تحریکِ پاکستان کے شہیدوں کا قرض India Partition 1947

تحریکِ پاکستان کے شہیدوں کا قرض

از محمد الطاف قمر (سابق آئی جی پولیس)

1947ء ؁ کا سورج طلوع ہوا تو تحریکِ پاکستان اپنے پورے زوروں پر تھی ۔ ہندوستان کا ہرشہر ، قصبہ ، گاؤں، گلی اور محلہ ’پاکستان کا مطلب کیا ؟ لاالہ الااللہ ! ‘ ، ’لے کے رہیں گے پاکستان ‘ ، ’بن کے رہے گا پاکستان‘ ، ’بٹ کے رہے گا ہندوستان‘ اور ’قائداعظمؒ زندہ باد‘ کے نعروں سے گونج رہاتھا ۔

مسلمانانِ ہند کا جوش وخروش دیدنی تھا ۔ کیا چھوٹا کیابڑا، کیامرد کیا عورت، کیا بچہ کیا بوڑھا : ایک ہی دُھن ، ایک ہی جذبہ ، ایک ہی مقصد اور ایک ہی مطالبہ ، پاکستان! یہ جذبہ اور جوش و خروش اُن علاقوں میں بھی اُسی طرح برپا تھا ، بلکہ کچھ زیادہ ہی ، جو کسی صورت پاکستان کا حصہ نہ بن سکتے تھے، جیسا کہ اُن علاقوں میں جو مجوزہ اور مطلوبہ پاکستان کا حصہ بننے جارہے تھے۔ ماسوائے ( مولانا فضل الرحمان کے اجداد ، نشنل عوامی پارٹی ، غفار خان ولی خان کے والد ) چند کانگرسی اور احراری علماء اور اُن کے پیروکاروں کے ، پورے ہندوستان کے مسلمان رنگ، نسل ، زبان ،علاقہ ، سیاسی، سماجی اور معاشی حیثیت کے تعصبات سے بالاتر ہوکر ایک اُمت اور ایک قوم ’ مسلم اُمہ‘ کی حیثیت اختیار کرچکے تھے، جن کا ایک ہی نصب العین اور ایک ہی منزل تھی ، پاکستان!

ضرور پڑھیں >>>> دو قومی نظریہ – نظریہ پاکستان

Massive population exchanges occurred between the two newly formed states in the months immediately following the Partition. “The population of undivided India in 1947 was approx 390 million. After partition, there were 330 million people in India, 30 million in West Pakistan, and 30 million people in East Pakistan (now Bangladesh).”Once the lines were established, about 14.5 million people crossed the borders to what they hoped was the relative safety of religious majority. The 1951 Census of Pakistan identified the number of displaced persons in Pakistan at 7,226,600, presumably all Muslims who had entered Pakistan from India. Similarly, the 1951 Census of India enumerated 7,295,870 displaced persons, apparently all Hindus and Sikhs who had moved to India from Pakistan immediately after the Partition. The two numbers add up to 14.5 million. Since both censuses were held about 3.6 years after the Partition, the enumeration included net population increase after the mass migration. Keep [Reading  《《 Here》》

حکومتِ برطانیہ اس بات پر تو اُصولی طور پر رضامند ہوچکی تھی کہ ہندوستان کو 1948ء ؁ میں آزاد کردیاجائے، لیکن ہندوستان کو تقسیم کرکے ’پاکستان‘ کے نام سے ایک نیا ملک بنانے پر وہ کسی طور رضامند نہ تھی۔ لیکن بالآخر قائداعظمؒ کے اپنے دلائل سے بھرپور مؤقف پر بے لچک رویے اور مسلمانوں کے بے پناہ جوش وخروش کے سامنے حکومتِ برطانیہ نے بوجھل دل کے ساتھ گھٹنے ٹیک دیئے ، اور اپنے مجوزہ منصوبہ آزادی سے ایک سال قبل ہی 3جون 1947ء ؁ کو ہندوستان کی آزادی اور پاکستان کے نام سے ایک الگ ملک کے قیام کا اعلان کردیاگیا۔نئی اور آزاد مملکتوں کے ظہور کیلئے 14اور 15اگست 1947ء ؁ کی درمیانی رات بارہ بجے کا وقت طے ہوا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کسی خاص مصلحت یامشیت کی طرف اشارہ تھا کیونکہ یہ رات لیلۃ القدر تھی۔ اگلادن 27رمضان المبارک اور جمعۃ الوداع کادن تھا اور اس کے تین روز بعد عید الفطر آنے والی تھی۔ مسلمانوں کیلئے یہ ہر اعتبار سے ایک مبارک ساعت، مبارک رات، مبارک دن ،مبارک ماہ اور مبارک سال تھا۔ پورے ہندوسان کے مسلمان ،خواہ وہ مجوزہ پاکستان کاحصہ بننے والے تھے یا نہیں، خوشی سے پھولے نہیں سمارہے تھے۔ جشن کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ مبارک بادیں دی اورلی جارہی تھیں۔نعرہ تکبیر بلند ہورہے تھے۔گلی گلی ، گاؤں گاؤں اور شہر شہر ’پاکستان زندہ باد‘ اور’قائداعظم زندہ باد‘ کے فلک شگاف نعرے لگ رہے تھے۔ لیکن دوسری طرف ہندوؤں کے سینوں پر سانپ لوٹ رہے تھے۔وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کی بہت بڑی اکثریت ،طاقتور مذہب، نامی گرامی لیڈروں ، بڑی تعداد میں کانگرسی اور احراری مسلم علماء کی معاونت اور انگریزوں کی علانیہ اور خفیہ حمایت کے ہوتے ہوئے مسلمانوں کا ایک نحیف و نزار لیڈر،محمد علی جناح ، جوکوئی بھی ہندوستانی زبان اچھی طرح لکھ، پڑھ ،بول نہیں سکتاتھا،محض اپنی ذہانت ، فطانت، دیانت،کردارکی مضبوطی،آئینی وقانونی معاملات میں مہارت،موقف کی مضبوطی ،جہدِمسلسل اوراپنی قائدانہ صلاحیتوں کے زور پر اُن تمام کو چارو ں شانے چت کرکے بھارت کا ایک حصہ پاکستان کے نام پر اُن کے ہاتھوں سے چھین لے جائے گا۔ یہ اُن کی ’بھارت ماتا ‘ یعنی اُن کی ماں کو دوٹکڑے کرنے کے مترادف تھا۔ اُن کے ہاں سوگ برپاہوگیا،صفِ ماتم بچھ گئیں اورآہ وبکا شروع ہوگئی۔ پھر وہ غیض وغضب اور نفرت وانتقام کا بگولہ بن کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ۔اور پھر چشمِ فلک نے ان ہندوؤں اور سکھوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر ظلم وبربریت کے وہ مظاہرے دیکھے کہ انسانیت رہتی دنیا تک اِن پر ماتم کناں رہے گی۔ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے جب مجوزہ پاکستان سے باہرکے قریبی علاقوں کے مسلمانوں نے اپنے گھر بار اور مال واسباب سب کچھ چھوڑ کر خالی ہاتھ اپنی جانیں بچانے کیلئے پاکستان کی طرف ہجر ت کرنا چاہی تو ہندوؤں اور سکھوں نے انہیں اپنی تلواروں، کرپانوں، برچھیوں اور نیزوں کی نوک پر رکھ لیا۔ شہروں کے شہر ، قصبوں کے قصبے ، گاؤں کے گاؤں اور محلوں کے محلے مسلمانوں کے وجود سے صاف کردیئے گئے ، اس طرح کہ بچے ، جوان ،بوڑھے اور بوڑھیاں تہِ تیغ کردی گئیں اور جوان لڑکیوں اور عورتوں کو وحشیانہ آبروریزی کے بعد یاذبح کردیاگیا ، جلادیاگیا ، ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا یا باندیوں کی طرح گھروں میں ڈال لیاگیا، اور ان کے گھر بارلُوٹ لئے گئے ۔ ا س دوران وحشت اور جنون کے عالم میں انسانیت سے گرے ہوئے ایسے ایسے شرمناک ، لرزہ خیز، بھیانک اور کریہہ مناظر دیکھنے میں آئے کہ جنہیں کوئی ذی حِس انسان نہ سناسکتاہے ، نہ سن سکتاہے اور نہ لکھ سکتاہے۔ شیطنت اور بربریت کے دوران 10لاکھ سے زائد مسلمان مردوں ،عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو شہید کیاگیا ، لاکھوں زخمی اور لاکھوں عمر بھر کیلئے معذور ہوگئے۔ڈیڑھ لاکھ کے قریب جوان مسلمان خواتین اغوا کرلی گئیں یا بزورروک لی گئیں۔جان و مال اور عزت وآبروکے تحفظ سے محروم اَسی لاکھ سے زائد مسلمان ہندوستان کے مختلف علاقوں سے راستے میں اپنے پیاروں کو گنواتے ، کٹواتے ، مرتے اور مارتے خالی ہاتھ پاکستان ہجرت کر آئے ۔ یہ سب کچھ کس طرح ہوا ،آئیے! آپ بھی اس نوع کے ہزاروں واقعات میں سے وہ شرمناک، بھیانک اور کریہہ المنظر واقعات کہ جن کوسننے ،سنانے او رپڑھنے سے انسانی طبیعت کوگھن آتی ہے کوچھوڑ کر چند ایک کی جھلکیاں دیکھ لیں ۔

