Pakistan , India Conflict 2019 – Indian Islamophobia , Pakphobia پاکستان اور انڈیا جھڑپیں

Pakistan  has shot down two Indian military jets and captured two pilots in a major escalation between the nuclear powers over Kashmir. Pakistani PM Imran Khan said the two sides could not afford a miscalculation with the weapons they had. Keep reading ..[……..]

Why India shouldn’t fight Modi’s war

And so Modi’s actions, which have led to the shadow of war looming over the sub-continent were to achieve victory in the election in April for the simple reason that these actions have achieved nothing else. Modi’s lack of evolutionary growth as not just a leader, but as a humanitarian is evident, however, lest the selfish interests of a man looking to deceive his nation are prioritised above the survival of a billion and a half innocent Pakistanis and Indians, most without enough food to eat, it will lay testament to not just our lack of evolutionary growth as a people, but our fall into something beneath the human kind. Read full ….. [……]

Indian media spins itself silly in anti-Pakistan rhetoric …..

پاکستان  کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے بھارتی دراندازی کا جواب دینے کا مقصد یہ بتانا تھا کہ پاکستان بھی اپنے دفاع کی صلاحیت رکھتا ہے، تاہم جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتی اور ہم ایک مرتبہ پھر بھارت کو مذاکرات کی پیش کش کرتے ہیں۔ قوم سے اپنے خطاب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ کل صبح سے جو صورتحال تھی اس پر قوم کو اعتماد میں لینا چاہتا تھا، پلوامہ کے بعد بھارت کو تحقیقات کی پیش کش کی، اس واقعے میں بھارت کا جانی نقصان ہوا اور مجھے معلوم ہے کہ ان کے لواحقین کو کتنی تکلیف پہنچی ہوگی لیکن پاکستان میں 10 سال میں 70 ہزار اموات ہوئی اور مجھے پتہ ہے کہ لواحقین پر کیا گزرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بھارت کو پیشکش کی کسی طرح کی بھی تحقیقات چاہتے ہیں اور اگر کوئی پاکستانی ملوث ہے تو پاکستان تعاون کرنے کو تیار ہے، ہم نے یہ اس لیے کہاں کیوں کہ یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں کہ کوئی ہماری زمین دہشت گردی کے لیے استعمال کرے، یہاں کوئی باہر سے ہماری زمین استعمال کرے اور اس پر کوئی تنازع تھا ہی نہیں۔

مزید پڑھیں: 

Politics of Hatred, wave of Islamophobia and Pakphobia in India after Pulwama Attack in Kashmir انڈیا میں نفرت کی سیاست ، اسلام فوبیا اور پاک فوبیا کی آندھی

The World Must Know The Truth About Ultra-Violent Indian Media:

In many countries, the gap between social media rhetoric and mainstream media rhetoric is often quite vast. In India however, on both mainstream and social media, there is a race to the bottom in terms of how absurdly hyper-nationalistic one can be when it comes to scapegoating internal strife on India’s neighbours Pakistan and China. In this sense, while India presents the wider world with slick media campaigns which tend to portray the entire country as an economic superpower inside a kind of spiritual Disneyland, what Indian media says to domestic audiences is overwhelmingly crude, base, hostile, flippant and violent. Beyond this, vast swaths of Indian media have perpetually exploited disinformation campaigns in order to foment the mass hatred of Pakistanis, Chinese, Indian Muslims and the Ummah (global Islamic community) as a whole. Rather than respond to international calls to resolve the human rights disaster in Kashmir through dialogue and de-escalation, Indian media and Indian politicians jumped to blame last week’s Pulwama incident in IOK on the Pakistani state, in spite of a total lack of evidence. This has been the case in spite of the fact that the attack was carried out by an indigenous Kashmiri group that has been banned in Pakistan since 2002. But while for those who follow Asian political developments, India’s response was sadly predictable, for those outside of south Asia in particular, Indian media’s over-the-top attempts to sow discord between India and its nuclear armed neighbours, between Kashmiris and non-Kashmiris, between Muslims and Hindus and between Sikhs and Hindus – ought to be amplified globally so that international audiences can see how literally “incredible” (as in difficult to believe) modern Indian media is. Keep reading ….. [……..]

  1. Indo – Pak conflict 2019
  2. Kashmir – Legitimate Struggle for Freedom form India or Terrorism? Read …..[…..]
  3. Leaders of Pakistan should not worry about Muslims in India: Asaduddin Owaisi….
  4. Kashmiri students returning to Valley amid attacks, lynching fear
  5. India beats war drums about Pulwama attack but ignores it soccupation and repression of Kashmiri populations -[… Washington Post]
  6. Latest updates on <<<Pulwama >>>>

