امام ابوحنیفہ Imam Abu Hanifah

Image result for ‫امام ابوحنیفه‬‎
اسلامی دنیا کے چار سنی مکاتب فکر میں فقہ حنفیہ اکثریت میں ہیں- پچھلے ١٢٠٠ سال سے زیادہ عرصہ میں دنیا کے اکثر علاقوں میں مقبول ہے – امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں نے اس کی تدوین پر کام کیا-

آپ کا نام نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان، عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے (عربی: أبو حنيفة مورخہ 699 – 767 ء / 80 – 150 ھ)، آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے جو مسلمانوں کی اکثریت ہنے – زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آ پ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جا تا ہے۔ انہیں عام طور پر “امام اعظم” کہا جاتا ہے۔
امام اعظم اپنا طریق اجتہاد و استنباط یوں بیان کرتے ہیں:
’’میں سب سے پہلے کسی مسئلے کا حکم کتاب اللہ سے اخذ کرتا ہوں، پھر اگر وہاں وہ مسئلہ نہ پاؤں تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے لیتا ہوں، جب وہاں بھی نہ پاؤں تو صحابہ کرام کے اقوال میں سے کسی کا قول مان لیتا ہوں اور ان کا قول چھوڑ کر دوسروں کا قول نہیں لیتا اور جب معاملہ ابراہیم شعبی، ابن سیرین اور عطاء پر آجائے تو یہ لوگ بھی مجتہد تھے اور اس وقت میں بھی ان لوگوں کی طرح اجتہاد کرتا ہوں۔‘‘
آپ کے اجتہادی مسائل تقریبًا بارہ سو سال سے تمام اسلامی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لیے بڑی بڑی عظیم اسلامی سلطنتوں میں آپ ہی کے مسائل، قانون سلطنت تھے اور آج بھی اسلامی دنیا کا بیشتر حصہ آپ ہی کے فقہی مذہب کا پیرو کار ہے۔ فقہ حنفی کی اشاعت و خدمت سب سے زیادہ ان کے شاگردوں قاضی ابویوسف اور امام محمد بن حسن شیبانی نے کی۔ قاضی ابو یوسف کو ہارون نے مملکت کا قاضی القضاۃ بنا دیا تھا۔ اس لیے ان کی وجہ سے فقہ حنفی کے پیروکاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
 
 

Read in English- Imam Abu Hanifah >>>>

 
فقہ کیا ہے؟
جب کوئی معاشرہ مذہب کو اپنے قانون کا ماخذ بنا لیتا ہے تو اس کے نتیجے میں علم فقہ وجود پزیر ہوتا ہے۔ علم فقہ، دین کے بنیادی ماخذوں سے حاصل شدہ قوانین کے ذخیرے کا نام ہے۔ چونکہ دین اسلام میں قانون کا ماخذ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت ہے اس وجہ سے تمام قوانین انہی سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ جب قرآن و سنت کی بنیاد پر قانون سازی کا عمل شروع کیا جائے تو اس کے نتیجے میں متعدد سوالات پیدا ہو جاتے ہیں:
· قرآن مجید کو کیسے سمجھا جائے؟ · قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے کس کس چیز کی ضرورت ہے؟ · سنت کو سمجھنے کے لئے کس کس چیز کی ضرورت ہے؟ · سنت کہاں سے اخذ کی جائے گی؟ · قرآن اور سنت کا باہمی تعلق کیا ہے؟ · قرآن مجید، سنت اور حدیث میں سے کس ماخذ کو دین کا بنیادی اور کس ماخذ کو ثانوی ماخذ قرار دیا جائے؟ · رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے مروی احادیث کو کیسے سمجھا جائے گا اور ان سے سنت کو کیسے اخذ کیا جائے گا؟ · اگر قرآن مجید کی کسی آیت اور کسی حدیث میں بظاہر کوئی اختلاف نظر آئے یا دو احادیث میں ایک دوسرے سے بظاہر اختلاف نظر آئے تو اس اختلاف کو دور کرنے کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا؟ ان سوالوں کا جواب دینے کے لئے جو فن وجود پزیر ہوتا ہے، اسے اصول فقہ کہا جاتا ہے۔
اصول فقہ کا موضوع
قرآن مجید کو سمجھنے کے اصول · زبان و بیان کے اصول · حلال و حرام سے متعلق احکام معلوم کرنے کا طریق کار · دین کے عمومی اور خصوصی نوعیت کے احکامات کے تعین کا طریق کار · دین کے ناسخ و منسوخ احکامات کے تعین کا طریق کار (یہ تمام مباحث بنیادی طور پر اصول تفسیر کے فن کا حصہ ہیں لیکن ان کے بنیادی مباحث اصول فقہ میں بھی بیان کیے جاتے ہیں۔ · رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت اور حدیث کو سمجھنے کا طریق کار · رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے روایت کردہ احادیث کو پرکھنے اور ان کی چھان بین کرنے کا طریق کار (یہ بالعموم علم اصول حدیث کا موضوع ہے لیکن اس کے بنیادی مباحث اصول فقہ میں بھی بیان کیے جاتے ہیں۔) · اجماع (امت کے اتفاق رائے) کے ذریعے بنائے گئے قوانین کی حیثیت · قیاس و اجتہاد کا طریق کار · اختلاف رائے سے متعلق اصول-

اہل سنت کے چاروں ائمہ حضرت امام ابو حنیفہ، حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل ؛بلکہ حضرت امام داؤد ظاہری کی فقہ ودرایت سے بھی امت مسلمہ نے ہر دور میں استفادہ کیا ہے، (ملاحظہ تقلید کی شرعی حیثیت) ان کے مقلدین ومتبعین لاکھوں کی تعداد میں ہمیشہ موجود رہے ہیں اور آج بھی کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں؛ مگر ان میں سب سے زیادہ امتیاز فقہ حنفی کو حاصل ہوا جس کا اعتراف واحترام اہل علم وفضل نے ہمیشہ کیا ہے۔ ہمارے خیال میں اس امتیاز وتفوق کے اسباب یہ ہیں:

حنفی فقہ شخصی نہیں، شورائی ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ اور ان کے تلامذہ اپنی اپنی آرا علمی مجلس میں پیش کرتے تھے۔ ان پر بحث ومباحثہ ہوتا تھا۔ جس بات پر اتفاق ہوتا تھا، وہ متفقہ موقف کی صورت میں درج ہوتی تھی۔ مختلف فیہ بات کو اختلاف کے درجہ میں رکھا جاتا تھا۔ کسی پر جبر نہیں ہوتا تھا۔ اگر مجلس کے کسی شریک کو اجتماعی رائے سے اتفاق نہیں ہوتا تھا تو اس کی رائے الگ درج کی جاتی تھی۔شورائیت اور اجتماعیت کی یہ روایت فقہ حنفی کی تشکیل وتدوین کے بعد اس پر بہ وقت ضرورت نظر ثانی کے موقع پر بھی قائم رہی؛ چنانچہ مغل دور میں فقہ حنفی کی از سرنو ترتیب وتشریح کی ضرورت پیش آئی تو سلطان اورنگ زیب عالمگیر کی سربراہی میں یہ فریضہ سیکڑوں علماء کرام پر مشتمل کونسل نے تفصیلی بحث ومباحثہ کے ذریعے سرانجام دیا؛ جب کہ خلافتِ عثمانیہ کے دور میں فقہ حنفی کی بنیاد پر حالاتِ زمانہ کے مطابق نئی قانون سازی کا مرحلہ پیش آیا تو ”مجلة الاحکام العدلیة“ کی ترتیب وتدوین فقہاء وعلماء کی ایک مجلس نے مشاورت ومباحثہ کی صورت میں انجام دی۔ فقہ حنفی میں روایت ودرایت کے درمیان فطری توازن کا پوری طرح لحاظ رکھا گیا ہے اور عقل ودرایت کو نص وروایت پر فوقیت دینے کے بجائے اس کے تابع کیا گیا ہے۔

فقہ حنفی میں نہ تو عقل ودرایت کی ضرورت وافادیت سے انکار کیا گیا ہے، نہ اسے نص وروایت پر ترجیح دی گئی ہے اور نہ ہی نص وروایت کے فہم واستنباط کو عقل ودرایت کی خدمت ومعاونت سے محروم کیا گیا ہے۔ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ وہ پہلے قرآن کریم سے استنباط کرتے ہیں، پھر حدیث وسنت سے استفادہ کرتے ہیں، اس کے بعد صحابہٴ کرام  سے رجوع کرتے ہیں اور کسی ایک صحابی کا قول بھی مل جائے تو اسے ترجیح دیتے ہیں، حتیٰ کہ احناف کے ہاں ضعیف حدیث کو بھی قیاس پر ترجیح دی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ احناف عقل ودرایت اور قیاس پر صرف نص کو ہی مقدم نہیں سمجھتے؛ بلکہ نص کے آخری امکان تک کا لحاظ رکھتے ہیں۔ فقہ حنفی میں عقل ودرایت کا اس کے دائرہ میں بھرپور اور فطری استعمال کیا گیا ہے اور اس سے استفادہ میں کوئی کوتاہی روا نہیں رکھی گئی؛ البتہ احناف کے ہاں نظری اور فلسفیانہ عقلیت کے بجائے عملی اور معاشرتی عقل ودرایت کو احکام وقوانین کی بنیاد بنایا گیا ہے؛ چنانچہ عرف وتعامل کا حنفی فقہ میں اس کی جائز حدود کے اندر پورا احترام کیا گیا ہے اور معاشرتی عقل سے بہت سے احکام ومسائل میں استنباط کیا گیا ہے۔

فقہ حنفی کو طویل عرصہ تک رائج الوقت قانون ونظام کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ خلافت عباسیہ، خلافت عثمانیہ اور مغل سلطنت میں صدیوں تک عدالتی قانون کے طور پر فقہ حنفی کی عمل داری رہی ہے جس کی وجہ سے تجربات ومشاہدات کا جو ذخیرہ اس کے پاس ہے اور انسانی معاشرہ کی مشکلات کو سمجھنے اور حل کرنے کی جو صلاحیت وتجربہ اس کے دامن میں ہے، وہ (ایک حد تک فقہ مالکی کے سوا) کسی دوسری فقہ کو میسر نہیں آیا۔فقہ حنفی کے انھیں امتیازات وخصوصیات کی وجہ سے بجا طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ عالمِ اسلام میں عدالتی اور انتظامی طور پر شرعی احکام وقوانین کے نفاذ کے جو امکانات دن بدن واضح ہوتے جا رہے ہیں، ان میں فقہ حنفی ہی نفاذِ اسلام اور تنفیذِ شریعت کی علمی قیادت کی پوزیشن میں ہے۔

اس لیے یہ بات پہلے سے زیادہ ضروری ہو گئی ہے کہ فقہ حنفی کو ماضی کے معاملات وتجربات کے ساتھ ساتھ مستقبل کے امکانات وضروریات کے حوالے سے بھی تحقیق ومطالعہ کا موضوع بنایا جائے اور انسانی سوسائٹی کی ضروریات ومشکلات کے دائرہ میں فقہ حنفی کی افادیت واہمیت کو علمی اسلوب اور فقہی انداز میں واضح کیا جائے۔فقہ حنفی کو اس امتیاز وتفوق کے پس منظر میں فطری طور پر کچھ الزامات واعتراضات کا بھی ہر دور میں سامنا رہا ہے جن میں بعض کا تعلق دائرئہ کار اور ذوق واسلوب کے فرق وتنوع سے ہے، بعض اعتراضات نے غلط فہمی کے باعث جنم لیا ہے، کچھ الزامات معاصرت کی پیداوار ہیں اور ان میں ایسے اعتراضات بھی موجود ہیں جو ”حَسَداً مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِھِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمُ الْحَقُّ“ کا مصداق قرار دیے جا سکتے ہیں۔ ان الزامات واعتراضات کا دفاع مختلف ادوارمیں اہلِ علم نے کیا ہے اور صرف احناف نے نہیں؛ بلکہ منصف مزاج غیر حنفی علماء وافاضل اس دفاع میں پیش پیش رہے ہیں جو یقینا امامِ اعظم کے خلوص ودیانت اور علم وفضل کی ”خدائی تائید“ ہے۔ فالحمد للّٰہ علیٰ ذالک۔

امام ابو حنیفہ کا اسم گرامی ”نعمان“ اور کنیت ”ابوحنیفہ“ ہے۔ ولادت ۸۰ ھ میں عراق کے کوفہ شہر میں ہوئی۔
آپ فارسی النسل تھے۔ والد کا نام ثابت تھا اور آپ کے دادا نعمان بن مرزبان کابل کے اعیان واشراف میں بڑی فہم وفراست کے مالک تھے۔ آپ کے پردادا مرزبان فارس کے ایک علاقہ کے حاکم تھے۔ آپ کے والد حضرت ثابت بچپن میں حضرت علی کی خدمت میں لائے گئے تو حضرت علی نے آپ اور آپ کی اولاد کے لیے برکت کی دعا فرمائی اور دعا اس طرح قبول ہوئی کہ امام ابوحنیفہ  جیسے عظیم محدث وفقیہ اور عابد و زاہد شخصیت پیدا ہوئی۔

 

 

 

آپ نے زندگی کے ابتدائی ایام میں ضروری علم کی تحصیل کے بعد تجارت شروع کی؛ لیکن آپ کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے علمِ حدیث کی معروف شخصیت شیخ عامر شعبی کوفی (۱۷ھ- ۱۰۴ھ) -جنہیں پانچ سو سے زیادہ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہے- نے آپ کو تجارت چھوڑکر مزید علمی کمال حاصل کرنے کا مشورہ دیا؛ چنانچہ آپ نے امام شعبی  کے مشورہ پر علم کلام، علم حدیث اور علم فقہ کی طرف توجہ فرمائی اور ایسا کمال پیدا کیا کہ علمی وعملی دنیا میں ”امام اعظم“ کہلائے۔ آپ نے کوفہ، بصرہ اور بغداد کے بے شمار شیوخ سے علمی استفادہ کیا اور حصول علم کے لیے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور شام کے متعدد اسفار کیے۔
ایک وقت ایسا آیا کہ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے حضرت امام ابوحنیفہ کو عہدئہ قضا پیش کیا؛ لیکن آپ نے معذرت چاہی تو وہ اپنے مشورہ پر اصرار کرنے لگا؛ چنانچہ آپ نے صراحةً انکار کردیا اور قسم کھالی کہ وہ یہ عہدہ قبول نہیں کرسکتے، جس کی وجہ سے ۱۴۶ہجری میں آپ کو قید کردیا گیا۔ امام صاحب کی علمی شہرت کی وجہ سے قید خانہ میں بھی تعلیمی سلسلہ جاری رہا اور امام محمدجیسے محدث وفقیہ نے جیل میں ہی امام ابوحنیفہ  سے تعلیم حاصل کی۔امام ابوحنیفہ کی مقبولیت سے خوفزدہ خلیفہٴ وقت نے امام صاحب  کو زہر دلوادیا۔ جب امام صاحب کو زہر کا اثر محسوس ہوا تو سجدہ کیا اور اسی حالت میں وفات پاگئے۔ تقریباً پچاس ہزار افراد نے نمازِجنازہ پڑھی، بغداد کے خیزران قبرستان میں دفن کیے گئے۔ ۳۷۵ھ میں اس قبرستان کے قریب ایک بڑی مسجد ”جامعُ الامام الاعظم“ تعمیر کی گئی جو آج بھی موجود ہے۔ غرض ۱۵۰ھ میں صحابہ وبڑے بڑے تابعینسے روایت کرنے والا ایک عظیم محدث وفقیہ دنیا سے رخصت ہوگیا اور اس طرح صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے خوف سے قاضی کے عہدہ کو قبول نہ کرنے والے نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا؛ تاکہ خلیفہٴ وقت اپنی مرضی کے مطابق کوئی ایسا فیصلہ نہ کراسکے جس سے مالکِ حقیقی ناراض ہوں۔
 
حضرت امام ابوحنیفہ  کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت:
 
