Liberalism, Fascism لبرل فاشزم

چند مہینوں سے اردو صحافت کے کالموں میں اچانک ”لبرل فاشزم‘‘ کی اصطلاح متعارف ہوئی اور بغیر سوچے سمجھے متعدد لکھنے والوں نے اس کا استعمال بھی شروع کر دیا۔ دو متضاد مفاہیم کی حامل کوئی اصطلاح ایجاد کر کے ”نئے پن‘‘ کا تاثر تو قائم کر لیا جاتا ہے‘ لیکن اس میں سے کوئی مفہوم نکالنا اور پھر اس مفہوم کو قارئین تک پہنچانا ‘کافی مشکل کام ہے۔ اس سے بہتر یہی ہے کہ الگ الگ اصطلاحوں کو ان کے اصل مفہوم میںاستعمال کر کے‘ بات کو الجھانے سے گریز کیا جائے اور تضادات کے ٹکرائو سے نکلنے والی چنگاریوں میںبھی تیسری جہت نمایاں ہو سکتی ہے اور جو مفہوم پیدا کرنا مقصود ہو‘ دستیاب ہو جاتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ آج کل کی تیزرفتاری میں کچھ دیر رک کر سوچ بچار کرنے کا رواج نہیں رہ گیا۔ سب کچھ روا روی میں ہوتا ہے۔سوشل میڈیا پر ذیشان ہاشم کا ایک مضمون نظر سے گزرا تو اندازہ ہوا کہ کسی نے تضادات کو سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔خیالات ذی شان کے ہیں‘ میں صرف ان کی منفرد کوشش کی طرف متوجہ ہوا اور اپنے قارئین کو بھی متوجہ کر رہا ہوں۔ ملاحظہ فرمایئے:
”ہمارے دانشورانہ مکالمہ میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم نے دور جدید کی سوشل سائنس کے تین بڑے رجحانات (لبرل ازم، سوشل ازم، اور فاشزم) کو تفصیل سے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی‘ جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان میں لبرل فاشزم کی اصطلاح یہاں کے بیشتر کالم نویس استعمال کرتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ اصطلاح معروف بھی ہو جاتی ہے‘ اس تحقیق و جستجو میں پڑے بغیر کہ اصل میں فاشزم ہے کیا؟ فاشسٹ ہونا کیونکر گالی ہے؟ گزشتہ صدی کے ابتدائی عشروں میں مغربی لبرل ازم نے‘ جس فاشزم سے جنگ لڑی دونوں کے درمیان کس بات کا نظریاتی اختلاف تھا ؟ اور یہ کہ مغرب میں‘ جس فاشزم کی لہر دوبارہ سے اٹھ رہی ہے ‘اس کا جنم کہاں سے ہوا اور وہ مغربی لبرل ازم کے لئے کیونکر اور کن بنیادوں پر خطرہ بن رہی ہے۔ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں‘ جن پر غوروفکر ‘ہمارے اہل علم و فکر کے لئے ضروری ہے‘ تب جا کر دانشورانہ مکالمہ سطحیت سے سنجیدگی کی طرف رجوع کرے گا۔
آئیے پہلے اس پربات کرتے ہیں کہ لبرل ازم اور فاشزم سے کیا مراد ہے؟ اور ان میں باہم اختلاف کیا ہے؟ اس کے بعد بقیہ پہلوؤں کو زیر بحث لانا ممکن ہو جائے گا۔فاشزم ایک ایسا سیاسی فلسفہ، تحریک یا عہد ہے جس میں قوم یا نسل یا وطن یا ملک یا وفاق کو فرد یعنی شہری سے بالاتر سمجھا جاتا ہے اور جس میں centralized (مرکزی، وفاقی ) اور جابرانہ (autocratic ) سیاسی‘ سماجی اور معاشی نظم پایا جاتا ہے۔لبرل ازم اس سے مختلف ہے۔ اس میں فرد ہر سماجی اکائی سے بالاتر ہے، قوم‘ نسل‘ وطن اور ملک فرد سے بالاتر نہیں۔ اس میں طاقت و اختیار decentralized ہوتے ہیں اور سیاسی سماجی و معاشی نظام فرد کی آزادی پر قائم ہوتا ہے۔ ریاست کے تمام ادارے شہریت کے حضور جوابدہ ہیں۔ سماجی و معاشی زندگی میں ہر فرد آزاد ہے کہ اپنے پرامن مقاصد کی جستجو کرسکے۔
مسولینی لبرل ازم کو فاشزم کا انٹی تھیسز سمجھتا تھا اس نے اپنی کتابFascism: Doctrine and Institutions میں ریاست کی اہمیت پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور فرد کی اہمیت کو صرف اتنا تسلیم کیا ہے کہ فرد ریاست کے مفادات کا تابع ہے۔مسولینی کہتا ہے کہ یہ غیر فطری ہے کہ ریاست شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ اس کے الفاظ ہیں:”یہ اصول کہ سوسائٹی جو لوگوں سے وجود میںآتی ہے، صرف ان لوگوں کی فلاح اور ان کی آزادی کے لئے ہی قائم کی جاتی ہے۔ اگر کلاسیکل لبرل ازم سے مراد انفرادیت پسندی ہے تو فاشزم سے مراد صرف گورنمنٹ ہے۔‘‘
