انبیاء و شہداء کی حیات بعد الموت کی حقیقت

 
 کل نفس ذائقة الموت 
 
 ہر نفس نے موت کا ذائقۃ چکھنا ہے(3:185)
 

 

اللہ نے انسانوں کو اپنا پیغام ہدایت پہنچانے کے لیے ایسے عظیم اشخاص کو پسند کیا جنہوں نے اپنی تمام زندگی لوگوں کو اللہ کی وحدانیت پر قائم رکھنے میں صرف کردی کیونکہ ہر نبی کی دعوت کا محور توحید باری تعالی ہے اور جس کا بیان قرآن میں موجود ہےانبیاء کرام علیہم السلام تمام انسانوں کے افضل ہیں، جن کے سردار سیدنا نبی کریمﷺ ہیں۔ جو تمام بنی آدم کے سردار بھی ہیں اور سید الانبیاء والمرسلین بھی۔ آپﷺ تمام لوگوں میں اکمل ترین، افضل ترین اور سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھنے والے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے معزز بھی ہیں۔
 لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی وجہ سے آپ میں سے بشریت کے خصائص سلب ہوگئے ہیں یا آپ کے اندر خالق کی صفات میں سے کوئی صفات آگئی ہیں، نہیں ہرگز نہیں، بلکہ آپ کی افضیلت اور اللہ کے ہاں محبوب ہونے کی بنیادی وجہ ہی آپ کی کامل بندگی وکامل ترین عبودیت ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ نبی کریمﷺ کو باوجود افضل ترین شخصیت ہونے کے وہ چیزیں لاحق ہوتی تھیں جو دیگر لوگوں کو لاحق ہوتی ہیں، مثلاً آپ کو کھانے پینے، سونے اور شادی وغیرہ کرنے کی احتیاج ہوتی تھی، اسی طرح آپ بیمار بھی ہوتے تھے، اور اسی طرح آپﷺ دیگر انسانوں کی طرح فوت بھی ہوئے، اسی لئے آپﷺ کیلئے کفن دفن اور قبر مبارک وغیرہ کا اہتمام کیا گیا۔ فرمان باری ہے: 
 
﴿ کل نفس ذائقة الموت ﴾ کہ ’’ہر نفس نے موت کا ذائقۃ چکھنا ہے۔‘‘(3:185)
 
نیز فرمایا: ﴿ إنك ميت وإنهم ميتون ﴾ کہ ’’( یقینی بات ہے کہ آپ بھی فوت ہونے والے ہیں اور یہ (کفار مکہ) بھی مر جائیں گے۔‘‘(:39:30)
نیز فرمایا: ﴿ وما جعلنا لبشر من قبلك الخلد أفائن مت فهم الخلدون ﴾ کہ ’’(اے میرے حبیب! ہم نے آپ سے پہلے کسی بشر کو ہمیشہ کی زندگی عطا نہیں کی، تو جب آپ (افضل الشبر علیہ الصلاۃ والسلام) نے فوت ہونا ہے تو کیا یہ (کفار مکہ) ہمیشہ زندہ رہیں گے؟‘‘(21:34)
دیگر انبیاء کرام علیہم السلام بھی فوت ہوئے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٤١﴾
وہ کچھ لوگ تھے، جو گزر چکے اُن کی کمائی اُن کے لیے تھی اور تمہاری کمائی تمہارے لیے تم سے اُن کے اعمال کے متعلق سوال نہیں ہوگا” (2:141)
جب نبی کریمﷺ فوت ہوئے تو سیدنا ابو بکر صدیق رضی الله  نے اپنا مشہور مقولہ فرمایا تھا: (من کان یعبد محمدا صلی اللہ علیہ وسلم فإن محمدا قد مات ومن كان يعبد الله فإن الله حي لا يموت، وقال: (إنك ميت وإنهم ميتون) وقال: (وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسول أفائن مات أو قتل انقلبتم على أعقابكم ومن ينقلب على عقبيه فلن يضر الله شيئا) …صحيح البخاري کہ ’’جو شخص محمد ﷺ کی بندگی کرتا تھا تو وہ جان لے کہ محمد تو مر چکے ہیں، اور جو شخص اللہ رب العٰلمین کی عبادت کرتا تھا تو یقینا اللہ تعالیٰ زندہ لا زوال ہیں اور کبھی نہیں مریں گے، پھر آپ  نے درج ذیل دو آیات کریمہ کی تلاوت فرمائی جن کا ترجمہ یہ ہے:
1. یقیناً آپ (اے میرے حبیب!) فوت ہونے والے ہیں اور یہ (کفار) بھی مر جائیں کے۔
2. نہیں کہ محمد مگر رسول ہی، جن سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے (یعنی آ کر فوت ہوچکے) کیا اگر وہ (محمد) مر جائیں یا شہید کر دئیے جائیں تم مرتد ہوجاؤ گے؟ اور جو اپنے قدموں پر پلٹا تو وہ اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔‘‘
 
ایک اور صحیح حدیث مبارکہ میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: « ما على الأرض نفس منفوسة ، يعني : اليوم – يأتي عليها مائة سنة » کہ ’’آج زمیں پر جتنے لوگ موجود ہیں، سو سال کے بعد ان میں سے کوئی نفس بھی سانس لینے والا (یعنی زندہ) نہیں ہوگا۔‘‘
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے: « لا يبقى على وجه الأرض بعد مائة سنة ممن هو عليها اليوم أحد » اس کا مفہوم بھی پچھلی حدیث مبارکہ کی طرح ہے۔
 
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ انبیاء کرام  بشمول سید الانبیاء والمرسلینﷺ فوت ہوگئے لیکن وہ اپنے قبروں میں زندہ ہیں، جیسے شہید اپنی قبروں میں زندہ ہیں، تو یہ بات صحیح ہے، صحیح حدیث میں سیدنا ابو الدراء سے مروی ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:« أكثروا الصلاة علي يوم الجمعة ، فإنه مشهود تشهده الملائكة ، وإن أحدا لن يصلي علي إلا عرضت علي صلاته حتى يفرغ منها قال : قلت : وبعد الموت ؟ قال : وبعد الموت ، إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء ، فنبي الله حي يرزق » … سنن ابن ماجه وحسنه الألباني في صحيح الترغيب کہ ’’مجھ پر جمعہ کے دن کثرت سے درود پڑھا کرو، کیونکہ اس دن فرشتے جمع ہوتے ہیں، اور جب تم سے کوئی شخص مجھ پر درود پڑھتا ہے تو اس درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے، ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ موت کے بعد بھی؟ فرمایا: موت کے بعد بھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کرام علیہم السلام کو جسم مبارک کو کھانا حرام کر دیا ہے۔ پس اللہ کے نبی زندہ ہوتے اور رزق دئیے جاتے ہیں۔‘‘
“اور جن لوگوں نے خدا کی راہ میں ہجرت کی پھر مارے گئے یا مر گئے۔ ان کو خدا اچھی روزی دے گا۔ اور بےشک خدا سب سے بہتر رزق دینے والا ہے (58) وہ ان کو ایسے مقام میں داخل کرے گا جسے وہ پسند کریں گے۔ اور خدا تو جاننے والا (اور) بردبار ہے” (22:59 قرآن )
اسی طرح سیدنا انس رضی الله سے مروی ایک اور صحیح حدیث مبارکہ میں ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:« الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون » … مسند البزار، وصححه الألباني رحمه الله کہ ’’انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔‘‘
لیکن یہ بات واضح رہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اور شہداء وغیرہ کی یہ زندگی برزخی زندگی ہے، جس کا دنیاوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں، اور نہ ہی دنیا میں موجود زندہ لوگ اس کو سمجھ سکتے ہیں۔ بلکہ جیسے ہی انبیاء وشہداء فوت ہوتے ہیں، ان کی برزخی زندگی شروع ہوجاتی ہے، لیکن دفنانے سے پہلے وہ ہمارے سامنے تو مردہ ہی ہوتے ہیں، لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ انبیاء کرام اور شہداء وغیرہ کی قبر کی زندگی برزخی ہے، جسے دنیا کے لوگ نہیں سمجھ سکتے، فرمان باری ہے: ﴿ ولا تقولوا لمن يقتل في سبيل الله أموات بل أحياء ولكن لا تشعرون ﴾ کہ ’’جو لوگ اللہ کے راستے میں شہید ہوجائیں، انہیں مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں لیکن تم (اے انسانو) شعور نہیں رکھتے۔‘‘
یہ آیت کریمہ بہت واضح دلیل ہے کہ ہم اس برزخی زندگی کے معاملات نہیں سمجھ سکتے۔
امام ابن کثیر شہادت کے بعد شہداء کی روحوں کا سبز پرندوں میں آنا اور اور جنت کی سیر وغیرہ اور پھر شہیدوں کا اللہ سے دوبارہ اپنی روحوں کو دنیاوی اجساد میں لوٹانے کے مطالبے کے متعلق فرماتے ہیں: (يدل على أن هذا النعيم نعيم الأرواح ، وهذه الحياة هي حياة الأرواح أيضا ، وهي حياة برزخية ، لا تشبه الحياة الدنيا بوجه ، وأن الأرواح ليست في أجسادها التي كانت لها في الدنيا ، ولذا سألت الله أن ترد إلى أجساها حتى تقتل …تفسیر ابن اکثیر 2 ؍1 164) کہ ’’یہ احادیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ نعمتیں روحوں کیلئے ہیں۔ اور یہ زندگی بھی روحوں کی زندگی ہے، اور یہ برزخی زندگی ہے جو دنیاوی زندگی سے کسی طور مشابہت نہیں رکھتی، اور ان کی روحیں ان کے دنیاوی اجساد میں نہیں ہوں گی، اسی لئے وہ اللہ سے دوبارہ اپنی روحوں کے دنیاوی جسموں میں لوٹانے کا مطالبہ کریں گے تاکہ وہ دوبارہ شہید ہوں (اور اللہ کے مزید انعامات حاصل کریں۔)‘‘
 
”عبداللہ بن مسعودفرماتے ہیں ہم نے رسول اللہ ۖ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا آپ ۖ نے فرمایا” ارواحھم فی جوف طیر خضر لھا قنادیل معلقہ بالعرش تسرح من الجنة حیث شاء ت ثم تاوی الی تلک القنا دیل ”( صحیح مسلم کتاب امارات باب ان ارواح الشھداء فی الجنة) 
” (شہیدوں ) کی روحیں سبز چڑیوں کے قالب میں قندیلوں کے اندر ہیں جو عرش مبارک سے لٹک رہی ہیں اور جہاں چاہتی ہیں جنت میں کھاتی بھرتی ہیں پھر اپنی قنددیلوں میں آجاتی ہیں ”
 
اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ شہید وں کی ارواح جنت میں حیات ہیں اور بے شک انبیاء علیہ السلام شہداء سے بھی افضل ہیں تو وہ ان سے اونچے مقام میں حیات ہیں اور یہ بات دیگر احادیث سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ انبیاء علیہ السلام اپنے مقام میں حیات ہیں اور امام انبیاء بھی اپنے مقام اعلی میں حیات ہیں ۔ 
(1) ان عائشہ قالت کان رسول اللہ ۖ وھو صحیح یوقل انہ یقبض نبی قط حتی یری مقدہ من الجنة ثم یحیا او یخیر فلما اشتکی وحضرہ القبض و راسہ علی فخز عائشہ غشی علیہ فلما افاق شحص بصرہ نحو مقف البیت ثم قال اللھم فی الرفیق الاعلی فقلت اذا لا یضاورنا فعرفتُ انہ حدیثہ الذی کان یحدثنا وھو صحیح (صحیح بخاری کتاب المغازی باب مرض النبیۖ و وفاتہ)
” اماں عائشہ نے بیان کیا کہ تندرستی اور صحت کے زمانے میں رسول اللہ ۖ فرمایا کرتے تھے کہ جب بھی کسی نبی کی روح قبض کی جاتی ہے تو پہلے جنت میں اس کی قیام گاہ اسے ضرور دکھائی جاتی ہے پھر اسے اختیار دیا جاتا ہے پھر نبیۖ بیمار پڑے اور وقت قریب آگیا تو سر مبارک اماںعائشہ کی گود میں تھا اور غشی طاری ہوگئی تھی جب افاقہ ہوا تو آپ ۖ کی آنکھیں گھر کی چھت کی طرف اُٹھ گئیں اور آپۖ نے فرمایا (الھم فی الرفیق الاعلی )(اے اللہ مجھے میرے اعلی رفیقوں سے ملادے) میں سمجھ گئی اب آپۖ نے ہمیں (یعنی دنیا میں رہنا) پسند نہیں کیا مجھے وہ حدیث یاد آگئی جو آپۖ نے صحت کے زمانے میں بیان فرمائی تھی” 
(2)عن انس قال لما ثقل النبیۖ جعل یتغشاہ فقالت فاطمہ و اکرب اباہ فقال لھا لیس علی ابیک کرب بعد الیوم فلما مات قالت یا ابتاہ اجاب رباََ دعاہ یا ابتاہ من جنة الفردوس ماواہ”(بخاری کتاب المغازی باب ایضاََ)” انس نے بیان کیا کہ شد ت مرض کے زمانے میں نبیۖ کی بے چینی بڑھ گئی تھی فاطمہ نے فرمایا آہ اباجان کو کتنی بے چینی ہے نبیۖ نے فرمایا کہ تمہارے والد کو آج کے بعد یہ بے چینی نہیں رہے گی پھر جب آپ ۖ کی وفات ہو گئی تو فاطمہ کہتی تھیں اباجان آپۖ اپنے رب کے بلاوے پر چلے گئے اباجان آپۖ جنت الفردوس میں اپنے مقام پر چلے گئے ۔” 
ان احادیث سے مکمل طور پر واضح ہوتا ہے کہ انبیاء علیہ السلام اپنے مقا م میں حیات ہیں اور جو روایت اس بارے میں موجود ہیں کہ انبیاء علیہ السلام اپنی قبروں میں حیات ہیں یا قبر میں نبیۖ کی روح کا لوٹایا جانا ” یہ تمام برزخی معاملات ہیں اور یہ حیات برزخی ہے جس کو دونیاوی حیات پر ائمہ اور محدثین نے قیاس نہیں کیا ہے اور نہ اس بنا پر انہوں نے انبیاء کو نداد ینا جائز قرار دیا ہے اور ان تمام باتوں کی وضاحت ہم آگے کریں گے یہاں پر ہم ان ضعیف روایات کے بارے میں بیان کر رہے ہیں جو اس استدلال کو ثابت کرنے کے لئے بیان کی جاتیں ہیں ۔ (http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=24930)
استدلالِ باطلہ کے حق میں ضعیف روایات ….. (آخر میں)
 
