1. اسلامی نظامِ زندگی جن لوگوں کو قائم کرنا اور چلانا ہو، انھیں آنکھیں بند کرکے حالات کا لحاظ کیے بغیر، پورے کا پورا نسخۂ اسلام یک بارگی استعمال نہ کرا ڈالنا چاہیے،
بلکہ عقل اور بینائی سے کام لے کر زمان و مکان کے حالات کو ایک مومن کی فراست اور فقیہ کی بصیرت وتدبر کے ساتھ ٹھیک ٹھیک جانچنا چاہیے۔
*جن احکام اور اصولوں کے نفاذ کے لیے حالات سازگار ہوں، انھیں نافذ کرنا چاہیے، اور جن کے لیے حالات سازگار نہ ہوں، ان کو مؤخر رکھ کر پہلے وہ تدابیر اختیار کرنی چاہییں، جن سے ان کے نفاذ کے لیے فضا موافق ہوسکے۔*
اسی چیز کا نام حکمت یا حکمت عملی ہے، جس کی ایک نہیں بیسیوں مثالیں شارع علیہ السلام کے اقوال اور طرزِعمل میں ملتی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت ِ دین بدھووں کے کرنے کا کام نہیں ہے۔
2. اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب زمان و مکان کے حالات کی وجہ سے اسلام کے دو احکام یا اصولوں یا مقاصد کے درمیان عملاً تضاد واقع ہوجائے، یعنی دونوں پر بیک وقت عمل کرنا ممکن نہ رہے، تو دیکھنا چاہیے کہ شریعت کی نگاہ میں اہم تر چیز کون سی ہے، اور پھر جو چیز اہم تر ہو، اس کی خاطر شرعی نقطۂ نظر سے کم تر اہمیت رکھنے والی چیز کو اس وقت تک ترک کردینا چاہیے، جب تک دونوں پرایک ساتھ عمل کرنا ممکن نہ ہوجائے۔
لیکن اُسی حد تک ایسا کرنا چاہیے جس حد تک یہ ناگزیر ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت ِ اسلامیہ کے استحکام کو اصولِ مساوات کے قیام پر ترجیح دی، کیونکہ خلافت کے استحکام پر پورے اسلامی نظامِ زندگی کا قیام و نفاذ موقوف تھا اور یہ کُل اسلام کی نگاہ میں ایک جُز کی بہ نسبت عظیم تر اہمیت رکھتا تھا۔ لیکن آپؐ نے اس مقصد کے لیے اصولِ مساوات کو بالکلیہ نہیں بلکہ اس کے صرف اُس حصے کو معطل رکھا، جو منصب ِ خلافت سے متعلق تھا، کیونکہ صرف اسی حد تک اُس کا تعطل ناگزیر تھا۔
یہ ایک مثال ہے قاعدئہ اختیار اہون البلیتین کی۔ اس سے وہ موقع و محل بھی معلوم ہوجاتا ہے جس میں یہ قاعدہ جاری ہوگا اور اس کے حدود و شرائط پر بھی روشنی پڑتی ہے۔
*اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ جہاں قبائلیت اور برادریوں کے تعصبات یا دوسری گروہی عصبیتیں زندہ و متحرک ہوں، وہاں ان سے براہِ راست تصادم کرنا مناسب نہیں ہے، بلکہ جہاں جس قبیلے یا برادری یا گروہ کا زور ہو، وہاں اسی کے نیک لوگوں کو آگے لانا چاہیے، تاکہ زورآور گروہ کی طاقت اسلامی نظام کے نفاذ کی مزاحم بننے کے بجاے اس کی مددگار بنائی جاسکے اور بالآخر نیک لوگوں کی کارفرمائی سے وہ حالات پیدا ہوسکیں، جن میں ہرمسلمان مجرد اپنی اپنی دینی و اخلاقی اور ذہنی صلاحیت کی بنا پر ، بلالحاظ نسل و نسب و وطن سربراہی کے مقام پر آسکے۔*
یہ بھی اُسی حکمت کا ایک شعبہ ہے، جسے ’حکمت عملی‘ کے نام سے یاد کرنے کا گناہ مجھ سے سرزد ہوا ہے۔ یہ اصول جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول و عمل سے مَیں نے مستنبط کیے ہیں ، اگر ان میں کوئی قباحت کسی کو نظر آتی ہو تو وہ دلیل کے ساتھ اس کی نشان دہی کرے۔
رہا اس پر کسی کا یہ اعتراض کہ اس نوع کے تصرفات کرنے کا حق صرف شارع کو پہنچتا تھا، دوسرا کوئی اس کا مجاز نہیں ہوسکتا، تو میں صاف عرض کروں گا، کہ یہ بات اگر مان لی جائے تو فقہ اسلامی کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے۔ ( ’رسائل و مسائل‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد ۵۲، عدد ۴، جولائی ۱۹۵۹ء، ص۵۲-۵۳)
افسوس کہ ان کے پیروکار عام سیاست کی ڈگر پر چل پڑے!
Islam- Implementation Strategy
1. The people of the Islamic system of life, who should establish and operate, should not use the whole version of Islam one-time, without blindly applying the circumstances, but by working with wit and vision. Should carefully examine a believer’s doctrine and the insight of the jurist. * Before implementing the rules and conditions for which the conditions are favorable, and those for which the conditions are not favorable. They must adopt measures that can adapt to their implementation. * The only thing called is wisdom or strategy, not one of which Examples of this are found in the sayings and practices of the Shari’ah, which show that religion is not the work of fools.
It teaches that when the conditions of the time and the house are in conflict between the two rules or principles or purposes of Islam, that is, it is not possible to practice both at once, then in the eyes of the Shariah. For what is important, and then what is important, something less important than the Shariah point of view should be avoided, unless it is possible to work with each other.
The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) preferred the stability of the Khilafah, the establishment of equality, because of the stability of the Khilafah. The establishment and implementation of the entire Islamic system of life was pervasive and in the eyes of the whole of Islam, it was of greater importance than a single ingredient. But for this purpose you did not abrogate the principle of equality, but only suspended the part of it that belonged to the Khilafah, because it was inevitable only to that extent. This is an example of the rule of Ahl al-Baytin. ۔
It also identifies the occasion in which this rule will be issued and also sheds light on its terms and conditions. Of course, it is not appropriate to directly confront them, but wherever the tribe or community or group is at stake, their good people should be brought forward, so that the power of the powerful group is resisted by the implementation of the Islamic system.
With the help of the good people and eventually, by the actions of the good people, they could create situations in which every Muslim discerns his own religious and moral and mindfulness.
On the basis of ability, regardless of origin, race or country of origin when it is headed. This is a section of the same strategy, which sin to remember the name of “strategy” is committed to me.
This is the principle that I have stated in this regard from the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him), that if any one of them sees any evidence, then he should point it out with an argument. Only the Shariah’s right to dispose of the caste was reached, and no one else could be authorized to do so, I will say, that if it is accepted, the root of Islamic jurisprudence is cut off.
(“Magazines and Issues”, Syed Abu Awala Maududi, Tarjuman-ul-Quran, Volume 2, Issue 1, July 8, 1-2)
Sadly, his followers are following the path of common politics!