ہمارے قومی شاعر علامہ محمد اقبال جن کا شاہین آزاد پرواز پرندہ ہے ‘جو پہاڑوں کی چٹانوں پہ اپنی انفرادیت پسندی کا تحفظ کرتا ہے، انہوں نے مسولینی کی جو تعریف کی سو کی‘ ذرا برطانوی سوشلسٹ شاعر و ادیب برنارڈ شا کی بھی سن لیجئے جنہوں نے 1927 ء میں لکھا :”سوشلسٹ یہ جان کر مسرور ہوں گے کہ آخر کار انہیں ایک سوشلسٹ (مسولینی ) مل گیاہے‘ جو ویسے بولتا اور سوچتا ہے جیسے ایک ذمہ دار حکمران کو ہونا چاہئے ۔‘‘
جرمن فاشزم کا بانی Paul Lenschہے جو اپنی کتاب Three Years of world revolutionمیں لکھتا ہے:”سوشلزم کے لئے ضروری ہے کہ وہ انفرادیت پسندی یعنی لبرل ازم کے خلاف ایک شعوری اور پرعزم اپوزیشن کا کردار ادا کرے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ فاشزم سماج میں اخلاقی جبر کا قائل ہے۔ وہ فرد کو اپنی مفروضہ اخلاقیات کے حضور سرنگوں دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی لئے جرمن فاشزم کا سلوگن بھی یہی تھا کہ سماجی اخلاقیات انفرادی اخلاقیات سے بالاتر ہیں۔
ہٹلر اپنی کتابMein Kampf میں لکھتا ہے: ”آرینز اپنی ذاتی صلاحیتوں سے عظیم نہیں تھے بلکہ ان کی آمادگی تھی جس کے باعث وہ اپنی ذات کو سماج سے کمتر سمجھتے تھے اور اگر اس کے لئے وقت ان سے تقاضا کرتا تو وہ قربانیوں سے نہیں گھبراتے تھے۔‘‘
فاشزم‘ فرد کا انکار کرتا ہے اس کے حقوق کا بھی، اس کی ذات کا بھی، اس کی آزادی مساوات اور انصاف کا بھی۔ وہ ایک مفروضہ‘ تصور نظریہ یا عقیدہ کی آمریت کا نام ہے جو افراد سے اپنی پرستش اور خدمت گزاری کرواتا ہے۔ اسی بات کو ہٹلر اپنی کتاب میں ان الفاظ میں لکھتا ہے: ”فرد کے حقوق ہوتے ہی نہیں، اس کے فقط فرائض ہوتے ہیں۔‘‘
فاشزم اپنی آمریت کا جواز‘ سماجی بہبود کو قرار دیتا ہے اور سماجی بہبود کے نام پر شخصی آزادی کو نفرت سے دیکھتا ہے۔ شہری کے مفادات کو‘ سماج دشمن قیاس کرتا ہے۔ اس کے نزدیک وہ تمام لوگ جو اپنے اور اپنے خاندان کے لئے محنت مشقت کرتے ہیں ‘وہ سماج دشمن ہیں، وہ ریاست کے دشمن ہیں- ہٹلر لکھتا ہے:”ہماری قوم صرف ایک سادہ اصول سے صحت یاب ہو سکتی ہے۔سماجی مفادات کو انفرادی مفادات پر ترجیح دی جائے۔‘‘
”فاشسٹ فلسفہ و نظام حکومت یہ نہیں کہ ریاست آپ کے لئے کیا کر سکتی ہے بلکہ حقیقتاً یہ ہے کہ آپ ریاست کے لئے کیا کر سکتے ہیں‘‘۔
”فاشزم کا ذکر ہو اور اس میں کارلائل کا تذکرہ نہ ہو، ایسا ناممکن ہے۔ جس طرح کلاسیکل لبرل ازم کے فلسفہ میں لاک، مل، بینتھم، والٹیر اور ایڈم سمتھ کا کردار ہے، اور کمیونزم کے فلسفہ میں مارکس کا، بالکل اسی طرح جدید فاشزم کی تبلیغ و تشریح میں کارلائل کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ یہ اتفاق نہیں کہ اپنے انجام کے آخری لمحات میں جب ہٹلر چہار سو شکست اور ناکامی دیکھ رہا تھا،وہ اپنے بنکر میں اپنے وفاداروں کے ساتھ محصور تھا اور دشمن کی فوجیں آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ ہٹلر نے اپنے قابل اعتماد اسسٹنٹ Goebbels کو کہا کہ ان لمحات میں خود کو پرسکون رکھنا چاہتا ہے اس لئے اسے ایک کتاب پڑھنے کو دی جائے۔ اس کے اسسٹنٹ نے پوچھا کہ جناب کونسی کتاب پڑھنا چاہیں گے تو اس نے تھامس کارلائل کی کتاب ”فریڈرک اعظم کی بائیو گرافی ‘‘ طلب کی اور اسی کتاب کو سینے سے لگائے دنیا سے کوچ کر گیا۔‘‘