چند منٹ کے لئے کیبل یا نیٹ پر بھارتی چینل دیکھیں، ویب سائٹس پڑھیں تو آدمی دنگ رہ جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے منہ سے کف اڑاتے،غصہ سے پاگل ہوئے لوگوں کا ایک ہجوم ہے، ہر طرف وہی چھائے ہیں۔ ٹاک شوز سے لے کرصحافیوں کی رپورٹیں، روڈ شو سے مختلف ممتاز شخصیات کی آرا تک … غیض وغضب کی انتہائی لہریں ہر طرف جھلکتی ہیں۔  اک آگ کا کھیل ہے جو ہمارے پڑوس میں کھیلا جا رہا ہے۔ہیجان ہی ہیجان۔ جنون اور فسطائیت کا نام دینا چاہیے۔ایسا کہاں ہوتا ہے بھلا؟ آخر نوبت اس انتہا تک کیوں پہنچائی جائے؟ واضح محسوس ہور ہا ہے کہ پلوامہ حملہ کو غیر معمولی عجلت سے پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ ایسی عجلت جس سے کسی سازش یا طے شدہ منصوبے کی بو آتی ہے۔یوں لگا جیسے یا تو فالس فلیگ آپریشن کیا گیا یا پھراچانک رونما ہونے والے کسی واقعے کو برق رفتاری سے پاکستان پر منطبق کر کے ملک میں جنگی جنون بھڑکانے اور اس سے الیکشن جیتنے کا منصوبہ بنایا گیا۔( انٹیلی جنس اصطلاحات میں فالس فلیگ آپریشن سے مراد ایسا خفیہ آپریشن ہے، جس میں اپنے ہی لوگ کسی مخالف ملک کے جنگجو کا روپ دھار کر انہیں بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔)

بات آگے بڑھانے کے لئے مگر ہم چند لمحوں کے لئے فرض کر لیتے ہیں کہ بھارتی موقف درست ہے ۔ تب بھی کیا ایسا مجنونانہ ردعمل دکھانا کسی مہذب جمہوری ملک کو زیب ہے؟وہ ملک جو دنیا کی چھٹی بڑی قوت بننے کا متمنی ہے، جس کی شدید خواہش ہے کہ سلامتی کونسل میں مستقل نشست اسے مل جائے اور ویٹو کا حق حاصل ہو۔ جو ملک تہذیبی اور وطنی نرگسیت کا شکار ہے، جہاں کے لوگوں کے خیال میں دنیا بھر میں انڈیا سا ملک نہیں اور ہندوستانی عوام جیسے لوگ موجود نہیں۔ جن کے خیال میں ہندوستان کے لوگ فنون لطیفہ اور کلچر کے وارث ہیں اور دنیا کی بہترین فلمیں، موسیقی، شاعری اور ادب وہاں تخلیق ہوتا ہے، رقص جن کی گھٹی میں پڑا ہے اور جس کے دانشوروں کے خیال میں قدیم ہندو تہذیب اور افراد اپنی ذہانت اور ٹیکنالوجی میں دنیا بھر سے بازی لے گئے تھے۔ کیا یہ ردعمل جو آج ہم بھارتی میڈیا پر دیکھ رہے ہیں، جس کاہلکا سا عکس سوشل میڈیا پر نظر آتا ہے … تہذیبی ورثے کی حامل ، کوئی سمجھدار، بیدار مغزقوم دکھا سکتی تھی؟

“Never seen anything like this before,” says Facebook India’s fake-news buster after Pulwama attack:  On Feb. 14, a Jaish rammed an explosive-laden SUV into a vehicle ferrying Indian security personnel, killing 40 men in the Pulwama district of Jammu & Kashmir. Within hours, Indian social media platforms were flooded with disinformation, including videos that claimed to be CCTV footage of the attack that fact-checkers found were actually visuals from Syria and Iraq. Other items of disinformation included an old video of a Pakistani commando that was said to be of a militant who had been arrested after the attack. Keep reading ..[….]

جواب نفی میں ملتا ہے۔ اس غیر متناسب، وحشیانہ حد تک پہنے جارحانہ ، شدید بھارتی قومی ردعمل میں تین پہلو خاص طور سے دیکھنے چاہئیں۔سب سے پہلانکتہ بھارت میں شدت پسندی اور انتہائی سوچ کا خوفناک حد تک ہر شعبہ زندگی میں سرائیت کرنا بلکہ اس پر چھا جانا ہے۔ یہ غلبہ جس نے پورے ہندوستانی سماج کو یرغمال بنا رکھا ہے، یہ بہت اہم اور قابل غور بات ہے۔ بھارت میں اینٹی پاکستان موقف اور نقطہ نظر رکھنے والے لوگوں کی موجودگی باعث حیرت نہیں۔ ایسا دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ شدت پسندانہ یا انتہائی سوچ رکھنے والے مگرپورے قومی منظرنامے پر چھا نہیں سکتے۔ ان کی اپنی محدودات (LImitations)ہوتی ہیں اور مجموعی قومی سوچ پر ان کا اثر زیادہ نہیں ہوپاتا۔ ایک آدھ میڈیا ہائوس یا اخبار، جریدہ اس جارحانہ سوچ کا حامل ہوسکتا ہے ،مگر مجموعی طور پر مین سٹریم میڈیا ان کے اثر سے باہر ہوتا ہے اور وہی سوسائٹی کو نیوٹرلائز کرتا اور شدت پسندانہ سوچ کو بیلنس کر دیتا ہے۔انتہائی رائیٹ ونگ یا سخت ، جارحانہ موقف رکھنی والی سیاسی جماعتیں بھی موجود ہوتی ہیں، مگر عام طور سے انہیں اکثر یت نہیں مل پاتی، اگر کہیں ایسا ہو بھی جائے ، تب بھی ہر ملک میں کچھ نہ کچھ ایسی قوتیں ضرور ہوتی ہیں جو اس غلبے کو نیوٹرلائز کر سکیں، سماج کو زندہ رہنے کے قابل بنائے رکھیں۔ادیب، شاعر، فن کار ، صحافی،کھلاڑی وغیرہ ویسے ہی اپنی آزاد فکر رکھتے ہیں۔شوبز توسب سے غیر سیاسی شعبہ زندگی ہے۔ انسانی احساسات، جذبات اور لطیف خیالات کی دنیا میں رہنے والے فن کار آخر کس طرح نفرت، دہشت گردی، جنگی جنون کی حمایت کر سکتے ہیں؟بھارت میں مگر یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ شدت پسندی کا عفریت یوں انگڑائی لے کراٹھ بیٹھا ہے کہ اس نے پورے بھارتی معاشرے کو مفلوج بنا دیا۔

لگتا ہے سوچنے سمجھنے والے لوگ کسی بددعا (یا شراپ)کے نتیجے میں تحلیل ہوگئے۔ جو دوچار بچے، ان میں بات کرنے کی جرات ہی نہیں۔ پاکستان بھارت جیسا جمہوری ٹریک ریکارڈ نہیں رکھتا، کئی فوجی آمروں نے یہاں پر حکومت کی، سیاستدان کبھی اتنے طاقتور نہیں ہوئے کہ عسکری اسٹیبلشمنٹ کو پیچھے دھکیل سکیں، ہماری تاریخ ہی اکہتر ، بہتر برسوں پر مشتمل ہے، آرٹ اور کلچر کے میدانوں میںبہت پیچھے۔مذہبی شدت پسندی کا شکار ملک، لہور نگ فرقہ واریت، دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی ، فکری مناقشے اپنی جگہ۔ ان سب کمزوریوں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی ریاست اور پاکستانی عوام کا رویہ بھارت کی نسبت کئی گنا زیادہ معقول، میچور اور معتدل رہا ہے۔

ہمارے ہاں انتہائی رائیٹ ونگ جماعتیں، گروہ اور افراد موجود ہیں۔ پورے سماج پر وہ غلبہ نہیں پا سکتے۔ اینٹی انڈیا جذبات ہمارے ہاں یقینا موجود ہیں۔میں اس سے انکار نہیں کروں گا۔ یہ لوگ مگر بہت محدود اثر اور قوت رکھتے ہیں۔دہلی کے لال قلعے پر جھنڈا لہرانے کی بات کی جاتی رہی، مگر اب مذاق میں بھی کوئی یہ نہیں کہتا۔ بھارت کے ساتھ دوستی کی بات کرنے والے بے شک زیادہ نہ ہوں، مگر بھارت کی تباہی پر مصر جنونی بہت کم ہیں۔

جس طرح کا رویہ بھارت میں آج دیکھنے کو مل رہا ہے، ویسا تو پاکستان میں کلبھوشن یادو جیسا مستند قسم کا بھارتی جاسوس پکڑے جانے کے بعد بھی نہیں تھا۔ پاکستان میں دہشت گردی سے سو ارب ڈالر کے قریب نقصان ہوا، ستر پچھتر ہزار پاکستانی شہید ہوگئے، اس کے قوی شواہد ہیں کہ دہشت گردی کے پیچھے کہیں نہ کہیں بھارت کا ہاتھ بھی ہے۔ظاہر ہے اسے ملک میں ناپسند کیا جاتا ہے ، لیکن یہ نہیں کہ پوری قوم جنونیوں کی طرح تمام چیزیں بھول کر چیخنا شروع کر دے ۔ پاگل ہوکر کرکٹ تک کھیلنے سے انکاری ہو اور غضب میں اپنے ملک کی ہندو اقلیت پر چڑھ دوڑے۔ نہیں ایسا بالکل نہیں۔ یہ جنون ، وحشت اور ناسمجھی بھارتیوں کے حصے میں آئی ہے۔ ایک اور اہم بات کشمیریوں کے حوالے سے بھارتی عمومی رویہ ہے۔

شروع میں عرض کیا تھا کہ چند منٹ کے لئے یہی فرض کر لیتے ہیں کہ پلوامہ حملہ پر بھارتی موقف درست ہے۔ اگر ایسا ہو تب بھی ان کا غصہ پاکستان پر اترنا چاہیے، کشمیریوں سے ایسی نفرت کیوں؟

صرف وادی اور جموں ،پونچھ ہی میں نہیں بلکہ بھارت بھرمیں جہاں کہیں کشمیری مقیم ہیں، ہر جگہ انہیں شدت پسندی کے جن سے واسطہ ہے۔ کشمیر سے ہزاروں میل دور واقعی کسی بھارتی یونیورسٹی میں پڑھنے والے کشمیری طالب علم کا پلوامہ حملہ سے کیا لینا دینا ہوسکتا ہے؟

ہاسٹلوں سے تشدد کر کے ان غریبوں کو نکالا جا رہا ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ بھارتی عوام یہ سمجھ چکے ہیں کہ کشمیری بھارت کا حصہ نہیں اور ان کا آئندہ بھارت کے ساتھ چلنا بھی ممکن نہیں۔ بھارتی سیاسی جماعتوں، میڈیا، مختلف بااثر گروپوں اور عام آدمی کا کشمیریوں کے ساتھ رویہ ایک غیر،مخالف اور نفرت کرنے والے ہمسایے کا ہے۔ یہ ایک الگ سوال ہے کہ کیا ایسا کر کے بھارتی عوام کشمیر کے کیس اور کاز کو مضبوط نہیں کر رہے؟

اسی طرح مجھے یہ بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ چلیں پلوامہ حملہ کی ذمہ داری پاکستان پر تھوپ دی، کشمیریوں سے بھی ناراضی ہوگئی، مگر بھارت کے مختلف علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کا اس سب سے کیا لینا دینا؟ان میں سے لاکھوں ، کروڑوں ایسے ہوں گے جنہوں نے پلوامہ کا نام تک کبھی نہیں سنا ہوگا۔ نفرت اور غضب کی لہرمگر پورے بھارت میں مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ یہ سب عقل وفہم سے بالاتر حرکتیں ہیں۔ بھارت میں مسلمان اقلیت ہیں، مگر وہ لاکھ دولاکھ آبادی نہیں جو شائد ملک ہی چھوڑ جائے۔ بیس بائیس کروڑ مسلمانوں کو آخر بھارتی اسٹیبلشمنٹ، انٹیلی جنشیا، فعال طبقات، میڈیا اور سیاسی جماعتیں کیسے دیوار سے لگا سکتی ہیں؟ اگر ایسا کیا تو اس کے نتائج کیا نکلیں گے؟محروم ، پسے ہوئے طبقات ہی دہشت گردی کے لئے زرخیز زمین کا کام دیتے ہیں۔ بھارتی فیصلہ ساز ، منصوبہ ساز سامنے کی ان باتوں کو کیسے نظرانداز کر سکتے ہیں؟

بھارتیوں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ پاکستان کے خلاف بلا سوچے ، سمجھے اس قدر شدید ہائپ پیدا کر کے انہوں نے اپنے ملک کو کس خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے؟ حکمران جماعت بی جے پی اور نریندر مودی نے اپنے الیکشن کے چکر میں ، میڈیا نے ہائی ریٹنگ کی خواہش اور اہم ، بااثر طبقات نے اپنے تہذیبی تکبر اور دیوپیکر انا کی تسکین کی خاطر ایسی فضا پیدا کر دی ہے کہ اگر بھارت کسی بڑی جوابی کارروائی سے گریز کرے گا تو ان کی بھد اڑے گی، کوئی ایڈونچر کیا تو پاکستان اس کا بھرپورجواب دے گا اور یوں پورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ ہمارے پاس کھونے کو کیا ہے ، پہلے ہی مسائل کا شکار ہیں ، کچھ پریشانیاں اور سہی۔ وہ جو سپر پاور بننے کا سپنا دیکھ رہے ، معاشی قوت بننا چاہتے ہیں، انہیں یہ معلوم نہیں کہ سرمایہ اور جنگ کی آپس میں دشمنی ہے۔دونوں ایک جگہ اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ افسوس کہ بھارت میں ایسی ہوشمند آوازیں موجودنہیں جو آگ کا یہ کھیل کھیلنے سے روک سکیں۔ [محمد عامر خاکوانی ، 92 نیوز ]

…………………………………

انڈین مسلمان اور پاکستان

انڈین مسلمانوں سے یہ توقع کرنا کہ وہ انڈیا پاکستان ٹینشن میں پاکستان کے حق میں آواز اٹھائیں گنے زمینی حقائق کے برخلاف اور لا علمی ہے- کسی  انڈین ہندو شہری  کے لیے امن اور عقل و دانش ہوش کی بات کرنا ممکن ہے مگر انڈین مسلمان کے لیے یہ مشکل ہے- ان کو ادھر آنڈیا میں ہی رہنا ہے 1947 میں اتنے لوگ ہجرت نہیں کرسکتے تھے ۔۔نہ ہی پاکستان میں capacity ہے ۔۔۔ لہذا ان پر تنقید کی ضرورت نہیں ان کی مجبوری ہے کہ ظلم میں کیسے گزارا کرتے ہیں ۔۔ ہر وقت ان کو انڈیا سے وفاداری کا اقرار کرنا پڑتا ہے مگر ان کو پاکستان کا طعنہ دیا جاتا ہے – ایک معاشی مضبوط پاکستان ان کے لئیے آواز اٹھا سکتا تھا مگر ڈاکو راج میں ممکن نہ ہوا ۔۔۔ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں جیسے 1947 میں چھوڑا تھا۔۔ وہ جو مناسب سمجھیں کریں ۔۔۔ ہم ان کے لئیے نیک تمنائیں اور دعا کریں ۔۔
کیا ہم برداشت کریں گے کہ پاکستانی سکھ اور ہندو آنڈیا کی حمایت کریں؟

یہ ہم جانتے ہیں کہ تمام مسلمان نماز میں پڑھتے ہیں ۔۔۔

رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ (ابراهيم، 14 : 41)

اے ہمارے رب!* *مجھے بخش دے اور میرے والدین کو (بخش دے) اور دیگر سب “مومنوں” کو بھی، جس دن حساب قائم ہوگاo‘‘

اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَی عِبَادِ اﷲِ الصّٰلِحِيْنَ.
ہم پر اور اﷲ کے تمام نیک بندوں پر بھی سلام ہو،

الله کا فرمان قرآن میں موجود ہے ، جس کی مسلمان تلاوت کرتے ہیں:

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (49:10)
مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا (49:10)

وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١٠﴾
اور جو لوگ ان کے بعد آئے اور ان کا کہنا یہ ہے کہ خدایا ہمیں معاف کردے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جنہوں نے ایمان میں ہم پر سبقت کی ہے اور ہمارے دلوں میں صاحبانِ ایمان کے لئے کسی طرح کا کینہ نہ قرار دینا کہ تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے (قرآن 59:10)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
​ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے ، اس کے ساتھ خیانت نہ کر ے ، اس سے جھوٹ نہ بولے ، اوراس کوبے یارومددگارنہ چھوڑے ، ہرمسلمان کی عزت، دولت اورخون دوسرے مسلمان کے لیے حرام ہے ، تقوی یہاں(دل میں) ہے ، ایک شخص کے بُرا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو حقیر و کمتر سمجھے​ (ترمذي : 1927 ، ، صحيح الجامع : 6706)

“مومنین” میں سب اہل ایمان شامل ہیں کسی بھی رنگ نسل قومیت ملک سے ہوں ۔۔ ہم اللہ سے جھوٹی دعا نہیں مانگتے ۔۔۔
یہ قرآن و حدیث کے احکام دنیا میں ہر جگہ مسلمانوں کو معلوم ہیں، وہ اپنے اپنے حالات کے مطابق وہ کس طرح یا کس حد تک یا کس طرح ان پر عمل کرتے ہیں یہ ان کا اور الله کا معامله ہے- کسی پر زبردستی نہیں-

ظلم و جبر میں جب زندگی کو خطرہ ہو تو اسلام جان کی حفاظت کو ترجیح دیتا ہے-
مسلمان كے ليے اسے كسى بھى حالت خنزیر کا گوشت تناول كرنا مباح نہيں، ليكن صرف اس ضرورت ميں جس ميں انسان كى زندگى اس كے تناول كرنے پر موقوف ہو كہ اس كے پاس كچھ نہيں اور اگر خنزير كا گوشت نہ كھائے تو مرنے كى نوبت ہو تو صرف جان بچانے كے ليے شرعى قاعدہ ” ضروريات ممنوع كو مباح كر ديتى ہيں ” كے مطابق تناول كر سكتا ہے. [آفتاب خان ]

Leaders of Pakistan should not worry about Muslims in India: Asaduddin Owaisi….

……………………………….

بہت سے لوگ اس بات پر متحیر ہیں کہ آخر بھارت میں اس قدر غصہ اور جنون کیوں نظر آ رہا ہے؟

ایک بڑی وجہ ڈیجیٹل میڈیا کے ایکسپوژر کی بھی ہے۔ لوگ انٹرنیٹ پر بھارتی چینل دیکھ لیتے ہیں۔ ویڈیو کلپس فوری وائرل ہوجاتے ہیں۔ ایک نیا فیکٹر عرب ممالک خاص کر متحدہ عرب امارات میں رہنے والے پاکستانی ہیں۔ ان کے ساتھ دفاتر وغیرہ میں بھارتی، بنگلہ دیشی سٹاف کام کرتا ہے۔ یوں ان ممالک کے ویڈیو کلپس آسانی سے وائرل ہوجاتے ہیں۔ شدت پسندسوچ کو ظاہر کرنے والے ایسے ویڈیو کلپس دیکھ کر لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر بھارت میں اس قدر ہیجان کیوںہے ؟ انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ وہاں جمہوریت کا تسلسل ہے۔ جمہوری ادارے مستحکم اور اسٹیبلشمنٹ کا رول نسبتا ً محدود ہے، آرٹ اور کلچر کی طرف بھی وہ زیادہ مائل ہیں۔اپنے تمام تر داخلی تضادات کے باوجود آئینی طور پر بھارت ابھی تک سیکولر ملک ہے۔ وہاں اقلیتیں بھی تعداد میں کم نہیں۔ بیس بائیس کروڑ مسلمان، چار پانچ کروڑ کے قریب سکھ ہیں، عیسائی بھی کئی ملین تو ہوں گے ۔ خود اکثریتی ہندو آبادی میں بہت تقسیم ہے۔ نارتھ اور ساوتھ انڈیا کی تقسیم اپنی جگہ موجود ہے۔ جہاں اس قدر تقسیم اور رنگا رنگی ہو، وہاں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہنا سیکھ لیتے ہیں۔ یہ کہہ لیں کہ سیکھ لینا چاہیے۔پھر بھی ایسی شدت ؟ اس پر بات کرتے ہیں، مگر پہلے ایک اور نکتہ کی وضاحت ضروری ہے۔ ہمارے ہاں یہ عام رواج ہے کہ ایک خاص حلقہ بعض تعصبات کی بنا پر یہ فقرہ بول دیتا ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں میں شدت اور جذباتیت ہے۔ یہ بات بظاہر سادہ اوربے ضررنظر آتی ہے، مگر آج کی صورتحال میں اس فقرے کا مقصد ظالم اور مظلوم دونوں کوا یک ہی صف میں کھڑا کرنا ہے ۔ بذات خودیہ ایک ظلم ہے۔ اس پورے ایشو میں دونوں ممالک کے عوام کاکلچر اور مزاج کھل کر سامنے آ یا ہے۔ کوئی بھی غیر جانبدار شخص پاکستان کو دیکھے تواسے حیرت ہوگی۔ملک میں کہیں پر جنگ کا ماحول نہیں۔ میڈیا امن کی بات کر رہا ہے۔ مختلف تقریبات اور ادبی فیسٹول چل رہے ہیں۔لاہور میں آج کل لاہور لٹریری فیسٹول جاری ہے۔ عوام زور شور سے پی ایس ایل کے کرکٹ میچز دیکھنے میں مشغول ہیں۔ جو لو گ عام طور پر بھارت کے مخالف سوچ رکھتے ہیں اور ہمیشہ اسے سبق سکھانے کی بات کرتے ہیں۔ وہ بھی جارحانہ گفتگو نہیں کر رہے، صرف اپنا دفاع کرنے کی بات کر تے ہیں۔ بھارت میں اس کے برعکس آگ بھڑک رہی ہے۔ اعتدال کی بات کرنے والوں کے لئے زندگی دوبھرہوچکی۔ ٹی وی چینلز پلوامہ حملے میں مرنے والوں کے ورثا کے جذباتی ، اشتعال انگیز انٹرویو دکھا رہے ہیں۔ جس میں وہ لوگ پاکستان پر حملہ کرنے اور اسے ہمیشہ کے لئے سبق سکھا دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایسے آگ برساتے ماحول میں ہوشمندی اور تدبر کی بات کرنا ممکن ہی نہیں۔اس لئے پاکستان اور ہندوستان کے ماحول کا موازنہ درست نہیں۔ پاکستان میں بالکل بھی اُس سطح کے شدت والے جذبات نہیں۔ بھارت میں کئی گنا بدتر صورتحال ہے۔ ہمارے ہاں بھارتی ہیجان کی صرف ایک ہی توجیہہ بیان کی جارہی ہے کہ وہاں الیکشن ہونے والے ہیں اور بی جے پی کا لیڈر نریندرمودی عوامی جذبات استعمال کر کے الیکشن جیتنا چاہتا ہے۔ کیا بات اتنی سادہ ہے؟ غور کرنے سے ایسا لگتا نہیں۔ اگر وزیراعظم مودی الیکشن جیتنے کے لئے ایسا کر رہا ہے تو پھر اس کے سیاسی مخالفین کو متحد ہو کر اسے ناکام بنانا چاہیے۔ لوگوں کو وہ بتائیں کہ حکومت اپنے سیاسی ڈرامے کے لئے کر رہی ہے، اصل صورتحال مختلف ہے۔ ہم تو دیکھ رہے ہیں کہ بھارتی اپوزیشن بھی اس جذبات کے ریلے میں بہہ گئی ۔ کانگریس اگرچہ مودی کی طرح پرجوش نہیں کہ اس نے الیکشن میں مسلمان ووٹ لینے ہیں، مگر وہ بہرحال مودی کے مخالف نہیں کھڑی ہوئی۔ دیگر سیکولر جماعتیں، تنظیمیں ، میڈیا میں موجود لبرل، سیکولر عناصر بھی خاموش ہیں ۔ایک مسلمان بھارتی صحافی دوست کے مطابق آج کل بھارت میں بھارتی مسلمانوںکے لئے جس قدر خطرناک، ہراساں کر دینے والی صورتحال بن چکی ، ویسی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔ حتیٰ کہ کارگل جنگ میںایسا نہیں تھا۔فطری طور پر اس قدر شدید ، جذباتی ردعمل کی کی وجوہات اتنی سادہ نہیں۔ معاملہ پیچیدہ اور گمبھیر ہے، اس مسئلے کی جڑیںزیادہ گہری ہیں ۔ ہمیں ان وجوہات کو سمجھنا ہوگا، جس کے باعث بھارتی سوسائٹی زومبیوں کی طرز کے ایک جنونی معاشرے میں تبدیل ہوگئی۔ اس کے پیچھے دراصل ہندوشدت پسند مذہبی تنظیموںکی کئی عشروںسے کی گئی لگاتار محنت ہے۔ وشوا ہندو پریشد ، راشٹریہ سیوک سنگھ وغیرہ سے لے کر مختلف شدت پسند مذہبی گروہوں، تنظیموں نے بھارتی سماج کی مختلف جہتوں میںغیر معمولی محنت کر کے شدت، تعصب ، مسلمان دشمنی، ہندو عظمت اور وطنی نرگسیت کے بیج بوئے۔ یہ پانچوں الفاظ (شدت، تعصب، مسلمان دشمنی، ہندو عظمت،وطنی نرگسیت) صرف جملے میں وزن بڑھانے کے لئے نہیں استعمال کئے گئے، بلکہ ان تمام جہتوں پر الگ الگ کام ہوا۔ ان تنظیموںمیں سے کچھ نے مذہبی پلیٹ فارم سنبھالا،کسی نے سیاست کا رخ کیا، بعض نے تعلیمی اداروں میں کام کیا، خیراتی ادارے بنائے اور خاص طور سے میڈیا میں سرائیت کیا۔ہم پاکستانی عام طور پر انٹرنیٹ کے ذریعے بھارت کے بڑے انگریزی اخبار پڑھ لیتے ہیں۔ ان کا ریجنل میڈیا علاقائی زبان کی وجہ سے نہیں پڑھ پاتے، حالانکہ وہ بہت طاقتور اور عوام کے نچلے ، متوسط طبقات تک گہرا اثر رکھتا ہے۔ مراٹھی، بنگالی، تامل ، تیلگو، ملیالم وغیرہ میں بڑے بڑے اخبارات ہیں جو دس ، دس ، پندرہ پندرہ لاکھ روزانہ کی اشاعت رکھتے ہیں۔ بعض تو اس سے بھی زیادہ۔ بھارتی اخبار سستے کاغذ پر چھپنے کی وجہ سے عام آدمی کی قوت خرید میں ہیں۔ ریجنل چینلز بھی بہت زیادہ دیکھے جاتے ہیں۔ برسوں پہلے ایک بھارتی صحافی دوست نے بتایا تھا کہ بی جے پی اور وشواہندوپریشد والے ریجنل میڈیا پر بہت کام کرتے ہیں۔ انہوں نے نوجوان صحافیوں کی تربیت کے کئی ادارے قائم کئے اور بہت سے لوگوں کو باقاعدہ کوشش کر کے میڈیا ہائوسز میں داخل کیا گیا۔ چند برس گزرنے کے بعد یہ نوجوان اہم پوزیشن پر آ جاتے ہیں۔ اس بھارتی صحافی کے مطابق کوئی عالمی ادارہ بی جے پی کے کسی بڑے لیڈر سے انٹرویو کا وقت لے تو ممکن ہے اسے فوری وقت نہ دیاجائے۔بھارتی انگریزی اخبار یا چینل کوایک دو دنوں کے بعد کی اپائنمنٹ مل جائے گی، مگرپارٹی پالیسی کے مطابق کوئی ریجنل اخباررابطہ کرے تو اسی روز انٹرویو دینا لازم ہے۔ ریجنل چینل بلائے تو ٹاپ لیڈر بھی بلا تامل پہنچ جاتے ہیں۔ مقصد یہی کہ عوام کے اندر زیادہ سے زیادہ اپنی لابنگ کی جائے۔ شدت پسند تنظیموں کے مفت تربیتی تعلیمی اداروں کی وجہ سے بے شمار نوجوان انڈین سول سروس، پولیس اور فوج کے امتحانات پاس کر کے بھرتی ہوجاتے ہیں۔ پچھلے تین عشروں کی محنت کے اثرات آج سرچڑھ کر بول رہے ہیں۔ بی جے پی کی سابق حکومتوں نے اس عمل کو تیز کیا، مگر نریندر مودی نے اسے عروج پر پہنچا دیا۔ وزیراعظم مودی نے کارپوریٹ ورلڈ کی قوت استعمال کر کے میڈیا گروپس کے مالکان کوبھی رام کر لیا اور یوں پورا میڈیا سرینڈرکر گیا۔ سماج میں اس گہرے اثرونفوذ کے علاوہ ایک اور کام بالی وڈ فلموں اور سوشل میڈیا پرچکاچوند ویڈیو کلپس کی مدد سے کیا گیا۔ بھارتی عوام میں خبط عظمت کی دل کھول کر آبیاری کی گئی۔ یہ کام تو پنڈت نہرو نے بھی کیا تھا۔ تقسیم سے پہلے اپنی تیرہ سالہ بیٹی کے نام خطوط میں انہوںنے ہندوستان کی تاریخ بیان کی، جس میںکھینچ تان کر اسے دنیا بھر سے افضل ثابت کیا۔ یہ عمل مودی حکومت میں بہت زیادہ آگے بڑھا۔ ’’بھارت ماتا‘‘ کی عظمت اور انفرادیت پرمبنی نرگسیت پسندی عوام کے ذہنوںمیں ٹھونس دی گئی۔ پاکستان کے خلاف ایک عمومی بیانیہ فلموں اور میڈیا کے ذریعے آگے بڑھایا گیا۔ایک عام بھارتی کو اس قدر احساس تفاخر اور نرگسیت کا شکار کیا گیا کہ انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ پاکستان جیسا ’’چھوٹا ‘‘ملک آخر ان کے منہ لگنے کی جرات کیسے کر سکتا ہے؟ سرجیکل سٹرائیک کا ڈرامہ کر کے،بعدمیں’’ اڑی‘‘ کے نام سے باقاعدہ بالی وڈ کمرشل فلم بنا کر اس جعلی فخر میں مزید پھونک بھر دی گئی۔ایسے میں پلوامہ حملے جیسے واقعات بھارتی انٹیلی جنشیا، فعال طبقات اور عوام کو بڑے شاک سے دوچار کر دیتے ہیں۔ اس جھٹکے کے نتیجے میں اپنا داخلی احتساب کرنے کے بجائے وہ تمام تر قصور خارجی عنصر (یعنی پاکستان)پر تھوپ کر سبق سکھانے کا راگ الاپنے لگتے ہیں۔ سوال مگر وہی کہ اس قسم کا جعلی فخر، بے مقصد نرگسیت، مصنوعی جاہ وجلال بھارت کو کہاں لے جائے گا؟بھارت امریکہ نہیں اور نہ ہی سپر پاور جیسا نخرہ اور رویہ اسے جچتا ہے۔بلا سوچے سمجھے بھارت میں صورتحال اس انتہا تک لے جائی جا چکی ہے کہ خدا نہ کرے اس خطے کو کوئی بڑا حادثہ لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ شائد ایسا سردست نہ ہوسکے ۔ ممکن ہے اس بار معاملہ پوائنٹ آف نوریٹرن تک نہ جائے ، لیکن جن عوامل کا ذکر کیا، وہ کارفرما رہے تو اس خطے میں ایک بڑی ، ہولناک جنگ آ کر رہے گی۔اللہ ہم پر رحم فرمائے اورجو ہمارے لئے بہترین ہو،اسی طرف اختتام ہو۔ آمین۔
عامر ہاشم خاکوانی

……………………………………

اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتے کہ ایٹم بم صرف اس وقت استعمال ہوا جب وہ صرف ایک ملک کے پاس تھا۔ جب یہ صلاحیت دوسرے ممالک کے پاس بھی آ گئی اس کے بعد کسی کو جرات نہیں ہو سکی اس کا استعمال کر سکے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی بڑی قوتیں آج تک جنگ کی صورت آپس میں نہیں الجھیں۔کبھی آپ نے غور کیا کس چیز نے انہیں روکے رکھا؟

ایک دوسرے کو برباد کر دینے کی صلاحیت نے۔ یہی سد جارحیت کی قوت کہلاتی ہے اور یہی امن کی ضمانت دیتی ہے۔چنانچہ دیکھ لیجیے ان قوتوں نے جب بھی وحشت اور خون کا کھیل کھیلا کسی کمزور ملک کے ساتھ کھیلا۔مسلم دنیا اور مسلم معاشروں کو میدان جنگ بنا دیا گیا۔ کیوں؟

کیوں کہ ان کے پاس سد جارحیت کی وہ قوت نہیں تھی جو دشمن کو روکتی؟

افراد ہی کا نہیں،اقوام کا بلڈ پریشر بھی صرف اس وقت ہائی ہوتا ہے جب سامنے والا کمزور ہو۔ ہمیں بھی امن چاہیے۔ سچ پوچھیے تو ماضی کی یہ کہانیاں سن کر اچھا لگتا ہے کہ کیسے پچاس کی دہائی میں لوگ تانگے پر بیٹھ کر لاہور سے امرتسر اور امرتسر سے لاہور آتے جاتے تھے ۔جی چاہتا ہے یہاں امن ہو۔ ہم بھی جائیں ، وہ بھی آئیں۔ لیکن خواہش ایک چیز ہے اور حقیقت بالکل دوسری چیز۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاشی اور عسکری حجم کے ساتھ دنیا کا سب سے جاہل اور جنونی سماج بھارت کا ہے۔تہذیب نفس سے محروم ، معاشی ہی نہیں شعوری طور پر بھی پسماندہ۔ایسے معاشرے میں جنون کا زہر انڈیل دینا ہمیشہ ہی آسان رہتا ہے۔کبھی یہ کام سردار پٹیل کرتا ہے تو کبھی مودی۔اس وحشت اور جنون کے مظاہر آپ کے سامنے ہیں ۔ مقبوضہ کشمیر ہی میں نہیں خود بھارت میں کشمیریوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ ہمارے حصے میں کیسا پڑوس آیا ہے۔ یہ پڑوسی کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتا ہے۔ یہ وہ بھیڑیا ہے جو بلندی پر کھڑا ہو کر نشیب میں پانی پیتے میمنے سے کہتا ہے کہ تم پانی گدلا کیوں کر رہے ہو۔جب میمنا کہتا ہے کہ پانی تو آپ کی جانب سے میری طرف آ رہا ہے میں اسے گدلا کیسے کر سکتا ہوں تو وہ حملہ کر دیتا ہے۔ابھی اس نے پاکستان کا پانی روکنے کا اعلان کیا ہے۔ یہی کام یہ افغانستان کے ذریعے بھی کر رہا ہے اور دریائے کابل پر ڈیم بنوا کر پاکستان کو اس کے پانی سے محروم کرنا چاہتا ہے۔یہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ امن سے رہنے کے لیے آپ کا سافٹ امیج کام آئے گا نہ رونا دھونا۔ امن چاہیے تو راستہ ایک ہی ہے: جنگ کی تیاری کرنا ہو گی اور جنگ کے لیے ہر وقت تیار رہنا ہو گا۔آپکے پاس بھارت کو برباد کر دینے کی صلاحیت جتنی بڑھتی جائے گی امن کے امکانات اتنے ہی روشن ہوتے جائیں گے۔ [آصف محمود]

Next page … Kashmir – Legitimate Struggle for Freedom form India or Terrorism?

Pages ( 1 of 2 ): 1 2 Next »

Pages ( 1 of 2 ): 1 2Next »