پیغمبرآخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہمارے لیے اسوۂ حسنہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی قرآن کریم کا عملی نمونہ ہے
Read in English : Life of Prophet Muhammad [pbuh] [……..]
گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتا پھرتا قرآن تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہی سے ہدایت میسر آسکتی ہے ’’وان تطیعوا تہتدوا‘‘(القرآن) اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات اقدس کامطالعہ کیا جائے او راپنے کرداروعمل کو اس کے مطابق ڈھالا جائے- یھاں مختصر طور پر رسو ل اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کو بیان کیا گیا ہے- ویڈیو پلےلسٹ میں 100 سے زیادہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ویڈیوز مہیا ہیں ، آخر میں سیرت کی مشور کتب کے لنک ہیں تاکہ تفصیل سے پڑھ سکیں- امید ہے کہ اس مطالعہ سے دلوں میں اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عملاًاپنانے کا جذبہ پیدا ہوگا۔
(پڑھیں : میلاد النبی ﷺ کا جائزہ ….)
رسولِ کائنات، فخرِ موجودات محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو خالق ارض و سما رب العلیٰ نے نسلِ انسانی کے لیے نمونہٴ کاملہ اور اسوہٴ حسنہ بنایاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو فطری طریقہ قرار دیا ہے۔ محسن انسانیت صلوات اللہ علیہ وسلامہ کے معمولات زندگی ہی قیامت تک کے لیے شعار ومعیار ہیں، یہی وجہ ہے کہ سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر گوشہ تابناک اور ہر پہلو روشن ہے یومِ ولادت سے لے کر روزِ رحلت تک کے ہر ہر لمحہ کو قدرت نے لوگوں سے محفوظ کرادیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متوالوں نے محفوظ رکھاہے اور سند کے ساتھ تحقیقی طور پر ہم تک پہنچایا ہے، لہٰذا سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جامعیت و اکملیت ہر قسم کے شک و شبہ سے محفوظ ہے دنیائے انسانیت کسی بھی عظیم المرتب ہستی کے حالات زندگی، معمولات زندگی، انداز و اطوار، مزاج و رجحان، حرکات و سکنات، نشست و برخاست اور عادات وخیالات اتنے کامل ومدلل طریقہ پر نہیں ہیں جس طرح کہ ایک ایک جزئیہ سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تحریری شکل میں دنیا کے سامنے ہے یہاں تک کہ آپ سے متعلق افراد اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق اشیاء کی تفاصیل بھی سند کے ساتھ سیرت و تاریخ میں ہر خاص و عام کو مل جائیں گی۔ اس لیے کہ اس دنیائے فانی میں ایک پسندیدہ کامل زندگی گذارنے کے لیے اللہ رب العزت نے اسلام کو نظامِ حیات اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو نمونہٴ حیات بنایا ہے وہی طریقہ اسلامی طریقہ ہوگا جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً، فعلاً منقول ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ سنت کہلاتا ہے اور آپ نے فرمایا ہے من رغب عن سنتی فلیس منی جس نے میرے طریقے سے اعراض کیاوہ مجھ سے نہیں ہے۔
تجديد ایمان (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ )
نمازیں ، روزے ، عبادات اور نیک کام بیکار ہیں اگر ایمان خالص نہیں-ایمان میں کوئی ملاوٹ الله کو قبول نہیں، اپنے ایمان اور عمل کا ہر نفس خود جوابدہ ہےاوربروز قیامت اکیلا پیش ہوگا، تجديد الايمان کریں …پڑھیں ..[……]
- لاالہ الا اللہ پر جنت؟
- رسول اللہ ﷺ کا میعارحدیث
- حدیث کے گمشدہ بنیادی اہم اصول
- أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَﷺ
عبادات وطاعات سے متعلق آپ کی سیرت طیبہ اور عادات شریفہ پر برابر لکھا اور بیان کیا جاتا رہتا ہے۔ دنیا میں ہر لمحہ ہر آن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ خیر کہیں نہ کہیں ضرور ہوگا آپ کی سیرت سنائی اور بتائی جاتی رہے گی پھر بھی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عنوان پُرانا نہیں ہوگا یہی معجزہ ہے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اور یہی تفسیر ہے ”ورفعنالک ذکرک“ کی۔
صحابہٴ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی دنیا وآخرت میں کامیابی وسرفرازی کا عنوان اتباع سنت ہے یہی اتباع ہر دور ہر زمانہ میں سربلندی اور خوش نصیبی کی کنجی ہے۔ اگر کسی کو عہدِ رسالت نہ مل سکا تو پھر ان کے لیے عہدِ صحابہ معیارِ عمل ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی پاکیزہ جماعت سیرة النبی کا عملی پیکر ہے ہر طرح سے پرکھنے جانچنے کے بعدان کو نسلِ انسانی کے ہر طبقہ کے واسطے ایمان وعمل کا معیار بنایاگیاہے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تربیت فرمائی ہے اور اللہ رب العالمین نے ان کے عمل و کردار، اخلاق واطوار، ایمان واسلام اور توحید وعقیدہ، صلاح وتقویٰ کو بار بار پرکھا پھر اپنی رضا وپسندیدگی سے ان کو سرفراز فرمایا، کہیں فرمایا ”اولئک الذین امتحن اللّٰہ قلوبہم للتقویٰ“ کہ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کے تقویٰ کو اللہ نے جانچا ہے، کہیں فرمایا ”آمنوا کما آمن الناس“ کہ اے لوگو ایسے ایمان لاؤ جیساکہ محمد کے صحابہ ایمان لائے ہیں تو کہیں فرمایا اولئک ہم الراشدون یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔
یہ سب اس لیے کہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس جمیل تھے ان کی عبادات میں ہی نہیں بلکہ چال ڈھال میں بھی سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور جھلکتا تھا یہی سبب ہے کہ خود رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اصحابی کالنجوم بایہم اقتدیتم اہتدیتم“ (ترمذی) میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جن سے بھی اقتداء ومحبت کا تعلق جمالوگے ہدایت پاجاؤگے۔
چونکہ صحرا، جنگل میں سفر کرنے کے لیے سمت معلوم کرنے کے لیے ستاروں کی رہنمائی حاصل کی جاتی ہے اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو ستاروں سے تشبیہ دی گئی ہے کہ وہ نفوس قدسیہ شرک وکفر کے صحراء میں مینارہٓ ایمان ہیں۔
زیرِ نظر مضمون میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چند خاص گوشوں کو موضوع بنایاگیاہے جو آپ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بیان کردہ ہیں مختصر طور پر ہر اس پہلو کو ذکر کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس کو عادتاً کم بیان کیاجاتا ہے۔
حضرت محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت مشہور عام تاریخ کے مطابق 12 ربیع الاول عام الفیل بمطابق 570ء یا 571ء کو ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیاء اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔ 570ء (بعض روایات میں 571ء) مکہ میں پیدا ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمرمیں نازل ہوئی۔ ان کا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں 632ء میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے والد کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب ان کی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ حضرت آمنہ بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ “محمد” کے معنی ہیں ‘جس کی تعریف کی گئی’۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمت للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت نام و القاب ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی ، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا کثیر وقت مکہ سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے۔ یہاں پر 610ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔
اس واقعہ کے بعد سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رسول کی حیثیت سے تبلیغ اسلام کی ابتداء کی اور لوگوں کو خالق کی وحدانیت کی دعوت دینا شروع کی۔ انہوں نے لوگوں کو روزقیامت کی فکر کرنے کی تعلیم دی کہ جب تمام مخلوق اپنے اعمال کا حساب دینے کے لئے خالق کے سامنے ہوگی۔ اپنی مختصر مدتِ تبلیغ کے دوران میں ہی انہوں نے پورے جزیرہ نما عرب میں اسلام کو ایک مضبوط دین بنا دیا، اسلامی ریاست قائم کی اور عرب میں اتحاد پیدا کر دیا جس کے بارے میں اس سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے اور قرآن کے مطابق کوئی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ ان کو اپنی جان و مال اور پسندیدہ چیزوں پر فوقیت نہ دے۔ قیامت تک کے مسلمان ان کی امت میں شامل ہیں۔ [……. ]
دعوت و تبلیغ کا آغاز:
تاجِ رسالت اور خلعت نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد رحمة للعالمین خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے سماج ومعاشرہ کو ایمان و توحید کی دعوت دی جو گلے گلے تک شرک و کفر کی دلدل میں گرفتار تھا، ضلالت وجہالت کی شکار تھی انسانیت، شرافت مفقود تھی، درندگی اور حیوانیت کا راج تھا ہر طاقتور فرعون بنا ہوا تھا۔ قتل وغارت گری کی وبا ہر سُو عام تھی نہ عزت محفوظ، نہ عصمت محفوظ، نہ عورتوں کا کوئی مقام، نہ غریبوں کے لیے کوئی پناہ، شراب پانی کی طرح بہائی جاتی تھی، بے حیائی اپنے عروج پر تھی، روئے زمین پر وحدانیت حق کا کوئی تصور نہ تھا، خود غرضی، مطلب پرستی کا دور دورہ تھا، چوری، بدکاری اپنے عروج پر تھی اور ظلم وستم نا انصافی اپنے شباب پر تھی خدائے واحد کی پرستش کی جگہ معبودانِ باطل کے سامنے پیشانیاں جھکتی تھیں، نفرت وعداوت کی زہریلی فضا انسان کو انسان سے دور کرچکی تھی، انسانیت آخری سانس لے رہی تھی معاشرہ سے شرک کا تعفن اٹھ رہا تھا۔ کفر کی نجاست سے قلوب بدبودار ہوچکے تھے اس دور کا انسان قرآن کریم کے مطابق جہنم کے کنارے کھڑا تھا، ہلاکت سے دوچار ہونے کے قریب کہ رحمت حق کو رحم آیا اور کوہِ صفا سے صدیوں بعد انسانیت کی بقا کا اعلان ہوا کہ ”یآ ایہا الناس قولوا لا الٰہ الا اللّٰہ تفلحوا“ اے لوگو! لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر ایمان لاؤ فلاح و صلاح سے ہمکنار رہوگے۔ یہ آواز نہیں تھی بلکہ ایوان باطل میں بجلی کا کڑکا تھا۔
وہ بجلی کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی
یہی آوازِ حق ایک عظیم الشان انقلاب کی ابتداء تھی جس نے دنیائے انسانیت کی تاریخ بدل دی یہ اعلان توحیدکی حیات نو کا پیغام تھا جس نے مردہ دل عربوں میں زندگی کی نئی روح پھونک دی اور پھر دنیا نے وہ منظر دیکھا جس کا تصور بھی نہ تھا کہ قاتل عادل بن گئے، بت پرست بن شکن بن گئے، ظلم وغضب کرنے والے حق پرست اور رحم دل بن گئے، سیکڑوں معبودانِ باطل کے سامنے جھکنے والی پیشانیاں خدائے واحد کے سامنے سرنگوں ہوگئیں، عورتوں کو جانور سے بدتر جاننے والے قطع رحمی اور کمزوروں پر ستم ڈھانے والے عورتوں کے محافظ، صلہ رحمی کے خوگر اور کمزوروں کا سہارا بن گئے، نفرت وعدوات کا آتش فشاں سرد ہوگیا محبت و اخوت کی فصلِ بہاراں آگئی، راہزن راہبر اور ظالم عدل وانصاف کے پیامبر بن گئے۔
جو نہ تھے خود راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مُردوں کو مسیحا کردیا
پھر دنیا نے دیکھا کہ ایک امی لقب اعلیٰ نسب رسول کے فداکاروں نے ایمان وتوحید کی تاریخ مرتب کرڈالی عدل و نصاف کے لازوال نقوش چھوڑے، وحدت مساوات کی لافانی داستان رقم کردی، فتوحات کی انوکھی تاریخ لکھ دی جہانبانی وحکمرانی کے مثالی اصول مرتب کیے، عفت وپاکدامنی کاریکارڈ چھوڑ گئے، وفاداری، فداکاری کی انمٹ تحریر دیے، عظمت ورفعت کے ان بلندیوں پر پہنچے جہاں سے اونچا مقام صرف انبیاء ومرسلین کو نصیب ہوسکتا ہے ایسا انقلاب دنیا نے کب دیکھا تھا اور کہاں سنا تھا۔
صبرواستقامت :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت حق اوراعلانِ توحید کی راہ میں اپنے ہی لوگوں کے ایسے ایسے مصائب وآلام دیکھے کہ کوئی اور ہوتا تو ہمت ہار جاتا مگر آپ صبر واستقامت کے کوہِ گراں تھے، دشمنانِ اسلام نے قدم قدم پر آپ کو ستایا، جھٹلایا، بہتان لگایا، مجنون ودیوانہ کہا، ساحرو کاہن کا لقب دیا راستوں میں کانٹے بچھائے جسم اطہر پر غلاظت ڈالی، لالچ دیا، دھمکیاں دیں، اقتصادی ناکہ بندی اور سماجی مقاطعہ کیا، آپ کے شیدائیوں پر ظلم وستم اور جبر واستبداد کے پہاڑ توڑے، نئے نئے لرزہ خیز عذاب کا جہنم کھول دیا کہ کسی طرح حق کا قافلہ رک جائے، حق کی آواز دب جائے، مگر دورِ انقلاب شروع ہوگیا تھا توحید کا نعرہ بلند ہوچکا تھا، اس کو غالب آنا تھا۔
یریدون لیطفوٴا نور اللّٰہ بافواہہم واللّٰہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون․ (القرآن)
کفار چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور (ایمان واسلام) کو اپنی پھنکوں سے بجھادیں اور اللہ پورا کرنے والا ہے اپنے نور کو اگرچہ کفار اس کا ناپسند کریں۔ خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ابتلاء وآزمائش میں جتنا مجھ کو ڈالاگیا کسی اور کو نہیں ڈالاگیا۔ اسی طرح آپ کے صحابہ پر جتنے مظالم ڈھائے گئے کسی اورامت میں نہیں ڈھائے گئے۔
ہجرتِ مبارکہ:
جب مکہ کی سرزمین آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام پر بالکل تنگ کردی گئی تب بحکم الٰہی آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور صحابہ کرام نے اللہ کے لیے اپنے گھر بار، آل و اولاد، زمین وجائداد سب کو چھوڑ چھاڑ کر حبشہ و مدینہ کا رخ کیا پہلی ہجرت صحابہ کے ایک گروہ نے حبشہ کی طرف کی تھی، پھر جب آپ مدینہ تشریف لے گئے تو مدینہ اسلام کا مرکز بن گیا، ہجرت رسول کے بارے میں مفکر اسلام علی میاں ندوی کا یہ جامع اقتباس بہت ہی معنویت رکھتا ہے کہ ہجرت کس جذبہ کانام ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کتنی زبردست قربانی دی تھی۔
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہجرت سے سب سے پہلی بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ دعوت اور عقیدہ کی خاطر ہر عزیز اورہر مانوس و مرغوب شئے اور ہر اس چیز کو جس سے محبت کرنے، جس کو ترجیح دینے اور جس سے بہرصورت وابستہ رہنے کا جذبہ انسان کی فطرت سلیم میں داخل ہے۔ بے دریغ قربان کیا جاسکتا ہے، لیکن ان دونوں اوّل الذکر چیزوں (دعوت وعقیدہ) کو ان میں سے کسی چیز کے لیے ترک نہیں کیا جاسکتا (نبی رحمت) اور ہجرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی پیغام آج بھی مسلمانوں کے سامنے ہے کہ ایمان وعقیدہ اور دعوت و تبلیغ کسی بھی صورت میں ترک کرنا گوارہ نہ کریں یہی دونوں تمام دنیوی و اخروی عزت وکامیابی کاسرچشمہ ہے۔
