ڈرامہ ارطغرل جو ترکی سے نشر ہو کر مکمل ہو چکا ہے اور اب اس کا اگلا سلسلہ کورولوس عثمان جاری ہے، وہ خود دعویٰ کر تا ہے کہ وہ ایک ڈرامہ ہے، تاریخ بتانا اس کا ایک حصہ ہے یعنی یہ مکمل تاریخ نہیں ہے، اس نے مکمل اسلامی ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کیا کہ اس میں آپ پانچ وقت کی نماز با جماعت ہوئی کہ نہیں، اس پر یا اس جیسی چیزوں پر فتویٰ صادر فرمائیں.
- Pakistan’s Imran Khan says youth can learn ‘Islamic values’ from Turkish series Ertugrul …..[…….]
- Muslims and The Soft Power Soft power is the ability to attract and co-opt, rather than coerce (hard power). Soft power is the ability to shape the preferences of others through appeal and attraction. … [Continue Reading…]
- [طاقت کا نیا مفہوم]… National Power Hard vs Soft Power طاقت کا نیا مفہوم طاقت کا تصور ایک پیچیدہ تصور ہے۔ مختلف ادوار میں اس کی مختلف توضیحات کی گئیں ۔اکثر توضیحات میں طاقت …[Continue Reading…]
یہ ڈرامہ مغرب کی ان تمام فلموں، ڈراموں، سیریلز، ناولوں اور کتابوں کا بلا واسطہ جواب ہے جنہوں نے عریانیت، فحاشی اور جھوٹ کے ذریعہ اسلام اور تاریخی واقعات کو اپنے مفاد کے لیے مسخ کر کےاسلام کو بدنام، بدنما اور مسلمان نوجوانوں کو مایوس، ذہنی طور پر برباد کرنےکی کوشش کی ہے، اور جن کو مسلمان نوجوان تقریباً سو سال سے دیکھتا آرہا تھا اور کوئی متبادل نہ ہونے کی وجہ سے ان کو صحیح مان کر اپنے مذہب سے متنفر اور اپنے آباء و اجداد سے کوسو ں دور ہورہا تھا. اس کا مخاطب اصلا وہ طبقہ ہے جو پہلے سے فلمیں اور سیریلس وغیرہ ٹی وی پر دیکھتا آرہا ہے. یہ ڈرامہ بس ایک متبادل ہے جس نے اسلام کے کچھ اقدار کو اپنی مرکزیت میں رکھا ہے. اس میں موسیقی کے نام پر قدیم ترکی شاعری کا سہارا لیا گیا اور رقص سے مکمل اجتناب کیا گیا ہے. شروعات اور بوقت ضرورت جنگی میوزک اور پرانے دھن و غیرہ کا استعمال ہوا ہے. تمام مسلمان مرد و خواتین کے کردار کو، چاہے مثبت کردار میں ہو یا منفی کردار میں شرعی طور مناسب لباس میں پیش کیا گیا ہے.
ڈرامہ ارطغرل نے عالم اسلام میں غیر معمولی مقبولیت کے ساتھ ساتھ مغربی دنیا میں بھی اتنی ہی مقبولیت حاصل کی ہوئی ہے جتنی عرب، ترک یا ایشیائی ناظرین میں ہے، اور اس کا انگلش ورزن بھی دنیا کے بہترین ٹی وی سیریلز میں سے ایک ہے. ڈرامہ ارطغرل میں فلمی انداز میں اسلام کو انصاف پسند، پاک صاف، اس کے صحیح ماننے اور اس پر صحیح طریقے سے عمل کرنے والوں کو بہادر، مشکل حالات میں بھی دین اور اصول پر قائم رہنا، عشق و معاشقہ میں بھی ایک حد کو برقرار رکھنا، بڑوں کی عزت کرنا، علماء و اللہ والوں کی قربت حاصل کرنا، ان کی قدر کرنا اور قرآن و سیرت رسول صلعم سے اپنی خوشی اور مشکل حالات میں بھی راہنمائی لینا جیسی چیزوں کو بہترین انداز میں فلمایا گیا ہے. اس ڈرامہ میں کام کرنے والے لوگ عام اداکار یا اداکارہ ہی ہیں ان کی ذاتی زندگیاں یقیناً ڈرامہ کے کردار جیسی بالکل بھی نہیں ہیں. یہ اداکار مرد و خواتین ماضی میں اور حال میں بھی دوسری فلموں اور سیریلز میں کام کئے اور کر رہے ہیں جہاں ان کے کردار ایسے نہیں ہیں جیسے کردار وہ اس ڈرامے میں ادا کر ر ہے ہیں. وہ بظاہر محض اپنے پروفشنل کام کر رہے ہیں اور اپنے ہدایت کار نیز اسکرپٹ کے مطابق اداکاری ہی کر رہے ہیں. وہ اپنے آپ کو نہ تو اسلام کا داعی قرار دیتے ہیں،اور نہ ہی مکمل پابند شریعت ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں اور نہ وہ حقیقت میں ایسے ہیں. ان کی نیت کے بارے میں ہمیں علم نہیں ہے، البتہ زیادہ تر لوگوں کو حج کرتے ہوئے دیکھا گیا جہاں عرب نوجوانوں نے ان کا والہانہ استقبال بھی کیا ہے۔
ان سب کے ساتھ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس ڈرامہ کا اتنا اثر ہوا کہ مغرب کے ہزاروں غیر مسلموں میں اس نے دعوت کا بھی کام کر دیا اور لوگوں کو حقیقی تاریخ کی طرف مائل کیا ،نیز اسلام کو پڑھنے اورلوگوں کو اس کے آغوش میں لانے میں مدد گار ثابت ہوا. یہ باتیں ڈرامہ کے ناظرین نے خود ہی ڈرامہ کے تبصرے اوراپنے سوشل میڈیا کے ذریعہ دنیا کو بتایا ہے. مغرب اس سے پریشان ہے کہ اس کے مسخ شدہ حقائق سامنے آنے لگے ہیں اور ترکی اب ایک بہتر با اخلاق متبادل کے ساتھ فلم انڈسٹری میں بھی اپنا سکہ جمانے لگا ہے. مغرب کے اپنے نوجوان اپنے ماضی کے آئنیہ کو سامنے پاکر بہت فخر اور تہذیبی طور پر خود کو سب سے بہتر اور مہذب ہونے کے دعوے کرنے سے کترا رہے ہیں.
دوسری طرف مغرب کے ہمسفر اور خلافت عثمانیہ کے باغی بلکہ پہلی جنگ عظیم سے لیکر پورے عالم اسلام کے خائن آل سعود اور ان کے حوارین کا ٹولہ، جنہوں نے خلافت عثمانیہ کی بربادی میں بھر پور مدد کے ساتھ ساتھ ارض فلسطین کو برطانیہ اور مغربی طاقتوں کے حکم پر طشتری میں سجا کر یہودیوں کو پیش کیا تھا، بھی اس ارطغرل ڈرامہ اور اس کے بعد کورولوس عثمان ڈرامہ کی مقبولیت سے بے حد پریشان ہے، کیونکہ اس سے عربوں کو بھی کچھ حد تک آج سے پانچ چھ سو سال پرانی تاریخ سے فلمی انداز میں واقفیت ہورہی ہے، ترکی اور ترک قوم کی عزت میں اضافہ ہورہا ہے، اس کا مالی فائدہ بھی ہو رہا ہے نیز آگے چل کر یہ سلسلہ عرب اور ترک تعلقات پر سے بھی پردہ اٹھا سکتا ہے جو عوام کو عموماً معلوم نہیں اور خاص کر نوجوان طبقہ جو تاریخ جاننے کا شوق نہیں رکھتاوہ تو ان حقائق سے بالکل نابلد اپنے یو ٹیوب، ٹک ٹاک اور سوشل میڈیا کی زندگی میں مدمست ہے. اب تو عرب نوجوان بھی اس سیرل کو بڑے پیمانے پر دیکھتے ہیں اور ہر ہفتہ اس کے اگلے ایپیسوڈ کا بے تابی سے انتظار کرتے ہیں. یقیناً وہ بھی فلمی انداز سے ہی صحیح، کچھ حقائق سے باخبر ہو رہے ہیں اور محض عرب ہونے کی بنیاد پر ترکوں سے عداوت رکھنےکے رویے پر عقلی طور پر سوالیہ نشان قائم کر رہے ہیں.
