امت کا اجماع اس بات پر ہے کہ ہم اپنے اعمال کا ثواب اپنے والدین اور دوسرے مومنین کو پہنچا سکتے ہیں اور اس سے انہیں فائدہ بھی پہنچتا ہے۔ اصولی طور پر تو تمام علمائے اسلام کا اس پر اتفاق ہے۔ تفصیلات میں کچھ اختلاف ہے جس کا خلاصہ پیش نظر ہے:
عبادات کی کئی قسمیں ہیں۔ خالص بدنی عبادات مثلاً نماز، روزہ، تلاوت قرآن ، خالص مالی عبادات جیسے صدقات وغیرہ۔ مالی اور بدنی عبادات کا مرکب جیسے حج وغیرہ۔ امام مالک اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ خالص بدنی عبادات کا ثواب دوسرے کو نہیں پہنچ سکتا، البتہ عبادات کی دوسری دو قسموں کا ثواب دوسرے کو پہنچ سکتا ہے، لیکن احناف کا مسلک یہ ہے کہ ہر شخص اپنے ہر نیک عمل کا ثواب دوسرے کو بخش سکتاہے خواہ اس نیک عمل کا تعلق عبادت کی کسی قسم سے ہو، نماز، روزہ ، تلاوت قرآن ، ذکر، صدقہ، حج، عمرہ جو نیک عمل بھی وہ کرے، اس کے بارے میں وہ اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرسکتا ہے الہی اس کا ثواب فلاں شخص کو پہنچا ۔ اس بارے میں اتنی کثرت سے صحیح احادیث موجود ہیں کہ کوئی مسلمان ان کے انکار کی جرات نہیں کرسکتا۔ یہاں ہم ان میں سے چند احادیث ہدیۂ ناظرین کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:
1۔ عن ابی حریرۃ (رض) قال قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اذا مات الانسان انقطع عملہ الا من ثلاث صدقۃ جاریۃ وعلم ینتفع بہ او ولد صالح یدعو لہ (رواہ مسلم) ترجمہ: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے ، بجر تین اعمال کے کہ ان کا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا۔
(١)صدقہ جاریہ، (٢) ایسا علم جس سے نفع حاصل کیا جاائے یا (٣) نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔
پہلے دو کام تو ایسے ہیں جن میں اس شخص کا بھی کچھ عمل دخل ہے، لیکن لڑکے کی دعا لڑکے کا اپنا فعل ہے۔ اس سے بھی میت کو فائدہ پہنچتا ہے۔
2۔ عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان اللہ لیرفع الدرجۃ للعبد الصالح فی الجنۃ ویقول یا رب انی لی ھذہ فیقول باستغفار ولک لک (روہ طبرانی) ترجمہ: حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جنت میں کسی عبد صالح کے درجے کو بلند فرمادیتا ہے ۔ وہ بندہ پوچھتا ہے یا رب میرا درجہ کیسے بلند ہوا؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تیرے لڑکے نے تیرے لیے استغفار کی، اس کی برکت سے تیرا درجہ بلند ہوا۔
3۔ عن ابن عباس قال قال النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ما المیت فی قبرہ الاشبہ الغری (صلی اللہ علیہ وسلم) المتغوث ینتظر دعوۃ ملحقۃ من اب وام او ولد او صدیق ثقۃ واذا الحقتہ کان احب الیہ من الدنیا وما فیہا وان اللہ لیدخل علی القبور من دعاء اھل الارض امثال الجبال وان ھدیۃ الاحباء الی الاموات الاستغار لہم (رواہ بیہقی والدیلمی 9 ترجمہ: نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ قبر میں میت کی مثال ڈوبنے والے کی طرح ہوتی ہے ج وفریاد کر رہا ہوتا ہے اور اس چیز کا منتظر ہوتا ہے کہ اس کے باپ ، اس کی ماں یا لڑکے یا باوفا دوست کی دعا اسے پہنچے اور جب وہ دعا اسے پہنچتی ہے تو اس کی قدر ومنزلت اس کے نزدیک دنیا ومافیہا سے زیادہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اہل زمین کی دعاؤں کی برکت سے قبروں پر رحمت کے پہاڑ بھیجتا ہے اور مرے ہوؤں کے لیے دوستوں کا تحفہ یہ ہے کہ وہ ان کے دعائے مغفرت کیا کریں۔
4۔ عن عائشۃ ان رجلا قال یا رسول اللہ ان امی افتلتت نفسھا لم توص واظنہا لو تکلمت تصدقت فہل لہا اجر ان تصدقت عنہا قال نعم (متفق علیہ) ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ! میری ماں اچانک فوت ہوگئی اور کوئی وصیت نہ کرسکی۔ میرا خیال ہے اگر اسے بولنے کا موقع ملتا تو وہ صدقہ دیتی ۔ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں تو کیا اسے اس کا اجر ملے گا۔ حضور نے فرمایا بےشک!
5۔ عن ابن عباس ان سعد بن عبادہ توفیت امہ وھو غائب فاتی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) فقال یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان امی ماتت وانا غائب فہل ینفعہا ان تصدقت عنہا قال نعم وقال انی اشہدک ان حایط صدقۃ عنہا ۔ (رواہ البخاری) حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ سعد ابن عبادہ کی والدہ نے وفات پائی تو آپ موجود نہ تھے۔ جب واپس آئے تو حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گزارش کی یا رسول اللہ! میری والدہ نے میری غیر حاضری میں وفات پائی۔ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں توکیا اسے کوئی نفع پہنچے گا تو حضور نے فرمایا ہاں پہنچے گا۔ انہوں نے عرض کی حضور آپ گواہ رہیں میں نے اپنا باغ اس کی طرف سے صدقہ کیا
6۔ عن انس سمعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) یقول ما من اھل بیت یموت منہم ویتسدقون عنہ بعد موتہ الا اھدی لہ جبرائیل علی طبق من نور ثم یقف علی شفیر القبر فیقول یا صاحب القبر العمیق ھذہ فدیۃ اھداھا الیک اھلک فاقبلہا فیدخل علیہ فیفرح بھا فیستبشر ویحزن جیرانہ الذین لا یہدی الیہم یشئ (رواہ بطرانی فی الاوسط) حضرت انس کہتے ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب کوئی شخص کسی گھر سے فوت ہوتا ہے اور گھر والے اس کی طرف سے صدقہ کرتے ہیں تو جبرئیل امین نور کے تھال پر اسے رکھتے ہیں، پھر اس کی قبر کے دہانے پر کھڑے ہو کر کہتے ہیں اے گہری قبر کے رہنے والے! یہ ہدیہ ہے جو تیرے گھر والوں نے تیری طرف بھیجا ہے ، تو اسے قبول کر۔ اس کی خوشی اور مسرت کی کوئی حد نہیں رہتی اور اس کے پڑوسی جن کی طرف کوئی ہدیہ نہیں بھیجا جاتا ، وہ بڑے غمناک ہوتے ہیں۔
7۔ عن انس قال جاء رجل الی النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) قال ان ابی مات ولم یحج حجۃ الاسلام فقال اریت لو کان علی ابیک دین کنت تقضیہ عنہ قال نعم قال فانہ دین علیہ فاقضہ ۔ ( رواہ بزاز والطبرانی بسند حسن ) حضرت انس فرماتے ہیں ایک شخص نبی کریم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا میرا باپ فوت ہوگیا ہے اور اس نے حج نہیں کیا۔ حضور نے فرمایا یہ بتآ اگر تیرے باپ پر قرضہ ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتا۔ اس نے عرض کیا یارسول اللہ، ہاں ادا کرتا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا یہ حج بھی اس پر قرض ہے ۔ اس کو ادا کرو۔
8۔ عن علی (رض) من مر علی المقابر وقرا قل ھو اللہ احد احد عشر مرۃ ووھب اجرہ موالا اعطی من الاجر بعدد اموات (رواہ ابو محمد السمرقندی) ابو محمد سمرقندی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ سے یہ حدیث مرفوع نقل کی ہے کہ جو شخص قبرستان میں سے گزرے اور گیارہ مرتبہ قل شریف پڑھ کر اہل قبرستان کو بخشے تو جتنے لوگ وہاں دفن ہوں گے ۔ ان کی تعداد کے برابر اسے ثواب ملے گا۔
9۔ عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) من دخل المقابر ثم قرا فاتحۃ الکتاب وقل ھواللہ احد والہاکم التکاثر ثم قال انی جعلت ثواب ما قرات من کلامک لاھل المقابر من المومنین والمومنات کانوا شفعاء لہ الی اللہ (رواہ ابو القاسم سعد ابن علی) ابو القاسم سعد ابن علی نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص قبرستان میں داخل ہو، پھر سورۃ فاتحہ، قل شریف اور الہاکم التکاثر پڑھے، پھر یہ کہے کہ الہی میں نے تیرے کلام سے جو پڑھا ہے اس کا ثواب اس مقبرہ کے مومن مردوں اور عورتوں کو بخشتا ہوں، تو یہ لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی جناب میں اس کی شفاعت کریں گے۔
10۔ عن انس ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) قال من دخل المقبرۃ فقرا سورۃ یس خفف اللہ عنہم ۔ (اخرجہ عبد العزیز صاحب الخلال بسندہ) حضرت انس سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا جو شخص قبرستان میں داخل ہوتا ہے اور سورۃ یس پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اہل قبور پر تخفیف کردیتا ہے۔ کثیر التعداد احادیث میں سے یہ چند مرفوع احادیث ہیں جو اوپر نقل کی گئی ہیں۔ صحابۂ کرام کا بھی اسی پر تعامل تھا۔ حضرت امام حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت کے بعد آپ کو ایصال ثواب کرنے کے لیے غلام آزاد کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے بھائی حضرت عبدالرحمن وفات پاگئے تو حضرت عائشہ نے ان کے لیے غلام آزاد کیا اور فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ وفات کے بعد یہ چیز انہیں نفع پہنچائے گی۔ مسلمانوں کا ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے کہ وہ اپنے وفات پانے والوں کی روح کو ایصال ثواب کرتے ہیں۔ علامہ پانی پاتی لکھتے ہیں۔ قال الحافظ شمس الدین ابن عبد الواحد مازالوا فی کل مصر یجتمعون ویقرؤون لموتھم من غیر نکیر فکان ذلک اجماعا۔ ترجمہ: حافظ شمس الدین ابن عبدالواحد کہتے ہیں ہر شہر میں مسلمانوں کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ اکٹھے ہوتے ہیں اور اپنے فوت شدگان کے لیے قرآن کریم کی قراءت کرتے ہیں اور کبھی کسی عالم نے اس پر اعتراض نہیں کیا، گویا اس پر امت کا اجماع ہے-
11۔ اخرج الخلالی عن الشعبی کان الانصار اذا مات لہم المیت اختلفوا الی قبرہ یقرؤون القران امام شعبی سے مروی ہے کہ انصار کا یہ طریقہ تھا کہ تجب ان کا کوئی آدمی فت ہوتا تو وہ اس کی قبر پر جایا کرتے اور وہاں قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے۔
12۔ وفی الاحیاء عن احمد ابن حنبل قال اذا دخلتم من مقابر فاقرؤوا بفاتحۃ الکتاب والمعوذتین وقل ھو اللہ احد واجعلوا ذلک لاھل المقابر فانہ یصل الیہم ۔ امام احمد بن حنبل نے فرمایا جب تم قبرستان میں داخل ہو تو سورۂ فاتحہ اور تینوں آخری قل پڑھو، پھر اس کا ثواب قبرستان والوں کو پہنچاؤ، وہ انہیں پہنچے گا۔ جب اس کثرت سے ایصال ثواب کے بارے میں احادیث موجود ہیں تو پھر اس کا انکار کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا، لیکن آیت کے بارے میں کیا کہا جائے گا۔ حضرت ابن عباس کا ارشاد یہ ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے اور اس کی ناسخ یہ آیت ہے: والذین امنوا واتبعتھم ذریتھم بایمان الحقنا بھم ذریتھم۔ یعنی جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کرتی رہی تو ہم (مدارج اور مراتب میں) ان کی اولاد کو ان کے ساتھ ملا دیں گے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ آباء و اجداد کی نیکیاں اولاد کے مراتب کو بلند کردیتی ہیں۔ بعض نے اس آیت کی توجیہ یہ کی ہے کہ یہاں الانسان سے مراد کافر ہے کہ کفار کو کسی کی نیکیاں کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتیں، لیکن اگر بنظرِ غائر دیکھا جائے تو الجھن خود بخود دور ہوجاتی ہے۔ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ایصال ثواب سے صرف اس شخص کو نفع پہنچتا ہے جو ایمان کی حالت میں فوت ہوا ہو۔ جس کی موت کفر پر ہوئی ہو اسے قطعاً کوئی نفع نہیں پہنچتا، تو معلوم ہوا کہ یہ سارے اعمال صالحہ جن کا ثواب ایک مومن کو پہنچایا جارہا ہے درحقیقت اس کے ایمان کے درخت کا پھل ہیں اور ایمان کا درخت اس شخص کی اپنی سعی کا نتیجہ ہے تو گویا یہ ساری چیزیں اس کی ذاتی کوشش میں شمار ہوں گی۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اپنے ایمان کے درخت کی اعمال صالحہ سے آبیاری کرتے رہتے ہیں اور گناہوں کی ژالہ باری سے اس کو بچائے رکھتے ہیں، ان پر پھل بھی زیادہ لگتا ہے اور لوگ کثرت سے ان کی ارواح کو ایصال ثواب کرتے ہیں۔ اولیائے کرام کے مزارات پر فاتحہ پڑھنے والوں کا ہجوم اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ ان مقبول ترین بندوں نے ایمان کا جو درخت لگایا اور عمر بھر اپنے گریۂ سحری سے اسے سینچتے رہے اس کی بہار اور اس کا جوبن قابل دید ہے۔ ارشاد ربانی ہے ‘مثل کلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبۃ اصلہا ثابت وفرعہا فی السماء توتی اکلہا کل حین باذن ربھا۔ کہ کلمۂ طیبہ کی مثال ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہے جس کی جڑیں پاتال تک چلی گئی ہیں اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ یہ درخت ہر لحظہ پھل دے رہا ہے ۔ اس مسئلہ کے دیگر مباحث ضیاء القرآن ، سورۃ النحل کی آیت ١١٥ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیے، جو درج ذیل ہے:
(نوٹ: اس آیت کی تشریح میں ایصال ثواب کے بارے میں جو احادیث درج کی گئی ہیں اور جو آثار نقل کیے گئے ہیں، وہ تفسیر مظہری سے ماخوذ ہیں۔)
(تفہیم القرآن… http://www.tafheemulquran.net/1_Tafheem/Suraes/053/38.html]
ویڈیوز ……
اگلا صفحۂ …. وہ جانور جن کو کسی بزرگ کی روح کو ایصال ثواب کے لیے ذبح کیا گیا ہو خواہ اسے ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام ہی لیا گیا ہو کیا حرام و مردار ہیں؟
-
Related:
نجات، بخشش، ایمان اور اعمال – مغالطے Salvation, Faith, Works and Illusions