امریکہ اسرائیل کی مکمل حمایت کرتا ہے اس   نے امریکی سفارتخانہ کو یروشلم منتقل  کیا جو آزاد فلسطین کا دارالحکومت ہو گا ، تو دنیا حیران ہے کہ امریکہ نے تمام دنیا کی مخالفت کے باوجود اتنا بڑا اقدام اٹھایا۔ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ امریکہ اور یورپ میں اسرایئل اورصیہونیت  لیے ہمدردی اور محبت کیوں ہے؟

اس سوال کا جواب “صیہونیت عالمی امن میں رکاوٹ” مختصر جائزہ آخر میں ملاحظہ کریں –

ایک عام مسلمان جو قبلہ اول،القدس الشریف کی حفاظت اور فلسطینی  بھائیوں کوصہونیت کے ظلم و بربریت اور غلامی سے نجات دلانا چاہتا ہے کیا کرے؟

دنیا میں مسلمان اس وقت بے پناہ وسائل کے باوجود، انتشار کا شکار ہیں- دین سے عملی طور پر دوری اور سائنس، تعلیم اور ترقی میں پسماندگی کی وجہ سے پیچھے رہ چکے ہیں- طاقت کا محور مغرب اور امریکہ ہیں، چین ایک ابھرتی طاقت ہے- مسلمان اکثریتی ممالک  سیاسی اور معاشی طور پر مغرب اور امریکہ  کے زیر اثر ہیں جن پر کٹھپتلی حکمرانوں کے زریعہ ان کا مکمل کنٹرول ہے- مغرب اور امریکہ پر”یہودی صہونیت” معاشی اجارہ داری، علم اور سازشوں کے زور سے غلبہ حاصل کر چکی ہے- ان حالات میں مسلمان ممالک کے حکمرانوں سے طاقت کے استعمال سے صہونیت کی سازشوں کا سدباب کرنے کی توقع صرف خام خیالی ہے-

کسی برائی  کو روکنے کے تین طریقے منقول ہیں ، طاقت ، زبان یا دل میں برا سمجھنا- لینگوج (زبان) جوکبھی محض خیالات، تصورات اور محسوسات کی ترسیل کا ایک آلہ (Tool) گردانی جاتی تھی اب وہ ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر سامنے آئی ہے جو سچائی کی تشکیل (Construction of Reality) میں محرک ہوتی ہے۔ یوں زبان کا سیاسی کردار کھل کر سامنے آیا ہے جس کا تعلق براہ راست طاقت کے ساتھ ہے۔ زبان اور طاقت کے باہمی تعلق پر بالادستی حاصل کرنے کے دو اہم طریقے ہیں۔

  1. پہلا طریقہ:  جس میں پولیٹیکل سوسائٹی طاقت کا استعمال کرتی ہے-
  2. دوسراطریقہ:  سول سوسائٹی کا ذریعہ، جس میں طاقت کا استعمال نہیں ہوتا اور تعلیم، ادب، زبان اور ثقافت سے دوسروں کے ذہنوں کو مسخر کرکے انہیں زیر نگین لایا جاتا ہے۔

دوسرے لفظوں میں ایک بالادستی حاصل کرنے کا “جبری” طریقہ ہے اور دوسرا “گفتگو” کا طریقہ۔

مظلوم مسلمانوں کی مدد اور جہاد Jihad for Opressed Muslims >>>>>

 گفتگو (ڈسکورس ,ڈائیلاگ ) کا طریقہ زیادہ طاقتور اور مؤثر ہے جس میں ذہنوں کو غیر محسوس طریقے سے مرعوب کیا جاتا ہے اور مسخر ہونے والا گروپ اپنی رضا و رغبت سے ہتھیار ڈال دیتا ہے۔ یہ بالادستی کے عمل کا بلند اور کارآمد درجہ ہے- آج کے دور میں میڈیا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی قیود توڑ کر سوشل میڈیا کے پُرشور سمندر میں اُتر گیا ہے۔ اس سمندر کی رفتار اور شور اسے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے ممتاز کرتا ہے۔ یوں سوشل میڈیا معاشرتی سچائیوں کی تشکیل کے ساتھ ساتھ انہیں تند و تیز سیلابی ریلے کی شکل میں پھیلانے پر قادر ہے۔ میڈیا ہمیں حقیقت کی خبرہی نہیں دیتا بلکہ حقیقت کی تشکیل کرنے میں ممد بھی ہوتا ہے۔ یوں میڈیا تشکیلی عمل کا حصہ بن جاتا ہے.

