کورونا کی وبا پر اب بلکل واضح ہے کہ یہ وبا اب آسانی کے ساتھ ختم ہونے والی نہیں، اس پر مکمل طور پر مستقبل قریب میں قابو پانا مشکل ہے ، ہم کواس عفریت کے ساتھ زندہ رہنے کی کوشش کرنا ہو گی .. ..
Corona epidemic, will not leave very soon, we have to learn to live with this monster …. [……..]
اگلے چند ماہ تک یہ موذی بیماری ہمارے درمیان ہی رہے گی۔ ایسا کوئی شارٹ کٹ یا انتظامی طریقہ نہیں رہا جس سے اسے کنٹرول کیا جا سکے۔ زندگی میں معجزات رونما نہیں ہوتے، غیر معمولی معرکے برپا کرنے پڑتے ہیں۔ چین نے ایسا کر دکھایا،چند ایک اور استثنائی مثالیں بھی ہیں۔ ہمیں جو کرنا چاہیے تھا ، وہ ہم نہیں کر پائے۔ جو آج کرنا چاہیے، وہ بھی نہیں کر رہے۔ ایسے میں چیزیں زیادہ خراب ، پیچیدہ اور گنجلک بن جاتی ہیں۔ نتیجہ خوفناک قسم کا کنفیوژن ہے، وفاقی، صوبائی حکومتوں سے لے کر افراد تک ، ہر ایک اس کا شکار ہے۔ اس کی ذمہ داری کسی خاص لیڈر یا وفاقی، صوبائی حکومت پر ڈالنے کا فائدہ نہیں۔
غلطیاں حکومت سے یقینا ہوئیں، ابتدا میں زائرین والے معاملے کو بہتر ہینڈل کر لیا جاتا، ممکن ہے اس وقت محدود مدت کے لئے سخت لاک ڈائون کر لیا جاتا تو شائد یہ وبا زیادہ نہ پھیلتی۔ البتہ سخت لاک ڈائون اپنی جگہ جو تباہی مچاتا ، وہ ایک اور المیہ کہانی بن جاتی۔ ایک ٹاک شو میں یہ سوال پوچھا گیا کہ ذمہ دار کون ہے، وفاقی یا صوبائی حکومتیں؟
اصل ذمہ دار پاکستانی عوام ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر عوام یعنی ہم لوگ ڈسپلن کا مظاہرہ کرتے، وبائی بحران کے طریقے اپناتے، میل ملاقاتیں نہ کرتے، احتیاط کے ساتھ باہر نکلتے تو یقینی بات ہے کہ یہ بحران بڑی حد تک کنٹرول ہوجاتا،کم از کم اس کا شدت والا وقت (Peak Time)گزر چکا ہوتا۔ایسا نہیں کہ میڈیا نے آگہی میں کسر چھوڑی ہو یا حکومت نے مہم نہیں چلائی۔بچے بچے کو معلوم ہے کہ کورونا سے کس طرح بچنا ہے۔اصل بات مگر معلومات پر عمل کرنا ہے ، ہم اس امتحان میں بری طرح ناکام ہوئے۔ اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وبا پھیل چکی ، جلدی جانے والی نہیں تو اب ہمیں عِفریت یا بلا کے ساتھ جینا (Living with monster)سیکھنا ہوگا۔
اس پر کئی ماہرین سے بات کی، تجزیہ نگاردوست اور طبی ماہر سے تفصیلی ڈسکس کیا۔چند نتائج اخذ کئے۔ وہ شیئر کرتا ہوں۔
کورونا کے دو طرح کے مریض ہیں۔ کچھ لوگوں میں علامات جلداور شدید انداز کی ظاہر ہوجاتی ہیں،تیز بخار، چھینکیں، کھانسی وغیرہ، جبکہ کچھ میں اس کا شکار ہوجانے کے بعد بھی علامات ظاہر نہیں ہوتیں، انہیں Asymptomaticکہا جاتا ہے۔ ماہرین کا مشورہ یہ ہے کہ اپنے قریب موجود ہر شخص کو کورونا کا ایسا مریض سمجھیں، جس کی علامات ظاہر نہیں ہوئیں۔ اسے خود بھی نہیں پتہ ،مگر وہ لاعلمی میں بھی آپ کو کورونا کا مریض بنا سکتا ہے۔ اس لئے چند فٹ کا فاصلہ رکھتے ہوئے محتاط رہیں۔
