The Abrahamic faiths maintain a linear cosmology, with end-time scenarios containing themes of transformation and redemption. In Islam, the Day of Judgement is preceded by the appearance of the Mahdi (guided one), Isa (Jesus) will return, will triumph over Masih ad-Dajjal (the false messiah, Anti Christ).
In Judaism, the term “end of days” makes reference to the Messianic Age, and includes an in-gathering of the exiled Jewish diaspora, the coming of the Messiah, the resurrection of the righteous and the world to come. Some sects of Christianity depict the end time as a period of tribulation that precedes the second coming of Christ, who will face the Antichrist along with his power structure and usher in the Kingdom of God. However, other Christians believe that the end time represents the personal tribulation experienced before they become enlightened with the Word of God.
The Bible describes in a vivid language the corruption, destruction, and death typifying the end of times. We see the godly forces confronting the evil of Satan, the Antichrist, and Gog and Magog. We learn that the cataclysmic events will take place in the Middle East. But still the picture needs to be completed. Unanswered questions need to be answered. Who are Gog and Magog? Where will Jesus return? Where in the Middle East will Jesus confront the evil military forces? What nation(s) will supply the forces? Where will the ‘Antichrist be slain?
Keep reading >>>
http://islamicweb.com/history/ww3.htm
ایک حدیث کے مطابق علامات قیامت یہ ہیں: حذیفہ بن اسید غفاری بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری طرف متوجہ ہوئے ہم اس وقت مذاکرہ کر رہے تھے‘ آپ نے پوچھا تم کس چیز کا ذکر کر رہے ہو؟ صحابہ نے کہا ہم قیامت کا ذکر کر رہے ہیں‘ آپ نے فرمایا :
قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم دس علامتیں نہ دیکھ لو پھر آپ نے دخان (دھوئیں) دجال‘ دابۃ الارض‘ سورج کا مغرب سے طلوع‘ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کا نزول‘ یاجوج ماجوج‘ تین بار زمین کا دھنسنا (مشرق میں دھنسنا‘ مغرب میں دھنسنا‘ جزیرۃ العرب میں دھنسنا) اور اس کی آخری علامت آگ ہوگی جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو محشر کی طرف لے جائے گی۔(لنک )
دُنیا کی عمر کتنی ہے اس بارے میں کافی باتیں ہوتی رہیں۔ عیسائی علماء نے انجیل کے اپنے فہم کو بنیاد بنا کر نا صرف ایک تاریخ متعین کردی بلکہ اس سے انحراف کو دین سے انحراف بھی قرار دینا شروع کردیا۔ یہ نظریہ کچھ عرصہ تک تو مانا جاتا رہا لیکن پھر بہرحال سائنسی طریق سے زمین کی پیدائش کے متعلق اندازہ لگانے کا آغاز ہوا اور گزشتہ صدی کے دوران زمین کے اپنے اندر ملنے والے ثبوتوں سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ زمین کی عمر قریباَ ساڑھے چار ارب سال ہے۔ پڑھنے میں یہ یقیناَ چھوٹا سا ہندسہ ہے لیکن ایک انتہائی طویل مدت ہے۔ اگر ساڑھے پانچ ارب سال کو دو دنوںمیں تقسیم کیا جائے تو اس کا ایک سیکنڈ قریباَ چھبیس ہزار اکتالیس برس پر مشتمل ہوگا۔ یعنی حضرت موسٰی علیہ السلام سے لیکر آج تک کا دور ایک سیکنڈ کا ہزارواں حصہ یا اس سے بھی کم کا دورانیہ ہوگا۔ ساڑھے چار ارب سال کی اس مدت میں زمین پر ممالیہ جانوروں کی آمد صرف سولہ کروڑ سال قبل ہوئی جو زمین کی موجودہ عمر کے حساب سے دوسرے دن کے اختتام سے صرف ایک گھنٹہ اور قریباَ بیالیس منٹ پہلے کا عرصہ بنتا ہے۔ اس میں بھی ممالیہ جانوروں کا ارتقاء صرف پانچ کروڑ برس قبل ہوا جو زمین کی دو روزہ زندگی کے حساب سے قریباَ بتیس منٹ کا عرصہ بنتا ہے جب زمین ڈائنوسار سے خالی ہو گئی تھی۔ اور پھر ان پانچ کروڑ برس میں ممالیہ جانور زمین کے حکمران بن گئے۔ لیکن اگر دیکھا جائے توممالیہ جانوروں کی حکمرانی کا عرصہ بہت قلیل ہے۔ مثال کے طور پر ڈائنو سار نے زمین پر سولہ کروڑ برس حکومت کی یعنی ممالیہ جانوروں سے قریباَ تین گنا زیادہ عرصہ۔ ان پانچ کروڑ برس میں جب ممالیہ جانور زمین کی حکمرانی سنبھال رہے تھے انسان کی آمد آج سے قریباَ دو لاکھ برس قبل ہوئی۔ یعنی جب دُنیا اپنی موجودہ دو روزہ عمر کے وجود کے آخری گھنٹے کے بھی آخرمنٹ سے گزر رہی تھی۔ اور زمین کی عمر کے حساب سے پلک جھپکتے ہی یعنی صرف دو لاکھ برس کے اندر جو زمین کی دو روزہ عمر کا آٹھ سیکنڈسے بھی کم عرصہ بنتا ہے، انسان اس زمین کا مالک بن گیا یعنی قرآن کے الفاظ میں زمین پر اللہ کا خلیفہ بن گیا-
………………………………….
غیب سے متعلق معاملے پر تفصیل سے بحث اور گفتگو نہیں کرنا۔ ایسی گفتگوجو مابعد الطبیعات (Metaphysics یا دنیا کی حقیقت سے پرے) پر کی جائے جو محسوس حقیقت سے پرے ہو، اس پر بحث کرنا، اور یہ دعویٰ کرنا کہ کسی کی رائے دوسروں سے بہتر ہے، جس کے لئے بہت قمتی وقت لگایا گیا ہو، یہ مسلمانوں کے سب سے اہم اور ضروری مسئلے سے لوگوں کی توجہ کو ہٹا دیتا ہے، جس کے لئے مسلمانوں کو کام کرنا ضروری ہے۔ اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) نے ایسی ایک بحث کی مثال جو اہل کتاب (یہود اور نصاریٰ)غارمیں پناہ لینے والے لوگوں کی تعداد کے بارے میں کرتے تھے، ”تو اب لوگ کہیں گے، وہ تین ہیں اور ان کاکتا چوتھا، اور کچھ کہیں گے، وہ پانچ ہیں اور ان کا کتا چھٹا، بل کو ل اندھی اٹکل، اور کچھ کہیں گے، وہ سات ہیں اور ان کا کتاآٹھواں’’، کہہ دیجیے، ”میرا رب ان کی تعداد کو اچھی طرح جانتا ہے ان میں سے کوئی نہیں جانتا مگر بہت کم۔ اس لیے ان کے بارے میں کوئی بحث نہ کرو، سوائے اسکے کہ کیا ہوا ہے، اور اہل کتاب سے ان کے بارے میں کچھ بھی نہ پوچھو۔ (ترجمہ معانیٗ قرآن مجیدالکہف):
…………………………………………….
اردو لنکس:
- حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات و نزول قرآن و حدیث کی روشنی میں:
- http://alasirchannel.blogspot.com/2012/06/blog-post_573.html
- http://www.oururdu.com/forums/index.php?threads/1582
- http://algazali.org/index.php?threads/4132
- http://khilafate-rashida.blogspot.com/2016/03/blog-post.html
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~