نہایت سادہ الفاظ میں بات کو سمجھیں کہ یہ حلف نامہ مسلم امیدواروں کے لئیے ہے جس کے ایک فارم میں وہ ختم نبوت کا حلف دیتے ہیں- مسئلہ یہی یے کہ قادیانی خود کو مسلم بنا کے پیش کرتے ہیں جو صریحاً دھوکہ ہے- اس طرح اگر وہ مسلم امیدوار بن کے الیکشن لڑنا چاہیں تو انکی اس اہلیت کو چیلنج کر کے الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق انہیں “مسلم نشست”سے منتخب ہونے سے روکا جا سکتا تھا-
اس ترمیم سے یہ رول ختم یو جاتا تب کوئی قادیانی جھوٹا اقرار کر کے الیکشن لڑے تو پاکستان کا کوئی بھی فرد قانوناً اس پہ اعتراض نہیں کر سکتا اس دھوکا دہی سے منتخب ہونے پہ قدغن نہیں لگائی جا سکے گی اسطرح غیر مسلم مسلمانوں کے روپ میں پاکستان کے سب سے معتبر قانون ساز ادارے میں گھس آئیں گے (گھسیں ضرور مگر مسلم بن کے نہیں )- آپ سوچئیے پھر پاکستان کی اسلامی شناخت قائم رہنا اور یہ کہ” پاکستان میں کوئی قانون قران و سنت کے منافی نہیں بن سکتا” کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔۔۔ اسی لئیے یہ ترمیم آئنینِ پاکستان کے بنیادی اصولوں کے خلاف یے- پاکستان کے آئین کی رو سے قادیانی غیر مسلم ہیں یعنی اقلیتیوں میں شمار ہونگے تو انہیں اقلینتی مخصوص نشستیں مختص کی جاتی ہیں یہ اور بات کہ قادیانی خود اقلیتی نشستوں پہ” بوجوہ” الیکشن لڑناقبول نہیں کرتے یا یوں کہہ لیں اس حق سے خود ہی دستبردار ہوئے بیٹھے ہیں ۔۔۔
اصولاً قادیانیوں کو چاہئیے وہ منیارٹیز کے لئیے مخصوص نشستوں سے الیکشن لڑیں چونکہ یہ ترمیم پاکستانی دستور کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہے اسلئیے انشاء الله یہ ترمیم واپس ہو گی۔۔۔۔ اور ہو گئی… مطالبہ ہی کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جایے –
………………………………..
تم نبوت کے حوالے سے الیکشن قوانین میں واردات
سینٹ کے بعد قومی اسمبلی نے بھی الیکشن قوانین میں ترمیم کر دی یہ الگ بات کہ پیپلزپارٹی کی رہنما شیری رحمان کا کہنا ہے کہ اس میں ہارس ٹریڈنگ ہوئی کیونکہ حکمران جماعت کی سینٹ میں اکثریت نہ تھی پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے ارکان ووٹنگ کے وقت ایوان سے غائب تھے جبکہ وہ پارلیمنٹ بلڈنگ میں ہی موجود تھے۔ مگر ایک انتہائی اہم ترمیم کے وقت ارکان کیوں غائب ہو گئے اور ایم کیو ایم کے ایک رکن نے اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ دے کر کیوں اس بل کو کامیاب کروایا۔ رضا ربانی کیوں چیئرمین کی کرسی پر موجود نہ تھے صاف ظاہر ہے کہ سب کچھ طے شدہ منصوبے کے تحت ہوا اور اِس میں کس نے کیا پایا اور کس نے کیا کھویا سب کے سامنے عیاں ہے۔
حکمران جماعت کا مقصد میاں نوازشریف کو مسلم لیگ ن کا نئے سرے سے سربراہ بنانا تھا جبکہ یہ کوئی بڑی بات نہ تھی اگر کسی اور کو بھی حکمران بنا دیتے تو عملی طور پر اپنی پارٹی کے سربرہ ہوتے جب تک ان کی پارٹی آئندہ انتخابات میں شکست نہ کھا جاتی مگر اِس صدارت کے لئے اپنے دامن میں اخلاقیات کا مزید بوجھ بھر گیا جبکہ یہ کام محمد خان جونیجو سے اسلام آباد ہوسٹل میں پہلے کر چکے تھے۔
میں اسیر تحریک ختم نبوت ہوں جو میرا اعزاز ہے اور میں یحییٰ خان اور جنرل ضیاءالحق کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل بھگتتا رہا کچھ صحافیوں کا عدالت میں کہنا تھا کہ میں نے فوجی عدالت کو برا بھلا کہا اور مارشل لا کی توہین کی جبکہ میرا موقف تھا کہ میں نے جنرل جیلانی سے پولیس کے ٹریننگ سنٹر سہالہ میں فوجی عدالتوں میں بدعنوانی پر جو کہا وہ درست ہے۔ سچ بات کسی کی توہین نہیں ہوتی میری جانب سے جونیئر ترین صحافی جناب مسعود ساحر جسارت اور نواز رضا نوائے وقت بطور گواہ پیش ہوئے جبکہ انوار فیروز نوائے وقت اور رحمان شاہ روزنامہ حیدر میرے خلاف گواہ تھے۔ میں فوجی راج اور مارشل لا کا سخت مخالف اور جمہوریت کا حامی ہوں مگر جمہوریت کے نام پر آمریت اور میراث کو بھی اتنا ہی برا تصور کرتا ہوں۔ مگر الیکشن قوانین میں ترامیم میں میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی کا مقصد سپریم کورٹ اور آئندہ احتسابی عدالتوں کے فیصلوں کے اثرات سے بچانا تھا مگر ایک مخصوص لابی اور مرزائیت نواز ہے اس ترمیم میں اپنا کام دکھا گئی میں میاں نوازشریف سے کئی بار ملا اور بیرون ممالک ترکی چین ان کے دوروں میں ان کے ساتھ بطور صحافی کیا میرے خیال ہے کہ یہ واردات انہیں بتائے بغیر ڈالی گئی تا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی آئینی ترامیم کے اثرات کو ختم کرنے کی ابتدا کی جائے۔ انتخابی قوانین کی جلد اول کے صفحہ نمبر80 میں امیدوار کیلئے حلف نامہ کی شق 2 میں درج ہے ”میں مندرجہ بالا امیدوار حلفیہ طور پر بیان کرتا ہوں۔“ کہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بطور پیغمبر اور آخری نبی مانتا ہوں اور میں کسی ایسے شخص کا مقلد نہیں ہوں جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہو….میں سے ”میں مندرجہ بالا امیدوار حلفیہ طور پر بیان کرتا ہوں“ کے الفاظ کو قطعی طور پر نکال دیا گیا …. جو انتہائی قابل اعتراض ہے۔ کوئی بات عام پیرائے میں تسلیم کرنا اور اسے حلفیہ طور پر تسلیم کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے دنیا بھر کی کتابوں میں کسی بھی سرکاری دستاویز میں میں بطور حلفیہ بیان کرتا ہوں بیان حلفی میں شمار کیا جاتا ہے جس کی قانونی طور پر سزا ہے لہٰذا جب بھی کوئی بات عدالت میں کہی جائے تو جج صاحبان کہتے ہیں آپ بیان حلفی دیں یا حلف پر عدالت میں بیان ریکارڈ کروائیں جبکہ وہ شخص عدالت میں وہ بات بیان کر رہا ہوتا ہے۔ دراصل یہ ایک باریک بات ہے جسے بادی النظر میں لوگ اور بعض قانون دان صرف نظر کرتے رہیں گے مگر یہ ابتدا ہے اُس آئینی ترمیم کو جو قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لئے 7 ستمبر 1974ءکو شام 5 بج کر 52 منٹ پر پاس کی گئی ہے کو غیر موثر کرنے کی آئینی ترمیم کے بعد الیکشن قوانین میں ترمیم کے لئے بھی اس وقت کے وزیر قانون حفیظ پیرزادہ کی سربراہی میں تمام سیاسی جماعتوں کی مساوی نمائندگی پر مبنی ایک کمیٹی نے الیکشن قوانین میں یہ ترمیم کی گئی تھی جس کا ریکارڈ قومی اسمبلی میں موجود ہو گا۔ اس شق میں میں مندرجہ بالا امیدوار حلفیہ بیان کرتا ہوں پر پھر خاصی بحث و تمحیص ہوئی تھی جس پر تمام سینئر قانون دان متفق ہوئے کہ یہ الفاظ ہی ضروری اور مناسب ہیں ان الفاظ کو نکالنے سے شریف خاندان کی بدنامی اور نفرت میں اضافہ ہو گا انہیں ان جذبات کا علم بھی نہیں مگر قادیانی اور مرزائی لابی نے نہ جانے کس چمک یا موقع کی تلاش میں یہ واردات کر ڈالی جسے فوری طور پر ختم کیا جانا چاہئے۔ (عبدالودود قریشی)
http://dailykhabrain.com.pk/2017/10/03/70156/
……………………
آخر ہوا کیا ہے ؟
جب سے نئے قانون کا مسودہ سامنے آیا اس پر مختلف اطراف سے کافی کچھ تنقید ہوئی ہے- پہلی بات: مقننہ کی طرف کسی لغو کام کی نسبت نہیں کی جاسکتی۔ …. یہ تعبیرِ قانون کا بنیادی اصول ہے۔ قانون میں کوئی لفظ کیوں شامل کیا گیا؟ کیوں نکالا گیا؟ کیوں تبدیل کیا گیا؟ کچھ بھی بغیر کسی مقصد کے نہیں ہوتا۔ جب بھی عدالت کسی قانون کی تعبیر کی ذمہ داری ادا کرنے بیٹھتی ہے، یہ اس کے سامنے بنیادی مفروضہ ہوتا ہے۔ اس لیے اگر پہلے سے موجود قانون میں کسی لفظ کی تبدیلی کی جائے تو عدالت لازماً یہ دیکھتی ہے کہ اس تبدیلی کا مقصد کیا تھا، تاکہ قانون کی ایسی تعبیر اختیار کی جائے جو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مناسب ہو۔
یاد رکھیے!