ضرور پڑھیں >>>> دو قومی نظریہ – نظریہ پاکستان

اس ضمن میں پہلا واقعہ ایک مظلوم مسلمان عورت کی اپنی زبانی سنیے:

’’قیامِ پاکستان کے اعلان کے فورًا بعد شمالی ہندوستان کے طول و عرض میں ہندومسلم فساد پھوٹ پڑے۔ انسانی اور اخلاقی قدریں محض قصہ ماضی بن کر رہ گئیں۔ سالہا سال سے اکٹھے رہنے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ ان حالات میں میرے والد نے گاؤں کے دوسرے لوگوں سے مشورے کے بعد پاکستان کی طرف ہجرت کا فیصلہ کیا، لیکن ہندوؤں اور سکھوں کو یہ بات بھی گوارا نہ تھی اور عین ہماری روانگی کے وقت آس پاس کے گاؤں سے مسلح جتھے وہاں پہنچ گئے اور چشم زدن میں تمام مردوں کو تہِ تیغ کردیا۔ نوجوان لڑکیوں کو ان کی ماؤں کے سامنے اجتماعی ہوس کا نشانہ بنایاگیا۔ آج بھی جب میں ان دلخراش منظر کوچشم تصور سے دیکھتی ہوں تو یقین نہیں آتا کہ ابن آدم ذلت کی ان گہرائیوں تک بھی جاسکتاہے۔ میرا معصوم بھائی باقی بچوں کی طرح ڈرا سا کھڑا تھا ۔ جب اس نے چند حیوانوں کو میری طرف بڑھتے دیکھا جن پر میری منت سماجت کا کوئی اثر نہیں ہورہا تھا تو بھاگ کر میرے سامنے آگیا اور مجھے اپنی پناہ میں لے لیا۔ تبھی ایک منحنی سے ہندو نے اپنی کلہاڑی کا زوردار وار اس معصوم کی گردن پر کیا جس سے اس کا سر تن سے جداہو کر دُور جاپڑا۔ اس پر اس ظالم نے شیطانی ہنسی ہنستے ہوئے کہا اگر مجھے معلوم ہوتاکہ تمہاری گردن اتنی کمزور ہے تو اپنی کلہاڑی تمہارے گندے خون سے بھرشٹ (ناپاک) نہ کرتا۔ اب مجھے اپنی کلہاڑی گنگاجل سے دھو کر پوتر (پاک) کرنی پڑے گی‘‘ یہ کہہ کر وہ بھی شیطانی کھیل میں شامل ہوگیا۔یہ سب کچھ ہونے کے باوجود زمین پھٹی نہ آسمان ٹوٹ کر گرا۔ تمام بوڑھی عورتوں کو قتل کرنے کے بعد سب لڑکیوں کو وہ ایک حویلی میں لے گئے اور سب قطار بناکر کھڑے ہوگئے اور باری باری اپنے ’اشرف المخلوقات‘ ہونے کا ثبوت فراہم کرتے گئے۔ نئے آنے والے قطار کے آخر میں اپنی باری کے انتظار میں کھڑے ہوجاتے۔ اس عمل میں زندہ بچ جانے والی چند خوش نصیب یا بدنصیبوں میں میں بھی شامل تھی۔ اس کے بعد میں ایک کے ہاتھوں سے دوسرے تک پہنچتی رہی۔ آخر سوہن سنگھ نے مجھے اپنے گھر ڈال لیا اور شادی بھی کرلی۔ سات سال بعد سوہن سنگھ سورگباش ہوگیا تو اُس کے چھوٹے بھائی مہندر نے مجھ سے شادی کرلی۔‘‘(بحوالہ:1947ء ؁ کے مظالم کی کہانی خود مظلوموں کی زبانی۔ از حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی)۔

اور ہوشیارپور کایہ دردناک واقعہ بھی سن لیں:

’’ہوشیار پور کی وہ رات بے حد طویل تھی ۔ چوک سراجاں پر حملے کی دوسری رات۔۔۔حملہ آوروں کی تعداد میں اضافہ ہورہاتھا۔ پہلے روز پچاس نوجوان شہید ہوئے۔ دوسرے روز ساٹھ، شام ہونے سے پہلے دوچار ایسے دلدوز واقعات ہوئے کہ مسلمانوں کی عزیمت اور جوش میں زبردست اضافہ ہوا۔ بزرگ اور نوعمر بھی میدان میں اترنے لگے۔ عصر کے وقت سے دست بدست لڑائی ہورہی تھی۔ ایک مسلمان نوجوان گرا، خون کے فوارے نکل رہے تھے۔ اس نوجوان کا گھر لڑائی کے میدا ن کے بالکل سامنے تھا۔۔۔گھر کا ایک چھوٹا بچہ یہ منظر دیکھ رہاتھا۔ خواتین کو ہوش نہ رہا اور بچہ ابا ابا کہتے ہوئے دروازے سے نکل کر ہندوؤں اور سکھوں کی طرف بھاگا۔ سکھوں نے بچے کو پکڑ لیا اور چلاّ چلّا کر اعلان کیا، دیکھو ہم آج مُسلے کے بچے کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ مسلمان دم بخود تھے کہ یہ بچہ وہاں کیسے پہنچ گیا۔ سکھوں نے بچے کو اوپر اُچھالا اور نیچے سے نیزے پر اسے لے لیا۔ بچے کی چیخ اس قدر دلدوز تھی کہ آسمان تک لرز اٹھا۔ اُ س نے تڑپ تڑپ کر وہیں جان دے دی۔ ‘‘ (بحوالہ: اُردوڈائجسٹ اگست 2016)

ایک فوجی کانوائے کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آنے والے ایک نوجوان نے دورانِ راہ جوکچھ دیکھا وہ اس طرح بیان کرتاہے :