مفسر قرآن شیخ جلال الدین سیوطی شافعی مصری (۸۴۹ھ-۹۱۱ھ) نے اپنی کتاب ”تبییض الصحیفة فی مناقب الامام ابی حنیفہ رحمة اللہ“ میں بخاری ومسلم ودیگر کتب حدیث میں واردنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال: ﴿اگر ایمان ثریا ستارے کے قریب بھی ہوگا تواہل فارس میں سے بعض لوگ اس کو حاصل کرلیں گے۔(بخاری) اگر ایمان ثریا ستارے کے پاس بھی ہوگا تواہلِ فارس میں سے ایک شخص اس میں سے اپناحصہ حاصل کرلے گا۔ (مسلم) اگر علم ثریا ستارے پر بھی ہوگا تو اہل فارس میں سے ایک شخص اس کو حاصل کرلے گا۔ (طبرانی) اگر دین ثریا ستارہ پر بھی معلق ہوگا تو اہل فارس میں سے کچھ لوگ اس کو حاصل کرلیں گے۔ (طبرانی)﴾ ذکر کرنے کے بعد تحریر فرمایا ہے کہ میں کہتا ہوں کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امام ابوحنیفہ (شیخ نعمان بن ثابت) کے بارے میں ان احادیث میں بشارت دی ہے اور یہ احادیث امام صاحب کی بشارت وفضیلت کے بارے میں ایسی صریح ہیں کہ ان پر مکمل اعتماد کیا جاتا ہے۔ شیخ ابن حجر الہیتمی المکی الشافعی  (۹۰۹ھ-۹۷۳ھ) نے اپنی مشہور ومعروف کتاب “الخیرات الحِسان فی مناقبِ امام أبی حنیفہ” میں تحریر کیا ہے کہ شیخ جلال الدین سیوطیکے بعض تلامذہ نے فرمایا اور جس پر ہمارے مشائخ نے بھی اعتماد کیا ہے کہ ان احادیث کی مراد بلاشبہ امام ابوحنیفہ ہیں؛ اس لیے کہ اہلِ فارس میں ان کے معاصرین میں سے کوئی بھی علم کے اس درجہ کو نہیں پہنچا جس پر امام صاحب فائز تھے۔
﴿وضاحت﴾: ان احادیث کی مراد میں اختلاف رائے ہوسکتا ہے؛ مگر عصرِ قدیم سے عصرِحاضر تک ہر زمانہ کے محدثین وفقہاء وعلماء کی ایک جماعت نے تحریر کیا ہے کہ ان احادیث سے مراد حضرت امام حنیفہ ہیں۔ علماء شوافع نے خاص طور پر اس قول کو مدلل کیا ہے، جیساکہ شافعی مکتبہٴ فکر کے دو مشہور جید علماء کے اقوال ذکر کیے گئے۔
حضرت امام ابوحنیفہ  کی تابعیت:
 حافظ ابن حجر عسقلانی ( جو فنِ حدیث کے امام شمار کیے جاتے ہیں) سے جب امام ابوحنیفہ کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہ نے صحابہٴ کرام کی ایک جماعت کو پایا ، اس لیے کہ وہ ۸۰ ہجری میں کوفہ میں پیدا ہوئے، وہاں صحابہٴ کرام میں سے حضرت عبداللہ بن اوفی  موجود تھے، ان کا انتقال اس کے بعد ہوا ہے۔ بصرہ میں حضرت انس بن مالک  تھے اور ان کا انتقال ۹۰ یا ۹۳ہجری میں ہوا ہے۔ ابن سعد  نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ کہا جائے کہ امام ابوحنیفہنے حضرت انس بن مالک کو دیکھا ہے اور وہ طبقہٴ تابعین میں سے ہیں۔ نیز حضرت انس بن مالک  کے علاوہ بھی اس شہر میں دیگر صحابہٴ کرام اس وقت حیات تھے۔
 شیخ محمد بن یوسف صالحی دمشقی شافعی نے “عقود الجمان فی مناقبِ الامام ابی حنیفہ “کے نویں باب میں ذکر کیا ہے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ امام ابوحنیفہ اس زمانہ میں پیدا ہوئے جس میں صحابہٴ کرام کی کثرت تھی۔
اکثر محدثین (جن میں امام خطیب بغدادی، علامہ نووی، علامہ ابن حجر، علامہ ذہبی، علامہ زین العابدین سخاوی، حافظ ابونعیم اصبہانی، امام دار قطنی، حافظ ابن عبدالبر اور علامہ ابن الجوزی کے نام قابل ذکر ہیں) کا یہی فیصلہ ہے کہ امام ابوحنیفہ نے حضرت انس بن مالک  کو دیکھا ہے۔
 محدثین ومحققین کی تشریح کے مطابق صحابی کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرنا ضروری نہیں ہے؛بلکہ دیکھنا بھی کافی ہے، اسی طرح تابعیت کا معاملہ بھی ہے کہ تابعی کہلانے کے لیے صحابیِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرنا ضروری نہیں ہے؛ بلکہ صحابی کا دیکھنا بھی کافی ہے۔ امام ابوحنیفہ  نے تو صحابہٴ کرام کی ایک جماعت کو دیکھنے کے علاوہ بعض صحابہٴ کرام خاص کر حضرت انس بن مالک سے احادیث روایت بھی کی ہیں۔
 غرضے کہ حضرت امام ابوحنیفہ تابعی ہیں اور آپ کا زمانہ صحابہ، تابعین اور تبعِ تابعین کا زمانہ ہے اور یہ وہ زمانہ ہے جس دور کی امانت ودیانت اور تقوی ٰ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم (سورہٴ التوبہ آیت نمبر ۱۰۰) میں فرمایا ہے۔ نیز نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق یہ بہترین زمانوں میں سے ایک ہے۔ علاوہ ازیں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات میں ہی حضرت امام ابوحنیفہ کے متعلق بشارت دی تھی، جیسا کہ بیان کیا جاچکا، جس سے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ  کی تابعیت اور فضیلت روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے۔
صحابہٴ کرام سے امام ابوحنیفہ  کی روایات:
امام ابومعشر عبد الکریم بن عبدالصمد طبری مقری شافعی (متوفی ۴۷۸ھ) نے ایک رسالہ تحریر فرمایا ہے جس میں انہوں نے امام ابوحنیفہ کی مختلف صحابہٴ کرام سے روایات نقل کی ہیں۔ (۱)حضرت انس بن مالک (۲) حضرت عبد اللہ بن جزاء الزبیدی  (۳) حضرت جابر بن عبداللہ  (۴)حضرت معقل بن یسار  (۵) حضرت واثلہ بن الاسقع  (۶) حضرت عائشہ بنت عجر ۔
﴿وضاحت﴾: محدثین کی ایک جماعت نے ۸ صحابہٴ کرام سے امام ابوحنیفہ کا روایت کرنا ثابت کیا ہے؛ البتہ بعض محدثین نے اس سے اختلاف کیا ہے؛ مگر امام ابوحنیفہ کے تابعی ہونے پر جمہور محدثین کا اتفاق ہے۔
فقہاء ومحدثین کی بستی- شہر کوفہ:
حضرت عمر فاروق کے عہدِ خلافت میں ملک عراق فتح ہونے کے بعد حضرت سعد بن ابی وقاص  نے آپ کی اجازت سے ۱۷ ہجری میں کوفہ شہر بسایا، قبائل عرب میں سے فصحاء کو آباد کیا گیا۔ حضرت عمر فاروق نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کو وہاں بھیجا؛ تاکہ وہ قرآن وسنت کی روشنی میں لوگوں کی رہنمائی فرمائیں۔ صحابہٴ کرام کے درمیان حضرت عبداللہ بن مسعود کی علمی حیثیت مسلّم تھی، خود صحابہٴ کرام بھی مسائلِ شرعیہ میں ان سے رجوع فرماتے تھے۔ ان کے متعلق حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کتبِ حدیث میں موجود ہیں: ابن ام عبد (یعنی عبداللہ بن مسعود) کے طریق کو لازم پکڑو․․․․ جو قرآن پاک کو اُس انداز میں پڑھنا چاہیے، جیسا نازل ہوا تھا تو اُس کو چاہیے کہ ابن ام عبد (یعنی عبداللہ بن مسعود) کی قرات کے مطابق پڑھے․․․․ حضرت عمر فاروق نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ علم سے بھرا ہوا ایک ظرف ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے حضرت عمر فاروق  اور حضرت عثمان غنی کے عہدِ خلافت میں اہل کوفہ کو قرآن وسنت کی تعلیم دی۔ حضرت علی مرتضی کے عہدِ خلافت میں جب دارالخلافہ کوفہ منتقل کردیا گیا تو کوفہ علم کا گہوارہ بن گیا۔ صحابہٴ کرام اور تابعین عظام کی ایک جماعت خاص کر حضرت عبد اللہ بن مسعود اور ان کے شاگردوں نے اس بستی کو علم وعمل سے بھر دیا۔ صحابہٴ کرام کے درمیان فقیہ کی حیثیت رکھنے والے حضرت عبداللہ بن مسعود کا علمی ورثہ حضرت امام ابوحنیفہ کے مشہور استاذ شیخ حماد اور مشہور تابعی شیخ ابراہیم نخعی وشیخ علقمہ کے ذریعہ امام ابوحنیفہ تک پہونچا۔ شیخ حماد صحابیِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت انس بن مالک کے بھی سب سے قریب اور معتمد شاگرد ہیں۔ شیخ حماد  کی صحبت میں امام ابوحنیفہ تقریباً ۱۸ سال رہے اور شیخ حماد  کے انتقال کے بعد کوفہ میں ان کی مسند پر امام ابوحنیفہ کو ہی بٹھایا گیا۔ غرضے کہ امام ابوحنیفہ حضرت عبداللہ بن مسعود  کے علمی ورثہ کے وارث بنے۔ اسی وجہ سے امام ابوحنیفہ  حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایات اور ان کے فیصلہ کو ترجیح دیتے ہیں، مثلاً کتبِ احادیث میں وارد حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایات کی بناء پر امام ابوحنیفہ  نے نماز میں رکوع سے قبل وبعد رفعِ یدین نہ کرنے کو سنت قرار دیا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز کے عہدِ خلافت میں تدوینِ حدیث اورامام ابوحنیفہ:
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احادیث نہ لکھنے کے دائمی حکم کی وجہ پہلی امتوں کا دوسری کتب لکھ کر کتاب اللہ کو ترک کرنا – اس حکم کو خلفاء راشدین نے بھی نافذ کرکہ شک وشبہات کا ہمیشہ کےلیتے خاتمہ کر دیا
ابوہریرہ  نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے ، اور ہم احادیث لکھ رہے تھے ، اور آپ (ص ) نے کہا: یہ کیا ہے؟ ہم نے کہا: ہم نے جو آپ کی احادیث سنی ہیں۔ انہوں نے فرمایا:
کیا آپ کتاب اللہ کے علاوہ کوئی اور کتاب لکھنا چاہتے ہیں؟
تم سے پہلی امتیں گمراہ ہو گیی تھیں کیونکہ انہوں نے کتاب اللہ کے ساتھ دوسری کتابیں لکھیں۔
ابوہریرہ نے کہا، اور میں نے کہا: یا رسول اللہ ، کیا ہم آپ کے بارے میں بات کر سکتے ہیں؟
انہوں نے کہا: “ہاں ، میرے بارے میں بات کرو ، کوئی حرج نہیں مگر جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولتا ہے ، اسے اپنی جگہ جہنم میں پاتے ۔” اسی طرح ، سراج نے ہم سے یہ حدیث بیان کی ، اور اسےالْأَصَمِّ کے علاوہ کسی اور نے عباس الدوری، عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْنٍ الْخَرَّازُ کے ذریعہ ، عبد اللہ ابن الرحمٰن کے اختیار سے روایت کیا۔ فَاللَّهُ أَعْلَمُ  [“تقييد العلم للخطيب البغدادي” ص 33]
عمر بن عبدلعزیز نے احادیث لکھنے کا اہتمام کیا – حضرت امام ابوحنیفہ کو انھیں احادیث کا ذخیرہ ملا تھا؛ چنانچہ انہوں نے قرآنِ کریم اور احادیث کے اس ذخیرہ سے استفادہ فرماکر امتِ مسلمہ کو اس طرح مسائلِ شرعیہ سے واقف کرایا کہ ۱۳۰۰ سال گزرجانے کے بعد بھی تقریباً ۷۵ فیصد امت مسلمہ اس پر عمل پیرا ہے اور ایک ہزار سال سے امتِ مسلمہ کی اکثریت امام ابوحنیفہ کی تفسیر وتشریح اور وضاحت وبیان پر ہی عمل کرتی چلی آرہی ہے۔ امام ابوحنیفہ کو احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم صرف دو واسطوں (صحابی اور تابعی) سے ملی ہیں؛ بلکہ بعض احادیث امام ابوحنیفہ نے صحابہٴ کرام سے براہ راست بھی روایت کی ہیں۔ دو واسطوں سے ملی احادیث کو احادیث ثنائی کہا جاتا ہے، جو سند کے اعتبار سے حدیث کی اعلیٰ قسم شمار ہوتی ہے۔ بخاری ودیگر کتبِ حدیث میں ۲ واسطوں کی کوئی بھی حدیث موجود نہیں ہے، ۳ واسطوں والی یعنی احادیث ثلاثیات بخاری میں صرف ۲۲ ہیں، ان میں سے ۲۰احادیث امام بخاری نے امام ابوحنیفہ کے شاگردوں سے روایت کی ہیں۔
۸۰ھ سے ۱۵۰ھ تک اسلامی حکومت اور حضرت امام ابوحنیفہ  :
خلیفہ حضرت عمر بن عبد العزیز ( ۶۱ھ-۱۰۱ھ) کے خاص اہتمام سے وقت کے دو جید محدِّث شیخ ابوبکر بن الحزم (متوفی ۱۲۰ھ) اور
محمد بن شہاب زُہری (متوفی ۱۲۵ھ) کی زیر نگرانی احادیثِ رسول کو کتابی شکل میں جمع کیا گیا؛ اب تک یہ احادیث منتشر حالتوں میں سینوں میں محفوظ چلی آرہی تھیں۔ اسلامی تاریخ میں ان ہی دونوں محدث کو حدیث کا مدوِّنِ اوَّل کہا جاتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ میں عمومی طور پر احادیث لکھنے سے منع فرمادیا تھا
خلفاء راشدین کے عہد میں جب قرآن کریم تددین کے مختلف مراحل سے گزرکر ایک کتابی شکل میں امتِ مسلمہ کے ہر فرد کے پاس پہونچ گیا
احادیثِ رسول کا ذخیرہ جو منتشر اوراق اور زبانوں پر جاری تھا، انتہائی احتیاط کے ساتھ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی عہدِ خلافت (۹۹ھ-۱۰۱ھ)میں مرتب کیا گیا۔ احادیثِ نبویہ کے اس ذخیرہ کی سند میں عموماًدو راوی تھے ایک صحابی اور تابعی، بعض احادیث صرف ایک سند یعنی صحابی سے مروی تھیں۔ ان احادیث کے ذخیرہ میں ضعیف یا موضوع ہونے کا احتمال بھی نہیں تھا۔ نیز یہ وہ مبارک دور تھا، جس میں اسماء الرجال کا علم باضابطہ وجود میں نہیں آیا تھا اور نہ اس کی ضرورت تھی؛ کیونکہ حدیثِ رسول بیان کرنے والے صحابہٴ کرام اور تابعین عظام یا پھر تبع تابعین حضرات تھے اور ان کی امانت ودیانت اور تقوی ٰ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم (سورہٴ التوبہ آیت نمبر ۱۰۰) میں فرمایا ہے۔
امام ابوحنیفہ کی ولادت ۸۰ہجری میں اُموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دورِ حکومت میں ہوئی، جس کا انتقال ۸۶ہجری میں ہوا،اس کے بعد اس کا بیٹا ولید بن عبد الملک تخت نشین ہوا۔ ۱۰ سال حکمرانی کے بعد ۹۶ ہجری میں اس کا بھی انتقال ہوگیا پھر اس کا بھائی سلیمان بن عبد الملک جانشین بنا۔ ۳ سال کی حکمرانی کے بعد ۹۹ ہجری میں یہ بھی رخصت ہوا؛ لیکن سلیمان بن عبدالملک نے اپنی وفات سے قبل حضرت عمر بن عبدالعزیز کو اپنا جانشین مقرر کرکے ایسا کارنامہ انجام دیا جس کو تاریخ کبھی نہیں بھلا سکتی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دورِ خلافت (۹۹ھ-۱۰۱ھ) اگرچہ نہایت مختصر رہا؛ مگر خلافتِ راشدہ کا زمانہ لوگوں کو یاد آگیا حتی کہ رعایا میں ان کا لقب خلیفہٴ خامس (پانچواں خلیفہ) قرار پایا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دورِ خلافت میں امام ابوحنیفہکی عمر (۱۹-۲۱) سال تھی۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے تدوینِ حدیث کی جس کا مختصر بیان گزرچکا غرضے کہ تدوین حدیث کا اہم دور امام ابوحنیفہ کے وقت میں ہوا مگر اس میں آپ شامل نہ ہوے۔ عبدللہ بن مسعود (رض ) حدیث لکھنے کے سخت مخالف تھے وہ رسول الله صلعم اور خلفا راشدین کی سنت پر قائم تھے اور امام ابو حنیفہ سے بھی حدیث کی کتاب لکھنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ بھی عبدللہ بن مسعود (رض ) کے نقش قدم پر اصل اہل السنت تھے –
مزید پرہیں :
امام ابوحنیفہ نے اسلامی دور کی دو بڑی حکومتوں (بنوامیہ اور بنو عباس) کو پایا۔ خلافتِ بنو امیہ کے آخری دور میں حضرت امام ابو حنیفہ کا حکمرانوں سے اختلاف ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے آپ مکہ مکرمہ چلے گئے اور وہیں سات سال رہے۔ خلافت بنو عباس کے قیام کے بعد آپ پھر کوفہ تشریف لے آئے۔ عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور حکومت کی مضبوطی اور پائیداری کے لیے امام ابوحنیفہ کی تایید ونصرت چاہتا تھا، جس کے لیے اس نے ملک کا خاص عہدہ پیش کیا؛ مگر آپ نے حکومتی معاملات میں دخل اندازی سے معذرت چاہی؛ کیونکہ حکمرانوں کے اغراض ومقاصد سے امام ابوحنیفہ  اچھی طرح واقف تھے۔ اسی وجہ سے ۱۴۶ ہجری میں آپ کو جیل میں قید کردیا گیا؛ لیکن جیل میں بھی آپ کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی اور وہاں بھی آپ نے قرآن وحدیث اور فقہ کی تعلیم جاری رکھی؛ چنانچہ امام محمد نے امام ابوحنیفہ  سے جیل میں ہی تعلیم حاصل کی۔ حکمرانوں نے اس پر ہی بس نہیں کیا؛ بلکہ روزانہ ۲۰ کوڑوں کی سزا بھی مقرر کی (خطیب البغدادی ج ۱۳ ص ۳۲۸)۔ ۱۵۰ہجری میں امام صاحب دارِ فانی سے دار بقاء کی طرف کوچ کرگئے۔ امام احمد بن حنبل امام ابوحنیفہ  کے آزمائشی دور کو یاد کرکے رویا کرتے تھے اور ان کے لیے دعاء رحمت کیا کرتے تھے۔ (الخیراتُ الحِسان ج ۱ ص ۵۹)
حضرت امام ابوحنیفہ  اور علمِ حدیث:
امام ابو حنیفہ  سے احادیث کی روایت کتبِ حدیث میں کثرت سے نہ ہونے کی وجہ سے بعض لوگوں نے یہ تأثر پیش کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ کی علم حدیث میں مہارت کم تھی؛ حالانکہ غور کریں کہ جس شخص نے صرف بیس سال کی عمر میں علم حدیث پر توجہ دی ہو، جس نے صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کابہترین زمانہ پایا ہو، جس نے صرف ایک یا دو واسطوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سنی ہوں، جس نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر فقیہ صحابی کے شاگردوں سے ۱۸سال تربیت حاصل کی ہو، جس نے حضرت عمربن عبد العزیز  کا عہدِ خلافت پایا ہو جو تدوینِ حدیث کا سنہرا دور دیکھاہو ، جس نے کوفہ ،بصرہ،بغداد،مکہ مکرمہ،مدینہ منورہ اور ملک شام کے ایسے اساتذہ سے احادیث پڑھی ہو جو اپنے زمانے کے بڑے بڑے محدث تھے، جس نے قرآن وحدیث کی روشنی میں ہزاروں مسائل کا استنباط کیا ہو، قرآن وحدیث کی روشنی میں کیے گئے جس کے فیصلے کو تقریباً ہزارسال کے عرصہ سے زیادہ امت مسلمہ نیز بڑے بڑے علماء ومحدثین ومفسرین تسلیم کرتے چلے آئے ہوں ، جس نے فقہ کی تدوین میں اہم رول ادا کیاہو، جو صحابیِ رسول حضرت عبداللہ بن مسعود کا علمی وارث بناہو، جس نے حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ بن مسعود جیسے فقہاء صحابہ کے شاگردوں سے علمی استفادہ کیا ہو، جس کے تلامذہ بڑے بڑے محدث ،فقیہ اور امامِ وقت بنے ہوں تو اس کے متعلق ایسا تأثر پیش کرنا صرف اور صرف بغض وعنا د اور علم کی کمی کا نتیجہ ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص حضرت ابوبکرصدیق ، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی  کے متعلق کہے کہ ان کو علمِ حدیث سے معرفت کم تھی؛ کیونکہ ان سے گنتی کی چند احادیث‘ کتبِ احادیث میں مروی ہیں؛ حالانکہ ان حضرات کا کثرتِ روایت سے اجتناب دوسرے اسباب کی وجہ سے تھا، جس کی تفصیلات کتابوں میں موجود ہیں۔ غرضے کہ اما م ابوحنیفہ فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ عظیم محدث بھی تھے ۔
حضرت امام ابوحنیفہ  اور حدیث کی مشہور کتابیں:
احادیث کی مشہور کتابیں (بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداوٴد، نسائی، ابن ماجہ، طبرانی، بیہقی، مسند ابن حبان، مسند احمد بن حنبل وغیرہ) امام ابوحنیفہ کی وفات کے تقریباً۱۵۰ سال بعد مدون ہوئی ہیں۔ ان مذکورہ کتابوں کے مصنّفین امام ابوحنیفہ  کی حیات میں موجود ہی نہیں تھے، ان میں سے اکثر امام ابوحنیفہ کے شاگردوں کے شاگرد ہیں۔ مشہور کتب حدیث کی تصنیف سے قبل ہی امام ابوحنیفہ کے مشہور شاگردوں (قاضی ابویوسف اور امام محمد) نے امام ابوحنیفہ کے حدیث اور فقہ کے دروس کو کتابی شکل میں مرتب کردیا تھاجو آج بھی دستیاب ہیں۔ مشہور کتبِ حدیث میں عموماً چار یا پانچ یا چھ واسطوں سے احادیث ذکر کی گئی ہیں؛ جب کہ امام ابوحنیفہ کے پاس زیادہ تر احادیث صرف دو واسطوں سے آئی تھیں، اس لحاظ سے امام ابوحنیفہ کو جو احادیث ملی ہیں، وہ اصحُ الاسانید کے علاوہ احادیثِ صحیحہ ، مرفوعہ، مشہورہ اور متواترہ کا مقام رکھتی ہیں۔ غرضے کہ جن احادیث کی بنیاد پر فقہِ حنفی مرتب کیا گیا، وہ عموماًسند کے اعتبار سے اعلیٰ درجہ کی ہیں۔
آپ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کے شاگرد تھے اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سنت رسول الله صلعم اور سنت خلفاء راشدین پر سختی سے کاربند تھے جنہوں نے حدیث کتب کی اجازت نہ دی تھی اور کسی بدعت میں پڑے اس لحظ سے اپ کو صحیح معنی میں اہل سنت کہ سکتے ہیں ، آپ نے بھی خود کوئی حدیث کی یا دوسری کتاب مدون نہ کی ، آپ کے شاگردوں نے کی . رسول اللہ صلعم نے بھی مجلد کتاب نہ چھوڑی ، قرآن کی مجلد کتابت تدوین خلفاء راشدین کی سنت اور اعزاز ہے اور حدیث کی کتاب نہ لکھنا بھی انہی کی سنت ہے –
حضرت امام ابوحنیفہ  کے اساتذہ:
 امام ابوحنیفہ نے تقریباً چار ہزار مشائخ سے علم حاصل کیا، خود امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ میں نے کوفہ وبصرہ کا کوئی ایسا محدث نہیں چھوڑا جس سے میں نے علمی استفادہ نہ کیا ہو، تفصیلات کے لیے سوانح امام ابوحنیفہ  کا مطالعہ کریں، امام ابوحنیفہ کے چند اہم اساتذہ حسب ذیل ہیں:
شیخ حماد بن ابی سلیمان (متوفی ۱۲۰ھ): شہر کوفہ کے امام وفقیہ شیخ حماد  حضرت انس بن مالک  کے سب سے قریب اور معتمد شاگرد ہیں، امام ابوحنیفہ  ان کی صحبت میں ۱۸ سال رہے۔ ۱۲۰ ہجری میں شیخ حماد کے انتقال کے بعد امام ابوحنیفہ  ہی ان کی مسند پر فائز ہوئے۔ شیخ حماد مشہور ومعروف محدث وتابعی شیخ ابراہیم نخعی کے بھی خصوصی شاگرد ہیں۔ علاوہ ازیں شیخ حماد حضرت عبداللہ بن مسعود کے علمی وارث اور نائب بھی شمار کیے جاتے ہیں۔
         امام ابوحنیفہ  کی دوسری بڑی درس گاہ ”شہر بصرہ“ تھی جو امام المحدثین شیخ حسن بصری (متوفی ۱۱۰ھ) کے علومِ حدیث سے مالا مال تھی؛ یہاں بھی امام ابوحنیفہ نے علمِ حدیث کا بھرپور حصہ پایا۔
شیخ عطا بن ابی رباح (متوفی ۱۱۴ھ): مکہ مکرمہ میں مقیم شیخ عطا بن ابی رباح سے بھی امام ابوحنیفہ نے بھرپور استفادہ کیا۔ شیخ عطا بن ابی رباح نے بے شمار صحابہٴ کرام خاص کر حضرت عائشہ، حضرت ابوہریرہ، حضرت ام سلمہ،حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر سے استفادہ کیا تھا۔ شیخ عطاء بن ابی رباح  صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن عمر کے خصوصی شاگرد ہیں۔
شیخ عکرمہ بربری (متوفی ۱۰۴ھ): یہ حضرت عبداللہ بن عباس کے خصوصی شاگرد ہیں۔ کم وبیش ۷۰ مشہور تابعین ان کے شاگرد ہیں، امام ابوحنیفہ بھی ان میں شامل ہیں۔مکہ مکرمہ میں امام ابوحنیفہ نے ان سے علمی استفادہ کیا۔
مدینہ منورہ کے فقہاءِ سبعہ میں سے حضرت سلیمان  اور حضرت سالم بن عبداللہ بن عمر سے امام ابوحنیفہ نے احادیث کی سماعت کی ہے۔ یہ ساتوں فقہاء مشہور ومعروف تابعین تھے۔ حضرت سلیمان ام الموٴمنین حضرت میمونہ کے پروردہ غلام ہیں جب کہ حضرت سالم  حضرت عمر فاروق  کے پوتے ہیں، جنہوں نے اپنے والد صحابیِ رسول حضرت عبد اللہ عمر سے تعلیم حاصل کی تھی۔
ملک شام میں امام اوزاعی  اور امام مکحول سے بھی امام ابوحنیفہ  نے اکتسابِ علم کیا ہے۔
دیگر محدثین کے طرز پر امام ابوحنیفہ  نے احادیث کی سماعت کے لیے حج کے اسفار کا بھرپور استعمال کیا؛ چنانچہ آپ نے تقریباً ۵۵ حج ادا کیے۔ حج کی ادائیگی سے قبل وبعد مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام فرماکر قرآن وسنت کو سمجھنے اور سمجھانے میں وافر وقت لگایا۔ بنوامیہ کے آخری عہد میں جب امام ابوحنیفہ کا حکمرانوں سے اختلاف ہوگیا تھا تو امام ابوحنیفہ نے تقریباً ۷ سال مکہ مکرمہ میں مقیم رہ کر تعلیم وتعلم کے سلسلہ کو جاری رکھا۔
حضرت امام ابوحنیفہ  کے تلامذہ:
 “سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم” کے مصنف اول “علامہ شبلی نعمانی ” نے اپنی مشہور ومعروف کتاب “سیرة النعمان” میں لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ کے درس کا حلقہ اتنا وسیع تھا کہ خلیفہٴ وقت کی حدودِ حکومت اس سے زیادہ وسیع نہ تھیں۔ سیکڑوں علماء ومحدثین نے امام ابوحنیفہ سے علمی استفادہ کیا۔ امام شافعی فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص علمِ فقہ میں کمال حاصل کرنا چاہے اس کو امام ابوحنیفہ کے فقہ کا رخ کرنا چاہیے، اور یہ بھی فرمایا کہ اگر امام محمد(امام ابوحنیفہ کے شاگرد) مجھے نہ ملتے تو شافعی، شافعی نہ ہوتا؛ بلکہ کچھ اور ہوتا۔ امام ابوحنیفہ کے چند مشہور شاگردوں کے نام حسب ذیل ہیں جنہوں نے اپنے استاذ کے مسلک کے مطابق درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ قاضی ابویوسف، امام محمد بن حسن الشیبانی، امام زفر بن ہذیل، امام یحییٰ بن سعید القطان، امام یحییٰ بن زکریا، محدث عبد اللہ بن مبارک، امام وکیع بن الجراح، اور امام داوٴد الطائی وغیرہ۔
قاضی ابویوسف (متوفی ۱۸۲ھ): آپ کا نام یعقوب بن ابراہیم انصاری ہے۔ ۱۱۳ھ یا ۱۱۷ھ میں کوفہ میں پیدا ہوئے۔ امام ابویوسف کو معاشی تنگی کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ جاری رکھنا مشکل ہوگیا تھا؛ مگر امام ابوحنیفہ نے امام یوسف اور ان کے گھر کے تمام اخراجات برداشت کرکے ان کو تعلیم دی۔ ذہانت، تعلیمی شوق اور امام ابوحنیفہ کی خصوصی توجہ کی وجہ سے قاضی ابویوسف ایک بڑے محدث وفقیہ بن کر سامنے آئے۔فقہ حنفی کی تدوین میں قاضی ابویوسف  کا اہم کردار ہے۔ عباسی دورِ حکومت میں قاضی القضاة کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی کو قاضی القضاة کے عہد پر فائز کیا گیا۔ امام ابوحنیفہ سے بعض مسائل میں اختلاف بھی کیا؛ لیکن پوری زندگی خاص کر قاضی القضاة کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد فقہ حنفی کو ہی نشر کیا۔ مسلکِ امام ابو حنیفہ پر اصولِ فقہ کی اوّلین کتاب تحریر فرمائی۔ ۱۸۲ھ میں وفات ہوئی۔
امام محمد بن الحسن الشیبانی (متوفی ۱۸۹ھ): آپ ۱۳۱ھ میں دِمَشق میں پیدا ہوئے، پھر فقہاء ومحدثین کے شہر کوفہ چلے گئے، وہاں بڑے بڑے محدثین اور فقہاء کی صحبت پائی۔ امام ابوحنیفہ سے تقریباً دو سال جیل میں تعلیم حاصل کی۔ امام ابوحنیفہ کی وفات کے بعد قاضی ابویوسف سے تعلیم مکمل کی، پھر مدینہ منورہ جاکر امام مالک سے حدیث پڑھی۔ صرف بیس سال کی عمر میں مسندِ حدیث پر بیٹھ گئے۔ یہ فقہ حنفی کے دوسرے اہم بازو شمار کیے جاتے ہیں، اسی لیے امام ابویوسف اور امام محمد کو صاحبین کہا جاتا ہے۔امام محمد کے بے شمار شاگرد ہیں؛ لیکن امام شافعی کا نام خاص طور پر ذکر کیا جاتا ہے۔ امام محمد کی حدیث کی مشہور کتاب “موطا امام محمد” آج بھی ہر جگہ موجود ہے۔ امام محمد کی تصنیفات بہت ہیں، فقہ حنفی کا مدار انھیں کتابوں پر ہے، ان کی درج ذیل کتابیں مشہور ومعروف ہیں جو فتاویٰ حنفیہ کا مآخذ ہیں۔
المبسوط۔ الجامع الصغیر۔ الجامع الکبیر۔ الزیادات۔ السیر الصغیر۔ السیر الکبیر۔
امام زفر (متوفی ۱۵۸ھ): امام زفربن ہذیل ۱۱۰ ہجری میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی عمر میں علمِ حدیث سے خاص شغف وتعلق تھا، علامہ نووی نے ان کو اصحابُ الحدیث میں شمار کیا ہے، پھر علم فقہ کی جانب توجہ کی اور اخیر عمر تک یہی مشغلہ رہا۔ بصرہ میں قاضی کے عہدہ پر بھی فائز رہے۔ امام ابوحنیفہ کے خاص شاگردوں میں سے ہیں، آپ فقہ حنفی کے اہم ستون ہیں۔
امام یحییٰ بن سعید القطان (متوفی ۱۹۸ھ): آپ ۱۲۰ ہجری میں پیدا ہوئے۔ علامہ ذہبی  نے تحریر کیا ہے کہ فن اسماء الرجال (سند حدیث پر بحث کا علم) سب سے پہلے انہوں نے ہی شروع کیا ہے۔ پھر اس کے بعد دیگر حضرات، مثلاً امام یحییٰ بن معین نے اس علم کو باقاعدہ فن کی شکل دی۔ امام یحییٰ بن سعید القطان نے امام ابوحنیفہ سے علمی استفادہ کیا ہے۔
امام عبداللّٰہ بن مبارک  (متوفی ۱۸۱ھ): یہ بھی امام ابوحنیفہ  کے شاگردوں میں سے ہیں۔ علم حدیث میں بڑی مہارت حاصل کی، یہاں تک کہ امیر الموٴمنین فی الحدیث کا لقب ملا۔ ۱۱۸ ہجری میں پیدا ہوئے اور ۱۸۱ ہجری میں وفات پائی۔ امام عبداللہ بن مبارک  کا قول ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ابوحنیفہ اور سفیان ثوری کے ذریعہ میری مدد نہ فرماتے تو میں ایک عام انسان سے بڑھ کر کچھ نہ ہوتا۔
تدوینِ فقہ:
عصر قدیم وجدید میں علم فقہ کی تعریف مختلف الفاظ میں کی گئی ہے؛ مگر اُن کا خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں احکامِ شرعیہ کا جاننا فقہ کہلاتا ہے۔ احکام شرعیہ کے جاننے کے لیے سب سے پہلے قرآن کریم اور پھر احادیث کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ قرآن وحدیث میں کسی مسئلہ کی وضاحت نہ ملنے پر اجماع اورقیاس کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔
فقہ کو سمجھنے سے قبل‘ امام ابوحنیفہ  کے ایک اہم اصول وضابطہ کو ذہن میں رکھیں کہ میں پہلے کتاب اللہ اور سنتِ نبوی کو اختیار کرتا ہوں، جب کوئی مسئلہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نہیں ملتا تو صحابہٴ کرام کے اقوال واعمال کو اختیار کرتا ہوں۔ اس کے بعد دوسروں کے فتاویٰ کے ساتھ اپنے اجتہاد وقیاس پر توجہ دیتا ہوں۔ اسی طرح امام ابوحنیفہ کا یہ اصول ہے کہ اگرمجھے کسی مسئلہ میں کوئی حدیث مل جائے خواہ اس کی سند ضعیف بھی ہو تو میں اپنے اجتہاد وقیاس کو ترک کرکے اس کو قبول کرتا ہوں۔ یہ امام ابوحنیفہ کا اپنا خود بنایا ہوا اصول نہیں ہے؛ بلکہ اُس مشہور حدیث کی اتباع ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل  کو وصیت فرمائی تھی۔
فقہ حنفی کا مدار صحابیِ رسول حضرت عبداللہ بن مسعود کی ذات اقدس پر ہے اور اس فقہ کی بنیاد وہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کو حضرت عبداللہ بن مسعود  روایت کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی حضرت عبداللہ بن مسعود  سے صحابہٴ کراممسائلِ شرعیہ معلوم کرتے تھے۔ کوفہ شہر میں حضرت عبداللہ بن مسعود  قرآن وحدیث کی روشنی میں لوگوں کی رہنمائی فرماتے تھے۔ حضرت علقمہ بن قیس کوفی  اور حضرت اسودبن یزید کوفی  حضرت عبداللہ بن مسعود کے خاص شاگرد ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود خود فرماتے تھے کہ جو کچھ میں نے پڑھا لکھا اور حاصل کیا وہ سب کچھ علقمہ کو دیدیا، اب میری معلومات علقمہ سے زیادہ نہیں ہے۔ حضرت علقمہ اور حضرت اسود کے انتقال کے بعد حضرت ابراہیم نخعی کوفی  مسند نشین ہوئے اور علم فقہ کو بہت کچھ وسعت دی یہاں تک کہ انھیں “فقیہِعراق” کا لقب ملا۔ حضرت ابراہیم نخعی کوفی  کے زمانے میں فقہ کا غیر مرتب ذخیرہ جمع ہوگیا تھا جو ان کے شاگردوں نے خاص کر حضرت حماد کوفی  نے محفوظ کررکھا تھا۔ حضرت حماد کے اس ذخیرہ کو امام ابوحنیفہ کوفی  نے اپنے شاگردوں خاص کر امام ابو یوسف، امام محمد اور امام زفر کو بہت منظم شکل میں پیش کردیاجو انہوں نے باقاعدہ کتابوں میں مرتب کردیا، یہ کتابیں آج بھی موجود ہیں۔ اس طرح امام ابوحنیفہ حضرت عبداللہ بن مسعود  کے دو واسطوں سے حقیقی وارث بنے اور امام ابوحنیفہ کے ذریعہ حضرت عبداللہ بن مسعود  نے قرآن وسنت کی روشنی میں جو سمجھا تھا وہ امت مسلمہ کو پہونچ گیا۔ غرضے کہ فقہ حنفی کی تدوین اُس دور کا کارنامہ ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے خیر القرون قرار دیا اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکمل حفاظت کے ساتھ اسی زمانہ میں کتابی شکل میں مرتب کی گئیں۔
وضاحت: ا
بعض ناواقف حضرات فقہ کا ہی انکار کرنا شروع کردیتے ہیں حالانکہ قرآن وحدیث کو سمجھ کر پڑھنا اور اس سے مسائل شرعیہ کا استنباط کرنا فقہ ہے۔نیز قرآن وحدیث میں متعدد جگہ فقہ کا ذکر بھی وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ مشہور کتب حدیث (بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداوٴد، نسائی، ابن ماجہ، طبرانی، بیہقی، مسند ابن حبان، مسند احمد بن حنبل وغیرہ) کی تالیف سے قبل ہی امام ابوحنیفہ کے شاگردوں نے فقہ حنفی کو کتابوں میں مرتب کردیا تھا۔ اگر واقعی فقہ قابل رد ہے تو مذکورہ کتبِ حدیث کے مصنفوں نے اپنی کتاب میں فقہ کی تردید میں کوئی باب کیوں نہیں بنایا؟ یا کوئی دوسری مستقل کتاب فقہ کی تردید میں کیوں تصنیف نہیں کی؟ غرضے کہ یہ ان حضرات کی ہٹ دھرمی ہے ورنہ قرآن وحدیث کو سمجھ کر مسائل کا استنباط کرنا ہی فقہ کہلاتا ہے جسے جمہور محدثین ومفسرین وعلماء امت نے تسلیم کیا ہے۔
﴿نقطہ﴾: فقہ حنفی کا یہ خصوصی امتیاز ہے کہ سابقہ حکومتوں (خاص کر عباسیہ وعثمانیہ حکومت) کا ۸۰ فیصد قانونِ عدالت وفوجداری فقہ حنفی رہا ہے اور آج بھی بیشتر مسلم ممالک کا قانون عدالت فقہ حنفی پر قائم ہے، جو قرآن وحدیث کی روشنی میں بنائے گئے ہیں۔
آپ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کے شاگرد تھے اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سنت رسول الله صلعم اور سنت خلفاء راشدین پر سختی سے کاربند تھے جنہوں نے حدیث کتب کی اجازت نہ دی تھی اور کسی بدعت میں پڑے اس لحظ سے اپ کو صحیح معنی میں اہل سنت کہ سکتے ہیں ، آپ نے بھی خود کوئی حدیث کی یا دوسری کتاب مدون نہ کی ، آپ کے شاگردوں نے کی . رسول اللہ صلعم نے بھی مجلد کتاب نہ چھوڑی ، قرآن کی مجلد کتابت تدوین خلفاء راشدین کی سنت اور اعزاز ہے اور حدیث کی کتاب نہ لکھنا بھی انہی کی سنت ہے –
امام ابوحنیفہ کی کتابیں:
امام ابوحنیفہ  نے دوران ِدرس جو احادیث بیان کی ہیں انھیں شاگردوں نے ”حَدَّثَنَا“ اور ”اَخْبَرَنَا“ وغیرہ الفاظ کے ساتھ جمع کردیا۔امام ابوحنیفہ کے درسی افادات کا نام “کتاب الآثار” ہے، جو دوسری صدی ہجری میں مرتب ہوئی، اس زمانہ تک کتابوں کی تالیف بہت زیادہ عام نہیں تھی۔ “کتاب الآثار”اس دور کی پہلی کتاب ہے جس نے بعد کے آنے والے محدثین کے لیے ترتیب وتبویب کے راہ نما اصول فراہم کیے۔ علامہ شبلی نعمانی نے “کتاب الآثار”کے متعدد نسخوں کی نشاندہی کی ہے؛ لیکن عام شہرت چار نسخوں کو حاصل ہے۔ ان نسخوں میں سے امام محمد کی روایت کردہ کتاب کو سب سے زیادہ شہرت ومقبولیت حاصل ہوئی۔
مشہور محقق عالم مولانا عبدالرشید نعمانی نے ”کتابُ الآثار“ کے مقدمہ میں قوی روایتوں کی روشنی میں لکھا ہے کہ کتاب الآثار براہِ راست امام ابوحنیفہ کی تالیف ہے، امام محمد، امام ابویوسف، امام زفر وغیرہ اس کے راوی ہیں۔ (مرتب)
         “کتابُ الآثار”                بہ روایت امام محمد
         “کتابُ الآثار”                بہ روایت قاضی ابویوسف
         “کتابُ الآثار”                بہ روایت امام زفر
         “کتابُ الآثار”                بہ روایت امام حسن بن زیاد

