ختم نبوت کے محاذ پر مضبوط بنیاد اور قانونی واخلاقی بالادستی اسی مقدمہ نے مہیا کی۔اسلامک فاوٴنڈیشن نے اس مقدمہ کی تمام تر تفصیلات تین ضخیم جلدوں میں مرتب کی ہیں ،جس کے بارے میں جلیل القدر علماء کا کہنا ہے کہ اس کتاب کے بعد اب قادیانیت کے خلاف کسی اور تصنیف کی ضرورت نہیں ہے۔
اس مقدمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ تحصیل احمد پور شرقیہ ،ریاست بہاول پور میں عبد الرزاق نامی شخص مرزائی ہوکر مرتد ہوگیا اور اس کی منکوحہ غلام عائشہ بنت مولوی الٰہی بخش نے سن بلوغت کو پہنچ کر اپنے باپ کے توسط سے24جولائی1926ء کو احمد پور شرقیہ کی مقامی عدالت میں فسخ ِنکاح کا دعویٰ کر دیا۔یہ مقدمہ بالآخر ڈسٹرکٹ جج بہاول پور کو بغرضِ شرعی تحقیق منتقل ہواکہ آیا قادیانی دائرہٴ اسلام سے خارج ہیں کہ نہیں؟اس طرح یہ مقدمہ دولوگوں کے بجائے اسلام اور قادیانیت کے مابین حق وباطل کا مقدمہ بن گیا ۔قادیانیت کے خلاف اُمت مسلمہ کی نمائندگی کے لیے سب کی نظر دارالعلوم دیوبند کے مولانا انور شاہ کاشمیری پر پڑی اور وہ مولانا غلام محمد گھوٹوی کی دعوت پر اپنے تمام پروگرام منسوخ کرکے بہاول پور تشریف لائے اور فرمایا:
”جب یہاں سے بلاوا آیا تو میں ڈھابیل جانے کے لیے پابہ رکاب تھا،مگر میں یہ سوچ کر یہاں چلا آیا کہ ہمارا نامہ اعمال تو سیاہ ہے ہی،شاید یہی بات مغفرت کا سبب بن جائے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا جانب دار بن کر یہاں آیا تھا…اگر ہم ختم نبوت کا کام نہ کریں تو گلی کا کتا بھی ہم سے اچھا ہے۔،،
پھر اس مقدمہ میں مسلمانوں کی طرف سے مولانا غلام محمد گھوٹوی،مولانا محمد حسین کولوتارڑوی،مولانا محمد شفیع،مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری،مولانا نجم الدین،مولانا ابوالوفاء شاہ جہانپوری اور مولانا انورشاہ کاشمیری (رحمہم اللہ تعالیٰ) کے دلائل اور بیانات پرمرزائیت بوکھلا اُٹھی۔مولانا ابوالوفاء شاہ جہاں پوری نے عدالت میں جواب الجواب داخل کرایا جو چھ سو صفحات پر مشتمل تھا،جس نے قادیانیت کے پرخچے اُڑا دیے۔
عدالت میں موجود علماء کا کہنا ہے کہ مولانا انور شاہ کاشمیری جب مرزائیت کے خلاف قرآن وحدیث کے دلائل دیتے تو عدالت کے درودیوار جھوم اُٹھتے اور جب جلال میں آکرمرزائیت کو للکارتے تو کفر کے نمائندوں پر لرزہ طاری ہوجاتا۔ایک دن مولانا نے جلال الدین شمس مرزائی کو للکار کر کہا:”اگر چاہوتو میں عدالت میں یہیں کھڑے ہوکر دکھا سکتا ہوں کہ مرزا قادیانی جہنم میں جل رہا ہے“۔یہ سن کر عدالت میں موجود تمام مرزائی کانپ اُٹھے اور مسلمانوں کے چہرے خوشی سے کھل اُٹھے۔خواجہ خان محمد اس بارے میں لکھتے ہیں:”اہل دل نے گواہی دی کہ عدالت میں انور شاہ کاشمیری نہیں‘بلکہ حضور سرورِ کائنات صلی الله علیہ وسلم کا وکیل اور نمائندہ بول رہا ہے۔“
جب مرزائیوں کو اس مقدمہ میں اپنی شکست سامنے نظرآنا شروع ہوئی تو انہوں نے دسمبر1934ء میں عبدالرزاق کے مرجانے کی وجہ سے یہ درخواست دائر کردی کہ اب اس مقدمے کے فیصلہ کی ضرورت نہیں ہے ‘لہٰذا اس مقدمہ کو خارج کردیا جائے…بعض شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ شکست سے بچنے کے لیے مرزائیوں نے از خود عبدالرزاق کو قتل کرادیا،تاکہ مقدمہ خارج ہوجائے،مگر ہوتا وہی ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔لہٰذایہ مقدمہ جاری رہا اور حق وباطل کے اس مقدمہ کا فیصلہ جناب محمد اکبر خان(اللہ تعالیٰ اُن کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے)نے 7فروری1935ء کو سنایا،جس کے مطابق مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکار اپنے عقائد واعمال کی بنا پر مسلمان نہیں،بلکہ کافر اور خارج از اسلام ہیں اور اس ضمن میں عبدالرزاق مرزائی کاغلام عائشہ کے ساتھ نکاح فسخ قرار دے دیا گیا۔مرزائیوں نے اپنے نام نہاد خلیفہ مرزابشیر الدین کی سربراہی میں سر ظفر اللہ مرتد سمیت جمع ہو کر اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی سوچ بچار کی، لیکن آخرکار اس نتیجے پر پہنچے کہ فیصلہ اتنی مضبوط اور ٹھوس بنیادوں پر صادر ہوا ہے کہ اپیل بھی ہمارے خلاف جائے گی … اس تاریخ سا ز فیصلہ نے پوری دنیا کے مسلمانوں پر مرزائیت کے عقائد کو آشکار کردیا اور اس طرح مرزائیوں کی ساکھ روزبروز کمزور ہونے لگی۔
اس مقدمہ کے حوالے سے جہاں علماء کرام ومشائخ عظام اور جج صاحب کی کاوشیں سنہری حروف سے لکھی جانے کے قابل ہیں ،وہیں غلام عائشہ اور ان کے والد گرامی مولوی الٰہی بخش کا بھی پوری اُمت مسلمہ پر عظیم احسان ہے کہ انہوں نے ایک مرزائی کے خلاف فسخ ِنکاح کے دعویٰ کیا، جو ردِّ قادیانیت کے لیے پیش خیمہ ثابت ہوا۔
قادیانیت کے حق میں آینی ترمیم کیا تھی ؟
قومی اسمبلی میں قادیانیت کا مقدمہ
1974 میں___ جب قومی اسمبلی میں فیصلہ ہوا کہ قادیانیت کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنا موقف اور دلائل دینے قومی اسمبلی میں آئیں تو۔۔۔ مرزا ناصر قادیانی سفید شلوار کرتے میں ملبوس طرے دار پگڑی باندھ کر آیا۔متشرع سفید…[Continue reading…]
مرزا غلام قادیانی مرتد، زندیق کا مختصر
مرزا غلام قادیانی مرتد، زندیق کا مختصر پسِ منظر: جس نے ختم نبوت سے انکار کیا وہ مرتد بنا، پلید ہوا، کذاب بنا ، پیروکار شیطان بنا، مغربیوں کا کتا بنا ، کافر ہوا، اور گندگی و غلاظت میں ہی واصل… [Continue reading…]
ختم نبوت – ذوالفقار علی بھٹو کی قومی اسمبلی میں تقریر
فتنہ قادیانیت کے تابوت میں پہلی کیل-مقدمہ بهاولپور
ردِّ قادنیت کے حوالے سے مقدمہ بہاول پوربہت اہمیت کا حامل ہے اوراسے قادیانیت کے تابوت میں پہلی کیل کہنا بے جا نہ ہوگا۔ ختم نبوت کے محاذ پر مضبوط بنیاد اور قانونی واخلاقی بالادستی اسی مقدمہ نے مہیا… [Continue reading…]
Sectarianism in Islam اسلام میں فرقہ واریت – تاویلیں، دلائل اور تجزیہ
هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَـٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ ( سورة الحج22:78) اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام “مسلم” رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم… [Continue reading…]
………………………………………………………………….
مزید پڑھیں … مکمل تفصیل >>>
https://goo.gl/HDpr4t ختم نبوت اسلام کے اہم عقائد میں سے ایک ہے، ایک صدی قبل ہندوستان میں انگریز کی سرپرستی میں مسلمانوں کی وحدت کی مزید تقسیم کے لیے قادیانی فتنه پیدا کیا گیا – بہت جدو جہد کے بعد 1974 میں پاکستان میں آیینی طور پر قادیانوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تاکہ …
Source: Khatm-e-Nabuwat-Qadyani Fitnah ختم نبوت اور قادیانی فتنه- تحقیقی جائزہ – Salaam One سلام