’’راستے میں اِکا دُکا مسلمان عورتیں ملتی گئیں ،انہیں بھی ساتھ لیتے آئے۔ سکھوں اور ہندوؤں نے اپنی درندگی کا جی بھر کر مظاہرہ کیا تھا۔ ہوشیارپور سے نکلتے وقت ایک عورت زخمی حالت میں پڑی ملی۔ والد صاحب نے اٹھا یا تو اس کی ٹانگیں اور سینہ کٹے ہوئے تھے۔ یہ ایک مشہور خاندان کی نوجوان خاتون تھی ۔ ابا جی کو معلوم ہواتو ضبط نہ کرسکے ۔ اس خاتون نے صرف اتنا کہا ’ آپ جائیے چاچا جی ،غم نہ کریں !۔اتنا سب کچھ ہوجانے پر پاکستان تو بن گیا۔ مجھے خوشی ہے میں امت کے کسی کام تو آئی‘۔۔۔۔نہر عبور کرکے ہم سب شدتِ تاثر سے کانپ رہے تھے کہ ایک طرف سے کراہنے کی آواز آئی۔ ایک بزرگ ڈاکٹر نصیرالدین آگے بڑھے ۔ انہوں نے پوچھا کون ہے؟ نسوانی آواز آئی۔ وہ فوراً لپکے ۔ ایک خاتون خون میں لت پت پڑی تھی۔ پانی پلاکر مرہم پٹی کرنے کی کوشش کی مگر کچھ فائدہ نہ ہوا ۔ اس خاتون نے مرتے وقت صرف اتنا کہا ’شام چوراسی کی جنگ میں میرے والد اور سات بھائی ، چچا اور ان کے چار لڑکے شہید ہوگئے۔ تین بہنیں لڑتے لڑتے اور اپنی عزت بچاتے ہوئے نہر میں ڈوب گئیں ۔ والدہ کو انہوں نے قتل کردیا ۔ میں چھپ گئی ۔ انہوں نے مجھے ڈھونڈ نکا لا۔ جب قریب آئے تو میں نے چھرے اور ٹوکے سے دو کو زخمی کردیا ۔ انہوں نے جھلّا کر میرا یہ حشر کیا ہے ۔آخری سانس لینے سے پہلے اِس مظلوم خاتون نے کہا ’’پاکستان کو میرا سلام پہنچا دیجئے ۔‘‘ ۔۔۔۔جالندھر کے مسلمانوں نے جس بے جگر ی، دردمندی اور زبردست قربانی سے تحریک پاکستان کے لئے کام کیا وہ تاریخ پاکستان کا روشن باب ہے۔ انہوں نے پاکستان کے اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کیلئے تحریک پاکستان کو تاریخی قربانیوں سے ہمکنار کیا ۔ جالندھر کیمپ کے واقعات بڑے دلدوز تھے ۔ مجھے یاد ہے ایک خاتون آخری دموں پر تھی ۔ اُسے معلوم ہوا کہ ہم لوگ کانوائے پر پاکستان جا رہے ہیں تو اس نے بابا جی کو بُلا کر کہا ، ’’یہ میرے زیورات ہیں ۔ خاندان کے سارے مرد شہید ہوچکے ہیں۔ ان زیورات کو قائد اعظمؒ تک پہنچا دیں ۔ شاید پاکستان کے کام آجائیں۔‘‘(بحوالہ:اُردو ڈائجسٹ اگست 2016)۔

مشرقی پنجاب میں خون کا جوسیلاب آیا اس کا کچھ اندازہ’ لندن ٹائمز ‘کے نامہ نگار آین مورسن کی ذاتی مشاہدات پر مبنی ان تین رپورٹوں سے لگایاجاسکتاہے جو اُس نے اگست اور ستمبر1947ء ؁ کو جالندھر اور امرتسرسے اپنے اخبار کو ارسال کی تھیں۔پہلی رپورٹ میں وہ لکھتا ہے ’’ سکھ مشرقی پنجاب کو مسلمانوں سے خالی کروانے میں سرگرم ہیں۔ و ہ ہرروز بے دردی سے سینکڑوں افراد کو تہِ تیغ کرتے ہیں اور ہزاروں کو مغرب کی جانب بنوکِ شمشیر بھگادیتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے دیہات اور گھر وں کو نذرآتش کررہے ہیں۔ اس ظلم وتشدد کو سکھوں کی اعلیٰ قیادت نے منظم کیا ہے اور یہ خوفناک کام بڑے معین طریقے سے علاقہ بہ علاقہ کیاجارہاہے ۔ ‘‘ دوسری رپورٹ میں لکھتا ہے ’’امرتسر میں 8اگست (یعنی تقسیم سے پہلے ہی )کے بعد مسلمانوں کے محلوں کے محلے دھڑا دھڑجلناشروع ہوگئے تھے اور لوگ پناہ کے لئے بھاگنا شروع ہوگئے ۔ 13اور 14اگست کو پورا امرتسر شعلوں کی لپیٹ میں آچکاتھا ۔ 15اگست کو امرتسر میں ہندوستان کا ’یوم آزادی‘ بڑے عجیب طریقے سے منایاگیا۔سہ پہر کو سکھوں کے ایک ہجوم نے برہنہ مسلمان عورتوں کا جلوس امرتسر کے گلی کوچوں میں نکالا۔ ان کی آبروریزی کی اور پھر بعض کو کرپانوں سے ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور بعض کو زندہ جلادیا۔ دوسرے دن جب ایک مجسٹریٹ کے ساتھ شہر کا معائنہ کیا گیا تو گلی کوچوں میں لاشوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ مکانوں کے اندر جھانکاتو وہ بھی لاشوں سے اَٹے پڑے تھے۔ ایک مسجد کے اندر نظر ڈالی تو وہاں بھی متعدد لاشیں نظر آئیں۔ وہ سب نوجوان لڑکیوں کی لاشیں تھیں۔ 46برہنہ لاشیں۔ ان کے گلے کٹے ہوئے تھے۔ ان کی حالت بتارہی تھی کہ ذبح کرنے کے سے پہلے ان کی عصمت دری کی گئی تھی۔‘‘ تیسری رپورٹ میں وہ مسلمانوں کے ایک بیس میل لمبے قافلے کے بارے میں ایک خبران الفاظ میں بجھواتاہے ’’اس قافلے میں بیس ہزار سے زائد افرا د تھے اور ان میں سے اکثر پید ل ہی پاکستان کی جانب بڑھ رہے تھے۔ ایسے ہی کئی اور قافلے بھی مشرق سے مغر ب کی طرف رواں دواں تھے۔ آبلہ پا ، تھکان سے چور، بھوکوں کے مارے، سفر کی صعوبتوں سے نڈھال‘‘۔ دوماہ بعد وہ لکھتاہے ’’70لاکھ سے زائد مہاجرین گرتے گراتے پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ وہ بالکل بے سروسامان تھے۔ ان کے پاس تن کے کپڑوں کے سوا اور کچھ نہ تھا اور ان کپڑوں کی بھی اکثر دھجیاں اُڑی ہوئیں تھیں۔ یہ وہ دردکشانِ بلا تھے جنہوں نے معصوم بچوں کا قتل ،لاشوں کی قطع وبریدی اور عورتوں کی بے حرمتی اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی ۔ راستے میں ہر قدم پر موت ان کی گھات میں تھی ۔ ان میں سے ہزاروں بھوک وبیماری سے راستے ہی میں جاں بحق ہوگئے یاسکھوں کے خون آشام جتھوں نے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔بہت سے پاکستان کی سرحد پرپہنچتے ہی ابدی نیند سوگئے۔ ‘‘ (بحوالہ :خونِ مسلم ارزاں ہے۔از ڈاکٹر سعید احمد ملک)۔

پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والے مہاجرین کی ٹرینوں پر بھی جابجاحملے ہوتے رہے۔ اکثر ٹرینوں کے سارے کے سارے مسافر فنا کے گھاٹ اتار دیئے جاتے، نوجوان لڑکیاں اغوا کرلی جاتیں اور ان کی زندگیاں موت سے بدتر ہوجاتیں۔ اس ضمن میں بے شمار واقعات میں سے صرف دو کا تذکرہ کیاجاتاہے ۔پہلے واقعہ کا راوی گنڈا سنگھ والا ریلوے سٹیشن کا اسسٹنٹ ریلوے ماسٹرخودہے ۔وہ کہتاہے:

’’ایک مہاجر ٹرین فیروز پور کی طرف سے قصور آرہی تھی۔ گنڈا سنگھ والا سٹیشن پہنچ کر رُکی ۔ مجید یزدانی صاحب پلیٹ فارم پر اس کا استقبال کررہے تھے۔ گاڑی رُکی تو انہوں نے دیکھا کہ سب بوگیا ں خون سے لت پت ہیں اور ڈبوں میں لاشوں کے انبار لگے ہیں۔ یہ منظر اس زمانے کا معمول تھا۔ آگے ایک اور قسم کا منظر آرہا تھا ۔ سب بوگیوں میں جھانکتے ہوئے جب وہ آخری بوگی کے قریب پہنچے تو وہاں بچوں کے رونے پیٹنے اور کراہنے کی درد ناک آوازوں نے انہیں اپنی طرف متوجہ کیا۔ جھانک کر دیکھا تو ایک روح فرسا منظر ان کے سامنے تھا۔ اس بوگی میں ایک سال سے پانچ سال تک کی عمر کے بے شمار بچوں کی زندہ لاشیں خون میں لت پت کلبلا رہی تھیں ۔ ان بچوں کو ذبح نہیں کیاگیا تھا بلکہ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر زندہ لاشوں کی صورت میں پاکستان کی طرف دھکیل دیاگیا ۔ کیا اس سے زیادہ بہیمیت اور درندگی کی مثال کہیں تاریخ میں مل سکے گی۔‘‘ (بحوالہ:جدوجہد آزادی میں پنجاب کا کردار ۔از ڈاکٹر غلام حسین زوالفقار)۔

اس نوع کا دوسرا واقعہ یوں ہے:

’’ نومبر 1947ء ؁ کو ایک شام واہگہ ریلوے اسٹیشن پر اہل لاہور کا ایک جم غفیر اس گاڑی کے استقبال کے لئے موجود تھا جو مہاجرین کو لے کر کالکا سے چلی تھی اور براستہ امرتسر پاکستان پہنچ رہی تھی۔ خاصے انتظار کے بعد دھندلائے ہوئے اُفق پر ایک سیاہ دھبہ منتظر لوگوں کی سمت بڑھتا ہوا نظر آیا۔ یہ ریل کا انجن تھا ۔ خوشی کی ایک لہر ہجوم میں پھیل گئی۔ وہ پانی کے مٹکوں اور کھانے کے طباقوں کا جائزہ لینے لگے جو انہوں نے پاک وطن میں آنے والے مہاجربھائیوں کے لئے تیار کررکھے تھے۔ جوں جوں گاڑی نزدیک آتی گئی لوگوں کاجوش و خروش بڑھتاگیا۔ انہوں نے نعرہ تکبیر ،نعرہ رسالت اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے لیکن گاڑی سے ان کے نعروں کا کوئی جواب نہ آیا۔ گاڑی اسٹیشن کی حدود میں داخل ہوئی اور ہلکی رفتار سے چلتی پلیٹ فارم پر آرُکی، مگر گاڑی کا کوئی دروازہ کھلا نہ اس میں سے کوئی ذی روح برآمد ہوا۔ لوگوں کے دل انجانے اندیشے سے دھڑک اُٹھے ۔اور جب انہوں نے کھڑکیوں سے ڈبوں کے اندر جھانکا توان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ کرپانوں سے کٹے ہوئے گلے، گولیوں سے چھلنی سینے، جسم سے علیحدہ ہوئے بازو، پھٹے ہوئے پیٹ، ظلم وتشدد کی المناک داستان سنارہے تھے۔ پھر نوجوانوں نے گاڑی کے ڈبے آپس میں تقسیم کرلئے اور خون میں لت پت، کٹی پھٹی اور اوپر نیچے پڑی لاشوں کو عزت واحترام کے ساتھ آبدیدہ آنکھوں سے ہدیہ عقیدت پیش کرتے اتارنے لگے۔زخمیو ں کو ہسپتالوں میں پہنچایاگیا۔(بحوالہ: 1947ء ؁ کے مظالم کی کہانی خود مظلوموں کی زبانی ۔از حکیم محمد طارق محمود چغتائی)۔

لند ن کے اخبار ’ڈیلی میل‘ کے نمائندہ خصوصی مسٹر رالف نے انہی ایام میں کراچی سے دہلی تک کا سفر کیا۔ اس نے 27اگست 1947ء ؁کے ڈیلی میل میں لکھا :

’’ میری کہانی صرف وہ لوگ سُن سکتے ہیں جو بہت بڑا دل گردہ رکھتے ہوں۔ جب میں کراچی سے براستہ لاہور عازم دہلی ہوا تو کراچی سے لاہور تک راستے میں سفاکی کا کوئی منظر نظر نہ آیا ،اور نہ ہی میں نے کوئی لاش دیکھی۔ لاہور پہنچ کر مشرقی پنجاب میں ہونے والی دہشت وبربریت کے آثار نمایاں نظر آنے لگے کیونکہ اسی دن لاہور میں خون سے لت پت ریل پہنچی تھی، یہ ریل 9ڈبوں پر مشتمل تھی جس پر آسانی سے ایک ہزار مسافر سماسکتے تھے۔ اس ریل کے مسافروں کو بٹھنڈا کے جنکشن پر بے دریغ تہِ تیغ کردیاگیاتھا۔ ہماری گاڑی اتوار کی صبح دہلی کے لئے روانہ ہوئی ۔پاکستان کی سرحد عبور کرنے کے بعد جابجا ایسے مناظر بکھرے پڑے تھے جولاہور کی لُٹی پٹی ٹرین سے کہیں زیادہ ہولنا ک اور دہلادینے والے تھے۔ گدھ ہرگاؤں کے قریب سے گزرنے والی ریلوے کی پٹری پر اکٹھے ہورہے تھے، کتے انسانی لاشوں کو بھنبھوڑ رہے تھے اور فیروز پور کے مکانات سے ابھی تک شعلے اُٹھ رہے تھے۔ جب ہماری ریل بٹھنڈا پہنچی تو مجھے ریل سے ذرا فاصلے پر انسانی لاشوں کا ایک ڈھیر نظر آیا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے پولیس کے دو سپاہی وہاں مزید لاشوں سے لدی بیل گاڑی لائے جو لاشوں کے ڈھیر پر ڈال دی گئی۔ اُ س ڈھیر پر ایک زندہ انسان کراہ رہا تھا ۔ سپاہیوں نے اسے دیکھا لیکن وہ اپنی لائی ہوئی لاشیں ڈھیر پر پھینک کر سسکتے اور کراہتے انسان کو وہیں چھوڑ کر چلتے بنے۔‘‘ وہ مزید لکھتاہے : ’’فیرو زپور سے ہجرت کرتے ہوئے ایک لُٹاپِٹا قافلہ جب ایک جگہ سستانے کیلئے رُکا تو اچانک سکھوں نے حملہ کردیا۔ ایک عورت کی گود میں پانچ چھ ماہ کا بچہ تھا۔ ایک وحشی درندے نے وہ بچہ ماں کی گود سے چھین کر ہوا میں اچھالا اور پھر اس کی کرپان ننھے معصوم کے سینے میں ترازو ہوگئی اور اس کا پاکیزہ خون اس وحشی درندے کے کراہت آمیز چہرے پر ٹَپ ٹَپ گرنے لگا۔ بچے کے تڑپتے جسم کو ماں کے سامنے لہراکر درندے نے کہا’لو! یہ ہے تمہارا پاکستان‘۔ جب ماں نے اپنے جگر گوشے کو نوکِ سناپہ سجے دیکھا تو اس کا دل بھی دھڑکنا بھول گیا‘‘۔ ڈیلی میل کایہ نمائندہ خصوصی آگے چل کر لکھتا ہے : ’’بٹھنڈاسٹیشن پر ہم نے جو آخری نظارہ دیکھا وہ انتہائی کریہہ ، گھناؤنا اور انسانیت سوز تھا۔ جونہی ہماری ٹرین چلی، ہم نے دیکھا کہ چار سکھ چھ مسلمان لڑکیوں کو انتہائی بے دردی سے زدوکوب کرتے ہوئے ان کی سرعام عصمت دری کررہے ہیں۔ دولڑکیوں کوتو انہوں نے ہماری آنکھوں کے سامنے ذبح بھی کرڈالا۔‘‘(بحوالہ: خون مسلم ارزاں ہے۔ از ڈاکٹر سعید احمد ملک)