میڈیا نے جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ کے قیام کے باوجود نئی ظہور پذیر عالمی طاقتوں امریکہ اور سوویت یونین میں اسلحے کی دوڑ تیز تر ہو جانے اور ایک سے بڑھ کر ایک ’’وسیع تر تباہی پھیلانے والے‘‘ اسلحے (WOMDS) کی ایجادات کے متوازی، نظریاتی جنگ یا کولڈ وار کا کامیاب ہتھیار بن کر تیسری جنگ عظیم کے امکانات کوکم ترکر دیا۔ ہر دو نئی عالمی طاقتوں نے پروپیگنڈے (بذریعہ میڈیا) سے سرد جنگ (cold war) ایسے اور اتنی لڑی کہ طاقت کے غرور اور خمار کا عناد پروپیگنڈے کی شکل میں سرد جنگ سے نکلتا رہا اور وسیع تر تباہی کےہتھیاروں کے استعمال کی نوبت نہیں، یوں تیسری عالمی جنگ بھرپور سامان ہونے کے باوجود رکی رہی۔

میڈیا کا منفی استعمال حال میں دہشت گرد تنظیم دا عیش نے موثر طور پر کیا- سوشل میڈیا کے ذریعہ یورپ اور دنیا کے دوسرے ممالک سے جہادی سولجر ریکروٹ کیے اور ان کو عراق اور شام میں لڑائی میں استعمال کیا-

میڈیا ہی نے اطلاعات کی فراہمی کے جاری و ساری بہاؤ  کے متوازی حالات حاضرہ کے تجزیوں سے ’’رائے عامہ‘‘ کی تشکیل کا جو اہتمام کیا، اس نے بھی قیام عالمی امن اور انسانی رویئے کی سنگینی جو سخت گیر حکومتوں اور ملکی پالیسیوں اور سرحدوں کے پار ہمسایوں کے منفی عزائم کو کم تر کرنے، قابو میں رکھنے اور تبدیل کرنے میں سحرانگیز کردارادا کیا۔ گویا نرم ابلاغی ہتھیاروسیع تر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو جامد کرنے اور آمرانہ اور سامراجی رویوں کو تبدیل اور قابو میں رکھنے میں بے پناہ معاون ثابت ہوا۔

امریکہ طرف سے  القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے پر جو عالمی ر ائے عامہ آشکار ہوئی اس پر امریکہ اور اسرائیل کے سامراجی ر دعمل نے انسانیت ایک چیلنج دیا ہے کہ اقوام متحدہ کے تحفظ اور اس کے مقابل امریکہ اور اسرایئل کی ہٹ دھرمی کو ختم کرا کردنیا کو امن کا گہوارہ بنانے میں اپنا مثبت کردار ادا کرے-

میڈیا اس امن کی کوشش میں مثبت کردار ادا کرسکتا ہے:

اب ہمارے لیے یہ ممکن ہے کہ سوشل میڈیا کو دہشت گردی کی بجایے، امن کے ہتھیار کے طور پراستعمال کریں، کچھ سادہ قابل عمل  تجاویز پیش خدمت ہیں، مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے :

  1. حکمرانوں،سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ سفارتی اور بین القوامی اثر رسوخ استعمال کرکہ امریکہ، اسرایئل کو کسی ایسے اقدام سے باز رکھے جو انسانیت اور بین الاقوامی  قوانین کے خلاف اور امن کے لیے خطرہ ہو-
  2. مسیحی ہموطنوں کو “صیہونی مسیحیت ” کے زیر اثرپاکستان اور دنیا بھر میں، خاص طور پر امریکہ میں مسیحیوں کو بائبل (عہد نامہ جدید) اور یسوع مسیح کی تعلیمات کی روشنی میں صیہونیت کو رد کرنے اور اس سے الگ ہونے اور امن پر قائل کرنے کی کوشش کریں- “مُبارک ہیں وہ جو امن کراتے ہیں کِیُونکہ وہ خُدا کے بچے کہلائیں گے۔” (متّی 5: 9)
  3. پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، ٹی وی، دانشوروں کو صیہونیت کی حقیقت اور اس کے امن عالم پر منفی اثرات پر مسلسل لکھنے کی ترغیب دیں-
  4. تمام  دنیا کے امن پسند اور انسانی حقوق کے علمبرداروں اور تنظیموں کو متحرک کریں، جو اس امن مشن پرکام کر رہے ہیں ان کوسوشل میڈیا اور ہر طرح سے سپورٹ کریں  –
  5. فلیسطینیوں (مسلمان اور مسیحی) کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں، ان کی پرامن جدوجہد میں  ہر ممکن امداد اور سپورٹ کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں-
  6. دنیا میں جہاں بھی جنگ اور ظلم و جبر ہو رہا ہے،( کشمیر ، میانمار، افغانستان،  یمن, نائجیریا وغیرہ) مظلوم انسانوں کے حق میں قطع نظر نسل ، مذھب ، قوم  آواز بلند کریں- انٹرنیٹ پر سرچ کرکہ مطلوبہ ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پیجز، گروپس میں شامل ہو کر پر امن طور پر سپورٹ کریں-

مرکز اطلاعت فلسطین  https://urdu.palinfo.com/

  1. http://www.aljazeera.com/topics/subjects/israelipalestinian-conflict.html
  2. https://www.w3newspapers.com/palestine/
  3. ..https://www.palestinechronicle.com/
  4. مظلوم مسلمانوں کی مدد اور جہاد Jihad for Opressed Muslims >>>>>

صیہونیت عالمی امن میں رکاوٹ 

مختصر جائزہ

تعارف:

موجودہ دور سائنسی ترقی  اور انفورمشن کا دور ہے مگر بنی نوع انسان امن  کی بجائے جنگ  اور تباہی کے راستہ پر گامزن ہے- مذہبی جنونیت  عروج پر ہے- ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان نے تاریخ سے کچھ سبق حاصل نہیں کیا- مذاہب صلح امن کی تعلیم دیتے ہیں مگر جنگجو لوگ مقدس کتابوں سے جنگ کی آیات کو سیاق و سباق سے الگ کر کہ اپنے جنگی جنون کی تسکین اور مکروہ مقاصد کے لیے بے دریغ استعمال کرتے ہیں- عوام ان کی چکنی چپڑی باتوں سے دھوکہ کھا جاتے ہیں- مذھب اور مقدس کتب کا جنگویانہ استعمال غیر ریاستی گروہوں(مسلمان ، مسیحی، ہندو ، بدھ ، یہودی) کے علاوہ ریاستیں اور حکومتیں بھی کر رہی ہیں- یورپ اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی بہت لوگ اس مکروہ جنگی جنون میں شامل ہو چکے ہیں- نوآبادیاتی نظام کے بظاھر خاتمہ کے باوجود نوآبادیاتی مائنڈ سیٹ موجود ہے- ایک قوم، نسل یا مذھب کو دوسروں سے برتر سمجھنا ، اور اپنی مقدس کتب سے کسی علاقہ پر قبضہ کرنے کا جواز پیش کرنا اقوام متحدہ کے چارٹر، انسانی برابری اور انسانی حقوق کے دور میں کچھ عجیب معلوم ہوتا ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے-