تعبیرِ قانون کے معاملے عدالت کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ مقننہ کا ارادہ (intention of the legislature) معلوم کرکے اس کی روشنی میں قانون کا مفہوم متعین کرے۔ اس اصول کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ قانون میں کسی لفظ، کسی حرف، بلکہ کسی شوشے کی تبدیلی کو بھی لغو، لایعنی، بغیر کسی مقصد کے، نہ قرار دیا جائے ۔
ختمِ نبوت کا حلفیہ بیان کیوں تبدیل کیا گیا؟
اس بنیادی اصول کی روشنی میں اب اس سوال پر غور کیجیےکہ ختمِ نبوت کے اقرار پر مشتمل بیانِ حلفی کے الفاظ میں کیا تبدیلی کی گئی؟ اس تبدیلی کا مقصد کیا تھا؟ اور کیا وہ مقصد حاصل ہوگیا؟
جیسا کہ کئی لوگوں نے واضح کیا ہے، پہلے ختمِ نبوت کا اقرار باقاعدہ بیانِ حلفی کے طور پر کیا جاتا تھا، جبکہ نئے قانون میں اسے محض ایک بیان بنادیا گیا ہے۔ قانونی لحاظ سے اس فرق کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ محض بیان اگر بعد میں جھوٹا ثابت ہوجائے تو اس کی بنیاد پر بیان دینے والے کے خلاف دستور کی دفعہ 62 کے تحت نااہلی کا مقدمہ قائم نہیں ہوسکتا۔ البتہ اگر بیانِ حلفی بعد میں جھوٹا ثابت ہوجائے تو ایسا شخص دستور کی دفعہ 62 کی رو سے نااہل ہوسکتا ہے۔
اس لیے یہ تو معلوم ہوا کہ جس کسی نے بھی یہ تبدیلی تجویز کی تو اس نے یہ بغیر کسی ارادے کے نہیں کی، اور ارادہ یقیناً اچھا نہیں تھا!
ارادہ اچھا نہ ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ نئے قانون کی دفعہ 60 اور دفعہ 110 کا موازنہ پچھلے قانون کی متعلقہ دفعات سے کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پرانے قانون کی متعلقہ دفعات میں جو دستاویزات مذکور تھے، ان میں ختمِ نبوت کا بیانِ حلفی بھی تھا، لیکن نئے قانون کی ان دفعات میں یہ بیانِ حلفی مذکور نہیں ہے۔ البتہ نامزدگی کے فارم میں ختمِ نبوت کا بیان، نہ کہ بیانِ حلفی، شامل کیا گیا ہے، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا۔ سوال پھر یہ ہے کہ آخر بیانِ حلفی کو قانون کی دفعات سے نکالنے کا مقصد کیا تھا؟ یاد کیجیے کہ مقننہ کوئی بھی کام بغیر کسی مقصد کے نہیں کرتی!
اب رہا یہ سوال کہ جس کسی کے کہنے پر بھی قانون میں یہ تبدیلیاں کی گئیں؟ تو کیا یہ دونوں کام کرچکنے کے بعد اس کا مذموم مقصد پورا ہوگیا؟ اس کا جواب نفی میں ہے، والحمدللہ!
