In Islam, there are huqooq Allah (the rights due to Allah) and huqooqul ibad. Allah has decreed that if He so wills, He may forgive any shortcomings pertaining to the rights due to Him except shirk (associating other deities with Allah). Furthermore, there is no prayer, ritual or good deed in Islam that will turn haram (forbidden) into halal (permissible), and this includes haram wealth amassed through any means. [There is no blank amnesty in Sin Laundering گناہ لانڈرنگ]
نجات، بخشش، ایمان اور اعمال – مغالطے … (اس صفحہ کے آخر میں …)
However, when it comes to the violations and sins of huqooqul ibad, Allah has bestowed the right to forgive only on the person(s) whose rights have been violated or usurped in any way.
If generals and politicians and their respective mafias have looted this nation’s wealth, then no Umrah, no prayer and no good deed will turn their haram wealth into halal. Their sins will never be forgiven by Allah unless every one of the 210 million or so Pakistanis, whose money they have looted, forgives them by heart. They will have to answer to Allah for their every rupee and every act and will have to face Allah’s wrath and punishment sans any bail or relief or health reasons — and this goes for all of us.
اگر سیاستدانوں، جنرلوں ، بیوروکریسی، ججز ، کاروباری اور اور ان کی طرح کسی بھی مافیا نے اس ملک کی دولت کو لوٹ لیا ہے تو پھر نہ عمرہ نہ کوئی نماز اور نہایت اچھا کام ان کے حرام مال کو حلال میں تبدیل نہیں کرے گا. ان کے گناہوں کو اللہ کی طرف سے کبھی معاف نہیں کیا جائے گا جب تک کہ 210 ملین یا ان پاکستانیوں میں سے ہر ایک، جن کے پیسے کو لوٹ لیا ہے انہیں دل سے معاف نہیں کرے گا. انہیں ان کے ہر روپیہ اور ہر کام کے لئے اللہ کو جواب دینا پڑے گا اور اللہ کے غضب کا سامنا کرنا پڑے گا اور سزا کے بغیر کسی بھی ضمانت یا ریسکیو یا صحت مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ سب کچھ ہم سب پر لاگو ہوتا ہے.
The consistent and prevalent insistence of our clergy and other religious circles on focusing only/mostly on huqooq Allah, and associating them with forgiveness of “all sins”, has led this nation away from huqooqul ibad. This has mired us into the practice of “sin laundering” by making us believe that “all sins” committed against other beings, and the filthy wealth that is accumulated will be forgiven and “cleansed” by performing Umrah, Hajj, prayers, rituals and by adopting overt signs and symbols of piety on body and dress.
More lethal than all this was the propagation and proliferation of a tailor-made model of Islam catering to the needs of the changing and corrupting Pakistani society. In that model of Islam, all sins are forgiven against performing Umrah and Hajj, offering prayers and rituals, attending religious gatherings and places, and displaying religious signs and symbols on one’s body and dress. From imams to preachers and other religious figures, with a few rare exceptions, all are fixed in their absolute focus on prayers and rituals, believing that all sins are forgiven simply by performing prayers and rituals.
This made everything easy and simple for everyone. Now whether you have amassed immense wealth by embezzling public or private funds, or by taking bribes or land grabbing or selling counterfeit medicines or by any other form of crime, including deceit and cheating, all you’d need to do is perform Umrah or offer prayers, observe fasting, dole out zakat and khairat from the dirty money, or don religious symbols and dress, and all your sins will be forgiven and all your dirty money will be cleaned. Soon this concept covered and cleansed every sin and crime one can think of. Ruling politicians and generals boast their Umrahs and other religious acts as their expression of piety.
It’s common practice for most imams, preachers and other religious people to regularly talk about all sins being forgiven against prayers and rituals. But they do it without emphasising that not even a shred of sin pertaining to huqooqul ibad (the rights due to other beings) will be forgiven by Allah unless sincerely forgiven by all the affected persons. From looting the nation’s wealth to refusing another driver his/her right of way on the road, huqooqul ibad encompasses our every act that in any way affects other people and other living beings and society.
This “sin laundering” has turned our society into an ever-deepening cesspool of sin and crime. “Sin laundering” has corrupted, depraved and decomposed the entire social structure of our country. It is said that corruption has weakened the country’s institutions, thus weakening the country. And it is the concept of “sin laundering” that sits above practically every ill in society. It justifies and cleanses every sin and crime and ill-gotten wealth in this country.
“Sin laundering” is sinking Pakistan.