فلسطین میں ہزاروں سال سے آباد قدیم اہل زمین کو بزور طاقت نکال کر یوروپ اور دنیا بھر سے یہودیوں کو آباد کرنا مذھب کی بنیاد پر نسل پرستی اور سامراجیت کی بڑی مثال ہے- مشرق وسطی میں جنگ اور دہشت گردی کی وجوہات میں سے ایک بنیادی وجہ یہودی “صہونیت”  ہے جس نے صرف دو سو سال میں ایک سوچ  سے حقیقی وجود حاصل کیا- اب اس وجود کی حفاظت اورمزید پھیلاو کے لیے 2000 سال قدیم مذھب “مسیحیت” ، جو اس وقت تعداد میں دنیا میں  سب سے زیادہ اور ترقی یافتہ اقوام ، یورپ اور امریکہ کی اکثریت کا مذھب ہے اس پر تھیولوجیکل theological  طور پرنظریاتی کنٹرول حاصل کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہو چکا ہے اب “صیہونی مسیحیت” (Christian Zionism)کے پیروکار یہودی “صہونیت” کے سپاہی ہیں- امریکہ میں یہ طبقہ سیاسی طور پر بہت مظبوط ہے اور حکمران اشرافیہ پر اثر انداز ہو کر “یہودی صہونیت” کے لیے سیاسی ، فوجی اور معاشی مفادات حاصل کرتا ہے- کہا جاتا ہے کہ امریکہ کے پانچ ملین یہودی صہونیوں کو ستر ملین “صیہونی مسیحیوں” کی سپورٹ مہیا ہے!

عیسائی صیہونیزم Christian Zionism  ، پروٹسٹنٹ عیسائیت کے اندر سب سے بڑی، سب سے زیادہ متنازع اور سب سے زیادہ تباہ کن تحریک ہے- یہ مشرق وسطی میں کشیدگی کو برقرار رکھنے، اسرائیلی کے تمييز عنصريapartheid، استعمارپسندانہ ایجنڈا ،اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کے امکانات کے عمل کوکمزورکرنے میں بنیادی طور پر ذمہ دارہے- مسیحیت اکثریت نے  عیسائی صیہونیزم Christian Zionism  کوانسانیت دشمن، مسیحت دشمن، بائبل مخالف بدعت قرار دے کر مسترد کیا ہے-

عالمی صہونی یہودیت کا مختصر جائزہ:

عالمی صہونی یہودیت اوراس کی خفیہ حکومت نے اپنے خوفناک ہتھیاروں، ماسونیت، بنائی- برت، صہونیت اور سامی مخالف جیسی سازشی تنظیموں اور سونے کے ان ذخائر کے ذریعہ جن پر انیسویں صدی کے اواسط سے ان کا قبضہ ہوگیا تھا، یورپ اور امریکا میں زبردست کامیابی حاصل کی، اور برطانیہ فرانس امریکہ اور سوویت یونین پراپنی خفیہ حکومت کا سکہ جاری کردیا۔

انیسویں صدی گذرتے صہونی یہودیوں نے امریکا اور یوروپ کے اکثر ممالک پر اپنا شکنجہ کس لیاتھا۔  صہونی یہودیوں نے ان ممالک اور ان کی حکومتوں پر اس درجہ اثر ڈالا،اور معاشی، سیاسی، عسکری اور ابلاغی ذرائع و وسائل پر وہ کیسے اس درجہ قابض ہوتے چلے گئے، کہ حکومتوں کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں آگئی، اور انھوں نے یورپ (بشمول امریکہ) کو نہ صرف اندھا غلام بنالیا، بلکہ ذلت کے ساتھ اپنے مقاصد ومفادات کیلئے اس کی ناک میں نکیل ڈال کر اس حد تک استعمال کیا کہ یورپ نے انہیں سرزمین فلسطین اپنی عالمی حکومت کے دارالحکومت کے قیام کے لئے سونپ دی۔

میڈیا کنٹرول:

صہونی یہودیوں نے صحافت، ذرائع ابلاغ، ریڈیو، سنیما گھر، ٹیلی ویژن، اشاعتی اداروں، پبلک لائبریریز، پریس اور ایڈورٹائزمنٹ کمپنیوں پر مضبوط گرفت قائم کی، اپریل 1899/ میں یعنی آج سے 118 سال پہلے یہودیوں کے درمیان مسیحیت کے فروغ کی سوسائٹی نے اپنے ایک ماہانہ نشریہ میں لکھاتھا:

