مسلمانوں کی اکثریت محض تلاوت قرآن و قرات کو ثواب کے لیے کافی سمجھتی ہے- تلاوت قرآن سے ثواب حاصل ہوتا ہے مگر یہ قرآن کا اضافی فائدہ ہے- ببیادی طور پر قرآن ھدایت ، رہنمائی اور کامیابی حاصل کرنے کا ذریع ہے- جو اس کو سمجھنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے-
Merits and Benefits of Learning, Understanding Quran ……..
قرآن حکیم کا ہمارے اوپر ایک حق یہ ہے کہ ہم اس پر تفکر و تدبّر کریں اس کی تعلیمات کو سمجھیں۔ قرآن حکیم میں ہے:
افلا یتدبرون
القرآن کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے(محمد، 24/47)
ایک اور مقام پر ہے ’’کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے، اگر یہ خدا کے سوا کسی اور کا کلام ہوتاتو یقیناًاس میں بہت اختلافات ہوتے۔ (النساء 82/4)
قرآن حکیم ایک مقام پر عباد الرحمن کی صفت یوں بیان فرماتا ہے ’’اور وہ لوگ کہ جب ان کے رب کی آیات یاد دلائی جاتی ہیں تو وہ ان پر اندھے اور بہرے ہوکر نہیں گرتے۔ (الفرقان۔83/25 )
بلکہ اسمیں غوروفکر کرتے ہیں قرآن حکیم میں تدبر و تفکّر کے ذریعے سے ہی مغفرتِ الٰہی اور کائنات کی بیان شدہ حقیقتوں کا کھوج لگایاجاسکتا ہے۔ اس میں سے ہدایت تلاش کرنا اور منزلِ مقصود کو پانے کی خاطر اپنے لئے قرآنی لائحہ عمل پر غوروفکر کرنا قرآن مجید میں تدبرّ کا تقاضا ہے۔ آج اُمتِ مسئلہ نے اپنے دلوں پر گمراہی اور کاہلی کے قفل چڑھا کر تدبر و تفکر کو چھوڑدیا ہے۔اس تفکّر و تدبّر کیلئے ضروری ہے کہ بنیادی عربی قواعد سیکھے جائیں, ترجمہ کے ساتھ پڑہیں، سنیں، تراویح سے قبل مضامین کا خلاصہ پیش کیا جایے تاکہ قرآن حکیم کیساتھ اس قدر تعلق پیدا کرلیا جائے کہ ہرمسئلہ کا حل قرآن سے مل جائے۔ اسے اپنے من پر اُتارا جائے پھر اس سے مضامین سمجھے جائیں۔ بقول اقبال
تیرے من پر گر نہ ہو نزول کتاب گرہ کشا ہے رازی نہ صاحب کشاف
قرآن کا نہ پڑھنا، غیرِ قرآن کو قرآن پر ترجیح دینا، قرآن کو محور قرار نہ دینا، اِس میں تدبُّر و تفکر نہ کرنا، اِسے دوسروں کو نہ سیکھانا اور اِس پر عمل نہ کرنا، قرآن کو مہجور کرنے اور چھوڑ دینے کے مصادیق ہیں۔
مہجوریتِ , شکایت
وَ قَالَ الرَّسُولُ یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً )الفرقان/۳۰)
““اور (قیامت کے دن شکایت کرتے ہوئے) ر سولؐ کہیں گے: اے میرے پروردگار! میری اس قوم نے اِس قرآن کو نظر انداز کرکے چھوڑ دیا تھا۔”“
““هجر‘‘ بدن، زبان اور دل کی عمل کے ساتھ جدائی کو شامل ہے۔ پس انسان اور آسمانی کتاب (قرآن) کے درمیان تعلق، دائمی اور شعبہ ہائے زندگی میں ہونا ضروری ہے، کیونکہ کلمۂ ’’ھجر‘‘ اس جگہ استعمال ہوتا ہے جہاں انسان اور اس چیز کے درمیان کوئی تعلق ہو۔ اسی بنا پر، ہمیں اپنی پوری کوشش کرنی چاہیے کہ قرآنِ کریم کو مہجوریت اور فراموشی سے باہر نکالیں اور اِس کتابِ عزیز کو اپنی زندگیوں کے تمام ابعاد اور پہلوؤں میں علمی و عملی محور کے طور پر قرار دیں تاکہ پیغمبر عزیزِ اسلامﷺ کی رضایت و خوشنودی حاصل کرسکیں۔
قرآن کا نہ پڑھنا، غیرِ قرآن کو قرآن پر ترجیح دینا، قرآن کو محور قرار نہ دینا، اِس میں تدبُّر و تفکر نہ کرنا، اِسے دوسروں کو نہ سیکھانا اور اِس پر عمل نہ کرنا، قرآن کو مہجور کرنے اور چھوڑ دینے کے مصادیق ہیں۔ حتی کہ جو شخص قرآن کو سیکھے؛ لیکن اِسے چھوڑ دے اور اِس میں نگاہ نہ کرے اور کوئی پابندی نہ رکھتا ہو، اُس نے بھی قرآن کو مہجور کر دیا اور اِسے پسِ پشت ڈال دیا ہے۔
یہ آیتِ کریمہ، پیغمبرِ اسلامﷺ کے گلے شکوے کو بیان کرتی ہے اور آنحضرتؐ کیونکہ “رَحْمَةً لِّلْعَالَمِینَ” ہیں، نفرین نہیں کرتے ہیں۔ جی ہاں! روزِ قیامت شکایت کرنے والوں میں سے ایک، پیغمبراکرمﷺ ہیں۔ بنا بر ایں قرآن کی مہجوریت، پیغمبرؐ کا گلہ شکوہ اور ہماری مسئولیت و ذمہ داری قطعی اور یقینی چیز ہے اور ظاہری تلاوت کافی نہیں ہے، بلکہ مہجوریت کو دُور کرنا (اِس میں تدبُّر اور اِس پر عمل کرنا) ضروری ہے۔
کِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوا آیَاتِهِ وَ لِیَتَذَکَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ (ص/۲۹)
“یہ کتاب جسے ہم نے آپؐ پر نازل کیا ہے، ایک مبارک کتاب ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں تدبُّر اور غور و فکر کریں اور صاحبانِ عقل و خِرد نصیحت حاصل کریں۔‘‘
قراآن سمجھ کر پڑھنا کیوں ضروری ہے؟
ہم میں سے یقینااکثر لوگ اس بات سے ناواقف ہیں کہ تلاوتِ قرآن کا صحیح معنی کیا۔کیا صرف قرآن پڑھنے کا نام ہی تلاوت ہے ؟جی نہیں۔پڑھنے کے لیے عربی زبان میں ”قرا” وغیرہ کے الفاظ آتے ہیں ،توپھر تلاوت کے کیا معنی ہوئے ؟اس سے پہلے اس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ تلاوت کرنے میں جو شرط قرآن نے لگائی ہے وہ یہ ہے!
اَلَّذِینَ آَتَیْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَتْلُونَہُ حَقَّ تِلَاوَتِہِ أُولَئِکَ یُؤْمِنُونَ بِہ [البقرہ:١٢١]”
وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کتاب(قرآن) کی اس طرح تلاوت کرتے ہیں جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے ،ایسے لوگ ہی اس پر (صحیح معنوں میں) ایمان لاتے ہیں”
اس آیت میں ومنوں کی صفت” تلاوت قرآن”میں حَقَّ تِلَاوَتِہِ کی شرط لگائی گئی ہے۔(یعنی تلاوت اس طرح جس طرح تلاوت کا حق ہے)اگر ہم لغت کی کتابوں کی طرف مراجعت کرتے ہیں اور اس کا معنی تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں معلوم پڑتا ہے کہ تلاوت کا معنی:
تلاوت کے معنی میں پڑھنے کے ساتھ ”عمل کرنے کی نیت سے پڑھنا” بھی شامل ہے۔گویاتلاوت کا معنی ہوا” پڑھنا ،عمل کرنے کی نیت سے”۔
[تہذیب االغۃ:ج٥ص٢١،لسان العرب ج١٤ص١٠٢،قاموس القرآن ص١٦٩]
”عمل کرنے کی نیت سے پڑھنے ” میں سب سے پہلی قابل ذکربات ترجمہ قرآن ہے۔کیونکہ دورانِ تلاوت جب ہمیں معلوم ہی نہیں کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں تو عمل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،لہٰذا ناظرہ قرآن کے بعدجو چیز وقت کی اہم ضرورت ہے وہ قرآن کریم کا ترجمہ پڑھناہے۔بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ حفظ قرآن سے پہلے ترجمہ قرآن ضروری ہے۔ممکن ہے آپ میری اس بات سے اتفاق نہ کریں ،کیونکہ عوام میں حفظ قرآن کی فضلیت ترجمہ قرآن سے زیادہ ہے۔لیکن اگرہم اس بات کو ایک مثال سے سمجھیں تو بات دل کو لگتی ہے۔سب لوگ یہ جانتے ہیں کہ نماز کی اہمیت،فرضیت ،فضیلت اورفوائدوثمرات وضو سے زیادہ ہیں ۔لیکن اگر وضو کے بغیر نماز پڑھی جائے تو نماز نہ ہوگی ۔کیونکہ نماز کے لیے وضو شرط ہے ۔جب وضو ہی نہیں تو نماز جیسی اہم عبادت بھی مقبول نہیں ۔اسی طرح تلاوت قرآن میں ”عمل”شرط ہے،جو ظاہر ہے ہم عجمیوں کے لیے بغیر فہم کے ممکن نہیں ۔توثابت ہوا کہ جو لوگ بغیر سمجھے قرآن کو پڑھتے ہیں وہ اس کی تلاوت نہیں کرتے بلکہ اسے پڑھتے ہیں ،اور اگر تلاوت کرتے ہیں تو اس طرح نہیں کرتے جس طرح تلاوت کا حق ہے۔یہاں یہ سوال پید ا ہوتاہے کہ جو لوگ قرآن کو سمجھ کر نہیں پڑھتے تو کیا ان کو اس کا ثواب نہیں ملتا؟ میں یہ تو نہیں کہتا کہ جوشخص قرآن بغیر فہم کے پڑھے گا اسے اس کا ثواب نہیں ملے گا ،لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ اگر صرف ثواب کی نیت سے ہی پڑھنا ہے تو ہمارے لیے سارے قرآن کی بجائے قرآن کا کچھ حصہ ہی کا فی ہے۔مثلاً صحیح بخاری کی ایک حدیث ہے:ثواب ہی ثواب لیکن!
قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِہِ أَیَعْجِزُ أَحَدُکُمْ أَنْ یَقْرَأَ ثُلُثَ الْقُرْآنِ فِی لَیْلَۃٍ فَشَقَّ ذَلِکَ عَلَیْہِمْ وَقَالُوا أَیُّنَا یُطِیقُ ذَلِکَ یَا رَسُولَ اللَّہِ فَقَالَ اللَّہُ الْوَاحِدُ الصَّمَدُ ثُلُثُ الْقُرْآن
[بخاری:کتاب فضائل القرآن ، رقم الکتاب:16،باب فضل قل ہو اللہ احد،رقم الباب:13رقم الحدیث5015]
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے کہا کہ کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے عاجز آگیا ہے کہ (رات سونے سے پہلے)ایک تہائی قرآن (دس پارے)پڑھے،انہوں (صحابہ )نے کہا اے اللہ کے رسول! ہم میں سے کون اس کی طاقت رکھتا ہے تو آپ نے فرمایاسورۃ اخلاص ایک تہائی قرآن(کے برابر)ہے۔”
ایک شخص ایک ماہ کی محنتِ شاقہ کے بعد قرآن کی تلاوت مکمل کرتاہے اور اس کے برعکس دوسر ا شخص صرف ایک منٹ سے بھی کم وقت میں پوراقرآن پڑھنے کا ثواب حاصل کرسکتا ہے(سورۃ اخلاص تین دفعہ پڑھ کہ)تو پھر پورے قرآن کی نسبت ثواب کے معاملے میں سورۃ اخلاص زیادہ قدرومنزلت کی حامل ہے۔لیکن میری اس بات پر کوئی فرد بھی اتفاق نہیں کرے گا کہ امت مسلمہ کے لیے پورے قرآن کی نسبت صرف سورۃ اخلاص ہی کافی ہے۔لہٰذا قرآن کی تلاوت اسی وقت اپنے پایہ تکمیل تک پہنچے کی جب پڑھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اس کے معانی معلوم ہوں گے۔یہاں ہم استدلال کے کے لیے ایک قرآنی آیت اورحدیث رقمطراز ہیں جس سے فہم قرآن کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔اللہ کا فرمان تدبر قرآن:
أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآَنَ أَمْ عَلَی قُلُوبٍ أَقْفَالُہَا [محمد:٢٤]
”کیا وہ لوگ قرآن پر تدبر نہیں کرتے ؟یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں۔”
گمراہ لوگوں کی تلاوت :
یَتْلُونَ کِتَابَ اللَّہِ رَطْبًا لَا یُجَاوِزُ حَنَاجِرَہُمْ یَمْرُقُونَ مِنْ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنْ الرَّمِیَّۃِ
[بخاری:کتاب المغازی،رقم الکتاب:64رقم الباب:61رقم الحدیث:4351]”
(ایک قوم ایسی ہوگی)وہ اللہ کی کتاب کو بڑی خوبصورت آواز میں پڑھے گے لیکن وہ(قرآن) ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا ۔وہ دین سے ا س طرح نکل جائیں جس طرح تیر کمان سے۔”
ہمیں اس مشابہت سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔
- کیا قرآن کا مقصد صرف محفلوں کو سجانا تھا؟
- کیا قرآن کا نزول صرف قسمیں اٹھانے کے لیے ہے؟
- کیا قرآن کوماننے والوں کا یہ حال ہوتاہے ،جو اس وقت امت مسلمہ کا ہے؟
- کیا قرآن صرف ایک لازاول،بے مثال،بے نظیر اور لاثانی کتاب ہی ہے؟
- کیا قرآن کا محفوظ ترین ہونا صرف ایک معجزہ کے لیے ؟
- کیا بغیر سمجھے پڑھنےقرآن کا حق ادا ہوجاتاہے؟
اگر ان سوالوں کا جواب حقیقت کی زبانی دیا جائے تویقینا” نہیں”ہے ۔
اختتام رسول اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر :
إِنَّ اللَّہَ یَرْفَعُ بِہَذَا الْکِتَابِ أَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہِ آخَرِینَ
[صحیح مسلم:کتاب صلاۃ المسافرین،رقم الکتاب:7،رقم الباب47،رقم الحدیث:1934]
”بے شک اللہ اس کتاب (قرآن)کے ذریعےقوموں کو ترقی دیتے ہیں اوردوسروں(اس پر عمل نہ کرنے والوں) کو تنزلی کا سامنا کرنا پڑتاہے۔”
اللہ ہمیں قرآن سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمینوما توفیقی الا باللّٰہ .
قرآن سےجہاد کبیرہ کی سخت ضرروت ہے ..
More on Quran جہاد کبیرہ >>> https://SalaamOne.com/Great-Jihad
انسان کی دیگر مخلوقات سے برتری عقل کے استعمال کی بدولت ہے، اوراس وجہ سے ہے کہ انسان کو اس کے خالق نے ذہانت کا مالک بنایا ہے۔ کتاب …Continue Reading…
|