قرآن کی معتد د آیات میں واضح ہے کہ نجات، بخشش صرف ایمان اور اچھے اعما ل کی بنیاد پر ہو گی:
(قرآن ; 103:2-3, 32:19, 42:22, 30:45, 31:8-9, 47:12, 18:107, 5:11, 22:23, 56,40)
اس کے ساتھ اللہ کا انصاف ، رحم ، فضل اور شفاعت (صرف اللہ کی اجازت سے).
امام شا فعئی سوره العصرکو قرآن کا خلاصہ قرار دیتے ہیں. آپ نے فرم یا کہ اگر صرف سوره العصر (١٠٣) نازل ہوتی تو بھی کافی تھی:
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
وَالْعَصْرِ ﴿١﴾ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ ﴿٢﴾ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴿٣﴾
زمانے کی قسم (1) انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے (2) سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے (103:3)
بہت سے احادیث سے یہ تاثرملتا ہے کہ نجات، بخشش کے لیےصرف ایمان ہی کافی ہے. تمام کلمہ گو (مسلمان)، حضرت محمدﷺ کی امت کے لوگ جنت میں جاییں گنے چاہے وہ کتنے ہی گناہ گار ہوں.
<<کتابت حدیث>>
کلمہ طیبہ پڑھنے سے انسان دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے اور اسے ایمان کی دولت میسر آ جاتی ہے۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ مبارکہ میں ہے : آپ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفید کپڑا اوڑھے سو رہے تھے۔ میں دوبارہ حاضر ہوا اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سو رہے تھے۔ پس میں تیسری بار حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہو چکے تھے، میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص لا الٰہ الا اﷲ کہے، اسی اعتقاد پر اس کا خاتمہ ہو جائے تو وہ جنت میں جائے گا۔ مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب من مات لا يشرک باﷲ شيئًا دخل الجنة و من مات مشرکا دخل النار، 1 : 95، رقم : 94 لیکن اس حدیث میں کلمہ طیبہ پڑھنے سے مراد احوال و اعمال کی اصلاح کے ساتھ کلمہ طیبہ پڑھنا ہے۔ کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد احوال و اعمال کی اصلاح کو نظرانداز کرنا اﷲ کی گرفت کا باعث بنتا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلاَ يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللّهِ وَلِيًّا وَلاَ نَصِيرًاo
’’جو کوئی برا عمل کرے گا اسے اس کی سزا دی جائے گی اور نہ وہ اللہ کے سوا اپنا کوئی حمایتی پائے گا اور نہ مددگارo‘‘( النساء، 4 : 123)
اگر کسی کلمہ گو شخص نے اپنے گناہوں پر توبہ کی اور اس کی توبہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوگئی تو وہ کلمہ گو شخص جنت میں جائے گا۔ یا اﷲ تعالیٰ محض اپنے فضل سے اسے جنت میں داخل کر دے گا۔ اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہوں تو پھر وہ کلمہ گو اپنے گناہوں کی سزا پانے کے بعد جنت میں جائے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔ http://www.thefatwa.com/urdu/questionID/221/
ایک مشہور حدیث کے مطابق اگرچہ مسلمان زانی یا چورہو! (زنا اور چوری گناہ کبیرہ ہیں) پھر بھی وہ جنت میں جائے گا.
اب ایک طرف قرآن کی واضح آیات بہت بڑی تعداد میں ہیں اور دوسری طرف احادیث جو بظاھر قرآن کی واضح آیات کو منسوخ کرتی نظر آتی ہیں. یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ مذھب اسلام کی بنیاد کا معاملہ ہے.
علماء کے مطابق احادیث کو قران کی روشنی میں سمجھنا چاہیے. دل سے کلمہ پڑھنے کا مطلب ہے کہ اسلام کے احکام پر دل و جان سے عمل کرے صرف زبانی اقرار کافی نہیں.
اگر صرف کلمہ زبان سے ادا کیا جائے تو یہ کافی نہیں.دنیاوی، قانونی طور پر وہ مسلمان سمجھا جایے گا مگر اس کو اپنے عمل سے بھی مسلمان ثابت کرنا ہو گا.
گناہ، ثواب ، حلال ، حرام ،آخرت ، حساب کتاب ، جزا ، سزا . انصاف ، حقوق اللہ ، حقوق العباد وغیرہ ایک طرف اور ایمان (زبانی اقرار، کلمہ شہادہ) دوسری طرف اسلام کے چھ بنیادی عقاید، اورپانچ ستون پر عمل کرنا ہو گا.
تحقیق سے معلوم ہوا کہ علماء مختلف تاویلیں پیش کرتے ہیں – کچھ تاویلیں عقل ودانش کے سادہ معیار سے بھی بعید معلوم ہوتی ہیں.
حدیث مسلم بمطابق حضرت ابوحریرہ ، جس میں رسول اللہﷺ دل سے کلمہ گو (مسلمانوں) کو جنت کی خوشخبری دیتے ہیں، حضرت عمر(رضی اللہ) کی درخواست پر کہ مسلمان ظاہری الفاظ سے غلط مطلب سمجھ لیں گنے، ان کو اچھے اعمال کرنے دیں، آپ نے فرمایا کرنے دیں (اچھے عمل کرنے دیں) (مسلم حدیث 50 ، کتاب الایمان). حضرت عمر(رضی اللہ) کی اس پیغام کو عام کرنے سے منع کرنے کی درخواست رسول اللہﷺ نے قبول کر لی.
رسول اللہﷺ نے جس بات کو عام کرنے سے منع فرما دیا پھر رسول اللہﷺ کے ارشاد کے خلاف آج تک اس کی تشسہیرکرکہ کنفیوژن پھیلایا جاتا ہے؟
وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلَاتُ ۗ وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِلنَّاسِ عَلَى ظُلْمِهِمْ ۖ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ (13:6 الراعد)
” اور یہ لوگ بھلائی سے پہلے تم سے برائی کے جلد خواستگار (یعنی طالب عذاب ہیں) حالانکہ ان سے پہلے عذاب (واقع) ہو چکے ہیں۔ اور تمہارا پروردگار لوگوں کو باوجود انکی بے انصافیوں کے معاف کرنے والا ہے اور بیشک تمہارا پروردگار سخت عذاب دینے والا ہے۔ ” (13:6 الراعد)
ابن ابی حاتم میں ہے اس میں ہے اس آیت کے اترنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اللہ تعالٰی کا معاف فرمانا اور درگزر فرمانا نہ ہوتا تو کسی کی زندگی کا لطف باقی نہ رہتا اور اگر اس کا دھمکانا ڈرانا اور سما کرنا نہ ہوتا تو ہر شخص بےپرواہی سے ظلم وزیادتی میں مشغول ہو جاتا. (تفسیر ابن كثیر)
<<ملاحظہ … کتابت حدیث>>
حضرت عمر (رضی اللہ) نے جس خدشہ کا اظھار کیا تھا وھی کھلم کھلا ہو رہا ہے.لوگ ظاہری طور پر اپنی مرضی کا مطلب نکال کر اچھےاعمال کرنا ضروری نہیں سمجھتے بس کلمہ ادا کرنا نجات کے لیے کافی سمجھتے ہیں جو درست نہیں.
کیا یہ اللہ کے فرمان (سورة الحشر 59:7) کی کھلی خلاف درزی نہیں؟
أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ(29:2 سورة العنكبوت)
کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ “ہم ایمان لائے ” اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟(29:2 سورة العنكبوت)
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٧﴾
جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے (سورة الحشر 59:7)
إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿٢٢﴾
یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (8:22)
مسیحیت میں نجات کے کیے “ایمان” کو کافی سمجھا جاتا ہے. (ان کے ایمان کی تفصیل معلوم ہے).یہودی اپنے آپ کو اللہ کی خاص قوم اور جنت کا حقدار سمجھتے ہیں. اگر عذاب آیا بھی تو صرف تھوڑا.
اسلام “ایمان اور اعما ل” نجات کی بنیاد کی وجہ سے مسیحیت سے مختلف ہے.
جب قران کی واضح تعلیمات اور احکام کے خلاف صرف ایمان کی بنیاد پر نجات کا نظریہ پیش کیا جاتا ہے تو عام مسلمان اس کو کامیابی اور جنت کی کنجی سمجھ کر گناہ کرنے کو معیوب نہیں سمجھتا. دانشور اور علماء عوام کو نادانستہ طور پر گناہ اور تباہی کی دنیا میں دھکیل رہے ہیں.
قرآن واضح کرتا ہے کہ جو شخص اللہ کی خوشنودی اور دنیا و آخرت میں کامیابی چاہتا ہے اس کو چاہیے کہ وہ اسلام کی تمام بنیادی نظریات کو دل سے قبول کرے اور پوری دیانت داری سے ان پر عمل کرنے کی کوشش کرے. اللہ اور رسولﷺ کی کی نافرمانی سے بچے. اس کو چاہے کہ اس دنیا کی بجایے آخرت کی فکر کرے. اللہ کی کتاب ایسے لوگوں کو آخرت میں کامیابی کی ضمانت نہیں دیتی جو ان شرایط پر پورا نہیں اترتے، اللہ کا ارشاد ہے:
“پھر جب وہ ہنگامہ عظیم برپا ہوگا جس روز انسان اپنا سب کیا دھرا یاد کرے گا اور ہر دیکھنے والے کے سامنے دوزخ کھول کر رکھ دی جائے گی تو جس نے سرکشی کی تھی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی دوزخ ہی اس کا ٹھکانا ہوگی اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تھا جنت اس کا ٹھکانا ہوگی ” ( سورة النازعات 79:35-41)
مسلمانوں کو چاہے کہ گمراہ کن نظریات سے با ھر نکلیں اور اپنی طرف سے پوری کوشش کریں کہ آخرت میں کامیاب ٹھریں اور اس کے لیے ایمان کے ساتھ نیک اعمال کریں، پھر بھی اگر کچھ کمی کوتاہی کی وجہ سے رہ جائے تو اللہ کی رحمت اور بخشش کا طلبگار ہو، یقینا اللہ ایسے ایمان والوں کو مایوس نہیں کرے گا-
—————–
حق گوئی۔ ان الدین یکتمون ما انزلنا ۔۔۔۔۔۔۔ ترجمہ حق تعالی فرماتے ہیں کہ جو لوگ شرعی مسائل اور حق کی باتوں کو جان بوجھکر چھتاتے ہیں اس پر لعنت ہے ۔
حدیث شریف میں ہے کہ فرمایا رسول مقبول ﷺ نے کہ اگر کوئی شرعی مسئلہ کو جانتے ہوئے بھی نہ بتلائے ، قیامت کے دن اس کو آگ کی لگام پہنائی جائیگی۔ حضرت ابو حریرہ فرماتے ہیں کہ اگریہ آیت کریمھ نہ ہوتی تو تو میں ایک حدیث بھی بیان نہ کرتا۔ حق بات اور شرعی مسئلہ بیان کرنے والے پر جن و انس ، چرند و پرند غرضیکہ سب مخلوق مغفرت کی دعائیں مانگتی ہیں۔ حضور ﷺ نے اپنے ایک خطبے میں فرمایا کسی شخص کو لوگونکی ہیبت حق بات کہنے سے نہ روکے ۔
مزید تفصیلات کے لیے اس لنک پر ملاحضہ کریں:
Reference: