وَمِنَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللَّـهَ عَلَىٰ حَرْفٍ ۖ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ ۖ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انقَلَبَ عَلَىٰ وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ ﴿١١﴾ يَدْعُو مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَضُرُّهُ وَمَا لَا يَنفَعُهُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ ﴿١٢﴾ يَدْعُو لَمَن ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِن نَّفْعِهِ ۚ لَبِئْسَ الْمَوْلَىٰ وَلَبِئْسَ الْعَشِيرُ (قرآن ، سوره الحج ٢٢:١١،١٢،١٣)
“اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو خدا کی عبادت ایک ہی رخ پراور مشروط طریقہ سے کرتے ہیں کہ اگر ان تک خیر پہنچ گیا تو مطمئن ہوجاتے ہیں اور اگر کوئی مصیبت چھوگئی تو دین سے پلٹ جاتے ہیں یہ دنیا اور آخرت دونوں میں خسارہ میں ہیں اور یہی خسارہ کھلا ہوا خسارہ ہے (11) یہ اللہ کو چھوڑ کر انہیں پکارتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچاسکتے ہیں اور نہ فائدہ اور یہی دراصل بہت دور تک پھیلی ہوئی گمراہی ہے (12) یہ ان کو پکارتے ہیں جن کا نقصان ان کے فائدے سے زیادہ قریب تر ہے وہ ان کے بدترین سرپرست اور بدترین ساتھی ہیں” (قرآن ، سوره الحج ٢٢:١١،١٢،١٣)
“There are some who worship God half-heartedly, then, if some good befalls them, they are content with it, but if an ordeal befalls them, they revert to their former ways. They lose in this world as well in the Hereafter. That is a clear loss. (11) He calls on, instead of God, something that can neither harm him, nor benefit him. That is indeed straying far away — (12) he calls on that which would sooner harm than help. Such a patron is indeed evil and such a companion is indeed evil. (13) God will admit those who believe and act righteously into Gardens watered by flowing rivers. God does whatever He wills.” (Quran, Al Hajj; 22:14) … [Continue reading ….]
“حرف” کے معنی شک کے ایک طرف کے ہیں۔ گویا وہ دین کے ایک کنارے کھڑے ہوجاتے ہیں فائدہ ہوا تو پھولے نہیں سماتے، نقصان دیکھا بھاگ کھڑے ہوئے۔ صحیح بخاری شریف میں (ابن عباس سے مروی ) ہے کہ اعراب (بدو) ہجرت کرکے مدینے پہنچتے تھے اب اگر بال بچے ہوئے جانوروں میں برکت ہوئی تو کہتے یہ دین بڑا اچھا ہے اور اگرنہ ہوئے تو کہتے یہ دین تو نہایت برا ہے۔ ابن حاتم میں آپ سے مروی ہے کہ اعراب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اسلام قبول کرتے واپس جاکر اگر اپنے ہاں بارش ، پانی پاتے، جانوروں میں، گھر بار میں برکت دیکھتے تو اطمینان سے کہتے بڑا اچھا دین ہے اور اگر اس کے خلاف دیکھتے توجھٹ سے بک دیتے کہ اس دین میں سوائے نقصان کے اور کچھ نہیں۔ اس پر یہ آیت اتری۔
بروایت عوفی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ ایسے لوگ بھی تھے جو مدینے پہنچتے ہی اگر ان کے ہاں لڑکا ہوتا یا ان کی اونٹنی بچہ دیتی تو انہیں راحت ہوئی تو خوش ہوجاتے اور ان کی تعریفیں کرنے لگتے اور اگر کوئی بلا، مصیبت آگئی ، مدینے کی ہوا موافق نہ آئی، گھر میں لڑکی پیدا ہوگئی ، صدقے کا مال میسر نہ ہوا توشیطانی وسوسے میں آجاتے اور صاف کہہ دیتے کہ اس دین میں تو مشکل ہی مشکل ہے۔ عبدالرحمن کا بیان ہے کہ یہ حالت منافقوں کی ہے۔ دنیا اگر مل گئی تو دین سے خوش ہیں جہاں نہ ملی یا امتحان آگیا فوراً پلہ جھاڑلیاکرتے ہیں ، مرتد کافر ہوجاتے ہیں ۔ یہ پورے بدنصیب ہیں دنیا آخرت دونوں برباد کرلیتے ہیں اس سے زیادہ اور بربادی کیا ہوتی ؟
جن ٹھاکروں، بتوں اور بزرگوں سے یہ مدد مانگتے ہیں، جن سے فریاد کرتے ہیں ، جن کے پاس اپنی حاجتیں لے کر جاتے ہیں ، جن سے روزیاں مانگتے ہیں وہ تو محض عاجز ہیں، نفع نقصان ان کے ہاتھ ہی نہیں ۔ سب سے بڑی گمراہی یہی ہے۔ دنیا میں بھی ان کی عبادت سے نقصان نفع سے پیشتر ہی ہوجاتا ہے۔ اور آخرت میں ان سے جو نقصان پہنچے گا اس کا کہنا ہی کیا ہے؟ یہ بت تو ان کے نہایت برے والی اور نہایت برے ساتھی ثابت ہوں گے۔
إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ
(قرآن ، سوره الحج ٢٢:١٤)
“جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے خدا انکو بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں چل رہی ہیں کچھ شک نہیں کہ خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے ”(قرآن ، سوره الحج ٢٢:١٤)
یقین کے مالک لوگ
برے لوگوں کا بیان کرکے بھلے لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے جن کے دلوں میں یقین کا نور ہے اور جن کے اعمال میں سنت کا ظہور ہے بھلائیوں کے خواہاں برائیوں سے گریزاں ہیں یہ بلند محلات میں عالی درجات میں ہونگے کیونکہ یہ راہ یافتہ ہیں ان کے علاوہ سب لوگ حواس باختہ ہیں۔ اب جو چاہے کرے جو چاہے رکھے دھرے۔ ( تفسیر ابن كثیر)
(آفتاب خان)
https://www.facebook.com/SalaamOne