ایصال ثواب – نجات، بخشش

وہ جانور جن کو کسی بزرگ کی روح کو ایصال ثواب کے لیے ذبح کیا گیا ہو خواہ اسے ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام ہی لیا گیا ہو  کیا حرام و مردار ہیں؟

إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١١٥﴾

اللہ نے جو کچھ تم پر حرام کیا ہے وہ ہے مُردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو البتہ بھوک سے مجبور ہو کر اگر کوئی اِن چیزوں کو کھا لے، بغیر اس کے کہ وہ قانون الٰہی کی خلاف ورزی کا خواہش مند ہو، یا حد ضرورت سے تجاوز کا مرتکب ہو، تو یقیناً اللہ معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے (16:115 قرآن )

یہ آیت / مضمون ، اس سے پہلے تین مرتبہ مذکور ہوا  ﴿البقرة: ١٧٣﴾ ﴿الأنعام: ١٤٥﴾ ﴿المائدة: ٣﴾ ۔ اب چوتھی اور آخری بار یہاں مذکور ہے۔ اس آیت کا یہ حصہ خصوصی توجہ کا مستحق ہے کیونکہ اس کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کے باعث ملت اسلامیہ میں افتراق و انتشار کا دروازہ کھل گیا ہے اور ایک فریق دوسرے کو کافر مرتد کہنے سے بھی گریز نہیں کرتا اور بڑی شدومد سے ان تمام جانوروں کو حرام و مردار کہتا ہے جنہیں کسی بزرگ کی روح کو ایصال ثواب کے لیے ذبح کیا گیا ہو خواہ اسے ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام ہی لیا گیا ہو۔ آئیے اس آیت کریمہ کو اپنی آرا اور اہوا کا اکحاڑا نہ بنائیں۔ بلکہ اسے سنت نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام اور لغت عرب کی روشنی میں سمجھنے کی مخلصانہ کوشش کریں تاکہ حقیقت عیاں ہو جائے اور باہمی اختلافات و منافرت کے بڑھتے ہوئے سیلاب پر قابو پایا جا سکے۔ وبا للہ التوفیق۔

آیت کا جو مفہوم سلف صالحین اور علماء متقدمین نے خود سمجھا ہے اور ہمیں سمجھایا ہے۔ وہ تو یہ ہے کہ اگر کسی جانور کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کا نام لے کر ذبح کیا جائے تو وہ جانور حرام ہے۔ جس طرح مشرکین باسم الات والعزیٰ کہہ کر جانوروں کو ذبح کیا کرتے تھے۔ امام ابوبکر جصاص حنفی رحمۃ اللہ علیہ اپنی شہرہ آفاق تفسیر احکام القرآن میں اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:۔ ولاخلاف بین المسلمین ان المرادبہ الذبیحۃ اذا اہل لغیر اللہ عند الذبح۔ یعنی سب مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ اس سے مراد وہ ذبیحہ ہے جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام لیا جائے۔ بیضاوی ، قرطبی، رازی اور دیگر مفسرین اسلاف نے اس آیت کی یہی تفسیر بیان کی ہے۔

ایک نیا مفہوم اور تکفیر

لیکن علماء متاخرین میں سے بعض لوگوں نے اسلاف اور قدماء مفسرین کی متفقہ رائے سے اختلاف کیا اور اس آیت سے ایک نیا مفہوم اخذ کیا جس سے تکفیر کا دروازہ کھل گیا۔ غیروں کو اپنا بنانے کی توفیق سے جو لوگ محروم تھے انہوں نے اپنوں کو بیگانہ بنانے کا شغل اختیار فرمایا اور اس فن میں وہ جدت طرازیاں اور موشگافیاں کیں کہ عقل دنگ رہ گئی اور دل لرز اٹھا۔ آئیے پہلے ان کے دلائل کو سنئے تاکہ ان کی اس غلط فہمی کا ماخذ آپ کو معلوم ہو جائے۔ پھر ان میں غور فرمائے۔ ان دلائل کی بےسروپائی آپ پر واضح ہو جائیگی۔

وہ اس آیت کا یہ معنی بیان کرتے ہیں کہ جس جانور پر غیر اللہ کا نام لے دیا جائے اور وہ اس غیر کے نام سے مشہور ہو جائے تو ایسے جانور کو اگر اللہ تعالیٰ کا نام لے کر بھی ذبح کیا جائے تو وہ حلال نہیں ہوگا بلکہ حرام ہوگا۔ جس طرح کتے اور خنزیر کو اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ذبح کیا جائے تو وہ ناپاک ہی رہتا ہے۔ وہ اپنے اس مفہوم کی تائید کے لئے کہتے ہیں کہ لغت عرب اور عرف میں اہل کا معنی ذبح کرنا نہیں ہے کوئی شعر کوئی عبارت ایسی پیش نہیں کی جاسکتی جس میں کسی فصیح و بلیغ نے اہل کو ذبح کرنے کے معنی میں استعمال کیا ہو بلکہ اہل لغت کے نزدیک اہل کا معنی آواز بلند کرنا ہے۔ اور کسی چیز کو شہرت دینا ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ اگر امن بھی لیا جائے کہ ’’وہ جانور جسے غیر اللہ کے نام سے ذبح کیا جائے‘‘ یہ تو کسی طرح مراد نہیں ہوسکتا۔ اس لیے آیت کا جو معنی تم نے کیا ہے وہ تو صراحۃً تحریف آیت ہے۔ یہ ان کا استدلال ہے جو آپ نے پڑھ لیا۔

اب ہم بصد ادب ان کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اہل اہل کا معنی اگر وہ لیا جائے جو تم نے لیا ہے کہ آواز بلند کرنا یا شہرت دینا تو چاہئے یہ کہ تمام ایسے جانور جن پر غیر اللہ کا نام لے دیا جائے یا انہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لئے نامزد کر دیا جائے تو وہ ابدی حرام ہو جائیں اور اگر تکبیر پڑھ کے ان کے گلے پر چھری پھیری جائے تب بھی وہ حلال نہ ہوں۔ حالانکہ ایسا نہیں۔ کیونکہ بحیرۃ، سائبۃ وغیرہا جانور وہ اپنے بتوں کے لیے نذر مانتے تھے۔ اور ان سے کسی طرح کا فائدہ اٹھانا اپنے اوپر حرام کر دیتے تھے۔ حالانکہ اگر کوئی مسلمان ان کو اللہ کا نام لے کر ذبح کرے تو وہ حلال ہیں۔ ان جانوروں کو بتوں کے نام پر نامزد بھی کیا گیا۔ انہیں کے نام سے وہ مشہور ہوئے۔ حالانکہ انہیں اگر تکبیر پڑھ کر ذبح کیا جائے تو وہ اس کے باجود حلال ہیں۔

فتاویٰ عالمگیری میں صراحۃً مرقوم ہے کہ اگر کسی مجوسی نے اپنے آتش کدہ کے لئے یا کسی مشرک نے اپنے باطل خداؤں کے لئے کسی جانور کو نامزد کیا اور کسی مسلمان نے اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اسے ذبح کر دیا تو اسے کھایا جائے گا ۔ کیونکہ مسلمان نے اسے اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ذبح کیا ہے مسلم ذبح شاۃ المجوسی لبیت نارھم اوالکافر لالہتہم توکل لانہ سمی اللہ ویکرہ للمسلم (فتاویٰ عالمگیری: کتاب الذبائح) تو اس سے یہ امر واضح ہوگیا کہ کسی چیز پر محض غیر اللہ کا نام لے دینے سے وہ حرام نہیں ہو جاتی۔

نیز ان کا یہ دعویٰ کرنا کہ اہل کا لفظ ذبح کے معنی میں لغۃً اور عرفاً مستعمل نہیں ہوتا یہ بھی درست نہیں۔ کیونکہ فصاحت و بلاغت کے امام حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہ الکریم نے اہل کو ذبح کرنے کے معنی میں استعمال کیا ہے اور آپ کا قول بلا اختلاف حجت اور سند ہے۔ آپ ارشاد فرماتے ہیں :۔ اذا سمعتم الیہود والنصاریٰ یہلون لغیر اللہ فلا تاکلواو اذا لم تسمعوھم فکلوا فان اللہ قداحل ذبائحہم وہم یعلم ما یقولون (فتح البیان، جلد اول ص ٢٢٢)