ان تبدیلیوں کے باوجود کہ نامزدگی فارم کے آخر میں مذکور ہے کہ فارم بھرنے والا شخص حلفاً تصدیق (solemnly affirm) کرتا ہے کہ فارم میں کی گئی تمام اندراجات اس کے علم اور یقین کی حد تک درست ہیں۔ اس بنا پر ختمِ نبوت کا وہ بیان بھی بیانِ حلفی بن جاتا ہے۔ دراصل فارم کے آخر میں یہ بیانِ حلفی پہلے ہی سے موجود تھا اور جس کسی نے بھی پہلی دو تبدیلیاں کیں، اس کی توجہ اس طرف نہیں گئی۔ میں تو اسے اس قوم پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل سمجھتا ہوں کیونکہ یہ قوم کم از کم دو معاملات میں کسی قسم کی مداہنت کی قائل نہیں ہے: ختمِ نبوت اور توہینِ رسالت۔
خلاصۂ بحث یہ نکلا کہ ختمِ نبوت کے متعلق بیانِ حلفی کو محض بیان بنا دینے کی کوشش کا مقصد یہ تھا کہ اس کے جھوٹا ثابت ہونے پر کسی کو نااہل نہ قرار دیا جاسکے لیکن الحمدللہ یہ بیان اب بھی بیانِ حلفی ہی ہے۔
حکومت کے مدافعین اگر یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کا یہ مقصد ہرگز نہیں تھا تو ان پر لازم ہے کہ وہ ان دو تبدیلیوں کی کوئی معقول وجہ بیان کر دیں۔ بارِثبوت حکومت کے مدافعین پر ہے، نہ کہ اس کے ناقدین پر۔ کسی معقول جواز کی عدم موجودگی میں ان تبدیلیوں کا واحد مقصد قادیانی لابی کو خوش کرنا ہی تھا، اور کچھ نہیں۔
تاہم میرے نزدیک اس قانون کا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے۔ اگر حکومت کے مدافعین اور عذر خواہ ان دو تبدیلیوں کا کوئی معقول جواز تراش بھی لیں، تو اس سے مسئلہ حل نہیں ہوتا کیونکہ جو تیسری بڑی تبدیلی اس قانون نے کی ہے، وہ بہت خطرناک ہے اور وہ قطعی ثبوت ہے اس بات کا کہ ان تبدیلیوں کے ذریعے حکومت نے قادیانی لابی کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس قانون کے ذریعے جو سب سے خطرناک تبدیلی کی گئی ہے، اور جو قانون بنانے والوں کی بدنیتی کا قطعی ثبوت ہے، وہ بیانِ حلفی کے الفاظ میں تبدیلی نہیں بلکہ ایک اور امر ہے جو اس طریقے سے سرانجام دیا گیا ہے کہ اچھے اچھوں کو اس کی خبر ہی نہیں ہوسکی ہے.
نئے قانون کی دفعہ 241 کے ذریعے کئی پچھلے قوانین کو منسوخ کردیا گیا ہے۔ انھی قوانین میں ایک قانون جنرل پرویز مشرف کا جاری کردی وہ صدارتی آرڈر ہے جس کے ذریعے 2002ء کے الیکشن کے لیے قواعد وضوابط متعین کیے گئے تھے۔ اس آرڈر کو بعد میں سترھویں دستوری ترمیم کے ذریعے مستقل قانون کی حیثیت مل گئی تھی۔
2002ء سے قبل الیکشن جداگانہ طرزِ انتخاب پر ہوتے تھے ، یعنی مسلمان امیدوار کو مسلمان ووٹر ہی ووٹ دے سکتا تھا اور غیرمسلم امیدواروں کو غیرمسلم ووٹر ووٹ دیتے تھے۔ 2002ء میں مخلوط طرزِ انتخاب رائج کیا گیا جس میں یہ خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں قادیانی ووٹر اب ووٹرلسٹ میں اندراج کے ذریعے خود مسلمان نہ کہلوانا شروع کردیں۔ اس خدشے کے پیشِ نظر جنرل مشرف کو اس صدارتی آرڈر میں دفعہ 7 بی اور دفعہ 7 سی کا اضافہ کرنا پڑا۔
دفعہ 7 بی میں یہ قرار دیا گیا تھا کہ مخلوط طرزِ انتخاب کے باوجود قادیانیوں اور لاہوریوں کی قانونی حیثیت غیرمسلم ہی کی رہے گی، جیسا کہ دستورِ پاکستان میں طے پایا ہے ۔
دفعہ 7 سی میں یہ قرار دیا گیا کہ اگر کسی ووٹر پر کسی کو اعتراض ہو کہ اسے مسلمان ظاہر کیا گیا ہے جبکہ درحقیقت وہ قادیانی یا لاہوری گروپ سے تعلق رکھتا ہے تو اس ووٹر پر لازم ہوگا کہ وہ مجاز اتھارٹی کے سامنے ختمِ نبوت پر ایمان کے متعلق اس طرح کا بیانِ حلفی جمع کرائے جیسے مسلمان کرتے ہیں۔ مزید یہ قرار دیا گیا کہ ایسا بیانِ حلفی جمع کرانے سے انکار کی صورت میں اسے غیرمسلم متصور کیا جائے گا اور اس کا نام مسلمانوں کی ووٹرلسٹ سے نکال دیا جائے گا۔ یہ بھی قرار دیا گیا کہ اگر ایسا ووٹر مجاز اتھارٹی کے سامنے پیش ہی نہ ہو ، باوجود اس کے کہ اسے باقاعدہ نوٹس مل چکا ہو، تو ایسی صورت میں اس کے خلاف قضاء علی الغائب (ex parte decision) کے اصول پر فیصلہ کیا جائے گا۔
ذرا سوچیے!
