کیا صرف توحید پرستی، آخرت پر ایمان اور نیک اعمال نجات کے لیے کافی ہیں؟ قرآن, 5:69 2:62 Is Monotheism, belief in Judgment and Good deeds are enough for Salvation?

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿ قرآن, 5:69 2:62﴾

ترجمہ : “‏ یقین جانو کہ نبی عربی کو ماننے والے ہوں یا یہودی، عیسائی ہوں یا صابی، جو بھی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا، اُس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے اور اس کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے” [ترجمہ تفہیم القرآن]

“Rest assured that whosoever from among the Muslims or the Jews or the Christians or the Sabaeans believes in Allah and the Last Day, and performs good deeds, he will have his reward with his Lord and he will have no cause for fear and grief”[Quran 2:62, 5:69]

After Allah described the condition – and punishment – of those who defy His commands, fall into His prohibitions and transgress set limits by committing prohibited acts, He stated that the earlier nations (before advent of Prophet Muhammad, pbuh) who were righteous and obedient received the rewards for their good deeds. This shall be the case, until the Day of Judgment. Therefore, whoever follows the unlettered Messenger and Prophet shall acquire eternal happiness and shall neither fear from what will happen in the future nor become sad for what has been lost in the past. Now everyone has to believe and follow Prophet Muhammad (pbuh).

﴿وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلَـمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِى الاٌّخِرَةِ مِنَ الْخَـسِرِينَ ﴾

“And whoever seeks religion other than Islam, it will never be accepted of him, and in the Hereafter he will be one of the losers” (3:85).

This statement by Ibn `Abbas indicates that Allah does not accept any deed or work from anyone, unless it conforms to the Law of Muhammad  (pbuh) that is, after Allah sent Muhammad (pbuh) . Before his time, every person who followed the guidance of his own Prophet was on the correct path, following the correct guidance and was saved.

When Allah sent Muhammad (pbuh) as the Last and Final Prophet and Messenger to all of the Children of Adam, mankind was required to believe in him, obey him and refrain from what he prohibited them; those who do this are true believers. The Ummah of Muhammad was called `Mu’minin’ (believers), because of the depth of their faith and certainty, and because they believe in all of the previous Prophets and matters of the Unseen.

There is a difference of opinion over the identity of the Sabians. Sufyan Ath-Thawri said that Layth bin Abu Sulaym said that Mujahid said that, “The Sabians are between the Majus, the Jews and the Christians. They do not have a specific religion.” Similar is reported from Ibn Abi Najih. Similar statements were attributed to `Ata’ and Sa`id bin Jubayr. They (others) say that the Sabians are a sect among the People of the Book who used to read the Zabur (Psalms), others say that they are a people who worshipped the angels or the stars (not logical as it is polytheism). It appears that the closest opinion to the truth, and Allah knows best, is Mujahid’s statement and those who agree with him like Wahb bin Munabbih, that the Sabians are neither Jews nor Christians nor Majus nor polytheists. Rather, they did not have a specific religion that they followed and enforced, because they remained living according to their Fitrah (instinctual nature). This is why the idolaters used to call whoever embraced Islam a `Sabi’, meaning, that he abandoned all religions that existed on the earth. Some scholars stated that the Sabians are those who never received a message by any Prophet. And Allah knows best.  [Ibn Kathir]

This verse appears twice. The context in which this verse occurs shows that the Qur’an is not laying down here the details of the creed and righteous deeds, which one should believe and practise in order to earn salvation. These things have been described in their proper places. Here, the object is to refute the self-delusion of the Jews that salvation was their sole monopoly. They were suffering from the delusion that they had some special relationship with God; therefore whoever belonged to their race, would go straight to Heaven, irrespective of his creed and deeds, and all other people were born to become fuel of Hell. To remove this misunderstanding of theirs Allah declares that salvation does not depend upon one’s connection with any group but on one’s right beliefs and good deeds. Whoever goes before Allah with these provisions will find his reward with Him, for Allah’s judgement will be based on one’s real worth and not on the census registers.[Tafheem ul Quran]

کچھ مفسرین اور مترجمین نے “الصَّابِئِينَ”  کا ترجمہ “ستارہ پرست” کیا جو کہ غلط ترجمہ ہے ۔۔”صائیبون” کی مختلف تشریحات ہیں۔ قرآن کی تفسیر کا بنیادی اصول ہے کہ قرآن کی تشریح قرآن سے ۔۔ ایک آیت کو اٹھا کر مرضی کا مطلب نکالنا گمراہی کا سبب ہو سکتا ہے ۔ قرآن میں شرک ناقابل معافی ہے ستارہ پرستی شرک ہے ۔ صائبون کی ایک تشریح یہ کی گئی ہے کہ عراق میں حضرت یحییٰ علیہ سلام کے ماننے والے توحید پرست ۔۔۔
قرآن میں یہودی ، عیسائیوں کو کفر کا مرتکب پایا گیا ۔۔ اس آیت کو ان سے ملا کر جائیزہ لیں تو یہ معلوم ہوا کہ اس آیت میں وہ یہودی اور عیسائی اور صائبون جو حضرت محمد صلعم کی نبوت سے پہلے توحید پرست تھے یا اس دور میں یا مستقبل میں وہ توحید پرست جن تک قرآن کا پیغام نہیں پہنچا- افریقہ اور آسٹریلیا کے کچھ قدیم قبائل توحید پرستی پر قائم پایے گئے-

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ ۗ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۖ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ﴿5:68﴾

‏ ” کہو کہ اے اہل کتاب ! جب تک تم تورات اور انجیل کو اور جو (اور کتابیں) تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوئی ان کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے اور (یہ قرآن) جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے اس سے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور کفر اور بڑھے گا۔ تو تم قوم کفار پر افسوس نہ کرو۔ ‏”

فرماں برداروں کے لئے بشارت

اوپر چونکہ نافرمانوں کے عذاب کا ذکر تھا تو یہاں ان میں جو لوگ نیک تھے ان کے ثواب کا بیان ہو رہا ہے نبی کی تابعداری کرنے والوں کے لئے یہ بشارت تاقیامت ہے کہ نہ مستقبل کا ڈر نہ یہاں حاصل نہ ہونے والی اشیاء کا افسوس و حسرت۔ آیت (الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون) یعنی اللہ کے دوستوں پر کوئی خوف و غم نہیں اور وہ فرشتے جو مسلمان کی روح نکلنے کے وقت آتے ہیں یہی کہتے ہیں آیت

(لا تخافوا ولا تحزنوا وابشروا بالجنۃ التی کنتم توعدون)
تم ڈرو نہیں تم اداس نہ ہو تمہیں ہم اس جنت کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا تم سے وعدہ کیا تھا

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے سے پہلے جن ایمان والوں سے ملا تھا ان کی عبادت اور نماز روزے وغیرہ کا ذکر کیا تو یہ آیت اتری (ابن ابی حاتم)
ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت سلمان نے ان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ نمازی روزہ دار ایماندار اور اس بات کے معتقد تھے کہ آپ مبعوث ہونے والے ہیں آپ نے فرمایا کہ وہ جہنمی ہیں، حضرت سلمان کو اس سے بڑا رنج ہوا وہیں یہ آیت نازل ہوئی

لیکن یہ واضح رہے کہ یہودیوں میں سے ایماندار وہ ہے جو توراۃ کو مانتا ہو اور سنت موسیٰ علیہ السلام کا عامل ہو لیکن جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آ جائیں تو ان کی تابعداری نہ کرے تو پھر بےدین ہو جائے گا اسی طرح نصرانیوں میں سے ایماندار وہ ہے جو انجیل کو کلام اللہ مانے شریعت عیسوی پر عمل کرے-