3ستمبر 1947ء ؁ تک دہلی کے نواحی دیہات میں بھی فساد ات شروع ہوچکے تھے اور جلد ہی دہلی شہر بھی ان کی لپیٹ میں آگیا ۔ یعنی اب دہلی میں بھی مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوچکاتھا ۔ گلی گلی ، محلے محلے مسلمانوں کی لاشیں بکھری ہوئی نظر آتیں۔ 5ستمبر کو قرول باغ میں امتحانی ہال کے باہر ان تمام مسلمان بچوں کو قتل کردیا گیا جو میٹرک کا امتحان دینے آئے تھے ۔ ہر طرف مسلمان قتل کئے جارہے تھے، سامان لوٹا جارہاتھا اور مکان جلائے جارہے تھے۔ سبزی منڈی کے علاقے میں ولبھ بھائی پٹیل کے اشارے پر گورکھا فوج نے تین ہزار مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ایک عینی شاہدنے بتایا کہ 9ستمبر تک دہلی کے واٹر ورکس اور فیروز شاہ کوٹلہ کے درمیان کم از کم دس ہزار لاشوں کا ڈھیر لگ چکا تھا جو ٹرکوں میں بھر بھر کر وہاں لائی گئیں تھیں۔ شام کو سات بجے ان تمام لاشوں کو پٹرول ڈال کر جلادیاگیا۔ اس جلتے ہوئے انسانی جسموں کے الاؤ کی روشنی دور تک دیکھی جاسکتی تھی ۔ چار اور چودہ ستمبر کے درمیان بیس سے پچیس ہزار مسلمان مارے جاچکے تھے۔ (بحوالہ : خونِ مسلم ارزاں ہے ۔از ڈاکٹر سعید احمد ملک)۔

پٹیالہ میں سرکاری طور پر اعلان کیاگیا کہ جو لوگ پاکستان جاناچاہتے ہیں وہ شام تک توپ گھاٹ پہنچ جائیں جہاں سے انہیں فوجی قافلوں کے ہمراہ پاکستان روانہ کیاجائے گا ۔ اس کے بعد کیاہوا، ایک چشم دید کی زبانی سنئے :

