خلافت عثمانیہ۔اسرائیل اور صدی کی سب سے بڑی ڈیل Ottomans Caliphate and The ‘deal of the century’

تاریخ اسلام گواہ ہے کہ یہودیوں کو اگر دنیا میں کہیں پناہ ملی تو وہ اسلام کی آغوش میں ملی اور تاریخ اس پہ بھی گواہ ہے کہ یہودیوں نے اپنی ریاست کے قیام کے لئے مسلمانوں کی مرکزی حکومت کی پشت میں چھرا گھونپا ۔

The “deal of the century” is a waste of time and paying attention to Kushner’s theatrics means falling into his trap set up to distract the public from what is really going on. All those who care for the Palestinian cause should mobilize now and prevent Kushner, Trump and their Israeli partners from establishing irreversible “facts on the ground” that could see Palestinian hopes for self-determination destroyed…….[…….]

خلافت عثمانیہ۔اسرائیل اور صدی کی سب سے بڑی ڈیل Ottomans Caliphate and The ‘deal of the century’

عثمانیوں نے معلوم وجوہات کی بنا پہ عیسائیوں کی نسبت یہودیوں پہ بھروسہ کیا اور انہیں اپنے دربار تک رسائی دی۔ اس وقت جب سارا یورپ یہودیوں کے لئے مقتل بنا ہوا تھا اور انہیں نہایت حقارت کے ساتھ غیطوز میں محدود رکھا جاتا تھا ، یہ سلطنت عثمانیہ ہی تھی جس نے انہیں مقدونیہ میں شہر سلونیکا میں آبادکاری کی سہولت اور اجازت دی۔ غالبا ًاسی دن کے لئے مسلمانوں کی آخری مرکزی سلطنت خلافت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اسے وفاداروں اور کاسہ لیسوں میں تقسیم کیا گیا تھا کہ جب فیصلہ کن جنگ کا مرحلہ سر پہ آن پہنچے تو امت مسلمہ ، اگر وہ کہیں ہے ، تو اپنے ہی مسائل میں الجھی ہو،باہم دست و گریبان ہو یا عظیم منصوبہ سازوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلیوں کی طرح کھیل رہی ہو۔

خلافت عثمانیہ کے زوال کے اسباب میں ایک اہم سبب اس کا یہودیوں کو سلونیکا میں آباد کاری کی اجازت دینا تھا۔

جس وقت اسپین میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ سلطنت کا سورج بڑے عبرتناک انداز سے غروب ہورہا تھا، غرناطہ کی گلیاں مسلمانوں کے خون سے بھر گئی تھیں اور گھوڑوں کی ٹاپیں اس لئے سنائی نہ دیتی تھیں کہ وہ ان سڑکوں پہ نہیں پڑتی تھیں جن کا جال مسلمانوں نے سلطنت بھر میں بچھا رکھا تھا بلکہ مسلمانوں کے خون کے تالابوں پہ پڑتے تھے تو ازابیلا اور فرڈینینڈ نے بچے کچھے مسلمانوں اوریہودیوں کو تین آپشن دیئے جو فرمان الحمرا کہلاتا ہے۔ اس کی رو سے یہودیوں اور مسلمانوں کو آگ میں جل مرنے، مذہب تبدیل کرکے عیسائیت اختیار کرنے یا اسپین سے نکل جانے کا حکم دیا گیا۔ تقریبا پچاس ہزار یہودیوں نے عیسائیت قبول کرلی جبکہ ڈھائی لاکھ یہودیوں نے اسپین سے ہجرت کی تو انہیں پناہ اسی سلطنت عثمانیہ نے دی۔یہ یاد رکھنا چاہئے کہ شہر سلونیکا میںیہودی قبل مسیح سے ہی آباد تھے لیکن سینٹ پال کی یہاں آمد نے اس شہر میں عیسائیوں کی تعداد میں اضافہ کردیا۔عیسائی آبادی کے اسی توازن کو برقرار رکھنے کے لئے عثمانی حکمرانوں نے اسی شہر میں یہودیوں کو بسانے کی غلطی کی اور اس کا خمیازہ آنے والے وقت میں بھگتا۔اس فیصلے کی وجوہات سمجھ میںآنے والی تھیں۔ انہیں عیسائیوں سے خطرہ تھا جبکہ یہودی دنیا بھر میں دھتکاری ہوئی قوم تھی۔یہی حکمت عملی عثمانیوں نے تمام مفتوحہ علاقوں میں اپنائی۔یہودیوں کی طرف عثمانیوں کی دریا دلی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعد میں یورپ بھر سے نکالے اور مارے جانے سے بچ رہنے والے یہودیوں نے اسی شہر میں ان کے سائے تلے پناہ لی حتی کہ یہ سلطنت اور یورپ کا سب سے بڑا یہودی آبادی والا شہر بن گیا۔ رفتہ رفتہ یہ یہودی سلطنت عثمانیہ کی معیشت بالخصوص پارچہ بافی کی صنعت پہ قابض ہوتے گئے اور اسی باعث انہوں نے دربار تک بھی رسائی حاصل کرلی کیونکہ سلطنت عثمانیہ کے فوجیوں کی وردیاں تیار کرنے کا ٹھیکہ بھی ان ہی کو ملتا تھا۔مسلم اسپین کے بعد یہودیوں کی تاریخ کا یہ سنہری دور تھا۔سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ ایک واقعہ نے تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔

دونیما

1655 ء میں غازی سلطان محمد رابع کے دور میں ایک یہودی راہب سبت زیوی نے مسیحائے یہود ہونے کا دعوی کردیا۔ چونکہ یہودی صدیوں سے اپنے مسیحا کی آمد کا انتظار کررہے تھے اس لئے انہوں نے جوق در جوق اپنے اثاثے اور کاروبار فروخت کرکے سمرنا پہنچنا شروع کردیا تاکہ اس کے ہمراہ یروشلم جا سکیں جو ان کی ارض موعود تھی۔یہ صورتحال صحیح العقیدہ یہودی عالموں کے لئے ایک فتنہ تھا اس لئے اس کی سرکوبی کے لئے انہوں نے سلطان سے مدد چاہی۔ جب سلطان نے سبت زیوی کو دربار طلب کیا تو اس کے معتقد یہودیوں کا خیال تھا کہ وہ کوئی ایسا معجزہ دکھائے گا کہ یروشلم آزاد ہوکر ان کے قبضے میں آجائے گا لیکن ہوا یہ کہ جب وہ دربار پہنچا تو اس نے اسلام قبول کرلیا۔ابھی یروشلم کی آزادی کا وقت نہیں آیا تھا اور اسلام قبول کرنے میں ہی عافیت تھی حالانکہ اس پہ کوئی جبر نہ تھا کیونکہ اس کے ساتھ تین سو یہودیوں نے اسلام قبول کیا تھا۔

تاریخ کے مطابق یہ مسلمان ہونے والے یہودی کبھی سواد اعظم کا حصہ نہیں رہے اور اپنی مسجد الگ بسائے رکھی۔ وہ یہودیت اور اسلام کے درمیا ن ایک فرقہ بن گئے اور دونیما کہلائے۔ان کے دونام ہوا کرتے ایک اسلامی دوسرا ترک۔ یہ حج بھی کرتے لیکن درون خانہ یہودیت پہ عمل پیرا ہوتے۔ بعد ازاں جب خلافت عثمانیہ کمزور پڑی اور اس کے خلاف تحریک اٹھیں تو ترک جوانان تحریک جس نے سقوط خلافت عثمانیہ میں اہم کردار ادا کیا، کی اکثریت ان ہی لوگوں پہ مشتمل تھی اور ان کا ہیڈکوارٹرسلونیکا ہی تھا جسے دو صدی قبل ایک یہودی شاعر نے اسرائیل کی ماں قرار دیا تھا۔  1908 ء سے 1918 ء تک عثمانیہ سلطنت پہ ان ہی ترکوں کی حکومت رہی اور آرمینیا میں عیسائیوں کے قتل عام کا جو داغ سلطنت عثمانیہ پہ لگا ہوا ہے اس کے ذمہ دار بھی یہی تھے ۔

انور جمال پاشا، احمد پاشا اور طلعت پاشا نامی ان حکمرانوں نے جرمنی کے ساتھ اتحاد کرکے ترکی کو جنگ عظیم میں دھکیلا جس کے نتیجے میں سلطنت کو بدترین نقصان اور وسائل کے ضیاع سے دوچار ہونا پڑا۔ 1918 ء میں ذلت آمیز معاہدہ مدروس کے تحت برطانیہ کے سامنے سلطنت عثمانیہ نے ہتھیار ڈال دیے اور مسلمانوں کی عظیم سلطنت حجاز، عراق، لیبیا،شام اور یمن سے دستبردار ہوگئی۔تینوں جرات مند پاشا اپنی قوم کو قعر مذلت میں دھکیل کر ایک آبدوز میں راتوں رات فرار ہوگئے۔آبنائے باسفورس سمیت تمام اسٹریٹجک راستے اتحادی افواج نے قبضے میں لے لئے۔

بیرن روتھ شیلڈ اور وائز مین کے درمان خفیہ خط وکتابت کے نتیجے میں ہونے والے معاہدہ بالفور کے تحت فلسطین میں دنیا بھر سے یہودیوں کو بسانے یعنی یہودی ریاست کے قیام کی سازش بھی اسی دوران رچائی گئی۔یہ کہنا کسر بیانی ہوگا کہ اس دوران یہودی اپنی آزاد ریاست کے تصور سے کبھی دست بردار نہیں ہوئے کیونکہ تھیوڈور ہرزل نے صیہونی تنظیم کی بنیاد 1896 میں رکھ دی تھی اور سلطان عبدالحمید کو شیشے میں اتارنے کی کوشش کرچکا تھا ۔اس میں ناکامی کے بعد ہی خلافت عثمانیہ کے خلاف بے داغ سازش رچائی گئی تھی۔

لارنس آف عربیا اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ ہٹلر کا بدنام زمانہ ہولوکاسٹ بھی اسرائیل کے قیام میں معاون ہوا۔یہ امر واقعہ ہے کہ اسرائیل کا قیام مسلمانوں کی مرکزی حکومت کے خاتمے کے بغیر ناممکن تھا اور یہ بھی کہ ایک قوم جب اپنے مقصد سے روگردانی نہیں کرتی تو ہر جائز ناجائز راستہ اختیار کرکے بالآخر فاتح وکامران ٹھہرتی ہے۔ یہی اسرائیل جب باقاعدہ ایک ملک کی حیثیت اختیار کرگیا توا س وقت تک وہ اتنا مضبوط ہوچکا تھا کہ نو آزاد شدہ مسلم ریاستیں اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہ رکھتی تھیں۔

باقاعدہ سازش کے تحت سلطنت عثمانیہ کے بے دردی سے حصے بخرے کئے گئے اور مسلمانوں کی مرکزیت کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق ختم کیا گیا۔

جہاں اس حقیقت سے انکار کرنے والے تاریخ کے ہی منکر ہیں وہیں یہ ستم ظریفی بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ ریاست اسرائیل کے قیام کی جڑیں مسلمانوں کی سیاسی تاریخ میں پیوست ہیں۔سلطنت عثمانیہ کے زوال کے اسباب کا غیر جانبدار مطالعہ بھی تاریخ کے ایک عام طالبعلم پہ اس حقیقت کو آشکار کردیتا ہے کہ یہ دراصل ریاست اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کرنے کا ایک راستہ تھا جو مسلمانوں کی مرکزیت پہ ضرب لگائے بغیر ممکن ہی نہ تھا۔ گو اس کے بعد بھی اسرائیل کے باضابطہ قیام کو بیس سال لگے لیکن صدیوں سے ارض موعود کے منتظر یہودیوں کے لئے یہ کوئی بڑا عرصہ نہیں تھا۔ اسرائیل کے قیام میں سلطنت برطانیہ کا پور ا پورا ہاتھ تھا بلکہ یہ اس کی سرپرستی کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا۔

1916 میں مصر میں برطانیہ کے ہائی کمشنر میک موہن نے وعدہ کیا تھا کہ سلطنت عثمانیہ کے عرب علاقے آزاد کردیئے جائیں گے لیکن اس پر عملدرآمد ہوا۔ ریاست اسرائیل کے مفادات اور تحفظ کا فریضہ یہ نئی عالمی طاقت بڑی سنجیدگی سے نبھاتی رہی اور اس کی پالیسیوں کی تشکیل میں صہیونی لابی کا موثر ترین کردار رہا جو ارض موعود پہ اپنے مسیحا کی آمد کا انتظار کررہے ہیں۔ اسی باعث مشرق وسطی کے ان علاقوں، شام عراق اور لبنان ، جو عظیم اسرائیل کا حصہ ہونگے، ایک منصوبے کے مطابق سیاسی اور تزویراتی عدم استحکام کا شکار کئے گئے اور یہ سب امریکہ میں ڈیموکریٹس حکومتوں نے کیا۔

دوسری طرف اسرائیل کو حاصل امریکی فوجی امداد، تزویراتی سہولیات،مشترکہ عسکری مشقیں اور تربیت، مشترکہ فوجی اور انٹیلیجنس اتحاد جس کے تحت اسرائیل پہ ہر حملہ دراصل امریکہ پہ حملہ تصور ہوگا،عام مالی تعاون اور امداد جسے بھتہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا، کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ صدر اوباما کے دور حکومت میں جب ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ہوا اور نتن یاہو نے امریکی کانگریس میں دھواں دھار خطاب کیا تو جان کیری نے جوابی خطاب میں گلے شکووں کا ڈھیر لگادیا۔ لب لباب یہ تھا کہ امریکہ نے اسرائیل کے لئے کیا نہیں کیا؟

حتی کہ ساری دنیا کی ملامت مول لی۔غیر ضروری جنگوں (عراق، لیبیا ، شام،افغانستان) میں الجھ کر اپنی معیشت کا بیڑا غرق کرلیا ۔یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں۔ اسرائیل کو پالنے پوسنے سے جان چھڑانے کا ایک ہی راستہ تھا کہ آخری جنگ (آرماگیڈون)جو اسرائیل میں ہی چھڑنی ہے، کھینچ کر قریب کردی جائے یا کم سے کم اسرائیل کو اس کا تاثر ہی دیا جائے۔

یہ کام صدر ٹرمپ جیسا بے دھڑک اور ملامت آشنا شخص ہی کرسکتا تھا جس کی تقریب حلف برداری میں تاریخ میں پہلی بار یہودی ربی نے تورات کی تلاوت کیں جن میں یروشلم کا ذکر تھا۔انہوں نے آتے ہی یروشلم میںامریکی سفارتخانہ منتقل کرنے کا اعلان کرکے گویا طبل جنگ بجا دیا۔ امریکہ جو امداد غزہ کو دیا کرتا تھا ، وہ بھی معطل کردی اور عرب ممالک کو صاف طور پہ کہا کہ وہ فلسطین کا خرچہ خود اٹھائیں ہم پہلے ہی جنگ سے تنگ ہیں۔

ڈیل آف دی سینچری

ٹرمپ نے ہی دو ریاستی حل کا ایک خفیہ منصوبہ پیش کیا تھا جس کے تحت یروشلم اسرائیل کا جبکہ ابو دیس کو فلسطین کا دارالحکومت بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اسے ہی وسعت دے کر ڈیل آف دی سینچری کے نام سے پکارا جارہا ہے۔ٹرمپ کو یہودی مسیحا ، ایرانی شہنشاہ سائرس کے طورپرپیش کررہےہیں،جس نےیہودی ٹمپل تعمیرکروایاتھا- اس ڈیل کی جزئیات گو ابھی تک مخفی رکھی گئی ہیں لیکن اس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ :

Trump Cyrus Coin

امن منصوبے کے تحت فلسطینیوں کے لئے پچاس بلین ڈالر کی خطیر رقم مختص کی جائے۔ اس مقصد کے لئے بحرین میں کانفرنس منعقد کی گئی جس سے ٹرمپ کے یہودی داماد جیرڈ کشنر نے افتتاحی خطاب کیا۔ تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ ڈیل آف سی سینچری کو اسرائیل اور فلسطین دونوں نے مسترد کردیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پندرہ فلسطینی رہنماوں نے اس میں شرکت کی جبکہ فلسطین کے اہم کاروباری اشرف جباری نے خطاب بھی کیا جن پہ ٹرمپ کا ایجنٹ ہونے کا الزام بھی لگایا گیا ۔اس ڈیل کے چیدہ چیدہ نکات میں:

1.صیہونی آبادیوں کو اسرائیل کا آئینی حصہ تسلیم کرانا،

2.فلسطینی ریاست کو مکمل طور پہ غیر مسلح کرکے ایک مشترکہ سیکوریٹی کونسل بنانا جس میں اردن ، مصر اور امریکہ شامل ہونگے

3. پورے دریائے اردن کے اطراف اسرائیلی سکیورٹی کا کنٹرول جبکہ وسطی پہاڑیوں پہ بھی اسرائیلی فوج کا قبضہ جو جب چاہے فلسطین پہ ایمرجنسی نافذ کرسکے گی۔

4.اسرائیلی فوج غرب اردن کے سیکٹر ’A‘ اور سیکٹر ’B‘ سے بہ تدریج نکل جائے گی۔

5.سیکٹر A غرب اردن کے کل 18 فی صد رقبے اور سیکٹر B 21 فی صد رقبے پر مشتمل ہے۔

6.اسرائیل کو صیہونیوں کے قومی وطن اور فلسطین کو فلسطینیوں کا قومی وطن قرار دیا جائے گا۔

7.اسدود اور حیفا بندرگاہوں اور اللہ کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کا کچھ حصہ فلسطینیوں کو استعمال کرنے کی اجازت دی جائے گی مگر اس پر سیکیورٹی کے تمام انتظامات اسرائیل ہی کے پاس ہوں گے۔

8.غزہ اور غرب اردن کے درمیان پر امن گذرگاہ قائم کی جائے گی جس کا کنٹرول اسرائیل کے پاس ہوگا۔

یہ کہنا بعید از حقیقت نہ ہوگا کہ اسرائیل نے ساری دنیا کی سیاست کا رخ بڑی چابکدستی سے اپنی طرف موڑ رکھا ہے۔ حالات و واقعات کا بغائر تجزیہ کیا جائے تو صاف طور پہ نظر آتا ہے کہ اسرائیل کو ناقابل شکست طاقت کا منبع بنانے کی تیاریاں مکمل ہیں اور دنیا تیزی کے ساتھ اس انجام کی طرف بڑھ رہی ہے جہاں جنگ کا مرکز اسرائیل ہوگا۔ یہ وہی جنگ ملحمہ الکبری ہے جس کی خبر ،آپ ﷺنے چودہ سو سال قبل دی تھی۔حالات کا رخ اسی جانب مڑ چکا ہے جہاں ریاست اسرائیل کے معمار اسے پھیرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ رسول اللہ ﷺکے فرمان کو برحق سمجھتے ہیں۔ہاں ہم میں سے کچھ ہیں جو اب بھی اس پہ ایمان لانے کو تیار نہیں لیکن آنکھ بند کرنے سے سورج غروب تو نہیں ہوجاتا، بس وہ دکھائی نہیں دیتا۔

قدسیہ ممتاز

https://www.roznama92news.com/دی-کی-سب-سے-بی-یل


The Protocols of the Elders of Zion

ایک وقت آئے گا جب ہم پوری دنیا پر قابض ہوجائیں گے۔ یہ تھوڑے سے عرصے میں نہیں ہوگا اس کے لیے شاید ایک دو صدی درکار ہو۔ ہم بے رحمی سے اپنے خلاف ہتھیار اُٹھانے والوں اور ہمارے اقتدار کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والوں کو قتل کریں گے۔ کسی بھی شے سے متعلق تمام اداروں بشمول خفیہ تنظیموں کو بھی موت کی نیند سلادیا جائے گا۔ موجودہ خفیہ تنظیمیں جنہوں نے ہماری بڑی خدمت کی ہے اور کررہی ہیں، ہم ان کو بھی ختم کردیں گے اور انہیں یورپ کے دوردراز علاقوں میں جلاوطن کردیں گے۔ فری میسن کے غیریہودی ممبران کے ساتھ بھی ہمارا یہی رویہ ہوگا کیونکہ یہ لوگ ہمارے بارے میں کافی معلومات رکھتے ہیں لیکن اگر مصلحتاً ہمیں ان سے صرف نظر کرنا پڑا تو بھیانہیں جلاوطنی کے خوف تلے رکھا جائے گا۔“ ”
یہ اقتباس جس کتاب سے لیا گیا ہے اس کا مشہور نام ”پروٹوکولز“ ہے۔ ”Protocols“ دیکھنے میں تو وہ محض ایک عام سی کتاب لگتی ہے مگر یہ کئی اعتبار سے انوکھی ہے۔ ایک تو اس وجہ سے عام طورپر کسی کتاب کو ایک یا دو فرد لکھتے ہیں مگر اس کتاب کو یہودی داناؤں کی ایسی جماعت نے لکھا جو دنیا بھر سے منتخب کی گئی تھی۔ اپنے فن یعنی خفیہ منصوبہ بندی، فریب کاری، مکاری، سنگ دلی، بے رحمی اور اخلاقیات سے عاری پن میں اتنی نمایاں تھی اس کے ان ”اوصاف“ کو دوست دشمن سب مانتے ہیں۔ اس کتاب کو اس اعتبار سے بھی منفرد قرار دیا جائے گا اس میں دنیا کے لیے خیر کی کوئی بات نہیں ۔ اس میں جو کچھ تھا وہ بنی نوع انسان کے لیے شر ہی شر تھا۔ اس کے مصنفین نے اپنے لیے تو سب کچھ سوچ سمجھ کر ترتیب دیا لیکن غیر یہود کے لیے ان کم ظرفوں کے پاس سوائے بدخواہی کے کچھ نہ تھا۔ عام طورپر لکھی جانے والی کتابیں چھپنے کے لیے لکھی جاتی ہیں لیکن صہیونیوں کی پہلی اور آخری کوشش تھی یہ کسی بھی طرح منظرعام پر نہ آنے پائے۔ پھر سوال ہے یہ کتاب غیر یہود کے ہاتھ کیسے لگی؟ جس چیز کو سات پردوں میں چھپا کر رکھا گیا تھا وہ منظرعام پر کیسے آگئی؟ یہ داستان بڑی عجیب اور دلچسپ ہے۔ ۔۔۔۔۔پڑھتے جائیں ≥≥≥≥≥

http://freebookpark.blogspot.com/2012/05/the-protocols-of-elders-of-zion.html


وہ صہیونی جو 1896 ء سے صہیونی پروٹوکولز کی تحریر سے لے سے اب تک اپنے مقصد کے حصول کے لیے ایک پل بھی آرام سے نہیں بیٹھے،انکے لئے امید کی ایک کرن ہے۔

1916 ء میں برطانیہ کے بالفور ڈیکلئیریشن میں اسرائیل کو یہودیوں کا وطن منوانے کے بعد 1920 ء میں انہوں نے یروشلم کی طرف ہجرت کا آغاز کیا۔ 14 مئی 1948 ء کو اسرائیل کے قیام تک اور اسکے بعدبھی آج تک وہ تمام یہودی جو یورپ اور امریکہ میں اپنی پرآسائش رہائش گاہیں چھوڑ کر حیفہ اور تل ابیب جیسے صحرائی ویرانوں میں دشمنوں کے درمیان آ کر آباد ہوئے ہیں

وہ سب اپنی مذہبی کتابوں میں دی گئی پیشگوئیوں کی صداقت پر ایمان رکھتے تھے۔ یہ یہودی اسی یقین کی بنیاد پر اپنی پرتعیش زندگی اور عیش و عشرت کا ماحول چھوڑ کر آئے تھے کہ انہیں بتایا گیا ہے کہ ایک دن آل یعقوب یروشلم کے اجڑے ہوئے تختِ داؤدی سے پوری دنیا پر حکومت کرے گی اوراس راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ مسلمان ہونگے۔
یہودیوں کو یہ بشارت اس دور میں ملی تھی جب بابل کا حکمران بخت نصر انہیں غلام بنا کر اپنے ملک لے گیا تھا۔ وہاں انکے پیغمبر لیسعیاہ (Isaiah) نے آٹھویں صدی قبل مسیح انہیں یہ خبر دی تھی کہ ایک دن تمہیں اس غلامی سے نجات مل جائے گی اور تمہارے درمیان ایک مسیحا ایسا آئے گا جو حضرت داؤدؑ اور سلیمانؑ کے تخت سے ایک عالمی حکومت قائم کرے گا۔
یہودی اپنے ہر آنے والے دن کی منصوبہ بندی، اپنے حالات حاضرہ کا تجزیہ اور دنیا میں اپنے کردار کا تعین صرف اور صرف آج کے دور کے بارے میں اپنی کتابوں میں موجود پیشگوئیوں کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ استنبول کی سیکولر مئیر کی فتح سے صرف ایک ماہ پہلے اسرائیل نے اپنا سترہواں یوم تخلیق منایا۔

اس دن انہوں نے غلامی سے آزادی (Redemption) کے سلسلے کا دوسرا سکہ جاری کیا۔ پہلا سکہ 67 عیسوی میں جاری کیا گیا تھا جو دراصل رومیوں کے خلاف یہودیوں کی بغاوت کا اعلان تھا ۔ ایک ہزار نو سو باون (1952) سال بعد “صہیون میں ہیکل” (Temple in Zion) جیسے اسرائیلی ادارے نے غلامی سے آزادی کا دوسرا سکہ جاری کیا ہے۔

پہلا سکہ بھی چاندی کا تھا اور یہ بھی چاندی کا ہے۔ اس پر لاگت پچاس ڈالر آئی ہے لیکن یہ 170 ڈالر میں فروخت کیا جارہا ہے تاکہ جنگ کا سامان اکٹھا ہو۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس سکے کا نام سائرس ٹرمپ (Cyrus-Trump) سکہ رکھا گیا ہے اور اس پر امریکی صدر ٹرمپ اور ایرانی بادشاہ سائرس کی تصویریں ہیں۔ سائرس وہ ایرانی بادشاہ تھا جس نے یہودیوں کو بابل کی حکومت کی غلامی سے نجات دلائی تھی اور یروشلم میں دوبارہ آباد کیا تھا۔ سکے پر ایران کی وہ قدیم مہر موجود ہے جس میں ایک شیر ہاتھ میں تلوار پکڑے ہوئے ہے اور اسکے ساتھ سکے پر امریکہ کا عقاب والا قومی نشان بھی موجود ہے۔ سکے کے نشانات بتاتے ہیں کہ دو ہزار سالہ یہودی تاریخ میں دو اہم واقعات ہیں اور دو ہی اہم مدد گار شخصیات، ایک ایرانی بادشاہ سائرس اور دوسرا ڈونلڈ ٹرمپ، ایک نے انہیں یروشلم واپس لا کر بٹھایا اور دوسرے نے یروشلم کو ان کا دارالحکومت تسلیم کیا۔ یہودی اپنے پیغمبروں کی بتائی گئی خوشخبریوں اور تنبیہوں پر اپنی داخلی اور خارجی پالیسیاں بناتے ہیں ،لیکن یہ مسلمان امت اپنے مخبر صادق سید الانبیاء ﷺ کی آخر الزماں کی ترتیب زمانی کو فراموش کیے ہوئے ہے۔ (اوریا مقبول جان)۔۔۔۔
مزید تفصیل ≥≥≥≥≥≥

صیہونی مسیحیت – عالمی امن کے دشمن

New Special Edition Trump-Temple Coin Minted for Israel’s 70th Anniversary-The End of the Exile