پرویز مشرف جیسے آمر سے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ قانون جاری کروایا تھا. پھر یہ بھی سوچیے کہ مسلم لیگ جیسی پارٹی اور اس کے مذہبی اتحادیوں نے اس قانون کو منسوخ کروایا ! عبرت کی جا ہے، واللہ !
بہرحال غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب نئے قانون کی دفعہ 241 کی ذیلی دفعہ جی کے ذریعے 2002ء کے اس قانون کو منسوخ کیا گیا تو اب قانونی حیثیت کیا ہے؟
2002ء کے قانون کی دفعہ 7 (ذیلی دفعہ بی) کی منسوخی کے باوجود قادیانیوں اور لاہوری گروپ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی حیثیت بدستور غیرمسلم ہی کی رہے گی کیونکہ ان کی یہ حیثیت دستور نے متعین کی ہے اور جب تک دستور میں ترمیم کرکے اس قانونی حیثیت کو تبدیل نہ کیا جائے کسی بھی قانون میں تبدیلی یا نئے قانون کی آمد کے بعد بھی ان کی حیثیت بدستور وہی رہے گی۔ البتہ اس طرح کے قانون سے قانون بنانے والوں کی نیت تو بہرحال معلوم ہوجاتی ہے.
سب سے خطرناک ترین حقیقت یہ ہے کہ 2002ء کے قانون کی دفعہ 7 (ذیلی دفعہ سی) کی منسوخی کے بعد اب قادیانی یا لاہوری گروپ کے کسی ووٹر کو مسلمانوں کی ووٹرلسٹ سے نکالنے کا کوئی قانونی طریقہ باقی نہیں رہا۔ اسی سے یہ بات قطعی طور پر معلوم ہوجاتی ہے کہ یہ تبدیلیاں کس کے کہنے پر، یا کس کو خوش کرنے کے لیے، کی گئی ہیں! کیا اب بھی کسی ثبوت کی ضرورت باقی ہے ؟
پس چہ باید کرد ؟
اب آئندہ کا لائحۂ عمل کیا ہو؟ اس پر، ان شاء اللہ، کل تفصیل سے بحث کریں گے۔ اس وقت اتنا ہی نوٹ کیجیے کہ حکومت اور اس کے اتحادیوں کے پاس اپنی اس سنگین غلطی کی تلافی کی ایک ہی صورت ہے : فوراً سے پیش تر نیا قانونی مسودہ پارلیمان سے منظور کرواکر ان تبدیلیوں کو پھر سے کالعدم کیا جائے۔
پاکستانی قوم نے ختمِ نبوت کے معاملے میں ہمیشہ جس ایمانی حمیت کا مظاہرہ کیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ ایسا بہت جلد ہوجائے گا، ان شاء اللہ ۔ و ماذلک علی اللہ بعزیز (تحرہر: جناب پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد ) https://www.facebook.com/maamirhashim.khakwani/posts/1797098803650927
………………………………..