یعنی جب تم سنو کہ یہود و نصاریٰ غیر خدا کا نام لے کر ذبح کرتے ہیں تو ان کا ذبیحہ نہ کھاؤ اور اگر نہ سنو تو کھالو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذبیحہ کو حلال کیا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ وہ کہتے ہیں۔

آپ کے اس قول میں یہلون بمعنی یذبحون مستعمل ہے۔ اس لیے ان کا یہ کہنا کہ اہل کا لفظ ذبح کے معنی میں مستعمل نہیں ہوتا۔ صحیح نہ ہوا۔ قدماء مفسرین نے بھی اہل کے لفظ کی تحیق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اہل کا لغوی معنی تو آواز بلند کرنا ہے لیکن اب عرف میں یہ ذبح کرنے کے معنی ہیں یا ذبح کے وقت آواز بلند کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ لغت کے امام اصمعی سے لفظ اہل کی تحقیق نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:۔

قال الاصمعی الاہلال اصلہ رفع الصوت فکل رافع صوتہ فھو مہل …….. وھذا معنی الاہلال فی اللغۃ ثم قیل للمحرم مہل لرفعہ الصوت بالتلبیۃ عند الاحرام ….. والذابح مہل لان العرب کانوا یسمون الاوثان عند الذبح ویرفعون اصواتھم بذکرھا۔ اصمعی نے کہا کہ اہل اصل میں آواز بلند کرنے کو کہتے ہیں۔ تو ہر آواز بلند کرنے والا مہل کہلائے گا۔ یہ اہل کا لغوی معنی ہے پھر محرم کو بھی مہل کہتے ہیں۔ کیونکہ احرام باندھتے وقت وہ بلند آواز سے تلبیہ (لبیک اللہم لبیک الخ) کہتا ہے اور ذبح کرنے والے کو بھی مہل کہتے ہیں۔ کیونکہ مشرکین عرب جانوروں کو ذبح کرتے وقت بلند آواز سے اپنے بتوں کا نام لیا کرتے تھے۔ علامہ ابو الفضل جمال الدین محمد بن مکرم ابن منظور اپنی لغت کی شہرہ آفاق کتاب لسان العرب میں اس لفظ کی تشریح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:۔ واصل الاہلال رفع الصوت وکل رافع صوتہ فھو مہل وکذلک قولہ عزوجل وما اہل لغیر اللہ بہ ھو ما ذبح للآلہۃ وذلک لان الذابح کان یسمیہا عند الذبح فذلک ھو الاہلال۔

صاحب تفسیر خازن لکھتے ہیں:۔ اصل الاہلال رفع الصوت ……. حتی قیل لکل ذابح مہل وان لم یجھر بالتسمیۃ: اہلال کا لغوی معنی آواز بلند کرنا ہے ……. یہاں تک کہ ہر ذبح کرنے والے کو مہل کہا جانے لگا۔ اگرچہ وہ بلند آواز سے تکبیر نہ بھی کہے۔ علامہ سیوطی نے حضرت ابن عباس سے اہل کا معنی ذبح نقل کیا ہے اور امام تفسیر مجاہد نے ما اہل کا معنی لغیر اللہ کیا ہے ۔ علامہ ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر مظہری میں اس لفظ کی تحقیق کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:۔ قال الربیع بن انس یعنی ماذکر عند ذبحہ اسم غیر اللہ والاہلال ……. حتی قیل لکل ذابح مہل وان لم یجھر مہل۔

ازراہ اختصار ان چند حوالوں پر اکتفاء کیا جا رہا ہے، ورنہ بےشمار حوالے پیش کیے جا سکتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل بمعنی ذبح مستعمل ہوتا رہتا ہے۔ ان ان گنت اور واضح تصریحات کے باوجود یہ کہنا کہ اہل ذبح کے معنی میں نہ لغۃ استعمال ہوتا ہے اور نہ عرفاً یہ حق و انصاف سے اعراض کرنا ہے۔

نیز ان صاحبان کا یہ کہنا کہ ما اہل لغیر اللہ ب کا یہ معنی بیان کرنا کہ غیر اللہ کے نام سے کسی جانور کو ذبح کرنا تحریف ہے یہ بھی درست نہیں۔ کیونکہ علامہ نووی شارح مسلم نے حدیث شریف کے ان الفاظ لعن اللہ من ذبح لغیر اللہ کا یہ معنی کیا ہے اما الذبح لغیر اللہ ان یذبح باسم غیر اللہ یعنی جس کو اللہ کے نام کے سوا کسی نام سے ذبح کیا جائے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنے فارسی ترجمہ قرآن میں اس آیت کا یہی معنی کیا ہے۔ ’’وآنچہ ذکر کردہ شد نام غیرخدا برذبح دے‘‘۔ یعنی ذبح کے وقت جس پر غیر خدا کا نام ذکر کیا جائے ۔ کیا اس تحریف کا الزام یہ حضرات آپ پر بھی عائد کرنے کی جسارت کر سکتے ہیں۔

اس تفصیل سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ آیت کا معنی وہی ہے جو علامہ ابوبکر جصاص نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے جو ابتداء بحث میں نقل ہو چکا ہے۔

نیز بخاری اور مسلم کی صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ حضرت سعد بن معاذ نے حضور کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ارشاد کے مطابق اپنی والدی کے لیے جو کنواں کھدوایا تھا اس کا نام ہی برام سعد رکھا گیا تھا۔ یعنی سعد کی ماں کا کنواں۔ اگر کسی غیر کا صرف نام لے دینے سے کوئی چیز ناپاک ہو جاتی تو اس کنویں کا پانی بھی ناپاک ہو جاتا۔ اسے پینا، اس سے وضو یا غسل کرنا اور اس سے کپڑے دھونا سب ممنوع قرار پاتا۔ حضور رحمت عالمیان (صلی اللہ علیہ وسلم) ہر سال ایک دنبہ اپنی طرف سے قربانی دیا کرتے اور دوسرا دنبہ امت کی طرف سے۔

کئی لوگ کسی ولی کے نام کی نذر مانتے ہیں ۔ کیا اس طرح وہ چیز حرام ہو جاتی ہے یا نہیں۔ تو اس کے متعلق مختصراً عرض ہے کہ نذر کے دو معنی ہیں ۔ شرعی اور عرفی۔ نذر شرعی عبادت ہے اور عبادت کسی غیر اللہ کے لئے جائز نہیں۔ اس لئے شرعی معنی میں تو نذر اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس کے علاوہ کسی اور کی نذر ماننا شرک ہے۔ لیکن عرف عام میں نذر عبادت کے معنی میں استعمال نہیں ہوتی۔ بلکہ نیاز کے معنی میں استعمال ہوتی ہے اور یہ شرک نہیں۔ چنانچہ حضرت شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد بزرگوار حکیم الامت حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے اپنے فتاوی میں یہ عبارت نقل کرتے ہیں۔ وہی عبارت آپ کی خدمت میں بعینہٖ پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔ امید ہے یہ گتھی بھی سلجھ جائے گی۔

لیکن حقیقت ایں نذر آنست کہ اہداء ثواب طعام و انفاق و بذل بروح میت کہ امریست مسنون و ازروئے احادیث صحیحہ ثابت است مثل ماد روفی الصحیحین من حال ام سعد وغیرہ ایں نذر مستلزم مے شود پس حال ایں نذر آنست کہ اہداء ثواب ہذا القدر الی روح فلاں۔ وذکر ولی برائے تعین عمل منذو راست نہ برائے مصرف و مصرف ایں نذر نزد ایشاں متوسلان آں ولی مے باشند از اقارب وخدم وہمطریقان وامثال ذالک۔ وہمیں است مقصود نذر کنندگاں بلاشبہ وحکمہ انہ صحیح یجب الوفا ربہ لانہ قربۃ معتبرۃ فی الشرع (فتاویٰ عزیزی جلد اول صفحہ ١٢١ مطبوعہ دیوبند)

ترجمہ:۔ اس نذر کی حقیقت یہ ہے کہ اس طعام وغیرہ کا ثواب میت کی روح کو پہنچایا جاتا ہے اور یہ امر مسنون ہے اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ جیسے حضرت سعد کی والدہ کے کنویں کا ذکر صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود ہے۔ اس نذر کا پورا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ پس اس نذر کا حاصل یہ ہے کہ اس طعام وغیرہ کا ثواب فلاں ولی کو پہنچے۔ نذر میں ولی کا ذکر اس لیے نہیں کیا جاتا کہ وہ اس نذر کا مصرف ہے۔ اس کا مصرف تو اس ولی کے قریبی رشتہ دار، خدام درگاہ اور ہم مشرف لوگ ہوتے ہیں۔ ولی کا نام صرف اس عمل کو متعین کرنے کے لیے لیا جاتا ہے۔ نذر کرنے والوں کا بلاشبہ بس یہی مقصد ہوا کرتا ہے اور اس کا حکم یہ ہے کہ ایسی نذر صحیح ہے۔ اور اس کو پورا کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ یہ ایسی طاعت ہے جو شرعاً معتبر ہے۔

حضرت حکیم الامت کے اس ایمان افروز وضاحت کے بعد کسی قسم کا شبہ باقی نہیں رہتا۔ اگرچہ مزید کسی تشریح کی ضرورت نہیں لیکن محض مزید اطمینان کے لیے ایک دو حوالے اور پیش خدمت ہیں۔

حضرت شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ اپنے فتاویٰ عزیزیہ میں فرماتے ہیں:۔

اگر مالیدہ وشیر برائے فاتحہ بزرگے بقصد ایصال ثواب بروح ایشاں پختہ بخوار اند جائز است مضائقہ نیست۔

یعنی اگر مالیدہ اور دودھ کسی بزرگ کی فاتحہ کے لیے ان کی روح کو ثواب پہنچانے کے ارادے سے پکا کر کھلائیں تو کچھ مضائقہ نہیں جائز ہے۔ (فتاویٰ عزیزی جلد اول صفحہ ٥٠ مطبوعہ دیوبند)

اسی صفحہ پر حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں:۔

اگر فاتحہ بنام بزرگے دادہ شدپس اغنیاء راہم خوردن جائز است واللہ اعلم۔

یعنی اگر کسی بزرگ کے نام فاتحہ دی گئی تو مالداروں کو بھی اس میں سے کھانا جائز ہے۔

حضرت شاہ صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں:۔

طعامیکہ ثواب آں نیاز حضرت امامین نمایندو برآں فاتحہ وقل و درود خوانند تبرک مے شود و خوردن بسیار خوب است۔ (فتاویٰ عزیزی جلد اول صفحہ ٧٨ مطبوعہ دیوبند)

یعنی وہ کھانا جس کا ثواب حسنین کریمین کو پہنچایا جائے اور اس پر فاتحہ ، قل شریف اور درود شریف پڑھا جائے وہ تبرک ہو جاتا ہے اور اس کا کھانا بہت اچھا ہے۔

شاہ اسمعیل دہلوی کی یہ عبارت بھی ملاحظہ فرمائیے:۔

پس درخوبی ایں قدر امر ازامور مرسومہ فاتحہ ہاوا اعراس ونذر و نیاز اموات شک و شبہ نیست۔ (صراط مستقیم ص ٥٥)

اب فاتحہ خوانی کا طریقہ بھی شاہ اسمعیل دہلوی کے الفاظ میں سن لیجئے:۔

اول طالب رابا یدکہ باوضو دوزانو بطور نماز بنشیندو فاتحہ بنام اکابرایں طریق یعنی حضرت خواجہ معین الدین سنجری و حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کا کی وغیرھما خواندہ والتجا بجناب حضرت ایزد پاک بتوسط ایں بزرگان نمایدو بنیار تمام وزاری بسیار دعائے کشور کار خود کردہ ذکر دو ضربی شروع نماید۔ (صراط مستقیم ص ١١١ فخر المطابع)

یعنی پہلے طالب کو چاہئے کہ وضو کرے اور نماز کے طریقہ پر دو زانو ہر کو بیٹھے اور اس طریقہ کے اکابر یعنی حضرت خواجہ معین الدین سنجری اور حضرت قطب الدین بختیار کا کی وغیرہما کے نام کی فاتحہ پڑھے اور پھر درگاہ الٰہی میں ان بزرگوں کے وسیلہ سے التجا کرے اور انتہائی عجزو نیاز اور کمال تضرع و زاری کے ساتھ اپنے حل مشکل کی دعا کرکے دو ضربی ذکر شروع کرے۔

البتہ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے نام کے علاوہ کسی اور کا نام لے کر کسی جانور کو ذبح کرے تو وہ ذبیحہ حرام ہوگا ۔ اور ذبح کرنے والا مشرک ہوگا۔

اسی طرح اگر کسی شخص کے ذہن میں ایصال ثواب کا تصور تک نہیں بلکہ کسی ولی یا نبی کے لیے محض اس جانور کا خون بہانے (اراقۃ الدم) کو ہی وہ دوجہ قربت سمجھ کر ذبح کرتا ہے تب بھی وہ جانور حرام ہوگا۔ کیونکہ جان کا مالک وہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہے جس نے جان کو پیدا فرمایا۔ اس لیے اس کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اللہ تعالیٰ کی چیز کو کسی کے لئے قربان کرے چنانچہ حضرت شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فتاویٰ میں متعدد بار اس مسئلہ کی تحقیق فرمائی اور ایسے جانور کی حلت و حرمت کا فیصلہ کرنے کے لیے یہی معیار مقرر فرمایا۔ آپ لکھتے ہیں:۔

’’فمتیٰ کان اراقۃ الدم للتقرب الی غیر اللہ حرمت الذبیحۃ ومتیٰ کان اراقۃ الدم للہ تعالیٰ والتقرب الی الغیر بالاکل والانتفاع حلت والذبیحۃ لان الذبح عبارۃ عن الاراقۃ لاعن المذبوح ای الذی یحصل بعد الذبح من اللحم والشحم وعلی ھذا قلنا لواشتری لحما من السوق او ذبح بقرۃ اوشاۃ لاجل ان یطبخ مرقا وطعاما لیطعم الفقراء ویجعل ثوابھا لروح فلان حلت بلاشبھۃ‘‘ (فتاویٰ عزیزی جلد اول ص ٥٧)

’’یعنی اگر کسی جانور کا خون اس لئے بہایا جائے کہ اس خون بہانے سے غیر کا تقرب حاصل ہوتو وہ ذبیحہ حرام ہو جائے گا اور اگر خون اللہ تعالیٰ کے لئے بہائے اور اس کے کھانے اور اس سے نفع حاصل کرنے سے کسی غیر کا تقرب مقصود ہوتو ذبیحہ حلال ہوگا۔ کیونکہ ذبح کا معنی خون بہانا ہے نہ وہ جانور جسے ذبح کیا گیا۔ اسی لیے ہم نے کہا ہے کہ اگر کسی نے بازار سے گوشت خریدا یا گائے یا بکری ذبح کی تاکہ اسے پکا کر فقیروں کا کھلائے اور اس کا ثواب کسی کی روح کو پہنچائے تو یہ (گوشت، گائے، بکری) بلاشبہ حلال ہوگی‘‘۔

میں علی وجہ البصیرت کہہ سکتا ہوں کہ مسلمان نہ اللہ تعالیٰ کے نام پاک کے سوا کسی کا نام لے کر ذبح کرتے ہیں اور نہ وہ محض اراقۃ الدم (خون بہانے) کو وجہ تقرب سمجھتے ہیں بلکہ ان کے پیش نظر صرف ایصال ثواب ہوتا ہے۔ بفرض محال اگر کوئی شخص اپنی جہالت کی وجہ سے ایسا کرتا ہے تو اسے فوراً تائب ہونا چاہئے۔ مبادا اسی گمراہی پر اس کی موت آجائے۔ نیز ان لوگوں کو بھی خدا کا خوف کرنا چاہئے جو ہر مسلمان پر بلا امتیاز شرک و کفر کا فتویٰ جڑ دیتے ہیں اور اس کو اپنی سستی شہرت کے حصول کا آسان اور موثر ذریعہ سمجھتے ہیں حسبنا اللہ ونعم الوکیل۔

[تفسیر  ضیاء القرآن]

Pages ( 1 of 2 ): 1 2 Next »

Related:

    1. وفات، میت ، نماز جنازہ ، تعزیت
    2. اسلام میں وراثت، ہبہ اور وصیت کے احکام  Law of Inheritance in Islam
    3. ایصال ثواب – نجات، بخشش
    4. نجات، بخشش، ایمان اور اعمال

نجات، بخشش، ایمان اور اعمال – مغالطے Salvation, Faith, Works and Illusions

Pages ( 2 of 2 ): « Previous1 2