اور اگر اپنے زمانے میں پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو پا لے تو آپ کی تابعداری اور آپ کی نبوت کی تصدیق کرے اگر اب بھی وہ انجیل کو اور اتباع عیسوی کو نہ چھوڑے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم نہ کرے تو ہلاک ہو گا۔ (ابن ابی حاتم)

سدی نے یہی روایت کی ہے اور سعید بن جبیر بھی یہی فرماتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ ہر نبی کا تابعدار اس کا ماننے والا ایماندار اور صالح ہے اور اللہ کے ہاں نجات پانے والا لیکن جب دوسرا نبی آئے اور وہ اس سے انکار کرے تو کافر ہو جائے گا ۔

قرآن کی ایک آیت تو یہ جو آپ کے سامنے ہے اور دوسری وہ آیت جس میں بیان ہے :
(ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الاخرۃ من الخاسرین)

یعنی جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہو اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ نقصان اٹھانے والا ہو گا۔

ان دونوں آیتوں میں یہی تطبیق ہے کسی شخص کا کوئی عمل کوئی طریقہ مقبول نہیں تاوقتیکہ وہ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق نہ ہو مگر یہ اس وقت ہے جب کہ آپ مبعوث ہو کر دنیا میں آ گئے آپ سے پہلے جس نبی کا جو زمانہ تھا اور جو لوگ اس زمانہ میں تھے ان کے لئے ان کے زمانے کے نبی کی تابعداری اور اس کی شریعت کی مطابقت شرط ہے-

آخری رسول پر ایمان اولین شرط ہے

اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ یہود و نصاریٰ کسی دین پر نہیں ، جب تک کہ اپنی کتابوں پر اور اللہ کی اس کتاب پر ایمان لائیں لیکن ان کی حالت تو یہ ہے کہ جیسے جیسے قرآن اترتا ہے یہ لوگ سرکشی اور کفر میں بڑھتے جاتے ہیں۔ پس اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو ان کافروں کیلئے حسرت و افسوس کر کے کیوں اپنی جان کو روگ لگاتا ہے۔ صابی ، نصرانیوں اور مجوسیوں کی بےدین جماعت کو کہتے ہیں اور صرف مجوسیوں کو بھی علاوہ ازیں ایک اور گروہ تھا ، یہود اور نصاریٰ دونوں مثل مجوسیوں کے تھے۔ قتادہ کہتے ہیں یہ زبور پڑھتے تھے غیر قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے تھے اور فرشتوں کو پوجتے تھے۔ وہب فرماتے ہیں اللہ کو پہچانتے تھے ، اپنی شریعت کے حامل تھے ، ان میں کفر کی ایجاد نہیں ہوئی تھی ، یہ عراق کے متصل آباد تھے ، یلوثا کہے جاتے تھے ، نبیوں کو مانتے تھے ، ہر سال میں تیس روزے رکھتے تھے اور یمن کی طرف منہ کر کے دن بھر میں پانچ نمازیں بھی پڑھتے تھے اس کے سوا اور قول بھی ہیں چونکہ پہلے دو جملوں کے بعد انکا ذکر آیا تھا ، اس لئے رفع کے ساتھ عطف ڈالا ۔ ان تمام لوگوں سے جناب باری فرماتا ہے کہ “امن و امان والے بےڈر اور بےخوف وہ ہیں جو اللہ پر اور قیامت پر سچا ایمان رکھیں اور نیک اعمال کریں اور یہ ناممکن ہے ، جب تک اس آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ ہو جو کہ تمام جن و انس کی طرف اللہ کے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ پس آپ پر ایمان لانے والے آنے والی زندگی کے خطرات سے بےخوف ہیں اور یہاں چھوڑ کر جانے والی چیزوں کو انہیں کوئی تمنا اور حسرت نہیں”۔ سورہ بقرہ کی تفسیر میں اس جملے کے مفصل معنی بیان کر دیئے گئے ہیں۔
[ماخوز از تفسیر ابن کثیر]