”یوروپ کی ڈیلی سیاسی صحافت بڑی حد تک یہودیوں کے قبضہ میں ہے، اگر کوئی ادیب یا قلمکار سیاسی طاقتوں پر اثر انداز ہونے کیلئے یہودیوں کے راستہ میں آتا ہے تو یوروپ کے اہم ترین اخبارات اس کا سخت تعاقب کرتے ہیں۔“

بتاریخ ۲۶/جولائی ۱۸۷۹/ لندن کے اخبار (Graphic) نے لکھا تھا:

”یوروپ کے براعظم کی صحافت بڑی حد تک یہودیوں کے قبضہ میں ہے۔“

اٹھارہویں صدی کے اواخر سے یہودیوں نے برطانوی صحافت پر بھی اپنے پنجے گاڑدئیے ۱۷۸۸/ میں جب ”ڈیلی ٹائمز“ نکلا تو یہودیوں نے اسے خرید لیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، اس اخبار کا چیف ایڈیٹر یا خارجی، داخلی مالی یا سیاسی مسائل کا ایڈیٹر ہمیشہ یہودی رہا، ۱۹۰۸/ میں جب اس کی ملکیت ایک کمپنی کے ہاتھ میںآ ئی تو اس کے بنیادی ممبران یہودی تھے۔

۱۸۵۵/ میں یہودیوں نے ڈیلی ٹیلی گراف خرید لیا، اور پھر دھیرے دھیرے تمام اہم اخبارات ان کی ملکیت میں آگئے، صحافت اور وسائل ابلاغ کے ذریعہ اسمبلی اور پارلیمنٹ میں بھی ان کی بڑی تعداد پہنچ گئی، انگریز بتدریج یہودیوں کی غلامی میں جکڑ لئے گئے، وانسٹن چرچل جو بڑا باجبروت اور ذہین لیڈر تھا عالمی یہودیت کا ایک ادنیٰ خادم بنا ہوا تھا، اور اس پر فخر کرتا تھا کہ وہ ”اصلی صہیونی“ ہے چرچل کے نقش قدم پر تمام سیاسی زعماء اور عسکری حکام بھی چلتے رہے، اپنی قوم کے مفادات کے خلاف یہودیوں کی عالمی مخفی حکومت کی خدمت کو انھوں نے اپنا شیوہ بنالیا تھا۔

جہاں تک فرانس کے ذرائع ابلاغ کا تعلق ہے، تو برطانیہ کی طرح یہودی فرانس کے ذرائع ابلاغ پر بھی پوری طرح قابض ہوگئے، انھوں نے نہ صرف یہ کہ فرانسیسی پرچوں اور رسالوں کو خرید لیا، بلکہ اپنے میگزین اور اخبارات جاری کئے، خالصة یہودی جرائد کی تعداد ۳۶ تھی، بعض پرچے ”یدیش“ (یوروپ کے یہودیوں کی زبان) میں اور متعدد پرچے فرانسیسی زبان میں جاری کئے، ذرائع ابلاغ کے استعمال کے نتیجہ میں انھوں نے فرانسیسیوں کے ذہن و دماغ کو اس درجہ متاثر کردیا کہ اب وہ ”کوہین“ اور ”حائیم“ کے عینک سے ہی حقائق کو دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں، کمال یہ ہے کہ یہودیوں نے فرانسیسی ہیرو ”بیٹن“ کو خائن اور مجرم قرار دیا، اور ”بلوم“، ”مندیس“، ”سوسٹیل“ وغیرہ مجرمین اور خائنین کو وزارت عظمی کی کرسی تک پہنچادیا۔

صیہونی مسیحیت (Christian Zionism)

یورپ اور امریکہ کے معاشی، سیاسی، عسکری اور ابلاغی ذرائع کو مسخر کرنے کے ساتھ ساتھ صہونیت نے مسیحیت کی تھیولوجی (الہیات) کو بھی آلودہ کرکہ، صیہونی مسیحیت (Christian Zionism) کو فروغ دیا اس طرح  نظریاتی اور مذہبی طور مسخر کرکہ  مسیحیت کنٹرول حاصل کر لیا- صدیوں سے یورپ کے مسیحی یہودیوں کو یسوع  مسیح کا دشمن اور قاتل سمجھتے رہے اور ان پر ظلم و جبر کے پہاڑ  توڑتے رہے- اچانک انیسویں صدی سے مسیحیت میں ایک نئی فکر ،صیہونی مسیحیت (Christian Zionism) کی ابتدا  کی ،جو1917 کے  بلفورس ڈکلراشن  سے شروع ہو کر ہو کر 1948 فلسطین میں اسرایئل کے قیام اورمسلسل حفاظت کی گارنٹی ہے- امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور  صیہونی عیسائی امریکی نائب صدر کے  انتخاب میں صیہونی دولت اور میڈیا کا خصوصی کردار کوئی سیکرٹ نہیں- امریکی سفارت خانہ کی یروشلم منتقلی کا فیصلہ ، اقوام  متحدہ کی قراردادوں اور تمام دنیا کی مخالفت کو مسترد کرنا   اسی سلسلہ کی کڑی  ہے- اسرئیل اور صہونیت کو خوش کرنے کی یکطرفہ  پالیسی  فلسطنیوں کے انسانی حقوق کی پامالی دنیا کے امن کے لیے شدید خطره ہے-

عیسائی صیہونیزم Christian Zionism  ، پروٹسٹنٹ عیسائیت کے اندر سب سے بڑی، سب سے زیادہ متنازع اور سب سے زیادہ تباہ کن تحریک ہے- یہ مشرق وسطی میں کشیدگی کو برقرار رکھنے، اسرائیلی کے تمييز عنصريapartheid، استعمارپسندانہ ایجنڈا  اور اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کے امکانات کے عمل کوکمزورکرنے میں بنیادی طور پر ذمہ دارہے-

مسیحیت کی اکثریت نے  عیسائی صیہونیزم Christian Zionism  کو مسیحت دشمن، بائبل مخالف بدعت قرار  دے کر مسترد کیا ہے مگرپروٹسٹنٹ فرقہ میں بنیاد پرست مسیحی  بڑی تعداد میں اس تحریک سے متاثر ہیں- ان کا سیاسی اثر ورسوخ امریکی سیاست میں نمایاں ہے-

پروٹسٹنٹ ، دنیا میں مسیحی آبادی کا تقریبا 35-40 فیصد ہیں ، برطانیہ میں 50 % ، امریکہ میں 46% , جرمنی 27% (لنک ). بنیاد پرست مسیحی جن کو صیہونی مسیحی Christian Zionists بھی کہا جا سکتا ہے، اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ:

“بائبل کے مطابق ان کی مذہبی ذمہ داری ہے کہ وہ  اسرائیل کی قوم کوسپورٹ کریں۔”

اس نظریے کو مسیحی صہونیت  Christian Zionism کہا جاتا ہے- مسیحی سکالرز  کی اکثریت “مسیحی صہونیت” کو  بائبل اور عہدنامہ جدید کے مخالف سمجھتی ہے اور اس کے خلاف مسیحی دنیا میں باقاعدہ تحاریک موجود ہیں۔

بائبل (عہد نامہ قدیم ) میں خدا کا ابراہیم اور اس کی نسل سے زمین کا وعدہ واضح طور پرخدا کے احکام اور شریعت (قانون) پر عمل درآمد پر مشروط تھا- مگراسرایئل میں موجودہ یہود جو ابراہیم کی نسل کے جھوٹے دعوی دار ہیں (اکثریت اشکنزی، یورپی یہودی االنسل نہیں)-اسرایئل میں یہودی آبادی کی اکثریت 63% سیکولر ، 20% ملحد (ایتھیسٹ)، صرف 11.7% مذہبی ہیں، جو صہونیت کو تورات کے برخلاف کہ کر مسترد کرتے ہیں-  فلسطنیوں پر مظالم، ان کا قتل عام، ان سے غیر انسانی سلوک ،گھروں سے بیدخلی، دیوار بنا کر قید کی شکل، انسانی حقوق کی خلاف درزی بائبل میں خدا کے احکام  (یرمیاہ  7:3,6) کی صریح خلاف درزی ہے ، بلکہ خدا سے بغاوت ہے-اس طرح مذھب کی آڑ میں سامراجی، غیر انسانی ہتھکنڈوں سے فلسطین کو کالونی بنا دیا گیا ہے-