چنانچہ اس سیریل کے اثرات کو ختم کرنے کے لئے مغرب کے ساتھ ساتھ کچھ عرب ممالک نےبھی پہلے اس سیریل کو دہشت گردی کی طرف منسوب کر کے مکمل پابندی عائد کرنےکی کوشش کی جو ناکام ثابت ہوئی، پھر اس کے جیسا متبادل سیریل عربی میں پیش کیا وہ بھی ناکام ثابت ہوا ۔اور پھر یہ غلط ہے، یا ترکوں کی عرب کے خلاف سازش ہے، جیسا پروپیگنڈہ چلایا اور یہ پروپیگنڈہ بھی ناکام ہوا تو اب لگتا ہے وہ اپنے مفتیان کرام اور دینا بھر کے دوسرے نامور مفتیان اور اداروں کو، ان کے علم میں لائے بغیر، اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتے ہیں کہ وہ حضرات یا ادارے “فلم بینی حرام ہے” کے کلیے کی بنیاد پر اس سیریل کا دیکھنا بھی عوام کے لئے گناہ کبیرہ قرار دے دیں اور جو اس فتویٰ پر عمل نہیں کرے وہ خدا نخواستہ منکر نصوص میں شمار کیا جائے . دیکھنے والوں کو مرتکب گناہ قرار دیکر اخلاقی طور کمزور تو کیا ہی جا سکتا ہے.
یہ بات عقل سلیم کے خلاف ہے کہ صرف کچھ علماء نے ہی دین کی تعلیم حاصل کی ہے اور صرف انہوں نے ہی دین کو صحیح طور پر سمجھا ہے،اور باقی علماء جو ان کی آراء سے متفق نہیں ہیں انہوں نے نہ دین سمجھا اور نہ ہی دین کی صحیح تعلیم حاصل کی ہے. اسلام میں نہ تو کوئی ایسا تصور موجود ہے اور نہ ہی یہ بات معقول ہے کہ تمام علماء بغیر سوچے سمجھے کسی خاص طبقہ کی ہدایت پر ہی عمل کریں اورعمل نہ کرنے یا اس پر اعتراض کرنے کی صورت میں وہ بے دین، حرام کے مرتکب اور نصوص کے خلاف عمل کرنے والے قرار دیے جائیں. اسی طرح کی سوچ کا نام فکری تشدد ہے اور اس سوچ نے امت کو ہمیشہ بڑا نقصان پہونچا یا ہے. موجودہ حالات اور تقاضے علماء سے ہر ممکن تحقیق اور جدید طرز زندگی کے اعتبار سے امت کی راہنمائی کا مطالبہ کرتے ہیں.
کسی شئ پر حکم کی بنیاد اس میں موجود مواد، اس کے ذریعہ سماج پر پڑنے والے ممکنہ اثرات اور اس کا طریقہ استعمال ہونا چاہیے. چاقو کا استعمال کبھی سبزی کاٹنے کے لئے، کبھی اپنی حفاظت کےلئے اور کبھی کسی کو ناحق قتل کرنے کے لئے بھی ہوتا ہے. اس میں غریب چاقو کا کوئی کردار نہیں ہوتا ہے بلکہ احکام اس کے استعمال کے اعتبار سے عامل کے لئے مرتب ہوں گے. اسی طرح موبائل سے ایک انسان اپنی ضروریات زندگی کو پوری کرتاہے، چاہے تو کبھی گیم بھی کھیل سکتا یا حرام کاری اور اڈلٹ فلمیں بھی دیکھ سکتا ہے. شرعی اور قانونی حکم صحیح یا غلط استعمال کے اعتبار سے اس کے مالک یا استعمال کرنے کے لئے ہوگا، موبائل کا بذات خود کوئی قصور یااس کی کوئی فضیلت نہیں ہے.