مسانید امام ابوحنیفہ:
علماء کرام نے امام ابوحنیفہ کی پندرہ مسانید شمار کی ہیں جن میں ائمہ دین اور حفاظِ حدیث نے آپ کی روایات کو جمع کرکے ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا، ان میں سے مسند امام اعظم  علمی دنیا میں مشہور ہے ، جس کی متعدد شروحات بھی تحریر کی گئی ہیں۔ اس سلسلہ میں سب سے بڑا کام ملک شام کے امام ابوالموائد خوارزمی  (متوفی ۶۶۵ھ) نے کیا ہے جنہوں نے تمام مسانید کو بڑی ضخیم کتاب ”جامع المسانید“کے نام سے جمع کیا ہے۔
حضرت امام ابوحنیفہ کے مشہور شاگرد امام محمد کی مشہور ومعروف کتابیں بھی فقہ حنفی کے اہم مآخد ہیں۔
المبسوط۔ الجامع الصغیر۔ الجامع الکبیر۔ الزیادات۔ السیر الصغیر۔ السیر الکبیر۔
حضرت امام ابوحنیفہ  کا تقویٰ :
کتاب وسنت کی تعلیم اور فقہ کی تدوین کے ساتھ امام صاحب نے زہد وتقویٰ اور عبادت میں پوری زندگی بسر کی۔ رات کا بیشتر حصہ اللہ تعالیٰ کے سامنے رونے، نفل نماز پڑھنے اور تلاوت قرآن کرنے میں گزارتے تھے۔ امام صاحب نے علم دین کی خدمت کو ذریعہٴ معاش نہیں بنایا ؛ بلکہ معاش کے لیے ریشم بنانے اور ریشمی کپڑے تیار کرنے کا بڑا کارخانہ تھا جو صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمروبن حریث کے گھر میں چلتا تھا۔ امام ابوحنیفہ کا تعلق خوشحال گھرانے سے تھا اس لیے لوگوں کی خاص طور سے اپنے شاگردوں کی بہت مدد کیا کرتے تھے۔ آپ نے ۵۵حج ادا کیے۔

حضرت امام ابوحنیفہ  کی شان میں بعض علماء امت کے اقوال:

* امام علی بن صالح  (متوفی ۱۵۱ھ) نے امام ابوحنیفہ کی وفات پر فرمایا: عراق کا مفتی اور فقیہ گزر گیا۔ (مناقب ذہبی ص ۱۸)
* امام مسعر بن کدام  (متوفی ۱۵۳ھ) فرماتے تھے کہ کوفہ کے دو کے سوا کسی اور پر رشک نہیں آتا۔ امام ابوحنیفہ اور اور ان کا فقہ، دوسرے شیخ حسن بن صالح اور ان کا زہد وقناعت۔ (تاریخ بغداد ج ۱۴ ص ۳۲۸)
* ملک شام کے فقیہ ومحدث امام اوزاعی  (متوفی ۱۵۷ ھ)فرماتے تھے کہ امام ابوحنیفہ پیچیدہ مسائل کو سب اہل علم سے زیادہ جاننے والے تھے۔ (مناقب کردی ص ۹۰)
* امام داوٴد الطائی  (متوفی ۱۶۰ھ) فرماتے تھے کہ امام ابوحنیفہ کے پاس وہ علم تھا جس کو اہل ایمان کے دل قبول کرتے ہیں۔ (الخیرات الحسان ص ۳۲)۔
* امام سفیان ثوری (متوفی ۱۶۷ھ) کے پاس ایک شخص امام ابوحنیفہ سے ملاقات کرکے آیا۔ امام سفیان ثوری نے فرمایا تم روئے زمین کے سب سے بڑے فقیہ کے پاس سے آرہے ہو۔ (الخیرات الحسان ص ۳۲)
* امام مالک بن انس (متوفی ۱۷۹ھ) فرماتے ہیں کہ میں نے ابوحنیفہ  جیسا انسان نہیں دیکھا۔ (الخیرات الحسان ص ۲۸)
* امام وکیع بن الجراح (متوفی ۱۹۵ ھ) فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ  سے بڑا فقیہ اور کسی کو نہیں دیکھا۔
* امام یحییٰ بن معین  (متوفی ۲۳۳ھ) امام ابوحنیفہ  کے قول پر فتویٰ دیا کرتے تھے اور ان کی احادیث کے حافظ بھی تھے۔ انہوں نے امام ابوحنیفہ کی بہت ساری احادیث سنی ہیں۔ (جامع بیان العلم، علامہ ابن عبد البر، ج ۲ ص ۱۴۹)
* امام سفیان بن عینیہ (متوفی ۱۹۸ھ) فرماتے تھے کہ میری آنکھوں نے ابوحنیفہ جیسا انسان نہیں دیکھا۔ دو چیزوں کے بارے میں خیال تھا کہ وہ شہر کوفہ سے باہر نہ جائیں گی؛ مگر وہ زمین کے آخری کناروں تک پہنچ گئیں۔ ایک امام حمزہ کی قرأت اور دوسری ابوحنیفہ کا فقہ۔ (تاریخ بغداد۔ ج۱۳ ص ۳۴۷)
* امام شافعی (متوفی ۲۰۴ھ) فرماتے ہیں کہ ہم سب علم فقہ میں امام ابوحنیفہ کے محتاج ہیں۔ جو شخص علم فقہ میں مہارت حاصل کرنا چاہے وہ امام ابوحنیفہ  کا محتاج ہوگا۔ (تاریخ بغداد ج ۲۳ ص ۱۶۱)
* امام بخاری کے استاذ امام مکی بن ابراہیم فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ پرہیزگار، عالم آخرت کے راغب اور اپنے معاصرین میں سب سے بڑے حافظ حدیث تھے۔ (مناقب الامام ابی حنیفہ ۔ شیخ موفق بن احمد مکی)
* امام موفق بن احمد مکی ‘ امام بکر بن محمد زرنجری (متوفی ۱۵۲ھ) کے حوالہ سے تحریر کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ نے کتاب الآثار کا انتخاب چالیس ہزار احادیث سے کیا ہے۔ (مناقب امام ابی حنیفہ)
حضرت امام ابوحنیفہ  کے علوم کا نفع:
حضرت امام ابوحنیفہ  کے انتقال کے بعد آپ کے شاگردوں نے حضرت امام ابوحنیفہ  کے قرآن وحدیث وفقہ کے دروس کو کتابی شکل دے کر ان کے علم کے نفع کو بہت عام کردیا،خاص کر جب آپ کے شاگرد قاضی ابویوسف عباسی حکومت میں قاضی القضاة کے عہدہ پر فائز ہوئے تو انہوں نے قرآن وحدیث کی روشنی میں امام ابوحنیفہ  کے فیصلوں سے حکومتی سطح پر عوام کو متعارف کرایا؛ چنانچہ چند ہی سالوں میں فقہ حنفی دنیا کے کونے کونے میں رائج ہوگیا اور اس کے بعد یہ سلسلہ برابر جاری رہا حتی کہ عباسی وعثمانی حکومت میں مذہب ابی حنیفہ کو سرکاری حیثیت دے دی گئی؛ چنانچہ آج ۱۴۰۰ سال گزرجانے کے بعد بھی تقریباً ۷۵ فیصد امت مسلمہ اس پر عمل پیرا ہے اور اب تک امت مسلمہ کی اکثریت امام ابوحنیفہ کی قرآن وحدیث کی تفسیر وتشریح اور وضاحت وبیان پر ہی عمل کرتی چلی آرہی ہے۔ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے مسلمانوں کی بڑی اکثریت جو دنیا میں مسلم آبادی کا ۶۰ فیصد سے زیادہ ہے، اسی طرح ترکی اور روس سے الگ ہونے والے ممالک نیز عرب ممالک کی ایک جماعت قرآن وحدیث کی روشنی میں امام ابوحنیفہ  کے ہی فیصلوں پر عمل پیرا ہیں۔
مصادر ومراجع:
حضرت امام ابوحنیفہ کی شخصیت پر جتنا کچھ مختلف زبانوں خاص کر عربی زبان میں تحریر کیا گیا ہے وہ عموماً دوسرے کسی محدث یا فقیہ یا عالم پر تحریر نہیں کیا گیا۔ یہ امام ابوحنیفہ کی علمی وعملی خدمات کے قبول ہونے کی بہ ظاہر علامت ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہکی شخصیت کے مختلف پہلوں پر جو کتابیں تحریر کی گئی ہیں،ان میں سے بعض کے نام حسب ذیل ہیں۔ شیخ جلال الدین سیوطی  کی کتاب”تبییض الصحیفة فی مناقب الامام ابی حنیفہ” سے خصوصی استفادہ کرکے اس مضمون کو تحریر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام مصنفوں کو اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ آمین، ثم آمین۔
امام ابوحنیفہ کی سوانح حیات سے متعلق بعض عربی کتابیں:
  • مناقب الامام الاعظم: شیخ ملا علی قاری  (متوفی ۱۰۱۴ھ)
  • ترجمة الامام الاعظم ابی حنیفة النعمان بن ثابت: امام خطیب بغدادی  (متوفی ۳۹۲ھ)
  • تبییض الصحیفة بمناقب ابی حنیفة: علامہ جلال الدین سیوطی مصری شافعی  ( متوفی ۹۱۱ھ)
  • تحفة السلطان فی مناقب النعمان : شیخ قاضی محمد بن الحسن بن کاس ابوالقاسم( متوفی ٰ ۳۲۴ھ)
  •           عقود المرجان فی مناقب ابی حنیفہ النعمان: شیخ ابوجعفر احمد بن محمد مصری الطحاوی  (متوفی ۳۲۱ھ)
  •           عقود الجمان فی مناقب الامام الاعظم ابو حنیفة النعمان: شیخ محمد بن یوسف صالحی (متوفی ۹۴۳ھ)
  •           عقود الجمان فی مناقب الامام الاعظم ابو حنیفة  النعمان: رسالہ مقدمہ لنیل درجة المانجستر ۔ مولوی محمد ملا عبد القادر الافغانی
  •           اخبار ابی حنیفة واصحابہ: شیخ قاضی ابی عبد اللہ حسین بن علی الصیمری (متوفی ۴۳۶ھ)
  •           فضائل ابی حنیفة واخبارہ ومناقبہ : شیخ ابو القاسم عبد اللہ بن محمد(المعروف ب ابی عوام) متوفی ۳۳۰ھ
  •           الانتقاء (ایک باب) : حافظ ابن عبدالبر
  •           شقائق النعمان فی مناقب ابی حنیفة النعمان: جار اللہ ابو القاسم الزمخشری (متوفی ۵۳۸ھ)
  •           الخیرات الحسان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفة النعمان: شیخ مفتی الحجاز شیخ شہاب الدین احمد بن حجر ہیتمی مکی (متوفی ۹۷۳ھ)
  •           کتاب منازل الائمة الاربعة: امام ابو زکریا یحی بن ابراہیم ( متوفی ۵۵۰ھ)
  •           مناقب الامام ابی حنیفة وصاحبیہ ابی یوسف ومحمد بن الحسن: امام حافظ ابی عبد اللہ محمد بن احمد عثمان ذہبی (متوفی ۷۴۸ھ)
  •           کتاب مکانة الامام ابی حنیفہ فی علم الحدیث: شیخ محمد عبدالرشید النعمانی الہندی۔ تحقیق شیخ عبدالفتاح ابوغدہ
  •           ابوحنیفہ النعمان وآرائہ الکلامیہ: شیخ شمس الدین محمد عبداللطیف مصری
  •           ابوحنیفہ النعمان (امام الائمہ الفقہاء): شیخ وہبی سلیمان غاوجی
  •           تانیب الخطیب علی ما ساقہ فی ترجمة ابی حنیفہ من الاکاذیب: شیخ محمد زاہد بن الحسن الکوثری
  •           ابوحنیفہ ۔ حیاتہ وعصرہ ۔ آرائہ وفقہہ: شیخ محمد ابوزہرہ
  •           مناقب الامام الاعظم ابی حنیفة (الجزء الاول والثانی): موفق بن احمد المکی ، محمد بن محمد بن شہاب ابن البزار الکردی ۔
  •           ائمة الفقہ الاسلامی: ابوحنیفہ، شافعی، مالک، ابن حنبل: شیخ نوح بن مصطفی رومی حنفی
  •           مناقب الامام الاعظم ابی حنیفہ: شیخ موفق بن احمد الخوارزمی
  •           الجواہر المضےئة فی تراجم الحنفیہ: شیخ عبدالقادر القرشی
  •           حیاة ابی حنیفہ: شیخ سید عفیفی
  •           نشر الصحیفة فی ذکر الصحیح من اقوال ائمة الجرح والتعدیل فی ابی حنیفة: شیخ ابی عبد الرحمن مقبل بن ہاوی الوادی (متوفی ۱۴۲۲ھ)
  •           تحفة الاخوان فی مناقب ابی حنیفة : علامہ احمد عبد الباری عاموہ الحدیدی
  •           التعلیقات الحسان علی تحفة الاخوان فی مناقب ابی حنیفة : علامہ محمد احمد محمد عاموہ
  •           عقود الجواہر المنیفة فی أدلة مذہب الامام ابی حنیفة : علامہ محدث السید محمد مرتضیٰ الزبیدی حسینی حنفی (متوفی ۱۲۰۵ھ)
  • امام ابوحنیفہ کی سوانح حیات سے متعلق بعض اردو کتابیں:
  •           سیرة النعمان: علامہ شبلی نعمانی
  •           سیرة ائمہ اربعة: قاضی اطہر مبارکپوری
  •           حضرت امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی: مولانا مناظر احسن گیلانی
  •           مقام ابی حنیفہ        : مولانا سرفراز صفدر خان
  •           امام اعظم اور علم الحدیث: مولانا محمد علی صدیقی کاندھلوی
  •           امام اعظم ابو حنیفة : حالات وکمالات ،ملفوظات: ڈاکٹر مولانا خلیل احمد تھانوی (ترجمة تبییض الصحیفة فی مناقب الامام ابی حنیفة )
  •           تقلید ائمہ اور مقام امام ابوحنیفہ: مولانا محمد اسمٰعیل سنبھلی  (راقم الحروف کے حقیقی دادا محترم)
  •           امام اعظم ابو حنیفة ، حیات وکارنامے: مولانا محمد عبد الرحمن مظاہری
  •           حضرت امام ابوحنیفہ پر ارجاء کی تہمت : مولانا نعمت اللہ اعظمی صاحب
  •           علم حدیث میں امام ابو حنیفہ کا مقام ومرتبہ: مولانا حبیب الرحمن اعظمی صاحب ایڈیٹر ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند
  •           امام اعظم ابوحنیفة اور معترضین (کشف الغمة بسراج الائمة): مولانا مفتی سید مہدی حسن شاہجہان پوری سابق صدرمفتی دارالعلوم دیوبند
  •           فقاہت امام اعظم ابو حنیفہ : مولانا خدا بخش صاحب ربانی
  •           ملفوظات امام حنیفة : مفتی محمد اشرف عثمانی
  •           حدائق الحنفیة (امام ابوحنیفہ سے ۱۳۰۰ ہجری تک دنیا بھر کے ایک ہزار سے زائد حنفی علماء وفقہاء کا ذکر): مولوی فقیر احمد جہلمی
  •           حضرت امام ابوحنیفہ کے ۱۱۰ سو قصے: مولانا محمد اویس سرور
  •           امام اعظم ابوحنیفہ کے حیرت انگیز واقعات: مولانا عبد القیوم حقانی
  •           امام ابوحنیفہ کی تابعیت اور صحابہ سے ان کی روایت: مولانا عبد الشہید نعمانی
  •           امام اعظم ابوحنیفہ شہید اہل بیت : مفتی ابو الحسن شریف اللہ الکوثری
  •           الطریق الاسلم اردو شرح مسند الامام الاعظم  : مولانا محمد ظفر اقبال صاحب
  •           امام ابو حنفیہ کی محدثانہ حیثیت : مولانا سید نصیب علی شاہ الہاشمی ۔ مولانا مفتی نعمت حقانی  ۔
  •           امام ابو حنیفہ کا عادلانہ دفاع (علامہ کوثری کی کتاب تانیب الخطیب کا اردو ترجمہ): حافظ عبدالقدوس خان
  •           حیات حضرت امام ابوحنیفہ  (شیخ ابوزہرہ مصری کی عربی کتاب کا ترجمہ): پروفیسر غلام احمد حریری
امام ابوحنیفہ کی سوانح حیات سے متعلق انگریزی زبان میں بھی متعدد کتابیں شائع ہوئی ہیں؛ لیکن علامہ شبلی نعمانی  کی کتاب Imam Abu Hanifah: Life and Worksکا مطالعہ انتہائی مفید ہے۔
اعلاء السنن:
ماضی قریب کے جید عالم ومحدث شیخ ظفر احمد عثمانی تھانوی  نے حضرت امام ابوحنیفہ  اور ان کے شاگردوں سے منقول تمام مسائل فقیہہ کو ۲۲ جلدوں میں احادیث نبویہ سے مدلل کیا ہے۔ملک شا م کے مشہور حنفی عالم شیخ عبدالفتاح ابوغدہ (متوفی ۱۴۱۷ھ) نے اس کتاب کی تقریظ تحریر فرمائی ہے۔ عربی زبان میں تحریر کردہ اس عظیم کتاب کی ۲۲ ضخیم جلدیں ہیں جو عرب وعجم میں آسانی سے حاصل کی جاسکتی ہیں حتی کہ انٹرنیٹ کے ذریعہ مفت Download کرنا بھی ممکن ہے۔ (http://www.waqfeya.com/book.php?bid=2378)
اللہ تعالیٰ اس خدمت کو قبول فرماکر اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین ، ثم آمین۔
بشکریہ:
امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت حیات اور کارنامے: (اصل تحریر میں کچھ اضافہ کے گیا ہے احادیث نہ لکھنے کے متعلق )
از: مولانا محمدنجیب سنبھلی قاسمی، ریاض:
https://goo.gl/nq9IVX
***

http://www.thefatwa.com/urdu/questionID/228
https://goo.gl/5pEhwf

———————————–
امام ابوحنیفہ پر اتہامات کا جائزہ
یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیائے اسلام کی بعض شخصیتیں بڑی مظلوم گزری ہیں اس اعتبار سے کہ اگر ان کو ان کے غالی عقیدتمندوں نے مستحقہ مقام سے بلنددرجات پر بٹھایا اوران کی تعظیم وتکریم میں غلو ومبالغہ کیاتودوسری جانب کچھ کم ظرف اوربدنصیب لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ان کی شان سےفروتر اورپست مقام پر ان کو لاکھڑا اوران کی تذلیل وتوہین میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
انبیائ کرام میں اس کی روشن مثال حضرت عیسیٰ کی ذات گرامی ہے ان کو ان کی امت نے الوہیت کے مقام پر پہونچادیااورتین میں سے ایک خدامان لیا جب کہ دوسری جانب یہودیوں نے آپ کی والدہ محترمہ کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے اوراورآپ کو بھی ایذائیں پہونچائیں اوران کی شان سے پست تر کلمات کہے۔
صحابہ کرام میں حضرت علی اس کی روشن مثال ہیں۔ان کے حامیوں‌نے ان کو الہی صفات سے متصف کردیا اورامام کے پردے میں نبی بنادیا جب کہ خوارج نے ان کو دائرہ اسلام سے ہی خارج کردیا ۔
ائمہ متبوعین اورسلف صالحین میں امام ابوحنیفہٌ کی ذات گرامی کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے ایک طرف اگران کے غالی عقیدتمندوں نے ان کی شان میں جھوٹی احادیث گڑھیں(جس سے ان کی ذات بلند ہے اوران کی رفعت شان جھوٹی احادیث کی محتاج نہیں)اوریہاں تک غلو کیاکہ کہہ دیاکہ حضرت عیسیٰ جب آخری دور میں آئیں گے تو وہ امام ابوحنیفہ ٌ کی فقہ پر عمل کریں گے ۔حالانکہ اگرچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ کے امتی کی حیثیت سے آئیں گے لیکن ان کی شان سے کہیں زیادہ بلند ہے کہ وہ کسی کی فقہ پر عمل کریں گے۔ دوسری جانب کچھ ایسے بھی کم نگاہ لوگ تھے اورہیں جنہوں نے امام ابوحنیفہ کو حدیث میں ضعیف، کم احادیث جاننے والا۔اپنے رائے کو احادیث پر مقدم کرنے والاجیسے نام دیئے۔
کچھ ایسے بھی بزرگ گزرے ہیں جنہوں نے امام ابوحنیفہ کے خلاف کچھ باتیں غلط فہمی میں کہیں لیکن حقیقت حال آشکارا ہونے کے بعد اپنے قول سے رجوع کرلیا۔کچھ لوگوں نے امام ابوحنیفہ سے حسد اورتعصب کا شکار ہوکر یہ وطیرہ اختیارکرلیا اجل علمائ ومحدثین کی تصنفیات میں اپنی جانب سے امام ابوحنیفہ کے خلاف باتیں داخل کردیں ۔کچھ لوگوں نے محدثین اورناقدین حدیث کی جانب سے غلط طورپر امام ابوحنیفہ کے خلاف اقوال منسوب کئے۔
جہالت اورتعصب کی یہ گرم بازاری آج بھی زندہ ہے اوربغیر کسی علمی دلیل کے امام ابوحنیفہ کوضعیف فی الحدیث کہنا ایک معمولی بات سمجھی جاتی ہے۔ تعجباس پر بات اورحیرت اس امرپر ہے کہ کچھ لوگ جو اپنے فرقہ کو سب سے زیادہ متبع سنت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں گفتگو مین سنت نبوی بھلابیٹھتے ہیں۔
مزید جہالت اس پر یہ کرتے ہیں کہ دعوے توبلند بانگ کرتے ہیں لیکن جب دلیل کی باری آتی ہے تو دلیل کا فریق مخالف سے ہی مطالبہ کرتے ہیں کہ تم کوئی ایک حدیث دکھادو،تم کسی محدث کی توثیق بتادو۔جب کہ ازروئے حدیث البینۃ علی المدعی دلیل ان کے ذمہ ہے۔ نہیں یہ عمل بالحدیث کا کون ساطریقہ ہے۔
اس مضمون کو لکھنے کا مقصد محض چندامور کااثبات ہے اور وہ یہ کہ
1 امام ابوحنیفہ پر جرح کس حد تک قابل اعتبار ہے۔
2امام ابوحنیفہ کامقام ومرتبہ اوران کے ناقد حدیث ہونے کی وضاحت
امام ابوحنیفہ سے مروی احادیث
نوٹ:میں یہ واضح کرتاچلوں کہ امام ابوحنیفہ پر خطیب بغدادی کی تاریخ بغداد میں جو مثالب مذکور ہوئے ہیں ان کا کافی وشافی جواب علامہ زاہد الکوثری نے تانیت الخطیب میں دے دیاہے۔ویسے بھی خطیب بغدادی نے حافظ ابن جریر طبری اوردیگر قدمائ محدثین کی طرح رطب ویابس سب کچھ نقل کردیاہے سند کے ساتھ۔ اب یہ پڑھنے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ سند کی تنقیح کرے۔ان کی مثال حاطب الیل یعنی رات مین لکڑیاں چننے والے کی سی ہے کہ جوکچھ ہاتھ میں آیا سب کو لے آئے۔ہوسکتاہے کہ جسے آپ نے رسی سمجھا ہووہ سانپ ہو۔اس لئے اگر کسی کو خطیب بغدادی کے نقل کردہ اقوال پر ہی اعتماد ہو دلائل اورسند کے ساتھ بحث کرے۔ورنہ اعتراض برائے اعتراض اوربحث برائے بحث سے گریز ہین کہ اوربھی غم ہیں زمانہ میں بحث کے سوا۔
امام ابوحنیفہ
بحوالہ تذکرہ الحفاظ جلد دوم
ابوحنیفہ امام اعظم ،عراق کے فقیہ،نعمان بن ثابت بن زوطاالتیمی ،ولادت80ہجری، حضرت انس بن مالکؓ کو ان کے کوفہ آنے پر کئی مرتبہ دیکھا۔
انہوں نے عطاء، نافع، عبدالرحمن بن ہرمزالاعرج،عدی بن ثابت، سلمہ بن کہیل، ابوجعفر محمد بن علی، قتادہ، عمر بن دینار، ابواسحاق اوردوسرے بہت سے محدثین سے روایت کی۔
ان سے فقہ حاصل کرنے میں زفر بن ہذیل،داؤد الطائی، قاضی ابویوسف، محمد بن حسن ،اسد بن عمرو ،حسن بن زیاد لولوئی اورنوح االجامع اوردوسرے حضرات ہیں۔ان سے روایت کرنے والوں میں وکیع، یزید بن ہارون، سعد بن صلت ،ابوعاصم ،عبدالرزاق اورعبیداللہ بن موسی اورابونعیم اورابوعبدالرحمن المقری اوربہت سارے لوگ ہیں۔
آپ امام، صاحب ورع، عالم ،عامل ،عبادت گزار اوربڑی شان والے تھے ۔شاہی عطایاکو قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ تجارت کرکے اپنے گزربسر کا سامان کرتے تھے۔ضرار بن صرد سے روایت ہے کہ یزید بن ہارون سے پوچھا گیا کہ سفیان ثوری اورابوحنیفہ میں زیادہ فقیہ کون ہے۔ توانہوں نے جواب دیا کہ زیادہ فقیہ تو ابوحنیفہ ہیں البتہ حفظ حدیث میں سفیان ثوری زیادہ ہیں۔ابن مبارک کہتے ہیں ابوحنیفہ تمام لوگوں نے میں سب سے زیادہ فقیہ ہیں۔ امام شافعی کا قول ہے کہ لوگ فقہ میں ابوحنیفہ کے محتاج ہیں۔ احمد بن محمد بن قاسم بن محرز نے یحیی بن معین سے امام ابوحنیفہ کے بارے میں نقل کیاہے۔ لاباس بہ اور وہ متہم نہیں تھے۔ان کویزید بن عمر بن ہبیرہ نے عہدہ قضاء قبول کرنے پر مجبو رکرناچاہا لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ابوداؤ(صاحب سنن ابوداؤ)کہتے ہیں بیشک ابوحنیفہ امام تھے۔ بشر بن ولید امام ابویوسف سے نقل نرکتے ہیں کہ میں ابوحنیفہ کے ساتھ چل رہاتھااسی درمیان کسی شخص نے کہاکہ ابوحنیفہ ہیں جو ساری رات سوتے نہیں ہیں(مراد پوری رات عبادت میں گزارتے ہیں)امام ابوحنیفہ نے فرمایاخدا کی قسم ایسا نہیں ہوگا کہ لوگ میرے بارے میں ایسی باتیں کریں جو میں نہیں کرتا اس کے بعد پورے رات نماز، دعا اورخدا کے حضور میں گریہ وزاری میں گزارنے لگے۔میں (حافظ ذہبی)کہتاہوں میں نے اس امام کے مناقب کو ایک جزء میں الگ سے ذکر کیاہے۔ان کی وفات رجب کے مہینہ میں 150ہجری میں ہوئی۔ انباناابن قدامہ اخبرنا بن طبرزاد اناابوغالب بن البناء اناابومحمد الجوہری اناابوبکر القطیعی نا بشر بن موسیٰ اناابوعبدالرحمن المقری عن ابی حنیفہ عن عطاء عن جابر انہ راہ یصلی فی قمیص خفیف لیس علیہ ازارولارداء قال:ولااظنہ صلی فیہ الا لیریناانہ لاباس بالصلاۃ فی الثوب الواحد
امام ابوحنیفہؒ کومشہور محدث عقیلی نے بھی اپنی کتاب ضعفاء میں ذکرکیاہے۔لیکن خود عقیلی نے صرف امام ابوحنیفہ کو ہی نہیں بلکہ کئی اورمشہور محدثین کا اپنی ضعفاء میں ذکر کیاہے اوربسااوقات ضعف کی وجہ صرف یہ بیان کی ہے کہ ان کی بیان کردہ حدیث کی متابعت نہیں ہوئی ہے۔اس پر حافظ ذہبی نے علی بن المدینی کے تذکرہ میں عقیلی پر سخت تنقید کرتے ہوئے لکھاہے 
 
’عقیلی کیاتمہیں عقل نہیں ہے کہ تم کس کے بارے میں بول رہے ہو،ہم نے تمہارے طریقہ کار کی پیروی صرف اسلئے کی ہے تاکہ ان پر لگائے گئے الزامات کو دفع کرسکیں اوراس کھوٹ کو واضح کریں جو ان کے بارے میں کہاگیاہے۔گویا تم نہیں جانتے کہ ان میں سے ہرایک(علی بن مدینی، اس کے شاگر دمحمد بن اسمعیل بخاری، اوان کے شیخ عبدالرزاق، عثمان بن شیبہ ،ابراہیم بن سعد،عفان ،ابان بن عطار، اسرائیل، ازہرسمان، بھز بن اسد ثابت بنانی جریر بن عبدالحمید)تم سے کئی گنازیادہ ثقہ ہے۔ بلکہ ان ثقات سے بھی کہیں زیادہ ثقہ ہے جن کاذکر تم نے اپنی کتاب میں نہیں کیاہے۔
 
اس کے بعد حافظ ذہبی نے ا س پر بحث کی ہے کہ اگرکسی راوی کی روایت پر متابعت نہیں ہوتی ہے تویہ اس کے ضعف کی علامت نہیں بلکہ اس کے زیادتی علم کی دلیل ہے۔
 
الرفع والتکمیل میں امام لکنوی نے ایک باب اس پر باندھا ہے کہ جرح کا منشا اگر تعصب، نفرت یا معاصرت وغیرہ ہے تواس کوقبول نہیں کیاجائے گا۔ اوراس بارے میں امام مالک کی مثال دی گئی ہے کہ ان کی جرح محمد بن اسحاق پر کہ وہ دجالوں میں سے ایک دجال ہیں قبول نہیں کیاگیا کیونکہ انہوں نے یہ جرح تب کی تھی جب محمد بن اسحاق نے ان کے نسب کے بارے میں کچھ کہاتھا۔اسی طرح امام نسائی کی جرح احمد بن صالح مصری اورسفیان ثوری کی جرح امام ابوحنیفہ کے بارے میں قبول نہیں کی گئی۔اورنہ ہی ابن معین کی امام شافعی کے بارے میں اورامام احمد بن حنبل کی جرح حارث محاسبی کے بارے میں اور ابن مندہ کی جرح ابونعیم الاصبہانی کے بارے میں قبول کی گئی ہے۔ امام ذہبی نے سیر اعلام النباء میں سمین مفسر ابوعبداللہ محمد بن حاتم البغدادی کے بارے میں ابوحفص فلاس کی جرح لیس بشیء ذکرکرنے کے بعد کہاہے کہ یہ معاصر کا کلام ہے جس کی جانب توجہ نہیں دینی چاہئے ۔ابوعبداللہ کی ثقاہت ثابت ہے اوروہ حجت ہیں۔امام ذہبی نے اسی طرح بہت سارے معاصرین کے کلام کو ایک دوسرے کے بارے میں ذکرکرے رد کیاہے جس کو تفصیل چاہئے وہ الرفع والتکمیل کا مطالعہ کرے۔
 
تاج سبکی نے طبقات الشافعیہ میں لکھاہے۔
’’اے راہ راست کے متلاشی تمہیں چاہئے کہ تم ان ائمہ علم وفن کے ساتھ جو گزر چکے ادب اورتکریم کا طریقہ اختیار کرواوران میں سے بعض نے بعض پر جو تنقید کی ہے اس کی جانب دھیان مت دو ۔مگر اسی وقت جب کہ جرح واضح دلیل کے ساتھ ہو،اس کے باوجود اگر تمہارے پاس اس بارے میں کوئی بہترتاویل اورحسن ظن ہوسکتی ہے تو وہ کرو ،اوراگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اسکی جانب دھیان نہ دے کر اسے چھوڑدو کیونکہ تم ا س کیلئے پیدانہیں کئے گئے ہو،اورخبردار تم اس جانب دھیان دو جو کہ ابوحنیفہ اورسفیان ثوری کے درمیان واقع ہوایاامام مالک اورابن ابی ذئب کے درمیان جو واقعہ ہوا،یااحمد بن صالح اورامام نسائی کے درمیان یااحمد بن حنبل اورحارث محاسبی کے درمیان اسی طرح یہاں تک کہ ساتویں صدی ہجری میں عزبن عبدالسلام اورتقی بن صلاح (ابن صلاح) کے درمیان جو حادثہ ہوا اگر تم ان واقعات میں دھیان دوگے تو اندیشہ ہے کہ ہلاک ہوجاؤ ۔یہ نابغہ روزگار شخصتیں تھیں اوران کے اقوال کے عمدہ محامل ہیں توہمیں چاہئے کہ ہم اس بارے میں سکوت اختیار کریں جیساکہ مشاجرات صحابہ کے بارے میں ہم کرتے ہیں۔
 
تاج سبکی نے ایک دوسرے مقام پر یہ بھی لکھاہے کہ ’اس سے مکمل پرہیزکرو اوریہ مت سمجھو کہ اصول حدیث کا یہ قاعدہ کہ جرح مقدم ہوتی ہے تعدیل پر، اپنے اطلاق پر ہے بلکہ اس بارے میں درست رائے یہ ہے کہ جس کی امامت وعدالت ثابت ہوچکی ہو، اوراس کی تعدیل کرنے والے زیادہ اورجرح کرنے والے کم ہوں اورکوئی ایسا قرینہ بھی ہوجس سے پتہ چل رہاہو کہ جرح کا منشاء تعصب یا کچھ دوسری چیز ہے توایسی جرح کی جانب دھیان نہیں دیاجائے گا۔
 
تاج سبکی نے ہی ایک اور جگہ لکھاہے ’یہ تم جان چکے کہ جرح اگر چہ مفسر ہو لیکن اس شخص کے حق میں قبول نہیں ہوگی جس کی نیکیاں گناہوں سے زیادہ ہوں، اوراس کی تعریف کرنے والے اس کی برائی بیان کرنے والوں سے زیادہ ہوں۔ اوراس کی تعدیل کرنے والے جرح کرنے والے زیادہ ہوں اورجرح پر ایسے قرائن بھی ہو جس سے پتہ چل رہا کہ اس جرح کا منشامذہبی تعصب(اس دور میں یہ مذہبی تعصب اصحاب رائے یعنی فقہ والے اورمحدثین کے درمیان پائے جانے والے اختلافات مراد ہیں)یا کوئی دنیوی امر ہے جیساکہ معاصرین یادوسروں میں ہوتاہے۔ ایسی حالت میں سفیان ثوری کی جرح امام ابوحنیفہ پر، ابن ابی ذئب کی امام مالک پر،ابن معین کی امام شافعی پر ،امام نسائی کی احمد بن صالح پر پر قبول نہیں کی جائے گی۔ کیونکہ اگر ہم جرح کو تعدیل پر مقدم رکھنے کا اصول علی الاطلاق مان لیں توپھر کوئی بھی امام ایسا نہیں ہوگا جس پر کسی نے تنقید نہ کی ہو۔ 
 
ابن حجر مکی نے خیرات الحسان فی مناقب النعمان کی 39 ویں فصل میں امام ابوحنیفہ کے جو مثالب خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں ذکر کیاہے اس کو مسترد کرتے ہوئے لکھاہے کہ جان لو کہ خطیب بغدادی کا ارادہ صرف مورخین کے طرز پر یہ تھا کہ جوکچھ امام ابوحنیفہ کے بارے میں کہاگیاہے اس کو نقل کردیاجائے۔اس سے ان کا ارادہ ہرگز یہ نہیں تھا کہ امام ابوحنیفہ کی تنقیص کی جائے یا ان کے مرتبہ کو گرایاجائے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے پہلے ان لوگوں کے اقوال ذکر کئے ہیں جنہوں نے امام ابوحنیفہ کے علم وفضل کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی تعریف کی ہے اورایسے اقوال زیادہ ہیں بہ نسبت ان اقوال کے جوان کے مثالب میں مذکور ہیں۔ اس کی ایک اوردلیل یہ بھی ہے کہ وہ اقوال جو امام ابوحنیفہ کے مثالب میں ہیں ان کی کوئی سند ایسی نہیں ہے جس میں کوئی راوی متکلم فیہ یا مجہول نہ ہو ۔ایسی سند کے اقوال سے تو ایک عام مسلمان کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہاجاسکتا چہ جائے کہ مسلمانوں کے اماموں میں سے ایک امام کے بارے میں ایسی سند سے کلام کیاجائے۔ اوراگر مان بھی لیاجائے کہ خطیب نے مثالب میں جواقوال ذکر کئے ہیں وہ صحیح ہیں تو وہ اس لئے قابل قبول نہیں ہے کہ اگر بعد والوں کے ہیں تو انہوں نے اپنے پیش رؤں کی تقلید کرتے ہوئے اسے نقل کیاہے جو ان کے معاصرین یاان سے نفرت کرنے والوں نے لکھاہے اوریہ بات واضح ہے کہ معاصر کا قول اپنے معاصر کے بارے میں مقبول نہیں ہے۔
علماء دورقدیم سے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کو امام اعظم کے لقب سے متصف کرتے چلے آرہے ہیں اورکسی نے بھی یہ اعتراض نہیں کیا کہ یہ تو غلو ہے اورامام اعظم تورسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔نہ کسی عالم کا اس جانب خیال آگیااورنہ ہی کسی نے اس پر لکھااورنہ ہی کسی نے اس کی تردید کرنے کی ضرورت محسوس کی ۔یہ سوچناہی رسول پاک کی توہین کے مترادف ہے کہ ائمہ اربعہ یاکسی عالم کی شان میں اگر کچھ لکھاجائے تواس کا موازنہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے کیاجائے۔
 
میں نے اس تحریر میں زیادہ تر کوشش کی ہے کہ امام ابوحنیفہ کے امام اعظم کے لقب زیادہ تر ان علماء کی تحریروں سے مقتبس کروں جو حنفی نہیں ہیں کیونکہ اگر اس بارے میں حنفی علماء کی تحریریں لی جاتی تووہ کہتے انہوں نے محبت میں غلوکیاہے اورحنفی ہونے کی وجہ سے امام ابوحنیفہ کو امام اعظم لکھ دیاہے۔
 
سمعانی نے انساب میں امام شافعی کے ذکر میں لکھاہے:
 
لعلہ مات فی یومھا الامام الاعظم ابوحنیفۃ رضی اللہ عنہ الوافی بالوفیات میں ہے۔
ابوحنیفہ جماعۃ منہم الامام الاعظم صاحب المذہب اسمہ النعمانتاریخ الدولۃ الرسولیہ جوابوالحسن علی بن حسن الخزرجی الزبیدی الیمنی متوفی812کی تصنیف ہے اس میں وہ لکھتے ہیں القاضی موفق الدین علی بن عثمان المطیب قاضیا علی مذہب الامام الاعظم رحمہ اللہ 
حافظ ذہبی اپنی مشہور عالم تصنیف تذکرۃ الحفاظ میں امام ابوحنیفہ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں 
ابوحنیفہ الامام الاعظم ،فقیہ العراق،نعمان بن ثابت بن زوطاالتیمی تذکرۃ الحفاظ/جلد 2
مشہور محدث محمد بن رستم بن قباد الحارثی البدخشی نے تراجم الحفاظ میں امام ابوحنیفہ کے بارے میں لکھاہے۔ النعمان بن ثابت الکوفی الامام الاعظم احمد الائمۃ الاربعۃ المتبوعین
محمد علی بن محمد علان بن ابراہیم الصدیقی العلوی الشافعی اپنی کتاب الفتوحات الربانیہ علی الاذکار النوویہ میں امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھتے ہیں۔ الامام ابوحنیفہ ہوالامام الاعظم والعلم المفرد المکرم امام الائمۃ عبدالوہاب شعرانی اپنی کتاب میزان الکبریٰ میں امام ابوحنیفہ سے مخالفین کے پھیلائے گئے شبہات کا رد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
فاولھم تبریا من کل رای یخالف ظاہرالشریعۃ الامام الاعظم ابوحنیفہ النعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ ،خلاف مایضیفہ الیہ بعض المتعصبین ویافضحۃ یوم القیامۃ من الامام
ایسانہیں ہے کہ صرف امام ابوحنیفہ کو ہی لوگوں نے امام اعظم کے لقب سے پکاراہو ۔
ابن قیم نے امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ کے تعلق سے کہانونیہ میں کہاہے۔ 
ھذاالذی نصت علیہ اَئمہ ال اسلام اہل العلم والعرفان
وہوالذی قصدالبخاری الرضی لکن تقاصر قاصر الاذہان 
عن فھمہ کتقاصر الافہام عن قول الامام الاعظم الشیبانی
اب پتہ نہیں امام اعظم کے لقب پر یہ سوچنے والے کہ امام اعظم تورسول پاک ہیں اس بارے میں کیاکہیں گے۔ہمیں بھی جواب کا انتظار رہے گا۔
امام اعظم کے لقب سے ملقب ہونے کی وجہ۔
اس بارے میں یہ بات سب جانتے ہیں کہ فقہ میں کوئی امام ابوحنیفہ کا مشارک اورہم رتبہ نہیں ہے۔امام شافعی نے بھی کہاہے کہ الناس عیال علی فقہ ابی حنیفہ ۔انہی سے یہ دوسراقول بھی منقول ہے کہ جو فقہ میں رسوخ حاصل کرناچاہتاہے وہ ابوحنیفہ کی فقہ کی جانب توجہ کرے۔ ویسے دیکھاجائے تو ائمہ اربعہ میں سے امام شافعی امام محمد کے شاگرد ہونے کی وجہ اورامام احمد بن حنبل کے امام شافعی اورامام ابویوسف کے شاگرد ہونے کی وجہ سے یہ بات متحقق ہے کہ ائمہ اربعہ میں سے دوامام امام ابوحنیفہ کے شاگردوں میں سے ہیں۔ جیساکہ علی طنطاوی نے ذکر یات میں ذکر کیاہے
 
قال الشيخ علي الطنطاوي رحمہ اللہ في كتابه الذكريات الجزء السابع ص 118 
الشافعي قرا على محمد (يقصد ابن الحسن) كتبہ الفقہيۃ فكان شبہ تلميذ لہ واحمد تلميذ الشافعي فمن ھنا كان ابو حنيفہ الامام الاعظم انتھى كلامہ رحمہ اللہ
لیکن اس کے علاوہ بھی امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے امام اعظم سے متصف ہونے کی دوسری وجوہات بھی ہیں جن کو علماء نے ذکر کیاہے۔ ان میں سے ایک توجیہ تویہ ہے کہ حنیفہ نے صاحبین یعنی امام ابوبوسف اورامام محمد بن حسن سے امام ابوحنیفہ کو ممتاز اورجداگانہ تشخص کیلئے ان کو امام اعظم کا لقب دیا ۔ جیساکہ علماء احناف پر لکھی گئی کتابوں سے واضح ہوتاہے۔
مجھے امید ہے کہ یہ چند سطریں جوجلدی میں تحریر کی گئی ہیں اس غلط فہمی کے ازالہ کیلئے کافی ہوں گی:
حوالہ : https://goo.gl/nDORRk
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
امام الاعظم ابى حنيفہ رحمه الله اور خطیب بغدادی کی کتاب (تاریخ بغداد) پرایک تحقیقی نظر
 
حافظ أبي بكر أحمد بن علي الخطيب البغدادي کی کتاب تاريخ بغداد چوده جلدوں میں ہے ، اس کتاب میں فقهاء ومحدثين وأرباب علوم وأئمہ دین ودیگرمشاہیر زمانہ کے تقریبا (7831 ) تراجم وسوانح واحوال بیان کیئے گئے ہیں ، اوریہ کتاب خطيب البغدادي کی أهم اوربڑی مشہورکتاب ہے ، کتاب میں تمام علماء بغداد کی تاریخ بیان کرتے ہیں ، مقدمة الكتاب میں وضاحت فرماتے ہیں کہ یہ تاریخ ان لوگوں پرمشتمل ہوگی،
تسمية الخلفاء والأشراف والكبراء والقضاة والفقهاء والمحدثين والقراء والزهاد والصلحاء والمتأدبين والشعراء من أهل مدينة السلام الذين ولدوا بها وبسواها من البلدان ونزلوها وذكر من انتقل عنها ومات ببلدة غيرها ومن كان بالنواحي القريبة منها ومن قدمها من غير أهلها
یعنی اس سلسلہ میں أهل مدينة السلام یعنی (بغداد) کے خلفاء ، واشراف ، وكبراء ، وقضاة ، وفقهاء ، ومحدثين ، وقراء، وزهاد ، وصلحاء ، ومتأدبين ، وشعراء کا تذکره ہوگا ، اورأهل مدينة السلام سے وه مراد ہیں جو وہاں پیدا ہوئے یا کسی دوسرے مقام سے آکر وہاں سکونت پذیر ہوئے ، اور وه جو بغداد کوچهوڑکر دوسری جگہ فوت ہوئے ، اوروه جواس کے قرب وجوارمیں ساکن تهے یا وہاں آکر رہے ، ان کی کنیت ، ان کا حسب نسب ، مشہور واقعات ، تاریخ وفات وغیره بقدر اپنی علم ومعرفت جمع کیئے ہیں الخ
یہ تو کتاب ” تاريخ بغداد ” سے متعلق بات تهی ، امام الأعظم أبى حنيفة رحمه الله سے متعلق خطيب البغدادي رحمہ الله جو کچهہ ذکرکیا ہے ، اصل بات میں نے وہی عرض کرنی ہے، خطيب البغدادي رحمہ الله نے تقریبا ( 44 ) چوالیس صفحات پرامام الأعظم أبى حنيفة رحمه الله کے فضائل ومناقب لکهے ہیں ، پهراس کے بعد وه اقوال لکهے ہیں جو امام صاحب کے خلاف منقول ہیں ، اوران اقوال کو نقل کرنے سے پہلے خطيب البغدادي رحمہ الله یہ تمہید بیان کی ہے۔
(( قال الخطيب وقد سقنا عن أيوب السختياني وسفيان الثوري وسفيان بن عيينة وأبي بكر بن عياش وغيرهم من الأئمة أخبارا كثيرة ٹضمن تقريظ أبي حنيفة والمدح له والثناء عليه والمحفوظ ثم نقله الحديث عن الأئمة المتقدمين وهؤلاء المذكورون منهم في أبي حنيفة خلاف ذلك وكلامهم فيه كثير لأمور شنيعة حفظت عليه متعلق بعضها بأصول الديانات وبعضها بالفروع نحن ذاكروها بمشيئة الله ومعتذرون إلى من وقف عليها وكره سماعها بأن أبا حنيفة عندنا مع جلالة قدره أسوة غيره من العلماء الذين دونا ذكرهم في هذا الكتاب وأوردنا أخبارهم وحكينا أقوال الناس فيهم على تباينها والله الموفق للصواب ))
خطيب البغدادي رحمہ الله فرماتے ہیں کہ:
ہم نے أيوب السختياني اورسفيان الثوري اورسفيان بن عيينة اورأبي بكر بن عياش وغيرهم أئمہ کرام سے أبي حنيفة رحمہ الله کی مدح وثناء وتعریف میں بیان کردئیے ہیں ، لیکن ناقلین حدیث کے یہاں ائمہ مذکورین کے ایسے اقوال بهی محفوظ ہیں جو مذکوره بالا بیان (یعنی امام الأعظم کے فضائل ومناقب ) کے خلاف ہیں ، اور انهوں نے اس بارے میں بہت کلام کیا ہے ، اوراس کلام کی وجہ وه امور شنیعہ ہیں جوان کے متعلق محفوظ کی گئ ہیں ، ان میں سے بعض تواصول دین سے متعلق ہیں اوربعض فروع سے متعلق ہیں ، ہم ان شاء الله ان کا ذکرکریں گے ، جولوگ اس کو (یعنی امام الأعظم کے مخالف اقوال) سننا ناپسند کریں توہم ان سے معذرت کرتے ہیں ، اس لیئے کہ ہم أبي حنيفة رحمہ الله کے جلالت قدر ( بلند مرتبہ) کے قائل ہیں ، لیکن ان کواس بارے میں دوسرے علماء کی طرح سمجهتے ہیں کہ ان (أبي حنيفة رحمہ الله) کے خلاف جوباتیں بیان کی گئ ہیں ان کوبهی ہم بیان کردیں جیسا کہ ہم نے دوسرے علماء کے ذکرمیں کیا ہے ۰ اهــ
یہ تمہید لکهنے کے بعد خطيب البغدادي رحمہ الله نے پهر وه اقوال نقل کیئے ہیں جو امام الأعظم أبى حنيفة رحمه الله کے خلاف بیان کیئے گئے ہیں اور یہ یاد رہے کہ یہ مخالف اقوال اور جَرحیں سب غیرمفسراورغیرمُبین السبب ہیں یعنی ان تمام جَرحوں کی کوئ وجہ اورسبب اورتفصیل وتشریح بیان نہیں کی گئ ہے بس صرف فلاں فلاں سے نقل کی گئ ہیں ، اسی طرح خود خطيب البغدادي رحمہ الله نے بهی ان مخالف اقوال اور جَرحوں کے ناقلین اور راویوں کی عدالت کی توثیق نہیں کی ہے ، لہذا یہ دونوں باتیں اہم ہیں یعنی جَرحیں سب غیرمُفسَّراورغیرمُبَینُ السَبَب ہیں اورخود خطیب نے ان کے راویوں کی توثیق نہیں کی ہے۔
امام الأعظم رحمہ الله پرکی گئ ان جَرحَوں پرایک تحقیقی نظر
 
اس بارے میں ان تمام جَرحَوں پرتحقیقی نظرڈالی جائے توبحث کے دو پہلو ہوسکتے ہیں ، نقلی اور عقلی ، نقلی بحث تو یہ ہے کہ خود خطیب بغدادی ان مخالف اقوال اورجَرحَوں صحت کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیئے تیارنہیں ہیں ، لہذا یہ مخالف اقوال اورجَرحَیں نقل کرنے سے پہلے خطیب بغدادی نے جوتمہید لکهی جو اوپر مذکور ہوئ وه تمہید اس بات کی شاہد ہے کہ خطیب بغدادی نے جَرحَیں نقل کرنے سے پہلے ومعتذرون إلى من وقف عليها وكره سماعها کہ کر معذرت کی ہے اورکہا کہ چونکہ یہ جَرحَیں امام الأعظم رحمہ الله کے خلاف روایت کی گئ ہیں اورتمام علماء کے متعلق وه مخالف وموافق امور نقل کرتے ہیں ، اس لیئے ان جَرحَوں کو بهی نقل کریں گے ، اوراس کے ساتهہ ساتهہ امام الأعظم رحمہ الله کی جلالت قدر وعلوشان کا اعلان واقراربهی کرتے ہیں بأن أبا حنيفة عندنا مع جلالة قدره أسوة ، اب ظاہر ہے کہ اگر ان مخالف اقوال اورجَرحَوں میں سے فروع یا عقائد سے متعلق کوئ بهی جَرَح یقینی طور پر خطیب بغدادی کے نزدیک ثابت وصحیح ہوتی تو امام الأعظم رحمہ الله کی جلالت قدر وعلوشان کا اعلان واقرار کیوں کرتے ؟؟
اورپهر مزید یہ کہ خطیب بغدادی یہ مخالف اقوال اورجَرحَیں کے نقل کرنے کے بعد جابجا ان کے اوپر تردیدی اقوال بهی بیان کرتے ہیں حالانکہ جَرَح کے باب میں تعدیل کا موقع نہیں ہوتا کیونکہ تعدیل ومناقب وفضائل کا باب تو ختم ہوچکا ہے ، مثلا خلق قرآن ( قرآن کے مخلوق) کا عقیده کی روایت نقل کرنے کے بعد خطیب بغدادی نے امام احمد بن حنبل رحمہ الله کا یہ قول اس کی تردید میں نقل کیا لم يصح عندنا أن أبا حنيفة كان يقول بخلق القرآن ، یعنی امام احمد بن حنبل رحمہ الله فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ قول صحیح نہیں ہے کہ أبوحنیفہ قرآن کے مخلوق ہونے کے قائل تهے ، اسی طرح ایک جگہ امام احمد بن حنبل رحمہ الله کی طرف جوجَرَح امام الأعظم رحمہ الله کے کذاب ہونے کی منسوب ہے اس کونقل کرنے کے بعد خطیب بغدادی نے لکها کہ يحي ابن مُعين (إمامُ الجرح والتعديل) سے پوچها گیا کہ آیا أبوحنیفہ ثـِقـَه ہیں ؟؟ تو يحي ابن مُعين (إمامُ الجرح والتعديل) نے جواب دیا قـال نعـم ثـقــة ثـقــة ، ہاں ثـِقـَه ہیں ثـِقـَه ہیں، اور دوسری اہم بات یہ کہ امام احمد بن حنبل رحمہ الله نے اپنی مُسند میں امام الأعظم رحمہ الله کی حدیث بهی نقل کی ہے اور امام احمد بن حنبل رحمہ الله نے اپنی مُسند میں بے اصل احادیث کونقل نہیں کیا اس لیئے اگر وه کذاب سمجهتے تو ان کی حدیث کیوں نقل کرتے ؟؟ (حدیث ملاحظہ کریں مسند بریده ج 5 ، ص 35 ) لہذا خطیب بغدادی کے اس اندازپرغورکرنے کے بعد یہ بات أظهرمن الشمس ہوجاتی ہے کہ خطیب بغدادی نے امام الأعظم رحمہ الله کے مخالف اقوال وجَرحیں نقل کرنے میں محض اپنا مُؤرخَـانہ فرض ادا کیا ہے وه خود ان کے قائل نہیں تهے یا یہ کہیئے کہ وه خود ان کی رائے وفیصلہ نہیں ہے جیسا کہ خطیب بغدادی کی مذکوره بالا تمہید وطرزبیان سے واضح ہے۔اسی طرح علماء امت نے امام الأعظم رحمہ الله پرطعن وجرح کرنے والوں پرمستقل کتب کی صورت میں مُدلل ومفصل رد وجواب بهی لکها ہے ، اورخود خطیب بغدادی کی نقل کرده ان جَرحوں کی رد میں مستقل کتب لکهی گئ ہیں ، مثلا جوکتب میری نظرسے گذری ہیں وه درج ذیل ہیں:
خطیب بغدادی کی رد میں لکهی گئ علماء امت کی مستقل کتابیں
الكتب المؤلفة في الرد على الخطيب البغدادي
 
1 = مقدمة كتاب جامع مسانيد الإمام الأعظم ، للخطيب الخوارزمي 
 
2 = ألسهم المصيب في الرد على الخطيب ، لابن الجوزي 
3 = ألسهم المصيب في كبد الخطيب ، للملك المعظّم أبي المظفر عيسى بن سيف الدين أبي بكر بن ايوب الحنفي 
4 = ألإنتصار لإمام ائمة الأمصار ، لسبط ابن الجوزي 
5 = تنوير الصحيفة بمناقب الإمام أبي حنيفة ، لابن عبدالهادي الحنبلي 
6 = السهم المصيب في نحر الخطيب ، للإمام السيوطي 
7 = تأنيب الخطيب على ما ساقه في ترجمة أبي حنيفة من الأكاذيب ، للعلامـة محمد زاهد الكوثري ، رحمهم الله جميعـــا۔
خطیب بغدادی کی نقل کرده جرحوں کی رد وجواب میں مذکوره کتابوں کے لکهنے والے سب کے حنفی نہیں ہیں ، بلکہ امام سيوطي شافعي المسلک ہیں ، اورخود خطیب بغدادی بهی شافعي المسلک ہیں ، اور امام ابن الجوزي حنبلي المسلک ہیں ، ، اسی طرح علامہ ابن عبدالهادي حنبلي المسلک ہیں ، ، توان اقوال اورجرحوں کے جهوٹ وباطل ہونے کی اس سے بڑهہ کرکیا شہادت چائیے کہ خود اپنے مسلک کے علماء نے اوراسی طرح احناف کے علاوه دیگر مسالک کے علماء نے مستقل کتب لکهہ کر خطیب بغدادی کی منقولہ جرحوں کو باطل وبے اصل قراردیا ،
اسی طرح کتاب مكانة الإمام أبي حنيفة بين المحدثين. للشيخ محمد قاسم عبده الحارثي، اور علامہ خوارزمي کی کتاب جامع مسانيد الإمام الأعظم کی مقدمہ میں اورامام ابن حجر الهيتمي رحمه الله کی کتاب الخيرات الحسان میں ، اور کتاب عقود الجمان في مناقب الإمام الأعظم أبي حنيفة النعمان ، میں اور اسی طرح العلامة المحدث الناقد المحقق البارع الفقيه الشيخ محمد عبد الرشيد النعماني رحمہ الله کی کتاب مكانة الإمام أبي حنيفة في الحديث: میں بهی ان تمام جرحوں کا کافی وشافی رد وجواب موجود ہے ، اوربالخصوص الشيخ العلامة المحدث المحقق عبدالفتاح أبوغدة رحمه الله کی تمام تحقیقات اس بارے میں لاجواب ہیں۔
 
حـــاصل كــــــلام
 
امام الأعظم أبوحنيفه رحمه الله کے جوفضائل ومناقب واوصاف خطیب بغدادی  (متوفی 681ھ/1282ء نے بیان کیئے ہیں ، ان میں سب سے بڑا شرف ومرتبہ تو آپ کی تابعیت کا ہے ، اس کے بعد کمال درجہ عقل وفہم وذہانت وفطانت کے ساتهہ ساتهہ تمام علوم وفنون میں تبحر امام الأعظم أبوحنيفه رحمه الله کے خاص اوصاف ہیں ، خود خطیب بغدادی نے امام الأعظم کی تیزفہمی وباریک بینی وکمال عقل وفہم کے بیان میں مستقل باب قائم کیا ، اسی طرح امام الأعظم کا تجارت وکاروبار بهی تها تو اس سلسلہ میں حُسن معاملہ ، امانت ودیانت ، بہترین تاجرانہ اوصاف وغیره بیان کرنے کے لیئے بهی خطیب بغدادی نے حُسن معاملہ کے بیان میں مستقل باب قائم کیا ، اسی طرح امام الأعظم کی عبادت وریاضت و ورع اور شب بیداری ، وتلاوت قرآن کی کثرت ، وعلم وفضل وفقاہت ، اورحق پراستقامت وپختگی ، وغیره اوصاف وخصائص بیان کرنے کے لیئے بهی خطیب بغدادی نے مستقل ابواب قائم کیئے ہیں ، توایسے جامعُ الصفات وکثیرُالمناقب شخص کے ساتهہ کسی کی طرف سے تعصب وحسد کا ہونا کوئ بعید بات نہیں ہے ،بلکہ دیگرائمہ اسلام کے ساتهہ بهی یہی ہوا ہے ،
اوربقول علامہ ابن عبدالبَر رحمہ الله کہ امام عبدالله ابن المبارک رحمہ الله سے پوچها گیا کہ فلاں شخص ابوحنیفہ رحمہ الله پراعتراض کرتا ہے ، تو امام عبدالله ابن المبارک رحمہ الله یہ شعر پڑها
 
حـسدوك ان رأوك فضلك الله ، بمـا فضلت به النجبـــاء
 
لوگوں نے یہ دیکهہ کرتجهہ سے حسد کیا کہ الله تعالی نے تجهہ کو فضیلت ومرتبہ دیا جو کہ شرفاء کو دیا جاتا ہے ،
 
اسی طرح مسائل شرعیہ میں امام الأعظم کی تحقیق اوراجتہاد بهی بعض معاصرین کی فہم سے بالا ترثابت ہوا تو فہم کی نارسائ اختلاف کا باعث ہوئ اورپهراس اختلاف نے جرح کا رنگ اختیار کردیا ، اورپهر اختلاف اجتہاد کی بنیاد پرجرح ائمہ جرح وتعدیل کے یہاں نامقبول ہے ، اسی طرح حسد ومذهبی تعصب وغیره امورمیں بهی جرح نامقبول ہوتی ہے ، اور امام الأعظم کے خلاف جرحیں بهی تقریبا سب اسی قبیل سے ہیں۔ اورسب سے بڑهہ کر یہ کہ امام محمد رحمہ الله سے لے کر علامہ ابن عابدین شامی رحمہ الله تک ہزاروں کبارحنفی علماء کی بےشمار کتب وتصانیف فروع وعقائد میں موجود ہیں ، ان کتب کی بنیاد پر دیکها جائے کہ جو غلط عقائد ومسائل امام الأعظم کی طرف منسوب کیئے گئے وه کہاں ہیں؟
 
آج بهی بے شمار احناف اہل اسلام پوری دنیا میں موجود ہیں ان میں سے کوئ بهی خلق قرآن ، ارجاء ، وغیره غلط عقائد ومسائل کا قائل نہیں ہے ، اس سے صاف ظاہر ہے کہ امام الأعظم پر جرح وطعن کی بنیاد یا تو غلط فہمی ہے ، یا حسد وتعصب ، اورظاہر ہے ان دونوں بنیادوں پر جوعمارت قائم ہوگی تو وه کبهی دیرپا نہیں ہوسکتی ، چنانچہ یہی ہوا سُوء فہم اورحسد وتعصب کے غُبار چهَٹ جانے کے بعد أصـول حديث اور عـلم رجال وعلم جرح وتعـديل کے أئمہ نے امام الأعظم کے خلاف کی گئ جرحَوں کو بالاتفاق بے اصل وغیرمقبول وباطل قراردیا۔
أعد ذكر نعمان لنا إن ذكره * هو المسك ما كررته يتضوع
أعد ذكر نعمان لنا إن ذكره * هو المسك ما كررته يتضوع
نحن قوم ذنوبنا للأعادي *** أخذوها بغيبة وانتقاد
وأخذنا طاعاتهم بازدراء *** وعتو في حقنا وعناد
كيف لا نرتقي عليهم ونعلو *** ونُرى كل ساعة في ازدياد
وهم العاملون خيرا لنا إن *** عملوا، لانتهاك حق العباد
وهم الغاسلون للذنب عنا *** مثل بالوعة لنفي فساد
ولهم كل ساعةٍ حربً شركٍ *** واعتراض على عطاء الجواد
ولنا صبرُ ذي الكمال عليهم *** ولنا بالدعاء ثواب جهاد
خلهم يا أخا المودة فينا *** يطعنوا إن الله بالمرصاد
(syed imaad ul deen, samandri )
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=64168
 
حضرت امام ابو حنیفہ اور سفیان ثوری ​
حضرت امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو امام صاحب سے ہمسری کا دعویٰ تھا پھر بھی وہ امام صاحب کے علوم سے بے نیاز نہ تھے انہوں نے بڑے لطائف الحیل سے کتاب الرہن کی نقل حاصل کی اور اس کو اکثر پیش نظر رکھتے تھے ،زائدہ کا بیان ہے کہ میں نے ایک دن سفیان کے سر ہانے ایک کتاب دیکھی جس کا وہ مطالعہ کر رہے تھے ان سے اجازت لے کر میں اسکو دیکھنے لگا تو امام ابو حنیفہ کی کتاب الرہن نکلی ، میں نے تعجب سے پو چھا کہ کہ آپ ابو حنیفہ کی کتابیں دیکھتے ہیں ؟ بولے کاش ان کی سب کتابیں میرے پاس ہو تیں .( عقود الجمان باب عاشر)
حسن بن مالک کا قول ہے کہ امام ابو یوسف فر مایا کرتے تھے ،کہ سفیان ثوری مجھ سے زیادہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا اتبار کر نے والے ہیں ،حضرت علامہ عثمانی نے لکھا ہےکہ اس امر کا ثبوت جامع تر مذی کے مطالعہ سے ہو سکتا ہے . ( مقدمہ فتح الملہم)
 
اس کے علاوہ حضرت ابو بعیم اصبہانی نے بھی کچھ روایات امام اعظم کی شان کے خلاف نقل فرمادی ہے جن کے راوی درجہ اعتبار سے ساقط ہیں ،کیا اچھا ہوتا ایسے بڑے لوگ جو روایت حدیث کے وقت بال کی کھال نکالتے ہیں اور کسی طرح کے شک وشبہ کے پاس بھی نہیں پھٹکتے ایک ایک لفظ کو جانچ تول کر اور کسوٹی پر کس کر نقل کرتے ہیں امام اعظم ایسی عظیم و جلیل شخصیتوں کے بارے میں بھی اپنی محتاط روش کو بے داغ رکھتے تا کہ جواب دینے والے بضرورت جواب بھی اپنے محبوب ومحترم امام بخاری یا محدث ابو نعیم کےمتعلق کسی ادنیٰ سے ادنیٰ شکوہ بے احتیاطی وغیرہ پر بھی مجبور نہ ہوتے ،یہ ظاہر ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی جلالت قدر کو وہ حضرات ہم سے بھی زیادہ جانتے پہچانتے تھےاور ہم سے زیادہ ان کے دلوں میں ان کی قدر ومنزلت تھی .یہی وجہ ہے کہ محدث ابو نعیم اصبہانی نے امام اعظم کی مسانید کے 17 یا 21 روایت کر نے والوں میں سے ایک ہیں ،اور امام بخاری امام اعظم کے شاگردوں کے شاگر د ہیں .امام بخاری حضرت بن المدینی کے شاگر ہیں اور فر ماتے ہیں کہ میں نے علمی اعتبار سے اپنے آپ کو کسی سے حقیر وکمترنہیں سمجھتا بجز علی بن مدینی کے ( تہذیب التہذیب) 
اور یہ علی بن مدینی یحییٰ بن سعید القطان کے شاگرد ہیں جوہر مضیہ میں ہے حضرت یحیٰی نماز عصر کے بعد مینارہ مسجد سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے تھے اور امام احمد ،یحیی بن معین اور علی بن مدینی ان کے سامنے کھڑے ہو کر حدیثی سوالات کیا کرتے تھے اور نماز مغرب تک اسی طرح کھڑے کھڑے جواب سنتے تھے نہ وہ ان سے بیٹھنے کیلئے فر ماتے تھے اور نہ یہ ان کی عظمت وہیبت کی وجہ سے بیٹھتے تھے ،یہ حضرت یحییٰ القطان با وجود اس فضل وکمال کے امام اعظم کے حلقہ درس میں اکثر شریک ہو تے تھے اور ان کی شاگردی پر فخر کرتے تھے اور اکثر مسائل میں امام صاحب ہی کی تقلید کی ہے خود کہتے ہیں قد اخذنا باکثر اقوالہ ( تہذیب التہذیب ترجمہ امام ابو حنیفہ) تذکرۃ الحفاظ میں ذہبی نے وکیع بن الجراح کے ذکر میں لکھا ہے کہ وہ اور یحییٰ القطان دونوں امام ابو حنیفہ کے اقوال پر فتویٰ دیا کرتے تھےاور یحییٰ بن معین نے اسی طرح لکھا ہے پھر امام اعظم کے بعد بواسطہ ابن مبارک بھی امام اعظم کے شاگرد رہے ہیں ، نیز علی بن المدینی معلیٰ بن منصور کے بھی شاگرد ہیں اور وہ امام اعظم کے شاگرد ہیں اسی طرح اور بہت سے اساتذہ وشیوخ ہیں کہ ان کے واسطوں سے امام بخاری کو امام اعظم کے علمی فیوض وبر کات پہنچے ہیں اور امام بخاری نے بیسوں مسائل میں امام اعظم کی موافقت کی ہے .
اس کے بعد تیسرے نمبر پر خطیب بغدادی کا ذکر بھی مناسب ہے کہ انہوں نے تاریخ بغداد میں سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر امام اعظم کی شان رفیع کے خلاف بے سرو پا روایات کا ایک ڈھیر لگا دیا ہے جن کی تعداد تقریبا ڈیڑھ سو تک پہنچادی ہے ،اس کے جواب میں ملک معظم عیسیٰ بن ابی بکر ایوبی نے السہم المصیب فی کبد الخطیب لکھا اور ہمارے استاذ محترم حضرت شاہ صاحب قدس سرہ کو بڑی تمنا تھی کہ وہ چھپ جائے لیکن جب طبع ہو کر آئی تو اسکو جیسا خیال تھا نہ پایا، اس کے علاوہ سبط ابن الجوزی نے الانتصار لام ائمۃ الامصار دو جلدوں میں تا لیف کی اور خطیب کا پورا رد کیا اور ابو لمؤید الخوارزمی نے مقدمہ جامع المسانید میں بھی اچھا رد کیا ہے لیکن آخر میں حضرت الاستاذ المحترم شیخ محمد زاہد الکوثری قدس سرہ نے جو کافی وشافی رد لکھا وہ یقینا سب پر فائق ہے اس کا نام ‘تانیب الخطیب علیٰ ماساقہ فی تر جمۃ ابی حنیفہ من الاکاذب’ ہے یہ لاجواب کتاب قابل دید ہے جس میں ایک چیز کا روایت ودرایت سے جواب لکھا ہے اور تحقیق وتدقیق کی پوری پوری داد دی ہے اور الحند للہ امت پر جو خطیب کے جواب کا قرض تھا اس کو انہوں نے پورا پورا ادا کر دیا ہے . (انوا الباری شرح بخاری جلد اول ص 142تا 143)
———————————————–
نعیم بن حماد  کی جرح  

Abū ‘Abd Allāh Nu‘aym bin Ḥammād al-Khuzā‘ī al-Marwazī (Arabic: أبو عبد الله نعيم بن حماد الخزاعي المروزي‎‎; (Died 228 AH / 843 AD) in Samarra. His scientific work as a collector of hadith falls within the period before the drafting of the first major canonical tradition collections . He was followed by, among others, al-Bukhari Hadith and processed them in his “Sahih”. Nu’aim ibn Hammaad studied and taught first in Basra, then moved to Egypt, where he lived for forty years. A Spanish historian at at-Tahawi studied in Egypt, says of him: “For him there were two Korans. What is on the table, is the word of God; but what keep people in their hands is created. The term “table” is here an allusion to the Koran site: Consequently, he refused during the Mihna that createdness the Qur’an al-Khalq Quran / خلق القرآن / Halq al-Qur’ān and other teachings of the Mu’tazilah recognized and has therefore been deported with other magicians of Egypt to Baghdad. He died in prison in Samarra in Baghdad.
نعیم بن حماد ثقہ ہے یا نہیں
قال ابْن حَمَّاد قَالَ غيره كَانَ يضع الحديث فِي تقوية السنة وحكايات عن العلماء فِي ثلب أبي حنيفة مزورة كذب.
الکامل 8۔251 ط العلمیۃ 
 
“غیرہ” سے مراد غیر احمد بن شعیب ہیں۔ ہو سکتا ہے اس پر یہ اعتراض ہو کہ یہاں جارح مجہول ہے۔ لیکن اس جرح کو اسی جہالت کے ساتھ ابن عدی اور ذہبی نے ذکر کیا ہے۔
لیکن اس جرح کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے جسے ذہبی نے سیر میں ذکر کیا ہے:
ثُمَّ قَالَ ابْنُ عَدِيٍّ: ابْنُ حَمَّادٍ مُتَّهَمٌ فِيْمَا يَقُوْلُ؛ لِصَلاَبَتِهِ فِي أَهْلِ الرَّأْيِ (2) .
وَقَالَ لِي ابْنُ حَمَّادٍ: وَضَعَ نُعَيْمٌ حَدِيْثاً عَنْ عِيْسَى بنِ يُوْنُسَ، عَنْ حَرِيْزِ بنِ عُثْمَانَ -يَعْنِي: فِي الرَّأْيِ-.
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نعیم کا یہ فعل صرف ابو حنیفہؒ کے خلاف نہیں تھا بلکہ وہ اہل الرائے کے بارے میں ایسے متشدد تھے کہ حدیث گھڑنے سے بھی نہیں چوکتے تھے۔
اسی لیے ذہبی نے اپنا فیصلہ یوں دیا ہے:
قُلْتُ: لاَ يَجُوْزُ لأَحَدٍ أَنْ يَحْتَجَّ بِهِ، وَقَدْ صَنَّفَ كِتَابَ (الفِتَنِ) ، فَأَتَى فِيْهِ بِعَجَائِبَ وَمَنَاكِيْرَ.
سیر اعلام النبلاء 10۔609 ط رسالہ 
امام ذہبیؒ کا ان کے بارے میں صریح قول ہے جو میں نے ما قبل میں سیر کے حوالے سے عرض بھی کیا ہے:
قُلْتُ: لاَ يَجُوْزُ لأَحَدٍ أَنْ يَحْتَجَّ بِهِ
اشکال 
مام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
نعيم بن حماد الخزاعي المروزي الفرضي الحافظ أحد علماء الأثر سمع أبا حمزة السكري وهشيما وطبقتهما وصنف التصانيف وله غلطات ومناكير مغمورة في كثرة ما روى[العبر في خبر من غبر 1/ 405] 
جواب 
“میں کہتا ہوں: کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ان سے دلیل پکڑے۔”
اس صریح قول کی موجودگی میں تاویلات کر کے انہیں ذہبی کے نزدیک ثقہ ثابت کرنا کوئی بہتر چیز نہیں ہے۔
…………………………………………………………………

مام ابوحنیفہ اہل حدیث علماء کی نظر میں

مفتی امانت علی قاسمی، حیدر آباد، دکن

  

امام اعظم ابوحنیفہ اس امت کے منتخب اور چنندہ افراد میں شمار کیے جاتے ہیں، اپنے علم ، تقویٰ، عمل، اخلاق، تواضع وانکساری، جود وسخاوت، بلند نظری، مخلوق کی ہم درد وی غم خواری، پاکیزہ صحبت وعلم وعلماء کی بے غرضا نہ خدمت عظیم کی بنا پر الله تعالیٰ نے آپ کو عزت کے آسمان اور شہرت کے ثریا پر پہنچا دیا، آپ کی زندگی، آپ کی خدمات، آپ کی فکر نے بہت سوں کے لیے فکر وعمل اور غور وتدبر کے دروازے کووا کر دیا، آپ باتفاق امت مجتہد مطلق تھے اور ائمہ مجتہدین میں مختلف حیثیتوں سے آپ کو تفوق حاصل تھا، آپ کی مجتہدانہ رجال سازی نے مجتہدین کی ایک جماعت تیار کر دی، فقہ وحدیث میں گہری واقفیت نے فقہ کے دائرے کو بہت وسیع کیا اور ایک ایسی فقہ وجود میں آئی جس سے آج بھی امت کا سواد اعظم استفادہ کر رہا ہے ، آپ کی عظمت شان اور جلالت مکان کو بڑے بڑے اساطین علم وفضل نے تسلیم کیا ہے ، فقہ وحدیث کے تاج داروں نے آپ کو فقہ وحدیث کا امام اعظم مانا ہے اور آپ کی گونا گوں صفات اور علمی تبحر کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے، یہی نہیں کہ ائمہ احناف یا علمائے احناف نے ہی آپ کی سوانح تحریر کی ہے، بلکہ آپ کے سوانح نگاروں میں زیادہ تر فقہ مالکی اور فقہ شافعی کے متبعین اور پیروکار شامل ہیں، جنہوں نے صاف اور واضح لفظوں میں امام صاحب کے علمی کمالات اور ان کی صاف وشفاف زندگی کو تاریخ بناکر پیش کیا ہے، امام صاحب کے سوانح نگاروں میں زیادہ تر حضرات نے امام صاحب کے صرف ایجابی پہلو کو ذکر کیا ہے اور امام صاحب کی خدمات کا اعتراف کیا ہے، جب کہ بعض مصنفین نے، جیسے خطیب وغیرہ، ہر طرح کے رطب ویابس کو لکھ کر امام صاحب کے بعض نقائص کو ذکر کیا ہے اور بہت سے بے جا الزامات اور غلط خیالات کو امام صاحب کی طرف منسوب کیا ہے، جس کی کوئی دلیل اور صحیح سند کبھی پیش نہیں کی جاسکتی ، اسی کے ساتھ بہت سے منصف اہل علم اور مؤرخین نے امام صاحب کی طرف منسوب ان اعتراضات اور الزامات کا جائزہ لے کر امام صاحب کی طرف سے صفائی پیش کی ہے اور آپ کو ان الزامات سے بری ہونے کا سر ٹیفکیٹ دیا ہے۔
 
ہم یہاں پر امام صاحب پر جرح کی حقیقت کا مختصر جائزہ اور امام صاحب کے سلسلے میں چند اہل علم کی آرا کو نقل کرکے اصل موضوع کو شروع کریں گے۔
 
امام صاحب پر جرح کی حقیقت
امام صاحب کے بعض سوانح نگاروں نے امام صاحب کی طرف عقائد و فروعات سے متعلق بعض ایسی باتیں نقل کی ہیں جن سے امام صاحب بالکل بری ہیں، بہت سے منصف اہل قلم نے امام صاحب کی طرف سے دفاع کیا ہے اور اس کے جوابات لکھے ہیں ، امام صاحب کی طرف خلق قرآن ، قدر وارجاء وغیرہ کے الزامات لگائے گئے ہیں، شیخ طاہر پٹنی صاحب ”مجمع البحار“ اس کے متعلق فرماتے ہیں: امام ابوحنیفہ کی طرف ایسے اقوال منسوب کیے گئے ہیں جن سے ان کی شان بالاتر ہے ،وہ اقوال خلق قرآن، قدر، ارجا، وغیرہ ہیں، ہم کو ضرورت نہیں کہ ان اقوال کے منسوب کرنے والوں کا نام لیں، یہ ظاہر ہے کہ امام ابوحنیفہ کا دامن ان سے پاک تھا، الله تعالیٰ کا ان کو ایسی شریعت دینا جو سارے آفاق میں پھیل گئی اور جس نے روئے زمین کو ڈھک لیا اور ان کے مذہب وفقہ کو قبول عام دینا ان کی پاک دامنی کی دلیل ہے، اگر اس میں الله تعالیٰ کا سر خفی نہ ہوتا نصف یا اس سے قریب اسلام ان کی تقلید کے جھنڈے کے نیچے نہ ہوتا۔ (مجمع البحار بحوالہ امام ابوحنیفہ ور ان کے ناقدین، ص:52)
 
امام صاحب پر جس طرح کا بھی جرح کیا گیا ہے اس کی حقیقت معاصرانہ چپقلش، غلط فہمی اور جہالت، یا تعصب وحسد ہے، ورنہ امام صاحب کی زندگی ان الزامات سے آئینہ کی طرف صاف وشفاف ہے، مولانا سرفراز خان صفدر صاحب ”مقام ابوحنیفہ“ میں اس سلسلے میں فرماتے ہیں:
 
حضرت امام ابوحنیفہ کے بارے میں جن جن حضرات نے کلام کیا ہے یا تو وہ محض تعصب اور عناد وحسد کی پیداوار ہے، جس کی ایک پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں ہے اور بعض حضرات نے اگرچہ دیانةً کلام کیا ہے، مگر اس رائے کے قائم کرنے میں جس اجتہاد سے انہوں نے کام لیا ہے وہ سرسرا باطل ہے، کیوں کہ تاریخ ان تمام غلط فہمیوں کو بیخ وبن سے اکھاڑ رہی ہے، اس لیے ان حوالجات سے مغالطہ آفرینی میں مبتلا ہونا یا دوسروں کو دھوکہ دینا انصاف ودیانت کا جنازہ نکالنا او رمحض تعصب اور حسد وغیبت جیسے گناہ میں آلودہ ہونا ہے۔ ( مقام ابی حنیفہ ص:272)
 
خطیب نے عبد بن داؤد کے حوالے سے نقل کیا ہے:
”الناس فی أبی حنیفة رجلان: جاھل بہ، وحاسد لہ․“
امام صاحب کے سلسلے میں لوگوں کی دو قسمیں ہیں یا تو امام صاحب کے فضل وکمال سے ناواقف ہیں یا ان سے حسد کرتے ہیں۔ (تاریخ بغداد:13/346)
 
خطیب کے جرح کی حقیقت
امام صاحب پر جن لوگوں نے جرح کیا ہے او رامام صاحب کی طرف مطاعن ومعایب کو منسوب کیا ہے اس میں سر فہرست خطیب بغدادی ہیں، بعد میں زیادہ تر حضرات نے خطیب کی عبارتوں سے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن خطیب کے جرح کی حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں بعض حضرات کی رائے تو یہ ہے کہ خطیب نے مدح وذم کی تمام روایات کو ذکر کرکے اپنے مؤرخانہ فریضہ کو انجام دیا ہے، اس میں انہوں نے روایت کی صحت وغیرہ پر زور نہیں دیا ہے ، خود خطیب ان کے قائل نہیں تھے اور نہ ہی یہ خطیب کی اپنی رائے تھی، بعض جرح کو نقل کرکے خطیب نے امام صاحب کا دفاع بھی کیا ہے، مثلاً جنت وجہنم کے غیر موجود ہونے کی جرح نقل کرکے خطیب کہتے ہیں: قول بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ خودراوی ابو مطیع اس کا قائل تھا، ابوحنیفہ نہ تھے، جب کہ بہت سے حضرات کی رائے یہ ہے کہ اگرچہ یہ خطیب کی اپنی رائے نہیں، لیکن خطیب کو ان اقوال کے نقل کرنے سے احتراز کرنا چاہیے تھا، انہو ں نے امام صاحب کے متعلق ان باتوں کو لکھ کر گویا اپنی کتاب کی استنادی حیثیت کو کم کر دیا ہے، حافظ محمد بن یوسف الصالحی الشافعی ۔ (المتوفی942ھ) فرماتے ہیں:
حافظ ابوبکر خطیب بغدادی نے امام ابوحنیفہ کے بارے میں جو مخل تعظیم باتیں نقل کی ہیں ان سے دھوکہ نہ کھانا، خطیب بغدادی نے اگرچہ پہلے مدح کرنے والوں کی باتیں نقل کی ہیں، مگر اس کے بعد دوسرے لوگوں کی باتیں بھی نقل کی ہیں، سو اس وجہ سے انہوں نے اپنی کتاب کو بڑا دغ دار کر دیا ہے او ر بڑوں او رچھوٹوں کے لیے ایسا کرنے سے وہ ہدف ملامت بن گئے ہیں اورانہوں نے ایسی گندگی اچھالی ہے، جو سمندر سے بھی نہ دھل سکے۔ (عقودالجمان بحوالہ مقام ابی حنیفہ ، ص:270)
 
قاضی القضاة شمس الدین ابن خلکان الشافعی(م861ھ) خطیب بغدادی کی اس غلط طرز گفتگو پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
خطیب نے اپنی تاریخ میں امام صاحب کے بارے میں بہت سے مناقب ذکرکیے، اس کے بعد کچھ ایسی ناگفتہ بہ باتیں بھی لکھی ہیں جن کا ذکر نہ کرنا اور ان سے اعراض کرنا بہت ہی مناسب تھا؛ کیوں کہ امام اعظم جیسی شخصیت کے متعلق نہ تو دیانت میں شبہ کیا جاسکتا ہے اور نہ ورع وحفظ میں ، آپ پر کوئی نکتہ چینی بجز قلت عربیت کے اور نہیں کی گئی ہے۔ (تاریخ ابن خلکان2/165)
 
خطیب اور چند دیگر حضرات کے علاوہ زیادہ تر مصنفین اور مؤرخین ائمہ جرح وتعدیل اور ائمہ حدیث نے امام صاحب کے فضائل ومناقب کو انصاف کے ساتھ ذکرکیا ہے اور کسی قسم کی جرح کو ذکر نہیں کیا ، بلکہ صرف مناقب پر اکتفا کیا ہے، نمونے کے طور پر چند اسماء الرجال کی کتابوں اور چند ائمہ حدیث کے اقوال کو یہاں مختصرا ذکر کیا جاتا ہے، امام ذہبی نے تذکرہ الحفاظ میں، حافظ ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں ، حافظ صفی الدین خزرجی نے خلاصة تذہیب تہذیب الکمال میں ، علامہ نووی نے تہذیب الاسماء واللغات میں ، امام یافعی نے مرآة الجنان میں امام صاحب کے حالات او رمناقب کو ذکر کیا ہے، لیکن کسی نے کوئی جرح نہیں کی ہے، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان ائمہ جرح وتعدیل کے نزدیک امام صاحب پر جرح کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اب چند معتمد ترین اور ائمہ علم وفضل کے اقوال یہاں ذکر کیے جاتے ہیں، تاکہ امام صاحب کی بے داغ اور تقویٰ وطہارت سے لبریز زندگی اور آپ کے فضل وکمال کی مختلف نوعیتیں ہمارے سامنے آسکیں۔
 
(فضیل بن عیاض م187ھ)
فضیل بن عیاض مشہور صوفیاء میں ہیں ، ان کی زندگی زہد وتقویٰ اور عبادت وریاضت سے عبارت تھی ، وہ فرماتے ہیں: امام ابوحنیفہ مرد فقیہ تھے، فقہ میں معروف، پارسائی میں مشہور، بڑے دولت مند، ہر صادروو ارد کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرنے والے، شب وروز صبر کے ساتھ تعلیم میں مصروف ، رات اچھی گزارنے والے، خاموشی پسند ، کم سخن تھے، جب کوئی مسئلہ حلال وحرام کا پیش آتا تو کلام کرتے اور ہدایت کا حق ادا کر دیتے، سلطانی مال سے بھاگنے والے تھے۔ ( امام ابوحنیفہ او ران کے ناقدین، ص:44)
 
سفیان ثوری م161ھ
ابوبکر بن عیاش کا قول ہے کہ سفیان کے بھائی عمرو بن سعید کا انتقال ہوا تو سفیان کے پاس ہم لوگ تعزیت کے لیے گئے مجلس لوگوں سے بھری ہوئی تھی، عبدالله بن ادریس بھی وہاں تھے، اسی عرصہ میں ابوحنیفہ اپنے رفقاء کے ساتھ وہاں پہنچے، سفیان نے ان کو دیکھا تو اپنی جگہ خالی کر دی اور کھڑے ہو کر معانقہ کیا، اپنی جگہ ان کو بٹھایا، خود سامنے بیٹھے، یہ دیکھ کہ مجھ کو بہت غصہ آیا، میں نے سفیان سے کہا ابوعبد الله! آج آپ نے ایسا کام کیا جو مجھ کو برا معلوم ہوا،نیز ہمارے دوسرے ساتھیوں کو بھی، انہوں نے پوچھا کیا بات ہے؟ میں نے کہا آپ کے پاس ابوحنیفہ آئے، آپ ان کے لیے کھڑے ہوئے، اپنی جگہ بٹھایا، ان کے ادب میں مبالغہ کیا ،یہ ہم لوگوں کو ناپسند ہوا، سفیان ثوری نے کہا تم کو یہ کیوں ناپسند ہوا؟ وہ علم میں ذی مرتبہ شخص ہیں، اگر میں ان کے علم کے لیے نہ اٹھتا تو ان کے سن وسال کے لیے اٹھتا اور اگر ان کے سن وسال کے لیے نہ اٹھتا تو ان کی فقہ کے واسطہ اٹھتا اور اگر ان کے فقہ کے لیے نہ اٹھتا تو ان کے تقویٰ کے واسطے اٹھتا۔ ( اخبار ابی حنیفہ واصحابہ، ص:73)
 
علامہ محمد بن اثیر الشافعی م606ھ
علامہ محمد بن اثیر الشافعی فرماتے ہیں کہ اگر الله تعالیٰ کا کوئی خاص لطف اور بھید اس میں مضمر نہ ہوتا تو امت محمدیہ کا تقریباً نصف حصہ کبھی امام ابوحنیفہ کی پیروی نہ کرتا او راس جلیل القدر کے مسلک پر عامل ہو کر اور ان کی تقلید کرکے کبھی قرب خدا وندوی حاصل کرنے پر آمادہ نہ ہوتا۔ ( حامل الاصول بحوالہ مقام ابی حنیفہ :73)
 
یزید بن ہارون م206ھ
یزید بن ہارون کو شیخ الاسلام کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، اپنے وقت کے عابد وزاہد حضرات میں شمار ہوتے تھے، علم حدیث میں بڑی شان کے مالک تھے، ان سے پوچھا گیا آدمی فتوی دینے کا کب مجاز ہو سکتا ہے ؟ انہوں نے فرمایاجب ابوحنیفہ کے مثل او ران کی طرح فقیہ ہو جائے۔ ان سے سوال کیا گیا اے ابو خالد! آپ ایسی بات کہتے ہیں ؟ فرمایا ہاں! اس سے بھی زیادہ کہتا ہوں ،کیوں کہ میں نے ابوحنیفہ سے بڑا فقیہ اور متورع نہیں دیکھا، میں نے ان کو دھوپ میں ایک شخص کے دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا تو میں نے سوال کیا آپ دیوار کے سائے میں کیوں نہیں چلے جاتے؟ وہ کہنے لگے کہ مالک مکان پر میرا قرضہ ہے، میں نہیں پسند کرتا کہ مدیون کے مکان اور دیوار کے سائے کے نیچے بیٹھ کر اس سے منتفع ہوں، اس سے زیادہ تقویٰ اور ورع کیا ہو گا؟! ( مناقب موفق1/141) 
 
ان کا ہی بیان ہے میں نے ایک ہزار اساتذہ سے علم لکھا اور حاصل کیا ہے ، لیکن خدا کی قسم! میں نے ان سب میں ابوحنیفہ سے بڑھ کر صاحب ورع اور اپنی زبان کی حفاظت کرنے والا او رکوئی نہیں دیکھا۔ ( مناقب موفق1/195)
 
وکیع بن جراح م198ھ
علم حدیث کے بڑے اماموں میں ان کا شمار ہوتا ہے، امام ابوحنیفہ کے شاگرد اور امام شافعی کے استاذ ہیں، ان کی مجلس میں کسی نے امام ابوحنیفہ کی غلطی بیان کی، اس پر وکیع نے کہا امام صاحب کس طرح غلطی کر سکتے ہیں؟ حالاں کہ امام ابویوسف اور زفر جیسے صاحب قیاس اور یحییٰ بن ابی زائدہ اور حفص بن غیاث اور حبان ومندل جیسے حفاظ حدیث اور قاسم بن معن جیسا لغت وادب کا جاننے والا اور داؤد طائی اور فضیل بن عیاض جیسا زاہد وپارسا ان کے ساتھ ہیں، جن کے ایسے ہم نشین ہوں وہ غلطی نہیں کرسکتا، اگر کبھی غلطی کر جائے تو اس کے جلیس ان کو رد کردیں گے۔ ( امام ابوحنیفہ او ران کے ناقدین، ص:48)
 
علامہ الخوارزمی 665ھ پوری روایت بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
پھر امام وکیع نے فرمایا جو شخص امام ابوحنیفہ کے بارے میں یہ کہتا ہے وہ تو جانوروں کی مانندیا اس سے بھی زیادہ گم کردہ راہ ہے۔ (جامع المسانید1/23)
 
غیر مقلدین کی ہفوات
ایک طرف ائمہ جرح و تعدیل ہیں جنہوں نے صرف امام صاحب کے متعلق فضائل ومناقب کو ذکر کیا ہے او رجرح سے بالکل گریز کیا ہے، اسی کے ساتھ علم وفضل کے آفتاب وماہتاب اور علم حدیث فقہ وفتاوی کے درخشندہ ستارے ہیں، جنہوں نے امام صاحب کے فضائل کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے اور آپ کو علم حدیث کا امام اعظم اور ورع وتقویٰ کا نیر تاباں قرار دیا ہے، آپ کے فضائل کو ذکر کرتے ہوئے آپ کو آسمان رشد وہدایت کادمکتا ستارہ تسلیم کیا ہے تو دوسری طرف غیر مقلدین کی ایک جماعت ہے جنہوں نے امام صاحب کی شان میں گستاخی اور بے ادبی کا ٹھیکہ لے رکھا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسی دریدہ ذہنی کا انہیں وظیفہ ملتا ہے، امام صاحب کی شان میں اس طرح کی حرکتیں اور ایسے گندے الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے کہ عام انسان کے لیے بھی ان الفاظ کا استعمال روا نہیں ہے، چہ جائے کہ اس عظیم انسان کی شان میں کہی جائے جس کے احسان سے امت کا بہت بڑا طبقہ گراں بار ہے، بعض اساتذہ سے سنا کہ بعض اداروں میں بعض غیر مقلدین طلبہ امام کا نام لکھ اسے جوتے سے مارتے تھے اور بعض طلبہ امام صاحب کا نام لکھ کر اسے گندے نالے میں ڈال دیتے تھے، بعض غیر مقلدین طلبہ بے ادبی کی ساری حدیں پارکرتے ہوئے ہدایہ جیسی فقہ کی اہم کتاب پر، جس پر صاحب ہدایہ نے دلیل عقلی کے ساتھ ساتھ دلیل نقلی کا بھی حد درجہ اہتمام کیا ہے اور قرآن وحدیث سے یہ کتاب پوری طرح مبرہن ہے، اس کتاب کو کھول کر اس پر بیٹھ جایا کرتے تھے، اس طرح کی دریدہ دہنی او رغیر شائستہ حرکتوں سے ان کی کتابیں بھری پڑی ہیں، میں ان کو نقل نہیں کرسکتا ہوں ، یہ وہ حرکتیں ہیں جو ایک عام انسان کے حق میں بھی کسی طرح جائز نہیں ہیں، بعض روایتوں میں آتا ہے کہ اپنے وفات شدہ لوگوں کے محاسن کو یاد کیا کرو۔ ( ابوداؤد، باب النہی عن سب الموتی، رقم الحدیث:4900) یعنی ان کے عیب وکمزوری کے بیان سے گریز کیا کرو۔ یہ حضرات کہنے کو تو اپنے آپ کو اہل حدیث کہتے ہیں ، لیکن معلوم نہیں کن احادیث پر عمل کرنے کی بنا پر یہ لوگ اہل حدیث کہلاتے ہیں، جب حدیث میں سختی کے ساتھ وفات یافتگان کو برا بھلا کہنے سے منع کیا گیا ہے تو کس جواز کی بنا پر یہ حضرات امام صاحب کی شان میں گستاخی کرتے ہیں؟!
 
منصف اہل حدیث کا طرز عمل
اس کے ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ امام یا فقہ حنفی پر کیچڑ اچھالنا اور امام صاحب کی شان میں گستاخی کرنا تمام اہل حدیث کا شیوہ نہیں ہے، بلکہ بہت سے منصف مزاج اہل حدیث ہیں جو نہ صرف امام صاحب کی شان میں گستاخی کرکے اپنی زبان کو گندہ نہیں کرتے ، بلکہ اپنے اہل حدیث دوستوں کو بھی اس لایعنی اور غیر مہذب عمل سے روکتے ہیں، اس فہرست میں اہل حدیث کے بڑے بڑے علماء ہیں، جنہوں نے امام صاحب کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں ، امام صاحب کا نام بڑی عزت واحترام سے لیا ہے، امام صاحب کی علمی عبقریت اور فقہ وحدیث میں ان کی امتیازیت کا اعتراف کیا ہے، ان منصف اہل حدیث علماء کا بیان تمام اہل حدیث دوستوں کے لیے آئینہ ہے، جس میں وہ امام صاحب کی صحیح تصویر دیکھ سکتے ہیں او ران کی شان میں گستاخی کرکے انہوں نے امام صاحب کی تصویر کو کس حد تک بگاڑنے کی کوشش کی ہے اس کا بھی معائنہ کر سکتے ہیں ، ذیل میں چنداہل حدیث علماء کے اقوال کو ذکر کیا جاتا ہے، جس سے ہم اس بات کا جائزہ لے سکتے ہیں کہ جس طرح امت کے سواد اعظم اور مذاہب اربعہ کے ائمہ متبوعین نے امام صاحب کی جلالت قدر کا اعتراف واظہار کیا ہے اسی طرح بہت سے منصف اہل حدیث علماء نے بھی امام صاحب کی خدمات کو سراہا ہے، ان اہل حدیث علماء کا بیان تمام غیر مقلدین کے لیے اسوہ اور نمونہ ہے، جس پر وہ بھی عمل کرسکتے ہیں۔
 
امام صاحب مولانا ابراہیم سیالکوٹی کی نظر میں
مولانا ابراہیم سیالکوٹی اہل حدیث کے ممتاز لوگوں میں شمار ہوتے ہیں او رعلماء اہل حدیث میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں ، انہوں نے تاریخ اہل حدیث میں امام صاحب پر تقریباً بیس صفحے لکھے ہیں، جس میں جگہ جگہ امام صاحب کا تذکرہ عقیدت واحترام کے ساتھ کیا ہے اور امام صاحب پر کیے گئے اعتراضات کے جوابات مدلل طور پر دیے ہیں، امام صاحب پرارجاء کے دفاع میں لکھتے ہیں:
” بے شک بعض مصنفین نے ( خدا ان پر رحم کرے) امام ابوحنیفہ اور آپ کے شاگردوں امام ابویوسف، امام محمد،امام زفر، حسن بن زیاد کو رجال مرجیہ میں شمار کیا ہے، جس کی حقیقت کو نہ سمجھ کر اور حضرت امام صاحب ممدوح کی طرز زندگی پر نظر نہ رکھتے ہوئے بعض لوگوں نے اسے خوب اچھالا ہے، لیکن حقیقت رس علماء نے اس کا جواب کئی طریق پر دیا ہے۔ ( تاریخ اہل حدیث:77)
 
اس کے بعد مولانا موصوف نے علامہ ابن تیمیہ، حافظ ابن حجر، علامہ ذہبی، شیخ عبدالقادر جیلانی وغیرہ مختلف حضرات علماء کے اقوال نقل کرکے امام صاحب کے دفاع میں مکمل تجزیہ کیا ہے۔ حافظ ذہبی کے اقوال کو نقل کرکے اس پر جو تجزیہ کیا ہے اس کو ملاحظہ فرمائیں، لکھتے ہیں:
اسی طرح حافظ ذہبی اپنی دوسری کتاب تذکرة الحفاظ میں آپ کے ترجمہ کے عنوان کو معزز لقب ”امام اعظم“ سے مزین کرکے آپ کا جامع اخلاق حسنہ ہونا ان الفاظ میں ارقام فرماتے ہیں: ”کان إماما ورعا عالما متعبدا کبیر الشان، لا یقبل جوائز السلطان، بل یتجر ویکتب ، تدکرة1/10․“
 
سبحان الله! کیسے مختصر الفاظ میں کس خوبی سے ساری حیات طیبہ کا نقشہ سامنے رکھ دیا اور آپ کی زندگی کے ہر علمی اور عملی شعبہ اور قبولیت عامہ اور غنائے قلبی اور حکام وسلاطین سے بے تعلقی وغیرہ فضائل میں سے کسی بھی غیر ضروری امر کو چھوڑ کر نہیں رکھا۔ ( تاریخ اہل حدیث:80)
 
آگے چل کر ”ایک محاکمہ“ کا عنوان قائم کرتے ہیں ،اس کے ذیل میں لکھتے ہیں: جس امر میں بزرگان دین میں اختلاف ہو اس میں ہم جیسے ناقصوں کا محاکمہ کرنا بری بات ہے، لیکن چوں کہ بزرگوں سے حسن تادب کی بنا پر ہمارا فرض ہے کہ ان کے کلام کے محمل بیان کرکے ان سے الزام واعتراض کو دور کریں اور محض اپنی شخصی رائے سے نہیں، بلکہ بزرگوں ہی کے اقوال سے جو قرآن وحدیث سے مستنبط ہیں۔ (تاریخ اہل حدیث:88)
 
اخیر میں فیض ربانی کا عنوان قائم کرکے اپنے دل کی بات کہی ہے او ربزرگوں کے ساتھ ادب واحترام کی تعلیم وتلقین فرمائی ہے، فیض ربانی کا عنوان ملاحظہ فرمائیں:
”ہر چند کہ میں سخت گنہگار ہوں ، لیکن یہ ایمان رکھتا ہوں او راپنے صالح اساتذہ مولانا ابو عبدالله عبید الله غلام حسن صاحب مرحوم سیالکوٹی اورجناب حافظ عبدالمنان صاحب مرحوم محدث وزیر آبادی کی صحبت وتلقین سے یہ بات یقین کے رتبے تک پہنچ چکی ہے کہ بزرگان دین خصوصاً حضرات ائمہ متبوعین سے حسن عقیدت نزول برکات کا ذریعہ ہے، اس لیے بعض اوقات خدا تعالیٰ اپنے فضل عمیم سے کوئی فیض اس ذرے بے مقدار پر نازل کر دیتا ہے، اس مقام پر اس کی صورت یوں ہے کہ جب میں نے اس مسئلے کے لیے کتب متعلقہ الماری سے نکالی اور حضرت امام کے متعلق تحقیقات شروع کی تو مختلف کتب کی ورق گردانی سے میرے دل پر غبار آگیا، جس کا اثر بیرونی طور پر یہ ہوا کہ دن دوپہر کے وقت جب سورج پوری طرح روشن تھا یکا یک میرے سامنے گھپ اندیرا چھا گیا”ظلمٰت بعضھا فوق بعض“ کا نظارہ ہو گیا، خدا تعالی نے میرے دل میں ڈال دیا کہ یہ حضرت امام صاحب سے بدظنی کا نتیجہ ہے، اس سے استغفار کرو، میں نے کلمات استغفار دہرانے شروع کیے، وہ اندھیرے فوراً کا فور ہو گئے او ران کے بجائے ایسا نور چمکا کہ اس نے دوپہر کی روشنی کو مات کر دیا، اس وقت سے میری حضرت امام صاحب  سے حسن عقیدت اور زیادہ بڑھی گئی او رمیں ان شخصوں سے، جن کو حضرت امام صاحب سے حسن عقیدت نہیں ہے ،کہا کرتا ہوں کہ میری اور تمہاری مثال اس آیت کی مثال ہے کہ حق تعالیٰ منکرین معارج قدسیہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے خطاب کرکے فرماتا ہے :﴿ أفتمارونہ علی مایری﴾میں نے جو کچھ عالم بیداری اور ہوشیاری میں دیکھ لیا اس میں مجھ سے جھگڑا کرنا بے سود ہے، ھذا والله ولی الھدایہ ․ اب میں اس مضمون کو ان کلمات پر ختم کرتا ہوں اور اپنے ناظرین سے امید رکھتا ہوں کہ وہ بزرگان دین سے، خصوصاً ائمہ متبوعین سے حسن ظن رکھیں اور گستاخی وشوخی اور بے ادبی سے پرہیز کریں ،کیوں کہ اس کا نتیجہ ہر دو جہاں میں موجب خسران ونقصان ہے #
        از خدا خواہم توفیق ادب
        بے ادب محروم شد از لطف رب
مولانا سیالکوٹی کا درد میں ڈوبا ہوا اور حقیقت کا انکشاف کرتا ہوا مضمون ان تمام اہل حدیث کے لیے عبرت ونصیحت ہے جن کا شیوہ ہی امام صاحب سے بد گمانی وبد زبانی کا ہے۔ (جاری)

————————-

 
Imam e Azam Abu Hanifa – Criticism 

Imam Abu Hanifah was very diligent in this topic. Whenever he use to do Qiyyas he used to always do it in the light of Qur’an or Sunnah. Now let us examine what Hafidhh Dhahabi, and Hafidhh Ibn Kathir wrote about Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh. They say: 

Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh was born in 80A.H, living in the time when there were still some Sahaba living. He saw the famous companion, Anas Bin Malik Radi allaho unho and six other companions too. He learnt Ahadith from a group of Tabi’een, and spent much of his time in worship. 

Abdullah Ibn Mubarrak said: ‘He was the Greatest of all those who was well-versed in Islamic laws’. Imam Shaf’i said: ‘All those who study Fiqh, are children of Imam Abu Hanifah’ (Islamic law). Imam Yahya Bin Mau’een said: ‘there are no accusations on Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh, and he is clean from all lies’. Whoever wants to learn Fiqh, he is dependent upon Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh. The people should pray for Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh after their prayers. He was the one of the greatest scholars on the earth. When he used to recite the Qur’an at night, he used to cry so much that his neighbours used to pity him. The place were he died, Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh read the Qur’an seventy thousand times. He died on 15 Rajab, 150 A.H. At his funeral, there were so many people that the Salaah of Janazah had to be read six times. May Allah grant him peace and Blessings.

[Tazkarra Al Hufaz, Tarikh Ibn Kathir, By Hafidhh Dhabi and Hafidhh Ibn Kathir, “biography of Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh]

Hafidhh Ibn Taymiyyah says: 

There is no doubt regarding Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh’s knowledge, people later attributed many lies to Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh, which were all untrue. The aim of such writings was to taint Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh.

[Minhaaj Al Sunnah Al Nabaweea, Vol./1, page. 259, By Hafidhh Ibn Taymiyyah]

Hafidhh Ibn Al Qayyim says: 

Imam Abu Hanifah would not do Qiyyas, even if he found a weak Ahadith. There are two types of Qiyyyas:

1) Which is against the Qur’an and the Sunnah, this is not permissible:

2) One that is in the light of Qur’an/Sunnah, this is permissible, our Prophet [May Allah bless Him and grant Him peace] also gave permisiion to Ma’az Bin Jabal to do Qiyyas.

[Aalmul Muaqqeen chap Qiyaas]

Why is it then today, after such great scholars like Hafidhh Dhahabi and Hafidhh Ibn Kathir who have corrected such erroneous lies against Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh, that people still propagate such vile accusations?

A review of Islamic history reveals that when Allah Almighty bestows any extraordinary scholar with His blessings, you can be sure that they would not have respite from distortions, slander and lies that are leveled against them. Imam Abu Hanifah was one of those great scholars of Islam against which such attempts were made. It is apparent, from the history books that Imam Abu Hanifah, (like the three Orthodox Sunni Mujtahid Imams; Imam Malik, Imam Shafi’ee, and Imam Ahmed) had many enemies.

Why did they have enemies, one may ask? Many of those who argued against and attacked them, were from misled Sects, such as the Khawarij. There were also those from amongst the court of the Khalif who for one reason or another, had opened their hearts to jealousy, but as such, had the support of the court and their stances were often enough not questioned

With such ferocity, and by the number of accusations leveled against Imam Abu Hanifah (Rahmatullah) it is unfortunate to say that some of these accusations did have an effect on a few simple minded Muslims. It should be said that they cannot be entirely at fault, since even with the case of Aisah (Radiallaho anha.) we recall that even some of the Companions were convinced of these false accusations. However, this incident was no small matter. It resulted in Allah Ta’ala sending Revelation as a warning to those companions who believed the accusation. Allah Ta’ala questioned them that upon hearing the accusations, why did they not reject such slander?

To some extent, we can also say that similarly to the erroneous accusations that were leveled against Aisha that were shown to be baseless. Imam Abu Hanifah (Rahmatullah) also faced such accusations, that have been mentioned by various pious people of later generations in their books.

We should thus learn from the incident involving Aisha (May Allah bless her and grant her peace]) that we should not accept accusations from the enemies of Imam Abu Hanifah (Rahmatullah) such as the Kawarij and the Mutazilah. Whenever people utter words of malice and indulge themselves in accusations against Imam Abu Hanifah (Rahmatullah) they never mention that the majority of them are found to stem from two particular misled Sects – namely the Khawarij and the Mu’tazilah. 
Rather, people end up mentioning two particular people. They are Imam Bukhariand Khatib al Baghdadi.

1) Imam Bukhari has stated:

Imam Abu Hanifah (Rahmatullah alayh) was a Murji’i. 

[Al Tareekh Al Kabir under the life history of Nauman Bin Thabit]

Imam Bukhari also writes: 

The time when Sufian Thuri (great scholar of Islam) heard news about the death of Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh he said ‘Praise be to Allah that such a man had died as he was gradually destroying Islam. There could not be a worse person born in Islam’.[Tareek Sagheer biography of Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh]

Imam Bukhari also writes that :

On two occasions Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh was ordered to repent from making blasphemous statements.
[Khitab Al Daufa Walmat Rukin by Imam Bukhari, Al Intiqa By Imam Abdul ‘barr]

Imam Bukhari informs us that he had taken these statements from his tutor Na’eem bin Hamad. [Tareekh Al Saghir by Imam Bukhari]

Imam Bukhari was so impressed by his tutor, that he never mentioned or used Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh as a reference for his book “As Sahih Al Bukhari” Although whenever he did mention Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh he referred to him as Kufi 
(Nicknamed from his homeland – Kufa).

Before we proceed any further, it is important to refer to one particular accusation against Imam Abu Hanifah (Rahmatullah) which was that he belonged to a deviant sect called the Murji’i. To answer this, we first need to see what character Imam Abu Hanifah (Rahmatullah) possessed. Importantly, who gave Imam Bukhari information regarding Imam Abu Hanifah (Rahmatullah) and In Sha Allah, we will demonstrate that he was not a Murjie and pinpoint from where this false accusation came from.

I have mentioned that Naeem Bin Hammad conveyed this information to Imam Bukhari, but before proceeding any further, let us take note of what Hafidhh Dhahabi, Hafidhh Asqalani and Kateeb al Baghdadi have written in connection to Naeem bin Hammad.

We learn that Naeem Bin Hammad was a famous Scholar from a reion called Marau. He had sight in one eye only. During the later part of his life he went to live in Egypt. At first, he belonged to a sect called Jahmiyya, and was an active member. He then later left this sect and wrote a book, which was the first book to use the science of Musnad. These were a compilation of narrations by the Sahaba, which were placed in an alphabetical order, according to whom he had narrated the Hadith. During this particular period, the Umma used to question whether the Holy Qur’an was Makhluq (created). When this question was put forward to Naeem Bin Hammad he did not give an explanation. He was then sent to prison along side Yaqub Faqia. He died in 228 Hijra. It was noted that no Janza [funeral prayer] was prayed over him and he was buried without a Kaffan [shroud].
[Tazkara tul Hufaz, Khateeb Baghdadi and Tahzeeb al Tahzeeb, by Hafidhh Dhahabi, Hafidhh Asqalani and Khateeb , biography of Naeem Bin Hammad]

This is a brief overview of his life and now we shall examine as to what status he held as a scholar. We shall do this by looking at what Hafidhh Dahabi and Hafidhh Asqalani have written, since they compiled together all the works by previous scholars who had written concerning Naeem Bin Hammad. What follows, are their accounts:

Imam Abu Dawud said that:

Naeem Bin Hammad, had attributed 20 Hadith to the Prophet [May Allah bless Him and grant Him peace] which he in fact had never said, thus being fabricated sayings.

Here are two examples of such fabrications:

1) Abu Huraira reported that:

The Prophet of Islam [May Allah bless Him and grant Him peace] had said: “A time would come, when if you adhered to ten percent of Allah’s commands you will succeed, and if you leave this ten percent you will die. (spiritually, not physically).

The Prophet [May Allah bless Him and grant Him peace] had never uttered such words, this is a Munkar narration.

2) Abu Huraira narrated that :

The Prophet [May Allah bless Him and grant Him peace] had said: “A time will come when my Ummah will be split into more than 70 sects. The worst will be those who indulge in Qiyyas (analogical deduction) in matters of uncertainty.” 

Abu Zur’a said: “I asked Imam Yayha bin Mu’een, where did Naeen bin Hammad get this Hadith? He answered that it has no origins and that this is not a Hadith but has been invented. Whatever Naeem Bin Hammad had said about Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh were all lies and had no substance. Abu Zur’a said that whenever Naeem Bin Hammad would narrate a Hadith of the Prophet [May Allah bless Him and grant Him peace], he would add in his own words in the Hadith. Whenever he would narrate a fabricated Hadith he would attribute it to the “great Imam of Hadith.” 

Daar Qutni said that whenever Naeem used to mention a fabricated Hadith, he would do so to support the Sunnah. He had a lot of Munkar narrations, which other Imams did not have.

[Mizan Al Etedaal, and Tahzeeb Al Tahzeeb, by Hafidhh Dahabi and Hafidhh Asqalani, biography of Naeem Bim Hamaad]

Imam Bukhari took his narrations from Naeem Bin Hammad for his book, Sahih al-Bukhari and Tareekh. Since Naeem Bin Hammad received criticism from amongst the Muhaditheen likewise, Imam Bukhari also received criticism for his book of Hadith from the scholars of Hadith. 

This overview concerning the character of Naeem Bin Hammad will allow us to understand that he was not a reliable Hadith expert in the eyes of the Scholars of Hadith. Now we shall elaborate upon the statements made by Imam Bukhari about Imam Abu Hanifah (Rahmatullah) by noting what the scholars of Hadith had to say concerning him.

From this we can demonstrate that Imam Bukhari’s Tarikh is in no way free from error, nor did it remain uncriticised from hadith scholars. As a result, it would be unfair to “blindly” accept everything that has been written in it as the absolute Truth.

By now, it should have been made obvious that the person that gave Imam Bukhari (ie Naeem Bin Hammad) information regarding Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh was unreliable. The Muhaditheen tell us that he used to make up fabricated Hadith of the Prophet [May Allah bless Him and grant Him peace], and he also made false stories about Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh. As we are told not to believe in his narrations, similarly, we should not accept those statements regarding Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh since they are all lies, according to Hafidhh Dhahabi and Hafidhh Asqalni.

Anyone who has read the the history of Islamic scholarship accepts and understands that criticisms were not only made against Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh but were also made against many of the Muhaditheen. 

The simple principal is, that when accusations are made against any of the great scholars of Islam, who have the respect from the majority of the Umma those accusations are rejected. We shall provide you with some examples:

Accusation made against Imam Bukhari.

Hafidhh Ibn Hajar Asqalani stated: 

Imam Bukhari was accused of saying that the Qur’an was Makhluq (Created) but in reality he was saying the words that we are reciting are Makhluq (Created). In one meeting a question was posed to Imam Bukhari, as to whether the Qur’an is Makhluq or not? He replied, that whatever we do is our doing, and our doing is Makhluq. When the Ulema heard about this everyone ceased to communicate to him, except for Imam Muslim and Ahmad Salma. However, Imam Muslim stopped taking any narrations from Imam Bukhari. Imam Muhammad Ibn Yahya (who was the teacher of both Imam Muslim, and Imam Bukhari) was also against Imam Bukhari on this issue. He then wrote many letters to various scholars informing them about Imam Bukhri’s belief of the Qur’an. The result of this was that wherever Imam Bukhari traveled the people would always harass him. Imam Bukhari prayed to Allah that He would take his soul into the next life. As a result from the fear of the scholars Imam Bukhari never clarified whether the Qur’an was Makhluq or not to the Scholars of the Kharasaan.  
[Tahzeeb Al Tahzeeb by Hafidhh Asqalani]

From this incident, you can see what Imam Bukhari implied something else, but what people understood it to be was something else. It went so far that Imam Bukhari made Du’a for himself, “O Allah Take me away from this world” and Allah accepted his Du’a and he passed away; Both Hafidhh Asqalani and Hafidhh Ibn Kathir have mentioned in their books. The same happened to Imam Abu Hanifah: as he used to say one thing and the Khawarij and Mutazilah interpreted it as a completely different thing. 

Another accusation:

Hafidhh Asqalani writes: 

Imam Bukhari also had another teacher whose name was Ibn al Madini. Imam Bukhari used to attend his classes (Kitaab Al Ilaal) from which Ibn Al Madini used to teach from a book. This book was very precious to him and he would not allow anyone to come near it. One day, Ibn Al Madini went to visit some of his property and Imam Bukhari saw this as an opportunity to obtain the book. He went to Ibn Al Madini’s son and persuaded him with some money to part with the book for a short while. Once Imam Bukhari received the book he took it to be copied hastily. By the time Ibn Al Madini had returned, Imam Bukhari had returned the book. When classes resumed and Ibn Al Madini began to read from the book, he asked a question to his students. Before he finished the question Imam Bukhari had already produced the correct answer (which was from his book). Ibn Al Madini then realized that Imam Bukhari had seen the contents of his book. The shock of this behavior from Imam Bukhari sent Ibn Al Madini into a state of illness, from which he later died. 

Hafidhh Ibn Al Asqalani after writing this account said that he did not believe it and then he gave the reason. He said that this was against the status of Imam Bukhari. 

[Tahzeeb Al Tahzeeb, under “Life History of Imam Bukhari,” by Hafidhh Ibn Asqalni]

Imam Muslim writes that:

Hadrat Abbas and Hadrat Ali (Radiall hu anhu) had a dispute between each other, so thay went to the Khaleefah of the time, i.e. Hadrat Umar (Radiall hu anhu) to settle their dispute. Hadrat Abbas (Radiall hu anhu) said, concerning Hadrat Ali (Radiall hu anhu) “O Ameer-ul-Mu’mineen, judge between me and this liar, sinner, disloyal person, betrayer” Hadrat Umar(Radiall hu anhu) then made his judgement in their affair.

[Sahih Muslim baab-ul-fayy]

Hafidh Ibn Taymiyyah writes:

Hadrat Ibn Mas’ud, and Hadrat Uthmaan (Radiall hu anhu) used to verbally abuse each other. Hadrat Ammar bin Yaasir said to Hadrat Uthmaan that Uthmaan, had become a kaafir. Hadrat Ali (Radiall hu anhu) once asked Ammar, “Do you not deny the God who Uthmaan worshipped?” Once, Husaid bin Huzair said to Sa’d bin Ubaidah, “You have become a munaafiq and you support the munaafiqeen!” In this way other Sahaba used to do this to each other but we know that when one pious person accuses another pious person it has no effect on his status.

[Minhaaj-as-Sunnah, chapter, ikhtilaaf-us-sahaba, by Hafidh Ibn Taymiyyah]

Sayyed Mawdoodi writes: 

The scholars of Hadith criticized each other throughout history, but they were human and so have made mistakes. The reason for this was because sometimes a scholar may not like another scholar for a personal reason. This is why we see in history that scholars have criticized each other in strange ways. An example is of Ibn Abdul Barr, who wrote in his book Jaami’al-bayaan, Imam Hummad had once said that the scholars of Hijaaz have no knowledge. He also said that our children know more than them. He also said that Imams Ataa ibn Rubaah, Tawoos, and Mujaahid had no knowledge. Imam Zuhri said, whilst commenting on the scholars of Makkah, he had never seen anyone break the walls(i.e the rules) of Islam more than the scholars of Makkah. Even though great Sahaba and Taabe’een were resident in Makkah. 

We know that Shaabee and Ibraheem Nakhee were great scholars but they used to attack each other. Shaabee said “Look at at Ibraheem Nakh’ ee! He asks me masaa’il by night and preaches to the people in the morning as though it is his own research!” Ibraheem Nakhee said: “Look at Shaabee! He is a liar, and narrates Hadith from Masrook, but he has never met him!” Imam Dahaaq once boasted that he know more than the companions. Imam Sayyid bin Jubair once said that Shaabee was a liar. He also said about Imam Ikramah that he is the student of Abdullah bin Abbas and he attributes false Ahadith to ibn Abbaas. 

Imam Malik said about Muhammad bin Is-haaq that he is was one of the dajjaal. Imam Malik also said about the scholars of Iraq that they have become like the people of the book, so don’t say that they are speaking the truth or that they are lying. Imam Abdullah bin Mubarak once said, “I don’t consider Imam Malik to be a scholar” Imam Abu Hanefah said about Imam ‘Amash that he has never kept the fast of Ramadhan nor taken the bath of major impurity. Imam Yahya bin Mu’een has criticised the high-ranking scholars of Hadith. He has even said that Imam Shafi’ is weak in Hadith. This is the situation of the scholars of Hadith but the strangest thing is that human weaknesses even overcame the Sahabah. For this reason the Sahabah used to critisize each other. An example is Abdullah bin Umar, who when was told that the Witr Salaah was not compulsory by Abu Hurairah, said that Abu Hurairah was a liar. 

Hadrat A’isha (Radiall hu anha) once said the Anas bin Malik and Abu Sa’eed Khudree do not know anything 

About Hadith as they were children at the time of the Prophet [May Allah bless him and grant Him peace]. Once Hasan bin Ali (Radiall hu anhu) interpreted a verse of the Qur’an and someone said that ibn Umar and Abdullah bin Zubair have given another interpretation. Hasan then said that they are both liars. Hadrat Ali (Radiall hu anhu) once said that Mugheerah bin Shubah is a liar. Ubaidah bin Thabit said that Mas’ood bin Aws Ansaari is a liar, even though he fought in the battle of Badr. 

If one wants to investigate this matter further one can read the history of jarh-ut-ta’deel. These books have critisised other scholars. The reason for this is that they were human and had human weaknesses and so sometimes they would call a weak scholar a good scholar, and vice versa. It is necessary to refer to these books carefully before making any presumptions about a particular scholar.
[Tafheemaat, chapter, maslak-e-it’daal, by Sayyed mawdoodi]

It is proved, from the above, that if a scholar claims something about another scholar then we cannot say that his claim is always correct. The only thing that we can conclude is that the claim is only the scholar’s personal view. If we say that the claim is always correct then we would have to accept every scholar’s word, which is impossible. 
An example is that of Hadrat Abbas (Radiall hu anhu) claiming that the Ali (Radiall hu anhu) was a liar, sinner, and betrayer. We cannot accept that Hadrat Ali (Radiall hu anhu) was actually that which Abbas (Radiall hu anhu) said. This is because we know about the greatness of Hadrat Ali (Radiall hu anhu) who was neither a liar nor betrayer. He was one of the ten who was given glad tidings of Jannah (Paradise) in their lifetime and the fourth Khaleefah of Islam. 
We know also that Imam Malik was a great scholar so no-one can accept Abdullah bin Mubaarik’s claim that Imam Maaik was not a scholar. We also do not accept Imam Yahya bin Mu’een’s claim that Imam Shaafe’ee was weak in Hadith. In the same way, no-one can accept the claims made against Imam Abu Hanefah by following what some scholars say about him. In short, we have to see what the majority of scholars have said about a particular scholar and then accept or reject their opinions.

Now let us look into the second person who is often used to justify attacks against Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh

2) Khatib al Baghdadi:

His correct name was Abu bakr Ahmed Bin Ali Al Khatib Al Baghdadi and he passed away 463 Hijra. Khatib Baghdadi was a great scholar of Hadith wrote many books on Usul-al-Hadith (principles of Hadith) but his most popular book is Tareekh Baghdad, (written in 14 volumes). The copy that I am using was issued in Al Maktaba Salfia Al Madina Al Manawara. If we look at volume 13 under the life history of Nauman Bin Sabit (name of Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh) there are two chapters on Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh.

In the first chapter he writes how the other scholars have praised Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh and in the second chapter he talks about what the enemies of Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh said about him. Khatib Baghdadi said that I personally recognized the greatness of Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh and his knowledge. It is my right that where I have mentioned his excellence I can also bring forward the opinions of the people who were against him. The enemies of Imam Abu Hanifahh do not mention those narrations, which are in praise of Imam Abu Hanifahh. They only mention Khateeb’s narration, which are against him- and imply that al Khateeb too was against the Imam.

Before we go further, at this point it can be concluded that whatever has been said against Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh cannot be accepted as the truth:

Our Shaykh Shah Abu Al Hassan Zaid Farooqi Naqsh Bandi said: “In 1931 I was in Egypt. In that period an article was published in the popular newspaper Al Ahraam that Khateeb’s Tareek has been published and will be available soon. In his Tareekh there is one chapter against Imam Abu Hanifah. Al Azhar decided that it was upon themselves to respond to this chapter written by Khatib Baghdadi. This response was then printed in the footnote of the book Tareekh Baghdad. Upon reading the above book and its footnote it is clearly understood that the said chapter is totally untrue.

Furthermore it is noted that whosoever reported Khateeb’s accusations against Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayy. We see that in the same book he also says that these narrators are not trustworthy. Moreover Muhadis Al Asar Alama Zahidul Al Kausri (Rahmatullah Alai) wrote a book called Taneeb Al Khatib in which he clarifies that truly these accusations are false and notes that all the evidences used were from the same book Tareekh Baghdad.

Now let us see what Khateeb says about Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh in Tareekh Baghdad under the biography of Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh. (a number of examples are taken)

1. Khateeb says Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh was from the Murj’iee 

2. He says that Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh confirmed that Riba (interest) is halal (Permissible)

3. In Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh Halqas (meetings) there was no salutation 

(Salaah/blessings) bestowed on the Prophet [May Allah bless Him and grant Him peace].

3. Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayhs and his students were like Christians. (As’tagfirullah) (Changing Qur’an and Sunnah like the Christians).

4. Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayhs followers said that his knowledge was greater than that of the Prophets [May Allah bless Him and grant Him peace]. (‘Astagfirullah’)

5. Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh used to say that had the Prophet [May Allah bless Him and grant Him peace] been present at his time he would have taken his opinion (that is He would have learnt many things) from me. (‘Astagfirullah’)

6. When a Hadith would be presented he would reject and say scrap this with the pig’s tale.

[Tareekh Baghdad by Khateeb Al-Baghdadi under Nu’maan Bin Thabit]

We do not need to go any further as you will have already realised that this is not acceptable by any Muslim. From the above accusations let us clarify one thing that the other accusations are very similar.

Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh said that if Usman Bathi Al Basri was present in my time he would have taken many of my opinions but the above narrator Khateeb al-baghdadi removed Usmans name and replaced it by the Prophet [May Allah bless Him and grant Him peace].
[Footnote, Tareekh Baghdad chapter Abu Hanifahh]

Khateeb took this information from Yusaf Bin Sabat, Abi Nassar, Azdi, and Al Wass Wassy, In the same book, Khateeb also wrote about these narrators, that:

One of them was who used to make fabricated Hadiths. One of them was weak in the Hadith, the other was a person who did not even believe in Hadiths. One of them was Qadari (Sect), one of them used to make up fabricated stories. 

To prove that Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh was a Kaffir. From the writings of Khateeb, we are led to believe that Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh was an atheist, Jew, innovator, etc., etc., we seek shelter in Allah, from this!!! 

Now we shall review the accusations that were made against Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh who said that he was a Murji’i. Who were the Murji’ee? And who called Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh one?

Allama Shahar Sattaani, wrote in his famous book Al Milal, that:

In the early days the Shi’ahs began to propogate stories against Abu Bakr and Umar Radi Allaho unhooma. During a period where there were differences amongst the Companions, the Shi’ahs also made strange stories concerning their differences. It was also the time when the Khawarij declared the majority of Muslims, as Kafir they believed that whoever committed a major sin was a Kafir. At this time,the sahiah sect became famous. They said that differences that the companions of the Prophet [May Allah bless Him and grant Him peace] had should go without anything said about them, we should remain silent, and the matter will be dealt with Allah Sub Hana hu Wataala. They also believed that those Muslims who commit a great sin (Kabiraa) are not kafirs. Some of the Murji’e believed that Imaan (Faith) is embedded in the heart, so that, if someone utters blasphemous remarks, or worships statues, or has a belief like a Jew or Christian, or worships whatever he likes, he still is beloved to Allah and a perfect Muslim. They thus believed that if a Kafir was to perform a good act then he/she would receive no benefit from it, similarly, if a Muslim was to indulge himself in blasphemous he/she remarks, or commits any major sin, it would have no effect on his/her Imaan. In this way, they left all good actions out and they openly indulged themselves in bad actions. 

Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh also said that those who commit a major sin were not Kafirs. The enemies of Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh picked upon this point to argue that he was a Murji’e. Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh openly conducted good acts and never said not to do good actions. He also never encouraged people that worship what you like. The Mutazillah called every one who did not agree with them concerning their belief as Murji’e. The Khawarij, on the other hand, argued that the one who claimed that to perform a major sin is not to be a Kafir. In this way, the Khawarij and Mutazillah gave Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh the title of Murji’ee. These two sects not only called Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh a Murji’e, but many other great scholars of Islam, such as: Hassan Bin Muhammad, Sa’eed Ibn Jubair, Talaq Bin Habib, Umar Bin Murar, Mahaarib Bin Wassaar, Maqaatil Bin Sulimaan, Hamaad Bin Abi Sulaimaan, called a number of the scholars as Murji’e.

[Al Milal, By Allama Shahar Sitaani, Madhab Al Islammiya and Hiyaat Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh, By Allama Abu Zuhraar Misri]

If Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh was a Murji’ee, it would have become apparent in all the Hanafi books that it is permissible to worship the cross, idols or you can be a Christian, Jew etc. Why is it then that in the Hanafi books it is clearly stated that to worship idols, the cross etc., is Kufr? (See the books of Hanafi Fiqh)

Why is it also, that there is a special book, which explains what punishments are expected for those who perform bad acts? If you take any book concerning Hanafi Fiqh, you will see two chapters dedicated to explaining what things can make you a Kafir. The other chapters will deal with the punishments’ that those people will receive who indulge themselves. In acts of adultery, stealing and other evil acts. This is a clear proof that those who claim that Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh is a Murji’ee, is repeating those accusations made by the Khawarij and the Mutazalah are wrong.

There is another accusation made by people that Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh knew only seventeen Hadith. Let’s examine what little truth this bears but before we go further lets see the sources from which Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh extracted his information.

Hafidhh Iban Al Qayyim states:

Allah Soob ha Na hu Wat’aala sent the Prophet [May Allah bless Him and grant Him peace] to teach Islam. During that early period those that learnt became known as companions which were over hundreds of thousands, out of which one hundred and thirty (130) gave more Fatwas than the rest. There were seven amongst the companions that gave the highest number of Fatwas. Those seven were Umar Bin Khatab, Ali Bin Abu Talib, Abdullah Bin Masaud, Umul Momineen Aisha, Zaid Bin Sabet, Abdullah Bin Abbass, Abdullah Bin Umar Radi allahounhoom. Umar sent Abdullah Bin Masaud to reside at Koofa. This was because Abdullah Bin Masaud had great knowledge. Prophet [May Allah bless Him and grant Him peace] said in a statement that he was great scholar.

Once two groups of people came from Syria and Koofa to visit Umar. Umar gave gifts to both groups and the group from Koofa asked Umar “why is it that we have received less than the Syrians.” Umar replied: ‘Did I not give you Abdullah Bin Masaud which is the greatest of all gifts’. Abdullah Bin Masaud often said that I know about every Surah in the

Qur’an and further who and what it was revealed for, if I know a person that knows more than me I must go to him and learn from him. Ibn Umar used to say Ibne Masaud is filled with knowledge. Imam Ibn Jareer says that there is no other companion whose students wrote all his Fatwas and his Fiqh, except Abdullah ibn Masuood. After a short while hundreds of other companions also went to Koofa to reside there. Later when Ali became Khaleefah he also moved to Koofa that is how Koofa became the capital of the Islamic State. This then influenced further companions to move to Koofa. Koofa became one of the center points of knowledge of the Companiuns. At that time the most popular school was of Ali and Abdullah Bin Masaud.

Later on some people started to attribute fabricated narrations linked to Ali. Which is why the only acceptable narrations of Ali are those which are through his generation and through students of Abdullah Bin Masuad. Ali and Abdullah Bin Masaud had many popular students like Umar Bin Sharjeel, Masrooq, Al Qamma, and others. And then Abraham and Hammad Bin Suleiman became their students and Imam Abu Hanifah Rahmatullah alayh became their student.

[Aalam Al Muwaqqaiy-een Chapter Qiyyas by Hafidhh Ibn Al Qayyim]

Imam Ibn Sa’ad says

One large group of Companions started to reside in Kufa, There were more than five hundred companions residing in Kufa. That is why Umar Radi allaho unho said that Kufa is the center of the treasure. (Faith) Kufa was the center at that time of knowledge. 

[Tabaqat Ibn Sa’ad volume 6 chapter Kufa]

In the very same Kufa Imam Abu Hanifah Rahmatullah was born. In the same place, he acquired his knowledge, he saw and learnt from the Companions and learnt from the Tabe’een. To learn more knowledge he often travelled to Makkah, Madina, Syria, Yemen and Basra. How can it be said that he only knew seventeen Ahadith? It is like saying to a Hafidhh of the Qur’an that he knows Surah Fatiha only!

Hafidhh Ibn Taymiyyah writes that:

Amongst the Scholars there were those who are Scholars of Ahadith, and some that were Scholars of Fiqh. The Scholars who are knowledgeable of both Ahadith/Fiqh are Imam Sahfi’, Imam Ahmed, Imam Ishaq, Imam Abu-Yusuf, Imam Abu Hanifah.They also had a very high status which was suitible for all of them Rahmatullahe ajmaeen. 

[Kitab Al Istegatha page 13 by Hafidhh Ibn Taymiyya]

When Hafidhh Ibn Taymiyya writes and accepts that Imam Abu Hanifah was a scholar in Ahadith, and fiqh, then how can his followers discredit Imam Abu Hanifah, and say that he only knew seventeen Ahadith? 

Ibn Khaldun has touched upon the accusation that Imam Abu Hanifah knew only seventeen hadith. He has written about it in his book At-Muqadmah. He writes that this accusation is completely false as, Imam Abu Hanifah’s student Imam Abu Yusuf and Imam Muhammad narrated a great number of Hadith from Imam Abu Hanifah. Which they have written in their books, and they have written two books where they have accumulated all the Ahadith that they narrate from Imam Abu Hanifah; (the name of the books are Kitabul Al Athar by Imam Abu Yusuf, and Kitabul Al Athar by Imam Muhammad.) More-over all the narrations of Hadith are accumulated in one book, which is called Jamie Al-Masaneed by Imam Abu Hanifah the famous scholar of Hadith/Fiqh. Imam Abu Hanifah is one of the first people who have dictated books on Hadith/Fiqh. The Hadiths which Imam Abu Hanifah has narrated, he heard them directly from the Companions or the Tabeen (Student of the Companions) He was the first Imam in Hadith/Fiqh, Imam Bukhari, Imam Muslim, Imam Nasai, Imam Tirmizi, Ibn Majah, etc, etc, they all came a very long time after him, So that is why his status should be the highest of all of them. From the famous scholars of Hadith/Fiqh he is the only one who is a Ta’bee (Who have seen the Companions) This Privilege was awarded to Imam Abu Hanifah and not to Imam Malik Imam Sahfi’, Imam Ahmed, Imam Bukhari, Imam Muslim, Imam Abu Dawood, Imam Tirmizi, etc, etc, He was unique in this privilege

Lastly I make Du’a that may Allah Soobha Nahu Wata’ala grant all the scholars the best possible place in Paradise. They worked hard for Islam and spent their lives gathering information and passing it on to us, especially Imam Abu Hanifah, may Allah Soobha Nahu Wata’ala fill his grave with (Noor) light.

May Allah Soobha Nahu Wata’ala accept what I have written and if I have made any mistakes may He forgive me. Amin.
Source:

 

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
مزید پڑھیں:

 

Also Related:

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~

Humanity, Religion, Culture, Science, Peace

A Project of Peace Forum Network: Overall 3 Million visits/hits