’’شام پانچ بجے تک ایک لاکھ سے زائد مسلمان توپ گھاٹ کے میدان میں اپنا مختصر سامان جو وہ اٹھا کر چل سکتے تھے لے کر پہنچ چکے تھے۔ میدان میں عجیب شور برپاتھا۔ہندواور سکھ فوجی وردیوں میں میدان کے چاروں طرف گھوم رہے تھے۔ وہ پوری طرح مسلح تھے۔ وہ مسلمانوں کو یقین دلارہے تھے کہ ہم تمہاری حفاظت کے لئے سرحد تک تمہارے ساتھ جائیں گے۔ میدان کے جنوب مغرب کے طرف ایک گندانالہ تھا۔ کچھ فوجی گاڑیاں نالے کے پارکھڑی تھیں۔ پھرفوجی آہستہ آہستہ میدان سے غائب ہونے لگے۔پانچ بجے میدان کے مشرقی کونے کی جانب سے سکھوں کا ایک جتھا نمودار ہوا اور اُس نے پورے زور سے ست سری اکال کا نعرہ لگایا۔ یہ ایک سگنل تھا۔ نعرہ لگتے ہی میدان کے چاروں طرف سے گولیاں چلنے لگیں اور پھر ایک خوفناک دھماکہ ہوا۔ یہ مارٹر گن کا گولہ تھا۔ جومیدان کے وسط میں آکر پھٹا پھرمسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ مارٹر گنوں کے گولے میدان میں قیامتِ صغریٰ برپاکئے ہوئے تھے۔ میدان کے چاروں جانب سے مشین گنیں بارش کی طرح گولیاں برسارہی تھیں۔ مسلمانوں کے لئے کوئی جائے امان نہیں تھی۔ جس کا جدھر منہ آیا بھاگنے کی کوشش کرنے لگا۔ بچے ماں باپ سے بچھڑ گئے۔ بیویاں شوہروں سے علیحدہ ہوگئیں۔جوان لڑکیاں اپنے بھائیوں اور ماں باپ سے الگ ہوگئیں۔ حشر کا سماں تھا۔ مشین گنوں کی گولیاں کسی کو میدان سے باہر نکلنے کا موقعہ نہیں دے رہی تھیں۔ مارٹر گن کے گولے لوگوں کے جسموں کوٹکڑے ٹکڑے کرکے اُڑا رہے تھے۔ مشین گنیں میدان کے چاروں طرف مکانوں کی چھتوں پر نصب کی گئی تھیں۔ فوجی گاڑیوں سے بھی مشین گنیں آگ اُگل رہی تھیں۔ افراتفری میں بھاگنے میں ناکامی کے بعد ہر کوئی زمین پر لیٹ کر لاشوں میں پناہ لینے کی کوشش کررہا تھا۔عجیب نظارہ تھا۔ چیخوں اور شوروغل سے آسمان کانپ رہاتھا۔ ایسا لگتا تھا کہ خالصتان کے سورمے خالصتان کی عمارت کی بنیادیں اسی میدان میں مسلمانوں کی لاشوں کے انبار پر رکھنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔۔۔۔چھ بج گئے تو مارٹرگنوں کافائربند ہوگیا۔ اِکادُکا اُٹھنے اور ہلنے والوں پر مشین گنیں اور رائفلیں اب بھی گولیاں برسارہی تھیں۔اسی اثنا میں مشرقی کونے سے سکھوں کاایک اورجتھانمودارہُوااور اس نے زور دار نعرہ لگایا۔یہ دوسرا سگنل تھا۔ مشین گنوں اور رائفلوں کافائر بند ہوگیا۔ ہزاروں کی تعداد میں ہندواور سکھ تلواریں اور برچھیاں لئے میدان کے چاروں طرف سے میدان میں داخل ہورہے تھے۔ اب زخمیوں اور زندہ بچ جانے والوں کو تلواروں اور برچھیوں سے شہید کیاجارہا تھا۔ کسی زخمی کوکراہتا، تڑپتایاہلتا دیکھ کر ہندو اور سکھ اس پر لپکتے اور اس کو قتل کردیتے۔ ہزاروں معصوم چھوٹے چھوٹے بچوں کوجو حشر کے اس میدان میں اپنے ماں باپ کو پکاررہے تھے ،برچھیوں میں پروکر اور اُونچا اُٹھا کر وحشیانہ قہقہے اور نعرے لگائے جارہے تھے۔ بارش شروع ہوچکی تھی، لیکن ہزاروں ہندواور سکھ میدان میں وحشیانہ قتل وغارت گری میں مصروف تھے اور مسلمانوں کا قیمتی سامان اُٹھایاجارہاتھا۔۔۔۔مغرب کے بعد اندھیرا گہراہونے لگا۔ فوج اپنا مشن مکمل کرکے واپس جاچکی تھی۔ ہندو اور سکھ جتھے بھی مسلمانوں کو قتل کرکے اور سامان لُوٹ لُوٹ کر اپنے ٹھکانوں کو واپس جارہے تھے۔دوہزار کے قریب مسلمان مسجد میں پناہ لے چکے تھے۔۔۔توپ گھاٹ کے میدان میں ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کی لاشیں پڑی تھیں۔ آہ وبکاختم ہوچکی تھی۔ مسجد میں جو مسلمان تھے انہوں نے وہاں سے نکلنے کا فیصلہ کیا ، کیونکہ ایک پل کا بھی بھروسہ نہیں تھا، چنانچہ رات کی تاریکی میں جدھر جس کا منہ آیا نکل گیا۔۔۔۔ناچار ہم سب بھی رُخ پلٹ کر شیرانوالہ گیٹ کی جانب چل پڑے۔شیرانوالہ گیٹ کا فاصلہ ایک میل کے قریب تھا۔ سڑک پر ہمیں جابجا لاشیں پڑی ہوئی نظر آئیں۔ جوں جوں ہم آگے بڑھ رہے تھے۔ لاشوں میں بے تحاشااضافہ ہوتاجارہاتھا۔ یہ پٹیالہ شہر کا گھاس منڈی کا علاقہ کہلاتاتھا۔ یہ سڑک بیس فٹ کے قریب چوڑی تھی یہاں بھی مسلمانوں کا وسیع پیمانے پر قتل عام ہواتھا۔ سڑک اور ملحقہ گلیاں لاشوں سے اَٹی ہوئی تھیں۔دُور سے شیرانوالہ گیٹ نظر آرہاتھاجو بند تھا۔ یہاں جو کچھ دیکھا اس سے اپنا انجام صاف نظر آرہاتھا۔ بعض جگہ تو لاشیں اس بُری طرح سے کاٹی ہوئی پڑی تھیں کہ ان کی شناخت مشکل ہورہی تھی۔ بعض کی گردنیں کٹی ہوئی الگ پڑی تھیں۔ کہیں کوئی بازو اور کہیں کوئی ٹانگ کٹی پڑی تھی۔ شدید بارشوں کی وجہ سے سڑک کے اردگرد بہنے والی نالیاں اب نالوں میں تبدیل ہوچکی تھیں۔ بہت سے لاشیں ان میں پڑی ہوئی تھیں اور پھول چکی تھیں۔ ان سے سخت بدبواُٹھ رہی تھی۔ سڑک پر لاشوں کے انبار اس قدر زیادہ تھے کہ اب گذرنا دشوار ہورہا تھا ۔ ایک جگہ پر لاشیں ایک لائن میں قرینے سے رکھی ہوئی تھیں اور ان سب کی گردنیں کاٹ کر ایک فٹ پاتھ پر رکھی گئی تھیں۔شاید رام راج اور خالصتان کے سورماؤں نے یہاں اپنے فوجی ڈسپلن کا نمونہ پیش کیاتھا۔۔۔۔ چند گز اور آگے گئے تو ایک بھیانک منظر دیکھا ۔ یہ بالکل برہنہ عورتوں کی لاشیں تھیں۔ یہ بھی سڑک کے عین درمیان میں ایک لائن میں رکھی گئی تھیں۔ درندگی کا اس سے زیادہ ہولنا ک اور شرمناک مظاہرہ اور کیاہوسکتاتھا، ان کی چھاتیاں کٹی ہوئی تھیں اوران لاشوں کے سروں کے پیچھے ایک چھڑی گاڑ کر گتے کے ایک ٹکڑے پر لکھا تھا۔۔۔’یہ ہے تمہارا پاکستان‘ (بحوالہ: لہو جو ہم بہاکے آئے۔از عنایت اللہ)۔

پٹیالہ میں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوا:

’’ڈاکٹر عبدالعزیز مہاراجہ پٹیالہ کاذاتی معالج تھا۔ ایک روز مہاراجہ نے اسے محل میں بلوایا اور کہا کہ پٹیالہ میں برہنہ مسلمان عورتوں کا ایک جلوس نکالاجانے والا ہے ،تم میرے ساتھ بیٹھ کر یہ جلوس دیکھو۔ڈاکٹر نے کہا حکمران رعیت کاباپ ہوتاہے ،آپ کو اپنی رعیت پر ایسا ظلم نہیں کرنا چاہئے۔ اس پر مہاراجہ اتنا برہم ہوا کہ اس نے ڈاکٹرعبدالعزیز کو ایک ستون کے ساتھ بندھوا کر خنجر سے اس کی آنکھیں نکلوادیں اور بڑی بے رحمی سے قتل کروادیا اور ٹریکٹر بھیج کر اس کے گھر کو مسمار کروادیا۔ گھر میں جتنے لوگ تھے وہ بھی ٹریکٹروں کے نیچے آکر پِس گئے۔ مہاراجہ پٹیالہ کے حکم سے مسلمانوں کو گرفتار کرکے قلعہ بہادر گڑھ میں پہنچادیاگیا۔یہاں تمام مسلمان قتل کردیئے گئے اور جوان عورتیں غنڈوں کے حوالے کردی گئیں۔‘‘(بحوالہ : خونِ مسلم ارزاں ہے۔ از ڈاکٹر سعید احمد ملک)۔

پٹیالہ شہر میں مسلمانوں کی آبادی دولاکھ تھی جن میں سے صرف سات ہزار مسلمان زندہ بچے تھے۔ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے کشمیر اور حیدرآباد دکن کے بعد پٹیالہ ہندوستان کی تیسری بڑی ریاست تھی ۔1947ء ؁ میں مشرقی پنجاب میں جودس لاکھ مسلمان شہید کردیئے گئے تھے، ان میں صرف ریاست پٹیالہ میں پانچ لاکھ اور باقی پانچ لاکھ بقیہ تمام مشرقی پنجاب میں شہید ہوئے تھے۔ پورے ہندوستان میں مسلمانوں کاقتل عام سب سے زیادہ اسی سکھ ریاست میں ہوا تھا۔ ریاست کپورتھلہ میں مسلمان اکثریت میں تھے۔ اس ریاست میں شاید ہی کوئی مسلمان زندہ بچاہو۔ ریاست ہائے فرید کوٹ، جنڈاور نابھہ کے لاکھوں مسلمانوں کو نیست ونابود کردیاگیا۔‘‘(بحوالہ: لہو جو ہم بہاکے آئے۔از عنایت اللہ)۔

