ابھی محمدفتح اللہ کی عمربیس سال بھی نہ ہوئی تھی کہ انہوں نے ترکی کے انتہائی مشرق میں واقع ارضروم شہرکوخیرآبادکہہ کرادرنہ کارخ کیا،جوترکی کامغربی دروازہ سمجھاجاتاہے۔یہاں انہیں جامع مسجد’’اُچ شرفلی‘‘کا امام مقررکردیاگیا۔انہوں نے اڑھائی سال اسی مسجدمیں انتہائی زہداور مجاہدے سے گزارے۔انہوں نے مسجدمیں ہی مستقل قیام کوترجیح دی اور وہ بغیرضرورت کے باہرنہ نکلتے۔ مسجد میں رات گزارنے کاکوئی مناسب بندوبست نہ تھا،اس لئے انہیں مجبوراًمسجدکے صحن کے فرش پر ہی ایک کونے میں اپنامختصرسابستربچھاکررات گزارنی پڑتی تھی۔
شیخ محمد فتح اللہ گولن کی عظیم خدمات کی بدولت ایک نئے دورکاآغازہورہاہے اورہر صاحب نظرآپ کی طرف متوجہ ہونے پرمجبورہے،لیکن اس کے باوجودآپ اپنی تعریف اوراپنی طرف قیادت کے انتساب کوپسند نہیں کرتے۔آپ کی جائے پیدائش اناطولیہ میں واقع ایک چھوٹی سی بستی ہے،جس میں سال کے نوماہ موسم سرما رہتاہے۔اس بستی کانام کوروجک ہے،جو صوبہ ارضروم کے شہر’حسن قلعہ‘کاایک نواحی علاقہ ہے ۔اس بستی کی آبادی ساٹھ سترگھرانوں سے زائدنہیں۔ آپ کے آباواجداد‘‘اخلاط’’ نامی تاریخی گاؤں سے ہجرت کرکے یہاں آئے تھے۔ ‘‘اخلاط’’ صوبہ بتلیس میں پہاڑوں کے دامن میں واقع ایک چھوٹاساگاؤں تھا۔رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) کی آل میں سے بعض حضرات امویوں اور عباسیوں کے ظلم وستم سے بچنے کے لئے وادی بتلیس کے علاقے کی طرف آئے اوراس علاقے کے لوگوں کے روحانی پیشوابن گئے،جس کے نتیجے میں اس علاقے کے ترک قبائل کے دلوں میں اسلامی روح جاگزیں ہوگئی۔
محمدفتح اللہ گولن نے ایک ایسے گھرانے میںآنکھ کھولی،جس کے اطراف میں اسلامی روح کی کرنیں پھیلی ہوئی تھیں۔آپ کے والداوروالدہ دونوں دین کی گہری بصیرت کے حامل تھے۔آپ کے دادا‘‘شامل آغا’’عزت ووقاراوردینی مضبوطی کانمونہ تھے،جن کااپنے پوتے کے ساتھ مضبوط روحانی اورقلبی تعلق تھا۔آپ کے والد’’رامزآفندی‘‘اس مشکل اوربے ثمردورمیں بھی علم وادب،دین داری اورذہانت کے لحاظ سے معروف شخصیت تھے۔وہ اپناوقت صرف فائدہ مند کاموں میں صرف کرتے اورجودوسخامیں معروف تھے۔آپ کی دادی‘‘مونسہ خانم’’ دینی تشخص اورتعلق مع اللہ کی وجہ سے مشہورتھیں۔ان کی پرہیزگاری کی جھلک ان کے مشاغل اورکاموں میں واضح طورپرنظرآتی تھی۔
آپ کی نانی‘‘خدیجہ خانم’’ پاشاخاندان سے تعلق رکھتی تھیں اوروقار،رحم دلی اورادب و احترام کا پیکرتھیں۔آپ کی والدہ‘‘رفیعہ خانم’’بستی کی عورتوں کوقرآن کریم پڑھایاکرتیں اور رحمدلی،شفقت اورنیکی سے لگاؤکی وجہ سے مشہورتھیں۔
