إلی اذھان المشبھین منفی عن الله، فإن الله لا یشبہہ شيء من خلقہ․“ ( تفسیر ابن کثیر، الاعراف، تحت آیت: رقم:54)

یہ اہل سنت کا مسلمہ موقف ہے جس پر چندد لائل پیش خدمت ہیں۔

امام مالک رحمہ الله تعالیٰ کی مجلس میں ایک شخص نے ﴿الرحمن عَلَی الْعَرْش اسْتَوَی﴾ کی تلاوت کرکے یہی سوال اٹھایا کہ الله تعالیٰ کا استوا کیسا ہے ؟ امام مالک رحمہ الله تعالیٰ نے ایک لمحہ سوچ کر ارشاد فرمایا یہ استوا ایسا ہی ہے جیسا الله تعالیٰ نے آیت کریمہ میں اپنے بارے میں بیان فرما دیا ہے ۔ الرحمن ( یعنی صرف صفت استوی کی نسبت باری تعالیٰ کے لیے ثابت ہے) اس کی کوئی کیفیت نہیں ( کیوں کہ یہ جسم کی خصوصیت ہے) اس لیے یہاں کیفیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ (”فقال: (الرحمن علی العرش استوی، کما وصف بہ نفسہ․ ولا یقال کیف، وکیف عنہ مرفوع․“(الدرالمنثور، لابن الجوزی، الاعراف، تحت آیة رقم:54) (ھکذا فی کتاب الاسماء والصفات للإمام البیہقی، ص:408)

امام مالک رحمہ الله تعالیٰ نے اپنے جواب میں اہل سنت والجماعت کے موقف کی ترجمانی فرمائی ہے کہ استوی بار ی تعالیٰ کی متشابہہ المعنی صفت ہے، لہٰذا صفت استویٰ کی نسبت باری تعالیٰ کے لیے ثابت کرکے اس کے معنی ومراد پر لب کشائی سے گریز کرنا چاہیے ۔ یہی وجہ ہے اہل سنت استوی کی تشریح مایلیق بہ ( ایسا استوی جو اس کے شایان شان ہے) سے کر دیتے ہیں۔

امام ترمذی رحمہ الله اپنی سنن میں صفات متشابہات کے متعلق جمہور اہل سنت کا مسلک بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ان صفات پر صدق دل سے ایمان لاکر اس کی کوئی تفسیر نہ کی جائے، بلکہ ایسا وہم بھی نہ لایا جائے جس سے تجسیم وتشبیہ کا اشارہ نکلتا ہو ، ائمہ اہل سنت سفیان الثوری، مالک بن انس، عبدالله بن المبارک وغیرہ سب کا یہی مسلک ہے ۔ (”والمذھب فی ھذا عند اھل العلم من الأئمة مثل سفیان الثوری ومالک ابن انس، وابن المبارک، وابن عینیة ووکیع وغیرہ… وھذا الذی اختارہ أھل الحدیث أن تروی ھذہ الأشیاء کما جاء ت ویؤمن بھا، ولا تفسر، ولا تتوھم، ولا یقال کیف…“․ (”سنن الترمذی، تحت حدیث، رقم:2557: مزید کتاب التفسیر سورہ المائدہ، رقم الحدیث:3045، باب ماجاء فی خلود)

قرآن وحدیث میں بارہا ید (ہاتھ) کا لفظ الله تعالیٰ کے لیے استعمال ہوا ہے، جس پر علامہ ابن حجر رحمہ الله نے فرمایا کہ اس (ید) سے وہ ہاتھ ہر گز مراد نہیں جس کا ذکر ہوتے ہی ہمارے دل ودماغ میں ایک جسمانی عضو کا تصور دوڑنے لگتا ہے ، بلکہ یہ ایک صفت باری تعالیٰ ہے ( جس کی نسبت باری تعالیٰ کے لیے ثابت ہے ) لہٰذا اس صفت پر ایمان لا کر توقف اختیار کرنا چاہیے۔ کیوں کہ یہی اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے ۔ (”ولیس الید عندنا الجارحة، إنما ھی صفة جاء بہ التوقیف، فنحن نطلقھا علی ماجاء ت، ولا نکیفھا، وھذا مذھب أھل السنة والجماعة․“ (فتح الباری لابن حجر، تحت حدیث رقم باب قول الله تعالیٰ: (تعرج الملٰئکة والروح إلیہ) رقم الحدیث:6993) امرارھا علی ماجاء ت مفوضا معناہ إلی الله تعالی… قال الطیبی: ھذا ھو المذھب المعتمد، وبہ یقول السلف الصالح․“ ( فتح الباری لابن حجر باب قول الله تعالیٰ ولتصنع علی عینی، رقم الحدیث:6972)

دیکھیے علامہ ابن حجر رحمہ الله تعالیٰ نے صفات متشابہات کے متعلق واضح فرما دیا ہے کہ یہ متشابہہ المعنی صفت ہے ، لہٰذا اس کی تلاوت پر اکتفا کرکے اس کے معنی ومراد کے درپے نہیں ہونا چاہیے۔

علامہ بیہقی رحمہ الله تعالیٰ نے امام محمد بن الحسن الشیبانی رحمہ الله اور سفیان بن عینیہ رحمہ الله کا یہ قول نقل کیا ہے کہ :” کسی شخص کے لیے یہ روا نہیں کہ صفاتِ متشابہات کی تفسیر عربی یا عجمی زبان میں کرتا پھرے ۔ ان الفاظ کو پڑھ کر ان سے گزر جانا ہی بس ان کی تفسیر ہے۔“ ( ”ما وصف الله تبارک وتعالیٰ بنفسہ فی کتابہ فقرأتہ تفسیرہ، لیس لأحد أن یفسرہ بالعربیة ولابالفارسیة․“(کتاب الأسماء والصفات للبیہقی مع الھامش، ص:314)

علامہ بیہقی رحمہ الله فرماتے ہیں:متقدمین سلف صالحین استواء اوراسی جیسی تمام صفاتِ متشابہات کی کوئی تفسیر نہیں کرتے تھے۔“ ( ”فأما الاستواء فالمتقدمون من اصحابنا کانوا لایفسرونہ، ویتکلمون فیہ کنحو مذھبہم فی أمثال ذلک․“ (کتاب الأسماء والصفات للبیہقی، ص:407)

مذکورہ بالا دلائل سے متقدمین سلف صالحین کا موقف روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گیا کہ یہ صفات متشابہہ المعنی ہیں ، ان کے ظاہری معنی مراد لینا کسی طرح درست نہیں۔

متقدمین کے مسلک پر کچھ شہبات
پہلا شبہ: اگر صفات متشابہات ، استوی ، ید، وجہ وغیرہ کے ظاہری معنی اس لیے مراد نہیں لیے جاسکتے کہ اس سے جسمانیت کے پہلو سامنے آتے ہیں تو پھر محکم صفات علم ، قدرت ، حیات وغیرہ کا تصور بھی تو جسمانیت کے بغیر نہیں ہو سکتا، انہیں بھی متشابہات قرار دیا جائے۔

جواب… اس شبہ کی یہ بنیاد ہی غلط ہے کہ محکم صفات ، علم، قدرت ، حیات کا تصور جسم کے بغیر نہیں ہو سکتا، کیوں کہ ان صفات کا اطلاق جب باری تعالیٰ پر کیا جاتا ہے تو اس کی اولین دلالت جسم پر نہیں ہوتی، بلکہ ان الفاظ کے کانوں میں پڑتے ہی جو معانی اخذ ہوتے ہیں اس میں تنزیہ وتجرید کے تقاضے پوری طرح جلوہ گر ہوتے ہیں اور دل ودماغ کے کسی گوشے میں جسم کا تصور نہیں ابھرتا، برخلاف صفاتِ متشابہات ، استواء ِید، وجہ، کے کہ ان الفاظ کی اولین دلالت ہی جسمانیت پر ہوتی ہے ۔ ان کے ظاہری معنی مراد لینے کے بعد جسمانی لوازم کو وہم وخیال سے دور نہیں رکھا جاسکتا، لہٰذا اگر متشابہات اور محکمات میں یہ فرق ملحوظ رکھاجائے تو اشکال پیدا ہی نہ ہو ۔

دوسرا شبہ: اگر متشابہات کے معنی مراد کا علم صرف الله تبارک وتعالیٰ کو ہے تو پھر ان کو قرآن کریم میں ذکر کرنے کیا فائدہ ہے ؟

جواب : اگرچہ ہمیں صفات متشابہات کے معنی ومراد کا علم نہیں، لیکن ان پر ایمان لانا بھی باعث نجات اور ثواب ہے ، علاوہ ازیں اس کی تلاوت کے بھی معنوی فوائد اوربرکات ہیں ،اگرچہ ان تک ہماری رسائی نہیں ہے۔

متاخرین اہل سنت والجماعت کا موقف
متأخرین سلف صالحین کا مسلک یہ ہے کہ صفات متشابہات کے ایسے مجازی معنی بیان کیے جاسکتے ہیں جو الله تبارک وتعالیٰ کے شایان شان ہوں، بشرطے کہ:
اس لفظ کے اندر مجازی معنی مراد لینے کی گنجائش ہو۔
نیز اس مجازی معنی کو احتمال تفسیر کے درجے میں رکھا جائے، انہیں قطعی اوریقینی نہ کہا جائے۔

لہٰذا ”ید“ سے قدرت ، ”وجہ“ سے ذات اور استوا سے استیلا (غلبہ) مراد لیا جاسکتا ہے ۔ ( المسایرہ فی العقائد المنجیة فی الأخرة، ص:47,44)

تاویل کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
چوں کہ متاخرین کے زمانے میں کئی فرقہائے باطلہ رواج پذیر ہو کر امت مسلمہ کی وحدت فکر کو پارہ پارہ کرنے میں مصروف کار تھے ، جن میں سر فہرست مجسمہ او رمشبہہ ایسے فرقے تھے جو صفات متشابہات کے ظاہری الفاظ کا سہارا لے کر الله تعالیٰ کے لیے مخلوق کی طرح ہاتھ ، پاؤں، چہرہ، پنڈلی وغیرہ ثابت کرتے تھے۔

متاخرین سلف صالحین نے جب دیکھا کہ یہ فرقہائے باطلہ عوام کی ذہنی سطح سے غلط فائدہ اٹھا کر انہیں گم راہی کی طرف دھکیل رہے ہیں تو انہوں نے تاویل کا مسلک اختیارکرکے تمام متشابہات کے مناسب ، سادہ عام فہم معانی بیان کیے، مثلاً کہا ید سے ہاتھ نہیں قدرت مراد ہے، وجہ سے چہرہ نہیں بلکہ ذات مراد ہے، استوی سے استقرار وجلوس نہیں بلکہ استیلا اور غلبہ مراد ہے، تاکہ سادہ لوح مسلمانوں کومجسمہ اور مشبہہ کے گم راہ کن خیالات سے بچایا جاسکے۔

مسلکِ تاویل کی بنیاد کی وہ آیت کریمہ ہے جو متشابہات کے متعلق وارد ہے ﴿وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیْلَہُ إِلاَّ اللّہُ وَالرَّاسِخُونَ فِیْ الْعِلْمِ یَقُولُونَ آمَنَّا﴾․ (آل عمران:7)

اس آیت کریمہ کی ایک قرأت میںإ لا الله پر وقف نہیں ہے، اس صورت میں ﴿الراسخون فی العلم﴾ کا لفظ الله پر عطف ہو گا اور آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ متشابہات کی تاویل کا علم الله کو او رعلمائے راسخین کو ہے ۔ متاخرین نے اسی قرأت پر اپنے مسلک کی بنیاد رکھی ہے۔ ( المسامرہ مع شرحہ المسایرہ ص:45، بیروت)

متاخرین کے مسلک پر کچھ شبہات او ران کا ازالہ
پہلاشبہ: امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ الله نے فقہ اکبر میں تصریح فرمائی ہے کہ ”ید“ سے قدرت یا نعمت مراد لینا جائز نہیں، کیوں کہ اس طرح تاویل کرنے سے صفت باری تعالیٰ کاابطال لازم آتا ہے۔ (فماذکرہ الله تعالیٰ فی القرآن من ذکر الوجہ، والید، والنفس فہو لہ صفات بلاکیف ولایقال: إن یدہ قدرتہ أو نعمتہ، لأن فیہ ابطال الصفة وھو قول اھل القدر والا عتزال․“ (الفقہ الأکبر مع شرحہ للملا علی القاری، ص:67)

دیکھیے امام صاحب تو تاویل کے مسلک کو ناجائز قرار دے رہے ہیں ، لیکن ان کے مقلدین اسی مسلک کو حرزِ جان بنائے ہوئے ہیں، یہ امام صاحب کے مسلک سے انحراف نہیں ہے؟