غزوات و سرایا :
ہجرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک طرف آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت اسلام کی تحریک میں کشادہ میدان اور مخلص معاون افراد ملے جس کے باعث قبائل عرب میں تیزی سے اسلام پھیلنے لگا تو دوسری جانب مشرکین مکہ اور یہومدینہ کی برپا کردہ لڑائیوں کا سامنا بھی تھا مکہ میں مسلمان کمزور اور بے قوت و طاقت تھے اس لیے ان کو صبر و استقامت کی تاکید وتلقین تھی مدینہ میں مسلمانوں کو وسعت و قوت حاصل ہوئی اور اجتماعیت و مرکزیت نصیب ہوئی اللہ تعالیٰ نے دشمنوں سے لڑنے اور ان کو منھ توڑ جواب دینے کی اجازت عطا فرمائی اور غزوات وسرایا کا سلسلہ شروع ہوا جو اہم غزوات پیش آئے یہ ہیں۔
(۱) غزوہٴ بدر ۲ھ میں مومنین ومشرکین مکہ کے درمیان میدانِ بدر میں سب سے پہلا غزوہ پیش آیا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپہ سالاری میں تین سو تیرہ مجاہدین نے مشرکین کے ایک ہزار ہتھیار بند لشکر کو ہزیمت سے دوچار کیا اور ابوجہل، شیبہ، عتبہ سمیت ستر (۷۰) سردارانِ قریش مارے گئے اور ستر گرفتار ہوئے اسی سے مسلمانوں کی دھاک قبائل عرب پر نقش ہوگئی۔
(۲) غزوہٴ اُحد ۳ھ شوال میں یہ غزوہ ہوا مسلمان سات سو اور کفار تین ہزار تھے۔
(۳) غزوات ذات الرقاع ۴ھ میں پیش آیا اسی میں آپ نے صلوٰة الخوف ادا فرمائی۔
(۴) غزوہٴ احزاب (خندق) ۵ھ میں ہوا مشرکین مکہ نے قبائل عرب کا متحد محاذ بناکر حملہ کیا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے اردگرد چھ کلو میٹر لمبی خندق کھدوائی تھی اسی لیے اس کو غزوہٴ خندق بھی کہتے ہیں۔
(۵) غزوہٴ بنی المصطلق ۶ھ میں ہوا اسی میں منافقین نے حضرت عائشہ پر تہمت لگائی تھی۔
(۶) صلحِ حدیبیہ ۶ھ میں ہوئی جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کا ارادہ فرمایاتھا اور چودہ سو صحابہ کرام کے ساتھ روانہ ہوئے تھے کہ مشرکین مکہ نے حدیبیہ کے مقام پر روک دیا اور وہیں صلح ہوئی کہ آئندہ سال عمرہ کرسکتے ہیں (پوری تفصیل کتابوں میں دیکھی جائے)
(۷) غزوہٴ خیبر ۷ھ میں پیش آیا یہ یہودیوں سے آخری غزوہ تھا اس سے قبل غزوہٴ بنو نضیر اور غزوہٴ بنوقریظہ میں یہودیوں کو جلاوطن اور قتل کیاگیا تھا۔
(۹) غزوہٴ تبوک ۹ھ میں پیش آیا ہرقل سے مقابلہ تھا دور کا سفر تھا شام جانا تھا گرمی کا زمانہ تھااس لیے خلاف عادت آپ نے اس غزوہ کا اعلان فرمایا چندہ کی اپیل کی صحابہ نے دل کھول کر چندہ دیا اور تیس ہزار کا عظیم الشان لشکر لے کر آپ تبوک روانہ ہوئے، مگر ہرقل بھاگ گیا اور آپ مع صحابہ واپس بخیریت مدینہ تشریف لائے اس غزوہ میں بھی بہت سے اہم واقعات پیش آئے جن کی ایک ایک تفصیل سیر کی کتابوں میں درج ہے۔ ان غزوات کے علاوہ بہت سے سرایا صحابہ کرام کی سرکردگی میں مختلف مواقع پر روانہ فرمائے۔
کچھ اہم واقعات:
۲ھ میں ہجرت کے بعد سترہ مہینہ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کے بعد تحویل قبلہ ہوا۔ ۲ھ میں روزہ فرض کیاگیا، ۴ھ میں شراب حرام ہوئی۔
فتح مکہ وغزوہٴ حنین :
۸ھ میں اسلامی تاریخ کا وہ واقعہ عینی فتحِ مکہ پیش آیا جس سے کلی طور پر اسلام کو عرب میں غلبہ حاصل ہوگیا اور مشرکین کا سارا زور ٹوٹ گیا فتح مکہ کے بعد واپسی میں غزوہٴ حنین پیش آیا جس میں پہلی بار مسلمان تعداد میں بارہ ہزار اور کفارِ طائف چارہزار تھے ورنہ ہر غزوہ میں مسلمان کم اور دشمن کی تعداد دوگنا، تین گنا ہوتی تھی۔
حضرت انس بن مالک (دس برس تک خادم خاص تھے) ہند بنت حارثہ، اسماء بنت حارثہ، ربیعہ بن کعب، عبداللہ بن مسعود، عقبہ بن عامر، بلال بن رباح، سعد، ذومخمر (شاہ حبشہ کے بھتیجے) بکسر بن شداخ، ابوذر غفاری رضی اللہ عنہم۔
شاہانِ ممالک کے لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سفراء:
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب وعجم کے شاہانِ ممالک اور سربراہان حکومت کے پیس دعوتی خطوط بھیجے تھے ان کو ایمان و توحید اختیار کرکے فلاح یاب ہونے کی دعوت دی تھی جن حضرات صحابہ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ سفیرِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے شہرت پائیں ان کے نام یہ ہیں:
(۱) عمروبن امیہ کو شاہ حبشہ نجاشی کے پاس بھیجا۔
(۲) دحیہ کلبی کو قیصر روم ہرقل کے پاس بھیجا۔
(۳) عبداللہ بن حذافہ کو کسرائے فارس کے پاس بھیجا
(۴) حاطب بن ابوبلتعہ کو شاہ اسکندریہ مقوقس کے پاس بھیجا
(۵) عمرو بن العاص کو شاہ عمان کے پاس بھیجا
(۶) سلیط بن عمر کو یمامہ کے رئیس ہودہ بن علی کے پاس بھیجا
(۷) شجاع بن وہب کو شاہ بلقا کے پاس بھیجا
(۸) مہاجربن امیہ کو حارث حمیری شاہِ حمیر کے پاس بھیجا
(۹) علاء بن حضرمی کو شاہ بحرین منذر بن ساوی کے پاس بھیجا
(۱۰) ابوموسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل کو اہل ایمن کی طرف اپنا نمائندہ بناکر روانہ فرمایا۔
کاتبین وحی رسالت:
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم امی تھے پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے، امی ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی امتیاز ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت کی ایک واضح دلیل ہے کہ ایک امی لقب رسول نے دنیائے انسانیت کو ایسا کلام دیا جس کی فصاحت و بلاغت اور لذت وحلاوت کے سامنے فصحائے عرب سرنگوں نظر آتے ہیں اور قیامت تک دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ لہٰذا جب قرآن مجید کی آیات کریمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل ہوتی تھیں تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مختلف صحابہ کرام سے ان کی کتابت کرواتے تھے کاتبین وحی کے اسماء حسب ذیل ہیں، نیز انھیں میں سے خطوط وفرامین لکھنے والے ہیں:
حضرت ابوبکر صدیق، عمر بن خطاب، عثمان بن عفان، علی بن ابی طالب، عامر بن فہیرہ، عبداللہ بن ارقم، اُبی بن کعب، ثابت بن قیس بن شماس، خالد بن سعید، حنظلہ بن ربیع، زید بن ثابت، معاویہ بن ابی سفیان، شرجیل بن خسنہ۔ رضی اللہ عنہم۔
جن کو خصوصیت حاصل تھی: حضرت زید بن حارثہ اور ان کے صاحبزادے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے حددرجہ پیار فرماتے تھے، جب زید بن حارثہ کہیں سفر سے واپس آتے تو فرطِ شوق سے لپک کر گلے لگاتے تھے حضرت اسامہ بن زید کی کسی بات کو رد نہیں کرتے تھے یہ حب الرسول سے مشہور تھے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ان سے سفارش کراتے تھے، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ فرمایا، سلمان منا اہل بیت کہ سلمان ہم اہلِ بیت میں سے ہیں۔ حضرت بلال اور حضرت عمار بن یاسر، حضرت ابوذرغفاری، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم محبوبین مخصوصین میں شمارہوتے تھے۔
ازواج مطہرات:
وفات کے وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں کل نو ازواج مطہرات تھیں، یہ بیویاں تھیں جن کے فضائل قرآن کریم میں آئے ہیں کہ تم عام عورتوں کی مانند نہیں ہو، یٰنسآء النبی لستن کأحدٍ من النساء (سورہ احزاب) یہ حرم نبی ہیں ان کو دنیا کی تمام عورتوں میں خصوصی امتیاز و فضیلت حاصل ہے۔
(۱) حضرت سودہ بن زمعہ رضی اللہ عنہا ان سے قبلِ ہجرت نکاح فرمایا۔
(۲) حضرت عائشہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہا ان سے بھی ہجرت سے قبل نکاح ہوا اور رخصتی مدینہ میں ایک ہجری میں ہوئی۔
(۳) حضرت حفصہ بن عمر رضی اللہ عنہا ان سے شعبان ۳ھ میں نکاح فرمایا۔
(۴)حضرت ام سلمہ بن ابی امیہ رضی اللہ عنہا ان سے شعبان ۴ھ میں نکاح فرمایا۔
(۵) حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا ان سے ۵ھ میں نکاح فرمایا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی زاد بہن ہیں۔
(۶) حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا ان سے ۶ھ میں نکاح فرمایا اور خلوت ۷ھ میں ہوئی۔
(۷) حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا ان سے ۶ھ میں نکاح فرمایا۔
(۸) حضرت میمونہ بنت حارث ہلالیہ رضی اللہ عنہا ان سے ۷ ھ میں نکاح فرمایا۔
(۹) حضرت صفیہ بنت حی بنت اخطب رضی اللہ عنہا ان سے ۷ھ میں نکاح فرمایا یہ یہودی سردار کی صاحبزادی تھیں۔
(۱۰) حضرت خدیجة الکبریٰ بنت خویلد رضی اللہ عنہا آپ نے سب سے پہلے انھیں کی خواہش و پیغام پر نکاح کیا تھا جب کہ آپ کی عمر شریف ۲۵سال تھی اور وہ بیوہ چالیس سال کی باعزت مالدار خاتون تھیں آپ کی تمام اولاد سوائے حضرت ابراہیم کے انھیں کے بطن سے ہیں یہ ہجرت سے قبل وفات پاگئیں تھیں، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بہت قدر فرماتے تھے ہمیشہ یاد کرتے رہے۔
(۱۱) حضرت زینب بن خزیمہ رضی اللہ عنہا ان سے ۳ھ میں نکاح فرمایا مگر دو یا تین ماہ کے بعد یہ وفات پاگئیں۔
اولاد الرسول صلی اللہ علیہ وسلم:
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد سوائے حضرت ابراہیم بن محمد علیہ السلام کے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہیں۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا جن کا نکاح ابوالعاص سے ہوا تھا حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا، حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا ان دونوں صاحبزادیوں کا نکاح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ہوا پہلے رقیہ سے، ان کی وفات کے بعد ام کلثوم سے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا یہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی اور سب سے محبوب صاحبزادی تھیں، ان کا نکاح حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ہوا تھا۔
انھیں صاحبزادی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلہ نسب چلا ہے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما انھیں کے بطن سے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ کو جاری رکھنے والے ہیں۔
حضرت عبداللہ جن کا لقب طاہر اور طیب ہے اور حضرت قاسم یہ دونوں صاحبزادے بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھے، ہجرت سے قبل مکہ میں وفات پائے حضرت قاسم حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھے یہ دو تین سال کے بعد وفات پائے۔
سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ایک جھلک ہے سیرة مبارکہ کا مطالعہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مسلمان نمونہ کامل بنانے پر قادر نہیں ہوگا آپ جہاں داعی برحق ہیں تو وہیں انسانِ کامل بھی ہیں۔ آپ شوہر بھی ہیں آپ باپ بھی ہیں، آپ خسر بھی ہیںآ پ داماد بھی ہیں، آپ تاجر بھی ہیں آپ قائد بھی ہیں۔ آپ سپہ سالار بھی ہیں آپ مظلوم بھی ہیں، آپ مہاجر بھی ہیں آپ نے زخم بھی کھائے آپ نے مشقت بھی جھیلی آپ نے بھوک بھی برداشت کی آپ نے بکریاں بھی چرائیں آپ نے سیادت بھی فرمائی۔ آپ نے معاملات بھی کیے، آپ نے لین دین بھی فرمایا، آپ نے قرض بھی لیا، آپ نے ایک انسان کی حیثیت سے معاشرہ کا ہر وہ کام کیا جو ایک انسان فطری طور پر کرتا ہے۔ اس لیے آپ کو نمونہ بنائے بغیر نہ کوئی کامیاب باپ، شوہر، خسر، داماد، تاجر وسپہ سالار بن سکتا ہے اور نہ ہی حق تعالیٰ کی کماحقہ اپنی طاقت بھر اطاعت و عبادت کرسکتا ہے آپ کی سیرت طیبہ حیات انسانی کے ہر گوشہ کا کامل احاطہ کرتی ہے۔
سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جھلک
از:مفتی صہیب احمد قاسمی، استاذ فقہ جامعہ حسینیہ، جونپور (یوپی)
Source: http://www.darululoom-deoband.com/urdu/articles/tmp/1417497056%2002-SiratunNabi%20SAW_MDU_03_MARCH_2008.htm
………………………………………………………………
حضرت محمد صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے اخلاق حسنہ
انسانی معاشرے ہمیشہ تعلیم و تربیت اور اخلاق حسنہ سے عروج اور استحکام حاصل کرتے ہیں۔ معاشرہ کے امن، خوشحالی اور استحکام کا راز علم، عمل اور اخلاق میں پوشیدہ ہے۔ اسی طرح قیادتیں بھی علم، عمل اور اخلاق حسنہ سے تشکیل پاتیں اور ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ اخلاق حسنہ کی اہمیت کے پیش نظر ہی اللہ رب العزت نے اپنے محبوب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خلق عظیم کے اعلیٰ درجہ پر فائز کیا۔ ارشاد فرمایا:
اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ.
(القلم : 4)
’’بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)‘‘۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے حضرت سعد بن ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ آقا علیہ السلام کے اخلاق حسنہ جن کی تعریف قرآن مجید میں انک لعلی خلق عظیم کہہ کر کی گئی۔ وہ کیا ہیں؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا :
أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟
’’ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے‘‘۔
انہوں نے عرض کیا کہ پڑھتا ہوں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :
فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ الْقُرْآن.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کا خلق قرآن ہی تو ہے۔‘‘
(صحيح، مسلم، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، 1 / 512، الرقم : 746)
یعنی قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اخلاق حسنہ، خصائل حمیدہ، فضائل کریمہ اور انسان کی عادات شریفہ کا جو جو ذکر، جز، گوشہ اور پہلو بیان کیا ہے، ان ساری خوبیوں کے عملی پیکر اتم کا نام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اللہ رب العزت کے بیان کردہ اخلاق کو اگر تعلیمات کی شکل میں دیکھنا ہو تو اس وجود کا نام قرآن ہے اور اللہ رب العزت کے تعلیم کردہ اخلاق اور خصائل حمیدہ کو اگر ایک انسانی پیکر اور شخصی اسوہ و ماڈل کی صورت میں دیکھنا ہو تو ان کا نام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اخلاق کی ترویج و فروغ کو اپنی منصبی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَکَارِمَ الأَخَلَاقِ.
’’مجھے مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے‘‘۔
(أخرجه البيهقي في السنن الکبري، 10 / 191، الرقم : 20571)
یعنی میری بعثت اس لئے کی گئی ہے کہ میں کائنات انسانی میں اخلاقی فضائل کو کمال اور عروج پر پہنچادوں۔ اخلاق (Morality) انسان کی خوبیوں اور اعلیٰ فضائل و خصائل میں سے ایک ایسا اعلیٰ مرتبہ، اعلیٰ رویہ، اعلیٰ طرز فکر، طرز عمل اور ایک ایسا عظیم خزانہ ہے جو دنیا کے تمام انسانی معاشروں میں بغیر انقطاع قائم و دائم رہا اور اس پر ہمیشہ سب کا عمل رہا۔ ہر دور میں اخلاق کی نہ صرف پذیرائی ہوئی بلکہ ہر دور کا انسان اخلاق کی عظمت سے متاثر ہوتے ہوئے اس کا معترف بھی ہوا۔ جوں جوں انسانی معاشرے، انسانی عقل، ادراک، نظریات اور تصورات ترقی کرتے جارہے ہیں، اسی طرح معاشرے کی ارتقاء پذیری کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار بھی بلند سے بلند تر ہوتی چلی گئی ہیں۔ بلاشک و شبہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت جہاں توحید، رسالت اور آخرت کی بنیادی تعلیمات پر مشتمل تھی وہاں ہر پیغمبر کی دعوت کا مرکزی نقطہ اخلاق حسنہ بھی تھا۔ ہر پیغمبر کی اپنی شخصیت اور اسوہِ مبارکہ کا مرکز و محور اخلاق حسنہ اور اعلیٰ اخلاقی اقدار تھے۔ جن سے انسانیت کو حسن کاملیت اور اپنے مراتب میں بلندی ملی۔
جب ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ چیز واضح نظر آتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اخلاق حسنہ کے ہزارہا گوشوں کی تعلیم دی، انہیں اپنی عملی زندگی میں سمویا اور ان کے ذریعے اپنے اسوہِ حسنہ اور شخصیت مقدسہ کو فکری، علمی اور عملی طور پر انسانیت کے سامنے رکھا۔ الغرض اخلاقِ حسنہ کا نمونہ کامل اور پیکر اتم بن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات خلق اور افق انسانیت پر ظہور پذیر ہوئے۔
زیرِ نظر صفحات پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ کے اُن چند گوشوں کو بیان کرنا مقصود ہے جو آج پاکستان کے لئے بالخصوص اور پورے عالم اسلام و عالم انسانیت کے لئے بالعموم ناگزیر ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی انفرادی، اجتماعی، معاشرتی، سماجی، سیاسی، تہذیبی، ثقافتی، روحانی اور قومی زندگی حتی کہ بین الاقوامی تعلقات میں بھی اعلیٰ اخلاقی اقدار پیدا کریں، انہیں مضبوط و مستحکم کریں اور ہمیشہ فروغ دیں۔ اسی میں پاکستان، امت مسلمہ اور تمام انسانی معاشروں کی ترقی کا راز مضمر ہے۔ ذیل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ کے انہی گوشوں کا تذکرہ کیاجارہا ہے جن کے ذریعے ہم نہ صرف انفرادی سطح پر امن و سکون حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اجتماعی سطح پر بھی تحمل و برداشت اور عفو و درگزر کے رویے تشکیل پاسکتے ہیں۔
تحمل و بردباری اور عفو و درگزر
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حلم، بردباری، تحمل، عفو و درگزر اور صبر و استقلال کی تعلیم دی۔ ان رویوں سے انفرادی و اجتماعی سطح پر سوسائٹی میں تحمل و برداشت جنم لیتا ہے۔ اسی تحمل و برداشت کے ذریعے سوسائٹی کے اندر Moderation اعتدال و توازن آتا ہے۔ یہ رویہ انسانوں اور معاشروں کو پرامن بناتا اور انتہا پسندی سے روکتا ہے۔ ایسا معاشرہ ہی عالم انسانیت کے لئے خیر اور فلاح کا باعث ہوتا ہے۔ وہی معاشرے مستحکم، پرامن، متوازن اور ترقی یافتہ ہوتے ہیں جو اخلاقی اقدار پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ میں سب سے اعلیٰ ترین پہلو ایک طرف حلم، تحمل، عفو و درگزر اختیار کرنا ہے اور دوسری طرف ناپسندیدہ اور شدید مصائب و آلام کے حالات میں صبرو استقامت اختیار کرنا ہے۔
اللہ رب العزت نے آقا علیہ السلام کو آداب و اخلاق خود سکھائے۔ ارشاد فرمایا :
خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ.
(الاعراف : 199)
’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ درگزر فرمانا اختیار کریں، اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں‘‘۔
یعنی اگر بداعمال، بداخلاق اور ناروا سلوک کرنے والے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادتی کریں تو آپ ان سے اعراض کریں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبرائیل امین علیہ السلام سے پوچھا کہ جبرائیل علیہ السلام ! اللہ رب العزت کے اس حکم کی کیا منشاء ہے؟ اس پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خود کچھ نہیں کہہ سکتا جب تک میں پیغام بھیجنے والے مولا کے پاس جاکر اس کا معنی دریافت نہ کروں۔ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام واپس گئے۔ اللہ رب العزت سے اس آیت کریمہ کا معنی پوچھ کر واپس آئے اور عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
يامحمد! ان الله تعالیٰ يامرک ان تعفو عمن ظلمک وتعطی من حرمک وتصل من قطعک.
(قرطبی، تفسير قرطبی،7 : 345)
’’(یارسول اللہ!) اللہ تعالیٰ نے (اس آیت میں) آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اس شخص کوجو آپ پر زیادتی کرے، معاف فرمادیں اور جو شخص آپ کو محروم رکھے، آپ اس کو عطا فرمائیں۔ جو شخص آپ سے رشتہ منقطع کرے آپ اس سے صلہ رحمی فرمائیں‘‘۔
یعنی اگر کوئی خونی رشتہ دار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ زیادتی کرے، رشتے کو کاٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کٹے ہوئے خونی رشتے کو حسن اخلاق سے جوڑ دیں، سوسائٹی کا کوئی شخص اگر کسی زیادتی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کے حق سے محروم کرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر بھی اپنی سخاوت کے باعث اسے عطا کرنے سے گریز نہ کریں اور اگر کوئی شخص صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ سے ظلم و زیادتی کا مرتکب ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے درگزر کرتے ہوئے معاف کردیں، انتقام نہ لیں۔
قرآن مجید میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انبیاء کرام کے صبر کی مثال دیتے ہوئے اخلاق حسنہ کے اس پہلو کی طرف متوجہ کیا جارہا ہے کہ اللہ رب العزت نے فرمایا :
فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ.
’’(اے حبیب!) پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبر کیے جائیں جس طرح (دوسرے) عالی ہمّت پیغمبروں نے صبر کیا تھا‘‘۔
(الاحقاف : 35)
سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عفوو درگزر کے مظاہر
آیئے ان آیات قرآنی کی روشنی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہِ مبارکہ اور اخلاقِ حسنہ کے عملی نمونہ کا مطالعہ کرتے ہیں جس میں پاکستانی قوم اور معاشرے کے لئے ایک واضح پیغام ہے۔
غزوہ احد کے موقع پر آقا علیہ السلام کے دانت مبارک کا ایک کونہ شہید ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ اقدس زخمی ہوگیا، خون مبارک بہہ نکلا اور ایک وقت کے لئے بے ہوشی کی کیفیت طاری ہوگئی۔ صحابہ کرام کے لئے یہ ناقابل برداشت لمحات اور ناقابل تصور کیفیات تھیں۔ ان لمحات میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا :
لودعوت عليهم.
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ پر ان لوگوں نے ظلم، مصائب و آلام اور جفاکاری کی انتہاء کردی ہے، اگر آپ چاہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے لئے بددعا کریں۔ اس پر آقا علیہ السلام نے جواب دیا :
انی لم ابعث لعانا ولکنی بعثت داعياً ورحمة.
یعنی میں اپنے اوپر ظلم اور زیادتی کرنے والوں کے لئے بد دعا نہیں کروں گا، اس لئے کہ میں لوگوں کو رحمت سے محروم کرنے والا بن کر مبعوث نہیں ہوا بلکہ میں تو خیر، فلاح اور نیکی و احسان کی طرف ایک ایسا دعوت دینے والا بن کر مبعوث ہوا ہوں کہ جو سر تاپا ہر اپنے پرائے کے لئے رحمت ہی رحمت ہے۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دست اقدس اٹھائے اور عرض کیا :
اَللّٰهُمَّ اهْدِ قَوْمِيْ فَاِنَّهُمْ لَايَعْلَمُوْن.
باری تعالیٰ میری قوم کو ہدایت دے یہ مجھے پہنچانتے نہیں ہیں۔
(صحيح مسلم، 4 : 2006، الرقم : 2599)
یعنی یہ لوگ میری حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں۔ میں ان کا کتنا ہمدرد اور خیر خواہ ہوں، اس سے یہ واقف نہیں ہیں۔ میں ان کی خیرو فلاح کا متمنی ہوں لیکن یہ اس حقیقت سے آشنا نہیں، ناسمجھ لوگ ہیں تو انہیں معاف کردے۔
قاضی عیاض نے الشفاء میں ایک روایت کا ذکر کیا ہے کہ اس مقام پر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :
بابی انت وامی یارسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔۔ آپ کی عظمت، اخلاق، شفقت، رحمت اور اسوہ حسنہ پر قربان ہوجائیں۔۔۔ اپنی بے وفا و جفاکار قوم پر بھی رحمت و شفقت کے اس خوبصورت انداز پر قربان ہوجائیں۔۔۔ لقد دعا نوح علی قومه. ایسی مشکل کی گھڑیاں حضرت نوح علیہ السلام پر بھی آئی تھیں۔ جب وہ کشتی بناکر قوم کو چھوڑ کر روانہ ہوگئے تھے۔ جب قوم نوح کے آلام اور جفاکاری انتہاء پر پہنچے تو انہوں نے بھی اپنی قوم کے لئے بددعا کی، حالانکہ ان پر حملے نہ ہوئے تھے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اقدس پر حملے ہوئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زخمی بھی ہوئے۔ نوح علیہ السلام نے عرض کیا تھا :
رَّبِّ لَا تََذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰـفِرِيْنَ دَيَّارًا.
’’اے میرے رب! زمین پر کافروں میں سے کوئی بسنے والا باقی نہ چھوڑ‘‘۔
(نوح : 26)
یعنی باری تعالیٰ ان ظالموں، کافروں نے ظلم اور جفاکاری کی حد کردی ہے، اب ان پر وہ عذاب بھیج کہ کافروں میں سے ایک جان بھی زمین پر زندہ نہ بچے۔
حضرت نوح علیہ السلام نے بھی تو بددعا کی تھی لیکن یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کی عظمت اور رحمت و شفقت پر ہم قربان جائیں۔۔۔ آپ کی عظمت، صبر و استقامت، وسعت ظرفی اور وسعت رحمت پر قربان جائیں۔۔۔ ولو دعوت علينا مثلها لهلکنا من عند آخرنا. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حضرت نوح علیہ السلام سے بھی زیادہ کڑا وقت آیا ہے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بددعا کردیتے تو اس دنیا کے آخری زمانے تک بھی ہماری نسلوں میں سے کوئی فرد نہ بچتا، تمام ہلاک اور تباہ و برباد ہوجاتے۔ فابيت ان تقول الاخيرا. مگر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے حق میں خیر، محبت، رحمت اور شفقت کے کلمہ کے سوا کوئی کلمہ زبان پر نہ لائے اور یہی کہتے رہے :
اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِيْ فَاِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْن.
مولا! میری اس قوم کو معاف کردے، یہ میری حقیقت، میری رحمت، میری خیر خواہی، میری شفقت اور میری عظمت کو نہیں پہچانتے، انہیں معاف کردے۔
(کتاب الشفاء، قاضی عياض، 1 : 171)
اسوہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام سننے والو! کروڑوں عوامِ پاکستان! نبی آخرالزمان، رحمۃ للعالمین، خاتم النبیین کا کلمہ پڑھتے اور ان کی غلامی کا دم بھرنے والو! ہمیں آج اس امر پر غور کرنا ہوگا کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ کیا تھا۔۔۔؟ ان کا اخلاق، سیرت، زندگی، طرز عمل، طرز معاشرت اور رویہ کیا تھا۔۔۔؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور غلامی کا حق ادا کرتے ہوئے ہمیں یہ کوشش کرنا ہوگی کہ آقا علیہ السلام کے طرز عمل اور اسوہِ حسنہ کا یہ عکس ہم اپنی زندگیوں میں پیدا کریں۔ اگر اس کا ہلکا سا عکس بھی ہماری زندگیوں میں آجائے تو اس ملک سے شر کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور خیر کے چشمے پھوٹ سکتے ہیں۔
مذکورہ حدیث مبارکہ میں درج ذیل نکات توجہ طلب ہیں کہ ظلم و ستم کے مقابلے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شفقت و محبت کا کتنا وسیع اظہار فرمایا۔
- آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنے مظالم اور مصائب پر صبر کرتے ہوئے خاموش رہتے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاموشی اختیار نہ فرمائی۔
- آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے لئے بددعا بھی کرسکتے تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بددعا نہیں کی بلکہ ان کی ہدایت اور مغفرت کی دعا کی۔
- آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف دعا ہی کردیتے کہ باری تعالیٰ انہیں معاف کردے، انہیں ہدایت دے دے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے بھی بڑھ کر ایسا اظہار فرمایا کہ انسانی عقل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفقت و رحمت اور محبت کا تصور کرنے سے بھی قاصر ہے۔
- آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف ہدایت اور مغفرت کی دعا کی بلکہ یہ کہہ کر دعا کی اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِی فَاِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ. وہ لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کے درپے ہیں، ان کو ان سارے مظالم کے باوجود یہ کہہ کر دعا دے رہے ہیں کہ باری تعالیٰ یہ میری قوم ہے، ان کو معاف کردے، ان کو ہدایت دے دے اور پھر کفار کی طرف سے معذرت کے اظہار کے بغیر از خود اللہ کے حضور عرض کرتے ہیں:
اِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْن. باری تعالیٰ انہیں اس لئے معاف کردے کہ یہ مجھے پہچانتے نہیں ہیں۔ یہ مغالطے، بدگمانی اور بدعقیدگی میں ہیں، اس لئے بد زبان و بد عمل اور بدعقیدہ ہیں۔ اگر مجھے پہچانتے تو ایسا نہ کہتے اور نہ ایسا کرتے۔ پس آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی معذرت بھی اپنی طرف سے بیان فرمارہے ہیں۔ ایسا اخلاق انسانی تاریخ میں کسی شخص میں ہوا اور نہ ہوگا۔٭ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نجد کے غزوہ سے واپس آرہے تھے کہ راستے میں دوپہر کا وقت ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھوڑی دیر آرام کرلیں۔ آقا علیہ السلام خود بھی ایک درخت کے نیچے آرام فرما ہوگئے۔ اتنے میں غورث بن حارث نامی ایک شخص آیا اور اس نے درخت کے ساتھ لٹکتی ہوئی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار اتار لی اور پوچھا کہ
من یمنعک منی۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو اب مجھ سے کون بچا سکتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی استقامت، جرات اور شجاعت و بہادری کا اس لمحہ بھی یہ عالم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے تین بار کہا : ’’اللہ‘‘۔ اس پر وہ کانپ اٹھا اور اس کے ہاتھوں سے تلوار گرگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ تلوار اٹھالی۔ وہ کانپنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسکرا کر اس کو معاف کردیا۔
(البخاری ،الصحيح، کتاب الجهاد، باب، من علق سيفه، بالشجر فی السفر عند القائلة 3 : 1065، رقم : 2753)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسن کردار، حسن اخلاق اور حسن شفقت دیکھ کر وہ شخص جب اپنے قبیلے میں واپس لوٹا تو اس نے اپنی کافرو مشرک قبیلہ سے کہا :
جئتکم من عند خير الناس.
(المستدرک علی الصحيحين، 3 : 31، الرقم : 1322)
لوگو! سنو آج میں ایک ایسے شخص کو دیکھ کر آرہا ہوں کہ کائنات انسانی میں اس سے بہتر اخلاق و کردار کا کوئی اور شخص نہیں ہے۔ اسے خیر کی طرف، اسلام کی طرف جس چیز نے راغب کیا وہ کوئی دعوت و تبلیغ کا عمل نہ تھا، وہ کوئی توحید ورسالت اور آخرت کی دلیل نہ تھی، فقط آقا علیہ السلام کا معاف کردینا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسن اخلاق اس شخص کی قلبی ہیت کے بدلنے کا باعث بن جاتا ہے۔
٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ زینب نامی ایک یہودیہ خاتون نے خیبر کے دن زہر آلود گوشت بھون کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ آقا علیہ السلام نے تناول فرمالیا۔ یہاں توجہ طلب بات یہ ہے کہ آقا علیہ السلام کی خدمت میں یہودیہ خاتون نے گوشت بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تو انکار کردیتے کہ جس عورت نے بھیجا ہے وہ یہودیہ ہے، میں نہیں کھاتا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا نہ فرمایا۔ آج ہماری تنگ نظری اور تنگ فکری بھی ہر ایک کے سامنے ہے کہ غیر مسلم تو بڑی دور کی بات ہم دوسرے مسلک اور کسی نچلے درجے کے پیشے سے وابستہ لوگوں سے بھی تعلقات رکھنا گوارا نہیں کرتے۔ ہم نے اپنی سوچ اور اسلام کو تنگ نظر بنادیا ہے۔ اپنی طبیعت، فکر، نظریے اور اپنے مزاج کی تنگی کو ہم نے اسلام پر مسلط کردیا ہے۔ اسلام تو اتنا وسیع ہے جتنی رب العالمین کی ربوبیت وسیع ہے۔ اسلام میں تو اتنی وسعت ہے، جتنی رحمۃ للعالمین کی رحمت میں وسعت ہے۔ جس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہم کلمہ پڑھتے اور غلامی کا دم بھرتے ہیں، ان کی وسعت نظری اور وسعت فکری سے اسلام کے تشخص کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ اندازہ کریں کہ خیبر میں محاذ آرائی یہودیوں سے ہے اور یہ لوگ مخالف اور محارب ہیں۔ جنگ ختم ہوجانے کے بعد ان مخالف و محارب یہودیوں میں سے ایک گھر سے زینب یہودیہ وہ گوشت بھون کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بطور دعوت بھیجتی ہے۔ عام انسانی عقل یہ کہتی ہے کہ آقا علیہ السلام رد فرمادیتے کہ یہ ہمارے دشمن ہیں اور یہودی ہیں، نہ کھاتے، فرمادیتے کہ یہ ہرگز جائز نہیں ہے۔
مگر آقا علیہ السلام کے عظیم حسن کردار، حسن اخلاق اور وسعت قلب و نظر کا عالم دیکھئے کہ یہ جانتے ہوئے کہ یہ کھانا یہودیوں کے گھر سے آیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر بھی تناول فرمایا۔ وہ زہر آلود تھا، چند لقمے کھائے تھے کہ گوشت کی بوٹیاں بول پڑیں کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے نہ کھایئے، میرے اندر زہر ہے۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی تو اس خاتون کو پکڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا کیونکہ اب نہ صرف ارادہِ قتل تھا بلکہ فعلِ قتل تھا، جو معجزانہ طور پر ناکام ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت بشیر بن برائ رضی اللہ عنہ نے بھی وہ گوشت کھایا لیکن موقع پر شہید ہوگئے۔ آقا علیہ السلام شہید نہ ہوئے کیونکہ فرمان باری تعالیٰ والله يعصمک من الناس کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے لے رکھی تھی۔اس عورت کو پکڑ کر لایا گیا کہ سزا دیں لیکن آقا علیہ السلام نے اس کو معاف کر دیا۔
(اخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب المغازی، باب الشاة التی سمت النبی بخيبر، 4 : 1551، رقم : 4003)
٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں آقا علیہ السلام ایک مقام پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ موجود تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے گلے میں ایک کھردری سی سخت قسم کی چادر لپیٹی ہوئی تھی۔ ایک اعرابی آیا، اسے کچھ طلب تھی۔ اس نے اپنی نادانی و جہالت کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چادرکو پکڑ کر اس شدت سے کھینچا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن مبارک پر اس کا زخم آگیا، چادر کھینچ کر کہنے لگا! یامحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں محتاج ہوں۔ میرے گھر والے بھی بھوکے ہیں، پریشان ہیں، میں دو اونٹ لایا ہوں، میرے دونوں اونٹوں کو غلے اور اناج سے بھرکر مجھے واپس بھیجئے۔ اُس کے اس اندازِ طلب کے باوجود آقا علیہ السلام کے چہرہ انور پر ملال اور رنجیدگی کے اثرات نہیں آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اے بندے سب مال اللہ کا ہے اور میں اس کا بندہ ہوں۔
فَضَحِکَ ثُمَّ اَمَرَ لَهُ بِعَطَاءٍ.
’’اور مسکرا پڑے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے مال عطا کرنے کا حکم فرمایا‘‘۔
(البخاری، الصحيح، کتاب الوضوء، باب صب الماء علی البول فی المسجد، 1 / 89، رقم : 219)
اس کی حاجت پوری کرنے کے بعد اس سے سوال کیا کہ یہ بتا:
ويقاد منک يااعرابی مافعلت بی.
جو کچھ تم نے میرے ساتھ کیا ہے؟ کیا خیال ہے اس کا بدلہ لیا جانا چاہئے یا نہیں؟ اس نے کہا : نہیں ہونا چاہئے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا : کیوں نہیں ہونا چاہئے؟ اس نے کہا :
لانک لا تکافی بالسيئة السيئة .(کتاب الشفاء، 1 : 86)
بدلہ نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور اخلاق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برے کاموں کا بدلہ برے کاموں سے نہیں دیتے، برائی کو برائی سے رد نہیں کرتے بلکہ برائی کو اچھائی کے ساتھ رد فرمانے والے ہیں۔ یہ آقا علیہ السلام کی وسعتِ اخلاق، وسعتِ ظرف، عظمتِ شفقت اور عظمت رحمت کا ایک اظہار ہے جس سے روشنی لینے کی ضرورت ہے۔
٭ ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حالات جتنے بھی غصہ دلانے والی ہی کیوں نہ ہوں مگر میں نے پوری عمر یہ ہی دیکھا کہ ہر کیفیت میں آقا علیہ السلام نے عفو و درگزر اور بردباری کا اظہار فرمایا حتی کہ
ماضرب بيده شيئا قط الا ان يحاهد فی سبيل الله وما ضرب خادما قط ولا امراة.
(صحيح مسلم، 4 : 1814، الرقم : 2328)
کبھی بھی کسی کو ہاتھ سے نہیں مارا، سوائے جہاد کی صورت میں اپنے دفاع پر اور نہ عمر بھر کسی خادم اور نہ ہی کسی زوجہ کو مارا۔
لوگ عورتوں کو زمانہ جاہلیت میں بھی مارتے تھے اور آج بھی مارتے ہیں۔Domestic violence عورتوں پر تشدد ہماری سوسائٹی پر بہت بڑا داغ ہے۔ یہ بہت بڑی بدخلقی ہے۔ ہمارے ہاں بسبب جہالت لوگ عورتوں کو مارتے ہیں۔ یاد رکھیں عورتوں کی تذلیل وہی شخص کرتا ہے جو خود ذلیل اور کمینہ ہے اور اپنی بیوی اور عورتوں کو عزت وہی شخص دیتا ہے جو خود باعزت اور کریم ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اُن کا حیا کریں جن کے ساتھ پہلو بہ پہلو رہتے اور زندگی گزارتے ہیں۔ ہم بسا اوقات یہ قربتیں بھول کر ان کو ہاتھوں سے مارتے ہیں۔ یہ باعثِ شرم ہے۔ آقا علیہ السلام نےDomestic Violence کو کلیتاً رد کردیا۔ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پندرہ صدیاں قبل جب سارا معاشرہ ہر طرح کے استحصال سے لبریز تھا، جب غلاموں پر ظلم ہوتے تھے، زنجیروں میں باندھ کر کوڑے مارے جاتے تھے ا س وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غلاموں اور عورتوں پر تشدد سے منع فرمایا جبکہ مغربی دنیا انسانی حقوق کے تحت خواتین پر عدم تشدد کی باتیں آج کررہی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے دس سال حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کی، اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے کبھی اف تک نہیں کہا۔ کسی کام کرنے میں یہ نہیں فرمایا کہ کیوں کیا اور نہ کرنے پر یہ نہیں فرمایا کہ کیوں نہیں کیا۔
(صحيح بخاری، کتاب الادب، باب حسن الخلق، 5 : 2245، الرقم : 5691)
٭ فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاتح کی شان کے ساتھ مکہ شہر میں داخل ہوئے تو وہ کفار مکہ جنہوں نے تلواروں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کرکے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہجرت پر مجبور کیا، مدینہ کے سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعاقب کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مدینہ میں جنگیں مسلط کی تھیں اور لمحہ بہ لمحہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پریشان اور دکھی کیا تھا، سکون اور راحت کی زندگی بسر کرنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ ان کفار و مشرکین کے شہر میں جب فاتح بن کر پہنچے تو وہ لوگ کانپ رہے تھے، انہیں ڈر تھا کہ انتقام لیا جائے گا، ہماری گردنیں کاٹ دی جائیں گی، سزا دی جائے گی، ہمارے مظالم کا بدلہ لیا جائے گا۔ لیکن صورت حال اُن کی سوچوں کے برعکس ہوئی۔ آقا علیہ السلام فتح مکہ کا خطبہ دے رہے ہیں اور اجتماع سے پوچھتے ہیں:
ماتقولون انی فاعل بکم.
اے اہل مکہ! مجھ پر اکیس سال تک ظلم اور جفا کرنے والو! مصائب و آلام کے پہاڑ گرانے والو! آج تم کیا سوچ رہے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟ اس پر وہ جواب دیتے ہیں:
خيراً اخ کريم ابن اخ کريم.
(البيهقی، السنن الکبریٰ، 9،118، رقم : 18055)
ہم خیر کی توقع کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیک اعلیٰ اخلاق والے، شفقت و محبت والے بھائی ہیں اور شفقت و محبت اور بزرگی والے باپ کے بیٹے ہیں۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا جاؤ میں تمہیں وہی کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا :
لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْکُمُ الْيَوْمَط يَغْفِرُ اﷲُ لَکُمْ.
’’جاؤ آج تم پر کوئی گرفت نہیں ہوگی اللہ تمہیں معاف کردے گا‘‘ ۔
(يوسف : 92)
اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اِذْهَبُوْا فَاَنْتُمُ الطَّلَقَاء
اپنے گھروں کو چلے جاؤ آج میں نے تم سب کو معاف کردیا۔
اکیس سال دشمنی مسلط کرنے والی قوم پر جب فتح یاب ہوئے تو آقا علیہ السلام نے ایک کلمہ بھی سخت اور ایک عمل بھی شدت کا اختیار نہیں کیا اور انہیں معاف کردیا۔
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ آقا علیہ السلام ایک مقام پر فجر کی نماز کے بعد بیٹھے تھے کہ کفارو مشرکین کے 80 افراد کا مسلح گروپ آقا علیہ السلام اور صحابہ پر حملہ آور ہوگیا۔ صحابہ کرام نے دفاع کیا، ان سب کو پکڑ لیا اور گرفتار کرکے آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں لے آئے۔ فاعتقہم رسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں معاف فرماتے ہوئے رہا کردیا۔
(مسلم، الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب قول الله تعالیٰ وهوالذی کف ايدی، 3 : 1442، رقم : 1808)
توریت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عفو و درگزر کا بیان
زید بن سعنہ نامی یہودی آقا علیہ السلام کو دیئے گئے قرض کی قبل از وقت واپسی کا مطالبہ لے کر حاضر ہوا۔ اس وقت قرض کی ادائیگی کا اہتمام آقا علیہ السلام کے پاس نہ تھا لیکن وہ یہودی مزید مہلت دینے کے لئے تیار نہ ہوا۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ تم بیٹھ جاؤ میں تمہارے پاس ہی بیٹھا رہوں گا جب تک اللہ تعالیٰ تمہارے قرض کی واپسی کا سامان پیدا نہ فرمادے۔ نماز ظہر کا وقت تھا، اس دن کی ظہر سے لے کر اگلے دن کی فجر تک پانچ نمازوں کا وقت آقا علیہ السلام صرف اس کی تالیف قلب اور اطمینان کے لئے گھر نہ گئے، نہ آرام فرمایا، اس کے پاس بیٹھے رہے تاکہ اس کو یہ وہم نہ ہوکہ مجھے چھوڑ کر جارہے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کو طعن و تشنیع کرنے لگے اور برا بھلا کہنے لگے کہ اس نے کل سے آقا علیہ السلام کو روک رکھا ہے اور انہیں تکلیف میں مبتلا کیا ہے۔ اس پر آقا علیہ السلام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا خبردار میرے رب نے مجھے کسی غیر مسلم پر ظلم کرنے اور زیادتی کرنے سے منع کررکھا ہے۔ اس نے زیادتی کی ہے تو کوئی بات نہیں، میرا اخلاق اور میرا منصب اجازت نہیں دیتا کہ میں اس سے بداخلاقی کروں۔
اس نے آقا علیہ السلام کے جب یہ کلمات سنے اور آپ کا حسن اخلاق اور طرزِ عمل دیکھا تو اسی وقت کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوگیا اور کہا باخدا میں نے جو آپ کے ساتھ سلوک کیا اس کا ایک سبب تھا۔ میں یہودی ہوں، میں نے تورات میں پڑھ رکھا تھا کہ نبی آخرالزماں تشریف لائیں گے۔ ان کا نام محمد بن عبداللہ ہوگا۔ ان کا مولد شہر مکہ ہوگا، ان کی ہجرت گاہ شہر مدینہ ہوگی۔ ان کی حکومت ملک شام کی حدوں تک پھیل جائے گی۔ ان کا کردار یہ ہوگا کہ نہ تو ان کی زبان میں ترشی ہوگی، نہ ان کے دل میں سختی ہوگی، نہ ان کی گفتگو میں کوئی سختی ہوگی، نہ فحش گو ہوں گے، نہ بے ہودہ بات کریں گے، نہ کسی کی زیادتی کا جواب زیادتی سے دیں گے۔ میں نے چونکہ تورات میں یہ اوصاف پڑھے تھے لہذا اس پڑھی ہوئی روایت کا امتحان لینے آیا تھا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہی محمد بن عبداللہ اور وہی رسول آخرالزماں ہیں تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتحان لوں۔ میں نے آپ کو سچا پایا۔ (تبريزی، مشکوٰة المصابيح، 3 : 268، 5832)
اسوہِ حسنہ کی اتباع کا عہد
یہ آقا علیہ السلام کے عفو و درگزر، صبر و استقامت، حلم اور تحمل برداشت اور بردباری کا اظہار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھی اپنے آپ کو ان اخلاق حسنہ سے مزین کریں۔
آقا علیہ السلام کے اخلاق حسنہ سے عمر بھر نہ ہٹنا۔ کوئی جتنی بھی آپ کو گالی دے، برا بھلا کہے مگر آپ گالی کا جواب کبھی گالی سے نہ دیں۔ آپ کو اپنے اخلاق سے کبھی نیچے نہیں اترنا۔ کردار کشی کے جواب میں کسی کی ذاتی کردار کشی نہ کریں۔ بلکہ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا. کے تحت درگزر کریں۔۔۔ دلیل کی بات کو دلیل سے رد کریں مگر ذاتیات پر نہ جائیں۔۔۔ اخلاق سے نیچے نہ اتریں۔۔۔ لغو بات کا جواب نہ دیں۔۔۔ ہر شخص اسی کردار، اخلاق اور دین اسلام کے تقاضوں کا خیال رکھے۔
ہماری زندگی کبھی بھی اسوہِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ سے ہٹ کر نہیں ہونی چاہئے۔ مشن مصطفوی کے حصول کے لئے پرخار راستے آئیں گے، بڑے بڑے مشکلات کے مرحلے آئیں گے، آپ کے صبر کے امتحان ہوں گے، حملے ہوں گے، تہمتیں ہوں گی، کردار کشی ہوگی، ہر روز جھوٹی خبریں چلیں گی۔ ان حالات میں آپ کو صبر، استقامت، تحمل، حلم اور بردباری کا اظہار اسوہ ِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نگاہ کے سامنے رکھ کر کرنا ہوگا۔
آقا علیہ السلام نے جس صبرو تحمل کی تعلیم دی اور جس عظیم صبرو تحمل کا اپنے عمل مبارک سے اظہار کیا اگر ہماری قوم اور معاشرہ اس راہ پر چلے اور ہر شخص اخلاق کا پیکر بننے کی کوشش کرے، عفوو درگزر اپنائے اور تحمل اور بردباری کا راستہ اختیار کرے تو پورے معاشرے میں خیر پیدا ہوسکتی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ گالی کی قوت کے بجائے دلیل کی قوت کو رواج دیں۔۔۔ ہمیں چاہئے کہ تہمت کے طریق بجائے شرافت اور عظمت کی قوت کو رواج دیں۔۔۔ چاہئے کہ بداخلاقی کے بجائے اخلاق کی قوت کو رواج دیں۔۔۔ اسی صورت ہماری قوم اور امت مسلمہ عظمتوں سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔
………………………………………………………….
سیرت النبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر مشہور کتب :
- سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم از شبلی
- الرحیق المختوم
- علم حدیث , فرقہ واریت اورقران – تحقیقی مضامین
- مطالعہ سیرت – سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم : مولانا وحید الدین خان
- پڑھیں : کیا میلاد النبی ﷺ بدعت ہے؟
https://ur.wikipedia.org/wiki/سیرت_نبوی
https://ur.wikipedia.org/wiki/محمد_صلی_اللہ_علیہ_و_آلہ_و_سلم
Read in English : Life of Prophet Muhammad [pbuh] :
The Last Prophet
The Last Prophet for Humanity
محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم
During end of 6th century after Prophet Jesus Christ (peace be upon him), Prophet Muhammad (peace be upon him), was born at Makka in 571 C.E. He was chosen to be the last messenger of God for the guidance of humanity till eternity. He was not from the progeny of Israel (Jacob) but from the progeny of Ishmael, the eldest son of Prophet Abraham (peace be upon him). Ishmael has been mentioned in Bible to be leader of a nation being the seed of Abraham (Genesis;13:18, 16:12, 17:20). Prophet Muhammad (peace be upon him), was chosen by God to revive the original faith of Abraham(peace be upon him) in its true form, for the humanity, which over the time had been distorted and corrupted by the decedents of Prophet Israel (Jacob) and followers of Prophet Jesus (peace be upon them). Prophet Muhammad (peace be upon him) was sent as the fulfillment of prayer, of Prophet Abraham and Ishmael, who while raising the foundations of House of Lord (Kabah) around 1800 B.C, had prayed: “Our Lord! send amongst them a Messenger of their own, who shall rehearse Thy Signs to them and instruct them In Scripture and Wisdom, and sanctify them: for Thou art the Exalted In Might, the Wise.” (Qur’an;2:129). Keep reading ..[…….]
… https://www.youtube.com/playlistlist ….