By Syed Moazzam Hai, is a socio-economic change strategist, a freelance journalist and a creative communications professional. Published in Dawn. This is an extract, read full article at :
https://www.dawn.com/news/1488465/essay-sin-laundering
نجات، بخشش، ایمان اور اعمال – مغالطے
Salvation, Faith, Works and Illusions
“اگر تم اُن بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے رہو جن سے تمہیں منع کیا جا رہا ہے تو تمہاری چھوٹی موٹی برائیوں کو ہم تمہارے حساب سے ساقط کر دیں گے اور تم کو عزت کی جگہ داخل کریں گے” [ سورہ نساء آیت 31 ]
صاف طور پر گناہوں کو دو بڑی اقسام پر تقسیم کرتی ہیں، ایک کبائر، دوسرے صغائر۔
اور یہ دونوں آیتیں انسان کو امید دلاتی ہیں کہ اگر وہ کبائر اور فواحش سے پرہیز کرے تو اللہ تعالیٰ صغائر سے در گزر فرمائے گا۔ اگر چہ بعض اکابر علماء نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ کوئی معصیت چھوٹی نہیں ہے بلکہ خدا کی معصیت بجائے خود کبیرہ ہے ۔ لیکن جیساکہ امام غزالیؒ نے فرمایا ہے ، کبائر اور صغائر کا فرق ایک ایسی چیز ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ جن ذرائع معلومات سے احکام شریعت کا علم حاصل ہوتا ہے وہ سب اس کی نشاندہی کرتے ہیں-
یہاں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ بڑے گناہ اور چھوٹے گناہ میں اُصُولی فرق کیا ہے۔ قرآن اور سُنت میں غورسے ایسا معلوم ہوتا ہے (واللہ اعلم بالصواب)
تین چیزیں ہیں جو کسی فعل کو بڑا گناہ بناتی ہیں:
(١) حقوق العباد :
کسی کی حق تلفی ، خواہ وہ خدا ہو جس کا حق تلف کیا گیا ہو ، یا والدین ہوں، یا دُوسرے انسان، یا خود اپنا نفس۔ پھر جس کا حق جتنا زیادہ ہے اسی قدر اس کے حق کو تلف کرنا زیادہ بڑا گناہ ہے۔ اسی بنا پر گناہ کو ”ظلم“ بھی کہا جاتا ہے اور اِسی بنا پر شرک کو قرآن میں ظلمِ عظیم کہا گیا ہے۔
(۲) حقوق الله :
اللہ سے بے خوفی اور اس کے مقابلہ میں استکبار، جس کی بنا پر آدمی اللہ کے امر ونہی کی پروا نہ کرے اور نافرمانی کے ارادے سے قصداً وہ کام کرے جس سے اللہ نے منع کیا ہے، اور عمداً اُن کاموں کو نہ کرے جن کا اُس نے حکم دیا ہے۔ یہ نافرمانی جس قدر زیادہ ڈھٹائی اور جسارت اور ناخداترسی کی کیفیت اپنی اندر لیے ہوئے ہوگی اسی قدر گناہ بھی شدید ہوگا اسی معنی کے لحاظ سے گناہ کے لیے ”فسق“ اور ”معصیت“ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔
(۳) حقوق الله اورحققوق العباد
اُن روابط کو توڑنا اور اُن تعلقات کو بگاڑنا جن کے وصل و استحکام اور درستی پر انسانی زندگی کا امن منحصر ہے، خواہ یہ روابط بندے اور خدا کے درمیان ہوں یا بندے اور بندے کے درمیان ۔ پھر جو رابطہ جتنا زیادہ اہم ہے اور جس کے کٹنے سے امن کو جتنا زیادہ نقصان پہنچتا ہے اور جس کے معاملہ میں مامونیت کی جتنی زیادہ توقع کی جاتی ہے ، اسی قدر اس کو توڑنے اور کاٹنے اور خراب کرنے کا گناہ زیادہ بڑا ہے۔ مثلاً زنا اور اس مختلف مدارج پر غور کیجیے۔ یہ فعل فی نفسہ ١ نظامِ تمدّن کو خراب کرنے والا ہے اس لیے بجائے خود ایک بڑا گناہ ہے ، مگر اس کی مختلف صُورتیں ایک دُوسرے سے گناہ میں شدید تر ہیں۔ شادی شدہ انسان کا گناہ کرنا بن بیاہے کی بہ نسبت زیادہ سخت گناہ ہے۔ منکوحہ عورت سے گناہ کرنا غیر منکوحہ سے کرنے کی بہ نسبت قبیح تر ہے۔ ہمسایہ کے گھر والوں سے زنا کرنا غیر ہمسایہ سے کرنےکی بہ نسبت زیادہ بُرا ہے۔ محرّمات مثلاً بہن یا بیٹی یا ماں سے زنا کرنا غیر عورت سے کرنے کی بہ نسبت اشنع ہے۔ مسجد میں گناہ کرنا کسی اور جگہ کرنے سے اشدّ ہے۔ ان مثالوں میں ایک ہی فعل کی مختلف صُورتوں کے درمیان گناہ ہونے کی حیثیت سے مدارج کا فرق انہی وجُوہ سے ہے جو اُوپر بیان ہوئے ہیں۔ جہاں مامونیت کی توقع جس قدر زیادہ ہے، جہاں انسانی رابطہ جتنا زیادہ مستحقِ احترام ہے، اور جہاں اس رابطہ کو قطع کرنا جس قدر زیادہ موجبِ فساد ہے، وہاں زنا کا ارتکاب اسی قدر زیادہ شدید گناہ ہے۔ اسی معنی کے لحاظ سے گناہ کے لیے ”فجور“ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ [تفہیم القرآن]
مزید >>>>>
نجات، بخشش، ایمان اور اعمال – مغالطے Salvation, Faith, Works and Illusions