خود کو بھی کورونا کا ایسا مریض تصور کریں، جس کی علامات ظاہر نہیں ہوئی، مگر قریب آنے والے کسی بھی شخص کو یہ بیماری منتقل ہوسکتی ہے۔ ماسک کورونا سے بچائو کا بہت اہم ہتھیار ہے۔ ماسک اور ہاتھوں میں گلوز یا وقفے وقفے سے ہاتھ صابن سے دھونا یا سینی ٹائزر سے صاف کرنا کامیابی کی چابی ہے۔
اچھا ماسک لینے کی کوشش ضرور کریں،N95 ، K95 وغیرہ پہلے ناپید تھے، اب کچھ کوشش سے مل جاتے ہیں۔ یہ نہ ملیں تب بھی جو ماسک مارکیٹ میں دستیاب ہیں، انہیں استعمال کرلیں، حتیٰ کہ گھر کے بنے ہوئے کپڑے کے ماسک بھی کسی نہ کسی حد تک کفایت کر جائیں گے۔ نہ ہونے سے کچھ ہونابہتر ہوتا ہے۔ سینی ٹائزرعام ہیں. مختلف فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے بنا لئے ہیں، کوشش کریں کہ گاڑی ، دفتر میں اپنی میز ، حتیٰ جیب میں بھی رکھیں۔پانی اور صابن سے ہاتھ دھونے کی سہولت موجود نہیں تو وقفے وقفے سے سینی ٹائزر استعمال کرتے رہیں۔ اپنے طرز عمل میں ڈسپلن لے آئیں۔ یہ کوئی مشکل بات نہیں۔
باہر نکلتے وقت ماسک اور دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔
غیر ضروری خریداری سے گریز کریں۔ جہاں جانا ضروری ہو، وہاں رش نہ ہونے دیں۔ چند لمحے انتظار کر لیں۔
کسی دکان پر بھیڑ ہے تو اس کے چھٹنے کا انتظار کریں یا پھر کسی دوسری دکان سے کام چلا لیں۔ ی
ہ نظم وضبط آپ کو ان شااللہ اس وبا سے محفوظ رکھے گا۔
وائرس لوڈ Virus Load
ایک اہم نکتہ یاد رکھیں کہ ماسک، گلوز اور فاصلہ رکھنے کی احتیاط اس لئے ہے کہ اگر خدانخواستہ کسی کمزور لمحے میں آپ اس وائرس کا شکار ہو گئے ، تب بھی وائرس لوڈ کم رہے۔ یہ بہت اہم بات ہے، اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔
جب وائرس لوڈ زیادہ ہو تب حملے میں شدت زیادہ ہوگی اور جسم کے اندر تباہی بھی اسی مناسبت سے ہوگی۔
وائرس لوڈ کم ہو تو ایک طرح سے بیماری آپ کے لئے ویکسین کا کام کرتی ہے۔ آپ شکار ہو کر ٹھیک بھی ہوجاتے ہیں، مگر علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ ایک بار ہوگئی تو پھر آپ آئندہ کے لئے اس سے محفوظ ہوجائیں گے۔
آج کل قوت مدافعت یعنی امیونٹی Immunityبہتر بنانے کی بہت باتیں ہو رہی ہیں۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ اصل امیونٹی آپ کا اپنا طرز زندگی بہتر کرنااور کھانے کی بری عادتیں چھوڑناہے۔ یہ وہ امیونٹی ہے جو آپ کے ساتھ مستقل رہے گی۔ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش اس کے لئے ایک دلچسپ مثال دیتے ہیں کہ ستر سی سی موٹر سائیکل پر تین افراد سوار ہیں، آگے دس دس کلو دودھ کے دو ڈبے بھی لٹکا رکھے ہیں۔ ایسے میں موٹرسائیکل کی کارکردگی بہتر بنانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اس پر بوجھ کم کیا جائے۔ انسانی جسم کی کارکردگی بہتر بنانے کا آسان طریقہ یہی ہے کہ جنک فوڈ اور بے وقت کھانے کی بری عادتوں کا بوجھ اس پر سے اتارا جائے۔ نیند پوری نہ ہونے سے جسم متاثر ہوتا ہے، یہ بوجھ بھی ہٹ جائے، ورزش نہ کرنے سے اعضا مضمحل ہیں، یہ بھی ٹھیک کئے جائیں۔