– See more at: http://m.dunya.com.pk/index.php/author/nazeer-naji/2016-08-06/16371/54874196#sthash.OrIzKILO.dpuf

”کارلائل گریٹ مین (ہیروز) تھیوری کا خالق تھا۔ اس نے ہیروز کی جو خصوصیات بتائی ہیں ان پر ماؤ‘ سٹالن ‘ہٹلر اور مسولینی خوب پورے اترتے ہیں۔ اس نے آزادی، مساوات، اور انصاف کے تصورات کا مذاق اڑایا اور سب سے بڑی قدر طاقت و اقتدار کو قرار دیا۔ اس نے آزادی کا حق صرف ہیروز کے لئے مخصوص کیا اور باقی افراد کے لئے اس کا کہنا تھا کہ وہ ہیروز کے حضور سرنگوں ہو جائیں۔ وہ کہتا تھا کہ ہیروز اور عام لوگ برابر نہیں ہو سکتے۔ جس طرح ہیرو ‘دوسرے افراد پر حکومت کرتے ہیں اسی طرح ہیرو نسلیں بھی ‘دوسری کمتر نسلوں پر حکومت کرتی ہیں۔ انصاف قانون کی نظر میں برابری نہیں بلکہ انصاف ہیروز (عظیم افراد ) کا ارادہ و حکم ہے۔ اس نے سینکڑوں صفحات پر محیط تحریریں لکھیں ‘جن میں اس نے اس حکومت کی تعریف کی، جس سے لوگ ڈریں۔ اس نے لکھا کہ جنگیں‘ انقلاب ‘حملے ‘ تغیرات اور اکثریت پر جبر‘ زندگی کا حصہ ہے۔ فاشزم کو سمجھنے کے لئے آئیے ذرا تفصیل سے کارلائل کے خیالات کو سمجھتے ہیں تاکہ ہم اپنے عہد میں بھی فاشسٹ نظریات کی شناخت کر سکیں اور خود کو بھی کھنگال لیں کہ کہیں ہم اپنے رویوں اور نظریات و عقائد میں فاشسٹ تو نہیں؟
اس نے سب سے زیادہ لبرلز پر تنقید کی‘ خاص طور پر جان سٹارٹ مل اور ایڈم سمتھ‘ اس کی بدزبانی کا نشانہ بنے۔ اس نے ایڈم سمتھ کی Pin فیکٹری (مارکیٹ کے عمل کو سمجھانے کے لئے ایک کلاسیکل مثال) کا مذاق اڑایا اور کہا کہ ”سب سے گھٹیا کام پیداواری محنت ہے اور سب سے اعلیٰ کام جنگیں لڑنا اور انقلاب برپا کرنا ہے۔ آخر معاشرہ کی تخلیقی صلاحیت کو‘ جنگ میں کیوں نہ استعمال کیا جائے؟ بجائے اس کے کہ اس سے سوئیاں بنائی جائیں۔ آخر بجائے جنگ کے سوئیاں بنائے میں کیا جمالیات ہے؟‘‘ اس نے خود کو مطلق العنانی کا پیغمبر کہا اور کہا کہ میں‘ ہر اس چیز کی مخالفت کرتا ہوں جسے لبرل مانتے ہیں۔ یاد رہے کہ وہ سوشلسٹ بھی نہیں تھا اور مارکس نے اپنے عہد میں اسے ذرہ برابر بھی اہمیت نہیں دی تھی۔
اسے سب سے زیادہ غصہ‘ فری مارکیٹ معیشت پر تھا۔ اسی نے سب سے پہلے لکھا کہ اکنامکس ایک dismal (ہولناک، مایوس کن ) سائنس ہے۔ اسی سبب ‘وہ مارکیٹ کی پیداواری سرگرمیوں کو نفرت سے دیکھتا تھا اور کہتا تھا کہ یہ ذہانت اور محنت ‘جنگوں میں اور حکومت کرنے پر کیوں نہیں صرف کی جاتی؟
فری مارکیٹ کیپیٹل ازم سے اس کی نفرت کی دوسری وجہ ‘غلامی کا خاتمہ ہے۔ چونکہ وہ بادشاہت اور جاگیرداری کا حامی تھا ‘اس لئے وہ فرد کی معاشی آزادی کو نفرت سے دیکھتا تھا۔ اس کے عہد میں بادشاہت کا خاتمہ ہو رہا تھا۔ سیاسی سماجی اور معاشی آزادی حاصل ہو رہی تھی۔ اس کے نزدیک اس سب خرابی کی وجہLaises Faireمعیشت ہے جو تمام آزادیوں کو جنم دے رہی ہے۔ اس نے کہا کہ مساوات نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اصل بات یہ ہے کہ حکمران طبقہ کو دوبارہ اختیارات اور طاقت دی جائے اور جو مضبوط اور طاقت ور ہے ‘وہ سیاسی سماجی اور معاشی زندگی کو کنٹرول کرے۔اسے پورا کیپیٹل ازم مضحکہ خیز لگتا تھا‘ جس کا اظہار اس (کارلائل)نے بار بار کیا۔ اس نے کیپیٹل ازم کے اصولوں ‘جیسے آزادی، عالمگیر بنیادی حقوق اور ترقی کا مذاق اڑایا۔ وہ کہتا تھا: ”یہ کیسا معاشرہ چاہتے ہیں‘جو مساوی آزادی دیتا ہو؟ جس میں کوئی آقا اور غلام نہیں۔ سب کے برابر حقوق ہیں۔ سوسائٹی کی معیشت پر کسی کا کنٹرول نہیں بس‘ ڈیمانڈ اور سپلائی معیشت کو منظم کرتی ہے۔ لوگ کسی حکم کی پیروی نہیں بلکہ اپنے اپنے سیلف انٹرسٹ (شخصی آرزوؤں) کی جستجو کرتے ہوں۔ جس طرح سیاسی آزادی کے قائل ہیں‘ ویسے ہی معیشت اور سماج کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں‘‘۔ وہ لکھتا ہے: ”میں پوچھتا ہوں کیا یہ احمقانہ بات نہیں، سوائے ہیروز کے کوئی اور بھی درست ہو سکتا ہے ؟ ‘‘
جو گورے نہیں ‘وہ انسان ہی نہیں۔ اگر وہ غلام نہیں تو انہیں مار دیا جائے۔ اس نے کالوں کو دو پاؤں والا جانور قرار دیا۔ اس نے لکھا کہ انکی بس اتنی وقعت ہے کہ انہیں غلام بنا دیا جائے۔
بہترین سوسائٹی وہ ہے جس میں اشرافیہ کی بالادستی ہو۔ عام لوگ تو رعایا بننے کے لئے پیدا ہوتے ہیں ان میں self determination اور self responsibility کہاں؟
اپنے عہد میں اس کا ہیرو نپولین تھا۔ اس نے کہا کہ ہیرو جیسا کہ نپولین ‘پیدا ہی اس لئے ہوتے ہیں کہ حکومت کریں۔
لبرل ازم ‘فرد پر سوسائٹی اور ریاست کے جبر کا قائل نہیں۔ وہ سوسائٹی کو آزاد دیکھنا چاہتا ہے جس میں خود تنظیمی کی صلاحیت ہو اور حکومت و ریاست ‘بطور ایک سماجی ادارہ کے ‘اپنی حدود میں رہ کر کام کریں۔ یوں لبرل ازم میں ‘سوسائٹی کو ڈیزائن یا کنٹرول کرنے کی گنجائش ہی نہیں۔ وہ لبرل ازم کے اس موقف پر چڑتا اور کہتا تھا ”فرد کیا ہے؟ فرد کچھ بھی نہیں۔ فرد کے حقوق نہیں ہوتے‘ اس کے فقط فرائض ہوتے ہیں (یہی بات بار بار ہٹلر اور مسولینی دہراتے تھے) اس کا آزاد ارادہ نہیں ہوتا۔ بس اس نے محض اتباع کرنا ہوتا ہے۔ سوسائٹی پر ریاست کو برتری حاصل ہے کیونکہ ریاست کی کمان ہیرو کے پاس ہوتی ہے۔ سوسائٹی پر اشرافیہ کا غلبہ ہوتا ہے ‘جو ہیرو کی کمانڈ پر رعایا سے کام لیتے ہیں‘‘۔
فاشزم اور لبرل ازم میں‘ زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ایک ریاستی آمریت اور ہیروازم پر قائم ہے‘ تو دوسرا شخصی آزادیوں، آزادی میں مساوات اور بنیادی انسانی حقوق کی اساس پر قائم قانون کی حکمرانی کا قائل ہے۔ دونوں کو ملانا ناممکن ہے۔ ایک لبرل ‘فاشسٹ نہیں ہو سکتا اور ایک فاشسٹ‘ لبرل نہیں ہو سکتا۔
ریاستوں کا عمومی رجحان فاشسٹ ہوتا ہے جیسے پاکستان کا ریاستی جبر بلوچستان اور فاٹا پر، بھارت کا کشمیر اور تامل ناڈو پر، چین کا سنکیانک پر، امریکہ کی خارجہ پالیسیاں، ایران کا سنی آبادی، دیگر اقلیتوں اور شہریوں پر نظریاتی جبر، سعودیہ کا شیعہ آبادی اور شہریوں پر نظریاتی جبر، اسرائیل کا فلسطین پر اور ترکی، شام، عراق اور ایران کا کردوں پر‘ ایسی بہت ساری مثالیں ہیں۔ جبکہ فرد اور سوسائٹی پر امن ہوتے ہیں، لوگ تعاون و تبادلہ کی اساس پر پرامن زندگی پسند کرتے ہیں۔ نیشن اسٹیٹ کے تصور نے جہاں ایک طرف جمہوریت اور داخلی آزادیوں کی راہ ہموار کی ہے ‘وہیں ان ریاستوں کی خارجہ پالیسیاں، کمزور شناختوں کے لئے داخلہ پالیسیاں اور ریاست کی فرد اور سوسائٹی پر کنٹرول کی کوشش نے جدید فاشزم کو جنم دیا ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ کارلائل‘ باوجود اپنے متعصب اور ظالمانہ نظریات کے برطانیہ میں بہت مقبول رہا۔ اسی طرح ہٹلر اور مسولینی جمہوری عمل سے‘ باقاعدہ الیکشن جیت کر اقتدار میں آئے۔ جس مقبولیت پسند سیاست سے‘ وہ اقتدار میں آئے اسی طرز کی سیاست امریکہ میں ٹرمپ، ترکی میں اردوان، برطانیہ میں بورس جانسن اور Jeremy Corbyn، بھارت میں بی جے پی اور مودی، روس میں پوتن، اسرائیل میں نیتن یاہو، فلپائن میں Duterte، نیدر لینڈ میں Geert Wilders، ہنگری میںViktor Orbán، پولینڈ میں Jaroslaw Kaczynski ، اور یورپ میں پھلتی پھولتی انٹی امیگرنٹ تحریکیں کر رہی ہیں۔ یہ غیر لبرل (Illiberal) ہیں اور مقبولیت پسند جمہوریت سے ‘اپنے فاشسٹ نظریات کو نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا بیانیہ بھی ہٹلر ‘مسولینی اور کارلائل سے ملتا ہے کہ سیاسی سماجی اور معاشی آمریت نافذ کر کے‘ قوم کو عظیم سے عظیم تر بنایا جائے۔ لبرل ازم سیاست ‘معیشت اور سماج کو ایک دوسرے سے جدا رکھتا ہے۔ لبرل ‘جمہوریت ایک سیاسی بندوبست ہے معاشی یا سماجی نہیں اور اس پر انسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کی کڑی شرط عائد ہے۔ دور جدید میں، لبرل ازم کو پھر فاشسٹ نظریات سے خطرہ ہے۔ ایک بار پھر میدان سجنے کو ہے مگر ہمارا دانشور لبرل فاشسٹ کی اصطلاح متعارف کروا کر نہ صرف اپنے خول میں قید ہے بلکہ اپنی لاعلمی اور بے خبری کی باقاعدہ تصویر بنا کر اپنے قارئین کو گمراہ کر رہا ہے۔‘‘
 نذیر ناجی 

– See more at: http://m.dunya.com.pk/index.php/author/nazeer-naji/2016-08-07/16382/72069491#sthash.sASw8Mve.dpuf

سیکولر ازم کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے؟
محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں مذہبی سوچ رکھنے والوں اور سیکولر، لبرل حلقوں کے درمیان کشمکش چلتی رہی ہے۔ یہ تقسیم خاصی پرانی ہے۔ سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد روایتی لیفٹ تو دھڑام سے منہ کے بل نیچے جا گرا۔پرانے لیفٹسٹوں میں سے بیشتر تو اس صدمے سے اٹھ ہی نہ سکے ، جو بچ گئے، ان کے دل ایسے چکنا چور ہوئے کہ گوشہ نشینی میں پناہ لی۔ ترقی پسند قافلے کے کچھ لوگ البتہ لیفٹ سے کیپیٹل ازم کی طرف چل پڑے۔ جمہوریت، انصاف، برابری،غربت کا خاتمہ وغیرہ جیسے پرکشش جملے تخلیق کئے اور پھر رہے نام سائیں کا۔ ترقی پسندوں اوراسلامسٹوں(رائیٹ ونگ والے کہہ لیں) کے مابین معرکے چلتے رہتے تھے، اب اس میں ترقی پسندو ں کی جگہ سیکولرز نے لے لی۔ ہمارے ہاں دونوں حلقہ ہائے فکر ایک دوسرے کو مطعون کرنے کا کوئی موقعہ ضائع نہیں جانے دیتے۔۔ اس چشمک کا سب سے زیادہ نقصان یہ ہے کہ موقف واضح نہیں ہوپاتا۔رائٹ ونگ میں ایک بنیادی (ڈیفالٹ)خامی یہ ہے کہ اپنے بیانیہ میں یہ حد درجہ جذباتی اور پرجوش ہوجاتے ہیں۔ دلیل سے بات شروع ہوتی ہے، مگر پھرجذبات کے وفور اور غضب سے استدلال کہیں پیچھے رہ جاتا ہے، فتوے غلبہ پا لیتے ہیں۔یہی کام اب سیکولر کرنے لگے ہیں۔ نوجوان نسل چونکہ کسی خاص کیمپ کا حصہ بننے سے پہلے ایک خاص قسم کے عبوری دور(ٹرانزیشن)سے گزرتی ہے، ایسے میں وہ ہر بات کا فیصلہ استدلال کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ جس کی بات اچھی لگی ، اس طرف مائل ہوگئے۔ مجھے لگتا ہے کہ رائٹ ونگ والوں کو ایک نئے بیانیہ کی ضرورت ہے، جس میں علم کلام بھی نیا اور ڈکشن بھی آسان، جدید اور عام فہم ہو۔
اس موضوع پر اہل علم کو آگے آنا چاہیے، میرے جیسا عام اخبارنویس تو صحافتی زبان میں سادہ سا ابلاغ ہی کر سکتا ہے۔

سیکولرازم یا لبرل ازم کوپہلے سمجھ لینا چاہیے، پھر اندازہ ہوجائے کہ پاکستان میں اس پر تنقید کیوں کی جاتی ہے؟

لبرل ازم بنیادی طور پرسیاسی فکر یا نظریہ ہے، جبکہ سیکولرازم دراصل سیاسی بندوست یا سیاسی نظام کا نام ہے۔

لبرل ازم کے دو بنیادی تصورات آزادی (liberty)اور مساوات یا برابری ( equality) ہیں۔ لبرل فکر کے دیگر اجزا میں آزادی اظہار، آزادی رائے ، کسی بھی مذہب کو رکھنے یا نہ رکھنے کی آزادی، جمہوریت، سیکولر گورنمنٹ، فری مارکیٹ اکانومی، شہری حقوق، صنفی مساوات(Gender equality)،گلوبل ازم وغیرہ شامل ہیں۔

سیکولر ازم سے مراد یہ ہے کہ مذہب کسی بھی فرد کا ذاتی مسئلہ ہے، اسے اجتماعی معاملات سے الگ رکھنا چاہیے۔ کوئی فرد چاہے نماز پڑھے چاہے زندگی میں ایک بھی نہ پڑھے، سیکولرازم اس سے بے نیاز ہے۔ سیکولر گورنمنٹ یا سیکولر ریاست سے مراد بھی ایک ایسی ریاست ہے جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہ ہو۔ اس کے آئین، قوانین، ڈوز، ڈونٹس میں مذہب کا عمل دخل نہ ہو۔ وہ مکمل طور پر انسانی عقل ودانش اور تجربات سے اخذ کئے گئے ہوں۔
جو لوگ پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں، ان کا مقصد یہی ہے کہ ملک کو اسلامی جمہوریہ کے بجائے صرف جمہوریہ کہا جائے۔مذہب سے پاکستانی ریاست کا کوئی تعلق نہ ہو، وہ اپنے قوانین قرآن وسنت کی روشنی میں نہ بنائے، چونکہ قرارداد مقاصد کے مطابق قرآن وسنت کو سپریم اتھارٹی حاصل ہے اور پاکستانی پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتی جو قرآن وسنت کے خلاف ہو،اسی لیے سیکولر حلقے ہمیشہ قرارداد مقاصد کو ہدف بناتے ہیں۔

لبرل ازم کے دیگر اجزا کی بھی سیکولرحلقے زور شور سے وکالت کرتے پائے جائیں گے۔  

سیکولرازم میں چند ایک باتیں بظاہر پرکشش نظر آتی ہیں، پڑھے لکھے ماڈرن نوجوان ذہن کو یہ اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ جیسے مذہب ہر ایک کا ذاتی معاملہ ہے، اپنے طور پر کوئی چاہے تو مذہبی ہوسکتا ہے، مگر ریاست کے نظام سے اس کا تعلق نہیں ہونا چاہیے ۔ پہلی نظر میں یہ سادہ بات لگتی ہے، کچاذہن سوچتا ہے کہ اس میں کیا خرابی ہے؟

سیکولروں نے مذہب کی مخالفت تو نہیں کی، صرف اتنا کہا ہے کہ اسے ذاتی سطح پر رکھا جائے۔ اس میں موجود خرابی سمجھنے کے لئے مذہبی فکر کا مختصر جائزہ لینا ضروری ہے ۔

اسلامی فکر کے مطابق انسان دنیامیں ایک خاص مدت کے لئے آیا ہے، یہ کھیتی ہے، یہاں نیک عمل اور خیر کی فصل کاشت کرنا مقصود ہے، جس کا صلہ ، ثمر روز آخرت ملے گا۔ نیک لوگوں کو جنت کا انعام جبکہ گناہ گاروں اور ظالموں کے حصے میں دوزخ جیسی بدترین جگہ آئے گی، جہاں انہیں خوفناک سزائیں ملیں گی۔ انسان کی توجہ روز آخرت پر ہونی چاہیے، اس کے لئے اعمال کرنے چاہئیں او ران تمام فواحش ومنکرات سے بچنا چاہیے جن سے رب تعالیٰ نے منع فرمایا۔

اسی اصول کے مطابق انسان کے جسمانی وجود کی طرح اس کا ایک اخلاقی وجود بھی ہے، جس کی تربیت، تہذیب اسے کرنا ہوگی۔

