Modernism supported the belief that there is a purpose for life and that it should be viewed objectively……
جدید انسان صرف وہ ہے جو حسی، تجربی، اختیاری سائنسی ذریعۂ علم پر یقین رکھتا ہے اور غیر حسی، غیر تجربی، غیر طبعی، ما بعد الطبیعیاتی، الہامی مذہبی ذرائع سے ملنے والے علم کو جہل، ظلمت و گمراہی تصور کرتا ہے کیونکہ ان ذرائع سے ملنے والے علم کی تصدیق تجربہ گاہ میں آلات سائنس سے نہیں ہوسکتی لہٰذا یہ تمام علوم جہالت میں شمار ہوتے ہیں جدید انسان وہ ہے جو ان جہالتوں سے ماوراء ہے اور خیر و شر کے پیمانے خود خلق کرتا ہے کسی الہامی روایتی دینی علم سے پیمانے اخذ نہیں کرتا اس لیے جدیدیت تاریخ کا انکار کرتی ہے سترہویں صدی سے پہلے کے زمانے کو تاریخ کا تاریک ترین زمانہ (Dark ages( قرار دیتی ہے جدیدیت ماضی کا انکار کرنے کے باوجود ماضی سے کلاسیک کے نام پروہ تمام تصورات نظریات عقائد قبول کرتی ہے جو اس کی ابلیسیت سے ہم آہنگ ہیں مثلاً وہ یونان سے ارسطو کا نظریۂ ابدیت دنیا لے کر آخرت کا انکار کرتی ہے۔ جدیدیت میں صرف انسان ہی اصل حقیقت اصل وجود ہے کیونکہ اس کے وجود میں شک نہیں کیا جاسکتا وہی مرکز کائنات ہے کیونکہ یہ خدا مرکز کائنات نہیں یہ کائنات بھی انسان کے لیے ہے۔ ٹائن بی کے الفاظ میں حقیقت کے ادراک کے دوطریقے ہیں ایک سائنسی (Scientific trust( دوسرا شاعرانہ یا پیغمبرانہ(Poetic truth( پہلے طریقے سے علم مشاہدے تجربے سے ملتا ہے دوسرے طریقے سے ملنے والا علم محض شاعرانہ حقیقت ہے۔ ٹائن بی کے خیال میں لاشعور کی شاعرانہ سطح پر قابل فہم مشاہدہ کا نام ہی پیغمبری ہے۔…. [پرھتے جائیں ….]
ما بعد جدیدیت: Postmodernism کیا انارکی ہے؟ احمد جاوید
مابعدِ جدیدیت کا فکری رجحان ایک سلبی رویے کا پروردہ ہے۔ اس رویے کا مرکزِ تحریک موجود سے اعراض اور مطلوب کو حتمیت کے ساتھ متعین کرنے سے گریز ہے۔ مابعد جدیدیت کے اساطین میں نٹشے، ہائیڈیگر اور سارتر ہیں ان سب کے ہاں مذکورہ بالا حقیقت کو آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کے نزدیک متضاد اور باہم متصادم تصورات عقل کے لیے ناقابلِ قبول ہوں گے مگر زندگی انھی حقائق سے عبارت ہے۔ ژاک دریدہ نے مابعدجدیدیت کو پس ساختیات کے نام پر ادبی نظریہ بنا دیا ہے۔ اس کے نزدیک لفظ بھی معانی کا ویسا ہی ظرف ہے جیسا کہ ذہن ہے۔ مابعد جدیدیت میں دو نظریے ایسے ہیں جو اَب ان کا سرمایہ کہلا سکتے ہیں، یعنی نسائیت اور پس ساختیات [ ………. ]