علماء لجنہ دائم ہ  فرماتے ہیں: حياة الأنبياء والشهداء وسائر الأولياء حياة برزخية لا يعلم حقيقتها إلا الله ، وليست كالحياة التي كانت لهم في الدنيا ” انتهى … “فتاوى اللجنة الدائمة” (1 / 173-174) کہ ’’انیباء اور شہداء کی زندگی اور اسی طرح دیگر تمام اولیاء کی زندگی برزخی زندگی ہے جس کی حقیقت اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، یہ زندگی ہرگز اس زندگی کی طرح نہیں جو دنیا میں تھی۔‘‘اور شہیدوں کی برزخی زندگی کی بہت بڑی د
لیل یہ بھی ہے کہ ان کی وراثت تقسیم کر دی جاتی ہے، ان کی بیویوں سے دیگر لوگ شادی کر سکتے ہیں اور اسی طرح ان پر مردوں کے دیگر تمام احکامات جاری ہوتے ہیں۔
اسی طرح انبیاء کرام علیہم السلام کے فوت ہونے کے بعد ان کے جانشین خلیفہ ہوتے ہیں جو لوگوں کے معاملات دیکھتے، ان کو نمازیں پڑھاتے، فتوے دیتے اور ان کے دیگر اختلافات کا فیصلہ کرتے ہیں۔ 
اور اسی لئے جب نبی کریمﷺ فوت ہوئے تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی وراثت کا مطالبہ کیا تھا، اگر آپ زندہ ہوتے تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کبھی اپنی وراثت نہ مانگتیں اور ابو بکر صدیق رضی الله  انہیں یہ جواب دیتے کہ ابھی تو نبی کریمﷺ فوت ہی نہیں ہوئے لیکن سیدنا ابو بکر صدیقرضی الله نے انہیں جواب میں یہ حدیث مبارکہ پیش کی انبیاء کی اصل وراثت ان کا علم ہوتا ہے، ان کی درہم ودینار کی وراثت تو صدقہ ہوتی ہے۔
…………………………………………….
۔
استدلالِ باطلہ کے حق میں ضعیف روایات:
(1) من زار قبری بعد موتی کان کمن زارنی فی حیاتی”جس نے میرے وصال کے بعد میری قبرکی زیارت کی گویااس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔ (طبرانی الکبیر رقم 13496،طبرانی الاوسط رقم 287، سنن الکبری للبیہقی 10274، شعب الایمان رقم 3858)
اس روایت میں حفص بن ابو داؤد ضعیف ہے (تھذیب التھذیب جلد ٢ ص ٣٦٥) اور اس کی دیگر اسناد میں درج ذیل روای ضعیف ہیں (١) لیث بن ابی سُلیم : ابو زرعہ فرماتے ہیں ” لیث لین الحدیث لا تعوم بہ الحجة عن اہل علم بالحدیث ”(تھذیب التھذیب جلد ٦ ص ٦١٣) ” لیث لین الحدیث ہے اور اہل علم نے اس سے حجت نہیں لی ہے ” (٢) احمد بن رشدین : ابو حاتم فرماتے ہیں ”
منکر الحدیث ویحدث بالمناکیر عن الثقات” (تھذیب جلد ٣ ص ١٠٣)”منکر الحدیث ہے اور وہ ثقات کی جانب منسوب کرکے منکر روایات بیان کرتا ہے
”حیاتی خیر لکم تحدثون ویحدث لکم و فاتی خیر لکم تعرض علی اعمالکم فما رایت من شر استغفرتُ اللہ لکم”
(مسند الحارث رقم 953،مسند البزار رقم 1925،المخلصیات رقم 2412، فضل الصلاۃ النبی ﷺ 25-26،الکامل الضعفاء ابن عدی ترجمہ عبداللہ بن خراش)
”میری زندگی میں تمہارے لئے خیر ہے کہ میں تم سے باتیں(دین کے احکام)بیان کرتا ہوں اور میری وفات میں بھی تمہارے لئے خیر ہے تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں پس اگر میں برے اعمال پاتا ہوں تو تمہارے لئے اللہ سے مغفرت کی دعا کرتا ہوں”
اس روایت میں یہ الفاظ اضافی ہیں جس کو فقط عبدالمجید بن عبدالعزیز نے نقل کیا ہے اور اسے قبل جو الفاظ حدیث میں نقل ہوئے ہیں وہ یہ ہیں ، «إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ يُبَلِّغُونِي عَنْ أُمَّتِي السَّلَامَ»” یقیناََ اللہ کے فرشتے زمین پر ہوتے ہیں اور میرے ہر امتی کا سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں،
یہ وہ الفاظ ہیں جو اس روایت سے قبل نقل ہوئے ہیں اور اس میں “حیاتی خیر لکم اخر تک” کے الفاظ کا جو اضافہ ہے وہ صرف عبدالمجید بن عبدالعزیز کی سند سے ہوا ہے اور اس کے بارے میں محدثین کی رائے درج ذیل ہے
اس روایت میں عبدالمجید ابن عبدالعزیز ضعیف ہے اس کو امام ذہبی نے الضعفاء المتروکین میں نقل کیا ہے (جلد ٢ ترجمہ ٣٦٠١)
ابن حبان فرماتے ہیں”
منکرالحدیث جدََا یقلب الاخبار و یروی المناکیر عن المشاھیر(میزان الاعتدال جلد ٢ترجمہ٥٦٠٦) ” منکرالحدیث ہے اس کی خبر میں ردوبدل ہوتا ہے اور وہ مشہور لوگوں کی جانب منسوب کرکے منکر روایات بیان کرتا تھا” امام بخاری نے بھی اسے اپنی الضعفاء المتروکین میں نقل کیا ہے (ترجمہ٢٢٢) اگرچہ اس کی بعض نے ثقہ بھی قرار دیا ہے مگر اس وقت یہ روای اپنے سے ثقہ راویوں کی روایت میں اضافی الفاظ بیان کر رہا ہے زیادۃ ثقات کے بارے میں یہ اصول ہے کہ جس روایت میں راوی اضافہ کر رہا ہے تو اضافہ کرنے والے کا حافظہ کم از کم اسی پائے کا ہونا چاہئے تو اس کا یہ اضافہ قبول ہوگا وگرنہ وہ اضافہ شاذ مردود کے تحت رد کردیا جاتا ہے چنانچہ ”ابن عبدالبر نقل کرتے ہیں ” انما تقبل اذاعان راویھا احفظ و اتقن ممن قصر او مثلہ فی الحفظ کانہ حدیث مستانف فان عانت من غیر حافظ ولا متقن فلا التفات الیھا،(النکت ٢/ ٦٩٠) ” یہ روایت اسی وقت مقبول ہوگی جب اس کا راوی حفظ و اتقان میں اس سے بڑھا ہوا ہو جس کی روایت میں اضافہ کیا ہے یا حفظ میں اس کے برابر ہو گویایہ نئی حدیث ہے اگر یہ اضافہ غیر حافظ و غیر متقن کی جانب سے ہو تو قابل التفات نہیں ہو گا’
تو یہ حدیث مسند البزار میں اس سند سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے جو زیادۃ ثقات کی بنا پر ضعیف ہے
دیگر اسناد میں ابوبکر مزنی اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منقول ہیں جو ہم ترتیب وار نقل کرتے ہیں۔
ابوبکر بن مزنی: ان سے تین طرق سے یہ روایت مسند الحارث اور فضل الصلاۃ النبی ﷺ میں منقول ہے جس میں درج ذیل راوۃ پر کلام ہے ۔
ابوبکر بن مزنی: یہ تابعی ہیں اور ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ان کی روایات مرسل ہوتی ہیں(جامع تحصیل احکام مراسیل ترجمہ 65، تھذیب التھذیب جلد 1 ترجمہ 889)
تو تابعی جب براہ راست نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرے وہ روایت مرسل ہوتی ہے اور مرسل ضعیف کی اقسام میں سے ایک ہے ۔
الْحَسَنُ بْنُ قُتَيْبَةَ: قلت بل هو هالك قال الدارقطني في رواية البرقاني متروك الحديث وقال أبو حاتم ضعيف وقال الأزدي واهي الحديث(لسان المیزان جلد 2 ترجمہ 1033) ابن جحر فرماتے ہیں ” وہ ھالک ہے دارقطنی متروک الحدیث ہے ابو حاتم ضعیف ہے الازدی واہی الحدیث ہے ۔
جسر بن فرقد: ابن معین لیس بشئی ،بخاری لیس بقوی ، النسائی ضعیف ،( الکامل الضعفاء ابن عدی ترجمہ 356)
باقی دو اسناد جو فضل الصلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں نقل ہیں وہ مرسل ہیں
انس بن مالک رضی اللہ عنہ: ان سے دو اسناد سے یہ روایت نقل ہوئی ہے جس میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ ” ہرجمعرات کو مجھ پر تمہارے اعمال پیش کیے جاتے ہیں ” اس کی سند میں دو راوی ضعیف ہیں
ابو سلیمہ الانصاری: یہ راوی المخصیات کی روایت میں موجود ہے اس کی بابت محدثین فرماتے ہیں
العقيلي منكر الحديث،قال ابن حبان منكر الحديث جدا، ابن طاهر كذاب، الحاكم أبو عبد الله يروي أحاديث موضوعة (تھذیب التھذیب جلد 2 ترجمہ 424)
عبداللہ بن خراش: اس راوی سے یہ روایت ابن عدی نے الکامل الضعفاء میں نقل کی ہے اور اس کی بابت محدثین فرماتے ہیں
أبو زرعة ليس بشيء ضعيف وقال أبو حاتم منكر الحديث ذاهب الحديث ضعيف الحديث وقال البخاري منكر الحديث (تھذیب التھذیب جلد 5 ترجمہ 341)
اور اخر میں اس روایت کے بابت محدث العصر کا فیصلہ بھی پڑھ لیں
محدث عصر علامہ ناصر الدین البانی نے بھی اس راوی کو ضعیف کہا ہے انہوں نے اپنی سلسلہ الضعیفہ میں اس روایت کے تمام طرق کو جمع کرنے کے بعد نقل کیا ہے ” وجملة القول ان الحدیث ضعیف بجمع طرقہ و خیرھا حدیث ابن عبداللہ المزنی وھو مرسل من اقسام الحدیث الضعیف عن المحدثٰین ثم ابن مسعود و ھو خطا و شرھا حدیث انس بطریقة”(سلسلہ الضعیفہ جلد٢رقم٩٧٥)”حصول بحث یہ ہے کہ اس روایت کے تمام طرق ضعیف ہے اور ان میں جو بہتر ہے وہ عبداللہ المزنی کی روایت ہے مگر وہ مرسل ہے جومحدثین کے نذدیک ضعیف کی اقسام میں سے ہے ابن مسعود کی روایت خطا ہے اور سب سے ضعیف سند انس کی روایت کی ہے۔
اس کی سند کے بعد اب یہ بات بھی نقل کرتے چلیں کہ یہ روایت حدیث صحیح کے بھی متضاد ہے
إذا أصيب أحدكم بمصيبة فليذكر مصيبته بي فإنها أعظم المصائب
سلسلہ الصحیحہ رقم1106)
جب تم میں سے کسی کو دکھ پہنچے (یعنی کوئی عزیر فوت ہو جائے) تو میرے دکھ(یعنی میری وفات ) کو یاد کرے یقینا (میری وفات مسلمان کے لئے) سب سے بڑا غم و دکھ ہے۔
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کے لئے سب سے بڑا دکھ اور غم یہی بتایا ہے جبکہ اس روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو خیر بتایا جارہا ہے تو یہ روایت متن کے اعتبار سے بھی اس صحیح حدیث کے خلاف ہے ۔
حرم علی الارض ان تاکل اجساد انبیاء فنبی اللہ حی یرزق””اللہ نے زمین پر حرام کیاکہ انبیاء کے اجسام اطہر کو کھائے اللہ کے نبی زندہ اور رزق پاتے ہیں”
اس روایت کی سند میں انقطاع موجود ہے عبادہ بن نسی کی روایات ابودرداء سے مرسل بیان ہوئی ہیںامام العلائی نے عبادہ بن نسی کی ابودردء سے اکثر روایات کو مرسل قرار دیا ہے (جامع التحصیل فی احکام مراسیل ص٢٠٦ ترجمہ ٣٣٤) اور زید بن ا یمن نے عبادہ بن نسی سے فقط یہی روایت بیان کی ہے چنانچہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں ”رجالہ ثقات لکن قال البخاری زید بن ایمن عن عبادة بن نسی مرسل( تھذیب التھذیب جلد ٣ ترجمہ٢١٩٠) اس بنا پر یہ روایت ضعیف ہے یہ روایت دیگر اسناد سے بھی مروی ہے مگر اس میں ان الفاظ کا اضافہ( فنبی اللہ حی یرزق)نہیں ہے یہ الفاظ اسی سند سے نقل ہوئے ہیں اور یہ سند ضعیف ہے وگرنہ باقی روایت صحیح سند سے ثابت ہے ایک اور روایت جس کو جلاء الافہام میں نقل کیا گیاہےاس روایت کو امام ابن قیم نے طبرانی الکبیر کے حوالے سے نقل کیا ہے اور یہی روایت جب امام سخاوی نے نقل کی ہے تو اس میں بلغنی صلاتہ کے الفاظ ہیں مگر مجھے یہ روایت طبرانی الکبیر میں نہ مل سکی پھر میں نے اس کو طبرانی الاوسط میں “بلغتنی صلاتہ ” کے الفاظ کے ساتھ ملی ہے تو اگر مان لیا جائے کہ یہ روایت “بلغنی صوتہ” کے الفاظ کے ساتھ ہےتو بھی یہ روایت ضعیف ہے چنانچہ اس روایت میں (مجھ تک اس کی آواز پہنچ جاتی ہے) کے الفاط آئے ہیں اس روایت میں سعید بن ابی مریم اورخالد بن یزیدکے درمیان انقطاع ہے سعید بن ابی مریم نے یہ حدیث خالد سے نہیں سنی ہے کیونکہ خالد بن یزید ١٣٩ ہجری میں فوت ہوئے ( تھذیب التھذیب جلد ٢ ترجمہ١٧٤٩) اور سعید بن ابی مریم کی پیدائش ١٤٤ ہجری میں ہوئی (تھذیب التھذیب جلد ٢ ترجمہ٢٣٦٠) تو جو ابھی پیدا نہیں ہوا وہ کس طرح اس سے روایت بیان کر سکتا ہے اس بنا پر یہ روایت ضعیف ہے مگر نبیۖ کو امت کادرود پہنچا دیا جاتا ہے جیسا دوسری روایت میں الفاظ آئے ہیں اور اس کی تائیدصحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کا درود پہنچا دیا جاتا ہے۔
والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم۔آخر(فتح الباری جلد ٧ رقم ٣٤٤٨، مسلم باب نزول عیسی رقم ٢٤٣،مسنداحمد رقم ٧٢٦٩ شرح مشکل الاثار رقم ١٠٣)اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری(یعنی نبیۖ)کی جان ہے عیسیٰ علیہ السلام تمہارے درمیان ضرور آئیں گے”
یہ روایت متعدد طرق و اسناد سے نقل ہوئی ہے مگر ہماری بحث کا محور وہ الفاظ ہیں جس کو مسند ابی یعلی رقم (6584) اور مستدرک حاکم رقم (4162)نے نقل کیا ہے ” ثم لئن قام علی قبری فقال یا محمد لاجبتہ” ان الفاظ کا اضافہ مسند ابی یعلی میں فقط حمید بن زیاد نے سعید بن ابی سعید کی سند سے کیا ہے اور اس کے علاوہ کسی سند سے یہ الفاظ نقل نہیں ہوئے ہیں اور حمید بن زیاد اس اضافہ الفاظ کے ساتھ متفرد ہے اور یہاں وہ اپنے سے ثقہ رایوں کی روایت میں اضافہ کر رہا ہے جس کو اور کسی نے بھی نقل نہیں کیا ہے اور حمید بن زیاد کے بارے میں محدثین فرماتے ہیں ” قال النسائی :ضعیف وابن عدی : وانما انکرت ھذین الحدثین وسائر حدیثہ ارجو ان یکون مستقیما و حافظ فی تقریب صدوق یھم( تھذیب التھذیب جلد ٢ ترجمہ١٦٠٤، الکامل فی ضعفاء جلد ٣ ص ٧١ ترجمہ٤٣٤، التقریب التھذیب جلد ١ ترجمہ ١٦٠٤)امام نسائی نے اسے ضعیف کہا ہے ابن عدی فرماتے ہیں کہ میں اس کی دو حدیثوں سے انکار کرتا ہے اور امید کرتا ہوں کہ اس کی (حدیث ) صحیح ہے۔ابن حجر نے فرمایا ہے کہ سچا ہے مگر اس کو وہم ہوتا ہے اس کے علاوہ اسے کو امام لعجلی نے ثقہ کہا ہے اس کی روایت قابل قبول ہوتی ہے مگر اس مقام پر ایک تو یہ ان الفاظ کے ساتھ متفرد ہے اور اس کو وہم بھی ہوتے ہیں جیسا حافظ نے بیان کیا ہے اور اس کے مقابلہ پر سعید بن ابی سعید کے دوسرے شاگرد اللیث بن سعد ہیں جنہوں نے یہی روایت سعید بن ابی سعید سے نقل کی ہے مگر ان کی بیان کردہ روایت میں یہ الفاظ نہیں ہیں حتی کہ کسی نے بھی ان الفاظ کا اضافہ نہیں کیا ہے اور اضافی الفاظ کے بارے میں محدثین کا یہ اصول ہے”ابن عبدالبر نقل کرتے ہیں ” انما تقبل اذاعان راویھا احفظ و اتقن ممن قصر او مثلہ فی الحفظ کانہ حدیث مستانف فان عانت من غیر حافظ ولا متقن فلا التفات الیھا،(النکت ٢/ ٦٩٠) ” یہ روایت اسی وقت مقبول ہوگی جب اس کا راوی حفظ و اتقان میں اس سے بڑھا ہوا ہو جس کی روایت میں اضافہ کیا ہے یا حفظ میں اس کے برابر ہو گویایہ نئی حدیث ہے اگر یہ اضافہ غیر حافظ و غیر متقن کی جانب سے ہو تو قابل التفات نہیں ہو گا”
اس اصول سے واضح ہے کہ حمید بن زیاد کا دیگر روایوں کے مقابلہ کا حفظ ہونا چائیے وگرنہ روایت قابل قبول نہ ہوگی اب ہم اللیث بن سعد کے بارے میں محدثین کی رائے بیان کیے دیتے ہیں ” قال حافظ فی تقریب ثقة فقیہ امام مشھور (تقریب جلد ٢ ترجمہ ٥٨٨٠)
قال الذہبی : الاعلام والائمة الاثبات ثقہ حجة بلا نزاع (میزان اعتدال جلد ٣ ترجمہ ٧٤٥٧)یہ وہ اقوال ہیں جو اللیث کے بارے میں محدثین نے نقل کیے ہیں اور اس کے مقابلہ پر حمید بن زیاد ہے جو متفرد ہے اور اضافی الفاظ بیان کر رہا ہے اور جس کے بارے میں اقوال ہم نے نقل کردیئے ہیں اوراصول کو مدنظر رکھتے ہوئے جو ہم بیان کر چکے اس کے مطابق حمید بن زیاد کو وہم ہوتا تھا اسی لئے اس کا حفظ اس پائے کا نہیں ہے جو اللیث بن سعد کا ہے اسی بناپر اس روایت کا اضافہ ناقابل قبول ہیں اور دوسری روایت جس کو حاکم نے روایت اس میں دو علتیں ہیں
محمد بن اسحاق : یہ روای مدلس ہے اور اس روایت میں اس نے تدلیس کی ہے اس کے بارے میں محدثین کے اقوال درج ذیل ہیں :
حافظ یبن حجر فرماتے ہیں صدوق یدلس( تقریب تھذیب ترجمہ5725)اور انہوں نے طبقات مدلسین کے چوتھے طبقے میان نقل کیا ہے (طبقات المدلسین ترجمہ 125 المرتبہ الربعۃ) اور امام العلائی نے بھی جامع التحصیل میں یہی نقل کیا ہے (ترجمہ 42)
عطاء مولی ام صبیۃ : یہ راوی مجہول ہے اس روایت میں اس کا نام “عطاء مولی ام حبیبہ” سے درج ہے جو غلط ہے اس کا اصل نام یہی ہے چنانچہ امام ذہبی اس کے بارے میں فرماتے ہیں ،
عطاء، مولى أم صبية الجهنية عن أبي هريرة في السواك لا يعرف تفرد عنه المقبري. عطاء مولی امی صیبہ جانا نہیں جاتا ہے (میزان الاعتدال ترجمہ 5663)
اسی طرح امام بخاری نے اس سے روایت نقل کر کے یہی نقل کیا ہے کہ اس سے صرف المقبری نے روایت نقل کی ہے اس بنا پر یہ راوی مجہول ہے اور میر ی بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ شیخ شعیب الانورط نے مسند احمد کی ایک روایت کی تحقیق میں یہی بات نقل کی ہے کہ یہ راوی مجہول ہے (مسند احمد رقم 967)
اس روایت کے یہ اضافی الفاظ دونوں اسناد سے ضعیف ہے ایک میں حمید بن زیاد کو وہم ہوا ہےا ور دوسری روایت میں دو راوی ضعیف ہیں چنانچہ اس روایت کے یہ اضافی الفاظ قابل اعتبار نہیں ہےباقی روایت بالکل صحیح ہے۔
(٥) سعید بن عبدالعزیز قال لما کان ایام الحرة لم یوذن فی مسجد النبی ۖ ثلاثا ولم سعید بن المسیب من المسجد وکان لا یعرف وقت الصلاة الابھمة بیسمھا من قبرالنبیۖ ”ایام حرہ میں تین دن تک مسجد نبویۖ میں اذان نہی دی گئی اور سعید بن مسیب نماز کا وقت نبیۖ کی قبر مبارک سے آنے والی ایک آواز سے پہچانتے تھے”
اس روایت کی سند میں سعید بن عبدالعزیز ہے جو (٩٠) ہجری میں پیدا ہوا ہے اوروہ (٦٣) ہجری کا واقعہ بیان کر رہا ہے اور اسی طرح عمربن محمد نے بھی یہی واقعہ بیان کیا ہے اور اس کی ابن عمر سے ملاقات نہیں ہے اور ابن عمر کی وفات ٧٤ ہجری میں ہوئی ہے (تھذیب التھذیب جلد٤ ترجمہ ٣٥٨٠) اور ان دونوں روایات میں یہ تصریح موجود نہیں ہے کہ انہوں نے کس سے سنا ہے اگر مان لیا جائے کہ انہوں نے سعید بن مسیب سے سنی ہے مگر یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ سعید بن مسیب سے ان کے سماع کی کوئی تصریح موجود نہیں ہے اور نہ سعید بن مسیب سے روایت کرنے والے تلامذہ میں ان کا نام موجود ہے مگر یہ دونوں یہ واقعہ خود بیان کر رہے ہیں اور یہ واقعہ ٦٣ ہجری کا ہے اور اس میں یہ بات موجود نہیں ہے کہ ان دونوں نے یہ واقعہ کس سے سنا ہے کیونکہ یہ دونوں ٦٣ہجری کے تقربیا ١٠ سے ١٥ سال بعد پیدا ہوئے ہیں یہ روایت اسی بنا پر ضعیف ہے کہ ایک شخص ابھی پیدا بھی نہیں ہوا ہے اور وہ اس دور کا واقعہ بیان کر رہا ہے اور جس روایت میں سعید بن مسیب سے سماع کی تصریح موجود ہے اس سندمیں عبدالحمید بن سلیمان ضعیف ہے اس کو ابن معین ،ابوداؤد، ابن ا لمدینی، حافظ ابن حجر نے ضعیف کہا ہے (تھذیب جلد ٥ص ٢٦ ترجمہ ٣٨٦٩) او ر ایک روایت محمد بن عمر الواقدی کی سند سے موجود ہے جو من گھڑت روایت بیان کرتا تھا(تھذیب التھذیب جلد٥ ص ١٣٥)ان روایات کی بنیادپر انبیاء سے مدد طلب کرنا ان کو ندا دینا جائز قرار دیا جاتا ہے مگر یہ تمام روایات ضعیف ہیں یہاں ایک بات عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بعض امام ابن تیمیہ کی کتاب القتضاء الی الصراط مستقیم کے حوالے سے یہ نقل کرتے ہیں کہ امام ابن تیمیہ نے سعید بن مسیب والے واقعہ کو صحیح کہا ہے مگر وہ اس بات کو مکمل بیان نہیںکرتے ہیں امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں اس بات کو نقل کرنے سے قبل دو واقعے نقل کیے جس میں نبیۖ کی قبر پر دعا مانگنے کا ذکر ہے اس کے بعدوہ فرماتے ہیں ”فھذہ الاثار اذا ضمت الی ما قدمنامن الاثار علم کیف حال السلف فی ھذہ الباب وان ماعلیہ کثیرمن الخلف فی ذلک ھومن المنکرات عندھم، ولا یدخل فی ھذا الباب ما یروی من ان قوما سمعوا رد السلام من قبر النبی ۖ او قبور غیرہ من الصالحین و ان سعید بن المسیب کان یسمع الاذان من القبری لیالی الحرة ونحو فھذا کلہ حق لیس مما نحن فیہ والامر اجل من ذلک و اعظم کذلک ایضا ما یروی ان رجلا جاء الی قبر النبی ۖ فشکا الیہ الجدب عام الرمادہ فراہ وھو یامرہ ان یاتی عمر فیامرہ ان یخرج فیستسقی الناس فان ھذا لیس من ھذا الباب ومثلا ھذا یقع کثیرا(القتضاء الی صراط المستقیم ص ١٦٨) ” یہ آثار(جو امام ابن تیمیہ نے بیان کیے) اور جو آثار ہم آگے بیان کریں گے ان کو سلف میں سے(بعض)نے آپس میںضم کردیا جس کی وجہ سے خلف سے کثرت سے منقول ان(آثار)کا انہوں نے انکار کیا یہ (آثار) اس باب میں داخل نہیں ہوتے ہیں (یعنی نبی ۖ کی قبر پر جاکر مانگنا اور نبیۖ کی قبر کو سجدہ کی جگہ بنانا) جیسا کہ نبی ۖ اور صالحین کی قبر سے سلام کا جواب سننا اور سعید بن مسیب کا نبی ۖ کی قبر سے اذان کی آواز سننا یہ تمام حق ہےمگر ہم نے اس کی مدت بڑی نہیں دیکھی ہے (یعنی یہ وقوع پزیر ہوئے اور ختم ہو گئے) اور اسی طرح سے جو روایت ہوا ہے کہ نبی ۖ کی قبر پر ایک شخص آیا اور شکایت کی قحط سالی کی ۔۔۔آخر ۔ اس باب میں اور اسی طرح کے کثیر واقعات ہیںپس یہ اس باب کے تحت نہیں آتے ہیں۔ امام ابن تیمیہ نے اس میں واضح کیا ہے کہ نبیۖ کی قبر انور پر جا کر مانگنا ان کی قبر کو سجدہ کی جگہ بنانا ان سب باتوں سے ان واقعات کا کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اسی کتاب میں انہوں نے اس بات کی نفی کی ہے کہ نبی ۖ کی قبر انور پر جاکر دعا کی درخواست کی جائے چنانچہ امام ابن تیمیہ رقمطرازہیں ” امرلم یشرعہ اللہ ولا رسولہۖ ولا فعلہ احد من الصحابة ولا تابعین ولا ا ئمة من المسلمین ولا احدمن العلماء و الصالحین المقدمین”(القتضاء الی صراط المستقیم ص١٣٥) ” اس کام کا حکم (یعنی قبر پر دعا مانگنا) نہ اللہ نے دیا اور نہ اسکے رسول ۖ نے اور نہ اس کو صحابہ کرام ،تابعین ائمہ مسلمین اورعلماء وصالحین مقدمین میں سے کسی ایک نے بھی کیا ہے ” چنانچہ یہ عمل سلف و خلف میں سے کسی سے ثابت نہیں ہے اور میری بات کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ امام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب الوسیلہ میں غیر اللہ کو ندا دینا ان سے مدد طلب کرنے کو حرام قرار دیا ہے اس لئے ان کے حوالے سے یہ کہنا کہ انہوں نے اس واقعہ کی تصدیق کی ہے اور اسی بنا پر انبیاء کو ندا دینا اور ان سے مدد طلب کرنا جائز ہے یہ بات کسی طرح بھی جائز نہیں ہے مگر ہم اس سے قبل ہی ان تمام روایات کی تحقیق آپ کے سامنے پیش کر چکے ہیں کہ یہ سب ضعیف ہیں اس لئے ان روایات سے استدلال جائز نہیں ہے اب ہم چند ایسی صحیح روایات آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں جن سے اس استدلال کے بارے میں دلائل دیئے جاتے ہیں مگر ہم اس سے ماقبل بھی عرض کرچکے ہیں کہ صحابہ کرام اور تابعین و سلف اورمحدثین نے ان روایات سے اس قسم کا کوئی استدلال نہیں کیا ہے اور اس قسم کی باتیں ان سے قطعی طور پرکسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے کیونکہ وہ نبی اکرم ۖ کے اقوال و افعال کو سب سے بہتر سمجھنے والے ہیں اور انہیں نے ان روایات سے جو اخذ کیا ہے یہ ہم ان روایات کی شرح میں بیان کریں گے جو ائمہ اور محدثین سے منقول ہے اب ہم وہ روایات آپ کے سامنے بیان کر رہے ہیں۔
روایتِ صحیحہ اور استدلال باطلہ
اس عنوان کے تحت ہم ان روایات کو بیان کریں گے جن میں” انبیاء علیہ السلام اپنی قبروں میں حیات ہیں یا قبر میں نبیۖ کی روح کا لوٹایا جانا ” یہ وہ روایات ہے جو صحابہ کرام اور تابعین سے ہوتی ہوئی ائمہ محدثین کے ذریعہ سے ہم تک پہنچی ہیں مگر انہوں نے ان روایات سے ایسا کوئی استدلال نہیں کیا ہے جو آج بعض مسلمان کر رہے ہیں کیونکہ وہ سب نبی ۖ کے فرمودات کو ہم سے زیادہ سمجھنے والے ہیں اور ائمہ اور محدثین نے جو اس کی شرح کی ہے انہوں نے بھی فہم صحابہ کرام اور تابعین کے کی ہے اس لئے کہ ان سب سے ایسی کوئی بات کسی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے تو پھر آج یہ فہم کہاں سے معرض وجود میں آگیا ہے یہ یقینا ان کے فہم کی غلطی ہے جو اسلاف کے فہم سے ہٹ کر کی گئی ہے اس سلسلہ کی پہلی روایت یہ بیان کی جاتی ہے
الانبیاء احیاء فی قبر وھم یصلون ” ”انبیاء اپنی قبروںحیات ہیں اور نماز پڑھتے ہیں ”(مسند ابی یعلی رقم
مسند البزار 6888،حیاۃ الانبیاءللبیہقی رقم 1) ,٣٤١٢
یہ روایت صحیح ہے مگر اس میں ہماری بحث کا محور وہ لفظ “احیاء” ہے جو صرف مسند ابی یعلی میں صحیح سند سے نقل ہوئے ہیں اس کے تمام رواۃ ثقہ ہیں صرف ابو جھم الارزق بن علی ہے جس کے بارے میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں صدوق یغرب سچا ہے مگر غریب روایات نقل کرتا ہے اور اس کی متابعت میں جو روایت ملتی ہے ہے جس کو ابو نعیم نے تاریخ اصبہان میں نقل کیا ہے اس میں احیاء کے الفاظ موجود نہیں ہیں اور اس کے علاوہ جن روایات میں احیاء کے الفاظ موجود ہیں وہ سب ضعیف سند سے نقل ہوئی ہیں اس لئے میرے نذدیک لفظ “احیاء” غریب ہے جو الارزق بن علی سے نقل ہوا ہے جو کہ تاریخ اصبہان میں موجود نہیں ہے اس کے الفاظ یہ ہیں “الانبیاء فی قبورھم یصلون ” میرے اس موقف کی تائید ذیل میں دی گئی حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کو سلام کے لئے لوٹائے جانے کا ذکر ہے (یہ روایت اس کے بعد نقل کی گئی ہے) چنانچہ یہ احیاء کا لفظ صحیح حدیث کے بھی متضاد ہے اور روایت کی تائید میں موجود حدیث بھی اس کی نفی کرتی ہے بعض یہ اعتراض بھی کر سکتے ہیں کہ نماز زندگی کے بغیر کیسے ممکن ہے تو عرض یہی ہے کہ جس طرح برزخی حیات کو دونیاوی حیات پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے بالکل اسی طرح اس نماز کو بھی عام نماز کی طرح نہ سمجھا جائے وہ کیا نماز ہے جو الانبیاء پڑہتے ہیں اس کا ادراک عقل نہیں کرسکتی ہے یہ تمام برزخی معاملات ہیں اس میں قیاس اور اندازے نہیں ہوتے صرف ایمان لانا ہوتا ہے واللہ اعلم
بعض اس روایت کو دونیاوی حیات پر قیاس کرنے کے باعث اس کو ضعیف ٹہراتے ہیں اور اس روایت کے ایک راوی حجاج کو غیر معروف مانتے ہیں جبکہ وہ حجاج بن الاسود ہےجیسا خود امام ذہبی نے میزان الاعتدال کے ترجمہ میں نقل کیا ہے ، بقول ان کے یہاں امام ذہبی کو غلطی ہوئی ہے اور وہ حجاج غیر معروف ہے ان کا یہ استدلال کئی وجوہ سے باطل ہے
(1) امام ذہبی نے حجاج کے ترجمہ میں فرمایا ہے کہ” رواہ بیہقی ” اور امام بیہقی نے اس میں دو روایات نقل کی ہے جس مین ایک حجاج کے نام سے ہے اور دوسری حجاج بن الاسود کے نام سے ہے مگر امام ذہبی نے ان دونوں روایات کو جاننے کے باوجود صرف ایک ہی حجاج نقل کیا ہے حجاج بن الاسود۔ اور جس کو حافظ ابن حجر نے بھی نقل کیا ہے ہے کہ یہ حجاج بن الاسود ہے جو ثقہ ہے (لسان المیزان)
(2) امام ذہبی جب حجاج سے واقف ہو گئے تو انہوں نے اس کا ذکر سیر اعلام النبلاء میں حجاج الاسود کے نام سے اس کے پورے تعارف کے ساتھ نقل کیا ہے اوریہ دونوں ایک ہی ہیں یعنی حجا ج الاسود اور حجاج بن الاسود چنانچہ ابن حبان فرماتے ہیں کہ حماد بن سلمہ حجاج بن الاسود کو حجاج الاسود کہتے تھے (ثقات ابن حبان 7370) اورابونعیم نے حلیۃ الاولیاء جلد 2 ص 298 میں روایت نقل کی ہےجس میں حماد بن سلمہ حجاج الاسود کو ججاج بن الاسود کہا ہے جس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی ہیں۔
(3) میری تیسری دلیل یہ ہے کہ امام حاکم نے ایک روایت نقل کی ہے جس میں انہوں نے حجاج بن الاسود سے روایت نقل کی ہے جس کو امام ذہبی نے صحیح کہا ہے(مستدرک حاکم رقم 7974) اگر کوئی کہتا ہے کہ یہ حجاج بن الاسود نہیں بلکہ حجاج الاسود ہے تو اس کا یہ خیال باطل ہے کیونکہ ہم اوپر نقل کر چکے کہ حماد بن سلمہ نے حجاج الاسود ہی کو ایک روایت میں حجاج بن الاسود کہا ہے اور جب ہو اسے پہچان گئے تو اس کی روایت کو مستدرک میں صحیح کہا ہے اور البانی صاحب نے بھی یہی نقل کیا ہے (دیکھئے سلسلہ الصحیحۃ رقم 621) تو جو یہ کہتے ہیں کہ کوئی حجاج غیر معروف ہے تو وہ اس کو جمہور محدثین کے اقوال سے ثابت کریں کیونکہ ان کے نذدیک جمہور کا قول رائج ہے۔
تو اس تمام بحث کا حصول یہی ہے کہ یہ روایت صحیح ہے صرف اس میں احیاء کے الفاظ غریب ہیں واللہ اعلم۔
ما من احد یسلم علی الا رد اللہ علی روحی حتی ارد علیہ السلام(ابوداؤد رقم 2041)،مسند احمد رقم 10815،بیہقی شعب الایمان رقم3864))
یہ روایات مسند ابی یعلی اور مسند احمد وابوداؤد میں موجود ہیں اور سلسلہ احادیث صحیحہ میں بھی البانی صاحب نے نقل کی ہے مگر ان روایات سے جو فہم اخذ کیا گیا ہے وہ کسی طور بھی فہم صحابہ کرام اور تابعین و ائمہ محدثین نہیں ہے یہ روایات بیان کرنے کے باوجود بھی صحابہ کرام نے نہ کبھی نبی ۖ کی قبر انور پر جا کر ان سے دعا کی درخواست کی اور نہ کبھی نبیۖ کو ان کے وصال کے بعد ندا دی ہے اور نہ مدد کے لئے پکار اہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں نہیں کیا اگر وہ ان احادیث سے وہی معنی اخذ کررہے ہوتے جو آج بعض مسلمان کررہے ہیں تو وہ بھی یہی کرتے جو آج یہ کررہے ہیں مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے ان روایات سے وہ معنی اخذ ہی نہیں کیے ہیں جو آج بعض مسلمان کر رہے ہیں اور اسی وجہ سے ائمہ ومحدثین نے بھی ان روایات کو برزخی معاملات کے تحت لیا ہے جن پر فقط ایمان رکھنا ضروی ہے اور اس کی حقیقت اللہ تعالی ہی جانتا ہے آئیے اب ہم ائمہ محدثین کے اقوال بیان کیے دیتے ہیں جس میں انہوں نے ان روایات کو برزخی معاملات کے تحت لیا ہے ۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں ” اختلف فی حال الانبیاء عند لقی النبی ۖ ایاھم لیلة الاسراء ھل اسری باجسادھم ملاقاة النبی ۖ تلک اللیلة او ان ارواحھم مستقرة فی الاماکن التی لقیھم النبی ۖ و ارواحھم مشکلة بشکل اجسادھم کما جز بہ ابو الوفاء بن عقیل ، واختار الاول بعض شیوخنا واحتج بما ثبت فی مسلم عن ”انس ان النبیۖ قال رایتُ موسیٰ لیلة اسری بی قائما یصلی فی قبرہ ” فدل علی انہ اسری بہ لما مہر بہ ۔قلتُ : ولیس ذلک بلازم بل یجوز ان یکون لروحة اتصال بجسدہ فی الارض فلذلک یتمکن من الصلاة و روحہ فی مستقرہ فی السمائ( بخاری فتح باری جلد ٨ کتاب مناقب الانصار باب معراج تحت رقم ٣٨٨٨)” اس بات میں اختلاف ہے کہ نبیۖ نے کس حال میں اسری کی رات انبیاء سے ملاقات کی تھی کیا وہ اپنے اجساد مبارکہ کے ساتھ نبیۖ سے ملے تھے یا ان کی ارواح نے ان کے اجساد مبارکہ کی شکل اختیار کی تھی جیسا کہ ابو وفاء بن عقیل نے بیان کیا ہے مگر پہلی بات کو ہمارے بعض شیوخ نے اختیار کیا ہے اور اس کی دلیل ہے ”انس سے روایت ہے نبی ۖ فرماتے ہیں کہ میں نے موسیٰ کو ان کی قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ” میں کہتا ہیں : اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے بلکہ روح کا اتصال جسد کے ساتھ فقط نماز کے لئے ہو ا ہو کیونکہ(نیک) ارواح کا ٹھکانہ آسمان ہے ”
حافظ ابن حجر کی وضاحت سے پوری طرح ثابت ہوتا ہے کہ نیک ارواح علین میں ہوتی ہے اور یہ بات سلف و خلف سے منقول ہے جیسا کہ ابن قیم الجوزی نے نقل کیا ہے ” واما قول من ان ارواح فی علین فی السماء السبعة و ارواح الکفارفی الارض اسابعة فھذا قول قد قالہ جماعة من السلف و الخلف و یدل علی قول النبیۖ ” اللہم الرفیق الاعلی”(الروح ص ٢٧٩) ” یہ قول کہ (نیک) ارواح اعلی علین میں ساتویں آسمان پر ہوتی ہیں اور کفار کی ارواح ساتویں زمین میں ہوتی ہیں اور یہ سلف اور خلف جماعت کا قول ہے اور اس کی دلیل یہ ہے (اے اللہ مجھے میرے اعلی رفیقوں سے ملا دے)”اور امام ابن حزم نے بھی یہی بات بیان کی ہے ” انبیاء اور شہداء کی ارواح کا معاملہ مختلف ہے ان کو رزق دیا جاتا ہے اور وہ ہر طرح سے عیش و راحت میں ہیں ( المحلی ابن حزم مسائل توحید ص ٥٣) اور اس کے بعد معراج والی روایت نقل کر کے فرماتے ہیں کہ ” اس حدیث سے اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کی ارواح جنت میں تھیں۔
نبیۖ کے فرمان اور صحابہ کرام اور ائمہ سلف و خلف کے اقوال سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ انبیاء کی ارواح جنت میں میں اپنے رب کی رحمتوں میں ہیں اور اس کے دلائل ہم نے احادیث اور صحابہ کرام اور ائمہ و محدثین سے نقل کیے ہیں اب وہ امور جن میں نبی ۖ کی روح مبارک کا لوٹایا جانا اور انبیاء کا قبروں میں حیات ہونا اور نماز پڑھنا یہ سب امور برزخی ہیں جن کو ائمہ محدثین نے بیان کیا ہے اب ہم آپ کے سامنے ائمہ اور محدثین کی تصریحات بیان کیے دیتے ہیں
” قلت و اذاثبت انہم احیاء من حیث النقل فانہ یقویہ من حیث النظر کون الشھداء احیاء بنص القرآن والانبیاء افضلا من الشھداء ( (فتح الباری کتاب الاحادیث الانبیاء تحت رقم ٣٤٤٧ ص٤٠٦)میں کہتا ہوں کہ بے شک جو نقل ہوا ہے وہ یقیناََ قوی نظر ہے کہ شہداء کی حیات نص قرآنی سے ثابت ہے کہ انبیاء شہداء سے بھی افضل ہیں” اس کے بعد انہوں نے”رد اللہ علی روحی” والی روایت کو نقل کیا اور اس کے بعد فرماتے ہیں” وراوتہ ثقات ووجہ الاشکال فیہ ان ظاھرہ ان عودالروح الی الجسد یقتضی انفصالھا عنہ وھو الموت وقد اجاب العلماء عن ذلک باجوبة”(حوالہ ایضاََ) ” اس کے رواة ثقہ ہیں اور اس کے اشکال کی جو وجہ ہے یہ کہ ظاہر طور پر یہ (کہاگیا ہے ) اس میں روح کو لوٹایا جائے گاجو یہ تقاضہ کرتا ہیں کہ یہ انفصا ل وصال کا ہے اور یقیناََ علماء نے اس کے جواب دیئے ہیں” اس کے بعد پانچ جواب نقل کیے ہیں جو اس کے بارے میں دیئے گئے ہیں اور آخر میں وہ فرماتے ہیں کہ ” اجیب بان الامور الاخرة لا تدرک بالعقل و احوال البرزخ اشبہ باحوال الاخرة”میں مانتا ہوں کہ آخرت کے احوال کا ادراک عقل سے نہیں ہوسکتا ہے اوربرز خ کے احوال آخرت کے مشابہ ہیں”
اور اسی طرح امام سخاوی نے بھی بیان کیا ہے وہ فرماتے ہیں
”واجیب بان امور الاخرة لا تدرک بالعقل ، واحوال البرزخ اشبہ باحوال الاخرة (القول البدیع ص ١٧٤) میں مانتا ہوں کہ آخرت کے احوال کا ادراک عقل سے نہیں ہوسکتا ہے اوربرز خ کے احوال آخرت کے مشابہ ہیں”اور اسی طرح امام عبدالھادی نے صارم المنکی میں نقل کیا ہے ”رد الروح علی المیت فی البرزخ و ردالسلام علی من یسلم علیہ لا یستلزم الحیاة التی یظنہا بعض الغالطین ، و ان کانت نو ع حیاة برزخیہ و قول من زعم انہا نظیر الحیاة المھودة مخالف للمنقول والمعقول ،یلزم منہ مفارقة الروح لرفیق الاعلی وحصولھا تحت التراب قرنا بعد قرن والبدن حی مدرک سمیع بصیر تحت اطباق الترب و الحجارة و لوازم ھذا الباطلة مما لا یخفی علی العقلاء ۔(الصارم المنکی ص ٢١٦باب معنی قولہ رداللہ علی روحی)” میت پر روح کا لوٹانا ہے برزخ میں ہے اور وہ سلام لوٹاتی ہے جب کوئی سلام کرتا ہے اس سے یہ لازم نہیں یہ حیاة (دنیاوی)ہے جیسا بعض مغالطہ پیدا کرنے والوں نے گمان کیا ہے ، اوریہ حیات برزخی ہے اور جو قول نقل کیا ہے وہ غلطی پر مبنی ہے اس کو جس حیات کی جانب لوٹایا گیا ہے وہ منقول کے قول کے مخالف ہے ، روح کا جسم سے علیحدہ ہو کر رفیق الاعلی کی طرف جانا لازم ہے اور جسم کا زمانہ در زمانہ قبر میں رہنا اور جسم (روح کے بغیر) مٹی، پتھر کے نیچے اندھیرے میں دیکھے اور سنے بھی اورزندہ بھی ہو اس قول کا باطل ہونا لازم ہے جو اہل عقل سے مخفی نہیں ہے ۔امام عبدالھادی بھی روح کے لوٹائے جانے کوبرزخی ہی مانتے ہیںاور اس کے بعد امام بیہقی کے رد میں فرماتے ہیں ”بھذا یعلم بطلان تاویل قولہ الارد اللہ علی روحی بان معناہ الاوقد رداللہ علی روحی وان ذلک الرد مستمر احیاہ اللہ قبل یوم النشور و اقرہ تحت التراب و اللبن فیا لیت شعری ھل فارقت روحہ الکریمةالرفیق الاعلی و اتخذت ببیت تحت الارض مع البدن ام فی الحال الواحد ھی فی المکانین؟ وھذا التاویل المنقول عن البیہقی فی ھذا الحدیث قد تلقاہ عنہ جماعة من المتاخرین والتزموا الاجل اعتقادم لہ اموراََ ظاہرہ البطلان واللہ الموفق للصواب(ایضاََ) ” اور اس باطل تاویل کی دلیل اس قول سے دی جاتی ” رداللہ علی روحی” اور اس کا معنی کیا جاتا ہے کہ اللہ نے میری روح کو میرے جسم اطہر میں لوٹا دیا ہے (جسم) کو اللہ قیامت سے قبل یقینا زندہ کرے گا اور مٹی، اینٹوںکے نیچے اس کا ٹھکانہ بنادیا ہے اور نبی ۖ کی روح مبارک رفیق الاعلی میں بھی ہو اوروہ قبر میں بھی اپنے جسم اطہر کے ساتھ رہیںکیا نبی ۖ کی روح مبارک دو مقام پر ایک حال میںہے یہ تاویل امام بیہقی سے منقول ہے(کہ نبیۖ کی روح جسم اطہر میں لوٹادی گئی ہے) اور اس کو بعض متاخرین نے بھی لیا ہے اور اس کا باطلان کرنا لازم تھا ” اس کے علاوہ بعض حضرات امام شوکانی کے حوالے سے یہ نقل کرتے ہیں کہ وہ نبیۖ کی قبر میں دونیاوی حیات کے قائل تھے یہ بات صریح غلط ہے امام شوکانی نے چند لوگوں کے استدلا ل پیش کیے ہیں جس کو ان کی جانب منسوب کیا جاتا ہے کہ وہ اس بات پر قائل ہے چنانچہ رقمطراز ہیں ”ان نبینا حی بعد وفاتہ انتھی ۔ویوید ذلک ما ثبت ان الشھداء احیا یرزقون قبورھم والنبی منھم واذا ثبت انہ حی فی قبرہ کان المجیء الیہ بعد الموت کالمجیء الیہ قبلہ ولکنہ قد ورد ان الانبیاء لا یتروکون قبورھم فوق ثلاث و روی فوق اربعین فان صح ذلک قدح فی الاستدلال بالآیة : یعارض القول بدوام حیاتھم فی قبورھم ماسیاتی من انہ تردالیہ روحہ عند التسلم علیہ نعم حدیث ” من زارنی موتی فکانما زارنی فی حیاتی ” الذی سیاتی ان شاء اللہ تعالی ان صح فھو الحجة فی المقام،(کتاب المناسک باب تحلل المحصر عن العمرة جلد ٥ ص١٢٦)”بے شک ہمارے نبیۖ وفات کے بعد بھی حیات ہیں اور یہ اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ شہداء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور رزق پاتے ہیں اور اسی طرح انبیاء بھی رزق پاتے ہیں اور ثابت ہے کہ نبیۖ اپنی قبر مبارک میں اسی طرح حیات ہیں جیسا اپنی دونیاوی حیات میںتھے لیکن وارد ہوا ہے کہ الانبیاء اپنی قبروں کو تین دن سے زیادہ یا (بعض میںچالیس دن آیا ہے)نہیں چھوڑتے ہیں اگر یہ صحیح ہے تو پھر اس آیت(لوظلم انفسھم ) سے استدلال قادح ہے کیونکہ اس حدیث سے ہمیشگی کی زندگی پر تعرض واقع ہوتا ہے جو ہم بیان کررہے ہیں کہ ” میری روح کو لوٹایا جاتا ہے” ہاںیہ حدیث ” جس نے میری زیارت میری وفات کے بعد کی وہ ایسا ہی ہے جس نے میری زندگی میں میری زیارت کی”اگر یہ صحیح ہے تو یہ اس مقام کے لئے حجت ہے ”مگر امام شوکانی نے یہ اور اس قسم کی تمام روایات جو زیارت روضہ رسولۖ کے وجوب پر دلیل ہے ان سب کو ضعیف قرار دیا ہے اور آخر میں فرماتے ہیں کہ یہ ایک مستحب عمل ہے اور اس سے کسی کو انکار نہیں ہے۔اس تفصیل سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ امام شوکانی اس بات کے قائل نہیں تھے کہ انبیاء اپنی قبروں میں دونیاوی حیات گزار رہے ہیں
یہ وہ تمام اقوال ہے جو ائمہ اور محدثین سے منقول ہیں جو انہوں نے ان روایات کی شرح میں بیان کیے ہیں یہ تمام اروا ح کا اعلی علین میں ہوناسلف و خلف سے مانتے ہیں اور دیگر روایات کو انھوں نے برزخی معاملات کے تحت لیا ہے جس کی حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور امام عبدالھادی نے اس تاویل کا بھی رد بیان کیا ہے جو بعض متاخرین مثلا امام سبکی اور ان کے بعد امام جلال الدین سیوطی وغیر ہ نے کی ہے اور اس کا یہ جواب دیا ہے کہ نبی ۖ روح مبارک رفیق الاعلی اور اپنی قبر مبارک میں بیک وقت کس طرح موجود ہو سکتی ہے اس لئے ان تمام ائمہ نے ان روایات کو برزخی معاملات کے تحت لیا ہے ۔ اور ائمہ سلف میں سے کسی نے بھی یہ تاویل بیان نہیں کی ہے کہ میری روح کو مجھ پر لوٹادیا گیا ہے جیسا بعض متاخرین نے بیان کیا ہے بلکہ ائمہ مقدمین اور صحابہ کرام اور تابعین وصالحین سے اس طرح کی کوئی بات ثابت نہیں ہے بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اس روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبیۖ پر جہاںسے بھی سلام بھیجا جائے گا تونبیۖ کی روح مبارک کو لوٹایا دیا گیاہے مگر یہ بات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ائمہ مقدمین سے ثابت نہیں ہے ائمہ مقدمین نے اس روایت کو نبی ۖ کی قبر انور کے قریب سلام پڑھنے کی دلیل بنایا ہے چنانچہ امام ابن تیمیہ بھی روح لوٹانے والی حدیث کو نبی ۖ کے روضہ مبارک پر جاکر سلام پڑھنے کی دلیل مانتے ہیں چنانچہ فرماتے ہیں” ائمہ دین نبی ۖ کی قبر اطہر کے قریب آپۖ پر سلام بھیجنے کے بارے میں صرف اسی(یعنی اللہ میری روح لوٹا دیتا ہے) پر اعتماد کرتے ہیں(الوسیلہ ص ١٦٦) اور امام ابن تیمیہ کی بات کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ ” ابن عمر رضی اللہ عنہ جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر حاضر ہوتے تو ان کو سلم کر تے اور ابو بکر اور عمر کو بھی اور پھر ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہی روایت نقل کرتے تھے ” مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اللهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ”
تو یہ بات ثابت ہے کہ ائمہ مقدمین اس روایت کو نبی ۖ کی قبراطہرکے قریب کھڑے ہو کر سلام پڑھنے کی دلیل مانتے ہیں اور یہ روح کا لوٹانا برزخی معاملات سے تعلق رکھتا ہے جس پر فقط ایمان رکھنا چاہئے اور ائمہ و محدثین نے اسی طرح بیان کیا ہے کہ یہ سب برزخی معاملات ہیں اور انبیاء اپنی قبر میں برزخی زندگی میں حیات ہے اور اس حیات پر فقط ایمان لانا ضروری ہے اس کی حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور اس برزخی حیات سے صحابہ کرام سے اور تابعین و سلف سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انہوں نے انبیاء کو ندا دینا اور ان سے مدد طلب کرنے کو جائز قرار دیا ہے ہے چنانچہ امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ ”صحابہ کرام اور سلف صحالحین میں سے کسی نے بھی اپنی ذات کے لئے دعا کرتے وقت نبی ۖ کی قبر انور کی طرف رخ نہیں کیا چہ جائیکہ وہ نبی ۖ کی قبر اطہر کی طرف رخ کرکے آپۖ سے سفارش وشفاعت کی درخواست کرتے اور کہتے اے اللہ کے رسول میرے لیے شفاعت کریں میرے لئے دعا کریں ان میں سے کسی نے دین و دنیا کےمصائب کے بارے میںآپ ۖ سے فریاد نہیں کی نہ نبیۖ نہ کسی نبی اور بزرگ کی وفات کے بعد نہ ملائکہ سے سفارش کی درخواست کی ہے نہ ان سے مصائب وآلام کے خلاف فریاد کی ہے سابقون الاولون مہاجرین و انصار اور تابعین و صالحین میں سے کسی نے یہ کام نہیں کیا ہے نہ کسی امام نے اس کا حکم دیا ہے (الوسیلہ ص ١٦٦) اور آخر میں میں احناف کے حوالے سے نقل کرنا چاہتا ہوں تاکہ یہ اندازہ ہو جائے کہ اکابر احناف کا اس بارے میں کیا عقیدہ ہے چنانچہ شرح عقیدہ الطحاویہ میں نقل کیا ہے ”الارواح فی البرزخ ان الارواح فی البرزخ متفاوتہ اعظم تفاوت فمنھا: ارواح فی علی علین فی الملاء الاعلی وھی الاروح الانبیاء وھم متفاوتوں فی منازلھم ،ومنھاارواح فی حواصل طیر خضر وھی ارواح بعض الشھداء لاکلھم (شرح العقیدہ الطحاویہ باب بعذاب القبر و سوال منکر نکیر ص ٤٥٦-٤٥٤)”ارواح برزخ میں ہیں جہاں ان کے دو بڑی تقسیم ہے جو اعلی علین میں ہیں ان میں ایک الملاء اعلی میں انبیاء کی ارواح ہیں اور دوسرے جو ارواح سبز پرندوں کے سینوں میں ہیں وہ شہداء کی ارواح ہیں” اس کے بعد آخر میں وہی روایت نقل کی ہے ”
حرم علی الارض ان تاکل اجساد انبیائ” مگر اس کے بعد انبیاء کی قبر میں حیات کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اکابراحناف بھی انبیاء کی اراوح کے جنت کے اعلی مقام میں ہونے کہ قائل ہیں نہ کہ انبیاء اپنی قبروں میں حیات دونیاوی کے ساتھ ہیںاور اکابر احناف نے بھی انبیاء سے مدد طلب کرنے یا ان کو ندا دینے کے قائل نہیں ہیںحتیٰ کہ امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف تو اس بات کے بھی قائل نہیں تھے کہ اللہ کو مخلوق کے وسیلہ سے پکارا جائے چنانچہ پاکستان کی اکثریت حنفی مسلک سے تعلق رکھتی ہیں اسی وجہ سے میں ان کے یہ ا قوال نقل کررہا ہوں امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں لا ینبغی ِلاَحدِِ اَنْ یدعوا اللہ الا بہ(شرح الکرخی باب الکراہت) ” کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ کی ذات کے سوا کسی کا واسطہ دے کر اللہ کو پکارے” امام ابو حنیفہ کا یہ قول متعدد ائمہ نے نقل کیا ہے جس فقہ کے بانی کسی وسیلہ سے اللہ کو پکارنا جائز نہیں سمجھتے وہ کس طرح اللہ کے علاوہ کسی کو ندا دینا یا مدد طلب کرنا جائز قرار دے سکتے ہیں اور ان کے ماننے والے آج ان ہی کی تعلیمات سے اس قدر ناآشنا ہیں کہ
وہ انبیاء کو ندادینا جائز سمجھتے ہیں جبکہ ان کے مسلک کے امام کا عقیدہ ہی کچھ اور ہے۔
اس تمام بحث کاحصول فقط یہی ہے ہر انسان کے لئے ایک حیات برزخی ہے اور مومن بھی اپنی حیات برزخی گزار رہے ہیں اور انبیاء مومنوں سے بھی اعلی ہیں اور نبی ۖ امام الانبیاء ہیں تو تمام انبیاء کی حیات برزخی ہے جس کو دنیاوی حیات پر قیاس کرنا صحابہ کرام ،تابعین سلف وصالحین ائمہ ومحدثین سے ثابت نہیں ہے اور اس کی بنا پر انبیاء کو ندا دینا ان سے مدد طلب کرنا قطعی طور پر صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے اور خصوصا ان روایات سے اس قسم کا کوئی عمل صحابہ کرام نے اخذ نہیں کیا ہے اور ہمارے لئے صحابہ کرام کے ایمان کی مثال دی گئی ہے کہ اگر ایمان لاناہے تو ان کی طرح لاؤ تو ہمارے لئے نبی ۖ کی تعلیمات کو سمجھنے کے لئے صحابہ کرام سے بہتر اس روئے زمین پر اور کوئی نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ انہوں نے براہ راست نبی ۖ سے تعلیم حاصل کی ہے اور ان سے بہتر نبی ۖ کے ارشادات کو اور کون سمجھ سکتا ہے اللہ ہمیں نبی ۖ کی تعلیمات کو فہم صحابہ کرام کے طریقہ پر سمجھنے کی توفیق دے جو سب سے بہتر طریقہ ہے (آمین) جزاکم اللہ و احسن جزا وماعلینا الابلاغ    (http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=24930)
 

 

Search Results

تمام انبیاء وشہداء اپنی قبروں میں زندہ ہیں، لیکن ان کی یہ زندگی …

غالباً اس موضوع ہی کی بنیاد پر دیوبندی حضرات بھی دو گروہوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ انبیاء و شہداء کی برزخی زندگی پر ایک اشکال یہ پیش کیا جاتا ہے۔

قبر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کا مسئلہ – Islamic …

 بے شک آپ کی عمر باقی ہے جسے آپ نے (ابھی تک) پورا نہیں کیا۔ جب آپ یہ … پس وہ (انبیاء علیہم السلام) اپنے رب کے پاس، شہداء کی طرح زندہ ہیں۔

Religion Articles : Hamariweb.com – انبیاء کی حیات برزخی یا دونیاوی

 اس ضمن میںقرآن کی جس آیت سے استدلال کیا جاتا ہے … شہید ہو جائیں انہیں مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں مگر تم اس کا شعور نہیں رکھتے ” اس آیت سے یہ استدلال کیا جاتا ہے انبیاء علیہ السلام جو شہداء سے بھی افضل ہیں اس لئے وہ بھی حیات …

کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں؟ – محدث فتویٰ

 جی ہاں انبیاء علیہم السلام کی حیات پر صحیح احادیث دلالت کرتی ہیں ، جیسا کہ شہداء کی حیات پر قرآن کریم نے صراحت کی ہے لیکن یہ برزخی …

حیات النبی فی القبر کا مسئلہ – Islamic Belief

 بعض علماء اشکال پیش کرتے ہیں کہ انبیاء و شہداء جنت میں کیسے ہو سکتے ہیں …. اخذ کیا گیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم دائمی زندہ ہیں.

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیت المقدس میں انبیائے کرام کی روحوں …

 کی امامت بھی کروائی تو کیا انبیائے کرام کو ان کی قبروں سے زندہ کر … 1- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ …

عقیدہ حیات النبی ﷺ – Darul Ifta, Darul Uloom Deoband India

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس بارے میں کہ ہمارے علاقے میں عقیدہ حیات … کے اجسام کو کھانا حرام کردیا؛ اس لیے کہ انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔ … وسلم اور تمام انبیاء علیہم الصلوة والسلام اور شہداء کے ساتھ، برزخی نہیں ہے جو …

اختیارات مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم | اردو محفل فورم – UrduWeb

معلوم ہوا کہ والله يعطی اللہ تعالیٰ دیتا ہے کیا کیا دیتا ہے بیان نہیں کیا، چونکہ ہر چیز کا مالک …. قرآن تو یہ کہ رہا ہے کہ ان لوگوں (شہداء) کو مردہ کہنا تو درکنار انہیں مردہ سمجھنا بھی مت۔ … اور ان آیات سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کرام زندہ ہیں؟

Sunni Aqaid: انبیاء کرام علیہم السّلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور عبادت …

 اور اللہ نے شہداء کے متعلق قران میں واضح کر دیا ہے کہ وہ زندہ ہیں اور اپنا … نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، چنانچہ اب آپ میرے لیے استغفار فرمائیے۔

عقیدہ حیات النبی صلی اﷲ علیہ وسلم | Facebook

کیا فرماتیں ہیں جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی قبر میں حیات کے متعلق کہ … مشائخ کے نزديک حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی قبر میں مبارک میں زندہ ہیں آپ کی … حیات مخصوص ہے آنحضرت اور تمام انبیا ءعلیہم السلام اور شہدا کے ساتھ برزخی …

~~~~~~~~~~~~~~~~

رد فتنہ و تحریف :

باطل نظریہ ، شہداء کی میت کی نمائش سے تبلیغ

قرآن و سنتت کے دلائل سے مسترد

کچھ لوگ دعوی کرتے ہیں ، کہ وہ تمام دنیا کے 7 ارب لوگوں کو نیچر(Nature) (ہوا ، آگ ، پانی ، مٹی) کی بنیاد پر ایک خدا کے وجود پر قائل کرسکتے ہیں- یہ لوگ اسلام کا نام بھی استعمال کرتے ہیں- سادہ عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لیے علاج کا عیسائی مشنری طریقه استعمال کرتے ہوے دعوی کرتے ہیں کہ ان کے پاس بزرگان کے مزاراروں کا پتہ معلوم ہے جہاں روحانی طور پر دنیا کی ہر بیماری حتیٰ کہ کینسر، ایڈزوغیرہ کا علاج ہوتا ہے- اسلامی روایات میں انبیاء اور شہیدوں، (اسلامی بزرگ ہستیوں کے جسم قبروں میں محفوظ ہونے کا تذکرہ ملتا ہے (قرآن میں نہیں)-
اسلام کا دعوی کرتے ہوے ، نیچرمذھب (Nature) (ہوا ، آگ ، پانی ، مٹی) کے پیروکاروں کا نظریہ ہے کہ:
ان مقدس اسلامی ہستیوں کی میتوں کو تروتازہ حالت میں قبروں سے نکال کر،کافروں کے سامنے دلیل (معجزہ) حجت  کے طور پر پیش کرکہ اسلام کی حقانیت کا ثبوت دیں- اس طرح وہ لوگ مسلمان ہو جائیں گے”-
سب سے پہلے یہ واضح رہے کہ قرآن کو فرقان کھا گیا ہے، جو حق اور باطل کا پہچان کی کسوٹی ہے- اسلام کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے، ان کے علاوہ ہر راستہ گمراہی اور ضلالت ہے-
مِن قَبْلُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَأَنزَلَ الْفُرْقَانَ ۗ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّـهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ ﴿3:4 قرآن﴾
” اور اس نے وہ کسوٹی اتاری ہے (فرقان، جو حق اور باطل کا فرق د کھانے والی ہے) اب جو لوگ اللہ کے فرامین کو قبول کرنے سے انکار کریں، ان کو یقیناً سخت سزا ملے گی اللہ بے پناہ طاقت کا مالک ہے اور برائی کا بدلہ دینے والا ہے (3:4 قرآن اور2:85,8:29,25:1 )
قرآن کی ان آیات کا اپنی مرضی کا مطلب  نکال کر  دلیل دیتے ہیں جو تحریف کے زمرے میں آتی ہے:
1.سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ( قرآن 41:53)
عنقریب ہم اِن کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ اِن پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تیرا رب ہر چیز کا شاہد ہے؟ ( قرآن 41:53)
اس آیات مبارکہ میں مستقبل میں نشانیوں کا ذکر ہے- قرآن میں ایک  ہزار سے زائد ایسی آیات موجود ہیں جو سائنس کے مختلف موضوعات،مثلا فلکیات، طبیعیات، جغرافیہ، ارضیات، حیاتیات، نباتیات، حیوانیات، طب، فزیالوجی،رویان شناسی، سمندری علوم اور جنرل سائنس وغیرہ سے متعلق ہیں- چودہ سوسال قبل جب وحی کا نزول ہورہا تھا انسانوں کا علم ان موضوعات پرعنقا یا بہت محدود تھا-  جس طرح وقت کے ساتھ ساتھ انسانی علم اور سائینس ترقی کر رہی ہے، ان آیات میں بیان کردہ حقائق حیرت انگیز طور پر جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتے نظر آتے ہیں- اس موضوع پر ڈاکٹرذاکر نائیک، ہارون یحییٰ اوربے شمار سکالرز  نے بہت تحقیق کی ہے جو انٹرنیٹ پر موجود ہے-
غزوہ بدر میں ٧٠ مسلمان شہید ہوے، بدر میں آج بھی ان کی قبریں موجود ہیں-جنت البقیع اور مکہ کے قبرستانوں میں ہزاروں صحابہ اکرام اور اہل بیت مدفون ہیں-  رسول الله صلی الله وسلم نے یا صحابہ اکرام یا بعد میں ائمہ کرام سے کسی نے بھی ان شہداء کی قبر کشائی کرکہ میتوں کو اسلام کی سچائی کے طور پر پیش نہیں کیا- کیا ان کو علم نہیں تھا؟  
اسلامی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جو اہل ایمان کے ایمان کو تازہ کرتے ہیں- ان میں صالحین ،شہداء اور بزرگان دین کی میتیں جب قدرتی حادثاتی طور پر، ، بارش ، طوفان، سیلاب سے آشکار ہوتی ہیں تو ان کے جسم تازہ نظر آتے ہیں فوری طور پر احترام سے ان کی تدفین کر دی جاتی ہے نہ کہ کافروں کے سامنے بطور حجت نمائش کے لیے پیش کیا-
جید علماء اور مفسرین کی تفاسیر میں شہداء یا بزرگان دین کی لاشوں کو کفارکو بطور دلیل پیش کرنے کا کوئی ذکر نہیں ملتا- لہٰذا اس آیت مبارکہ کی ایسی تفسیرتحریف قرآن نہیں تو کیا ہے؟

 

2.وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ ﴿١٥٤﴾
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں، مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا (سوره البقرہ 2:154)
اس آیات مبارکہ میں الله تعالی شہدا کی فضیلت بیان کرتے ہوے دو نقاط بیان فرماتے ہیں:
(١) وہ زندہ ہیں
(٢) انسانوں کو  ان کی زندگی کا شعور نہیں (لَّا تَشْعُرُونَ)-
قرآن کی اس آیت کےپہلے  (١) جزو کے ساتھ  (٢) بھی اہم ہے- قرآن کی ہر آیات، ہر لفظ الله کا کلام  ہے،ایک ایک لفظ قابل احترام ہے، اپنے مخصوص ایجینڈا یا نظریات کے ابلاغ کے لیے الله کےفرمان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا اور ایک حصہ کو ماننا اور دوسرے حصہ “شعور نہیں” (لَّا تَشْعُرُونَ)  کو دجال اور شیطان سے منسوب کرنا، ignore کرنا ، تحریف و توہین قرآن اورتوہین الله ہے- جب الله فرما رہا ہے کہ شہداء کی زندگی کا تم کو  “شعور نہیں” (لَّا تَشْعُرُونَ) تو اگر کوئی یہ کہے کہ اس کو  “شعور” ہے تو وہ قرآن کی آیت کا منکر ہو گیا- جو ایک آیت کا منکر وہ قرآن کا منکر(واللہ اعلم)- شہداء کی زندگی و حیات کا معاملہ عالم غیب سے تعلق رکھتا ہے، جس کو مزید سورة آل عمران  کی آیات171 , 170, 169 میں واضح فرمایا – اس پر مزید تبصروں سے گریز کرنا چاہیے-
الله کا فرمان ہے:
“..اور میری آیتوں میں (تحریف کر کے) ان کے بدلے تھوڑی سی قیمت (یعنی دنیاوی منعفت) نہ حاصل کرو، اور مجھی سے خوف رکھو  (2:41) اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ، اور سچی بات کو جان بوجھ کر نہ چھپاؤ ( قرآن 2:42 )

 

3..وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ ﴿١٦٩﴾ فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿١٧٠﴾  يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللَّـهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ ( سورة آل عمران 3:171)
“جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو، وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں (169) جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اُس پر خوش و خرم ہیں، اور مطمئن ہیں کہ جو اہل ایمان انکے پیچھے دنیا میں رہ گئے ہیں اور ابھی وہاں نہیں پہنچے ہیں ان کے لیے بھی کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے (170) وہ اللہ کے انعام اور اس کے فضل پر شاداں و فرحاں ہیں اور ان کو معلوم ہو چکا ہے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا” ( سورة آل عمران 3:171
http://www.fiqhulhadith.com/ibn-e-kaseer/book.php
سورة آل عمران  کی آیات171 , 170, 169 کو سوره البقرہ 2:154 کے ساتھ لنک کریں تو مزید تفصیل حاصل ہوتی ہے کہ شہداء کی زندگی عالم غائب سے تعلق رکھتی ہے نہ کہ اس زمینی عالم سے- ان کی میتوں کو (وہ جس حال میں بھی ہوں) قبروں سے نکال کر کفار کو دلیل کے طور پر پیش کرنے کو کوئی دلیل یا حجت نہیں-
ان لوگوں نے ایک دوسری ویب سائٹ بنا رکھی ہے جہاں لکھا ہے:
“سچے خدا کی تلاش: دنیا میں ایک ہی وقت میں بہت سے مذاہب کی موجودگی ہی جنگوں، غربت، جہالت اورانسانوں کی تباہی کی اصل وجہ ہے.سچے خد ا کو کیسے تلاش کریں؟ اس کیلئے فطرت یعنی آگ کو بطور غیر جانبدار جج منتخب کرنا ہوگا۔ ہر مذہب سے کم از کم ایک مذہبی پیشوا کو مذہبی اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر جمع کیا جائیگا جوعالمی میڈیا کے سامنے ایک بڑے میدان میں اپنے جسم پر بغیر کیمیکل استعمال کئے آگ میں جائیں گے۔ جس مذہب کے پیروکار کا خدا اسے آگ میں جلنے سے محفوظ رکھے گا وہی خدا سچا ثابت ہوگااور دنیا میں اسی کا سچا مذہب نافذ ہوگا-”  [ http://www.religiousun.org/urdu/ ]
وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ ( قرآن3:85)
جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا ( قرآن3:85)
تجزیہ :
اسلام معجزات جو ماورا عقل ہوتے ہیں ان کا انکار نہیں کرتا بلکہ ان کی بجایے ،استدلال، مباحثے اور مکالمے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، الله کا فرمان ہے:
إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ (8:22 قرآن)
یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ( قرآن8:22)
لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ  (قرآن ;8:42)
“جو ہلاک ہو، دلیل پر  ہلاک ہو اور جو زنده رہے، وه بھی دلیل پر زنده رہے” (قرآن ;8:42)

 

قرآن کائنات کے مقصد، تخلیق اور وجود کی وجہ، اساس اور منطقی دلائل  فراہم کرتا ہے- قرآن اللہ کی ابدی نشانی اور اس کے آخری پیغمبر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سچائی کا کھلا ثبوت ہے-
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿٢٠٨﴾ فَإِن زَلَلْتُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْكُمُ الْبَيِّنَاتُ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ  (قرآن 2:209)
اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آ جاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے (2:208قرآن )  جو صاف صاف ہدایات تمہارے پا س آ چکی ہیں، اگر ان کو پا لینے کے بعد پھر تم نے لغز ش کھائی، تو خوب جان رکھو کہ اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے ( قرآن 2:209)
وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ﴿٨١﴾ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ۙ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا  (سورة الإسراء7:82)
“اور اعلان کر دو کہ “حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے” (81) ہم اِس قرآن کے سلسلہ تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لیے تو شفا اور رحمت ہے، مگر ظالموں کے لیے خسارے کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا” (سورة الإسراء7:82)
دعوه اور تبلیغ کا طریقه قرآن میں واضح ہے:
“اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو تمہارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہ راست پر ہے”(قرآن ؛ 16:125)
الله فرماتا ہے:”اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل آ چکی ہے اور ہم نےتمہاری طرف ایک ظاہر روشنی اتاری ہے سو جو لوگ الله پر ایمان لائے اور انھوں نے الله کومظبوط پکڑا انہیں الله اپنی رحمت اور اپنے فضل میں داخل کرے گا اور اپنے تک ان کو سیدھا راستہ دکھائے گا”(قرآن  4:174، 175)
قرآن ابدی معجزہ:
قرآن ‘سائنس’ کی کتاب نہیں بلکہ (signs) ‘نشانیوں’ (آیات) کی کتاب ہے- قرآن میں ایک  ہزار سے زائد ایسی آیات موجود ہیں جو سائنس کے مختلف موضوعات،مثلا فلکیات، طبیعیات، جغرافیہ، ارضیات، حیاتیات، نباتیات، حیوانیات، طب، فزیالوجی،رویان شناسی، سمندری علوم اور جنرل سائنس وغیرہ سے متعلق ہیں-ان آیات میں بیان کردہ حقائق حیرت انگیز طور پر جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں- اس موضوع پر ڈاکٹرذاکر نائیک، ہارون یحییٰ اوربے شمار سکالرز  نے بہت تحقیق کی ہے جو انٹرنیٹ پر موجود ہے-
چودہ سوسال قبل جب وحی کا نزول ہورہا تھا انسانوں کا علم ان موضوعات پرعنقا یا بہت محدود تھا, اللہ نے فرمایا :
“ہم انہیں نشانیاں دکھائیں گے آفاق و کائنات میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی تاکہ ان پر واضح ہو جائے کہ وہ (اللہ) بالکل حق ہے۔”( 41:53قرآن)

 

غزوہ بدر میں ٧٠ مسلمان شہید ہوے، بدر میں آج بھی ان کی قبریں موجود ہیں-جنت البقیع اور مکہ کا قبرستان  رسول الله صلی الله وسلم نے یا صحابہ اکرام یا بعد میں ائمہ کرام سے کسی نے بھی ان شہداء کی قبر کشائی کرکہ میتوں کو اسلام کی سچائی کے طور پر پیش نہیں کیا- کیا ان کو علم نہیں تھا؟  
اگرچہ ایسے واقعات سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے جو اہل ایمان کے ایمان کو تازہ کرتے ہیں- ان میں شہداء اور نیک بزرگان دین کی میتیں جب حادثاتی طور، بارش ، طوفان، سیلاب سے آشکار ہوتی ہیں تو ان کے جسم تازہ نظر آتے ہیں فوری طور پر احترام سے ان کی تدفین کر دی جاتی ہے نہ کہ کافروں کے سامنے بطور حجت نمائش کے لیے پیش کیا-

 

اگرچہ مسیحی تعداد میں زیادہ ہیں مگر قرآن  دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے. پیو ریسرچ سینٹر (Pew Research Centre)   کی رپورٹ کے مطابق اسلام دنیا کا سب سے تیزی سے بڑھنے والا مذہب ہے۔ اگر اس کی موجودہ ترقی کی شرح 2050 کے بعد بھی برقرار رہی تو 2070 تک دنیا میں سب سے زیادہ لوگ مسلم کمیونٹی کے ہوں گے، جن کی کل تعداد 2.8 ارب ہوگی-
1.اس قسم کی خرافات کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں کیونکہ قرآن و سنت سے سے اس کو کوئی دلیل نہیں- اسلام قرآن و سنت پر ایمان اور عمل کا نام ہےجواس قسم کی جاہلانہ رسوم و  خرافات کو دور کرنے آیا ہے جو آج بھی جاہلانہ قبائلی معاشروں میں رسوم کی شکلوں میں موجود ہیں-

 

2.کيا ہم اپنی مقدس ہستيوں کی ميتوں کو نکال کر تبليغ کريں گے۔ يہ طريقہ قرآن و سنت نے نہیں سکهلایا- کيا گارنڻی ہے کہ بزرگان دین کی ميتوں کو ديکھ کر بهی کفار انکار کردين ۔۔ ہم تماشا بن جائين۔ قرآن ہی ابدی ہدایت اور معجزه ہے ،اس کوتبلیغ کے لیے استعمال کريں-  الله نے معجزات کو بطور دليل ختم کر ديا۔ جوبات قرآن کے خلاف ہووہ گمراہی ہے: الله کا فرمان ہے :
وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ ۚ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا ۚ وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا ﴿٥٩﴾
اور ہم نے نشانیاں بھیجنی اس لئے موقوف کردیں کہ اگلے لوگوں نے اس کی تکذیب کی تھی۔ اور ہم نے ثمود کو اونٹنی (نبوت صالح کی کھلی) نشانی دی۔ تو انہوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم جو نشانیاں بھیجا کرتے ہیں تو ڈرانے کو  ( 17:59)
الله کا طریقه ہے کہ اگر لوگ ثبوت کے طور پر معجزات کا مطالبہ کریں، اور جب معجزات ظہور پزیر ہونے کے بعد،ایمان لانے سے انکار کریں تو وہ الله کی طرف سے سزا اور عذاب کے مستحق ہوتے ہیں،(قوم عاد، ثمود ) ان پر مختلف طرح سے عذاب نازل ہوتا ہے-
اہل مکہ نے شق القمر دیکھا مگر پھر بھی ایمان نہ لا ئے، ان کو سزا مسلمانوں کے ہاتھوں شکست اور بلاخر فتح مکہ کی شکل میں ملی:
اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ ﴿١﴾ وَإِن يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ ﴿٢﴾
قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا (1) مگر اِن لوگوں کا حال یہ ہے کہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں منہ موڑ جاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو چلتا ہوا جادو ہے (سورة القمر 54:2)
وَلَقَدْ جَاءَكُمْ مُوسَىٰ بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَنْتُمْ ظَالِمُون (2:92)
” اور موسیٰ تمہارے پاس کھلے ہوئے معجزات لے کر آئے تو تم ان کے (کوہِ طور جانے کے) بعد بچھڑے کو معبود بنا بیٹھے اور تم (اپنے ہی حق میں) ظلم کرتے تھے  (2:92)
قوم موسی کو اپنے لوگوں کے ہاتھوں قتل عام کی سزا ملی-
بائبل (انجیل) میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد معجزات کو سچائی کے ثبوت سے مستثنیٰ قرار دیا- حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : “کئی جھو ٹے نبی آکر بہت سے لوگوں کو فریب دینگے۔(متی24:11)؛ “خدا کے منتخب لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے ممکن ہے جھوٹے مسیح اورجھوٹے نبی آیئں گے اورمعجزےظاہر کرینگے۔ان وجوہات کی بناء پر باخبر رہو۔ ان تمام باتوں کے واقع ہو نے سے پہلے ان تمام کے بارے میں تم کو انتباہ کرتا ہوں۔”(مرقس 13:22،23)

 

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿١٠٠﴾ قُلِ انظُرُوا مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَمَا تُغْنِي الْآيَاتُ وَالنُّذُرُ عَن قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ ﴿١٠١﴾ فَهَلْ يَنتَظِرُونَ إِلَّا مِثْلَ أَيَّامِ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِهِمْ ۚ قُلْ فَانتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِينَ ﴿ سورة يونس١٠٢﴾

 

“اگر تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرمانبردار ہی ہوں) تو سارے اہل زمین ایمان لے آئے ہوتے پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟ (99) کوئی متنفس اللہ کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لا سکتا، اور اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ ان پر گندگی ڈال دیتا ہے (100) اِن سے کہو “زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اسے آنکھیں کھول کر دیکھو” اور جو لوگ ایمان لانا ہی نہیں چاہتے ان کے لیے نشانیاں اور تنبیہیں آخر کیا مفید ہو سکتی ہیں” ( سورة يونس 10:101)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بغیر باپ کے پیدائش سے لیکر ان کی روانگی تک پے در پے معجزات جن میں گہوارہ میں کلام سے مردوں کو زندہ کرنا شامل ہے ان کی قوم پر بے اثر رہا اور انہوں نہیں اپنی طرف سے ان کو سولی پر چڑھا دیا مگر الله نے ان کو اٹھا لیا- یہ ہے  معجزات کی حقیقت-