سوال یہ ہے کہ کیا انتخابی بل 2017 میں ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کی گئی ہے؟ ا
ور جواب یہ ہے کہ نہ صرف ترمیم کی گئی ہے بلکہ افسوسناک طور پر بعینہ وہی ترمیم کر دی گئی ہے جو قادیانی لابی نے 1978ء میں سیکرٹری الیکشن کمیشن اے زیڈ فاروقی کے ذریعے لانے کی کوشش کی تھی اور جسے مولانا مفتی محمود نے ناکام بنا دیا تھا۔
بھٹو صاحب کا تختہ الٹا گیا تو مولوی مشتاق کو مارشل لاء لگانے کے دسویں روز ہی چیف الیکشن کمیشن بنا دیا گیا۔ اے زیڈ فاروقی سیکرٹری الیکشن کمیشن تھے۔انہوں نے مل کر بھٹو کے خلاف ایک وائٹ پیپر جنرل ضیاء الحق کو پیش کیا۔اس بڑھتی قربت نے اے زیڈ فاروقی صاحب کو اتنا بے باک کر دیا کہ انہوں نے کاغذات نمائندگی میں دیا گیا وہ حلف ختم کرنے کا فیصلہ کر دیا جو بھٹو حکومت میں شامل کیا گیا تھا۔بھٹو دور میں جب قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا تو بہت سارے دیگر قوانین کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی کے امیدواران کے کاغذات نمائندگی میں یہ حلف شامل کر دیا گیا :’’ میں حضرت محمد ﷺ کے قطعی اور کامل طور پر خاتم النبیین ہونے پر یقین رکھتا ہوں۔ اور یہ کہ میں کسی ایسے شخص کا پیروکار نہیں جو حضرت محمد ﷺ کے بعد کسی بھی حوالے یا کسی بھی طرح نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اور یہ کہ میں اس دعویٰ کرنے والے کو نہ نبی مانتا ہوں، نہ اس کو مصلح سمجھتا ہوں اور نہ ہی میں قادیانی یا لاہوری گروپ سے تعلق رکھتا ہوں اور نہ ہی میں اپنے آپ کو احمدی کہتا ہوں‘‘۔
اے زیڈ فاروقی نے یہ کام کر دکھایا کہ جہاں لکھا تھا ’’ میں حلفاً اقرار کرتا ہوں‘‘ اس کو بدل کر یوں کر دیا کہ ’’ میں اقرار صالح کرتا ہوں‘‘۔ ۔۔۔اور باقی کی عبارت وہی رہنے دی۔اس کا خیال تھا کہ اس معمولی سے ہیر پھیر کی کسی کو سمجھ نہیں آئے گی۔ لیکن اس وقت کے علماء نے قادیانیت کے خلاف پارلیمان میں ایک مثالی جدوجہد کی تھی اور وہ اس معاملے میں بہت حساس تھے۔ چنانچہ اے زیڈ فاروقی کی یہ واردات پکڑ لی گئی اور علماء نے سخت رد عمل دیا۔ تمام جماعتوں کے علماء نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ الیکشن کمیشن کا گھیراؤ کیا جائے گا۔گھیراؤ کی تاریخ بھی دے دی گئی۔ چنانچہ ضیاء الحق نے اس پر فوری ایکشن لیا، سیکرٹری اے زیڈ فاروقی کو عہدے سے ہاتھ دھونا پر گئے اور’ اقرار صالح ‘کی بجائے ’ حلف‘ کی عبارت دوبارہ سے قانون کا حصہ بنا دی گئی۔
اب پھر وہی کام ہوا ہے۔”Solemnly swear” کا لفظ ختم کر کے اس کی جگہ محض “Declare” کا لفظ لکھ دیا گیا ہے۔یعنی جو بات حلفیہ کہی جا رہی تھی اب وہ حلفیہ نہیں رہی۔ اب محض ایک ا قرار کیا جا رہا ہے۔ یہ ترمیم تو اس ترمیم سے بھی بد تر ہے جو قادیانی لابی کے زیر اثر اے زیڈ فاروقی لایا تھا۔ اس میں حلف نامے کی جگہ ’ اقرار صالح‘‘ کی بات کی گئی تھی جب کہ ہماری منتخب پارلیمان نے صرف’ اقرار‘ پر اکتفا کر لیا۔تجربہ کاروں کی تجربہ کاری کو داد دیجیے کہ باقی کی عبارت چونکہ ویسی ہی رہنے دی گئی ہے اس لیے لوگوں نے بالعموم یہی سمجھا کہ کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔قانون کی دنیا میں ” May” اور ” Shall” سے اتنا فرق پڑ جاتا ہے کہ لفظوں کے معنی بدل جاتے ہیں۔ ” And” اور “Or” سے مطلب کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے، حتی کہ ایک کامے (،) سے بات کا مفہوم بدل جاتا ہے۔ یہاں تو “solemnly swear” کا لفظ ختم کر کے اس کی جگہ محض “Declare” کا لفظ لکھ دیا گیا ہے اور اس پر ڈھٹائی دیکھیے پوری شدت سے جھوٹ بولا جا رہا ہے کہ کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی۔
جو یہ سمجھتے ہیں کہ حلفیہ اقرار کرنے میں اور اقرار کرنے میں کوئی فرق نہیں، انہیں پہلی فرصت میں کسی نفسیاتی معالج سے رجوع کر نا چاہیے۔ قانون کی دنیا میں حلف پر دیے گئے بیان اور محض بیان میں بہت فرق ہے۔یاگر فرق نہیں ہے تو ذرا بتا تو دیجیے کہ یہ ترمیم لانے کی حکومت کو کیا ضرورت پڑی تھی؟جب دونوں اصطلاحات کا مطلب ایک ہے تو آپ ایک اصطلاح کو ختم کر کے دوسری اصطلاح کیوں متعارف کرا رہے ہیں؟
پھر معاملہ یہاں بھی ختم نہیں ہوتا۔ دی کنڈکٹ آف جنرل الیکشنز آرڈر2002 ایک اہم دستاویز ہے جو پرویز مشرف نے بطور چیف ایگزیکٹو جاری کی تھی۔اس میں اہتمام سے بتایا گیا تھا کہ احمدیوں اور قادیانیوں کا سٹیٹس تبدیل نہیں ہو گا اور یہ وہی رہے گا جو اس سے پہلے انتخابی قوانین میں موجود ہے۔اسی طرح الیکٹورل رولز ایکٹ 1974 کے تحت یہ قانون موجود تھا کہ اگر کوئی ووٹر کسی امیدوار کے خلاف شکایت کرتا کہ یہ مسلمان نہیں تو اس پر کارروائی ہوتی تھی۔الیکشن کمشنر الیکٹورل رولز رولز(Electoral Rolls Rules) کی دفعہ 9 کے تحت ایک افسر کو ریوائزنگ اتھارٹی کے طور پر تعینات کرتا تھا جو اس معاملے کو دیکھتا تھا۔وہ متعلقہ امیدوار کو پندرہ دن کا نوٹس دیتا تھا اور اسے کہتا تھا کہ وہ فارم نمبر4 کے مطابق اس بات کا اقرار کرے کہ وہ حضرت محمد ﷺ کے قطعی اور کامل طور پر خاتم النبیین ہونے پر یقین رکھتا ہے۔امیدوار اگر ایسا نہیں کر سکتا تھا تو اس کا نام انتخابی فہرست میں بطور غیر مسلم درج کر دیا جاتا تھا۔الیکشنز ایکٹ 2017 کی دفعہ 241 نے ان دونوں قوانین کو بھی منسوخ کر دیا ہے۔قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی آئینی شقیں ابھی باقی ہیں کیونکہ ان کو بدلنے کے لیے دوتہائی اکثریت چاہیے، تاہم حکمرانوں نے اپنی نیّت واضح کر دی ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔
اس قانونی بحث کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب آئیے اس سوال کی جانب کہ جب یہ ساری قانون سازی ہو رہی تھی اس وقت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نام پر ووٹ لے کر اسمبلی میں آنے والے خواتین و حضرات کہاں تھے؟یہ بل راتوں رات نہیں آیا۔یہ پہلے قومی اسمبلی میں پیش ہوا۔ اس کے بعد سینیٹ میں آیاتوسینیٹ نے کچھ مزید ترامیم تجویز کیں چنانچہ اسے دوبارہ قومی اسمبلی کے سامنے رکھا گیا۔سوال یہ ہے کہ اس سارے دورانیے میں مذہبی جماعتوں کے پارلیمنٹیرین کیا کرتے رہے؟کیسے بھول جائیں کہ جس روز یہ بل سینیٹ سے پاس ہوا سراج الحق وہاں موجود ہی نہ تھے۔
ابھی بھی شیخ رشید کے شور مچانے سے یہ بات سامنے آئی ورنہ سب دہی کے ساتھ کلچہ کھا رہے تھے۔جب شیخ رشید نے شور مچا دیا تب جماعت اسلامی نے وضاحت فرمائی کہ جی ہم نے تو اس کی مخالفت کی تھی۔صالحین بتانا پسند کریں گے کہ اگر آ پ نے مخالفت فرمائی تھی تو اس کے بعد کیا بے تابی تھی کہ آپ اپنی خواب گاہوں کو لوٹ گئے اور آپ نے عوام الناس کے سامنے معاملہ رکھنے کی زحمت ہی نہ کی کہ پارلیمان نے کیا قیامت ڈھا دی ہے؟ کیا یہ اتنا معمولی معاملہ تھا کہ آپ ایوان میں مخالفت کی رسم پوری کر کے نکلتے اور خواب گاہوں کو لوٹ جاتے؟یہی معاملہ جے یو آئی کا ہے۔جس ترمیم کو سالوں پہلے مرحوم مفتی محمود نے ناکام بنا دیا تھا، آج مفتی صاحب کے فرزند کی قیادت میں جے یو آئی وزارت کے مزے لے رہی ہے اور بعینہ وہی ترمیم منظور ہو گئی ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے جب قادیانیوں کے حق میں یہ ترمیم سینیٹ سے منظور ہوئی تو اس وقت سینیٹ اجلاس کی صدارت کوئی اور نہیں، جے یو آئی کے مولانا غفور حیدری کر رہے تھے۔یہ فیصلہ اب سراج الحق اور فضل الرحمن خود ہی کر لیں کہ ان کی دیانت پر انگلی اٹھائی جائے یا ان کی بصیرت پر؟
کچھ دوستوں نے سوال کیا ہے کہ کیا بات درست ہے کاغذات نامزدگی میں حلف ختم نہیں ہوا بلکہ آخر میں solemnly affirmation کی صورت میں حلف موجود ہے۔
عرض ہے کہ یہ موقف درست نہیں۔ solemnly swear ہوتا تو یہ حلف ہوتا۔
بلیک لاء ڈکشنری کا جو ترجمہ حکومت پاکستان نے مقتدرہ قومی زبان سے شائع کرایا ہے اس کے مطابق affirmation اس بیان کا نام ہے جو قسم کھانے کی بجائے دیا جائے۔ قسم کھائے بغیر جو بیان دیا جائے گا وہ affirmation ہے، اسی کو اقرار صالح کہتے ہیں اور بعینہ یہی تبدیلی 1978 میں قادیانیوں نے اس وقت کے سیکرٹری الیکشن کمیشن سے کروائی تھی جسے مفتی محمود مرحوم نے پکڑ لیا تھا اور علماء نے الیکشن کمیشن کے گھیراؤ کی دھمکی دی، جس پر یہ قانون بدل دیا گیا۔
اس قانون میں solemnly swear کو solemnly affirm سے اور ڈیکلریشن سے بدل دیا گیا ہے۔ یعنی اب یہ رسمی حلف نہیں اقرار صالح ہے۔ یہ وہی تبدیلی ہے جو قادیانی سیکرٹری الیکشن کمیشن اے زیڈ فاروقی کے ذریعے کرانا چاہتے تھے۔
(تحریر: آصف محمود ) https://daleel.pk/2017/10/04/59890
……………………………………………………..
وزرا جھوٹ در جھوٹ بولتے رہے کہ کوئی ترمیم نہیں ہوئی اور سوشل میڈیا پر ان کے غلام گماشتے جھوٹ کو پھیلاتے رہے – اپنے اقاووں کو خوش کرتے رہے- اللہ کے رسول صلعم اور اپنے دین ایمان کی ان کو کوئی پرواہ نہیں تھی- اللہ سے معافی مانگیں اور سیاست کی حد میں رہیں اپنے ایمان کو قرآن و سنت کے اندر رکھیں- اللہ آپ کو معاف کرے http://dai.ly/x636mlx
قادیانیت کے حق میں آینی ترمیم کیا تھی ؟
قومی اسمبلی میں قادیانیت کا مقدمہ
1974 میں___ جب قومی اسمبلی میں فیصلہ ہوا کہ قادیانیت کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنا موقف اور دلائل دینے قومی اسمبلی میں آئیں تو۔۔۔ مرزا ناصر قادیانی سفید شلوار کرتے میں ملبوس طرے دار پگڑی باندھ کر آیا۔متشرع سفید…[Continue reading…]
مرزا غلام قادیانی مرتد، زندیق کا مختصر
مرزا غلام قادیانی مرتد، زندیق کا مختصر پسِ منظر: جس نے ختم نبوت سے انکار کیا وہ مرتد بنا، پلید ہوا، کذاب بنا ، پیروکار شیطان بنا، مغربیوں کا کتا بنا ، کافر ہوا، اور گندگی و غلاظت میں ہی واصل… [Continue reading…]
ختم نبوت – ذوالفقار علی بھٹو کی قومی اسمبلی میں تقریر
فتنہ قادیانیت کے تابوت میں پہلی کیل-مقدمہ بهاولپور
ردِّ قادنیت کے حوالے سے مقدمہ بہاول پوربہت اہمیت کا حامل ہے اوراسے قادیانیت کے تابوت میں پہلی کیل کہنا بے جا نہ ہوگا۔ ختم نبوت کے محاذ پر مضبوط بنیاد اور قانونی واخلاقی بالادستی اسی مقدمہ نے مہیا… [Continue reading…]
Sectarianism in Islam اسلام میں فرقہ واریت – تاویلیں، دلائل اور تجزیہ
هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَـٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ ( سورة الحج22:78) اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام “مسلم” رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم… [Continue reading…]
مزید پڑھیں >>>ختم نبوت اور قادیانی فتنه- تحقیقی جائزہ
https://goo.gl/HDpr4t ختم نبوت اسلام کے اہم عقائد میں سے ایک ہے، ایک صدی قبل ہندوستان میں انگریز کی سرپرستی میں مسلمانوں کی وحدت کی مزید تقسیم کے لیے قادیانی فتنه پیدا کیا گیا – بہت جدو جہد کے بعد 1974 میں پاکستان میں آیینی طور پر قادیانوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تاکہ …
Source: Khatm-e-Nabuwat-Qadyani Fitnah ختم نبوت اور قادیانی فتنه- تحقیقی جائزہ – Salaam One سلام