جواب: اگر فقہ اکبر کی مکمل عبارت پڑھ لی جاتی تو اشکال پیدا نہ ہوتا، کیوں کہ امام صاحب نے صفات متشابہات میں اس تاویل کو ناجائز فرمایا ہے جسے قطعیت کے درجے پر فائز کر دیا گیا ہو ، جس کے نتیجے میں صفات کے اصل کلمات بے معنی ہو کر رہ جائیں ، چوں کہ ایسی تاویل معتزلہ وغیرہ کرتے ہیں ، اس لیے امام صاحب نے ان کی تردید فرمائی ہے ، اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ اس عبارت کے متصل بعد ہی امام صاحب نے فرمایا ”وھو قول اھل القدر والاعتزال“ یعنی صفات میں تاویل کرکے اسے قطعی سمجھنا معتزلہ اور قدریہ کا مسلک ہے ۔

جہاں تک اہل سنت والجماعت کی بات ہے وہ جب کسی لفظ کی تاویل کرتے ہیں تو اس سے ایسے معنی مراد لیتے ہیں۔
جس کا وہ لفظ احتمال بھی رکھتا ہو ۔
لفظ کے اصل معنی کی نفی بھی نہ ہوتی ہو ۔
اور وہ تفسیر ظن اور احتمال کے درجے میں ہو۔
مثلاً آیت کریمہ﴿وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُون﴾ کا معنی یہ ہے کہ جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ لیکن صوفیا اس کی تفسیر عمومی معنی میں کرتے ہیں ”جو ہم نے ان کومال وعلم دیا ہے “ یہاں علم مراد لینے سے مال کی نفی نہیں ہوتی، اسی طرح ید سے قدرت ونعمت اور وجہ سے ذات مراد لینے سے بھی لفظ کے اصل معنی ہاتھ اور چہرے کی نفی نہیں ہوتی۔ اہل سنت والجماعت اور فرقہائے باطلہ میں یہی بنیادی فرق ہے، چناں چہ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ الله تعالی فرماتے ہیں:

” اعتراض ہوتا ہے کہ جس طرح گروہ اشاعرہ، ماترید یہ تاویلات کرتے ہیں ، معتزلہ او رجہمیہ بھی تاویلات کرتے ہیں ان میں او ران میں کیا فرق ہے ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں کی تلاویلات میں فرق یہ ہے کہ اشاعرہ ماتریدیہ تاویلات پر جزم نہیں کرتے، برخلاف معتزلہ وغیرہ کے کہ وہ تلاویلات کرتے ہیں او رکہتے ہیں بس یہاں یہی معنی مراد ہیں ۔(معارف مدنیہ ، ص:47)

دوسرا شبہ: علامہ تفتازانی رحمہ الله تعالی، شرح عقائد نسفیہ میں لکھتے ہیں کہ صفات باری تعالی کے متعلق اشاعرہ اور ماتریدیہ کا موقف یہ ہے کہ ہر ہر صفت اپنے معنی ومراد کے اعتبار سے دوسری صفت کے مقابلے میں ایک جداگانہ حیثیت رکھتی ہے، کسی بھی صورت میں دو صفات کوہم معنی اور مترادف نہیں قرار دیا جاسکتا۔ (ولہ صفات لما ثبت من أنہ تعالیٰ عالم، قادر، حي إلی غیر ذلک، ومعلوم أن کلا من ذلک یدل علی معنی زائد علی مفہوم الواجب، ولیس الکل الفاظ مترادفة“․ (شرح العقائد النسفیة للتفتازنی، ص:48)

لہٰذا مذکورہ موقف کی روشنی میں ید اور استویٰ کو ایک معنی زائدہ پر دلالت کناں ہونا چاہیے، انہیں نعمت وقدرت یا استیلاء وغلبہ کے ہم معنی قرار دینا خود تمہارے اپنے موقف کی رو سے بھی درست نہیں ہے۔

جواب : پہلی بات تو یہ ہے کہ تمیزِ صفات کا مذکورہ موقف محکم صفات ( علم قدرت ، سمع، بصر) کے متعلق ہے نہ کہ صفات متشابہات کے متعلق ، علامہ تفتازانی رحمہ الله تعالیٰ نے بھی محکم صفات کے ضمن میں اس موقف پر روشنی ڈالی ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ اشاعرہ اور ماتریدیہ جب صفات متشابہات ، ید اور استویٰ سے نعمت اور استیلا وغلبہ مراد لیتے ہیں تو اسے معنی مجاز قرار دیتے ہیں، نہ کہ مترادفات اور مجازی معنی کا استعمال تو عرف اور لغت سے ثابت ہے ۔

چناں چہ ایک شاعر ”استویٰ“ کو بطور مجاز غلبے سے تعبیر کرتے ہوئے کہتا ہے #
        قد استوی بشر علی العراق
                                            (المسامرة، ص:46)

تحقیق بشر عراق پر غالب آگیا ہے ( بشر ایک شخص کا نام ہے) ۔

اسی طرح ید سے بطور مجاز نعمت مراد لیتے ہوئے ایک شاعر نے کہا ہے #
        إلیک یديَّ منک الأیادی تمدّھا
( ”إلیک یدی منک الأیادی تمدھا، قال شارحہ: المراد بالید ھنا الجارحة، والأیادی جمع ید بمعنی النعمة فالمعنی الأیادي الفائضة من حضرتک حملتنی علی مد یدی الیک فی طلب المسئول وبغیة المأمول․“(شرح کتاب الفقہ الأکبر، ص:67)

”تیری نعمتوں کا فیض ہی مجھے تمہاری طرف ہاتھ پھیلانے پر مجبورکرتا ہے ، مذکورہ شعر میں ”الأیادی“ سے نعمتیں مراد ہیں اگر ان صفاتِ متشابہات کو مجازی معنوں پر محمول نہ کیا جائے، بلکہ وہ ظاہری معنی مراد لیے جائیں جسے آپ زائد معنی سے تعبیر کر رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ کھلی ہوئی تجسیم پر دلالت کناں ہیں، اس لیے اہل سنت والجماعة نے اس تعبیر سے گریز فرمایا ہے۔

تیسرا شبہ: کیا تاویل کرنا بدعت ہے؟
غیر مقلدین اور نام نہاد سلفیوں کا صفات باری تعالیٰ کے متعلق کیا عقیدہ ہے ؟ اس پر تفصیلی گفت گو تو چند صفحات آگے آرہی ہے ۔ لیکن یہاں سردست ان کے اس اعتراض کا جواب دینا مقصود ہے جس کی آڑ میں یہ اہل سنت والجماعت کو اپنی تحریر وتقریر پر جا بجا مطعون کرتے ہیں ، ان کا دعوی یہ ہے کہ صفات متشابہات کی تاویل کرنا بدعت اور ناجائز ہے، چوں کہ اشاعرہ․ (واضح رہے کہ اشاعرہ کا اطلاق بطور اصطلاح اہل سنت والجماعت کے دونوں گروہ اشاعرہ اور ماتریدیہ پر ہوتا ہے ، واصطلح المتأخرون علی تسمیة الفریقین بالأشاعرة تغلیبا․ ( النبراس، ص:22، امدادیہ ملتان) نے اپنے مسلک کی بنیاد تاویل پر رکھی ہے، لہٰذا ان کے بدعتی اور گم راہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ (”القول بالمجاز قول مبتدع․“ (الصواعق المرسلة ص:233، بیروت) ”وطریقی التفویض والتاویل فی باب الصفات مسلکان باطلان․“ (حاشیة علی فتح الباری زھیر شاویش، کتاب التوحید، باب قول النبی صلی الله علیہ وسلم: لاشخص اغیر من الله: 493/13)

جواب: غیر مقلدین کا مذکورہ اشکال چند وجوہ سے درست نہیں ہے ۔

متاخرین سلف صالحین کے مسلک تاویل کی بنیاد وہ آیت کریمہ ہے جو متشابہات کے متعلق وارد ہے ﴿وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیْلَہُ إِلاَّ اللّہُ وَالرَّاسِخُونَ فِیْ الْعِلْمِ﴾․ (آل عمران:7)

اس آیت کریمہ کی ایک قرأت میں ﴿إلا الله﴾ پر وقف نہیں ہے ۔ اس صورت میں ﴿الراسخون فی العلم﴾ کا لفظ الله پر عطف ہوگا اور آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ متشابہات کی تاویل کا علم الله کو او رعلمائے راسخین کو ہے۔ (المسامرہ مع شرحہ المسایرہ، ص:45، بیروت) متاخرین نے اسی قرأت پر اپنے مسلک کی بنیاد رکھی ہے جب ایک چیز کا شرعی جواز موجود ہو تو اسے بدعت کیسے کہا جاسکتا ہے؟

نیز متشابہات کی تاویل صحابہ کرام، تابعین، سلف صالحین سے بھیمنقول ہے ، کیا ان مبارک ہستیوں سے بدعت کی توقع کی جاسکتی ہے ؟ ذیل میں ان کی تلاویلات کی ایک جھلک آپ بھی دیکھ لیجیے ۔

رئیس المفسرین حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما سے سند صحیح کے ساتھ منقول ہے کہ انہوں نے ﴿یوم یکشف عن ساق﴾ میں ”ساق“ کی تاویل ”شدت“ سے فرمائی ۔ (” وأما الساق فجاء عن ابن عباس فی قولہ تعالیٰ: ﴿یوم یکشف عن ساق﴾ : قال عن شدة الأمر․ (فتح الباری، باب: قول الله تعالیٰ: وجوہ یومئذٍ ناضرة إلی ربھا ناظرة․ الحدیث الثالث رقم:7436) تفسیر ابن جریر الطبری، القلم، تحت آیة رقم:42)

بلکہ آپ تو مقطعات کی بھی تاویل فرمایا کرتے تھے۔ ( العرف الشذي، 496/1، بیروت)

علامہ ابن جریری طبری رحمہ الله ﴿یوم یکشف عن ساق﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم اور تابعین رحمہم الله کی ایک جماعت نے ساق کی تاویل ”شدت امر“ سے کی ہے۔(تفسیر ابن جریر الطبری، القلم، تحت آیة رقم:42)

حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما حضرت قتادہ ، حضرت مجاہد حضرت سفیان ثوری رحمہم ا الله نے آیت کریمہ: ﴿والسماء بنینا ھا بأید وإنا لموسعون﴾ میں ”بأید“ کی تاویل قوت سے فرمائی ہے ۔ (تفسیر ابن حبریر الطبری، القلم، تحت آیة رقم:47)

حضرت امام مالک رحمہ الله تعالیٰ سے اس حدیث کے متعلق دریافت کیاگیا جس میں نزول الہی کا ذکر ان الفاظ میں ہے کہ الله تعالیٰ رات کو دنیا کے قریبی آسماں پر نزول فرماتے ہیں ، آپ نے فرمایا اس سے امر اور حکم مراد ہے کہ حکم الہی نازل ہوتا ہے۔ دیکھیے! امام مالک رحمہ الله تعالیٰ نے نزول الہی کی تاویل نزول حکم الہی سے فرمائی۔ ”قال حدثنا مطرف عن مالک بن انس أنہ سئل عن الحدیث ”إن الله ینزل فی اللیل إلی سماء الدنیا“ فقال مالک: یتنزل أمرہ․“ (التمہید لابن عبدالبر، 143/7)

امام احمد بن حنبل رحمہ الله تعالیٰ کے بھتیجے سے مروی ہے کہ امام صاحب نے ﴿وجاء ربک﴾ (اور آیا آپ کا رب) کی تاویل وجاء ثوابہ ( اور آیا رب کا ثواب ) سے فرمایا ۔

امام بیہقی رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس سند پر کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔ (”رواہ البیہقی عن الحاکم عن ابی عمر بن السماک عن احمد بن حنبل ان احمد بن حنبل تأول قول الله تعالیٰ:﴿ وجاء ربک﴾: أنہ وجاء ثوابہ․ “ … ھذا سند لاغبار علیہ․“ (البدایة والنہایة،327/10)

حقیقت یہ ہے کہ قرآن وحدیث میں متعدد ایسے مقامات ہیں جہاں الفاظ کی ظاہری دلالت سے قطع نظر کرکے مجاز واستعارے کی آڑ لی جاتی ہے اور چاروناچار تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جب تک اس اندازِ بیان کی توجیہ مجاز کی روشنی میں نہ کی جائے تو افہام وتفہیم کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے۔ مثلاً قرآنِ کریم میں ہے ﴿کُلُّ شَیْْء ٍ ہَالِکٌ إِلَّا وَجْہَہُ﴾․ (القصص، آیت:88)

ترجمہ: ہر چیز کو فنا ہے مگر اس کا منھ ( ذات) ۔اگر یہاں وجہ منھ کی تاویل ذات سے نہ کی جائے تو پھر آیت کریمہ کا صاف صاف مطلب یہ ہو گا الله تعالیٰ کے ید ، قدم، ساق ( جنہیں غیر مقلدین الله کے عضو تسلیم کرتے ہیں) فنا اور زوال پذیر ہو جائیں گے ، صرف باری تعالیٰ کا چہرہ ہی قائم ودائم رہے گا۔ چناں چہ اس مقام پر خود غیر مقلدین تاویل وتعبیر کی ضرورت سے بے نیاز نہ رہ سکے او ران کے لیے وجہ کی تاویل ذات سے کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ رہا ۔ ( تفسیر جونا گڑھی ، القصص، تحت آیہ رقم:88)

اسی طرح قرآن کریم میں آیت کریمہ ہے ﴿قَدْ مَکَرَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ فَأَتَی اللّہُ﴾․ (النحل:26)

البتہ دغا بازی کرچکے ہیں جو تھے ان سے پہلے، پھر پہنچا حکم الله کا میں فأتی الله کی تاویل فأتی عذاب الله (الله کا عذاب آیا) سے کرتے ہیں ۔ (تفسیر جونا گڑھی ، النحل ،تحت آیہ رقم:26)

قرآن وحدیث میں کتنے ہی ایسے مقامات ہیں جہاں غیر مقلدین نے تاویل واستعارے سے بلاجھجک کام لیا ہے۔ اگر تاویل بدعت ہے تو اس جرم میں آپ بھی برابر کے شریک ہیں، پھر اشاعرہ پر ہی الزام تراشی کیوں؟

خلاصہ یہ ہے کہ : متقدمین کے نزدیک یہ صفات ، ید، وجہ ، استوی متشابہہ المعنی ہیں۔صفات متشابہات کے لغوی معنی تحت اللفظ کیے جاسکتے ہیں، لیکن ان کی تشریح اور وضاحت معروف فی الخلق سے نہیں کرسکتے، اگر ان صفات کو معروف معانی کے ساتھ الله تعالیٰ کے لیے ثابت کریں تو اس سے تجسیم لازم آتی ہے اور کیفیت کی جہالت سے ہم تجسیم سے نہیں نکل سکتے۔ متاخرین نے اہل بدعت کے بڑھتے ہوئے فروغ کی روک تھام کے لیے مسلک تایل اختیار کیا او رتمام متشابہات کی مناسب تاویلات کیں او ران تلاویلات کا شرعی جواز موجود ہے۔ متاخرین سلف صالحین سے ﴿اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾ کی کئی تاویلیں منقول ہیں، تاہم مشہور تاویل یہ ہے۔

اسْتَوَی سے غلبہ وقبضہ مراد ہے اورالعرش تخت کو کہتے ہیں۔ اور﴿اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾الله تبارک وتعالیٰ کے کائنات پرمکمل قبضہ وقدرت اور اس کے حاکمانہ تصرف سے تعبیر ہے کہ کائنات کی کوئی چیز او رکوئی گوشہ اس کے قبضہ قدرت اور تصرفات سے باہر نہیں۔(تفسیر رازی، الاعراف، تحت آیہ رقم:54۔مزید تاویلات کے لیے دیکھیے: تفسیر فخر الدین رازی، تفسیر روح المعانی، اللباب فی علوم الکتاب، الاعراف تحت آیہ رقم:54)

اہل سنت والجماعت اشاعرہ اور ماترید یہ کے مجموعے کا نام ہے۔ ( ”وھؤلاء الحنفیة والشافعیة والمالکیة وفضلاء الحنابلة ولله الحمد فی العقائد ید واحدة کلھم علی رأي أھل السنة والجماعة، یدینون الله تعالیٰ بطریق شیخ السنة أبی الحسن الأشعریی رحمہ الله تعالی․“ ( معید النعم ومبید النِقم للسبکی، ص:62) ””اذا أطلق أھل السنة والجماعة فالمراد بھم الأشاعرة والماتریدیة․“ (اتحاف السادة المتقین شرح احیاء علوم الدین للغزالی:8/2، بیروت)

امت کے اس عظیم حصے کو او ران سے وابستہ محدثین کرام، فقہائے عظام کو بدعتی اور گم راہ کہنے والا شخص خود گم راہ اور بدعتی ہے۔
 (جاری)
استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
مزید پڑھیں:

Also Related:

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~

Humanity, Religion, Culture, Science, Peace

A Project of Peace Forum Network: Overall 3 Million visits/hits