مشھور  مسیحی سکالرز Stephen Sizer اور  Thomas Williamsonکے بائبل سے ریفرنس کے ساتھ دلائیل، ان لنکس پرپڑھے جا سکتے ہیں-

  1. http://www.thomaswilliamson.net/palestine.htm
  2. http://www.thomaswilliamson.net/God’s%20Land.htm
  3. http://www.stephensizer.com/2011/08/seven-biblical-answers-to-zionist-assumptions/
  4. http://salaamone.com/american-christian-zionism-sehoneyat
  5. http://salaamone.com/christian-zionism

ایک سروے کے مطابق چار میں سے ایک امریکن کو “صیہونی مسیحی” کہا جاسکتا ہے جبکہ ییو ریسرچ سینٹر Pew Research Center کے مطابق سفید فام مسیحی مبلغین میں سے63 فیصد صیہونی نظریہ کے حامی ہیں۔ اس نظریے کے حمایت کرنے والے پرانے قسم کے مسیحی چرچ میں کم لوگ ہیں، جو تاریخی طور پر اقوام متحدہ کے اصولوں اور بنیادی نسانی حقوق، بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں فلسطینیوں کے ساتھ نرم رویہ رکھتے۔

صیہونی مسیحیت کی ابتدا انیسویں صدی میں ہوئی جب برطانوی کرسچن رہنما نے یہودیوں کے لیے فلسطین میں اکٹھا ہونے کو یسوع مسیح کی دوبارہ آمد کے لیے شرط قرار دیا۔ اس تحریک کو انیسویں صدی کے درمیان میں مزید تقویت ملی جب برطانیہ اور فرانس اور جرمنی کے نوآبادیاتی دلچسپیاں مشرق وسطی میں بڑھ گئی۔ مسیحی صہونیت در اصل “یہودی صہونیت” Jewish Zionism سے 50 سال قبل شروع ہوئی۔ “یہودی صہونیت تحریک کے بانی Theodore Herzl’s کے پرجوش سپوٹر میں عیسائی علماء شامل تھے۔ لیکن تحریک اس سے بھی بہت پہلے شروع ہو چکی تھی …..

رومن کیتھولک اور صیہونیزم ایک دوسرے کی ضد ہیں:

اس وقت دنیا میں تقریبا دو بلین مسیحی ہیں، ان میں سب سے قدیم اور بڑا گروپ 1.2 بلین رومن کیتھولک ہے، جس کا مرکز ویٹیکن روم ہے اور پوپ ان کا مذہبی سربراہ ہے- 1904 ء میں، جدید صیہونیزم کے بانی تھیوڈور ہرزلنے پوپ سینٹ پایسس (10) کے ساتھ ملاقات کی- پوپ کے ساتھ ملاقات میں ان کا مقصد یہودیوں کی فلسطین میں ایک ریاست قائم کرنے پر مدد حاصل کرنا تھی- مگر پوپ  نے صاف  انکار کردیا- یہودیوں کے مسیحیت اور یسوع مسیح کے متعلق ( تلمود ) کفریہ اور نازیبا،غیر  اخلاقی نظریات پر ایسا ناممکن ہے- http://www.dcdave.com/article4/031206.html

جدید اسرائیلی ریاست کی مختصر تاریخ میں زیادہ عرصہ تک  ویٹیکن نے اسرائیلی حکومت کے ساتھ نہ تو رسمی سفارتی تعلقات کو برقرار رکھا، اور نہ ہی اس کا وجود تسلیم کیا- لیکن 30 دسمبر، 1993 کو، ویٹیکن نے اس پالیسی کو تبدیل  کیا اور اسرائیل کو رسمی طور پر تسلیم کیا اور سفارتی تعلقات قائم کئے – یہ فیصلہ پوپ سینٹ پیسس ایکس نے جو 89 سال پہلے تھورور ہرزیل کو بتایا اس کے برعکس ہے-یہ صہونیت کے اثرو نفوز کی کامیابی ہے کہ مسیحیت کے  ٢٠٠٠ سالہ بنیادی نظریات میں تبدیلی ! اس فیصلے کی ممکنہ وجوہ کے باوجود، ویٹیکن مسلسل فلسطینیوں (مسلمانوں اور عیسائی دونوں) کے خلاف اسرائیلی افواج کی پالیسیوں پر تنقید کرتا رہا ہے-ابھی پوپ نے دو مملکت کے قیام پر زور دیا ہے-

یورشلم ڈیکلریشن:

مسیحی صیہونیت پراعلان 2006 میں کیا گیا،جو “یورشلم ڈکلریشن” کہلاتا ہے- یروشلم کے چار بڑے مسیحی چرچز کے سربراہان نےاعلان کیا کہ: “ہم مکمل طور پر مسیحی صیہونیت کے نظریے کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ  جھوٹی تعلیمات پر مبنی نظریہ ہے جو کہ بائیبل کے اصلی پیغام محبت، انصاف اور مصالحت کو خراب کرتا ہے”۔

نئے عہد نامے کا اختتامی باب باغ عدن کی عکاسی میں لے جاتا ہے اوربلندی سے تنزلی کی مصیبت کا خاتمہ کرتا ہے:

تب فرشتے نے مجھے آبِ حیات کا دریا دکھایا جو بلور کی مانند صاف و شفاف تھا وہ دریا خدا کے اور میمنہ کے تخت سے نکل کر بہہ رہا ہے۔ اور یہ دریا شہر کی سڑک کے درمیان بہہ رہا تھا۔ دریا کے دونوں جانب زندگی کا ایک درخت تھا اور اس زندگی کے درخت پر سال میں بارہ دفعہ پھل آتے تھے۔ یعنی ہر مہینے اس میں پھل آتے تھے اور اس درخت کے پتوں سے قوموں کو شفاہو تی تھی۔”(مکاشفہ22:1،2 )

یقینا یہ وہی بات ہے جو یسوع کے ذہن میں تھی جب اس نے اپنے پیروکاروں کو امن اور مصالحت کے سفیروں کے طور پر کام کرنے کے لئے ہدایت کی، اور کام کرنے کے لئے دعا کی کہ خدا کی بادشاہی زمین پر آئے گی جیسا کہ یہ جنت میں ہے-

یسوع مسیح کا فرمان ہے:

مُبارک ہیں وہ جو امن کراتے ہیں کِیُونکہ وہ خُدا کے بچے کہلائیں گے۔ متّی 5: 9

آیئں ہم سب مل کر امن کی کوشش امن سے کرتے ہیں …

  1. مفصل مضمون  – لنک
  2. مظلوم مسلمانوں کی مدد اور جہاد Jihad for Opressed Muslims >>>>>
  3. جناب محمود عباس! بہت ہوچکی!

Peacemakers are individuals and organizations involved in peacemaking, often in countries affected by war, violent conflict, and political instability. They engage in processes such as negotiationmediationconciliation, and arbitration – drawing on international law and norms. The objective is to move a violent conflict into non-violent dialogue, where differences are settled through conflict transformation processes or through the work of representative political institutions. Peacemaking can occur at different levels, sometimes referred to as ‘tracks’. “High level” (governmental and international) peacemaking, involving direct talks between the leaders of conflicting parties, is sometimes thus referred to as Track 1. Tracks 2 and 3 are said to involve dialogue at ‘lower’ levels—often unofficially between groups, parties, and stakeholders to a violent conflict—as well as efforts to avoid violence by addressing its causes and deleterious results. Peacemakers may be active in all three tracks, or in what is sometimes called multi-track diplomacy.[Wiki]

Related Links/References: