پاکستان الیکشن Pakistan Elections 2018

الیکشن میں  2018 مکمل ہوا … ملک میں 25 جولائی کو ہونے والے 11 ویں عام انتخابات کے غیر حتمی نتائج الیکشن کمیشن نے جاری کردیے ہیں۔ نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) 115 نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت بن گئی ہے۔

European Union Election Observation Mission Pakistan 2018 …

The chief observer of the European Union Election Observation Mission to Pakistan, Michael Gahler, has said that apart from a few incidents of terrorism, the overall situation of the general election was satisfactory. “Our observers visited as many as 300 polling stations in 87 constituencies and I have personally visited four polling stations. Though we will release our preliminary report on Friday and a detailed report will be released later after assessing the overall situation, there is improvement as compared to the previous election held in 2013…. [……]

https://www.ecp.gov.pk/

حیران کن بات یہ ہے کہ گزشتہ انتخابات میں صرف 28 جنرل، 6 مخصوص اور ایک اقلیتی نشست حاصل کرنے والی تحریک انصاف اب سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی ہے۔

اس سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ یہی تحریک انصاف 2008 میں قومی اسمبلی کا حصہ ہی نہیں تھی، کیوں کہ اس وقت جنرل (ر) پرویز مشرف ملک کے صدر تھے، اسی وجہ سے دیگر جماعتوں کے ساتھ پی ٹی آئی نے بھی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔

گزشتہ انتخابات میں تیسری بڑی اور 25 جولائی 2018 کے انتخابات میں سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آنے والی تحریک انصاف پہلی بار 3 دہائیوں کے اندر اندر وفاق اور ایک سے زائد صوبے میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف 115 نشستوں کے ساتھ سرفہرست

الیکشن ٢٠١٨ اپ ڈیٹ>>>>

اب تک کی صورتحال کے مطابق تحریک انصاف وفاق اور خیبر پختونخوا سمیت پنجاب میں بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ چکی ہے، تاہم وہ پنجاب میں حکومت بناتی ہے یا نہیں اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔

اسی طرح 2008 کے انتخابات میں قومی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی کا درجہ حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی 25 جولائی 2018 کے انتخابات میں تیسرے نمبر پر آگئی۔

یعنی 10 سال قبل جو پوزیشن پیپلز پارٹی کی تھی اب وہی تحریک انصاف کی ہے۔

تین ماہ قبل تک پاکستان کے مرکز اور سب سے بڑے صوبے پنجاب میں تن تنہا حکومت کرنے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) اس وقت 64 نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی کی دوسری بڑی جماعت بن چکی ہے۔

2013 میں ن لیگ نے 126 جنرل، 35 مخصوص اور 6 اقلیتی نشستیں حاصل کرنے کے مجموعی طور پر 190 سیٹیں لے کر وفاق میں مضبوط حکومت بنانے کے ساتھ ساتھ ملک کی سب سے بڑی جماعت کا اعزاز بھی حاصل کیا۔

مگر 25 جولائی کا سورج غروب ہوتے ہی وہ بھی اپنی پہلی پوزیشن گنوانے کے بعد دوسرے نمبر پر آگئی۔

مزید پڑھیں: تحریک انصاف پنجاب میں بھی حکومت بنائے گی؟

پاکستان میں 2008 سے 2018 کے درمیان ہونے والے تینوں انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ق) جو ایک دہائی قبل قومی اسمبلی میں ملک کی تیسری بڑی جماعت تھی وہ اب سکڑ کر 4 امیدواروں کی جماعت بن گئی ہے۔

اسی طرح ایک دہائی قبل قومی اسمبلی میں چوتھی بڑی جماعت رہنے والی پاکستان متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان اب صرف 6 رکنی جماعت بن چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پولنگ کے دن اصل مسئلہ کہاں پیش آیا؟

حیرانی کی بات تو یہ بھی ہے کہ جس طرح 2008 کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی نے وفاق اور سندھ سمیت بلوچستان میں بھی مخلوط حکومت بنائی تھی، لیکن اگلے انتخابات تک وہ سکڑ کر ایک صوبے تک محدود رہی گئی۔

اسی طرح 2013 کے انتخابات کے بعد وفاق، پنجاب اور بلوچستان میں مخلوط حکومت بنانے والی مسلم لیگ (ن) اس وقت صرف ایک صوبے پنجاب تک محدود رہ گئی ہے۔

یوں 25 جولائی 2018 کے انتخابات کے بعد وفاق، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں مخلوط حکومت بنانے کی پوزیشن میں آنے والی تحریک انصاف آئندہ انتخابات میں ایک صوبے تک محدود ہوجائے گی یا پھر وہ اپنی پوزیشن کو برقرار رکھے گی، اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔

جس طرح 2008 کے انتخابات کے بعد آصف علی زرداری ملک کے اہم ترین فیصلہ ساز شخص بنے تھے، اسی طرح 2013 میں وہ حیثیت نواز شریف نے حاصل کی تھی اور اب یہ حیثیت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے حصے میں آ چکی ہے۔

گزشتہ ایک دہائی کے اقتدار اور طاقت کا توازن پیپلز پارٹی سے نواز لیگ کے راستے اب تحریک انصاف تک پہنچا ہے، تاہم وہ خود کو باقی دونوں جماعتوں سے کس طرح بہتر پوزیشن میں رکھتی ہے، اس کا فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔

جہاں گزشتہ 10 سال کی جدوجہد کے بعد 25 جولائی 2018 کو جہاں تحریک انصاف نے دیگر جماعتوں کو شکست دے کر پہلی پوزیشن حاصل کی، وہیں کئی پارٹیاں سکڑ کر چند رکنی امیدواروں تک محدود رہ گئیں۔

ساتھ ہی 25 جولائی کے دن نے ماضی میں ملک کے وزیر اعظم رہنے والے شاہد خاقان عباسی اور یوسف رضا گیلانی جیسی شخصیات کو بھی ماضی کا قصہ بنا ڈالا۔

………………………………………………………

الیکشن کمیشن پاکستان ( ای سی پی ) نے انتخابات 2018 میں ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے 56 گھنٹے بعد مکمل عبوری نتائج جاری کردیے۔

ای سی پی کے کی جانب سے غیر حتمی سرکاری نتائج میں فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 270 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف 115 نشستوں کے ساتھ سر فہرست ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) 64 نشستیں لے کر دوسرے اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی ) 43 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری غیر حتمی سرکاری نتائج میں متحدہ مجلس عمل ( ایم ایم اے ) قومی اسمبلی کی 12 جبکہ متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) پاکستان 6 نشستیں جیتے میں کامیاب ہوگئی۔

مزید پڑھیں: انتخابات کو مسترد کرتے ہیں،اپوزیشن میں بیٹھیں گے، بلاول بھٹو زرداری

اس کے علاوہ مسلم لیگ (ق) اور نئی بننے والی بلوچستان عوامی پارٹی ( بی اے پی) 4، 4 نشستیں جیت سکی جبکہ سندھ میں بننے والے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس ( جی ڈی اے ) صرف 2 نشستیں حاصل کرسکی۔

الیکشن کمیشن کے غیر حتمی سرکاری نتائج کے مطابق اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی ( بی این پی ) ایوان زیریں میں 3 جبکہ عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی ) صرف ایک نشست جیتے میں کامیاب ہوئی۔

اسی طرح عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل )، پاکستان تحریک انسانیت اور جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) بھی قومی اسمبلی کی ایک ایک نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔

قومی اسمبلی کی 270 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں 12 نشستیں آزاد امیدوار بھی جیتنے میں کامیاب رہے، جو وفاقی حکومت بنانے میں ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: این اے 190 میں پریزائڈنگ افسر کی غلطی الجھن کا باعث بن گئی

تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری عبوری نتائج میں کچھ تبدیلی بھی ہوسکتی ہے کیونکہ قومی اسمبلی کے کم از کم 5 حلقوں پر دوبارہ گتنی ہونے کا امکان ہے، جس کے بعد حتمی نتائج تبدیل ہوسکتے ہیں۔

یاد رہے کہ قومی اسمبلی کی 272 میں سے 2، پنجاب اسمبلی کی 297 میں سے 2، سندھ اسمبلی کی 130 میں سے ایک، خیبرپختونخوا اسمبلی کی 99 میں سے 2 اور بلوچستان اسمبلی کی 51 میں سے ایک نشست پر الیکشن ملتوی کیے گئے تھے، جو اب ضمنی انتخابات کے ساتھ ہوں گے

https://www.dawnnews.tv/news/1083855/

………………………………………………..

پاکستان میں ہونے والے گیارہویں عام انتخابات کے مصدقہ نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ سیٹیں لینے والی پارٹی بن کر سامنے آئی ہے۔

پی ٹی آئی نے 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں مجموعی طور پر ملک بھر سے  ایک کروڑ 68 لاکھ 23 ہزار 792 ووٹ اور 115 نشستیں حاصل کی ہیں۔

قومی اسمبلی میں 64 سیٹیں لے کر دوسرے نمبر پر آنے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ایک کروڑ 28 لاکھ 94 ہزار225 ووٹ حاصل کیے۔

پاکستان تحریک انصاف کے ووٹ نشستوں کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر آنے والی ن لیگ سے 31 فیصد زیادہ ہیں جب کہ نشستیں 45 فیصد زیادہ ہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی نے مجموعی طور پر ملک بھر سے 68 لاکھ 94 ہزار 296  ووٹ حاصل کیے اور قومی اسمبلی میں 43 سیٹیں لے کر تیسرے نمبر پر رہی۔

ملک بھر سے آزاد امیدواروں نے مجموعی طور پر 60 لاکھ 11 ہزار 337 ووٹ حاصل کیے اور ووٹوں کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر رہے جب کہ قومی اسمبلی کی 13 نشستیں جیتنے والی متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے)  25 لاکھ 30 ہزار 452 ووٹ حاصل کر کے مجموعی طور پر پانچویں نمبر پر رہی۔

خیبرپختونخوا میں صورتحال زیادہ دلچسپ رہی جہاں اکثریتی جماعت بننے والی تحریک انصاف کو 21 لاکھ ووٹ ملے اور نشستوں کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر آنے والی مجلس عمل کو 11 لاکھ ووٹ پڑے۔

تحریک لبیک پاکستان کو مجموعی طور پر 21 لاکھ 91 ہزار 679 ووٹ پڑے اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) 12 لاکھ 57 ہزار 351 ووٹ حاصل کر سکا۔

گزشتہ انتخابات کی طرح حالیہ الیکشن میں بھی بدترین کارکردگی دکھانے والی عوامی نیشنل پارٹی(اے این پی) کو انتخابات کے دوران ملک بھر سےآٹھ لاکھ  آٹھ ہزار جب کہ ایم کیو ایم کوسات لاکھ 29 ہزار ووٹ پڑے۔

………………………………………….

الیکشن سےپہلے کے حالات

ملک میں دو قوتیں ہیں:

1. ایک طرف مسلم لیگ ، پیپلز پارٹی وغیرہ ہیں۔ یہ تسلسل کی دعویدار ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ ہم نے پہلے بھی بہت کچھ کیا ہے ، ہم ناکام نہیں ہوئے ، ہم نے دودھ کے کنویں اور شہد کی نہریں کھود ڈالی ہیں اور ہم آئندہ بھی اسی طرح کریں گے [ان میں مذہبی جماعتوں کا اتحاد MMA بھی شامل کر لیں کہ ان کے امیدوار بہت جگہ نون کے حق میں دستبردار ہو چکے ہیں]۔

2. دوسری طرف تحریک انصاف ہے اس کا کہنا ہے کہ جو کچھ ہوتا آیا ہے ہم اس سے مطمئن نہیں ہیں۔یہ ظلم ہے اور ایک واردات مسلسل ہے۔ ہمیں اس واردات کو روکنا ہے۔اب جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک کو اسی طرح چلانا چاہیے جیسے یہ اب تک چلتا آیا ہے وہ گویا تسلسل کے قائل ہیں۔ ایسے لوگوں کا انتخاب مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ہی ہونا چاہیے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نہیں بہت ہو چکا اب ملک کے ساتھ مزید واردات نہیں ہو سکتی وہ گویا تبدیلی چاہتے ہیں ۔تبدیلی کی خواہش رکھنے والوں کے لیے فی الوقت تحریک انصاف کے علاوہ کوئی آپشن نہیں- اس کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں:

Dawn Survey: https://www.dawnnews.tv/news/1082857

عمران خان کا کہنا ہے سیاست اقوال زریں سنانے کے لیے نہیں کی جاتی۔  سیاست اقتدار میں آ کر ملک کے لے کچھ کر گزرنے کی کوشش کا نام ہے۔

اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ سماج کی ساخت ایسی ہے کہ روایتی سیاست دانوں کو ساتھ ملائے بغیر یہاں انتخابی معرکہ جیتنا ناممکن ہے۔

عمران کا یہ موقف اگر چہ ان کے ابتدائی موقف سے مختلف ہے ، یہ ان کے نعرے سے بھی متصادم ہے، لیکن بہر حال اس میں ایک وزن ہے۔

پاکستانی معاشرہ کی فکری حالت ہمارے سامنے ہے۔ نون کے طاقتور امیدوار پیسہ طاقت کے زور پر عوام کو مجبور کر دیتے ہیں ، ان کا مقابله ایک شریف سیدھا سدھا پڑھا لکھا امیدوار نہیں کر سکتا ، لوہے کو لوہا کاٹتا ہے، لوہے کو لکڑی سے نہیں کاٹ سکتے- انصاف ناپید ہے۔ تھانوں میں جو ہوتا ہے آپ کے سامنے ہے۔ معاشرہ ان بالادست طبقات کی گرفت میں ہے۔جب تک معاشرہ اس گرفت سے نہیں نکلتا ، محض اخلاقی برتری پر الیکشن نہیں جیتا جا سکتا۔ جیتنا تو رہا ایک طرف شاید لڑا بھی نہیں جا سکتا۔

زندگی ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے مثالی صورت حال کی خواہش ضرور کرنی چاہیے اور مقصد بھی وہی ہونا چاہیے ۔لیکن یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ دنیا امکانات کی دنیا ہے۔جو ہم چاہتے ہیں اور جس کی ہم نے تمنا کی ہوتی ہے ضروری نہیں ہمیں وہ مل بھی جائے۔

عمران کے معاملے میں مثالی صورت حال تو یہی تھی کہ اس کے سارے امیدوار صاف شفاف ہوتے۔ کوئی ن لیگ ، ق لیگ ، یا پیپلز پارٹی سے نہ آیا ہوتا ۔لیکن امکانات کی دنیا میں دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا ہم ایسے امیدواروں کو سنجیدگی سے لیتے؟

معاشرہ اگر غلامی کے طوق گلے سے اتارنے کے قابل نہیں اور کسی نے اس کی شعوری تہذیب نہیں کی تو اس کی تعزیرکا کوڑا عمران خان کی کمر پر کیوں برسایا جائے۔

بہت لوگ صرف برادری پر ووٹ دیتے ہیں اب اگر ہم نے برادری کے صاحب ہی کو ووٹ دینے کی ٹھان دے چکے ہوں تو عمران خان ہمارے لیے حکیم سعید اور سید مودودی جیسے لوگ کہاں سے لائے؟ اور کیوں لائے؟

عمران کا یہ کہناہے کہ اس کے پاس دو راستے تھے:

  1. پہلا یہ کہ وہ کرکٹ کا کھیل ہاکی کے کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلے، روایتی سیاست کے چہروں کو نظر انداز کر کے ٹکٹ جاری کرے اور ایک بار پھر ہار جائے اور ملک انہی کے حوالے کر دے جنہوں نے اس ملک کو اس حال تک پہنچایا ہے۔

  2. دوسرا راستہ یہ تھا کہ کرکٹ کا کھیل کرکٹ کے کھلاڑیوں سے کھیلے ، حکمت عملی کے طور پر الیکٹیبلز کو ٹکٹ دے اقتدار میں آئے اور پھر کچھ کر گزرے۔

عمران کے بقول انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔اب اگر کوئی عمران خان سے آخری درجے میں مایوس ہو چکا ہے تو وہ ایک الگ بات ہے لیکن اگر کسی کو عمران خان سے کسی درجے میں کچھ حسن ظن باقی ہے تو وہ عمران خان کو شک کا فائدہ دے سکتا ہے۔

اتمام حجت کے لیے ہی سہی ایسے آدمی کو عمران خان کا ساتھ دینا چاہیے۔ یہ بتا کر کہ ہم تمہارے کہنے پر تمہارے امیدوار کی شکل دیکھنے کی بجائے تمہیں دیکھ کر ووٹ دے رہے ہیں۔ لیکن 26 جولائی سے ہم تمہاری حزب اختلاف ہوں گے۔تم نے کچھ کر کے دکھایا تو درست ورنہ تم پر تنقید کا پہلا پتھر ہماری طرف سے آئے گا۔ [ماخوزبشکریہ آصف محمود]

https://wp.me/s9pwXk-nawaz

عمران خان ، PTI کو کیوں ووٹ دیں؟  دس وجوہات …

1.اس کی ایک خوش بختی یہ ہے کہ اسے وفاق میں حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا۔

2.ایک صوبے میں ملا تو کم از کم پولیس اور تعلیم کے میدانوں میں افتاں خیزان گرتا پڑتا کچھ نہ کچھ کامیاب ہو ہی ہوگیا۔

3. عمران خان کو ووٹ نہ دیں تو کیا انہیں دیں جنہوں نے سرے محل خریدے؟

4.فرانس میں جائیدادیں بنائیں۔ دبئی میں اقامت پذیر ہیں اور بدلتے موسموں کا تقاضا ہو تو وطن کا چکر یوں لگاتے ہیں جیسے وطن نہ ہو کالونی ہو یا پردیس ہو۔ کالونی نہیں تو کیا ہے؟

5.کل یہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت تھی۔ سمندر پار سے آتے تھے۔ حکومت کرتے تھے اور واپس پلٹ جاتے تھے۔ اب حکومت کرنے دبئی سے آتے ہیں۔

اس ملک نے وہ زمانہ بھی دیکھا جب ایک صوبے کا دارالحکومت عملاً مشرق وسطیٰ میں منتقل ہو گیا تھا۔ صوبائی دارالحکومت اور مشرق وسطیٰ کے درمیان وزیروں مشیروں اور پارٹی کے رہنمائوں کا آنا جانا اس تواتر سے تھا جیسے انسانوں کی نہیں، چیونٹیوں کی نہ ختم ہونے والی قطار ہو۔

6.تو پھر کیا ہم لندن کے شہریوں کو ووٹ دیں؟

جنہوں نے ہر عید، اپنے ’’گھر‘‘ لندن میں منائی! جن کی اولاد اور اولاد کی اولاد لندن میں رہتی ہے وہیں پل بڑھ رہی ہے۔ یہ اور بات کہ ہم ان بچوں کی سلامتی کے لیے بھی دعا گو ہیں اور متفکر کہ وہ اپنے بزرگوں کے کیے کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔

افسوس ہوتا ہے حسین نواز اور مریم صفدر کے بچوں کے حال زار پر جنہیں دیکھ کرلوگ نعرے لگاتے ہیں۔ کم از کم ان بچوں کا تو کوئی قصور نہیں۔ منطق سیدھی سادی ہے۔ تلخ سچائی کی طرح کہ جن جماعتوں کو اس ملک کے عوام دیکھ چکے ہیں، آزما چکے ہیں، ان سے بچنے ہی میں حکمت ہے۔

7.عمران خان کو موقع ملنا چاہیے ایک بار اسے بھی آزما کر دیکھیں۔

8.اسے ووٹ اس لیے دینا چاہیے کہ کیاخبر اب کے بخت اس ملک کا ساتھ دے۔ کرپشن، اقرباپروری، دوست نوازی اور گروپ بندی سے نجات مل جائے۔

9.بیوروکریسی کو لاہور گروپ، کشمیری برادری، ککے زئی نیٹ ورک، جاٹ پرستی، مغل نوازی، آرائیں طرف داری، اعوان دھڑے بندی اور راجپوت قبیلہ بازی سے رہائی نصیب ہو جائے۔

10.اور اگر عمران خان نے وعدے پورے نہ کئے، اگر الیکٹیبلز کے جال میں پھنس گیا، اگرنذر گوندلوں، عاشق اعوانوں، ہمایوں اختروں، قریشیوں اور ترینوں کے ہاتھ میں یرغمال بن گیا تو پھر یہ قوم اتنی مایوسیوں سے گزر چکی ہے کہ وہ تو ایک اور مایوسی کوبرداشت کرلے گی مگر عمران خان ہمیشہ کے لیے بے نقاب ہو جائیں گے۔


اس لیے حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں

سیاست دان انتخابات میں کچھ جیتیں گے، کچھ ہاریں گے ع کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے کچھ اپنی جزا لے جائیں گے مگر انتخابات ہم عوام کے لیے بھی امتحان ہیں۔ اس امتحان میں معلوم ہو جائے گا کہ کون تہذیب کے دائرے کے اندر رہا اور کون حدیں پھلانگ گیا۔

عمران خان وزیراعظم بنے یا کوئی اور، ہم غلطیوں کی نشاندہی کرتے رہیں گے اور جو حکومتوں کی طرف داری کرتے رہے ہیں، ایک حکومت کی نہیں، ہر حکومت کی!
وہ عمران خان کی حکومت کی بھی چوبداری کریں گے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا ؎

جب حریت فکر کا دستور ہوا طے خود جبر مشیت نے قسم کھائی
ہماری عمران خان سے جو امیدیں تھیں ان امیدوں کا شعلہ کجلا گیا ہے۔ روشنی مدہم پڑ رہی ہے مگر انگریزوں نے محاورہ ایجاد کیا تھا کہ فقیروں کے پاس اختیار ہی کہاں ہے، فراق گورکھپوری نے کہا تھا ؎
دل آزاد کا خیال آیا اپنے ہر اختیار کو دیکھا
عمران خان اب بھی ’’کم تربرائی‘‘ میں ہی شمار ہوگا۔ [اقتباس اظھارالحق ، مکمل تحریر نیچے … ]


نواز شریف کا کو کیوں مسترد کریں؟ نواز کا ایجنڈا ۔۔۔اور  تفصیلات ، ویڈیوز ، اور اہم وجوہات . اس <<< لنک >> پر …   

https://salaamone.com/nawaz/

پاکستان دشمن قوتیں پاکستان کے الیکشن پر اثرانداز ہو سکتی ہیں ، روس جس طرح امریکی الیکشن پر اثرانداز ہوا ۔۔۔ کیا پاکستان کے ادارے خاموش تماشائی رہیں جب کہ انڈیا ،مودی کے یار پھر حکومت پر قابض ہونے کی کوششیں کریں ؟

پاکستان کے سابق نا اہل وزیر اعظم نواز شریف جن کرپشن کے جرم میں دس سال   با مشقت کی سزا ہوئی، مسلسل اپنی کرپشن کے خلاف ثبوت دینے کی بجایے سیاسی مسلہ بنا کر پیش کر رہے ہیں- ان کا ایجنڈا پاکستان نہیں اپنی ذات، مال و دولت کی حرص اور فیملی کی حکمرانی کا ہے جس کے حصول کے لیے وہ انڈیا اور بیرونی پاکستان دشمن طاقتوں کے الہ کار بنے ہوے ہیں- یہ کوئی ڈھکی چھپی سازشی تھیوری نہیں بلکہ واضح ہے …

مودی سے دوستی اور خفیہ روابط ، کلبھوشن ہر خاموشی، نظریہ پاکستان پر تنقید ،  پاکستان دشمن سیاستدانوں سے قربتیں ، “نیشنل ایکشن پلان” پر مجرمانہ سست روی ؟؟؟؟


کیا سب اندھے اور بے وقوف ہیں میڈیا کی ظرح؟    
جاگو!!!  

اسلام ، پاکستان دشمن کرپٹ مجرموں  کو مسترد کرو .. 

کیا نواز شریف غدار ہے؟

اس کا جائزہ انتلکچالز کی تحریروں سے بخوبی ہو سکتا ہے …..

  1. ہمارے انتخابات اور بھارتی مداخلت
  2. دل اور دماغ باہم بر سرِ پیکار ہیں
  3. میاں نواز شریف سول بالادستی کی جنگ کیوں نہیں جیت سکتے
  4. عمران خان ، PTI کو کیوں ووٹ دیں؟ دس وجوہات …
  5.  فوج کی سیاست میں مداخلت
  6. نواز شریف  پر فس بک ویڈیوز اور پوسٹس

…………………………………………

نواز شریف کا اصل ایجنڈا کیا ہے ؟

نواز شریف کو دس سال قید کی سزا کیوں ہوئی ؟

ہمارے انتخابات اور بھارتی مداخلت

لندن میں حسین حقانی، براہمداغ بگٹی، مشاہد حسین اور پرویز رشید کے درمیان ہونے والی مبینہ ملاقاتیں کچھ نہ کہنے کے باوجود بہت کچھ کہہ چکی ہیں۔ لگتا ہے کہ حسین حقانی کے میمو گیٹ کا مشن‘ جو ادھورا رہ گیا تھا‘ اسے کچھ دوسرے مکمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ لندن پوسٹ کے ایڈیٹر اور برطانیہ کے معروف صحافی ڈاکٹر شاہد قریشی سے اس سلسلے میں جب میری بات ہوئی تو انہوں نے یہ بتا کر میرے خدشات کو مزید تقویت دی کہ نواز شریف کی اسرائیل اور بھارتی سفارت کاروں سے ملاقاتیں ہو چکی ہیں؛ تاہم ڈاکٹر شاہد کا کہنا ہے کہ انہوں نے تصدیق کے لئے جب اسرائیلی سفارت کاروں سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس خبر کی تائید یا تردید سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ نواز شریف کی ہدایات پر کیا جا رہا ہے کیونکہ پرویز رشید یا کسی دوسرے کی ہمت ہی نہیں کہ وہ نواز شریف کی اجازت کے بغیر حسین حقانی، براہمداغ بگٹی اور انڈین ہائی کمیشن میں را کے لوگوں سے ملاقاتیں کر سکیں۔ حسین حقانی گروپ کے اس ایجنڈے کی تکمیل میں مدد کے لئے امریکہ میں پاکستانی سفیر کی مصروفیات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ افسوس کہ پاکستان میں برسر اقتدار نگران انتظامیہ ان معاملات کی طرف توجہ نہیں دے رہی۔ 
13 جولائی کا دن کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی میں اہم مقام رکھتا ہے‘ کیونکہ دہائیوں پہلے اس روز درجنوں کشمیری مہاراجہ کی ڈوگرہ فوج نے قتل کر دیئے تھے۔ تیرہ جولائی کو آزاد کشمیر میں ہر سال ان شہدا کی یاد میں تعزیتی کانفرنسیں ہوتی ہیں اور ریلیاں نکالی جاتی ہیں‘ لیکن آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر اس سے ایک دن پہلے ہی اپنی پوری کابینہ کو ساتھ لے کر آزاد کشمیر کے غریب عوام کے پیسے سے نواز شریف کے استقبال کیلئے لاہور پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ تیرہ جولائی کو پچاس لاکھ افراد لے کر ایئر پورٹ کا رخ کریں گے۔ میاں نواز شریف کو جب سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دیا تو انہی راجہ صاحب نے جو بیان جاری کیا‘ وہ یہ بتانے کے لئے کافی تھا کہ کل کو یہ شخص کسی بھی وقت ملکی سالمیت کے خلاف انتہائی قدم اٹھا سکتا ہے۔ کوئی ایسا قدم جو نریندر مودی کے مقاصد اور اجیت ڈوول کے تیار کردہ مشن کی تکمیل کو آگے بڑھانے کے لئے کام آ سکے۔ کیا ملکی سلامتی سے متعلق ادارے با خبر ہیں کہ نریندر مودی اور اجیت ڈوول را کے افسران کے ہمراہ جب میاں نواز شریف کی نواسی کی شادی میں شرکت کیلئے اچانک کابل سے جاتی امرا پہنچے تھے تو… راجہ صاحب کی نواز شریف کی ہدایات پر اجیت ڈوول سے خفیہ ملاقات کرائی گئی تھی۔ میری اطلاع یہی ہے۔ یہ تحریر پڑھنے والوںکو اسے کسی کی سیاسی مخالفت کے رخ سے دیکھتے ہوئے نظر انداز نہیں کرنا چاہئے… بلکہ انہیں ہر وقت راجہ صاحب کی آف دی ریکارڈ گفتگو کو سامنے رکھنا چاہیے۔ نواز لیگ کی پانچ سالہ حکومت ختم ہونے سے چندگھنٹے قبل رات کے اندھیرے میں نواز لیگی کابینہ کا اجلاس بلا کر آزاد کشمیر کونسل کے قوانین میں جو ترامیم کی گئیں‘ اندازہ لگایا جانا چاہیے کہ وہ نریندر مودی کے کسی ایجنڈے سے مطابقت تو نہیں رکھتیں؟ کوئی ایسا ایجنڈا جس کے تحت بھارتی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیاں پاکستان کے خلاف کام کر رہی ہیں۔ یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ آئے روز آزاد کشمیر پر بھارتی فوج کی جانب سے کی جانے والی گولہ باری پر آزاد کشمیر کے وزیر اعظم نے کوئی احتجاج ریکارڈ نہیں کرایا۔ لائن آف کنٹرول پر بھارتی گولہ باری سے شہید ہونے والوں کی کبھی مدد کرنے یا ان کے حق میں آواز بلند نہیں کی۔ بندہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ یہی وہ ”کیوں‘‘ ہے جو باہمی تانے بانے جوڑنے کی خبریں دیتی ہے۔
کیا کبھی انہوں نے سردار عبدالقیوم مرحوم، سردار عتیق کی طرح کبھی میر پور یا مظفر آباد میں کسی ایسی ریلی یا جلوس کی قیادت کی‘ جس میں بھارت کے ظلم و تشدد کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہو؟ کیا فاروق صاحب سے پہلے آزاد کشمیر کے کسی وزیر اعظم نے ملک کی سلامتی کے اداروں کو براہ راست نشانہ بنایا؟ میں جو بار بار لکھ رہا ہوں کہ پی پی پی کے آصف علی زرداری اور نواز لیگ کی ملی بھگت سے منظور کی جانے والی 18ویں ترمیم اس ملک کے لئے زہرِ قاتل سے کم نہیں اور فاروق حیدر نے اسی اٹھارہویں ترمیم کا سہارا لیتے ہوئے آزاد کشمیر کونسل کو ختم کیا۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے مل کر نواز حکومت ختم ہونے سے ایک ہفتہ قبل شاہد خاقان عباسی کی کابینہ سے جو من مانیاں کرائیں‘ ان کی ایک ایک شق کو سامنے رکھیں تو خوف آنے لگتا ہے کیونکہ آزاد کشمیر میں اب جج حضرات فاروق حیدر صاحب کے کارکن ہی تعینات کیے جائیں گے۔
میں اس لئے خوف زدہ نہیں کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران چھپنے والے میرے مضامین کی وجہ سے ایک سیاسی جماعت کے بڑے بڑے قبضہ گروپس یا شریف فیملی کے انتہائی قریبی لوگوں کی جانب سے دھمکیاں مل رہی ہیں بلکہ میرے خوف میں مبتلا ہونے کی وجوہات یہ ہیں‘ جن کی جانب میں اشارہ کر رہا ہوں‘ جن پر جتنا غور کرتا ہوں اتنا ہی اس کے تانے بانے بھارت سے ملتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر ان سب کو اتفاقات یا معمولی آئینی عمل سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دیا گیا‘ تو کل کو کچھ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ بلڈ پریشر کا مریض کسی بھی وقت کچھ بھی اعلان کر سکتا ہے اور ایک دفعہ یہ زبان سے کچھ نکل گیا‘ تو پھر نریندر مودی کو کھل کھیلنے کا موقع مل سکتا ہے۔ نریندر مودی کا بھارت کے یوم آزادی پر یہ کہنا تو پاکستانی میڈیا اور سفارتی حلقوں سمیت سب نے سنا ہی ہو گا کہ ”ان سے گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر قبضہ آزاد کشمیر سے بڑے بڑے لوگ رابطوں میں ہیں اور میں نے ان کی مناسب وقت پر مدد کا وعدہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ گھبرائیں نہیں کیونکہ یہ دونوں حصے بھارت کی ملکیت ہیں جن پر پاکستان نے قبضہ جمایا ہوا ہے‘‘۔ نریندر مودی کی اس زبان درازی اور دھمکیوں کے کچھ عرصہ بعد میاں نواز شریف کا اسلام آباد میں وکلا کے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئے یہ پیغام دینا کہ انہیں شیخ مجیب الرحمان بننے پر مجبور نہ کیا جائے اور اس کے بعد متعدد مرتبہ بلکہ لندن سے روانہ ہوتے وقت بھی شیخ مجیب الرحمان کے حوالے دیتے ہوئے‘ ملکی سلامتی کو دبے دبے انداز میں للکارتے ہوئے دھمکیوں کے انداز میں بیانات جاری کرنا کوئی عام بات نہیں اور ابھی تین روز قبل ہی لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک بار پھر شیخ مجیب الرحمان کو پاکستان کا سب سے بڑا حامی کہتے ہوئے اس کے قصے بیان کرنا بے وجہ نہیں ہو سکتا… اور بنگلہ دیش اور شیخ مجیب کا حوالہ دینے کے فوری بعد میڈیا سے متعلق کچھ افراد‘ جنہیں حسینہ واجد نے خصوصی طور پر ڈھاکہ مدعو کرتے ہوئے ایوارڈ سے نوازا تھا‘ کا میڈیا پر میاں نواز شریف کے حق میں اور ملکی فوج کے خلاف متحرک ہونا سب کے سامنے ہے۔ کوئی چار ماہ قبل پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری نے ایک نجی چینل کے اینکر کو انٹرویو دیتے ہوئے بار بار کہا تھا کہ ”نواز شریف گریٹر پنجاب کے منصوبے پر کام کر رہا ہے‘‘… تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب را کی مدد سے کیا جا رہا ہے‘ جس کا پہلا ایجنڈا یہ ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش کی طرح سب سے پہلے پاکستان کی عوام کو اپنی فوج کے خلاف کر دیا جائے۔ [منیر بلوچ ، دنیا]

ختم نبوت قانون میں ترمیم کی کوشش اور ملک دشمن ایجنڈے پر سرگرم

بلاشک یہ قبیح جرم انوشہ رحمان اور زاہد حامد نے نواز شریف کے حکم سے کیا جو اپنے آپ کو مغرب کے سامنے سیکولر ایجنڈا کا حامل ثابت کرنا چاہتا ہے ۔۔ کسی وزیر کی جرات نہیں اتنا بڑا قدم خود بخود اٹھائیے ۔۔۔

مقام حیرت و افسوس ہے کہ ایم ایم اے ، مزہبی جماعتوں کا مجموعہ الیکشن میں نواز شریف کی مدد کر رہے ہیں۔

مودی سے دوستی اور خفیہ روابط ، کلبھوشن ہر خاموشی، نظریہ پاکستان پر تنقید ،  پاکستان دشمن سیاستدانوں سے قربتیں ، “نیشنل ایکشن پلان” پر مجرمانہ سست روی ؟؟؟؟
کیا ہم اندھے اور بے وقوف ہیں میڈیا کی ظرح؟

جاگو!!!

اسلام ، پاکستان دشمن کرپٹ مجرموں  کو مسترد کرو .. 

کیا نواز شریف غدار ہے؟

اقوام کے عروج و زوال کا قانون:

“وَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُم”

اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے (47:38 قرآن )

………………………………

دل اور دماغ باہم بر سرِ پیکار ہیں

دل کہتا ہے میاں نواز شریف اقتدار  کی دُھن میں ملک دشمنی کی حد تک نہیں جاسکتے!دماغ کے پاس ثبوت ہیں ۔ حوالے ہیں  ۔شہادتیں ہیں ۔ گواہیاں ہیں !

دل کہتا ہے اس دھرتی نے میاں صاحب کے ان بچوں کو بھی کھرب پتی بنا دیا ہے جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے۔اور عالمِ ارواح میں ہیں ۔تین بار وہ وزیراعظم بنے،تینوں بار  پنجاب نے یہ تاج ان کے سر پر رکھا۔کیا اب وہ ان عناصر کے ساتھ گٹھ جوڑ کریں گے جو پاکستان بالخصوص پنجاب کے دشمن ہیں ۔کُھلے دشمن ‘ایسے کھلے دشمن کہ پوری دنیا جانتی ہے۔ایسےدشمن جو خود  دشمنی کا دن دھیاڑےڈنکے کی چوٹ پر اعتراف کرتے ہیں !نہیں! ایسا نہیں ہوسکتا!میاں صاحب ایسا نہیں کرسکتے!

دماغ ہنستا ہے ۔طنزیہ ہنسی !قہقہہ لگاتا ہے!اخبارات سامنے رکھ دیتا ہے۔یوٹیوب لگا کر پوچھتا ہے  ۔اب بتاؤ!

دل خاموش ہوجا تا ہے!یہ دنیا  جذبات کے سہارے نہیں چلتی !یہ ٹھوس شہادتوں ‘حقیقی واقعات اور ناقابلِ تردید سچائیوں کے بل پر قائم ہے!

بائیس دسمبر 2017 کے اخبارات کیا بتاتے ہیں ۔

“نواز شریف نے وزیراعظم عباسی کو ہدایت کی  کہ مولانا فضل الرحمٰن اور محمود اچکزئی کے تحفظات دور کیے بغیر فاٹا  اصلاحات بِل قومی اسمبلی میں نہ لایا جائے ۔نون لیگ فاٹا اصلاحات بل کی قیمت پر فضل الرحمٰن اور اچکزئی کی حکومت سے علیحدگی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔دونوں شخصیات راضی نہ ہوئیں تو حکومت فاٹا اصلاحات بل سے دستبردار ہوجائے گی!

یعنی مولانا  اور اچکزئی کے سوا اور کوئی بھی بل کی مخالفت نہیں کررہا۔یہ دو ہی مخالفت کررہے ہیں۔ان کا موقف ہےکہ فاٹا کا کے پی میں انضمام انہیں منظور نہیں! وزیراعظم ان دوکو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔

اس سے پہلےدودسمبر کو کوئٹہ کے ایک اجلاس میں نواز شریف نے اعلان کیا کہ “محمود اچکزئی کے ساتھ میرا نظریاتی تعلق ہے”!

آئیے دیکھتے ہیں،محمود اچکزئی کا نظریہ کیا ہے؟

جون 2016 ء میں  محمود اچکزئی نے “افغانستان ٹائمز”کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا افغانوں کا ہے اور وہ اس میں کسی خؤف کے بغیر رہ سکتے ہیں ‘اچکزئی نے یہ بھی کہا کہ اگر افغان مہاجرین کو پاکستان  کے دوسرے حصوں میں ہراساں کیا جائے تو انہیں خیبر پختونخوا آجانا چاہیےجہاں کوئی ان سے مہاجر کارڈ نہیں چیک کرسکتا کیوں کہ یہ صوبہ افغانوں کا ہے ۔

2014ء میں معروف اینکر جناب مبشر لقمان نے ایک نجی ٹی وی  چینل پر بتایا کہ محمود اچکزئی کو 2013ء کا الیکشن جتوانے کے لیےافغان خفیہ اداروں نے  کئی ملین ڈالر دیے۔مبشر لقمان صاحب نے ایسے فوٹو اور ویڈیو دکھائیں جن میں محمود اچکزئی میجر جنرل عبدالرزاق کے ساتھ کھڑے ہیں  ۔یہ وہی جنرل عبدالرزاق ہے جو پاکستان دشمن اور بھارت نواز خفیہ سرگرمیوں کے لیے مشہور ہے۔ٹی وی چینل پر ان دو بلٹ پروف لینڈ کروزرز کی تصویریں  بھی دکھائی گئیں جو افغان خفیہ ادارے نے محمود اچکزئی کو دیں ۔بتایا گیا کہ افغانستان سے اس سیاست دان کو تیس لاکھ امیریکی ڈالر دیے گئے ہیں۔ایک اور اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود نے بھی کم و بیش یہی باتیں  ایک اور چینل پر کہیں ۔

انٹر نیٹ پر ایسی کئی ویڈیو آسانی سے دیکھی جاسکتی ہیں جن میں محمود اچکزئی جلسوں میں  پشتونستان زندہ باد اور افغانستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں مگر ان کے منہ سے پاکستان  کا نام نہیں نکلتا ۔

معروف اینکر پرسن ڈاکٹر دانش نے ٹوئٹر پر وزارتِ داخلہ کا ایک مراسلہ نشر کیا۔ مراسلہ فرید احمد خان سیکشن آفیسر وزارتِ  داخلہ اسلام آباد نے دس مارچ 2001 کو لکھا اس مراسلے کے مخاطب دو افراد ہیں ۔ سیکرٹری وزارتِ خارجہ اسلام آباد اور سیکرٹری داخلہ حکومت بلوچستان کوئٹہ۔ مراسلے کا عنوان ہے” یعنی ایران کی طرف  سے ملی عوامی پارٹی کی قیادت کے لیے مالی امداد “۔

مراسلے میں بتایا گیا ہے کہ رمضان نورزئی نامی ایک افغانی شہری نے”جو  ہلمند کا رہنے والا ہےاور ایرانی ایجنسی” اطلاعات” کے لیے کام کرتا ہے’کوئٹہ میں ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی کو دس لاکھ امریکی ڈالر دیے ہیں ۔محمود اچکزئی نے نواب محمد ایاز جوگیزئی کو ایک کروڑ روپے دیے جس  نے ایک گاڑی 29 لاکھ میں کراچی سے اپنے لیے خریدی۔رمضان نورزئی زاہدان میں ایرانی ایجنسی کے کرنل سردار دہقان کے ساتھ کام کرتا رہا۔رپورٹ کے مطابق کرنل دہقان کا بعد میں تبادلہ کردیا گیا تیسرے او رآخری پیرا گراف میں یہ مراسلہ بیان کرتا ہے کہ ایرانی ایجسنسی”اطلاعات” چاہتی ہے کہ شمالی اتحاد کی سرگرمیوں کو بلوچستان میں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے ذریعےکوآرڈی نیٹ  کرے اور اس مقصد کے لیے اس کی قیادت کو استعمال کرے۔عمومی رائے یہی ہے کہ تخریب کاروں کو ٹھکانے فراہم کرنے کے لیے اور ایران آنے جانے کے لیے اور دیگر افراد کو تربیت دینے کے لیےایرانی حکومت کو بلوچستان کے مقامی افراد کی مدددرکار ہے۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی قیادت ایران اور شمالی اتحاد کے ساتھ اس مقصد کے لیے تعاون کررہی ہے۔،ڈاکٹر دانش کے ٹوئٹر اکاؤنٹ میں  یہ مراسلہ باآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔انگریزی روزنامہ نیشن نے چھ جولائی 2016 کی اشاعت میں اس مراسلے کے مندرجات ‘کچھ دیگر تفصیلات کے ساتھ رپورٹ کیے ہیں ،رپورٹر کا نام جواد عوان ہے۔یہ جواد اعوان اس وقت روزنامہ 92 میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔

محمود اچکزئی کے نظریات  کی مزید تشریح کے لیے ٹیلی ویژن کے معروف صحافی جناب افتخار احمد کا  وہ انٹر ویو ضرور سننا چاہیے جو انہوں نے اچکزئی صاحب کا کیا تھا۔افتخار احمد نے ان سے پوچھا  کہ آپ نے ایک ہی بات تین مختلف اوقات میں تواتر سے کہی۔

نوائے وقت 28 جنوری 1993 ء میں ‘پھر رونامہ جنگ 23 جنوری 1999ءمیں اور پھر میٹ دی پریس  پروگرام حیدرآباد میں دس نومبر 2001ء کے دن!

یہ کہ” پنجابی کالے انگریز ہیں  ۔ان کے دل اور رنگ دونوں کالے ہیں  ۔ پختونوں کے وسائل پر یہ کالے انگریز قابض ہیں  ۔اور یہ پاکستان نہیں پنجابستان ہے”۔

اچکزئی کےپاس اس   کا کچھ جواب نہ تھا۔آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔اس انٹر ویو اور بحث میں انہوں نے برملا کہا کہ وہ 1973ء کے آئین  کو نہیں مانتے اس آئین کو ختم کرکے نیا عمرانی معاہدہ تشکیل دیا جائے۔ جب اس”نئے عمرانی معاہدے” کے خدوخال پوچھے گئے تو ان کے پاس ایک ہی جواب تھا کہ خیبر پختون خوا  اور بلوچستان کے پشتونوں کو ملا کر ایک الگ یونٹ بنایا جائے اور اس میں اٹک اور میانوالی بھی شامل ہوں ۔

محمود اچکزئی یہ بھی برملا کہہ چکے ہیں کہ ڈیورنڈ لائن کو نہیں تسلیم کرتے۔یہ ہیں محمود خان اچکزئی کے نظریات کی چند جھلکیاں ۔ جب میاں محمد نواز شریف کہتے ہیں کہ محمود خان اچکزئی کے ساتھ میرا نظریاتی تعلق ہے ‘تو اس  کا سوائے اس کے اور کیا مطلب ہے کہ نواز شریف محمود اچکزئی کے نظریات سے اتفاق کرتے ہیں ؟

قابلِ ذکر حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کسی موقع پر نواز شریف نے  یا ان کے کسی ترجمان نے یا وزیر نے یا مسلم لیگ ن کے کسی عہدیدار نے محمود خان اچکزئی کے ان پاکستان دشمن بیانات کی تردید یا  مخالفت نہیں کی!کوئی پرویز رشید سیخ پا نہیں ہوا، کسی دانیال عزیز نے زبان کے جوہر نہ دکھائے۔ کسی طلال چوہدری نے مائک پر آ کر تبصرہ نہ کیا۔ مریم نواز کے کسی ٹویت نے محمود خان اچکزئی کے  بیانات کی مذمت نہ کی!

دماغ  جذبات کے دباؤ میں آتا ہے نہ من مانی تشریحات اور توجیہات کرتا ہے۔دماغ کا کہنا یہ ہے کہ چونکہ میاں نواز شریف کا محمود اچکزئی کے ساتھ نظریاتی تعلق ہے اس لیے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ :میاں نواز شریف مانتے ہیں کہ

پنجابی کالے انگریز ہیں

پنجابیوں کے دلاور رنگ دونوں کالے ہیں

پختونوں  کے وسائل پر کالے انگریز قابض ہیں

یہ پاکستان نہیں ‘پنجابستان ہے

ڈیورنڈ لائن کی کوئی حقیقت نہیں ۔

محمود خان اچکزئی نے افغان اور ایران سے بھاری رقوم وصول کیں ( جن کی تفصیل اوپر دی جاچکی ہے)

محمود خان اچکزئی’شمالی اتحاد اور ایرانی ایجنسی”اطلاعات”کے آلہٰء کار رہے۔

محمود خان اچکزئی کے مشہور پاکستان دشمن اور بھارت نواز میجر جنرل عبدالرزاق کے ساتھ تعلقات ہیں ۔

بلوچستان کے پختون علاقوں ‘اٹک میانوالی اور کے پی پر مشتمل الگ پشتون اکائی وجود میں لائی جائے۔

1973ء کے آئین کو ختم کردینا چاہیے۔

یہ آئین پشتون علاقوں کے اتحاد میں حائل ہے۔

ا س میں کیا شک ہے کہ نواز شریف صاحب کی پاکستان میں اور  پاکستان کی سالمیت میں کوئی دلچسپی نہیں ۔ ایک طرف پوری دنیا کے حکمرانوں میں سے صرف مودی کو وہ اپنی نواسی کی شادی پر بلاتے ہیں۔بیماری کے دورن لندن سے صرف مودی کو  فون پر اعتماد میں لیتے ہیں ۔’مری میں بھارتی ایجنٹ سے’ وزارتِ خارجہ سے بالا بالا خفیہ ملاقات کرتے ہیں ۔ مذمت کا لفظ نہیں بولتے’دوسری طرف ان کا اتحاد محمود اچکزئی اور مولانا  فضل الرحمٰن سے ہے! اس سیاسی اتحاد کے علاوہ اچکزئی سے ان کا نظریاتی تعلق بھی ہے جس کا علان واعتراف وہ جلسہ عام میں کرتے ہیں !

سارے پاکستان  میں ‘انہیں دو اتحادی قبول ہیں۔اچکزئی اور مولانا فضل الرحمٰن !مولانا کے بارے میں  معروف صحافیوں نے کئی بار لکھا ہے کہ بھارت جاکر انہوں نے پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش کے انضمام کی  حمایت کی تھی یا تجویز پیش کی تھی۔یہ بات پاکستان پہنچی تو قاضی حسین احمد مرحوم نے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی اور اسے ڈس انفارمیشن قرار دیا۔ مذہب کے علمبردار ‘یعنی مذہب کے بزعمِ خویش علم بردار ‘ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرتے ہیں ۔غلط دفاع کرتے ہیں ۔اس لیے کہ یہ بھی دوسرے طبقات کی مانند ایک طبقہ ہے۔اور یہ اپنے ساتھیوں کی حمایت کرنے کے لیے سچ کے سینے میں بھالا اتارنےسے دریغ نہیں کرتے۔یہی قاضی صاحب  مرحوم نے یہی کیا۔ مگر سید منور حسن نے’ کہ بہت سی خامیوں کے باوجود شمشیر برآں ہیں ‘برملا مولانا فضل الرحمٰن کے بیان کی مذمت کی!مولانا کو معلوم ہے کہ فاٹاکے پی میں ضم ہوا تو وہاں کے باشندے پتھر کے زمانے سے نکل آئیں گے اور پروہتوں کو ووٹ نہیں ڈالیں گے۔مولانا کو راضی رکھنے کے لیے نواز شریف فاٹا کی پیٹھ میں چھرا گھونپ رہے ہیں ۔

نواز شریف کے نزدیک فاٹایا پاکستان کے مسائل پر کاہ کی حیثیت نہیں رکھتے۔ان کی بلا سے  ۔انہیں صرف اس سے غرض ہے کہ وہ حکمران بنیں ۔وہ نہ بن سکیں تو ان کی بیٹی اس ملک پر حکومت کرےوہ بھی نہ کرسکے تو ان کا بھائی۔ان کا وژن اس سے آگے دیکھنے سے قاصر ہے۔آنکھ میں پیچھے روشنی نہ رہےتو  چشمہ کام آتا ہے نہ سرجری!

اب ایک ہی کسر باقی رہ گئی ہے کہ وہ ان اتحادیوں کو خوش  رکھنے کے لیے قائداعظم کے مزار پر کبھی حاضر نہ ہونے کا اعلان کردیں ۔ (
اظہار الحق، 92 نیوز )

………………………………………….

میاں نواز شریف سول بالادستی کی جنگ کیوں نہیں جیت سکتے
……………………………………………………

چلیے مان لیا آپ کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔

نادیدہ قوتوں نے دفاع اور خارجہ کے امور میں آپ کو آزادی نہیں دی تھی۔ مان لیا مداخلت ہوتی تھی۔ مان لیا کہ غیر ملکی سفیر اور امریکی افواج کے بڑے بڑے کمانڈر جی ایچ کیو میں آتے تھے۔ مگر جب آپ وزارت عظمیٰ کے تختِ طائوس پر بیٹھے تو آپ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ایسا ہی ہو گا۔ ایسا ہی ہوتا آیا ہے!

آپ کے سامنے دو راستے تھے یا تو آپ اقتدار سنبھالنے سے انکار کر دیتے کہ حکومت لوں گا تو مکمل لوں گا۔ لولی لنگڑی اندھی بہری نہیں لوں گا۔ دفاع کے فیصلے وزیر دفاع کرے گا اور خارجہ سرگرمیوں کا مرکز وزارت خارجہ ہو گی یا وزیر اعظم کا آفس! جی ایچ کیو کا کردار صفر ہو گا۔ وہ وہی کام کریں گے جو کتاب میں ان کے حوالے سے لکھا ہوا ہے!

مگر آپ نے یہ راستہ نہ چنا۔ آپ نے دوسرا راستہ اختیار کیا تخت پر بیٹھ گئے۔ تاج پہن لیا! اب آپ کے سامنے واحد راستہ یہ تھا کہ جو شعبے آپ کے مکمل اختیار میں تھے‘ آپ ان میں مثالی کارکردگی دکھاتے!مثلاً اگر نادیدہ قوتیں اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتی ہیں تو آپ اپنے دائرہ اختیار میں قانون کا نفاذ اس زبردست طریقے سے کرتے کہ نادیدہ قوتوں کے پاس قانون کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ رہتا۔ مگر آپ نے ایسا نہ کیا۔ آپ نے اپنے وزراء کو‘ اپنے ساتھیوں کو‘ اپنی پارٹی کے بڑوں کو قانون کی دھجیاں اڑانے کی اجازت دے دی۔ آپ کی پارٹی کے رہنما نے راولپنڈی تھانے پر حملہ کر کے ملزموں کو چھڑا لیا۔ فیصل آباد میں تھانوں پر آپ کے لوگوں نے حملے کیے۔ اسمبلی کے ارکان قانون سے بالاتر تھے۔ سرکاری رہائش گاہوں کے وہ کروڑوں کے مقروض ہیں۔ آپ کس منہ سے کہہ سکتے ہیں کہ نادیدہ قوتیں قانون سے بالاتر ہیں‘ قانون سے بالاتر تو آپ خود رہے‘ آپ کی پارٹی کے ارکان بھی! آپ کے خاندان نے قانون کو بوٹوں تلے روندا۔ آپ کہتے ہیں نادیدہ قوتیں آپ کے کام میں مداخلت کرتی ہیں۔ آپ کی بیٹی کیوں مداخلت کرتی رہی؟ آپ لندن میں کئی ماہ مقیم رہے۔ وہ کس قانون کے تحت وزیر اعظم کے دفتر میں غیر ملکی سفیروں سے ملتی رہی؟ یہ کون سی جمہوریت ہے؟ یہ قانون کی کون سی بالادستی ہے؟ آپ کا بھتیجا پنجاب میں بیورو کریسی کی تعیناتیاں کس قانون کے تحت کرتا رہا؟آپ کا داماد کس قانون کے تحت ارکان اسمبلی میں رقوم کی تقسیم کا انچارج بنا رہا؟ آپ نے کس قانون کے تحت خالی جہاز لندن میں کھڑا کیے رکھا؟ کس قانون نے آپ کو اجازت دی کہ نواسی کا نکاح حجاز میں ہو تو قومی ایئر لائن کے جہازوں کو ذاتی رکشا سمجھ لیں؟

آپ نے ایک بار بھی قومی اسمبلی میں سوال جواب کا سیشن اٹنڈ نہیں کیا؟ سال بھر سینیٹ میں نہیں آئے؟ آپ ازراہ کرم اس سوال کا دو ٹوک جواب دیں کہ کیا اس میں نادیدہ قوتیں رکاوٹ تھیں؟ آپ نے مہینوں کابینہ کااجلاس نہیں بلایا – کیوں؟ آپ سارے اہم فیصلے اپنے ذاتی وفاداروں اور رکوع میں جھکے ہوئے ٹوڈیوں کے مشورے سے کرتے تھے؟ کیوں؟ آخر کیوں؟

سول بیورو کریسی آپ کے مکمل اختیار میں تھی‘ ان کی تعیناتیوں میں کوئی نادیدہ قوت‘ کوئی جی ایچ کیو‘ کوئی آئی ایس آئی مداخلت نہیں کر رہی تھی۔ مگر آپ نے سول بیورو کریسی کا دھڑن تختہ کر دیا۔ وفاق اور پنجاب میں لاقانونیت کی وہ ہولی کھیلی گئی کہ بیورو کریسی نگوڑی کا حلیہ بگڑ گیا۔ جونیئر افسروں کو ٹاپ پر بٹھا دیا گیا۔ کیا یہ سول بالادستی تھی؟ تعیناتیاں کرتے وقت آپ کو خدا کا خوف نہ رہا۔ آپ نے صرف یہ دیکھا کہ خواجہ کون ہے؟ اور وانی کون ہے؟ روایت ہے کہ آپ پوچھتے تھے۔’’اے اپنا بندہ اے؟

تفو بر تو اے چرخ گردوں تفو

وزارت تجارت آپ کے اختیار میں تھی۔ آپ نے اپنے عہد اقتدار میں کتنی بار وہاں آ کر حالات کا جائزہ لیا؟ مئی 2018ء میں جب آپ کا پانچ سالہ اقتدار کوچ کرنے کو تھا تو درآمدات اس قدر زیادہ اور برآمدات اتنی کم تھیں کہ خسارہ تیس ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ اس کی متعدد وجوہات میں ایک بڑی وجہ تعیناتیوں میں آپ کی دھاندلی اور دوست پروری تھی۔ آپ نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے اہم ادارے میں نوکرشاہی کے اس رکن کو سفیر بنا کر بھیجا جس کا تجارت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اس کی واحد اہلیت یہ تھی کہ ماڈل ٹائون قصے میں اس کا کلیدی کردار تھا۔ یہ آپ کے وژن کی صرف ایک مثال ہے۔ اگر کوئی محقق آپ کے عہد اقتدار کی تعیناتیوں کا تجزیہ کر کے رپورٹ تیار کرے تو پبلک ایڈمنسٹریشن کی تاریخ میں یہ بدترین کارکردگی ہو گی۔

آپ کو صحت اور تعلیم میں مکمل خود مختاری حاصل تھی۔ اسلام آباد میں صرف دو سرکاری ہسپتال ہیں ۔بیس نہیں۔ ایک بار بھی آپ وہاں نہ گئے کہ عوام کی حالت زار کا براہ راست مشاہدہ کریں۔ آج آپ کی پوری پارٹی لاہور میں چند ہزار سے زیادہ لوگ اکٹھے نہ کر سکی۔ آپ دو بار ہی ہسپتال میں عوام کے ساتھ قطار میں کھڑے ہو کر پرچی بنواتے۔ دوائی لیتے‘ ہسپتال کی حالت راتوں رات زمین سے آسمان تک پہنچ جاتی۔ لوگ دیوانہ وار‘ کسی کے کہے بغیر‘ آپ کے لیے لاہور ایئر پورٹ کی طرف بھاگ رہے ہوتے۔ آپ ہر چھ ماہ میں تین سرکاری سکولوں ہی کا دورہ کر کے احکام جاری کر دیتے‘ صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے لیے مثال بنتے۔ آج آپ کے لیے لوگ جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر باہر نکلتے۔

آپ آج کس سول بالادستی کی بات کرتے ہیں؟ آپ تو چار برس ایک عالی شان پکنک مناتے رہے۔ آپ کے فرائض منصبی ‘ آپ کے بجائے اسحاق ڈار اور فواد حسن فواد سرانجام دیتے رہے۔ آپ خود لندن ہوتے تھے یا مری! ملک تو دور کی بات ہے آپ صرف دارالحکومت کو صاف ستھرا مثالی شہر نہ بنوا سکے۔ آپ کا طرز حکومت یہ تھا کہ اہم وزارت‘ ہائوسنگ اینڈ ورکس کا وزیر ہفتے میں صرف ایک دن دفتر آتا تھا مگر آپ کو معلوم ہی نہ تھا۔ آپ نے چار سال میں اپنے وزراء کی کارکردگی چیک کرنے کے لیے کوئی طریقہ‘ کوئی میکانزم‘ کوئی نظام‘ کوئی سلسلہ نہ بنایا۔ آپ کی حکومت مثالی ہوتی تو نادیدہ قوتیں آپ کے رعب میں ہوتیں۔ آپ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بلند آواز سے کہہ سکتے کہ جب میرا وزیر‘ میرا ایم این اے ‘ میری بیٹی‘ میرا بھتیجا‘ قانون سے بالاتر نہیں تو بریگیڈیئر یا جرنیل کس طرح قانون سے ماورا ہو سکتا ہے۔ مگر آپ کی اپنی لاقانونیت کا یہ عالم تھا کہ پچانوے فیصد بیرونی دوروں میں صرف ایک وزیر اعلیٰ آپ کے ہمراہ ہوتا تھا۔ اس لیے کہ وہ آپ کا بھائی تھا۔ آپ کے عہد اقتدار میں تو یہاں تک کہا گیا کہ فلاں ملک کے ساتھ پنجاب کے تعلقات ایسے ہوں گے! گویا پنجاب ملک تھا۔

آپ کی حکومت لاقانونیت‘ اقربا پروری اور عیش و عشرت کا تعفن زدہ مرقع تھی! آپ کا عوام سے براہ راست رابطہ تھا نہ ہے۔ آپ نادیدہ قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں! آپ سول بالادستی کی جنگ نہیں لڑ سکتے اور لڑنے کی کوشش کریں بھی تو جیت نہیں سکتے۔

کیا کوئی ایسا لیڈر سول بالادستی کی جنگ لڑ سکتا ہے جس کے بیٹے‘ پوتے‘ پوتیاں‘ نواسے‘ نواسیاں‘ لندن میں پل بڑھ رہے ہوں‘ جو خود ہر عید لندن جا کر کرے اور جس کی اولاد کا لندن کے گلی کوچوں میں چور چور کہہ کر ہر جگہ تعاقب کیا جا رہا ہو۔

اور اتنی ہمت تو آپ میں کبھی نہیں ہو گی کہ آپ قوم کی دولت قوم کو واپس کر دیں۔ مال و زر اور جائیداد کی محبت نے آپ سے تونگری اور ہمت چھین لی ہے۔ نصف درجن لکھاری اور صحافی‘ جنہیں آپ نے عہدے دیے‘ وزارتیں دیں‘ دوروں میں ساتھ رکھا کچھ کو اداروں کی سربراہی اور کچھ کو رکنیت دی‘ آپ کے لیے نثری قصیدے لکھ رہے ہیں‘ مگر سوشل میڈیا پر خلقِ خدا ان نام نہاد دانشوروں کو جن القابات سے نواز رہی ہے ان میں عزت نفس ہوتی تو ڈوب مرتے! ایک زلہ خوار نے ایک شہکار لکھا ہے اس پر عوام کے نرم ترین کمنٹ دیکھیے۔

“”آپ جیسے مشیروں نے نواز شریف کو اس حال تک پہنچایا ہے۔ “”

“”لوگوں کے دلوں میں ہمدردی پیدا کرنے کی کوشش! اس بلی نے سو سے زائد چوہے کھا رکھے ہیں اور آپ اسے ’’حج‘‘ پر لیے جاتے ہیں۔ “”

روغن قاز ملنے والے ان اصحابِ قلم نے اس ابوالفضل اور فیضی کو بھی مات کر دیا ہے جو کیلنڈر ہی تخت نشینی کی تاریخ سے آغاز کرتے تھے۔ ایک معروف اینکر نے جس کی شہرت ایک زمانے میں اچھی تھی‘ نون لیگ کی ریلی کے دوران ریکارڈ کیا جانے والا پروگرام نشر نہ ہونے پر اپنا مستقل شو جاری رکھنے سے انکار کر دیا۔ اس خبر پر صرف دو کمنٹ آئے۔ دونوں ہی چشم کشا ہیں۔

“”اس پروگرام کو روکنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ ہجوم اتنا نہ تھا۔ جوش اتنا نہ تھا‘ جتنا بیان کیا گیا ہے۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ حق ادا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسے نہیں روکا جانا چاہیے تھا تاکہ اس اینکر کا کردار لوگوں کے سامنے آتا۔ “”

“”یہ پروگرام تو چل نہ پایا۔ اب دوسرا شو شروع کریں کہ کیسے اربوں کی چوری پکڑے جانے پر اداروں کو مطعون کیا جائے اور حکمرانوں کی بدعنوانی کی پردہ پوشی کی جائے۔ پروگرام بکے نہ بکے‘ حکمران اقتدار میں آ کر آپ کا منہ تو جواہرات سے بھریں گے۔””

(اظہار الحق، 92 نیوز)

نواز شریف کے کارناموں پر فس بک ویڈیوز اور پوسٹس ……..>>>>

https://www.facebook.com/saved/list/2079887152040418