جموں وکشمیر کی صورتِ حال بھی پنجاب اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں سے کچھ مختلف نہ تھی۔ دو برطانوی صحافیوں نے انہی دنوں میں ان علاقوں کا دورہ کرکے ایک تفصیلی رپورٹ مرتب کی تھی ۔اِس رپورٹ کے مطابق :

’’اوائل اکتوبر 1947ء ؁ میں سانبہ کے مقام پر وہاں کے 14ہزار مسلمانوں کو چاروں طرف سے محاصرے میں لے لیا گیا۔ محاصرے کے دوران ہندو اور سکھ غنڈوں کے جتھوں نے ان کی خوراک اور پانی کے تمام وسائل کو منقطع کردیااور ان کا سب مال و اسباب چھین لیا۔ اس کے باوجود مسلمان بھوک اور پیاس کی تمام سختیوں کو صبر اور حوصلے سے برداشت کرتے رہے۔ 22اکتوبر کو مہاراجہ خود سانبہ میں وارد ہوا۔راجہ کی آشیر باد پاکر ان درندہ صفت غنڈوں نے ریاستی فوج اور پولیس کی معیت میں محصور نہتے مسلمانوں کے قتل عام کا آغاز کردیا ،جس کے نتیجے میں 14ہزار مسلمانوں کی اس پوری آبادی میں سے صرف 15مجروح افراد بچ کر سیالکوٹ پہنچنے میں کامیاب ہوسکے۔‘‘ رپورٹ میں مزید کہاگیا : ’’20اکتوبر 1947ء ؁ کو ملاٹانک کے مقام پر آٹھ ہزار مسلمان پاکستان کی طرف کوچ کرنے کے لئے جمع ہوئے، لیکن وہ ابھی سڑک پر دوتین میل ہی بڑھے تھے کہ ڈوگرہ افواج اور سکھ درندوں نے انہیں چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا ۔ اس قتل عام میں صرف 40افراد زندہ بچ سکے جو بعد میں زخمی حالت میں سیالکوٹ پہنچے۔‘‘ رپورٹ میں مزید آگے چل کر کہاگیا ’’ریاستی حکام کی ہدایت پر میران صاحب کے 25ہزار مسلمان پناہ گزینوں کو مہوہ کے میدا ن میں جمع کیاگیا۔ 23اکتوبر 1947ء ؁ کو انہیں پاکستان کی طرف پیدل کوچ کا حکم دیاگیا۔ ابھی قافلہ بمشکل چند قدم آگے بڑھا ہوگا کہ ڈوگرہ افواج نے قافلے کی تمام مستورات اور مال واسباب کوچھیننا شروع کردیا ۔ اس کاروائی کے بعد مردوں کو ایک قطار میں کھڑا کرکے انہیں مشین گنوں کی گولیوں سے چھید ڈالا۔ 25ہزار کے اس قافلے میں سے صرف 200افراد دن رات کھیتوں میں چھپتے چھپاتے سیالکوٹ پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔‘‘ (بحوالہ: پاکستان: پس منظرو پیش منظر)۔

دو دوسرے برطانوی صحافیوں کی رپورٹ کے مطابق:

’’5نومبر1947ء ؁ کو صبح جموں شہر میں مہاراجہ کی طرف سے یہ اعلان کرایاگیا کہ تمام مسلمان فوری طور پر پاکستان جانے کیلئے تیار ہوجائیں۔ اعلان کے ساتھ انہیں یہ ہدایت بھی کی گئی کہ وہ پریڈ میدان میں جمع ہوجائیں۔ اگلے روز پولیس نے، جس کی بارکیں میدان سے ملحق تھیں، محصور مسلمانوں کی جبراً تلاشی لے کر انہیں ان کے پاس موجود ہر شے سے محروم کردیا۔ اس کے بعد انہیں کہاگیا کہ اب انہیں سوچیت گڑھ کے راستے پاکستان لے جایاجائے گا ، لیکن جب انہیں ٹرکوں اور لاریوں میں بھر دیاگیا تو سوچیت گڑھ پہنچانے کی بجائے کچھ فاصلے پر کٹھوعہ روڈ پر لاریوں اور ٹرکوں سے اُتر جانے کا حکم دیاگیا ، جہاں پہلے سے موجود ہندواور سکھ رضاکاروں کے مسلح جتھوں کو ان پر حملہ کرنے کا اشارہ کیاگیا۔ بس پھر کیاتھا، نہتے اور بے بس مسلمانوں کاقتل عام شروع ہو گیا۔ شام تک 4ہزار کے اس قافلے میں سے صرف 900زخمی انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں گرتے پڑتے سیالکوٹ پہنچنے میں کامیاب ہوسکے۔ ان خواتین میں جنہیں اس موقع پر ہندو اور سکھ غنڈوں نے جبراً اغوا کیا تھا ممتاز کشمیری رہنما چوہدری غلام عباس کی بہن اور بیٹی کے علاوہ ایک مسلمان ممبر اسمبلی غلام مصطفی کی اہلیہ اور بہن بھی شامل تھیں۔‘‘

رپورٹ مزید بتاتی ہے :

’’6نومبر 1947ء ؁ کوجموں کے معزز گھرانوں کا 70لاریوں پر مشتمل ایک اور قافلہ سوچیت گڑھ کے راستے روانہ ہوگیا۔ لیکن شہر سے نکلتے ہی چند میل کے فاصلے پر اس قافلے کو بھی روک کر مسلمانوں کو لاریوں سے نیچے اُتاردیاگیا۔ مسلح ہندو اور سکھ رضاکاروں کے جتھے پہلے ہی سے ان کے انتظار میں تھے۔ اُنہوں نے ان مسلمانوں کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے کر اِن پر حملہ کردیا۔ان کے اس قتلِ عام کے نتیجہ میں صرف 3آدمی زخمی حالت میں گرتے پڑتے سیالکوٹ پہنچنے میں کامیاب ہوسکے۔ باقی سب کے سب انتہائی شقاوت سے موت کے گھاٹ اُتار دیئے گئے‘‘۔ اسی طرح ’’9نومبر 1947ء ؁ کو 30لاریوں پر مشتمل ایک تیسرا قافلہ سوچیت گڑھ کیلئے روانہ کیاگیا، لیکن اس سے پہلے کہ یہ لوگ پاکستان میں داخل ہوسکتے، ان کی حفاظت پر مامور فوج اور پولیس نے تمام مال و اسباب اور عورتوں کو چھین کر مردوں کو سنگینیوں کا نشانہ بناڈالا‘‘۔ بین الاقوامی ریڈ کراس کے ایک ذمہ دار فرد جس نے انہی دنوں اس علاقے کا دورہ کیا تھا، سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور کو انٹرویو دیتے ہوئے اس علاقے پر گزرنے والی قیامت کا ذکر ان الفاظ میں کیا: ’’میں نے ایک وسیع رقبے پر انسانی گوشت کے کٹے ہوئے اور کچلے ہوئے ٹکڑے بکھرے دیکھے، انسانی نعشیں ٹینکوں اور بلڈوزروں کے نیچے کچلی ہوئی پڑی تھیں۔‘‘ (بحوالہ: خوننابہ کشمیر۔ از فضل احمد صدیقی)۔

