مضامین قرآن کا مکمل خلاصہ اور منتخب آیات کا ترجمہ
انڈکس خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 1 سے # 30 تک/ [English Translation —[—]
مضامین قرآن کا مکمل خلاصہ (30 پارے )
انڈکس خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 1 سے # 30 تک https://bit.ly/Quran30Par…
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 1
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 2
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 3
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 4
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 5
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 6
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 7
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 8
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 9
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 10
- https://bit.ly/Quran30ParahSummary
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 11
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 12
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 13
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 14
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 15
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 16
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 17
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 18
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 19
- https://bit.ly/Quran30ParahSummary
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 20
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 21
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 22
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 23
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 24
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 25
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 26
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 27
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 28
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 29
- خلاصہ قرآن و منتخب آیات – پارہ # 30
- https://bit.ly/Quran30ParahSummary
- مضامین قرآن ، ٧٠ سے زیادہ اہم مضامین کا خلاصہ
- احکام القرآن https://bit.ly/AhkamAlQuraan
ویب بک Webook
خلاصہ بشکریہ : علامہ ابتسام الہی ظہیر
منتخب آیات ، ترتیب و تدوین : بریگیڈیئر آفتاب احمد خان
https://bit.ly/3cwEug6 , https://bit.ly/3aj1A8b
Khulasa e Quran in Ramadan
اللہ کا شکر ہے ہم کو پھر رمضان مبارک کا مہینہ عطا کیا، اللہ ہم سب کو اس مہ مبارک کی فضیلتوں سے مکمل فایدہ اٹھانے کی توفیق دے آمین- صلات تراویح یا قیام اللیل میں خطیب و حفاظ مکمل قرآن کی تلاوت کرتے ہیں-اگرچہ مسلمان خود انفرادی طور پر بھی قرآن پڑھتے ہیں مگر تراویح کا اپنا ہی رتبہ ہے- قیامِ لیل، یعنی تراویح میں تلاوتِ قرآن، قرآن کی سماعت و قراء ت، قرآن سے شغف اور استفادے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ قرآن بغیر سمجھے پڑھنا اور سننا بھی باعثِ اجروثواب اور قلب کو گرمانے کا وسیلہ ہے، لیکن اسی پر اکتفا کرنا ہرگز صحیح نہیں ہے۔ اکثریت عربی سے نابلد ہونے کی وجہ سے قران کو سمجھ نہیں سکتے مگر تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر تراویح سے پہلے پانچ دس منٹ میں مختصر طور پر پارہ کا خلاصہ بیان کر دیں تو مبتدی زیادہ توجہ سے تلاوت قرآن کو کچھ سمجھ سکتے ہیں- اکثر مساجد میں یہ اہتمام کیا جاتا ہے- اس سے قرآن کو سمجھنے کا فایدہ اور ثواب بھی ہو گا- کہیں تراویح دے پہلے اور کہیں تراویح کے بعد علماء کرام خلاصہ پیش کرتے ہیں- کچھ لوگ اس کو بدعت قرار دے کر ایسا نہیں کرتے- مساجد میں اکثر نماز مغرب یا عشاء کے بعد درس قرآن ہوتا ہے ، کیا یہ بدعت ہے؟
ہم جانتے ہیں کہ نماز تراویح کو جب حضرت عمر رضی اللہ نے قایم کیا تو اس کو ” بدعت حسنہ” قرار دیا- کچھ لوگ تو نماز تراویح کو ہی بدعت قرار دے کر مخالفت کرتے ہیں- یہ ایک لمبی نہ ختم نونے والی بحث ہے-
رمضان کی برکات کا زیادہ فائدہ اٹھانے کے اپنی مسجد میں تجویز دیں کہ مسجد میں تراویح سے پہلے یا بعد میں تلاوت والے پارہ کا مختصر خلاصہ پیش کر دے جائے-
مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا (النسا،85)
ترجمہ : جو بھلائی کی سفارش کریگا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا، اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے (قرآن ;4:85)
تراویح میں تلاوت قرآن پاک توجہ سے سماعت کریں، پارہ ترجمہ کے ساتھ پڑھ کر جاییں اور مغرب کے بعد اس دن کے پارہ کا خلاصہ پڑھ کر جاییں. امید ہے آپ تلاوت قرآن کو بہتر سمجھ سکیں گے. انشا اللہ –
اس رمضان میں قرآن کو سمجھنے کے لیے:
6. قرآن مجید کی ایک ’پرندوں کی آنکھ‘ کا خلاصہ حاصل کرنے کے لئے سارا سال پڑھیں-
7.دعوہ کےطور پر ساتھی مسلمانوں اور غیر مسلموں کو مرکزی خیال کی ایک جھلک دکھائیں تاکہ وہ قرآن مجید کا
موضوع اور اسلوب سمجھ سکیں اور مکمل قرآن پڑھنے کا شوق پیدا ہو-
تعارفی مضامین
احکام القرآن https://bit.ly/AhkamAlQuraan
رمضان سے بھرپور فوائد کیسے حاصل کریں – ایک <<مختصر گائیڈ>>
تراویح کی اہمیت اور قرآن کریم کے تیس پاروں کا <<مختصر خلاصہ>>
دسرے دن جب آپﷺ مسجد میں آئے تو گزشتہ رات سے زیادہ لوگ جمع تھے۔ تیسرے دن یہ تعداد اور بڑھ گئی۔ چوتھے دن یہ معاملہ ہوا کہ مسجد نمازیوں سے بھر گئی اور اس میں گنجائش ختم ہوگئی۔ اُس دن آپﷺ حجرے سے باہر تشریف نہیں لائے۔ صحابہ انتظار کرتے رہ گئے۔ فجر کی نماز کے بعد آپ نے صحابہ سے خطاب کیا کہ میں تمہارے آنے سے بے خبر نہیں تھا لیکن اس خیال سے نہیں آیا کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ ہو جائے اور تم اسے ادا نہ کر سکو۔
رسالت مآبﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں یہی تین دن ہیں جب آپ نے رمضان میں کوئی نفلی نماز باجماعت ادا کی گئی۔ اس کے بعد لوگ گھروں اور مسجد میں انفرادی طور پر پڑھتے رہے۔ سیدنا ابوبکرؓ کے دور میں بھی صحابہ کا یہی طرزِ عمل رہا۔ سیدنا عمرؓ اپنے دورِ خلافت میں ایک دن مسجد آئے تو دیکھا کہ کوئی باجماعت نماز پڑھ رہا ہے اور کوئی انفرادی طور پر۔ کوئی جہری اور کوئی سری۔ اس سے مسجد میں ایک بد نظمی کی صورت پیدا ہو گئی۔ اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے حضرت عمرؓ نے صحابہ سے کہا کہ وہ کسی ایک کو امام بنا کر ایک ساتھ پڑھ لیں تاکہ مسجد میں ایک نظم پیدا ہو جائے۔
سیدنا عمرؓ نے خود ہی حضرت ابی بن کعبؓ کو امام بھی مقرر فرما دیا۔ ایک اور دن پھر، جب آپ تشریف لائے تو دیکھا کہ مسجد میں ایک نظم ہے اور سب باجماعت نماز پڑھ رہے ہیں۔ اس پر آپؓ نے تبصرہ کیا کہ یہ (باجماعت نماز) ایک نئی چیز (بدعت) تو ہے لیکن اچھی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ وہ جسے چھوڑ کر (یعنی تہجد جو انفرادی عبادت ہے)، تم یہ پڑھ رہے ہو، اِس( باجماعت) سے افضل ہے (بخاری)۔ حضرت عمرؓ خود اس باجماعت نماز میں شریک نہیں ہوئے۔
آ نے والے دنوں میں اسی طریقے کو اختیار کر لیا گیا‘ یعنی رمضان کے دنوں میں یہ نماز باجماعت نماز پڑھی جانے لگی۔ اب صدیوں سے یہ نماز اسی طرح پڑھی جا رہی ہے۔ بعد کے ادوار میں اس کا اہتمام بھی ہونے لگا کہ ان نوافل میں پورا قرآن پڑھا اور سنا جائے۔ پھر بات شبینے تک چلی گئی۔ شہروں میں بڑے بڑے اجتماعات ہونے لگے اور محض تین دن میں پورا قرآن پڑھا اور سنا جانے لگا۔ اگلے مرحلے میں اس نماز کو جامع مساجد سے ٹیلی وژن کے ذریعے گھر گھر دکھایا جانے لگا۔ یہ اس نماز کا پورا پس منظر ہے جسے ہم نمازِ تراویح کہتے ہیں۔ تراویح کا لفظ عہدِ رسالت میں مستعمل نہیں تھا اس لیے احادیث میں اس کا ذکر نہیں ملتا۔ اس سے چند باتیں پوری طرح واضح ہیں۔
1۔ تراویح کی نماز کوئی سنت نہیں ہے۔ سنت اس عمل کو کہتے ہیں جو رسالت مآبﷺ نے بطور دین امت میں رائج کیا۔ آپ نے اس کا حکم دیا۔ صحابہ نے اس پر عمل کیا۔ یہ واضح ہے کہ حضورﷺ نے خود باجماعت نمازِ تہجد پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔ نہ صرف حکم نہیں دیا بلکہ زبانِ حال سے روک دیا۔ اس کی وجہ بھی بیان فرما دی۔ اس لیے یہ اصطلاحاً سنت نہیں ہے۔
2۔ یہ خلفائے راشدین کی سنت بھی نہیں۔ جس عمل میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ شریک نہ ہوں اور حضرت عمرؓ بھی انفرادی حیثیت میں اس کا حصہ نہ بنیں، اسے خلفائے راشدین کی سنت کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟
3۔ یہ اصلاً نمازِ تہجد ہے جسے نمازِ عشا کے ساتھ بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔ جو لوگ تہجد کے لیے اٹھ نہیں سکتے ان کے لیے اللہ کے رسولﷺ نے یہ آسانی پیدا کی کہ وہ سونے سے پہلے پڑھ لیں اور اسے وتر کر لیں۔ عشا کی نماز کے ساتھ جو وتر پڑھے جاتے ہیں، یہ اسی تہجد کا حصہ ہیں کیونکہ نمازِ تہجد آپ نے طاق رکعات میں ادا کی۔ رسالتﷺ کا معمول تھا کہ آپ گیارہ رکعات ادا فرماتے۔ وتر کا مطلب ہوتا ہے، طاق بنانا۔
4۔ باجماعت کے مقابلے میں، اسے انفرادی طور پر رات کے پچھلے پہر پڑھنا افضل ہے۔ سیدنا عمرؓ نے اسے واضح الفاظ میں بیان کر دیا۔ باجماعت کے حق میں دلیل یہ ہے کہ اسے ایک بار نبیﷺ نے باجماعت پڑھا اور پھر امت نے اس کو اجماعی طور پر قبول کر لیا۔ میرے نزدیک یہ اس کے جائز ہونے کی دلیل تو ہو سکتی ہے، وجوب یا افضل ہونے کی نہیں۔
کورونا نے آج یہ موقع پیدا کردیا ہے کہ لوگ قیامِ لیل کی افضل صورت کی طرف لوٹ جائیں۔ یعنی انفرادی طور پر گھروں میں تہجد ادا کریں۔ عبادت اپنے حقیقی مفہوم میں انفرادی ہوتی ہے۔ حج اور باجماعت فرض نماز کے علاوہ ساری عبادات انفرادی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرد انفرادی حیثیت میں رب کے حضور میں جواب دہ ہے۔ عبادت تزکیہ نفس کے لیے اور رب کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرنے کے لیے ہے۔
لوگوں کے لیے موقع ہے کہ وہ تہجد اور اعتکاف سے رمضان کے برکات میں اضافہ کریں۔ میرا احساس ہے کہ ہمارے ہاں ہر عبادت کو اجتماعی بنانے کا رجحان اب بڑھ رہا ہے۔ پہلے تہجد باجماعت ہوئی، اب لوگوں نے اعتکاف کو بھی باجماعت بنا لیا جو اعتکاف کی روح ہی کے خلاف ہے۔
مراقبہ، تنہائی میں اپنے رب سے مکالمہ، تلاوت، نوافل، تسبیح و مناجات، واقعہ یہ ہے کہ اس سے بہتر تزکیہ نفس کا کوئی نصاب نہیں ہو سکتا۔ رمضان ہمیشہ اس کا موقع فراہم کرتا ہے‘ جسے ہم اجتماعیت کے چکر میں ضائع کر دیتے ہیں۔ اس بار تو کورونا نے رجوع الی اللہ کے امکان کو بڑھا دیا ہے۔ آفات تو ویسے ہی اپنے رب کی طرف متوجہ کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اس لیے اس موقع سے فائدہ اٹھائیے اور گھروں کو اپنی نمازوں سے آباد کیجیے۔
علما کو بھی چاہیے تھا کہ وہ لوگوں کو اس جانب متوجہ کرتے۔ وہ انہیں بتاتے کہ یہ اصلاً نمازِ تہجد ہے اور اسے انفرادی طور پڑھنا افضل ہے‘ لہٰذا اس سال لوگ گھروں میں اس کا اہتمام کریں۔ وہ اس کے برخلاف باجماعت تراویح پر اصرار کر رہے ہیں۔ کورونا نے تذکیر کا ایک سنہری موقع فراہم کیا تھا، افسوس کہ یہ موقع گروہی مفادکی نذر ہوگیا۔ عبادت کوبھی متنازعہ بنا دیا گیا۔ [خورشید ندیم،دنیانیوز]
Source: https://jamaat.org/ur/articledetail.php?id=3450
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے …‘‘(رواہ حضرت علیؓ، ماخوز، ترمذی 2906)
“اللہ کی کتاب میں ہدایت اور نور ہے، جو اسے پکڑے گا وہ ہدایت پر رہے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ گمراہ ہوجائے گا۔” (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6227)
میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستہ سے میرے بعد صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا (ماجہ 43)
خطبہ حج الوداع ہزاروں مومنین ۓ سنا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“… اور تمہارے درمیان چھوڑے جاتا ہوں میں ایسی چیز کہ اگر تم اسے مضبوط پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہو اللہ کی کتاب….[ صحیح مسلم 2950، [ابی داوود 1905]
نبی کریم ﷺ نے کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامے رہنے کی وصیت فرمائی تھی(قَالَ: أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ.) ۔ (البخاری: حدیث نمبر: 5022)
Digital Book (Over 520 Pages A-5) OR https://bit.ly/AhkamAlQuran-pdf
حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قرآن سیکھو اور پھر اسے پڑھو اور یہ یاد رکھو کہ اس شخص کی مثال جو قرآن سیکھتا ہے پھر اسے ہمیشہ پڑھتا رہتا ہے اس پر عمل کرتا ہے اور اس میں مشغولیت یعنی تلاوت وغیرہ کے شب بیداری کرتا ہے اس تھیلی کی سی ہے جو مشک سے بھری ہو جس کی خوشبو تمام مکان میں پھیلتی ہے اور اس شخص کی مثال جس نے قرآن سیکھا اور سو رہا یعنی وہ قرآن کی تلاوت قرأت شب بیدار سے غافل رہا یا اس پر عمل نہ کیا اس تھیلی کی سی ہے جسے مشک پر باندھ دیا گیا ہو۔ (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ) (مشکوٰۃ المصابیح: حدیث نمبر: 2152)
حضرت علی مرتضی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے ایک دن فرمایا:
“آگاہ ہو جاؤ ایک بڑا فتنہ آنے والا ہے۔”
میں نے عرض کیا:
“یا رسول اللہ! اس فتنہ کے سر سے بچنے اور نجات پانے کا ذریعہ کیا ہے؟
” آپ ﷺ نے فرمایا:
1۔ “کتاب اللہ، اس میں تم سے پہلے امتوں کے (سبق آموز) واقعات ہیں اور تمہارے بعد کی اس میں اطلاعات ہیں، (یعنی اعمال و اخلاق کے جو دنیوی و اخروی نتائج و ثمرات مستقبل میں سامنے آنے والے ہیں، قرآن مجید میں ان سب سے بھی آگاہی دے دی گئی ہے)
2۔ اور تمہارے درمیان جو مسائل پیدا ہوں قرآن میں ان کا حکم اور فیصلہ موجود ہے (حق و باطل اور صحیح و غلط کے بارے میں)*
3۔ وہ قول فیصل ہے، وہ فضول بات اوریا وہ گوئی نہیں ہے۔
4۔جو کوئی جابر و سرکش اس کو چھوڑے گا (یعنی غرور و سرکشی کی راہ سے قرآن سے منہ موڑے گا) اللہ تعالیٰ اس کو توڑ کے رکھ دے گا
5۔ اور جو کوئی ہدایت کو قرآن کے بغیر تلاش کرے گا اس کے حصہ میں اللہ کی طرف سے صرف گمراہی آئے گی (یعنی وہ ہدایتِ حق سے محروم رہے گا)
6۔قرآن ہی حبل اللہ المتین یعنی اللہ سے تعلق کا مضبوط وسیلہ ہے، اور محکم نصیحت نامہ ہے، اور وہی صراطِ مستقیم ہے۔
7۔ وہی وہ حق مبین ہے جس کے اتباع سے خیالات کجی سے محفوظ رہتے ہیں اور زبانیں اس کو گڑ بڑ نہیں کر سکتیں (یعنی جس طرح اگلی کتابوں میں زبانوں کی راہ سے تحریف داخل ہو گئی اور محرفین نے کچھ کا کچھ پڑھ کے اس کو محرف کر دیا اس طرح قرآن مین کوئی تحریف نہیں ہو سکے گی، اللہ تعالیی نے تا قیامت اس کے محفوظ رہنے کا انتظام فرما دیا ہے)
8۔ اور علم والے بھی اس کے علم سے سیر نہیں ہوں گے (یعنی قرآن میں تدبر کا عمل اور اس کے حقائق و معارف کی تلاش کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا اور کبھی ایسا وقت نہیں آئے گا کہ قرآن کا علم حاصل کرنے والے محسوس کریں کہ ہم نے علم قرآن پر پورا عبور حاصل کر لیا اور اب ہمارے حاصل کرنے کے لئے کچھ باقی نہیں رہا، بلکہ قرآن کے طالبین علم کا حال ہمیشہ یہ رہے گا کہ وہ علم قرآن میں جتنے آگے بڑھتے رہین گے اتنی ہی ان کی طلب ترقی کرتی رہے گی اور ان کا احساس یہ ہو گا کہ جو کچھ ہم نے حاصل کیا ہے وہ اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہے جو ابھی ہم کو حاصل نہیں ہوا ہے)
9۔ اور وہ قرآن کثرت مزاولت سے کبھی پرانا نہیں ہو گا (یعنی جس طرح دنیا کی دوسری کتابوں کا حال ہے کہ بار بار پڑھنے کے بعد ان کے پڑھنے میں آدمی کو لطف نہیں آتا، قرآن مجید کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے وہ جتنا پڑھا جائے گا اور جتنا اس میں تفکر و تدبر کیا جائے گا اتنا ہی اس کے لطف و لذت میں اضافہ ہو گا)
10۔ اور اس کے عجائب (یعنی اس کے دقیق و لطیف حقائق و معارف) کبھی ختم نہیں ہوں گے۔
11۔قرآن کی یہ شان ہے کہ جب جنوں نے اس کو سنا تو بےاختیار بول اٹھے۔
إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ (الجن، 1،2:72)
ہم نے قرآن سنا جو عجیب ہے، رہنمائی کرتا ہے بھلائی کی، پس ہم اس پر ایمان لے آئے۔
12، جس نے قرآن کے موافق بات کہی اس نے سچی بات کہی،*
13۔ اور جس نے قرآن پر عمل کیا وہ مستحقِ اجر و ثواب ہوا*
14۔ اور جس نے قرآن کے موافق فیصلہ کیا اس نے عدل و انصاف کیا*
15۔اور جس نے قرآن کی طرف دعوت دی اس کو صراطِ مستقیم کی ہدایت نصیب ہو گئی۔*
(ترجمہ : جامع ترمذی، سنن دارمی) (معارف الحدیث، حدیث نمبر: 1084)