عیسایوں میں رومن کیتھولک چرچ معجزات کو سینٹ ہڈ کے لیے مشروط کر دیا گیا ہے- قرون وسطیٰ میں سینٹ کی ہڈیاں متبرک سمجھ کرعلاج اور برکات کے لیے استعمال کی جاتی تھیں. اسلام میں اس طرح کی خرافات کا کوئی وجود نہیں-

 

اسلامی روایات کے مطابق قیامت سے قبل دجال کے فتنہ کا ذکر ملتا ہے جو محیر عقول معجزات سے لوگوں کو گمراہ کرے گا- وہ مردوں کو زندہ کرے گا- کچھ لوگ سائنسی ترقی کو دجال سے تشبیح دیتے ہیں- آج سائنسی ترقی کے کمالات معجزات سے کم نہیں- مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ سائنسی کی پوجا شروع کر دی جاے-
مندرجہ بالا حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ الله تعالی نے کیوں معجزات (محیر العقل) کاموں کو اسلام کی حقانیت کی حجت کے طور پر استعمال کی بجاۓ دوسرے دلائل کوترجیح دی- اگرچہ ایسے واقعات سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے جو اہل ایمان کے ایمان کو تازہ کرتے ہیں- ان میں شہداء اور نیک بزرگان دین کی میتیں جب حادثاتی طور، بارش ، طوفان، سیلاب سے آشکار ہوتی ہیں تو ان کے جسم تازہ نظر آتے ہیں فوری طور پر احترام سے ان کی تدفین کر دی جاتی ہے نہ کہ کافروں کے سامنے بطور حجت نمائش کے لیے پیش کیا-

 

فرعون

 

دعوت اسلام کا اسلامی مروجہ قرآن و سنت میں موجود ہے، جس کی بدولت آج 1.5 ارب مسلمان موجود ہیں، اور اسلام اس وقت شرح پیدائش کے ساتھ ساتھ دعوه و تبلیغ کی وجہ سے دنیا کا سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذھب ہے. تبلیغ  کے علاوه کوئی طريقہ گمراہی کا راستہ ہے ۔
الله کا ارشاد ہے :
ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴿سورة النحل ۱۲٥)
“لوگوں کو دانش اور نيک نصيحت سے اپنے پروردگار کے رستے کی طرف بلاؤ۔ اور بہت ہی اچهے طريق سے ان سے مناظره کرو۔ جواس کے رستے سے بهڻک گيا تمہارا پروردگار اسے بهی خوب جانتا ہے اور جو رستے پر چلنے والے ہيں ان سے بهی خوب واقف ہے16:125سورة النحل)
قرآن و سنت کی روشنی میں 1400 سال کی تاریخ میں کسی عالم ،مفسر يا بزرگ نےمحترم اعلی ہستیوں کی  میتوں کو تبلیغ کے لیے استعمال کيا؟
اسلام میں آگ میں گزر کر حقانیت کی کوئی پریکٹس؟ حضرت ابراہیم علیہ سلام کو الله نے آگ سے محفوظ رکھا،ان کی جان بچانے کے لیے- مگر پھر بھی ظالم حکمران اور عوام نے الله کا انکار کیا-
نہيں يہ تحريف قرآن ہے جو گناه عظيم ہے۔
آپ کون ہيں اصل ميں کچه معلوم نہيں ۔۔ اسلام کے مبلغ خفيہ نہيں کهل کر سامنے آتے ہيں۔ مشکوک نہيں ہوتے۔
مجه آپ کے متعلق اپ کوئی شک نہيں ۔۔

 

قرآن ميں صرف ايک شخص کی لا ش کو نشانی کے طور پر محفوظ کرنے کا بيان ہے۔ الله کا فرمان ہے:
فَالْيَوْمَ نُنَجِّيْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰيَۃً ٬ وَاِنَّ کَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰٰيتِنَا لَغٰفِلُوْنَ.( قرآن، سوره یونس – 10:92)
’’پس آج ہم تيرے جسم کو بچائيں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے ليے نشانی بنے اور بے شک ٬ بہت سے لوگ ہماری نشانيوں سے غافل ہی رہتے ہيں۔‘‘( قرآن، سوره یونس – 10:92)
اس آيات ميں الله تعالیٰ نے ايک پيشين گوئی فرمائی ہے کہ ہم فرعون کی لاش کو محفوظ رکهيں گے تاکہ بعدميں آنے والے لوگوں کے ليے وه باعث عبرت ہو۔ اپنے آپ کو خداکہلوانے والے کی لاش کو ديکھ  کر آنے والی نسليں سبق حاصل کريں۔ چنانچہ الله کا فرمان سچ ثابت ہوا اوراس کا ممی شده جسم 1898 ء ميں دريائے نيل کے قريب تبسيہ کے مقام پر شاہوں کی وادی سے دريافت ہوا، جہاں سے اس کو قاہره منتقل کر ديا گيا۔ اس پرتحقیق سے فرانس کے ڈاکڻر مورس بکائی اسلام کی حقانيت کے قائل ہو گئے۔ اور مشہور کتاب “قرآن ٬ سائينس اور بائيبل” لکهی۔ فرعون کی لاش کو ہم غير مسلمانوں کے سامنے رکھ کر کہ سکتے ہيں کہ قرآن سچ ہے، کيونکہ قرآن دليل ہے۔ کسی مسلمان يا شہيد کی ميت کو قبر سے نکال کر بطور ثبوت پيش کرنے کی کوئی شرعی دليل نہيں بلکہ ميت کی بے حرمتی ہے جس کی کوئی ذی عقل شخص اجازت نہيں دے سکتا۔
قرآن و سنت سے باہر اسلام نہيں بربادی ہے-

 

آپ اگر اسلام کے مبلغ ہيں تو اپنا مکمل تعارف کرائيں ۔۔ آپ نے چہره کيوں چهپا رکها ہے ؟
اپنے علم کی تفصيلات کدهر ہيں؟
اسلام کو قرآن و سنت کے باہر ايجادات کرنے والے گمراه قاديانی ٬ گوہر شاہی ٬ بہائی بنے۔
Zeeshan Arshad
ذات چهوڑيے۔ پہلے ثبوت کو قرآن وسنت سے باہر ثابت کرليں۔

 

معلوم کریں کہ یہ کون جاہل ہے جوتحریف قرآن کر کہ نیا فرقہ بنا کر عوام کو گمراہ کر رہا ہے بظاھر نیوٹرل(غیر جانب دار) ہونے کا دعوے دار ہے، مسلمانوں کو دھوکہ کے لیے-
اس کو قرآن سے حوالے دیئے ان کا انکار کرتا ہے ، تفصیل:  https://goo.gl/qxvM9p

 

یہ کوئی fake مشکوک کردار ہے جواسلام اور پاکستان کے خلاف کسی مخصوص مشن پر ہے ۔
قرآن کے دلائل کے سامنے نہ ٹھر سکا:
یہ بھاگ گیا کمنٹس کوبلاک کردیا کیوں کہ قرآن کے آگے شیطان نہیں ٹہر سکتا:
وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ﴿٨١﴾ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ۙ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا  (سورة الإسراء7:82)
اور اعلان کر دو کہ “حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے” (81) ہم اِس قرآن کے سلسلہ تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لیے تو شفا اور رحمت ہے، مگر ظالموں کے لیے خسارے کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا (سورة الإسراء7:82)

 

قرآن کی تحریف کرتا ہے جھوٹا کذاب جو مسلمانوں میں فرقہ بازی کو فروغ دینا اور مسلمانوں اور قرآن کی توہین و تحریف کرتا ہے- اس کے خلاف قانونی کی جائے-
اس کی ویب سائٹس اور فیس بک لنک:

 

کیا انبیاء علیہم السلام زندہ ہیں کیا ان کو روزی دی جاتی ہے ؟
ایک تحقیقی جواب “فضیلة الشيخ مقصود الحسن فیضی حفظہ الله
https://m.facebook.com/story.

 

کیا فرعون کی لاش محفوظ ہے

سوال: ۱۸۹۸ء میں ایک لاش کو فرعون کی لاش سمجھ کر محفوظ کیا گیاہے۔ کیا قرآن میں ایسا کوئی ذکر ہے؟ کیا یہ واقعی فرعون کی لاش ہوگی؟ (عارف جان)

جواب:
قرآن میں ایک شخص کی لا ش کو نشانی کے طور پر محفوظ کرنے کا بیان ہے۔ سورۂ یونس میں فرعون کی لاش کے محفوظ ہونے کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے:

فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً، وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ.(۱۰: ۹۲)
’’پس آج ہم تیرے جسم کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے نشانی بنے اور بے شک، بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہی رہتے ہیں۔‘‘



فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اورآپ کی قوم بنی اسرائیل پر بہت مظالم ڈھائے تھے۔ دراصل فرعون اس وقت کے بادشاہوں کا لقب تھا جو بھی بادشاہ بنتا اس کو فرعون کہا جاتاتھا۔ ڈاکٹر مورس بوکائیے کی تحقیق کے مطابق بنی اسرائیل پر ظلم وستم کرنے والے حکمران کا نام رعمسس دوم تھا۔ بائیبل کے بیا ن کے مطابق اس نے بنی اسرائیل سے بیگا رکے طور پر کئی شہر تعمیر کروائے تھے جن میں سے ایک کانام ”رعمسس ”رکھا گیا تھا۔ جدیدِ تحقیقات کے مطابق یہ تیونس اورقطر کے اس علاقے میں واقع تھا جو دریائے نیل کے مشرقی ڈیلٹے میں واقع ہے۔
[​IMG]
رعمسس کی وفات کے بعد اس کا جانشین مرنفتاح مقر ر ہوا۔ اسی کے دورِ حکمرانی میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل سمیت مصر چھوڑنے کا حکم دیا۔ چنانچہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو ہمراہ لیے دریائے نیل پار کررہے تھے یہ بھی اپنے لشکر سمیت ان کا پیچھا کرتے ہوئے دریائے نیل میں اتر پڑا مگر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دریا پار کروانے کے بعد دریا کے پانی کو چلا دیا اورفرعون کو اس کے لشکرسمیت ڈبوکر ہلاک کردیا (1)۔ اس سارے واقعہ کو اللہ تعالیٰ نے درجِ ذیل آیات میں بیان کیا ہے:
(وَجٰوَزْنَا بِبَنِیْ اِسْرَآئِیْل الْبَحْرَ فَاَتْبَعَھُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُوْدُہ بَغْیًا وَّعَدْوًا ط حَتّٰی اِذَآاَدْرَکَہُ الْغَرَقُ قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْ اٰمَنَتْ بِہ بَنُوآ اِسْرِآئِیْلَ وَاَنا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ۔ اٰلْئٰنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ ۔ فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَةً ط وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ)
”اورہم بنی اسرائیل کو سمندر سے گزار لے گئے۔ پھر فرعون اوراس کے لشکر ظلم اورزیادتی کی غرض سے ان کے پیچھے چلے۔ حتیٰ کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو بول اٹھا ”میں نے مان لیا کہ خداوندِحقیقی اُس کے سوا کوئی نہیں ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں بھی سرِاطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں”(جواب دیا گیا) ”اب ایمان لاتا ہے !حالانکہ اس سے پہلے تک تو نافرمانی کرتا رہا اورفساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔ اب تو ہم صرف تیری لاش ہی کو بچائیں گے تاکہ تو بعد کی نسلوں کے لیے نشان ِ عبرت بنے، اگرچہ بہت سے انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں ”(2)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایک پیشین گوئی فرمائی ہے کہ ہم فرعون کی لاش کو محفوظ رکھیں گے تاکہ بعدمیں آنے والے لوگوں کے لیے وہ باعث عبرت ہو۔ اپنے آپ کو خداکہلوانے والے کی لاش کو دیکھ کر آنے والی نسلیں سبق حاصل کریں۔ چنانچہ اللہ کا فرمان سچ ثابت ہوا اور اس کا ممی شدہ جسم 1898ء میں دریائے نیل کے قریب تبسیہ کے مقام پر شاہوں کی وادی سے اوریت نے دریافت کیا تھا۔جہاں سے اس کو قاہرہ منتقل کر دیا گیا۔ ایلیٹ اسمتھ نے 8جولائی 1907ء کو ا س کے جسم سے غلافوں کو اتارا، تو اس کی لاش پر نمک کی ایک تہہ جمی پائی گئی تھی جو کھاری پانی میں اس کی غرقابی کی ایک کھلی علامت تھی ۔ اس نے اس عمل کا تفصیلی تذکرہ اورجسم کے جائزے کا حال اپنی کتاب ”شاہی ممیاں ”(1912ء) میں درج کیا ہے۔اس وقت یہ ممی محفوظ رکھنے کے لیے تسلی بخش حالت میں تھی حالانکہ ا س کے کئی حصے شکستہ ہوگئے تھے۔ اس وقت سے ممی قاہرہ کے عجائب گھر میں سیاحو ں کے لیے سجی ہوئی ہے۔ اس کا سر اورگردن کھلے ہوئے ہیں اورباقی جسم کو ایک کپڑے میں چھپاکرر کھا ہواہے۔ محمد احمد عدوی ”دعوة الرسل الی اللہ” میں لکھتے ہیں کہ اس نعش کی ناک کے سامنے کا حصہ ندارد ہے جیسے کسی حیوان نے کھا لیا ہو ،غالباً سمندری مچھلی نے اس پر منہ مارا تھا، پھر اس کی لاش اُلوہی فیصلے کے مطابق کنارے پر پھینک دی گئی تاکہ دنیا کے لیے عبرت ہو۔


جون1975ء میں ڈاکٹر مورس بوکائیے نے مصری حکمرانوں کی اجازت سے فرعون کے جسم کے ان حصوں کا جائزہ لیا جو اس وقت تک ڈھکے ہوئے تھے اور ان کی تصاویر اتاریں۔ پھر ایک اعلیٰ درجہ کی شعاعی مصوری کے ذریعے ڈاکٹر ایل میلجی اورراعمسس نے ممی کا مطالعہ کیا اورڈاکٹر مصطفی منیالوی نے صدری جدارکے ایک رخنہ سے سینہ کے اندرونی حصوں کاجائزہ لیا۔ علاوہ ازیں جوف شکم پر تحقیقات کی گئیں۔ یہ اندرونی جائزہ کی پہلی مثال تھی جو کسی ممی کے سلسلے میں ہوا۔اس ترکیب سے جسم کے بعض اندرونی حصوں کی اہم تفصیلات معلوم ہوئیں اور ان کی تصاویر بھی اتاری گئیں۔ پروفیسر سیکالدی نے پروفیسر مگنواورڈاکٹر دوریگون کے ہمراہ ان چند چھوٹے چھوٹے اجزا کاخوردبینی مطالعہ کیا جوممی سے خود بخود جد اہوگئے تھے۔ (3)
ان تحقیقات سے حاصل ہونے والے نتائج نے ان مفروضوں کو تقویت بخشی جو فرعون کی لاش کے محفوظ رہنے کے متعلق قائم کیے گئے تھے۔ ان تحقیقات کے نتائج کے مطابق فرعون کی لاش زیادہ عرصہ پانی میں نہیں رہی تھی اگر فرعون کی لاش کچھ اورمدت تک پانی میں ڈوبی رہتی تو اس کی حالت خراب ہوسکتی تھی(4) ،حتیٰ کہ اگر پانی کے باہر بھی غیر حنوط شدہ حالت میں ایک لمبے عرصے تک پڑی رہتی تو پھر بھی یہ محفوظ نہ رہتی۔علاوہ ازیں ان معلومات کے حصول کے لیے بھی کوششیں جاری رکھی گئیں کہ اس لا ش کی موت کیا پانی میں ڈوبنے سے ہوئی یا کوئی اور وجوہات بھی تھیں؟چنانچہ مزید تحقیقات کے لیے ممی کو پیرس لے جایا گیا اور وہاں Legal Identification Laboratory کے مینیجر Ceccaldiاور Dr. Durigon نے مشاہد ات کے بعد بتایا کہ : اس لا ش کی فوری موت کا سبب وہ شدید چوٹ تھی جو اس کی کھوپڑی (دماغ)کے سامنے والے حصے کو پہنچی کیونکہ اس کی کھوپڑی کے محراب والے حصے میں کافی خلا موجودہے۔اور یہ تما م تحقیقات آسمانی کتابوں میں بیان کردہ فرعون کے (ڈوب کرمرنے کے) واقعہ کی تصدیق کرتی ہیں کہ جس میں بتایا گیا ہے کہ فرعون کو دریا کی موجوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔(5)


جیساکہ ان نتائج سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کی لاش کو محفوظ رکھنے کا خا ص اہتمام کیا تھا جس کی وجہ سے یہ ہزاروں سال تک زمانے کے اثرات سے محفوظ رہی اورآخرکار اس کو انیسویں صدی میں دریافت کیاگیا اورانشاء اللہ یہ قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے سامان عبرت رہے گی۔مزیدبرآں اللہ تعالیٰ کایہ فرمان کہ” ہم فرعون کی لاش کوسامانِ عبرت کے لیے محفوظ کرلیں گے” صرف قرآن مجید میں موجود ہے، اس سے پہلے کسی دوسری آسمانی کتاب میں اس کا اعلان نہیں کیا گیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے معلومات لے کر اس کو قرآن میں لکھ دیتے (نعوذباللہ ) ،جیساکہ یہودیوں اور عیسائیوں کا پیغمبر ِاسلام کے بارے میں جھوٹا پروپیگنڈاہے۔چنانچہ یہ قرآن مجید کے سچا اور منجانب اللہ ہونے کا ایک اور لاریب ثبوت ہے جس کو جھٹلانا کسی کے بس میں نہیں ہے۔

 

مولانا وحید الدین خان نے  لکھا :

’’خدا سے نافرمانی اور سرکشی کا انجام ہلاکت ہے، اس کا نمونہ دور رسالت میں بار بار انسان کے سامنے آتا تھا۔ تاہم اس قسم کے کچھ نمونے خدا نے مستقل طور پر محفوظ کر دیے ہیں تاکہ وہ بعد کے زمانہ میں بھی انسان کو سبق دیتے رہیں جبکہ نبیوں کی آمد کا سلسلہ ختم ہو گیا ہو۔ انھی میں سے ایک تاریخی نمونہ فرعون موسیٰ (رعمسیس ثانی) کا ہے جس کی ممی کی ہوئی لاش ماہرین اثریات کو قدیم مصری شہر تھیبس (Thebes) میں ملی تھی اور اب وہ قاہرہ کے میوزیم میں نمایش کے لیے رکھی ہوئی ہے۔‘‘ (تذکیر القرآن۱/ ۵۵۵)
مولانا امین احسن اصلاحی نے لکھا ہے:
’’…قدرت کے انتقام کی اس عظیم نشانی کے اندر ایک دوسری عظیم نشانی یہ ظاہر ہوئی کہ فرعون کی لاش کو سمندر نے قبول نہیں کیا، بلکہ اس کو ایک نشان عبرت بنانے کے لیے باہر پھینک دیا اور یہ لاش بعد میں لوگوں کو ملی بھی اور لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جو خدائی کا مدعی تھا، اس کا انجام کیا ہوا —- مصرمیں لاشوں کو ممی کرکے محفوظ کرنے کا رواج تھا اور ایک فرعون کی ممی کی ہوئی لاش قاہرہ کے عجائب خانے میں محفوظ ہے۔ اس لاش کے بارے میں اثریات کے ماہرین چاہے اختلاف کریں کہ یہ اسی فرعون کی لاش ہے یا کسی اور کی۔ لیکن ان کے اٹکل پچو اندازوں کے مقابل میں قرآن کا یہ چودہ سو سال پہلے کا بیان زیادہ قابل اعتماد ہے۔ اس طرح قدرت نے اس کی لاش کو عبرت کی ایک ایسی نشانی بنا دیا جو آج کے فرعونوں کے لیے بھی محفوظ ہے، لیکن دیکھنے کے لیے آنکھوں کی ضرورت ہے اور اس دنیا میں عبرت پذیر آنکھوں سے زیادہ کم یاب کوئی شے بھی نہیں ’وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ‘ میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔‘‘(تدبر قرآن ۴/ ۸۴۔۸۵)
اس پر فرانس کے ڈاکٹر مورس بکائی اسلام کی حقانیت کے قائل ہو گئے۔ اور مشہور کتاب ۔۔ قرآن ، سائینس اور بائیبل ۔۔۔ لکھی۔
اس کو ہم غیر مسلمانوں کے سامنے رکھ سکتے ہیں کیونکہ قرآن دلیل ہے۔ کسی مسلمان یا شہید کی میت کو قبر سے نکال کر بطور ثبوت پیش کرنے کی کوئی شرعی دلیل نہیں بلکہ میت کی بے حرمتی ہے جس کی کوئی ذی عقل اجازت نہیں دے سکتا۔

مولانا اصلاحی کے تفسیری بیان سے واضح ہے کہ لاش کے محفوظ رہنے سے اصلاً مراد اس کا سمندر میں گم نہ ہونا ہے۔ باقی رہا اس کا ہمیشہ کے لیے محفوظ ہونا تو یہ بعید از قیاس نہیں ہے ۔ فرعونیوں کا لاشوں کو ممی بنانا ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ غرق ہونے والے فرعون کی لاش کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا ہو گا۔ یہ کافی قرین قیاس ہے کہ موجودہ زمانے میں اس کی ممی کی ہوئی لاش دریافت ہو جائے۔

http://www.javedahmadghamidi.com/books/view/kia-firaun-ki-laash-mehfooz-hai

 

Rebuttal New Fitnah : رد فتنہ و تحریف : باطل نظریہ شہداء کی میت کی نمائش سے تبلیغ – قرآن و سنتت کے دلائل سے مسترد