دوستو! تحریک پاکستان صرف انہی چند واقعات کا نام نہیں ۔ یہ تو ان ہزاروں میں سے چند ایک ہیں جو کتابوں میں درج ہیں ۔ ان کے علاوہ ہزارو ں وہ بھی ہیں جو سنے اور سنائے تو گئے ، لیکن کسی رسالے یا کتاب کا حصہ نہ بن سکے۔سینکڑوں واقعات ایسے لرزہ خیز ، وحشت ناک اور دردناک تھے کہ جوکسی کو سنائے ہی نہیں جاسکتے تھے۔ ان کے علاوہ ہزاروں وہ ہیں جو مرنے والے اپنے سینوں میں اپنے ساتھ ہی لے گئے کہ انہیں اِن کو کسی کو سنانے کی مہلت ہی نہ ملی۔ ان واقعات کو پڑھ اور سُن کر پہلا سوال جو ذہن میں اُبھرتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے آباؤاجدادنے کس مقصد کے حصول کیلئے اس قدر جانی قربانیاں دیں ، عزتیں گنوائیں اور اپنا مال واسبا ب اور گھر بار چھوڑا؟ کیا یہ سب کچھ کسی سیکولر یعنی لامذہب معاشرے کے قیام کیلئے تھا ؟ یا کیا یہ سب کچھ کسی معاشی تحفظ اور ترقی کیلئے تھا ؟اور اگر ایسا تھا تو کیا مجوزہ پاکستان میں ہندوستان کی نسبت زیادہ دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں؟ کیا یہاں معاشی ادارے ،زمینیں ،کانیں، دوکانیں اور کارخانے ہندوستان کی نسبت زیادہ تھے ؟ اوروہ کاروبار اور روزگار کے متلاشیوں کو ڈھونڈ رہے تھے؟ کیا ’پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الا اللہ !‘ کے نعرے کے سوا کسی اور نعرے میں اس قدر کشش ہوسکتی تھی کہ اُس پر اِس قدر تعداد میں مسلمانانِ ہند لبیک کہہ دیتے؟ کیا مال، معیشت، سیکولرازم ، نیشنل ازم وغیرہ کے نام پر کروڑوں لوگوں کا کوئی گروہ ، اور وہ بھی پسماندہ ترین، اتنا جوش وخروش دِکھا سکتاتھا اور اتنی قربانیاں دے سکتا تھا ؟ نہیں ! ہرگز نہیں! تاریخ گواہ ہے کہ رضاکارانہ طور پر اورخود اپنی خوشی اور مرضی سے اتنی بڑی تعداد اور حُجم میں قربانیاں کوئی گروہ یاتو اپنے وطن کے تحفظ کیلئے دیتاہے یا پھراپنے مذہب کے تحفظ کیلئے،لادینیت یا مال و دولت کے لئے نہیں۔ یقیناًیہ صرف اور صرف اپنے لئے ایک الگ وطن کہ جہاں وہ اکثریت میں ہوں اورکسی غیر قوم کے غلام نہ ہوں ،جہاں امن و امان ہو، عزت وآبروکا تحفظ ہو، انسانی رواداری اور انصاف ہو اورسب سے بڑھ کریہ کہ جہاں وہ اپنی زندگیاں اور اپنے تمام سیاسی ،سماجی ، معاشی اور حکومتی معاملات اپنے مذہب کے اصولوں اور ہدایات کی روشنی میں چلا سکیں ،کا اعلیٰ وارفع مقصد اور عز م ہی ہوسکتاتھا جس کی خاطر مسلمانانِ ہند اتنی بڑی تعداد میں اپنی جانوں، عزتوں اورمال وسباب کی قربانی دے گذرے ،اور دے کر بھی راضی رہے۔ نہ کوئی شکوہ ، نہ کوئی پچھتاوا،بلکہ فخر۔نسل درنسل فخر!

تو دوستو! اب سوال یہ ہے کہ آج جب کہ قیام پاکستان کے بعد پیدا ہونے والی تیسری نسل بھی جوان ہوچکی ہے ، کیا ہم وہ مقصد حاصل کرسکے ہیں؟ کیا یہ ویسا ہی پاکستان ہے جس کا خواب ہمارے آباؤاجداد نے دیکھاتھا؟ اور کیا ہم نے ان کے خوابوں کا پاکستان بنا کر ان کی پاکستان کیلئے دی گئی جان و مال اور عزتوں کی قربانیوں کا وہ قرض چکا دیا ہے جو وہ جاتے ہوئے ہمارے ذمہ کرگئے تھے؟ افسوس ! کہ من حیث القوم ہم اپنے شہیدوں کا یہ قرض چکانے میں بُری طرح ناکام رہے۔ صد افسوس ! کہ قائداعظمؒ نے ایک آزاد مسلم ویلفیئر سٹیٹ کاجوخواب دیکھاتھا وہ شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ ہمارے حکمران ، خواہ وہ سویلین تھے یافوجی ، پاکستان کو نہ اسلامی ریاست بناسکے اور نہ ویلفیئر سٹیٹ۔ وجہ اس کی صرف اور صرف ایک ہی تھی کہ یہ سب کچھ ان کی ترجیح ہی نہیں تھی۔ اُن کی ترجیحِ اول اور ترجیحِ آخر صرف یہ رہی ، اور آج بھی یہی ہے ، کہ اپنے اقتدار کو کس طرح قائم رکھاجائے اور اِسے طُول دیاجائے ۔ اِس کیلئے اُنہوں نے ہر جائز وناجائز کام کیا۔ حکمرانوں کے رویوں اور طرزِ حکمرانی کودیکھتے ہوئے عوام بھی اُنہی راہوں پر چل نکلے۔ یہاں بھی صرف ذاتی منفعت اور فلاح ہی طرزِزندگی اور مقصدِ حیات ٹھہرا۔ اور پھر اِس راہ پر چلتے ہوئے ملک بھر میں ریاستی اور عوامی ،ہر دوسطح پرکرپشن، دھوکہ دہی، جھوٹ،فریب، بددیانتی، بدامنی،بے انصافی، عدمِ رواداری اور عدمِ برداشت کا کلچر رواج پاگیا۔ اور پاکستان راہِ منزلِ مقصود سے دُور ہٹتاچلاگیا ۔

دوستو! آج بھی اگر ہم اپنے قائدؒ کے احسانوں اور تحریک پاکستان کے دوران شہید اور زخمی اور لُٹنے والوں کا قرض چکانے کاارادہ کرلیں کہ جوہمارے اُوپر واجب ہے تو ہمارے حکمرانوں اور خود ہمیں اپنی ترجیحات بدلناہوں گی۔ حکمرانوں کو ’اولاً‘ اپنے پورے طرزِ حکمرانی کو قرآن وسنت کے اُصولوں اور ضابطوں کے مطابق ڈھالناہوگا، اور’ ثانیاً‘ حکمرانوں کو اپنی پوری توجہ اور توانائیاں اورریاست کے جملہ ذرائع وسائل کو عوام کی فلاح و بہبود کی طرف موڑنا ہوگا۔ اگر حکمران نیک نیتی سے اس کارِخیر کا آغاز کریں تو پھر عوام کو بھی نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ حکمرانوں کے ہاتھ مضبوط کرناہوں گے ۔ اگر اب بھی ہمارے حکمرانوں اور خود ہم نے یہ سب کچھ نہ کیا تو یقیناًیہ بانئ پاکستان اور تحریکِ پاکستان کے شہیدوں سے غداری ہوگی جس پر ہمارے کٹے پھٹے اعضاء بُریدہ باپ، بھائی اور بیٹے، اور ہماری لُٹی پھُٹی اور مَسلی کُچلی مائیں، بہنیں ،اور بیٹیاں ، اور ہمارے تلواروں،کرپانوں اور برچھیوں میں پروئے معصوم بچے ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