یہ فتویٰ منفی اثرات کے ساتھ ساتھ ڈرامہ کے لئے مثبت اثرات بھی چھوڑے گا۔ اب تک جس دیندار طبقہ نے اس ڈرامہ کو نہیں دیکھا تھا یا ان چیزوں سے لاتعلقی کی وجہ سے اس کے بارے میں واقفیت نہیں رکھتا تھا اب وہ بھی اسےدیکھے گا، اس کے بارے میں پڑھے گا اور اپنے اعتبار سے معلومات حاصل کریگا. ڈرامہ کے خلاف فتویٰ سے ڈرامہ کو بظاہر کوئی نقصان نہیں ہوگا کیونکہ جو دیکھ رہا ہے، یا تواس کو فتویٰ سے زیادہ سروکار نہیں یا اس کو اتنا مسئلہ پہلے سے معلوم ہے. البتہ اس طرح کے فتوے امت کو دعوت غور و فکر ضرور دیتے ہیں کہ وہ ماضی اور حال کے تناظر میں مستقبل کے بارے میں علمی و عملی لائحہ عمل تیار کرے کہ میڈیا جس کے معنی ذرائع ابلاغ ہیں اس کا جائز اور مفید استعمال کیا اور کیسے ہو سکتا ہے.
واضح رہے کہ ترکی سے ڈریلیس ارطغرل کے علاوہ بھی کئی سارے ڈرامے اس وقت نشر کئے جارہے ہیں جن میں سے بعض دنیا بھر میں مقبول اور متعدد زبانوں میں ترجمہ کے ساتھ نشر کئے جارہے ہیں. ان میں سے ایک ڈرامہ “میرا سلطان” اردو عنوان سے عام ہے اور یہ بھی خلافت عثمانیہ کے تاریخی دور خاص کر سلطان سلیمان کی زندگی پر مبنی ہے لیکن اس پر یا دوسرے ڈراموں پر نہ مغرب کی طرف سے اور نہ ہی عرب کی طرف سے کوئی اعتراض کیا گیا ہے. وجہ تو وہی بہتر جانتے ہوں گے لیکن ارطغرل اور دوسرے تمام ڈراموں میں فلمی طور پر ایک واضح فرق ہے. وہ یہ کہ دوسرے ڈرامے بشمول “میرا سلطان” مکمل مغربی طرز پربنائے گئے ہیں. جن میں دوسری تمام چیزوں کے ساتھ عریانیت کا عنصر بھی موجود ہے، نیز وہ ڈرامے مرکزی طور پر اسلام یا اسلامی اخلاقیات کو پیش نہیں کرتے بلکہ خلافت عثمانیہ کی عظمت، وسعت اور شاہی حرم میں خوبصورت مسلمان، عیسائی اور یہودی عورتوں کے آپسی جھگڑوں اور ایک دوسرے کے خلاف سازشوں کو مرکزی کردار کے طور پر فلمایا گیا ہے. اس لئے “میرا سلطان” کے اپنے ناظرین بشمول مغربی اور عرب ممالک کے دینا بھر میں موجودہیں. اب دنیا کو “میرا سلطان” ڈرامہ پر تو کوئی اعتراض نہیں اور نہ ہی کسی نے کسی مفتی یا ادارے سے اس کے متعلق فتویٰ پوچھا کہ اس کو دیکھنا جائز ہے یا نہیں، لیکن مغربی اور عرب ممالک کو صرف ڈرامہ ارطغرل سے پریشانی ہے اور کچھ سادہ لوح لوگ اسی کے بارے میں فتاویٰ معلوم کرتے ہیں جو مقابلتا اسلامی نقطہ نظر کو، عام مسلمان کی زندگی کو صاف اور ہر اعتبار سے بہتر ڈرامائی شکل میں پیش کرتا ہے. اس کی وجہ قارئین اپنے اپنے اعتبار سے خود ہی سمجھنے کی کوشش کریں تو بہتر ہوگا۔
فتویٰ دینے والا چاہے کتنی ہی بڑی شخصیت کا حامل کیوں نہ ہو یا کتنا بڑا ادارہ ہی کیوں نہ ہو، علوم دین کی نعمت سے مالا مال ہر فرد کو ان کے فتوے کو علم، اسلام کے مزاج، عقل، حالات اور وقتی تقاضوں کو سامنے رکھ کر پرکھنا، تولنا اور پھراس پر عمل کرنا چاہیے. اس پر بھی اگر کسی دوسرے مفتی، عالم دین یا دینی مزاج رکھنے والے شخص کو اعتراض ہو تو یہ اس شخص کی علمی تناشاہی سمجھا جائے گا اور اس شخص کوبذات خود علم و تحقیق سے بیزار اور انا پرست سمجھنا غلط نہیں ہوگا.
“داستان ایمان فروشوں کی” نامی کتاب یا “طارق بن زیاد” جیسی کتابیں،یہ سب بھی تاریخی افسانے ہی ہیں جن میں سب کچھ، ڈرامہ، پیار محبت، اصل تاریخ میں کچھ مبالغہ آرائی، جذبات، لڑائی، ایمانداروں کی بہادری اور اسلام پسندوں کے عقل و فراست پرمبنی کہانیوں کو قارئین کے لئے قلم کار نےافسانوی انداز میں پیش کیا ہے. قاری کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی حدیث، تفسیر یا تصوف کی کتاب کا مطالعہ نہیں کر رہا ہے بلکہ اپنے مزاج کے مطابق ایک افسانہ ہی پڑھ رہا ہے. اس کو پڑھنے سے ایک انسان بہتر ایمان والا بنے گا کہ نہیں مجھے معلوم نہیں، لیکن اس کی عقل میں کچھ اضافہ ضرور ہوگا اور سوچنے کے لئے ایک الگ ڈگر کی طرف اسے راہنمائی حاصل ہوگی. نیز اس میں اخلاقی بے راہ روی کی کوئی بات نہیں ہے اس لئے اگرچہ اس کا پڑھنا کار ثواب تو نہیں ہوگا، لیکن اس کا پڑھنا کوئی گناہ کا عمل ہے، اگر یہ بات کوئی عالم یا مفتی کرتے ہیں، محض اس لئے کہ ان کو ان موضوعات سے دلچسپی نہیں ہے یا ان کو یہ سب عبث لگتا ہو، تو ان کو خود عقل کا دروازہ کھول کر فقہ اور شریعت اسلامیہ کا مزید مطالعہ کرنا چاہیے.
ڈرامہ، افسانہ، ناول، شعر و شاعری اور قصہ گوئی کا فن کسی بھی قوم کی تہذیب، ادب اور ثقافت (آرٹ) کا حصہ ہوتے ہیں. اس بات سے کوئی بھی صاحب علم و حکمت انکار نہیں کر سکتا ہے. یہ اگرچہ اسلام میں دین کا حصہ نہیں ہوتے ہیں لیکن یہ سب ہر قوم کی قومیت اور اس کی الگ پہچان کے حصے ضرور ہوتے ہیں۔ اس لئے جب تک واضح طور پرغیر شرعی امور یا نقصان عام کا عنصر ان میں شامل نہ ہو، اسلام ان پر خاموشی کا موقف اختیار کرتا ہے.
میڈیا، فلم اور سیریلز عوام کی آراء کو ہموار کرنے یا ان کو مخالف سمت میں بدلنے میں اس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ کارگر اور اثر انداز ذریعے ہیں. اس بات سے انکار بھی کوئی عقلمند صاحب علم نہیں کر سکتا ہے.
آج کا انسان موبائل سے تقریباً مکمل طور جڑ چکا ہے. کچھ بہت دور دراز گاؤں کو چھوڑ کر اب ہر گھر میں موبائل زندگی کا ایک اہم حصہ ہے. ویڈیو کانفرسنگ، وڈیو کالنگ، سوشل میڈیا پر ویڈیو کلپس کا استعمال، دعوت و تبلیغ کے کام کے لئے بھی سوشل میڈیا خاص کر یو ٹیوب اور فیس بک لائیو کا استعمال، یہاں تک کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ لائیو دعا اور علمی مجالس کا اب انعقاد کیا جانے لگا ہے.
آج جو بھی ملٹی میڈیا موبائل استعمال کر رہے ہیں وہ سب فلمیں دیکھنے کے مرتکب ہیں. آپ چاہے یا ناچاہے سوشل میڈیا پر ویڈیو کلپس تو آہی جاتی ہیں. اگر یہ بھی نہیں تو کمپنیوں کی طرف سے چھوٹے بڑے کمرشلا اسکرین پر منھ چڑھاتے نظر آتے ہیں. یہ سب فلمیں ہیں، کچھ پروفیشنلی تیار ہوتی ہیں اور کچھ انفرادی طور پر غیر پروفیشنلی تیار کیے ہوئے ہوتی ہیں. فلم حرکت کرتی ہوئی ڈیجیٹل تصویر کو کہا جاتا ہے اور فلم اس آلہ کا بھی نام ہے جس میں انیمیٹیڈ یا نان انیمیٹیڈ امیج (یعنی متحرک یا غیر متحرک تصویر) کومحفوظ کیا جاتا ہے.
ابھی مستقبل قریب میں یہ ٹیکنالوجی اور بہت آگے جانے والی ہے ۔جب سافٹ اسکرین، لیزر ٹیکنالوجی اور مالٹی ڈائیمنشن امیج ٹیکنالوجی عام ہوگی، تب اخبار، پرینٹ میڈیا (کتاب و رسائل) اور ریڈیو کے ساتھ ساتھ موجودہ ٹیلیویژن کی دنیا بھی بہت حد تک متاثر ہوگی. ان میں سے کچھ تو میوزیم کی زینت بنے والے ہیں. اس صورت میں ڈیجیٹل امیج (تصویر) اور ویڈیوز لوگوں کی زندگی کا ناگزیر حصہ ہوں گی. عام مواصلات، ذرائع علم و فن بہت حد تک ڈیجیٹل ہی ہوں گے اور اس میں دونوں قسم کے امیجز اس سسٹم کے ناگزیر اجزاء ہوں گے. لوگوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہوگا. اس صورت میں علماء کا فتویٰ کیا ہونا چاہئے؟
لہذا آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ سنجیدہ علماء، فقہی تنظیمیں اور اہم دینی ادارے ڈیجیٹل فوٹوگرافی کے بارے میں اپنے ماضی کے موقف پر دوبارہ حالات، تقاضے اور شرعی ضوابط و شرائط کو سامنے رکھ کر نظر ثانی کریں. یہ بات ذہن میں رہے کہ دنیا بھر کے علماء تقریباً تین سو سال تک اس بات پر متفق نہیں ہو پائے تھے کہ موجودہ پرنٹنگ مشین کا استعمال کتابوں کی طباعت کے لئے جائز ہے یا نہیں. خلافت عثمانیہ ہی کے دور میں علماء کرام نے اس عمل کو حرام ہونے کا فتویٰ صادر کیا تھا اور استعمال کرنے والے کو قتل تک کروایاگیا تھا. وہ حضرات بھی اپنی سمجھ اور علم کے مطابق شریعت اور نصوص کو بنیاد بنا کر ہی فتویٰ دے رہے تھے اور اس کی مخالفت کرنے والوں کو کم فہم، ناقص العلم، دین سے دور اور اسلام بیزار بلکہ اسلام دشمن قرار دے رہے تھے. اس ایک اجتہادی غلطی کی وجہ سے مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے جو آج تک جاری ہے. اسی دوران مغرب نے زیادہ تر مسلمان ماہرین اور محققین کے علم، طب اور جدید سائنس پر کیا گیا کام، مشاہدات، تجربات اور اصول و ضوابط جو پہلے مسودات کے شکل میں تھے یا تو اپنے محققین کے نام سے یا مسلمان محققین کے ناموں کو انگریزی، فرانسیسی ناموں کا شکل دے کر چھاپ دیا. پھر پئے در پئے دنیا بھر میں سیاسی اور معاشی تبدیلیاں آتی گئیں جو یکے بعد دیگرے مسلمانوں کے لیے مثبت ثابت نہیں ہوئے اور اس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے. علم اور جدید سائنس کے دوڑ میں مسلمان وہیں سے بہت پیچھے، تین سو سال پیچھے ہوگئے، اور اس کے بعد یہ دوری بڑھتی ہی جارہی ہے.
ابھی سو سال بھی نہیں ہوئے ہوں گے کہ دارالعلوم دیوبند نے بھی موجودہ مائک پر جہری نماز کے عدم جواز کا فتویٰ دیا تھا، اب سو سال کے اندر اندر خود دارالعلوم سمیت تمام دینی اداروں کا عمل اس کے خلاف ہے. اس طرح اور بھی کئی سارے مسائل ہیں جن کے تفصیلی تذکرہ سے یہاں امت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اس لئے دو مثالوں پر اکتفا کیا جارہا ہے ہے.
ان مثالوں کا تذکرہ اسے لئے کیا گیا ہے کہ ہمیں یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مفتی بھی انسان ہی ہوتے ہیں وہ شریعت یا صاحب شریعت نہیں ہیں. کسی خاص مسئلہ، اس کی اہمیت، تفصیلات اور آگے اس کی وجہ سے امت پر مثبت یا منفی اثر کس حد تک پڑےگا یہ تمام باتیں بیک وقت سمجھنا ان کے لئے بھی مشکل ہو سکتا ہے یا وہ بھی غلط نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں اور پھر اسی اعتبار سے ان کا فتویٰ تاریخی غلطیوں میں سے ایک شمار ہوگا لیکن تب تک امت کا اجتماعی نقصان ہوچکا ہوگا. اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ زمانہ کی تبدیلی کے ساتھ جب بعد کے علماء کو صحیح صورت حال کا علم اور امت کی ضرورتوں کا احساس ہوا تب انہوں نے ماضی میں دئیے گئے فتویٰ بدلے بھی ہیں.
ڈریلیس ارطغرل ڈرامہ پر دارالعلوم دیوبند کا حرام اور ناجائز کا فتویٰ مندرجہ بالا نکات کے مد نظرقابل غور ہے. ڈیجیٹل امیج اور جدید کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کو سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے. افراط اور تفریط کے درمیان والا راستہ ہی صحیح ہے. ایک طرف کوئی عالم صاحب کہتے ہیں کہ ملٹی میڈیا فون اگر جیب میں بند حالت میں ہے تب بھی نماز درست نہیں کیونکہ اس کے اندر فوٹو ہوتے ہیں، اور دوسری طرف کوئی اتنا ایڈوانسڈ عالم ہے جو یہ فتویٰ دے رہے ہیں کہ اس لاکڈاؤن کے زمانے میں امام کے پیچھےآن لائن اقتدا بھی نماز کے لئے درست ہے. یہ دونوں آراء خطرناک حد تک افراط اور تفریط کا نمونے ہیں. امت کے لئے مفید، قابل عمل اور مستقبل کےلئے بہتر لائحہ عمل پیش کرنا سنجیدہ علماء اور بڑے اداروں کی دینی اور ملی ذمہ داری ہے جس سے بر وقت عہدہ براہونا بھی ضروری ہے.
موجودہ ترکی نے عثمانی عہد کی غلطی کو نہ دھراتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی سے بھاگنے کے بجائے اس کو اپنے لئے مثبت طریقے پر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے، جو قابل قدر اور دوسرے مسلم ممالک کے لئے قابل تقلید بھی ہے. ترکی ہی نے پاکستان اور ملائشیا کے اشتراک سے بی بی سی اور سی این این جیسا عالمی میڈیا نیٹورک قائم کرنے کی کوشش کی ہے جس کا اہم مقصد اسلام اور مسلمانوں کے نقطہ نظر کو دنیا کے سامنے مختلف زبانوں میں پیش کرنا تھا. یہ اور اس جیسی مزید بہت سی کوششیں اب پاکستان کی عدم دلچسپی کی وجہ سے التوا میں ہیں. وجہ تو اللہ ہی جانتا ہے، بظاہر عمران خان صاحب کو ملا ئشیا کی میٹنگ میں عدم شرکت کی قیمت سعودی حکومت کی طرف سے ادا کردی گئی تھی جس کی وجہ سے وہ تین میں سے ایک سب سے اہم فرد ہوتے ہوئے بھی نا تو خود شریک ہوئے اور نا اپنے وزیر خارجہ کو بھیجا.
میڈیا، فلم، سیریلز، ڈرامہ اور آنے والی مزید ایڈوانسڈ ٹیکنالوجی جو تبلیغ و ارسال کے مارکیٹ میں آنے والی ہیں، آگے کے لئے مزید موثر ذرائع ابلاغ ہوں گے. ان کو یکسر مسترد کرنے کی بہت بڑی غلطی پہلے ہی ہو چکی ہے، اب بھر پائی کی کوشش کی جانی چاہیے. ماضی کی اجتہادی غلطیوں کو دوہرانا اور پھر ان کو اسلامی لبادہ میں پیش کرکے امت کو دین کے نام پر اپاہج جیسا بنانے کی کوشش کرنا کسی طرح عقلمندی نہیں اور نہ ہی امت کے مفاد میں ہے۔
محمد برہان الدین قاسمی (مضمون نگار ممبئی میں مقیم اور ایسٹرن کریسنٹ (انگریزی ماہنامہ) کے مدیر ہیں)