شیخ محمدفتح اللہ گولن نے ایسے عظیم گھرانے میں پرورش پائی،یہی وجہ تھی کہ انہوں نے چاربرس سے بھی کم عمرمیں اپنی والدہ سے قرآن کریم سیکھناشروع کردیاتھااورصرف ایک ماہ میں قرآن کریم ختم کرلیا۔آپ کی والدہ آدھی رات کواٹھتیں اورآپ کوبیدارکرکے قرآن کریم سکھاتیں۔جس گھرانے میں آپ نے پرورش پائی وہ اس علاقے کے معروف علمائے کرام اور صوفیائے عظام کی زیارتوضیافت گاہ تھا۔آپ کے والد ‘‘رامزآفندی’’ علماء اوران کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کوبہت پسندفرماتے اوران کی خواہش ہوتی کہ روزانہ کم ازکم کسی نہ کسی عالم کی ضرور ضیافت کریں،اس طرح محمدفتح اللہ گولن کوبچپن ہی سے بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا اورانہوں نے اپنے آپ کوابتدائے عمرہی سے علم وتصوف کی آماجگاہ میں پایا۔جن علمائے کرام سے آپ متاثرہوئے ان میں سب سے نمایاں شخصیت شیخ محمدلطفی آلوارلی کی تھی۔آپ ان سے اس قدرمتاثر ہوئے کہ ان کے منہ سے نکلنے والی ہربات کوکسی دوسرے جہان سے واردہونے والے الہامات سمجھتے۔آپ شیخ محمدلطفی آلوارلی کی شخصیت سے کس قدرمتاثرہوئے،اس کااندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ اتنے سال گزرجانے کے باوجودآپ ہمیشہ ان کاتذکرہ کرتے رہتے ہیں اورکہاکرتے ہیں:‘‘میں اپنے جذبات، احساسات اوربصیرت میں بڑی حدتک ان سے سنی ہوئی باتوں کااحسان مندہوں۔‘‘
شیخ محمدفتح اللہ گولن نے عربی اورفارسی زبان سیکھنے کاآغازاپنے والدماجدسے کیا،جو کتب بینی میں مستغرق رہتے،ہروقت چلتے پھرتے قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہتے اورعربی و فارسی کے اشعارگنگناتے رہتے تھے۔آپ کے والدنبی کریم (صلى الله عليه و سلم) اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے عشق کی حدتک محبت کرتے تھے۔وہ صحابہ کرام کے حالات زندگی سے متعلق کتابوں کا اس کثرت سے مطالعہ کرتے کہ وہ کثرتِ مطالعہ کی وجہ سے بالکل بوسیدہ ہوجاتیں۔آپ کے والدکاایک اہم کارنامہ یہ تھاکہ انہوں نے نبی کریم (صلى الله عليه و سلم) اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت کابیج اپنے بیٹے کے دل میں بودیا۔محمدفتح اللہ کے والد’’رامزآفندی‘‘ نے آپ کواپنی میراث میں نبی کریم (صلى الله عليه و سلم) اورصحابہ کرام کے ساتھ جومحبت اورتعلق عطاکیاتھا،اسے سمجھے بغیرآپ کی شخصیت کوسمجھناممکن نہیں۔ اب یہ انتہائی دشوارہے کہ آپ کی کوئی نظیردیکھی جائے یاکسی ایسے شخص کاذکرکیا جائے جسے نبی کریم (صلى الله عليه و سلم) اوران کے صحابہ کرام کے ساتھ ایسالگاؤہوکہ جب بھی اس کی زبان پر ان کاتذکرہ آئے تواس کی آنکھیں اشک باراوردل بے چین ہوجائے۔
ابتدائی تعلیم اورنفسیاتی پس منظر
تقدیرنے محمدفتح اللہ گولن کی تمام باطنی صلاحیتوں کواچھی طرح اجاگرکرنے کے لئے انہیں معتدل اورمتوازن ماحول میں پروان چڑھایا۔اگرچہ آپ کی فطری صلاحیتیں باطنی قوت، چاق وچوبندطبیعت، جرات و شجاعت،عمدہ انتظامی لیاقت،تاریخ پرگہری نظراورولولے سے لبریز دل کی صورت میں خوب اجاگرہوچکی تھیں اوران کی نشوونماایک محبت وشفقت کے پیکراوراپنے خاندان اوررشتہ داروں سے گہری وابستگی کے حامل شخص کی صورت میں ہوئی،تاہم آپ کواپنی انتہائی حساس طبیعت اوراپنے عزیزواقارب کے ساتھ گہری وابستگی کی وجہ سے قلبی طورپر بہت سی تکالیف بھی اٹھانی پڑیں،کیونکہ آپ کے والدماجداپنے بعض دوستوں کی بے وفائی اور ظلم کا نشانہ بنے اورانہیں اپنے خاندان کی نقل مکانی کادکھ جھیلناپڑاپھرمختصرسے عرصے میں اپنے بھائی، دادااور دادی کی وفات کی وجہ سے آپ کے دلِ ناتواں پربے شمارغم آپڑے،ان سب مصائب اورصدموں نے آپ کے دل پرگہرازخم لگایا،جس کی وجہ سے عین ممکن تھاکہ حالات کی ستم ظریفی آپ کوایک صوفی درویش بناڈالتی،تاہم قدرت نے جہاںآپ کی دینی مدرسے(جہاں سے آپ نے دینی علوم حاصل کیے)کی طرف راہنمائی کی،وہیںآپ کوخانقاہ(جہاںآپ نے روحانی تربیت پائی) کاراستہ بھی دکھایا۔
اس کے ساتھ ساتھ آپ نے رسمی علوم اورفلسفے پربھی توجہ دی، چنانچہ تعلیم کاجو سلسلہ آپ نے اپنے والدکے گھرمیں شروع کیاتھا،وہ ارضروم شہرآکربھی جاری رہا،نیزآپ نے جوروحانی تربیت سب سے پہلے اپنے گھرمیں حاصل کی تھی،وہ محمدلطفی آفندی کی خانقاہ میں بھی جاری رہی،یہی وجہ ہے کہ آپ کاروحانی تربیت کے ساتھ تعلق کبھی منقطع نہیں ہوا، بلکہ اسلامی علوم کی تحصیل کے پہلوبہ پہلو عمربھرجاری رہا۔آپ نے اپنے علاقے کے مشہور علماء سے دینی علوم حاصل کیے،جن میں سب سے نمایاں شخصیت عثمان بکتاش کی ہے، جواپنے وقت کے چوٹی کے فقہاء میں شمارہوتے تھے۔ آپ نے ان سے نحو، بلاغت، فقہ، اصولِ فقہ اورعقائدکی کتابیں پڑھیں۔
زمانہ طالب علمی ہی میں آپ کی رسائل نوراورطلبۂ نورکی تحریک سے شناسائی ہوگئی۔یہ ایک ہمہ گیر احیائی اورتجدیدی تحریک تھی،جس کی بنیادحضرت بدیع الزمان سعیدنورسی نے بیسویں صدی کے دوسرے ربع میں رکھی تھی۔
عمرمیں پختگی،دینی مدارس اورخانقاہوں سے اپنے حصے کے علوم وفیوض حاصل کرنے اور رسائل نور جوبذات خودایک ہمہ گیرمعاصردینی مکتب فکرکی حیثیت رکھتے ہیں،سے آشنائی کی وجہ سے آپ کی تمام خداداد صلاحیتیں اورقابلیتیں نکھر کرسامنے آگئیں۔
مزیدبرآں آپ نے ان رسمی علوم کوپڑھنے اورسیکھنے کاسلسلہ بھی جاری رکھاجوآپ نے سرکاری درسگاہوں سے حاصل کیے تھے،جس کے نتیجے میں آپ کوان علوم کے اصول ومبادی کے بارے میں ٹھوس معلومات حاصل ہوگئیں۔اس کے ساتھ ساتھ آپ نے نہ صرف البرٹ کامو (Albert Camus) سارتر(Sartre)اورمارکوس (Marcos)وغیرہ وجودی فلاسفہ کی تصنیفات کابغورمطالعہ کیا،بلکہ مشرق و مغرب کے دیگرفلسفیانہ افکارکے اصل سرچشموں سے بھی واقفیت حاصل کی۔خلاصہ یہ کہ انسب عوامل اورحالات نے مل کرشیخ فتح اللہ کی شخصیت کی تعمیرمیں کلیدی کرداراداکیاہے۔
شیخ فتح اللہ
ابھی محمدفتح اللہ کی عمربیس سال بھی نہ ہوئی تھی کہ انہوں نے ترکی کے انتہائی مشرق میں واقع ارضروم شہرکوخیرآبادکہہ کرادرنہ کارخ کیا،جوترکی کامغربی دروازہ سمجھاجاتاہے۔یہاں انہیں جامع مسجد’’اُچ شرفلی‘‘کا امام مقررکردیاگیا۔انہوں نے اڑھائی سال اسی مسجدمیں انتہائی زہداور مجاہدے سے گزارے۔انہوں نے مسجدمیں ہی مستقل قیام کوترجیح دی اور وہ بغیرضرورت کے باہرنہ نکلتے۔ مسجد میں رات گزارنے کاکوئی مناسب بندوبست نہ تھا،اس لئے انہیں مجبوراًمسجدکے صحن کے فرش پر ہی ایک کونے میں اپنامختصرسابستربچھاکررات گزارنی پڑتی تھی۔
پھرجب عسکری خدمات سر انجام دینے کاوقت آیاتوآپ نے ماماک اوراسکندرون کے مقام پریہ خدمات سرانجام دیں اورپھرادرنہ اورادرنہ سے’’ کرکلارألی‘‘ کی طرف لوٹ آئے۔جب آپ ادرنہ میں مقیم تھے تووہاں کے لوگ آپ کوارضرومی شیخ کے نام سے پکارتے تھے،لیکن جب آپ ارضروم آئے تو لوگوں نے آپ کوادرنلی شیخ کہناشروع کردیا،تاہم جب آپ نے ازمیرمیں سکونت اختیار کی توشیخ فتح اللہ کے نام سے مشہورہوگئے۔
آپ نے اپنے کام کاآغازازمیرکی جامع مسجد’’کستانہ بازاری‘‘ سے ملحق ’’مدرسہ تحفیظ القرآن‘‘ سے کیا اورپھرایک چلتے پھرتے واعظ کے طورپرکام کرنے لگے،چنانچہ آپ نے مغربی اناطولیہ کے سارے گردونواح کادورہ کیااورپھر۱۹۷۰ ء کے آغازمیں تربیتی کیمپ لگاناشروع کیے۔ یہ وہ زمانہ تھاجب آپ نے لوگوں کی اطاعت و عبادت کے مطابق تربیت کرکے اپنے آپ کواپنے پروردگار،دین،وطن اورانسانیت کی خدمت کے لئے وقف کردیاتھا،چنانچہ لوگوں کی ذہن،دل اور پوشیدہ باطنی احساسات یہاں آکرمعرفت کے گہرے معانی سے آشنا ہوتے،گویالوگ موت کی مدہوشی سے بیدارہورہے ہوں اورطویل ماضی کے بعدانہیں نئے سرے سے اٹھایاجارہاہو… آپ وہ شہسوارتھے جس کے کارناموں کی آپ کئی بار منظرکشی اوراس کے اعلی اوصاف کااپنے اشعاراورمقالات میں تذکرہ کرچکے تھے…وہ شہسوارکہ جس کے غم میںآپ نے مرثیے پڑھے اور آنسوبہائے…ایساشہسوار جوتیزدکھ بھری نظراورفکرمندوغمزدہ دل کامالک تھا، جس کی منظرکشی آپ نے کچھ اس طرح کی تھی کہ وہ شدیدتھکن کے باوجوداپنے سیاہی مائل گھوڑے پرسوارہوکردامن کوہ پرچڑھ رہاہوتا ہے کہ اچانک شدتِ تکان سے اُس کے گھوڑ ے کے دل کی حرکت بندہوجاتی ہے اوروہ اپنے گھوڑے سے زمین پرآگرتاہے۔لوگ اس کے گردجمع ہو جاتے ہیں اوراس پر کنکریوں اورپتھروں کاڈھیرلگادیتے ہیں تاکہ وہ وہاں سے کبھی نہ اٹھ سکے… آپ ایک ایسے شہسوارتھے جس کے سینے میں آتش فشاں ابل رہے تھے اور اس کی روح،دل اور نفس غموں،دکھوں اورگہرے جذبات کی وجہ سے مدہوش ہوچکا تھا…گویاوہی شہسوارلوٹ آیاہے… لیکن اس مرتبہ اس نے فولاد کی تلواراٹھارکھی ہے اورنہ ہی کوئی پستول اس کے ہاتھ میں ہے…بلکہ اب تووہ اس طرح آیاہے کہ ایمانی حقائق کی الماسی تلواراس کے ہاتھ میں ہے،علم کی یاقوتی تلوار سے مسلح ہے، عشق ومحبت کے زمرد،غوروفکرکے مرجان اورموتیوں سے آراستہ ہے اوراللہ تعالیٰ کی لامتناہی بندگی اورعجزوفقر کے جذبات اس کے پیش نظرہیں۔
۱۲مارچ۱۹۷۱ ء کواس وقت کی حکومت پرفوجی دباؤکے نتیجے میں آپ کواس الزام میں گرفتارکرلیا گیاکہ آپ ایک خفیہ تنظیم کے ذریعے لوگوں کے دینی جذبات کوغلط استعمال کر کے ملکی نظام کی اقتصادی،سیاسی اورمعاشرتی بنیادوں کوتبدیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔چھ ماہ تک آپ جیل میں رہے اور اس دوران آپ پرمقدمہ چلتارہا،تاہم چھ ماہ کے بعدعام معافی کے قانون کے تحت آپ رہاہوگئے اورپھر سے اپنے فرائضِ منصبی اداکرنے لگے۔
اربابِ اختیارنے پہلے آپ کو ادرمیت بھیجاپھرمانیسااوراس کے بعدازمیرمیں بورنوا کی طرف منتقل کردیا،جہاںآپ دسمبر۱۹۸۰ ء تک اپنے کام میں مشغول رہے۔
اس تمام عرصے میں آپ مختلف شہروں میں گھومتے پھرتے اوراپنے علمی،دینی،معاشرتی،فلسفیانہ اورفکرانگیز بیانات سے لوگوں کو مستفید کرتے،نیز آپ مختلف علمی حلقوں اورسیمینارزکاانعقادکرتے،جن میں نوجوان طبقے خصوصاًیونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل حضرات کے ذہنوں میں پیداہونے والے پریشان کن سوالات کے جوابات دیتے۔ ان مجالس میں بیان کردہ جوابات ہرطبقے کے لوگوں کے ذہنوں کو منورکرتے خواہ ان کاتعلق طلبہ سے ہوتا یا اساتذہ سے،تاجروں سے ہوتایاصنعت کاروں سے، مزدورں سے ہوتایاملازمین سے۔اس کے نتیجے میں ان کے گردہرحلقے اورطبقے سے تعلق رکھنے والے حضرات کاایک گروہ جمع ہوگیا،جس نے آپ کی ہدایات اورنصیحتوں کی روشنی میں دینی، انسانی اورقومی خدمات سرانجام دیں۔ یہ چھوٹی سی جماعت ہرقسم کی دنیوی یامادی منفعت کوپس پشت ڈال کرترکی میں رائج قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے اسکولوں،اکیڈمیوں اورایسے مراکزکے قیام میں منہمک ہو گئی،جومختلف یونیورسٹیوں میں داخلے کے لئے طلبہ کوتیارکرتے تھے۔سویت یونین کی تحلیل کے بعداس جماعت کادائرہ کار پورے عالم اسلام میں بالعموم اوروسطی ایشیائی ریاستوں میں بالخصوص پھیل گیا۔جب دوسرے لوگ مثبت خدمات کی بجائے غیراہم فروعی مسائل مثلاًترکی دارالاسلام ہے یادارالحرب؟کی بحثوں میں الجھے ہوئے تھے اس وقت شیخ فتح اللہ نے یہ کہہ کرکہ ترکی دارالخدمت ہے اس بحث کو ہی ختم کردیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ خدمت کایہ جذبہ تقریباً ساری دنیامیں پھیلتاچلاگیااورایک ایسی نسل تیار ہوگئی جوبالکل خاموشی کے ساتھ لوگوں کی خدمت کرنے لگی۔انہیں کسی معاوضے کی خواہش تھی اورنہ کسی دنیوی منفعت کی لالچ،بلکہ اخلاص میں کمی کے خوف سے وہ کسی روحانی مرتبے کی خواہش بھی نہ کرتے۔ محبت اورصبران کاطرۂ امتیازتھا۔ انہیں اختلافات میں پڑنے کی فرصت نہ تھی۔انہیں بس باہمی تعاون اورتعمیری کام کی دھن لگی رہتی۔یہی وجہ تھی کہ وہ برائی کابدلہ برائی سے نہ دیتے تھے۔ جلد ہی ان کی خدمات کادائرہ وسیع ہوکر زندگی کے دوسرے شعبوں تک پھیل گیا،چنانچہ انہوں نے پہلے اخبارات اوررسائل نکالنا شروع کیے اس کے بعدریڈیواسٹیشن اورپھرٹیلی ویژن اسٹیشن بھی قائم کرلیے،جس کے نتیجے میں وہ فضل خداوندی سے لوگوں کی امیدوں کامرکزبن گئے۔
۱۹۹۰ ء سے شیخ فتح اللہ نے باہمی گفت وشنید،افہام وتفہیم اورتعصب سے پاک ایک قائدانہ تحریک کاآغازکیا۔آہستہ آہستہ اس تحریک کی بازگشت نہ صرف ترکی بلکہ ترکی سے باہر بھی سنی جانے لگی۔اس تحریک کی کامیابی کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ شیخ محمدفتح اللہ نے پوپ کی دعوت پرویٹی کن سٹی میں اس سے ملاقات کی،جس میں شیخ نے اس بات پرزوردیاکہ چونکہ ذرائع مواصلات کی حیرت انگیز ترقی کی بدولت پوری دنیاایک عالمی گاؤں کی شکل اختیارکر چکی ہے،اس لئے تعصب،اختلافات اورنفرت پرمبنی کوئی بھی تحریک مثبت نتائج تک نہیں پہنچ سکتی، نیزچونکہ دنیاکے کسی بھی حصے میں رونماہونے والے حادثے یاتبدیلی کااثرپوری دنیاپرپڑسکتاہے، اس لئے ضروری ہے کہ کسی بھی عقیدے،فکراورفلسفے سے تعلق رکھنے والے افرادسے فراخ دلی کا برتاؤکیا جائے۔سویت یونین کی شکست وریخت اوروارشوپیکٹ کی ناکامی کے بعدعالمی طاقتوں نے اسلام اورمسلمانوں کوآسان ہدف سمجھ کران کے خلاف جنگ کوناگریزقراردے دیا،جس کے نتیجے میں بعض اوقات انتہاء پسندی اور دہشت گردی کابھی ظہورہوا۔یہ طاقتیں جہادکوبغاوت،جنگ کو سلامتی،ظلم کوانصاف اوربغض کومحبت کانام دیتی ہیں۔
مذکورہ بالاصورتِ حال کے پیش نظرشیخ فتح اللہ نے ترک معاشرے میں گفت وشنیداور رواداری کی دعوت کاآغازکیا،کیونکہ بہت سی قوتیں نسلی،قومی،مذہبی،گروہی اورفکری اختلافات کو ہوادے کراس معاشرے کاشیرازہ بکھیرنے کی سرتوڑکوششیں کررہی تھیں،تاہم آپ نے اسی پر اکتفا نہ کیابلکہ گفت وشنید اوررواداری کی اس دعوت کوترکی سے باہربھی جہاں کہیں ممکن ہوسکا پھیلانے کی کوشش کی۔
مؤلفات
بہت سے بلندپایہ لوگ نئے افکارونظریات کے حامل ہوتے ہیں،لیکن جب وہ اپنے نظریات کوعملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے ہیں توناکام ہوجاتے ہیں۔بہت سے حضرات فعال اورسرگرم داعی ہوتے ہیں،لیکن بقدرِضرورت علم اورگہری بصیرت سے محروم ہوتے ہیں۔کچھ لوگ صرف حکومت واقتدارکے مالک ہوتے ہیں یاپھرمحض حکمت عملی اورسیاسی داؤپیچ کے ماہر۔اسی طرح بعض حضرات زندگی کے کسی خاص شعبے میں امامت کادرجہ رکھتے ہیں،لیکن عمل کے دوسرے میدانوں میں ان کی کوئی خاص خدمات نہیں ہوتیں،چنانچہ بعض لوگ بڑے اچھے لکھاری یاشاعریا فنونِ لطیفہ کے ماہریابہت بڑے عالم یاخطیب یافلسفی توہوتے ہیں،لیکن معاشرےمیں مثبت تبدیلی کا باعث بننے والی کوئی تحریک نہیں چلاپاتے۔
اسی طرح بعض لوگ اقتصادیات یاسیاسیات میں صفِ اول کے ماہر یامایہ ناز عسکری قائدہوتے ہیں،لیکن دین اوراخلاقیات کے موضوع پرگفتگوکرتے ہوئے ان کی زبانیں گنگ ہو جاتیں ہیں،جبکہ دوسری طرف بہت سے حضرات دینی مسائل اورروحانی واخلاقی امور میں اپنی تمام توانائی خرچ کرڈالتے ہیں،لیکن انہیں اقتصادی اورمعاشرتی مسائل پردسترس حاصل نہیں ہوتی۔خلاصہ یہ ہے کہ اس دنیانے اپنی طویل عمرمیں بے شماربلندپایہ شخصیات کودیکھا،لیکن ان میں سے ہرایک کے اثرات کسی نہ کسی خاص میدان میں منحصرہو کررہ گئے اوراپنی نافعیت کامل طورپر دوسروں کی طرف منتقل نہ کرسکے،لیکن اس کے مقابلے میں جب شیخ فتح اللہ گولن کاذکرآتا ہے تونہ صرف ان کی کتابوں، مواعظ، بیانات اورآڈیواورویڈیوخطبات کی طرف ذہن جاتاہے، بلکہ ایک اورچیزکی طرف بھی خیال جاتا ہے، جسے وہ’’جیش النور‘‘یا’’جنودالحق‘‘کا نام دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آپ سے استفادہ کیااورآپ کے آثارِجمیلہ میں شمار ہوئے،نیزآپ کے منتسبین کی خدمات کوان اداروں اورتنظیموں سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھاجاسکتا،جن کا جال انہوں نے دنیاکے کونے کونے میں پھیلادیاہے۔
آپ کی تحریر کردہ کتابوں کی تعداد 60سے زائد ہے۔ جن کا 35زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ ہم ذیل کی سطورمیں ان کے چندعلمی آثارکااختصارکے ساتھ ذکرکیے دیتے ہیں:
۱۔ ان کے خطبات،مواعظ،بیانات اورمجالس پرمشتمل ہزاروں کی تعدادمیںآڈیواور ویڈیوکیسٹیں موجود ہیں۔
۲۔ الأسئلۃالحائرۃالتی أفرزھاالعصر(۴حصے)یہ کتاب مختلف اوقات میں ان سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات پرمشتمل ہے۔
۳۔ الموازین أوأضواء علی الطریق(۴حصے)یہ کتاب معرکہ زندگی میں عقل وروح اور تصوف وحکمت کے پیمانوں پرمشتمل ہے۔
یہ پانچوں کتابیں آپ کے ان مضامین کامجموعہ ہیں جوسالہاسال تک بعض ماہانہ اور سہ ماہی رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔
۵۔ النورالخالد:محمد (صلى الله عليه و سلم) مفخرۃالانسانیۃ(۳جلدیں)یہ کتاب خاتم الانبیاء رحمت للعالمین محمد (صلى الله عليه و سلم) کی سیرتِ مطہرہ پرآپ کے بیانات کامجموعہ ہے۔
۶۔ فی ظلال الایمان(۲جلدیں)یہ کتاب ایمانی حقائق کے بارے میں ناقابل تردید دلائل کامجموعہ ہے۔
۷۔ تلال القلب الزمردیۃ:اس کتاب میں سرچشمۂ اسلام سے پھوٹنے والی روحانی زندگی اورتصوف کی درست اصلاحات کوزیربحث لایاگیاہے۔
۸۔ براعم الحقیقۃ فی جیل الألوان(۲جلدیں)یہ آپ کے اشعاراورمقالات کا مجموعہ ہے۔
۹۔ تأملات فی سورۃ الفاتحۃ:یہ ان لیکچرزکامجموعہ ہے جوآپ نے علوم شرعیہ کے طلبہ کودیئے تھے۔
۱۰۔ المنشور(۲جلدیں)یہ مختلف مواقع پرآپ سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات اور مختلف مجالس کے دوران بیان کردہ احادیث کامجموعہ ہے۔
۱۱۔ الجھاد أواعلاء کلمۃاللہ:اس کتاب میں دورِحاضرمیں جہادکے موضوع کے علمی و نظری پہلوؤں پرروشنی ڈالی گئی ہے۔
۱۲۔ الحیاۃبعدالممات: اس کتاب میں اخروی زندگی کے مختلف پہلوؤں پرگفتگوکی گئی ہے۔
۱۳۔ القدرفی ضوء الکتاب والسنۃ: اس کتاب میں مسئلہ تقدیرکے مختلف پہلوؤں پر گفتگوکی گئی ہے۔
۱۴۔ محورالارشاد: اس کتاب میں دورِحاضرمیں فعال اورسرگرم طریقے سے دعوت وتبلیغ کے کام کوسرانجام دینے کے طریق کارپرروشنی ڈالی گئی ہے۔
۱۵۔ البعدالمیتافیزیقی للوجود(۲جلدیں)اس کتاب میں علمی،عقلی اورنقلی دلائل کے ساتھ وجودکی حقیقت اورروح،جنات اورفرشتوں کی ماہیت پرروشنی ڈالی گئی ہے۔
۱۶۔ ریشۃ العازف المکسورۃ:یہ آپ کے اشعارکامجموعہ ہے۔
آپ کی مذکورہ بالاتمام کتابیں ترکی میں سترسترہزارکی تعدادمیں شائع ہوچکی ہیں،نیز آپ کی بعض کتابوں کادوسری زبانوں میں بھی ترجمہ کیاجاچکاہے۔ آپ کی درج ذیل کتب کوانگریزی زبان کے قالب میں ڈھالاجاچکاہے:
النورالخالد، فی ظلال الایمان، الحیاۃبعدالممات، الأسئلۃ الحائرۃ التی أفرزھاالعصرکی پہلی جلد، براعم الحقیقۃکی پہلی جلد، الموازین کی پہلی جلد، تلال القلب الزمردیۃاورنحوالجنۃالمفقودۃ.
درج ذیل کتب کا جرمن زبان میں ترجمہ ہوچکاہے:
النورالخالد،فی ظلال الایمان،الحیاۃبعدالممات،الموازین،الأسئلۃ الحائرۃ اورنحوالجنۃالمفقودۃ.ان میں سے ہرایک کی صرف پہلی جلدکاترجمہ ہواہے۔
آپ کی کتاب فی ظلال الایمان کاترجمہ بلغاروی زبان میں،آپ کے دیوان ریشۃ العازف المکسورۃاورالأسئلۃ التی أفرزھاالعصرکے منتخب حصوں کاجاپانی زبان میں ترجمہ ہوچکاہے،نیزآپ کی کتاب الأسئلۃ الحائرۃکے پہلے حصے کاترجمہ روسی زبان میں بھی ہو چکاہے۔
درج ذیل کتب کاعربی میں ترجمہ ہوچکاہے یاہورہاہے:
۱۔ القدرفی ضوء الکتاب والسنۃ
۲۔ الموازین،أوأضواء علی الطریق
۳۔ مختارات من کتاب الأسئلۃالحائرۃ التی أفرزھاالعصر
۴۔ الجھاد أواعلاء کلمۃاللہ.
جیسے جیسے ممکن ہوگاان شاء اللہ آپ کی بقیہ کتب کوبھی عربی زبان کے قالب میں ڈھالا جاتارہے گا۔
اردو زبان میں درج ذیل کتابیں ترجمہ ہوچکی ہیں:
۱۔تقدیر کتاب و سنت کی روشنی میں
۲۔المیزان یا چراغِ راہ
۳۔ روح جہاد اور اس کی حقیقت
۴۔ اسالیب دعوت اور مبلّغ کے اوصاف
۵۔ اضوا ءِ قرآن در فلکِ وجدان
۶۔ تخلیق کی حقیقت اور نظریہء ارتقا ء
۷۔ نورسرمدی ،فخرانسانیت حضرت محمد (صلى الله عليه و سلم) (دو جلدیں)
۸۔روح کے محل کی تعمیر
۹۔ملاحظات فاتحہ
۱۰۔جنت گمشدہ کی طرف
۱۱۔اسلام کے بنیادی ارکان
۲۱۔(اسلام اور دورِحاضر)جدید ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالات کےجوابات
۱۳۔روح کے نغمے اوردل کے غم
آپ کی بقیہ کتب کا اردوترجمہ بھی ان شاء اللّٰہ جلد شائع ہوجائے گا ۔
چو نکہ یہ کتاب مساجد میں دےئے گئے مواعظ اورطلبہ ومریدین کے لیے منعقد کی گئی خصوصی مجالس میں سوالات کے جوابات کا مجموعہ ہے جسے مصنف کے شاگردوں نے تحریر کیا اور مصنف کی رضا مندی اور تصحیح کے بعد شائع کیاجارہاہے۔ اس لیے بعض مقامات پراس کے اسلوب اور مضامین پرخطیبانہ انداز کی چھا پ بھی نظرآتی ہے۔