کوئی بوجھ اٹھا نے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا:
أَفَرَأَيْتَ الَّذِي تَوَلَّىٰ ﴿٣٣﴾ وَأَعْطَىٰ قَلِيلًا وَأَكْدَىٰ ﴿٣٤﴾ أَعِندَهُ عِلْمُ الْغَيْبِ فَهُوَ يَرَىٰ ﴿٣٥﴾ أَمْ لَمْ يُنَبَّأْ بِمَا فِي صُحُفِ مُوسَىٰ ﴿٣٦﴾ وَإِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَفَّىٰ ﴿٣٧﴾ أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ﴿٣٨﴾ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ﴿٣٩﴾ وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ ﴿٤٠﴾ (قرآن 53:34,40)
پھر اے نبیؐ ، تم نے اُس شخص کو بھی دیکھا جو راہ ِ خدا سے پھر گیا اور تھوڑا سا دے کر رُک گیا ۔ کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ وہ حقیقت کو دیکھ رہا ہے؟ کیا اُسے اُن باتوں کی کوئی خبر نہیں پہنچی جو موسٰیؑ کے صحیفوں اور اُس ابراہیمؑ کے صحیفوں میں بیان ہوئی ہیں جس نے وفا کا حق ادا کر دیا؟ ”یہ کہ کوئی بوجھ اٹھا نے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی ہے. اور یہ کہ اس کی سعی عنقریب دیکھی جائے گی اور اس کی پوری جزا اسے دی جائے گی،اور یہ کہ آخر کا پہنچنا تیرے رب ہی کے پاس ہے، اور یہ کہ اُسی نے ہنسایا اور اُسی نے رلایا، (قرآن 53:34,40)
اگر بھٹکنے والے گمراہ انسان نے سابقہ آسمانی کتابوں کا مطالعہ کیا ہوتا تو اسے اپنی اس غلط اندیشی کا علم ہوجاتا ۔ صحف: صحیفہ کی جمع ہے۔ صحف موسی سے مراد تورات ہے جو متعدد اسفار پر مشتمل ہے۔ یہ محرف شکل میں آج بھی موجود ہے ۔ صحف ابراہیم سے مراد وہ آسمانی کتاب ہے جو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام پر نازل ہوئی تھی۔ اس وقت اس کا کہیں نام ونشان نہیں ملتا۔ اس کے اہم مضامین کے بارے میں قرآن کریم نے ہی کچھ بتایاہے ۔ صحف ابراہیم کا ذکر قرآن کریم میں دو مقامات پر آیا ہے۔ ایک اس مقام پر، دوسری مرتبہ سورۃ الاعلیٰ کی آخری آیت میں ۔ جن سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر بھی صحیفے نازل ہوئے تھے۔ ان دو مقامات پر ان تعلیمات کا اشارتاً ذکر کردیا جو ان میں مندرج تھیں۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے یہ قانون رائج تھا کہ اگر ایک شخص کسی کو قتل کرتا تو قاتل کی سزا اس کے باپ، اس کے بیٹے، اس کے بھائی اور اس کی بیوی یا اس کے غلام کو بھی دی جاتی، ان میں سے کسی کو پکڑ کر قتل کردیا جاتا۔ قال البغوی عن عکرمۃ عن ابن عباس قال کانوا قبل ابراہیم (علیہ السلام) یا خوذون الرجل بذنب غیرہ وکان الرجل یقتل بقتل ابیہ وابنہ واخیہ وامرتہ وعبدہ ۔ جب آپ مبعوث ہوئے تو آپ نے اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام سنایا:
‘الا تزر وازرۃ وزر اخری’ کہ کسی کا گناہ کسی دوسرے پر نہیں ڈالا جائے گا۔
یوں اس ظالمانہ قانون کا قلع قمع ہوا۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ کسی سابق رسول کی شریعت کا یہ مسئلہ تھا۔ بلکہ یہ ان کے دور جاہلیت کا ایک رواج تھا جو صدیوں سے ان میں چلا آرہا تھا اور کبھی کسی نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ کی تھی۔ بعینہ اس طرح جیسے حضور سرور عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تشریف آوری سے پہلے عرب میں یہ دستور تھا کہ اگر کسی غریب قبیلے کا غلام یا عورت طاقت ور قبیلے کے کسی فرد کو قتل کردیتی تو طاقت ور قبیلہ بطور قصاص اس قاتل غلام یا عورت کو قتل کر کے مطمئن نہ ہوتا، بلکہ عورت کے بجائے ان کے کسی مرد اور غلام کے بجائے ان کے کسی آزاد مرد کو قتل کیا جاتا۔
‘الحر بالحر والعبد بالعبد الایۃ ‘نازل ہوئی تو جہالت کے اس ظالمانہ دستور کا خاتمہ ہوا۔ بظاہر بعض آیتیں اور حدیثیں اس آیت سے متعارض معلوم ہوتی ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ارشاد ہے:
من سن سنۃ سیئۃ فلہ وزرھا وزر من عمل بھا الی یوم القیامۃ ۔ اخرجہ احمد ومسلم من حدیث جریر ابن عبداللہ یعنی امام احمد اور مسلم نے جریر بن عبداللہ سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا جو شخص برا طریقہ رائج کرتا ہے اس پر اس کا بوجھ بھی لادا جائے گا اور قیامت تک جو لوگ اس طریقے کو اختیار کریں گے، ان کا بوجھ بھی اس پر لادا جائے گا۔
اس سے معلوم ہوا کہ دوسروں کے گناہ کا بوجھ بھی کسی پر لاد دیا جاتا ہے ، حالانکہ آیت اس کی نفی کرتی ہے۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ چونکہ یہ شخص قیامت تک آنے والے بدکاروں کی بدکاری کا سبب بنا ہے، اس لیے وہ ان بدکاریوں میں شریک ہے۔ اسی کی سزا اسے ملے گی۔ یہ نہیں کہ ان بدکاروں کو کوئی سزا نہ دی جائے گی اور ان سب کی سزا اس شخص کو دی جائے گی۔
دوسری حدیث ہے جس کے راوی ابن عمر ہیں:
اذا انزل اللہ بقوم عذابا اصاب العذاب من کان فیہ ثم بعثوا علی اعمالہم (متفق علیہ) یعنی جب کسی قوم پر اللہ تعالیٰ عذاب نازل کرتا ہے تو اس قوم کے تمام افراد (نیک وبد) اس عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں پھر قیامت کے دن وہ اپنے اعمال کے مطابق قبوں سے اٹھائے جائیں گے ۔
اس حدیث سے بھی یہ معلوم ہوا کہ عذاب ان لوگوں پر بھی نازل ہوتا ہے جو مجرم نہیں ہوتے، حالانکہ آیت اس کی تردید کرتی ہے، تو اس کا جواب یہ دیا گیا ہے جو لوگ ان جرائم کا ارتکاب نہیں کیا کرتے تھے، لیکن مجرموں کو منع بھی نہیں کرتے تھے، بلکہ خاموشی سے ان گناہوں کو دیکھتے رہتے تھے، ان کی یہ خاموشی ان کا گناہ تھا جس کی وجہ سے وہ اس عذاب میں مبتلا کیے گئے۔
حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ایک حدیث جو سنن اربعہ میں مروی ہے اس میں یہ تصریح موجود ہے کہ جب لوگ ظالم کو دیکھتے ہیں اور ظلم سے اس کا ہاتھ نہیں پکڑ لیتے تو ان پر بھی عذاب نازل ہوگا۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں بتایا گیا ہے کہ جب انسان فوت ہوتا ہے اور اس کے رشتہ دار ماتم کرتے ہیں تو ان کے ماتم کرنے کے گناہ کا عذاب اس میت کو دیا جاتا ہے ۔
یہ حدیث بھی اس آیت کے منافی ہے ۔ اس کے بارے میں علما فرماتے ہیں کہ میت کو اس وقت عذاب ہوگا جب یا تو وہ وصیت کرجائے کہ مجھ پر ماتم کرنا یا اسے معلوم تھا کہ اس کے گھر والے اس کے مرنے پر ماتم کریں گے اور اس نے ان کو منع نہیں کیا ۔ اب یہ عذاب اس کے اپنے گناہ کا ہوگا۔
بہرحال اس آیت سے معلوم ہوگیا کہ حضرت ابراہیم اور حضرت موسی علیہما السلام کے صحیفوں میں جو یہ حکم نازل ہوا تھا وہ شریعت محمدیہ میں بھی باقی ہے۔ کسی کے گناہ کے بدلے میں کسی دوسرے کو سزا نہیں دی جائے گی۔ ہر شخص اپنے فعل کا خود ذمہ دار ہے۔
غلط فہمی کا ازالہ:
یہ حکم صحف موسی اور ابراہیم علیہما السلام میں بھی موجود تھا اور شریعت اسلامیہ میں بھی یہ قانون باقی ہے، لیکن بعض کج فہموں نے اس آیت کو ایسے معانی پہنائے ہیں جن سے متعدد دوسری آیات کی تردید اور تکذیب ہوتی ہے، اس لیے ہمیں بڑے اطمینان سے ان باطل معانی کا جائزہ لینا چاہیے اور اس کے حقیق مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ یہ طریقہ کسی طرح بھی مستحسن نہیں کہ ایک آیت کی ایسی من مانی تشریح کی جائے جس سے متعدد آیات کی تغلیط ہوتی ہو۔
اشتراکی ذہنیت رکھنے والے جو محنت کو ضرورت سے زیاہ اہمیت دیتے ہیں وہ اس آیت کا یہ مفہوم بیان کرتے ہیں کہ ہر انسان صرف اسی چیز کا حقدار ہے جو اس نے اپنی محنت اور کوشش سے حاصل کی ہو اور اپنے اس نظریے کو قرآن کریم کی اس آیت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ہمیں ان سے کسی بحث کی ضرورت نہ تھی۔ ہر شخص اپنی پسند کے مطابق جس نظریے کو چاہے اپنائے۔ ہمیں اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے ، لیکن اپنے من گھڑت نطریات کو قرآن کی طرف منسوب کرنا ایک ایسی زیادتی ہے جس پر خاموش رہنا ہمارے لیے ممکن نہیں۔
میراث کا شرعی قانون ، زکوۃ، صدقات، مسلمانوں کے لیے استغفار
کیا قرآن کریم کی متعدد آیات میں میراث کے احکام مذکور نہیں؟ باپ کے مرنے کے بعد اولاد کو جو جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ ورثہ میں ملتی ہے ، کیا اس میں ان کی محنت اور کوشش کا کوئی دخل تھا؟
ایسی جائیداد کا قرآن نے انہیں کامل مالک ٹھہرایا ہے، خصوصا بچیاں یا شیر خوار بچے جنہوں نے کسی طرح بھی اس جائیداد کے بنانے میں کوئی حصہ نہیں لیا، وہ بھی وارث ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ زکوۃ، صدقات جب کوئی شخص کسی مستحق کو دیتا ہے تو مستحق اس کا کاملک مالک بن جاتا ہے ۔ اس میں ہر قسم کا تصرف کر سکتا ہے ، حالانکہ اس نے اس مال کے کما نے میں ایک قدم تک نہیں اٹھایا۔ آیت کا یہ خود ساختہ مفہوم اختیار کر کے کیا یہ لوگ ان صدہا آیات پر قلم تنسیخ پھیر دیں گے جن میں میراث وصیت، زکوۃ، صدقات اور ہبہ کے احکام مذکور ہیں۔
اشتراکی اذہان کے علاوہ ایک اور فرقہ گزرا ہے جو تاریخ اسلام میں معتزلہ کے نام سے مشہور ہے۔ انہوں نے اس آیت کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ کسی کے عمل کا ثواب کسی دوسرے انسان کو نہیں پہنچ سکتا ۔ ہر شخص کو انہی اعمال کا اجر ملے گا جو اس نے خود کیے ہیں، کیونکہ قرآن کریم کی اس آیت میں تصریح کی گئی ہے کہ لیس للانسان الا ما سعیٰ۔
مسلمانوں کے لیے استغفار
ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ اگر کسی کا عمل کسی کے لیے نفع بخش نہیں ہے تو قرآن کریم کی متعدد آیات میں مسلمانوں کے لیے استغفار کا حکم دیا گیا ہے اور متعدد آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ فرشتے مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش کی دعائیں مانگی ہیں۔ اگر استغفار اور دعاؤں کا میت کو کوئی نفع نہیں پہنچتا تو پھر ان لا حاصل کاموں میں انبیاء اور ملائکہ کو کیوں وقت ضائع کرتے رہے اور ہمیں مسلمان بھائیوں کے لیے دعائے مغفرت کا کیوں حکم دیا گیا ہے ۔ ساری امت مسلمہ نماز جنازہ ادا کرتی ہے۔ اس میں کسی فرقہ کی تخصیص نہیں۔ یہ نماز جنازہ بھی دعائے مغفرت ہے۔ اگر یہ بےسود اور لا حاصل ہے تو اس تکلف کو بجا لانے کا اسلام نے کیوں حکم دیا۔ معتزلہ کے اس مفہوم کو اگر صحیح تسلیم کرلیا جائے تو قرآن کریم کی کثیر التعداد آیتیں بےمعنی ہو کر رہ جاتی ہیں-