وقت پر سوئیں، سات آٹھ گھنٹے کی بھرپور نیند لیں۔ یاد رکھیں کہ رات دس سے بارہ بجے کے دو گھنٹے افادیت کے اعتبار سے چار گھنٹوں کی نیند کے برابر ہیں۔ رات بھر جاگنے کے بجائے دس گیارہ بجے تک ہر حال سو جائیں، نیند پوری کریں۔کھانا وقت پر کھائیں ۔بازاری کھانے اور غیر صحت مند چیزیں کھانا چھوڑ دیں۔ سادہ ، تازہ خوراک لیں،موسمی پھل ، سلاد وغیرہ کھائیںاور دن میں کم از کم آدھا گھنٹہ تیز چلیں ،سونے سے پہلے دس پندرہ منٹ کی چہل قدمی بھی کریں۔ اس سے آپ کی جسم کی پرفارمنس اور کارکردگی مستقل بنیادوں پر بہتر ہوگی،زندگی بھر ساتھ دے گی۔ وقتی طور پر ملٹی وٹامن کھانے میں کوئی حرج نہیں، اس کا فائدہ ہوگا۔
وٹامن سی اور زنک کھانے سے قوت مدافعت بہتر ہوتی ہے، وٹامن ڈی مفید ہے۔اپنی شوگر کنٹرول رکھیں۔قہوہ جات سے سانس کے مسائل کم ہوتے ہیں۔
پنڈی صدر کے حکیم شمیم احمد خان چٹکی بھر سونف، پودینہ، ادرک، دار چینی اور تین لونگ گرم پانی کے کپ میں دم کر کے چھان کر پینے کا بتاتے ہیں۔
بعض دوسرے ادرک ، دارچینی کا قہوہ بتاتے ہیں۔
ایک ماہر غذائیت لہسن کے ٹکڑے کھانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
دودھ میں ہلدی، شہد اور زیتون کا تیل ایک ایک چمچ ملا کر پینے کا بھی کہا جا رہا ہے۔
سنا مکی کے قہوے کی آج کل دھوم مچی ہے، مگر بعض حکما کے خیال میںسنا مکی کو اکیلے استعمال نہیں کرنا چاہیے ۔حکیم نیاز ڈیال جو نیچرو پیتھی کے اچھے ماہر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ سنا مکی بلغم کے اخراج میں معاون ہے، مگر اس کی زیادتی سے معدے کے مسائل پیدا ہوں گے۔
سنا مکی ایک گرام، ادرک کی کاشیں نصف گرام، اور چند گلاب کی پتیوں کو گرم پانی کے کپ میں ڈال کر دس پندرہ منٹ کے لئے ڈھانپ دیں، پھر چھان کر شہد مل کر پی لیںتو فوائد کثیرہ کا باعث ہے،
اسی طرح سنا مکی ایک گرام، سات دانے منفقیٰ اور گلاب کی چند پتیوں کے ساتھ بھی قہوہ بن سکتا ہے، سنا مکی ، سونٹھ اور دیسی شکر ہم وزن ملا کر سفوف بنا لیں، رات سوتے وقت نصف چمچہ استعمال کریں توبدن کے بادی سے متعلق تمام امراض کا ان شااللہ خاتمہ ہوجائے گا۔
مجھے ذاتی طور پرکورونا کے ابتدائی دنوں میں شدید الرجک کھانسی ہوئی،ان دنوں خوف بہت پھیلا تھا، پریشانی رہی۔ مہینہ ڈیڑھ مہینہ سخت کھانسی رہی۔ہر قسم کا علاج کر کے دیکھ لیا۔پھر ایک دوست حکیم حبیب الرحمن کاظمی نے دوائی بنا کر دی، اس نے کرشمہ کر دکھایا۔ عناب، لسوڑی اور بھئی سے بنائی گئی تھی۔بلغم کا اخراج ہوا اور سانس بحال۔ کھانس کھانس کر بے حال ہوگیا تھا، تین چار دنوں میں الحمدللہ مرض کا خاتمہ ہوگیا۔ ان دیسی چیزوں، ہربل علا ج کی افادیت سے انکار نہیں۔ یہ بات مگر ذہن میں رہے کہ آپ کتنے دن وٹامن سی، زنک کھائیں گے ؟ کتنے دن قہوہ بنا کر پیتے رہیں گے؟ کوئی پتہ نہیں کورونا سے ہمارا آپ کا واسطہ جون میں ہوتا ہے یا اگست میں یا پھر خدانخواستہ نومبر ، دسمبر یا اگلے سال مارچ میں؟ کوئی نہیں بتا سکتا کہ یہ موزی کب جائے گا؟ دوبارہ تو نہیں آ جائے گا؟ تبدیل شدہ شکل میں تو حملہ نہیں ہوجائے گا؟اس لئے اپنے اندر صحت مند عادتیں پیدا کریں، طویل المیعاد اور دائمی تبدیلی لائیں ، جو کٹھن لمحوں میں آپ کا ساتھ دے جائے۔ ہمیںا پنی تمام تر ذہانت استعمال کر کے اس عِفریت کے ساتھ جینا سیکھنا ہوگا۔ کامیابی اسی میں پوشیدہ ہے۔ ( بشکریہ ۔ عامر خاکوانی ، دنیا نیوز)
وبا کے موسم کی اپنی زندگی ہے، عام دنوں سے بہت مختلف۔ڈری ، سہمی،نامعلوم کے خطرے سے دوچار۔ کب ، کہیں پر خطرناک، نظر نہ آنے والا وائرس ٹکرا جائے۔ زندگی کا پورا پیٹرن بدل کر رکھ دے۔اگلے دو تین ہفتوں کے لئے قرنطینہ کی خوفناک تنہائی۔
کچھ پتہ نہیں کہ آزمائش کے ان دنوں سے کیا برآمد ہو؟
کچھ پتہ نہیں کہ پھر سے نیاآغاز ہوپائے گا یا یہیں ، بجھے بجھے ، اداس دنوں میں سفر ختم?
سوال یہ ہے کہ ہم وبا کے ان کٹھن، تاریک دنوں میں کیا کر سکتے ہیں؟
کیا کرنا چاہیے ؟
مجھے جو سمجھ آتی ہے ، وہ تین نکاتی فارمولا ہے۔
- مختصراً یہ کہ اپنے طو رپر پوری احتیاط برتی جائے۔
- غیر ضروری طور پر کہیں جایا جائے اور نہ ہی اپنے گھر مدعو کیا جائے۔
- قریبی عزیزوں ، دوستوں کی طرف سے مدعو کیا جائے تو شائستگی سے معذرت کر دیں
- ۔صرف ضروری خریداری کے لئے ہی جائیں۔
- جو خریداری ملتوی کی جا سکتی ہے، اسے کر دیں۔
- خواتین کو خاص طور سے اس بار لان کے سوٹوں، سیل میلے وغیرہ سے دور ہی رہنا چاہیے۔
- مجبوری کے عالم میں جانا پڑے تو ایسے وقت کا انتخاب کریں، جب رش کم ہو۔
- زیادہ دکانیں گھوم کر بہترین کے چکر میں خود کو کورونا کرانے سے بہتر ہے کہ کچھ کم کوالٹی سے کام چلا لیا جائے۔ ایک ہی دکان سے شاپنگ کر کے واپس آ جائیں
- ۔ماسک لازمی پہنیں، ہاتھوں میں گلوز چڑھا لیں اور باہر نکل کر انہیں اتار کر تلف کر دیں۔ پولی تھین کے گلوز سستے پڑتے ہیں ، وہ استعمال کرتے رہیں۔
- نقدی نکلوانے کے لئے اے ٹی ایم جانا پڑے تو مزید احتیاط کریں۔ ہر جگہ پر سینی ٹائزر کی بوتل لازمی رکھی ہوتی ہے،پیسے نکالنے کے بعد سینی ٹائزر استعمال کر لیں۔ ہمارے ایک دوست نے یہ طریقہ بنایا ہے کہ کسی لفافے میں کیش ڈال دیتے ہیں اوردو تین دنوں بعد ہی اسے استعمال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر نوٹوں پر وائرس کے اثرات ہوں گے تو اس وقت میں ختم ہوجائیں گے۔آپ ان شااللہ محفوظ رہیں گے، اگر خدانخواستہ وائرس کے ساتھ سامنا بھی ہوا تو وائرس لوڈ کم رہے گا۔
- اگر وائرس لوڈ کم رہے تو وائرس کے پوری طرف ایکٹوہونے سے پہلے ہی انسانی جسم اس کے جواب میں اینٹی باڈیز بنا لیتا ہے۔ تب وائرس سے نقصان کم سے کم ہوتا ہے۔ بہت سے کیسز میں تو کورونا کی علامات بھی ظاہر نہیں ہوتیں۔ وائرس لوڈ کم رکھنے کے لئے سماجی فاصلہ رکھنے اور ماسک کی احتیاط کے ساتھ دوسر ا کام اپنے جسم کی امیونٹی بہتر کرنا ہے۔ جدید لائف سٹائل میں ہم نے اپنے جسم پر ناکافی اور بے وقت نیند کے ساتھ کھانے پینے کی بری عادتوں کا بوجھ ڈال دیا ہے۔ بوجھ اتارنے ہوں گے
- ، اس کے بعد ہی جسمانی قوت مدافعت مضبوط ہوپائے گی۔سادہ ، گھر کی بنی ہوئی صحت مند غذا کھائیں۔اپنی غذا میں پروٹین شامل رکھیں، انڈے کی سفیدی، گوشت، یخنی،دالوں، لوبیہ وغیرہ میں پروٹین موجود ہے۔گوشت مہنگا ہے، مگر دال مونگ وغیرہ تو لی جاسکتی ہے۔
- وٹامن سی، زنک، وٹامن ڈی لیتے رہیں۔ ان کے سپلیمنٹ مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔
- سب سے اہم کہ سات آٹھ گھنٹوں کی رات کی نیند لیں، دن میں کم از کم آدھا گھنٹہ تیز چلیں، یوگا وغیرہ کر سکتے ہیں تو ضرور کریں۔
- ورزش سے آپ کی فٹنس اور فزیکل امیونٹی دونوں بہتر ہوں گی۔
سوال یہ ہے کہ اگر ان تمام احتیاطوں کے باوجود کسی نہ کسی طریقے سے، کہیں لمحاتی غفلت یا بھول سے کورونا کا شکار ہوجائیں ، تب کیا کیا جائے؟
اس کا کوئی آسان جواب نہیں، مگر ہمارے خیال میں پھرمعاملہ اپنے رب پر چھوڑ دیں۔ وہ سب سے زیادہ مہربان اور بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ اپنی طرف سے تمام تر احتیاط اور پھر رب کی مشیت ، مرضی کے آگے سرنڈر کر دینا۔ یہی واحد طریقہ ہے۔
روحانی امیونٹی (Immunity)یا روحانی قوت مدافعت
اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی روحانی امیونٹی مضبوط بنائی جائے ۔ اس لئے نہیں کہ کورونا سے بچے رہیں، بلکہ اس لئے کہ مشکل کے ان دنوں میں، آزمائش کے لمحوں میں آپ استقامت کے ساتھ سیدھے راستے پر رہیں۔
گمراہ نہ ہوجائیں، خوف کے عالم میں اپنا راستہ نہ کھو بیٹھیں۔
روحانی امیونٹی (Immunity)یا روحانی قوت مدافعت مضبوط بنانے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں، ماہرین اس حوالے سے بہتررہنمائی کر سکتے ہیں۔ میری طالب علمانہ رائے میں ایک دو نکات کو سامنے رکھنا چاہیے۔ جس طرح ہم جدید لائف سٹائل میں بہت سی سامنے کی باتوں سے غافل ہوگئے ہیں۔ اسی طرح دنیاوی سفر میں، زندگی کی تیز رفتار دوڑ میں اپنے اصل مقصد سے دور ہٹ گئے ہیں۔اپنے خالق، اپنے رب کو بھول گئے ۔
رب تعالیٰ جو ہماری اول ترجیح ہونی چاہیے، اب بہت نیچے کہیں اس کا نمبر آتا ہے۔ وہ بھی زیادہ تر نمائشی انداز میں۔ نماز پڑھ لی، مگر خیالات کہیں اور تھے ۔کسی مسجد، مزار پرغریبوں کے لئے دیگ چڑھا دی ،مگر اس کے پیسے غریبوں کا پیٹ کاٹ کر ہی کمائے ۔مال حرام رگ وپے میں سرائیت کرگیا۔اپنی تسلی کے لئے تلاوت کی مگر بے روح۔ لوگوں کا حق مار کر، ان سے زیادتی کر کے بے تہاشا کمایا اور پھر اس کے ایک حصے سے غریبوں کیلئے دسترخوان بنا دئیے ، بچیوں کی اجتماعی شادیاں کرا دیں وغیرہ وغیرہ۔ اس سب سے ہم کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں ؟
یقینی طور پر اپنے آپ کو ۔کسی نے ظلم نہیں کیا تو وہ کیرئر بنانے کی دوڑ میں ہرتعلق، ہر رشتے کو بھلا بیٹھا۔ خودغرضی کے گھوڑے پر سوار ہوگیا۔
وبا کے یہ کڑے دن آپ کو اپنی روحانی امیونٹی مضبوط بنانے کا موقعہ فراہم کر رہے ہیں۔ اپنے اوپر جو غیر ضروری بوجھ ڈال رکھے تھے، ان سے جان چھڑا لیجئے۔
اپنی ترجیحات کو ازسرنو تازہ کر یں اور رب تعالیٰ کو پہلا درجہ دیں۔
ایک طریقہ تو وہی کلاسیکل ہے کہ نماز کے علاوہ اپنا کچھ وقت تلاوت قرآن، ذکر خدا میں صرف کریں۔
مسنون تسبیحات پڑھیں، درود شریف سے اپنے وجود کو مشکبار کریں، سنت ﷺ کے مطابق دعائیں مانگیں۔
ہمت کریں تو ایک اور کام بھی کر سکتے ہیں۔یہ مستقل بنیاد پر روحانی امیونٹی کو مضبوط بنانے کا نسخہ ہے۔
طریقہ آسان ہے۔ کسی روز عشا کی نماز پڑھ کر جلدی سو جائیں، نصف شب کے بعد کا الارم لگا لیں۔ ڈھائی تین بجے کے قریب اٹھیں اور کسی کو ڈسٹرب کئے بغیر خاموشی سے وضو کریں ،چند نوافل پڑھیں اور جائے نماز پر کچھ دیر کے لئے اپنے رب سے کنیکٹ ہوجائیں۔ خوش قسمتی سے ہمیں اپنے خالق سے جڑنے کے لئے کسی سفارش ، کسی وائی فائی نیٹ کی ضرورت نہیں۔ آپ دل میں ہی پکاریں، وہ سننے والا مہربان، رحیم اور کریم ہے، ضرور سنے گا۔ تنہائی کے ان لمحوں میں اپنی غلطیوں ، کوتاہیوں، کمزوریوں کا اعتراف کریں۔رب سے معافی مانگیں اور ایسے تمام بوجھ اتار پھینکیں جنہوں نے روح زخمی کر رکھی ہے۔
ہر صاحب اولاد جانتا ہے کہ بچہ غلطی کے بعد شرمندہ ہو کر ماں کی گود میں منہ چھپائے تو تمام غصہ تحلیل ہوجاتا ہے۔ رب کریم کی شفقت ، محبت اور درگزر تو ماں کی محبت سے بہت بڑھ کر ہے۔ اس محبت پر یقین رکھیں۔ اپنے سب خوف، واہمے، شکوک، شبہات، پریشانیوں کے گٹھڑ اپنے کاندھے سے اتار کر اپنے مالک کے آگے رکھ دیں۔ درخواست کریں کہ یہ بوجھ میں نہیں اٹھا سکتا، آپ ہی مہان، سب سے بڑے، سب سے طاقتور ہیں، انہیں آپ ہی دیکھیں اور کرم ، فضل فرمائیں۔ رب نے چاہا تو اطمینان، آسودگی اور سکون کی لہر پورے وجود میں دوڑ جائے گی۔ پریشانیاں ہوا ہوجائیں گی۔ نامعلوم کا خوف، آنے والے طوفان کا خدشہ ذہن سے نکل جائے گا۔ اپنے آپ کو رب تعالیٰ کی مرضی کے حوالے کر دیں گے۔ اسے منظور ہوا تو سب کچھ بہترین طریقے سے گزر جائے گا۔ ہر دو صورتوں میں ہم اپنے آقا ، مالک، خالق کے غلام ہیں۔ اسی کی مرضی میں خوش اور مطمئن رہنا چاہیے۔ وہی ہمارا، اہل خانہ ، سب کا خیال رکھنے والا ہے۔اسی پر بھروسہ رکھیں۔ کبھی ناکام ، کبھی ناشاد نہیں ہوں گے۔