اوپر والے پیرے سے بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اسلامی فکر کا محور مغربی تہذیب اور فکر سے قطعی طور پر مختلف ہے۔ اس کا مقصود کچھ اور ہے۔

ہم اسلامی ریاست دو وجوہات کی بنا پر چاہتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اسلامی ریاست اپنے مسلمان شہریوں کی فلاح وبہبودکا خیال رکھے، عدل وانصاف کرے، ماں کی طرح اپنے عوام کو ریلیف دے اور ان کے جسمانی وجود کی طرح ان کے اخلاقی وجود کا بھی خیال رکھے۔ یہ وہ کام ہے جو سیکولر ریاست نہیں کر سکتی۔ سیکولر ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ اس کے شہری اچھے مسلمان بنتے ہیں یا نہیں، انہیں نماز پڑھنا، قرآن پڑھنا، سمجھنا آتا ہے یا نہیں، وہ گناہوں، فواحش ومنکرات سے دور رہ پاتے ہیں یا اس کا شکار ہوجاتے ہیں؟ زنا بڑھتا ہے یا اس پر قابو رکھنا ہے- یہ سیکولر ریاست کا مسئلہ نہیں۔

شراب ، جوئے جیسی ممنوعہ چیزوں سے شہریوں کو باز رکھنے کی ذمہ داری بھی اسلامی ریاست اٹھاتی ہے،کسی سیکولر ریاست کا یہ درد سر نہیں۔ اسلامی ریاست البتہ کئی ایسے بیرئرز یا رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے، جس سے شہریوں کی اخلاقی زندگی بہتر ہو۔ پورن سائٹس پر پابندی سے فحش یا قابل اعتراض اشتہارات کی روک تھام جیسے سوالات کسی اسلامی یا مذہبی ریاست میں اٹھائے جا سکتے ہیں۔ مغربی سیکولر ریاستوں میں تو پورن فلم انڈسٹری سے اربوں ڈالر کمائے جاتے ہیں۔

سیکولر ریاست صرف یہ دیکھتی ہے کہ کوئی کسی کے ساتھ زبردستی نہ کرے، رضامندی سے جو کچھ بھی ہو، وہ قابل قبول ہے۔

سیکولر دوست ہمیشہ اعتراض کرتے ہیں کہ مغرب میں ملاوٹ زدہ اشیا خوردنی اور ادویہ وغیرہ کا کوئی وجود نہیں،اسی طرح خوردبرد، بے ایمانی،دھوکہ دہی ،تاجروں کی لوٹ مار وغیرہ مغرب میں ممکن نہیں، مذہبی لوگ فحاشی کی بات کرتے ہیں، مگر ان سماجی خرابیوں کا کسی نے کبھی نام نہیں لیا۔

بات دراصل یہ ہے کہ ملاوٹ، لوٹ مار کی وجہ بیڈ گورننس ہے، جہاں بھی سسٹم کمزور ہے، وہاں ملاوٹ زدہ چیزیں ملیں گی۔ سعودی عرب، کویت، عرب امارات جیسے ممالک میں مذہبی ریاستیں ہونے کے باوجود ملاوٹ زدہ چیز یا دوائی نہیں مل پاتی۔ اس لئے ایسا نہیں کہ مذہبی ریاست میں یہ برائیاں پنپتی ہیں۔ اسلامی ریاست کو ہر قسم کی سماجی خرابیاں ختم کرنا ہوں گی، مگر اس کے ساتھ ساتھ اسے اپنے شہریوں کی اخلاقی صحت اور انہیں خیر، نیکی کی طرف مائل کرنے کی اضافی ذمہ داری بھی اٹھانا پڑے گی۔


اسلامی ریاست کا دوسرا اہم ترین مقصداسلامی تصورات کو متشکل کرنا اور انہیں ایک باقاعدہ فریم ورک میں لانا ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ اسلام کا ایک تصور علم ، تصور اخلاق، تصور معیشت، تصور معاشرت، تصور شہریت ہے۔ اقلیتوں سے بہترین سلوک کرنے کا پورا اسلامی ریاستی تصور موجود ہے۔ بدقسمتی سے ان میں سے کئی چیزیں آج عملی شکل میں موجود نہیں،ان سب کو وجود میں لانا اسلامی ریاست کی ذمہ
داری ہے۔ پاکستان پر یہ ذمہ داری اس لئے بڑھ جاتی ہے کہ اس کی تخلیق ہی اس نعرے پر ہوئی کہ بہترین اسلامی نظام کا ماڈل پیش کرنا ہے۔ قائداعظم نے کئی بار یہ بات دہرائی کہ ہم چودہ سو سال پرانے قرآنی نظام اور تصورات کو عملی شکل دیں گے۔ اس لئے پاکستان کا سیکولر ریاست بننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

یہ درست ہے کہ ہم اپنے وعدے پورے نہیں کر پائے۔ بہت سی خرابیاں ہم نے پیدا کر لیں، مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والے گروہ بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ ان سب کو ہمیں ٹھیک کرنا ہوگا، نہ کہ اپنے بنیادی تصورات ہی کو اٹھا کر سائیڈ پر رکھ دیں۔ ہمیں پاکستان کو ایک بہترین اسلامی، فلاحی، جمہوری، ماڈرن ریاست بنانا ہوگا۔ یہ کام کوئی سیکولر ریاست نہیں بلکہ اسلامی جمہوری ریاست ہی کر پائے گی۔ یہ ایک خواب سہی، مگر آئیڈیل سیکولر ریاست بھی کہیں موجود نہیں۔ وہ بھی ایک طرح کا خواب ہی ہے۔ ایک مثالی خواب کی تکمیل کے لئے اپنی صلاحیتیں کھپا دینا زیادہ افضل ہے ، کسی ایسے موہوم تصور کے پیچھے بھاگنے کے، جس کے اختتام پر اخلاق باختہ تاریک دنیا ہماری منتظر ہو۔

(آمر ہاشم خاکوانی)

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1814996945194446&id=100000524739362

دین کو فرد تک محدود کر دینا اور فرد کو بظاہر یہ قانونی حق دینا کہ جس دین کو چاہے اختیار کر لے، یہ سیکولرزم کی بنائی ہوئی عملی دنیا خود سیکولرزم ہی کے مقرر کردہ معیارِ کامیابی پر سیاسی اور معاشرتی نتائج تو پیدا کررہا ہے، اور بعض آفاقی انسانی ضروریات، مثلاً امن وامان وغیرہ کی بظاہر تکمیل بھی کررہا ہے، لیکن ہمارے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ دین کے رد وقبول کو فرد کا شخصی حق مان کر اُسے اجتماعی زندگی کے معاملات سے لا تعلق کردینا، خود دین کے لیے قابلِ قبول ہے یا نہیں؟ اگر فرد اپنے دین کے اُن احکام پر چلنا چاہے جو ایک خاص طرح کے قانونی نظم اور معاشرتی در و بست کا تقاضا کرتے ہیں تو کیا سیکولر ریاست اور لبرل معاشرت میں فرد کو اِس کی آزادی دی جائے گی کہ وہ اِس بات پر اصرار اور جدّوجہد کرسکے کہ سود خلافِ اسلام ہے، ہماری معیشت کو اس سے پاک ہونا چاہیے، حیا مرد وزن کی مشترکہ معاشرت کی بنیادی قدر ہے، اس لیے بے حیائی کی تمام صورتوں پر قانونی اور اخلاقی پابندی لگنی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ تو جنا ب سیکولر ازم میں فرد کو جو مذہبی آزادی دی گئی ہے اُس کی کوئی دینی معنویت اور حیثیت نہیں ہے۔ ایسی محدود اور آرائشی آزادی مذہب تو دور کی بات ہے انسانوں کے بنائے ہوئے سیاسی اور تہذیبی نظریات بھی قبول نہیں کریں گے۔ مسلمانوں کے لیے سیکولرازم سے جُزوی اور عارضی تعلق پیدا کرنا بھی اس لیے ممکن نہیں ہے کہ مسلمان اپنے اجتماعیت کے سب سے بڑے دائرے کو اپنے دین سے اخذ کرتے ہیں۔ اِ ن کے لیے یہ اِ ن کے ایمان کا تقاضا ہے کہ اپنے حتمی اور اِنتہائی تشخص کی بنیاد اسلام پر رکھیں اور اپنی دیگر حیثیتوں اور شناختوں کو مٹائے بغیر اپنے دینی تشخص کے ساتھ ہم آہنگ رکھیں۔
  (احمد جاوید، دلیل ڈاٹ پی کے پر موجود انٹرویو کا ایک فکر انگیز اقتباس )

 

بھارت میں سیکولرازم کی حمایت کیوں کی جاتی ہے؟
عامر خاکوانی
ہمارے بعض دوست اکثر یہ شکوہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں مذہبی لوگ سیکولرازم کی مخالفت کرتے ہیں جبکہ بھارت میں انہی مذہبی لوگوں یا جماعتوں کے ہم خیال اعلانیہ سیکولرازم کی حمایت کرتے ہیں تو کیا یہ ’’کھلا تضاد‘‘ نہیں۔ آج ایک دوست نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے یہ فرمایا کہ جغرافیائی حدود سے عقائد نہیں تبدیل ہوجاتے ، یعنی سیکولرازم کے حوالے سے جو دلائل یہاں موثر ہیں، انہیں بھارت میں بھی موثر ہونا چاہیے۔
 بات انتہائی سادہ ہے، کوئی سمجھنا چاہے تو ایک لمحہ درکار ہوگا۔ ہاں سیکولرازم کی حمایت پر کمربستہ دوست جو اس حوالے سے اپنا موقف انتہائی قطعیت سے طے کر بیٹھے ہوں، ان کی بات دوسری ہے۔ میری یہ پوسٹ ویسے ان کے لئے ہے ہی نہیں، وہ دوست ضرور پیش نظرہیں جن کے ذہن میں یہ مغالطہ گردش کر رہا ہے۔
 ہم یعنی پاکستانی سیکولرازم کی مخالفت اور اسلامی ریاست، اسلامی نظام کا مطالبہ  تین وجوہات کی بنا پر کرتے ہیں۔  
ایک تو یہ کہ پاکستان بھاری مسلم اکثریت والا ملک ہے، یہاں کے سماج کے بنیادی فیبرک میں مذہب اور مذہبی تہذیب رچی بسی ہے۔ یہ مسلمان اکثریت چاہتی ہے کہ ان کے فیصلے، ان کا آئین، قوانین اور ڈوز، ڈونٹس اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے طریقے کے مطابق بنائے جائیں۔ یہ مسلمان الہامی دانش پر مکمل بھروسہ کرتے ہیں اور انسانی عقل ودانش کو قرآن کے سامنے ہیچ اور عاجز سمجھتے ہیں۔
 دوسرا یہ کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا ملک ہے، بنیادی مطالبہ ہی یہی تھا کہ مسلم اکثریتی علاقوں کو ایک الگ ملک بنایا جائے جہاں وہ اپنے مذہبی قوانین، اسلامی کلچر اور نظریات کے مطابق رہ سکیں۔ اسلامی نظام ایک طرح سے پاکستان کے مطالبے کا اِن ِبلڈ یعنی لازمی جز ہے۔
 تیسرا یہ کہ آج کے عہد میں اسلام کے تصور علم، اخلاقیات، معشیت، روایات، شہریات پر مبنی ایک اسلامی فلاحی جمہوری ریاست قائم کر کے دکھانا بہت ضروری ہے۔ یہ ہم مسلمانوں کی بطور امت ذمہ داری ہے، مگر پاکستان چونکہ بنا ہی کلمہ طیبہ کی بنیاد پر ہے، اس لئے پاکستانیوں پر زیادہ بڑی زمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان ایک ایسی اسلامی نظریاتی ریاست بنے جو یہ سب کام کرے اور ایک اچھا فلاحی، عادلانہ اسلامی نظام پر مبنی معاشرہ اور حکومت بنا کر سب کو دکھائے۔
 ان سب وجوہات کی بنا پر ہم سیکولرازم کی مخالفت کرتے ہیں کہ سیکولر ریاست میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں، کوئی سیکولر ریاست ملک میں اسلامی نظام قائم ہونے دے گی، نہ ہی وہ شہریوں کو اسلامی اخلاقیات اور تعلیم وتربیت فراہم کر سکتی ہے۔ سیکولر ازم لادینیت ہو یا نہ ہو، اس بحث سے قطع نظر یہ تو واضح ہے کہ وہ اگر پاکستان میں رائج ہوگیا تو دین اجتماعی معاشرے سے کٹ کر صرف گھروں تک محدود رہ جائے گا اور عملی طور پر لادینیت ہی آگے بڑھتی چلی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  اب رہی بات بھارت کی۔
 بھارت ایک ہندو اکثریتی ملک ہے۔ جہاں ستر اسی فیصد کے قریب ہندو رہتے ہیں۔ کوئی احمق ہی بیس بائیس فیصد بھارتی مسلمانوں کو یہ مشورہ دے سکتا ہے کہ وہ یہ مطالبہ کریں کہ بھارت میں اسلامی نظام رائج کیا جائے۔ ظاہر ہے وہ وہاں اقلیت میں ہیں، وہ کیسے اسلامی ریاست کا مطالبہ کر سکتے ہیں ؟ اگر وہ مذہبی ریاست کی بات کریں گے تو وہ صرف اور صرف ہندو ریاست ہوگی ۔ کامن سینس یہ بتاتی ہے کہ ایسے میں ان کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے ؟
 دوسری بات یہ کہ بھارت تقسیم ہوا تو بھارتی قوم پرست مسلمانوں ،جن میں مذہبی علما بھی شامل تھے، انہوں نے کانگریس کا ساتھ دیا اور وہ سیکولرازم کو سپورٹ کرتے تھے۔ سیکولرازم بھارتی آئین کا حصہ ہے بلکہ بھارتی سپریم کورٹ کے مطابق یہ آئین کا ایسا بنیادی جز ہے جسے بھارتی پارلیمنٹ بھی تبدیل نہیں کر سکتی۔ اس لئے بھارت کی جماعت اسلامی، جمعیت علما ہند یا دیگر مذہبی حلقے اگر سیکولرازم کی حمایت کر رہے ہیں تو وہ دراصل ایک ستر سالہ پرانی پالیسی کی حمایت ہے ، ان میں سے بیشتر کا یہ تقسیم سے پہلے والا موقف تھا، جسے وہ آج بھی قائم رکھے ہوئے ہیں۔
 تیسری بات یہ کہ بی جے پی کی شدت پسندانہ ہندوانہ پالیسی کے بعد بھارتی مسلمانوں کے پاس اور کیا آپشن رہ گئی ہے؟ وہ اقلیت میں ہیں، اس لئے ظاہر ہے بھارت میں اسلامی نظام کے نافذ ہونے کا مطالبہ نہیں کر سکتے، انہوں نے مذہب کی بنیاد پر تقسیم کی مخالفت کی تھی اور سیکولر ریاست کی سپورٹ کی تھی، اب ان کے پاس ویسے بھی یہی ایک جائے آماں اور آپشن بچی ہے۔
چوتھی بات یہ کہ اگر فرض کریں بھارت میں سیکولر ازم آئین کا حصہ نہیں رہتا اور بھارت ایک ہندو ریاست بن جاتا ہے، تب بھی ہم پاکستانی تو کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ بھارتیوں کا اپنا داخلی معاملہ ہے ۔ اگر ہندو بھارتی ریاست مسلمان اقلیتیوں کے مفادات کا تحفظ کرے، انہیں مذہبی آزادی دے، ان کے مسائل حل کرے تو ظاہر ہے کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ سیکولر ازم بھارت یا کسی بھی غیر مسلم اکثریتی ملک میں رہنے والی مسلمان اقلیت کی محفوظ آپشن ہوسکتی ہے، لیکن اگر وہ غیر مسلم ریاست ہندو، عیسائی، یہودی ریاست بن بھی جائے ، تب بھی ظاہر ہے جب تک مسلمان اقلیت کے ساتھ زیادتی نہیں ہوتی، ان کے حقوق سلب نہیں کئے جاتے ، ان پر مذہبی پابندیاں نافذ نہیں ہوتیں، تب تک عالمی دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
 پاکستان میں سیکولرازم کی مخالفت اور بھارت میں سیکولرازم کی حمایت یکسر الگ الگ ایشوز ہیں اور دونوں جگہ یہ موقف اختیار کرنے والے مسلمان اپنی جگہ درست ہیں۔
  مثال یوں سمجھ لیں جیسے سندھ میں سندھی زبان سکولوں میں پڑھائی جاتی ہے، پیپلزپارٹی ظاہر ہے اس کی حامی ہے۔ لیکن اگر خیبر پختون خوا کی پیپلزپارٹی مطالبہ کرے کہ اس صوبے میں پشتو کو سکولوں میں پڑھایا جائے تو پنجاب کا کوئی دانشور اٹھ کر اسے پیپلزپارٹی کی منافقت کانام دے اور دلیل یہ دے کہ سندھ میں یہ مختلف بات کر رہے ہیں اور کے پی کے میں ان کا موقف الگ ہے۔ تو یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہوگی۔  بھائی میرے، ہر جگہ کے اپنے معروضی زمینی حقائق ہیں، ان کے مطابق موقف میں تبدیلی آنا فطری ہے۔
 حرف آخر یہ کہ ہر بات کی مخالفت کرنے اور طنز کے تیر برسانے کے بجائے کچھ باتوں کو کامن سینس کی بنیاد پر ہی سمجھ لیا جائےتو کیا برائی ہے۔ کتنا وقت بچ جائے گا۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
مزید پڑھیں: