اسلام دین کامل میں نئی نئی چیزیں شامل کرنا بدعة کہلاتا ہے جو کہ ممنوع ہے- اسلام ایک وسیع دین ہے. بنی نوع انسان کی ترقی کے ساتھ مختلف شعبہ جات زندگی میں بھی تبدیلی ناگزیر ہے- اس لیے بدعة کی ممانعت کا اطلاق دین کے کس حصہ پر ہوتا ہے اس کی قرآن و سنت کی روشنی میں تعریف (define) کرنا ضروری ہے-’بدعت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جو ’’بَدَعَ‘‘ سے مشتق ہے۔ اس کا معنی ہے : کسی سابقہ مادہ، اَصل، مثال، نمونہ یا وجود کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا؛ یعنی کسی شے کو عدمِ محض سے وجود میں لانے کو عربی زبان میں ’’اِبداع‘‘ کہتے ہیں۔……..
Bida
تحریر : بریگیڈیئر آفتاب احمد خان (ر) https://SalaamOne.com/Bida البدعة الكبيرة Big Bid’ah Copy for Mobiles (SizeA5): https://salaamone.com/wp-content/uploads/2023/09/DawahUr-4-Mobile.pdf Urdu: https://SalaamOne.com/wp-content/uploads/2023/09/DawahUr.pdf English: https://SalaamOne.com/revival-tejdeed/ || https://SalaamOne.com/wp-content/uploads/2023/09/Revival-Tejdeed.pdf 290923 0140 بیس سال قرآن کے مطالعہ و تحقیق، اور اہل علم لوگوں سے کئی کئی دن پر محیط طویل ڈسکشنز، تبادلہ خیالات، ای ایکسچینجز کے بعد
- بدعة کی حقیقت: تحقیقی جائزہ ..Bida (ضرور پڑھیں )
- Pdf: https://salaamone.com/wp-content/uploads/2019/01/Bida.pdf
- Website: https://salaamone.com/bida
- Website: https://salaamone.com/bida-2
کسی شے کے عدم سے وجود میں آنے کو بدعت کہتے ہیں۔ اس طرح بدعت کرنے والے فاعل کو مبتدع یا بدعتی اور عربی میں “بَدِيع” کہا جاتا ہے۔ لغوی اصطلاح میں بدعت کسی مفعول کے عدم سے وجود میں آنے اور مبتدع اُسے وجود میں لانے والے فاعل کیلئے استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ (قرآن ٢:١١٧)
ترجمہ: (وہی اللہ) موجد (نیا پیدا کرنے والا) ہے آسمانوں اور زمین کا
اس آیتِ میں اللہ نے آسمانوں اور زمین کے وجود میں آنے کا بیان کرتے ہوئے اپنی ذات کو آسمانوں اور زمین کا بدیع یعنی مبدع (وجود میں لانے والا) کہا۔ اسی وجہ سے اللہ کا ایک صفاتی نام “البَدِيع” یعنی مبتدع(وجود میں لانے والا) بھی ہے۔ یہ الیک مثبت خوبصورت، احسن نام ہے اس کا منفی معنی میں استمال نامناسب ہوگا-
شرعی اصطلاح میں بدعت کا حکم ہر اُس فعل یا مفعول کیلئے استعمال ہوتا ہے جسکا وجود قرآن و سنت کی نص سے ثابت نہ ہو اور وہ مابعد قرآن و سنت ظاہر ہو۔ (مزید تفصیلات بعد میں)- پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآن کیا کہتا ہے:الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ
آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے(قرآن 5:3)
دین کو مکمل کر دینے سے مُراد، اس کو ایک مستقل نظامِ فکر و عمل اور ایک ایسا مکمل نظامِ تہذیب و تمدّن بنا دینا ہے جس میں زندگی کے جُملہ مسائل کا جواباُصُولاً یا تفصیلاً موجود ہو اور ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ (تفہیم القرآن)
بدعت اور نیت
وَ رَہۡبَانِیَّۃَۨ ابۡتَدَعُوۡہَا مَا کَتَبۡنٰہَا عَلَیۡہِمۡ اِلَّا ابۡتِغَآءَ رِضۡوَانِ اللّٰہِ فَمَا رَعَوۡہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا ۚ فَاٰتَیۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡہُمۡ اَجۡرَہُمۡ ۚ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ ( الحدید 57:27)
تراجم:
#1 اور رہبانیت (یعنی عبادتِ الٰہی کے لئے ترکِ دنیا اور لذّتوں سے کنارہ کشی) کی بدعت انہوں (نصرانیوں ، مسیحی ) نے خود ایجاد کر لی تھی، اسے ہم نے اُن پر فرض نہیں کیا تھا، مگر (انہوں نے رہبانیت کی یہ بدعت) محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے (شروع کی تھی) پھر اس کی عملی نگہداشت کا جو حق تھا وہ اس کی ویسی نگہداشت نہ کرسکے (یعنی اسے اسی جذبہ اور پابندی سے جاری نہ رکھ سکی)، سو ہم نے اُن لوگوں کو جو ان میں سے ایمان لائے (اور بدعتِ رہبانیت کو رضائے الٰہی کے لئے جاری رکھے ہوئے) تھے، اُن کا اجر و ثواب عطا کر دیا اور ان میں سے اکثر لوگ (جو اس کے تارک ہوگئے اور بدل گئے) بہت نافرمان ہیں، ( الحدید 57:27)
#2 “اور رہبانیت انہوں نے خود ایجاد کرلی، ہم نے اُسے اُن پر فرض نہیں کیا تھا، مگر اللہ کی خوشنودی کی طلب میں انہوں نے آپ ہی یہ بدعت نکالی اور پھر اس کی پابندی کرنے کا جو حق تھا اسے ادا نہ کیا اُن میں سے جو لوگ ایمان لائے ہوئے تھے اُن کا اجر ہم نے ان کو عطا کیا، مگر ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں” ( الحدید 57:27)
#3 اور راہب بننا تو یہ بات انہوں نے دین میں اپنی طرف سے نکالی ہم نے ان پر مقرر نہ کی تھی ہاں یہ بدعت انہوں نے ا لله کی رضا چاہنے کو پیدا کی پھر اسے نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا تو ان کے ایمان والوں کو ہم نے ان کا ثواب عطا کیا، اور ان میں سے بہتیرے فاسق ہیں، ( الحدید57:27)
تفسیر ابن کثیر
پھر نصرانیوں کی ایک بدعت کا ذکر ہے جو ان کی شریعت میں تو نہ تھی لیکن انہوں نے خود اپنی طرف سے اسے ایجاد لی تھی، اس کے بعد کے جملے کے دو مطلب بیان کئے گئے ہیں ایک تو یہ ان کا مقصد نیک تھا کہ اللہ کی رضا جوئی کے لئے یہ طریقہ نکالا تھا۔ حضرت سعید بن جبیر حضرت قتادہ وغیرہ کا یہی قول ہے ۔ دوسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے ان پر اسے واجب نہ کیا تھا ہاں ہم نے ان پر صرف اللہ کی رضا جوئی واجب کی تھی۔ پھر فرماتا ہے یہ اسے بھی نبھا نہ سکے جیسا چاہیے تھا ویسا اس پر بھی نہ جمے، پس دوہری خرابی آئی ایک اپنی طرف سے ایک نئی بات دین اللہ میں ایجاد کرنے کی دوسرے اس پر بھی قائم نہ رہیں کی، یعنی جسے وہ خود قرب اللہ کا ذریعہ اپنے ذہن سے سمجھ بیٹھے تھے بالآخر اس پر بھی پورے نہ اترے…. (ابن کثیر)
تفسیر کنزالایمان
اس آیت سے معلوم ہوا کہ بدعت یعنی دین میں کسی بات کا نکالنا اگر وہ بات نیک ہو اور اس سے رضائے الٰہی مقصود ہو تو بہتر ہے ، اس پر ثواب ملتا ہے ، اور اس کو جاری رکھنا چاہئے ایسی بدعت کو “بدعت حسنہ” کہتے ہیں البتہ دین میں بری بات نکالنا “بدعتِ سیّئہ” کہلاتا ہے ، وہ ممنوع اور ناجائز ہے اور “بدعتِ سیّئہ” حدیث شریف میں وہ بتائی گئی ہے جو خلاف سنّت ہو اس کے نکالنے سے کوئی سنّت اٹھ جائے اس سے ہزار ہا مسائل کا فیصلہ ہوجاتا ہے جن میں آج کل لوگ اختلاف کرتے ہیں اور اپنی ہوائے نفسانی سے ایسے امور خیر کو بدعت بتا کر منع کرتے ہیں جن سے دین کی تقویّت و تائید ہوتی ہے اور مسلمانوں کو اخروی فوائد پہنچتے ہیں اور وہ طاعات و عبادات میں ذوق و شوق کے ساتھ مشغول رہتے ہیں ایسے امور کو بدعت بتانا قرآن مجید کی اس آیت کے صریح خلاف ہے ۔ (کنزالایمان)
تفسیر ضیا القران ماِخوز
اس جملہ کے ترجمہ میں علماء کے دو قول ہیں:
(1) اور ہبانیت کو انہوں نے خود ایجاد کرلیا تھا، ہم نے اسے ان پر فرض نہیں کیا تھا۔ البتہ انہوں نے رضائے الٰہی کے حصول کے لیے اختیار کیا تھا۔ ” اس صورت میں الا کا تعلق ابتدعوھا کے ساتھ ہو رہا ہے ۔
(2) اور رہبانیت کو انہوں نے خود ایجاد کیا ۔ ہم نے ان پر فرض نہیں کیا تھا۔ مگر یہ کہ وہ ہماری رضا کے طلب گار بنیں”۔ اس صورت میں مستثنی متصل ہوگی اور پہلی صورت میں مستثنی منقطع ہوگی۔۔۔۔۔
تفسیر بیان القران
یعنی جس غرض سے اس (رہبانیت) کو اختیار کیا تھا اور وہ غرض طلب رضا حق تھی اس کا اہتمام نہیں کیا، یعنی احکام کی بجا آوری نہ کی ، گو صورة رہبان رہے ، اور بعضے بجا آوری احکام میں سرگرم رہے ۔
Bidda, Innovation
وَ رَہۡبَانِیَّۃَۨ ابۡتَدَعُوۡہَا مَا کَتَبۡنٰہَا عَلَیۡہِمۡ اِلَّا ابۡتِغَآءَ رِضۡوَانِ اللّٰہِ فَمَا رَعَوۡہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا ۚ فَاٰتَیۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡہُمۡ اَجۡرَہُمۡ ۚ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ ( الحدید 57:27)
“..and monasticism, which they innovated; We did not prescribe it for them except [that they did so] seeking the approval of Allah. But they did not observe it with due observance. So We gave the ones who believed among them their reward, but many of them are defiantly disobedient. (Quran:57:27)
Translation 2
“… and monasticism, which they innovated; We did not prescribe it for them except [that they did so] seeking the approval of Allah. But they did not observe it with due observance. So We gave the ones who believed among them their reward, but many of them are defiantly disobedient.” (Quran:57:27)
Tafseer Jilalayan
But [as for] monasticism, namely, abstention from women and seclusion in monasteries, they invented it, [an innovation] on their part — We had not prescribed it for them, We did not enjoin them to it; but they took it on — only seeking God’s beatitude. Yet they did not observe it with due observance, for many of them abandoned it and rejected the religion of Jesus and embraced the religion of their [then] king. However, many of them did remain upon the religion of Jesus and they believed in our Prophet [when he came]. So We gave those of them who believed, in him, their reward; but many of them are immoral. (Tafseer Jilalayan)
<<کتابت حدیث>>
اسلام کیا ہے؟ دین کیا ہے؟
اگرہم پر یہ واضح ہوجایے تو موضوع سمجھنے میں آسانی ہو گی.
لفظ اسلام لغوی اعتبار سے ‘سلم’ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی اطاعت اور امن ، دونوں کے ہوتے ہیں۔یعنی اللہ کی مکمل اطاعت سے امن و سلامتی میں داخل ہونا- یہی تمام انبیاء کا مذھب تھا- اسلام میں ایمان کے چھ ارکان ہیں:-
- اللہ پرایمان
- الغیب ، فرشتوں پرایمان
- الہامی کتب پرایمان
- رسولوں پرایمان
- یوم آخرت پرایمان
- تقدیر پرایمان
اسلام کے پانچ بنیادی ستون؛ شہادت (گواہی) نماز (صلاة) روزہ، زکات اور حج اب تبدیل نہیں ہو سکتے-
عربی میں دین کے معنی، اطاعت اور جزا کے ہیں۔
قرآن کریم میں دین، مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ۔ کبھی جزا اور حساب کے معنی میں تو کبھی قانون و شریعت اور کبھی اطاعت اور بندگی کے معنی میں۔
دین مکمل ہو گیا، ایمان اور اسلام کی بنیاد مکمل ہے اب ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی-
بنی نوع انسان کے لینے تا قیامت جتنی ہدایت کی ضرورت تھی وہ اللہ نے قران اور رسولﷺ کے زریعے مہیا کر دی، انسان کوئی روبوٹ یا مشین نہیں، اللہ تعالیٰ نے اس کو عقل سے بھی نوازا ہے- دی گیئ ہدایت اور اصولوں کی روشنی میں عقل کو استمال کر کہ وہ ہر طرح کے دینی و دنیاوی مسائل کا حل معلوم کر سکتا ہے- یہی اس کا امتحان ہے ورنہ اللہ چاہتا تو سب کو ایک ہی دین پر ایک امت بنا دیتا پھر امتحان اور سزا و جزاء کا کیا مقصد؟ اسی لیے اللہ کریم نے لوگوں کو نزول وہی کے دوران فضول سوالات اور زیادہ تفصیلات پوچھنے کی بجایے ان سے منع فرما دیا(قران ٤٨,5:١٠١،١٠٢) اور بار بار ایمان اور عمل صالح کی تاکید ہے.(قرآن ٦٧:٢)
نجات کے لیے ایمان، عمل صالح، حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین بنیادی شرط ہیں:
وَالْعَصْرِ ﴿١﴾ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ ﴿٢﴾ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴿٣﴾
زمانے کی قسم (1) انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے (2) سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے (العصر 3)
ایمان کے چھ بنیادی ارکان کا اوپرذکر کیا گیا – ایک حدیث میں ہے کہ جبرائیل فرشتہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا:تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، روز قیامت پر اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لاؤ (صحیح مسلم)۔ نیز مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانا جیسا کہ ایمان مفصل میں ہے آمنت باللہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الاآخر والقدر خیر وشرہ من اللہ اللہ تعالیٰ والبعث بعد الموت۔
دینی اور دنیاوی معاملات اور رہنما اصول بھی قرآن و سنت سے واضح کر دیے گنے مگر کیونکہ اسلام تمام انسانیت کے لیے قیامت تک آخری دین ہے اس لیے حالات اورتبدیلی وقت کے ساتھ ساتھ نئی ضروریات کے لیے رہنمائی کے لیے اجتہاد کا طریقه تا قیامت موجود ہے-
علماء نے اسلامی تعلیمات کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے:
عقائد، علم اخلاق ، فقہ- عقائد تو مکمل ہو گیے باقی دو کو قرآن اور سنت کے رہنما اصولوں کے مطابق نافذ عمل کیا جاتا ہے-
اگرچہ اسلام تمام دینی اور دنیاوی معا ملات میں رہنمائی مہیا کرتا ہے مگر مختلف معاشرتی، تہذیبی اور دنیاوی معاملات میں موقع اور حالات کے مطابق قرآن و سنت کے رہنما اصولوں کی روشنی میں علماء ہدایات حاصل کر سکتے ہیں- بہت سے دنیاوی معاملات جن کا لوکل کلچر، ثقافت، تہوا، رواج، رسمیں اور سا ینس کی ایجادات، استعمال کی اشیا سے سے ہے ان کو خواہ مخواہ مذھب سے جوڑنے اور حلال حرام کے فتوے دینے سے اجتناب اور احتیاط کی ضرورت ہے- مگر ایسے رسم و رواج، تہوار اور ثقافتی اقدار جو اسلام مخالف مشرکانہ اور کافرانہ ورثہ ہو اس کو مکمل طور پر رد کرنا ہو گا-
ایران، ترکی اور وسطی ایشیا کی ریاستوں میں “نو روز” کا تہوار، انڈیا میں بیساکھی، بسنت وغیرہ بہار اور موسم کی تبدیلی کے ساتھ منائے جاتے ہیں ،ایسے تہواروں کے ساتھ کوئی مشرکانہ، غیر اسلامی رسوم ہیں تو قابل اعتراض ہے- اس طرح شادی بیاہ ، پیدائش اور وفات پر اسلامی طرز عمل ہی درست ہے- مگر بہت سی خرافات ابھی باقی ہیں جن کو اسلامی رنگ دینے کی کوشش کی جاتی ہے- مقامی ثقافت اورعرب ثقافت میں فرق رکھتے ہوۓ اسلامی اقدار پر توجہ کی ضرورت ہے- مشینی انداز میں ہرعرب رواج کو اسلا می قرار دے کر مقامی ثقافت پر بلا جواز تنقید نا مناسب ہو گی-
سو سال قبل جب لا وڈ سپیکر بنا تو حرام قرار پایا پھر حلال- کوئی ایجاد درست یا غلط استمال ہو سکتی ہے،غلط استمال ممنوع ہو نہ کہ ایجادات-
اسلامی کلچر پر عرب کلچر کی چھاپ ہے کیوں کہ رسول اللہﷺ عرب تھے اور ان کے فوری، براہ راست، پہلے مخاطب عرب لوگ تھے- مگر مسلمان ایک امت ہوتے ہوے بھی اپنے علاقائی کلچر اور روایت کو اسلامی اخلاقی اصولوں کے دائرے کے اندر رہ کر زندگی گزار سکتے ہیں- زبان، لباس، خوراک وغیرہ ہر علاقه کی مختف ہے مگر سب مسلمان صرف حلال جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں، پکوان مختف ہیں- اسی طرح دوسرے کلچرل، سوشل معاملات- مگر نماز اور عبادات ایک ہیں-
بالکل درست ہے کہ اسلام مکمل دین ہے. انسانی زندگی کے بیشمار شعبے ہیں، انجینرنگ، میڈیکل، دفاع، سوشل سائنسز، بزنس، فزکس، کیمسٹری، وغیرہ وغیرہ. ہر شعبے کے ماہرین ہیں جو سالہا سال مخصوص تعلیم و تجربہ کے بعد ایکسپرٹ بنتے ہیں. کوئی مذہبی عالم صرف مذہبی تعلیم کی وجہ سے خود بخود ان شعبوں میں ایکسپرٹ نہیں ہو جاتا.
دنیاوی علوم دینی علوم الگ ہیں. ہاں اگرکوئی دینی عالم میڈیکل کی تعلیم بھی حاصل کرلے تو سرجن بن کر آپریشن کر سکتا ہے. علماء تمام لوگوں کی دینی رہنمائی کرکے ان کو اچھا مسلمان بننے میں مدد کریں نہ کہ خود ہی ہر معاملہ میں دین کے نام سے دخل اندازی کو اپنا حق سمجھیں.
اسلام وسیع ہے، اسلام مسلمان کی زندگی میں ہے سیاست میں بھی. ایک اچھا مسلمان ,اچھا سیاست دان, اچھا ڈاکٹر، اچھا انجنیئر ہو گا تو سارا معاشرہ اچھا ہو جائے گا. رسول اللهﷺ نے جب مدینه میں زراعت پر مشورہ دیا، پھر جب کھجور کی فصل میں کمی ہو گیی تو فرمایا کہ ایسے “دنیاوی معاملات” میں اپنے مروجہ طریقه پر چلو (حدیث مسلم، اوپر بیان) . اس وقع میں اہل عقل کے لئے واضح سبق ہے-
اسلام میں نرمی ہے، آسانی ہے، سختی نہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّـهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ ﴿١٠١﴾ قَدْ سَأَلَهَا قَوْمٌ مِّن قَبْلِكُمْ ثُمَّ أَصْبَحُوا بِهَا كَافِرِينَ ﴿١٠٢﴾
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں، لیکن اگر تم انہیں ایسے وقت پوچھو گے جب کہ قرآن نازل ہو رہا ہو تو وہ تم پر کھول دی جائیں گی اب تک جو کچھ تم نے کیا اُسے اللہ نے معاف کر دیا، وہ درگزر کرنے والا اور برد بار ہے تم سے پہلے ایک گروہ نے اِسی قسم کے سوالات کیے تھے، پھر وہ لوگ انہی باتوں کی وجہ سے کفر میں مبتلا ہوگئے (5:101,102)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض لوگ عجیب عجیب قسم کے فضول سوالات کیا کرتے تھے بعض لوگ احکامِ شرع میں غیر ضروری پُوچھ گچھ کیا کرتے تھے ، اور خواہ مخواہ پُوچھ پُوچھ کر ایسی چیزوں کا تعیّن کیا کرا نا چاہتے تھے جنہیں شارع نے مصلحتاً غیر معیّن رکھا ہے۔ مثلاً قرآن میں مُجملاً یہ حکم دیا گیا تھا کہ حج تم پر فرض کیا گیا ہے۔ ایک صاحب نے حکم سُنتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا” کیا ہر سال فرض کیا گیا ہے؟“ آپ ؐ نے کچھ جواب نہ دیا ۔ اُنہوں نے پھر پُوچھا۔ آپ ؐ پھر خاموش ہوگئے۔ تیسری مرتبہ پُوچھنے پر آپ ؐ نے فرمایا”تم پر افسوس ہے ۔ اگر میری زبان سے ہاں نِکل جائے تو حج ہر سال فرض قرار پائے۔ پھر تم ہی لوگ اس کی پیروی نہ کر سکو گے اور نا فرمانی کرنے لگو گے“۔ ایسے ہی لا یعنی اور غیر ضروری سوالات سے اس آیت میں منع کیا گیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی لوگوں کو کثرتِ سوال سے اور خواہ مخواہ ہر بات کی کھوج لگانے سے منع فرماتے رہے تھے۔ چنانچہ حدیث میں ہے:
ان اعظم المسلمین فی المسلمین جرما من سأل عن شیٔ لم یحرم علی الناس فحرم من اجل مسألتہ۔
” مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا مجرم وہ شخص ہے جس نے کسی ایسی چیز کے متعلق سوال چھیڑا جو لوگوں پر حرام نہ کی گئی تھی اور پھر محض اس کے سوال چھیڑنے کی بدولت وہ چیز حرام ٹھیرائی گئی“۔
ایک دُوسری حدیث میں ہے:
ان اللہ فرض فرائض فلا تضیْعوھا و حرم حرمَات فلا تنتھکو ھا وحَدّ حُدُوْداً فلا تعتدُوْھَا وسَکتَ عَنْ اشیَا ء من غیر نسیان فلا تبحثو ا عنھا۔
” اللہ نے کچھ فرائض تم پر عائد کیے ہیں ، انہیں ضائع نہ کرو ۔ کچھ چیزوں کو حرام کیا ہے ان کے پاس نہ پھٹکو۔ کچھ حُدُود مقرر کی ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو۔ اور کچھ چیزوں کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے بغیر اس کے کہ اُسے بھُول لاحق ہوئی ہو، لہٰذا ان کی کھوج نہ لگاؤ“۔
ان دونوں حدیثوں میں ایک اہم حقیقت پر متنبّہ کیا گیا ہے ۔ جن اُمُور کو شارع نے مجملاً بیان کیا ہے اور ان کی تفصیل نہیں بتائی، یا جو احکام برسبیلِ اجمال دیے ہیں اور مقدار یا تعداد یا دُوسرے تعیّنات کا ذکر نہیں کیا ہے ، ان میں اجمال اور عدمِ تفصیل کی وجہ یہ نہیں ہے کہ شارع سے بھُول ہو گئی، تفصیلات بتانی چاہیے تھیں مگر نہ بتائیں، بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ شارع ان امور کی تفصیلات کو محدُود نہیں کرنا چاہتا اور احکام میں لوگوں کے لیے وسعت رکھنا چاہتا ہے۔ اب جو شخص خواہ مخواہ سوال پر سوال نکال کر تفصیلات اور تعینات اور تقیدات بڑھانے کی کوشش کرتا ہے ، اور اگر شارع کے کلام سے یہ چیزیں کسی طرح نہیں نکلتیں تو قیاس سے ، اِستنباط سے کِسی نہ کسی طرح مجمل کو مفصّل، مطلَق کو مقَیَّد، غیر معیّن کو معیّن بنا کر ہی چھوڑتا ہے ، وہ درحقیقت مسلمانوں کو بڑے خطرے میں ڈالتا ہے ۔ اس لیے کہ ما بعد الطبیعی اُمُور میں جتنی تفصیلات زیادہ ہوں گی، ایمان لانے والے کے لیے اتنے ہی زیادہ اُلجھن کے مواقع بڑھیں گے، اور احکام میں جتنی قیُود زیادہ ہوں گی پَیروی کرنے والے کے لیے خلاف ورزی ِ حکم کے امکانات بھی اسی قدر زیادہ ہوں گے۔ (تفہیم القرآن )
عقل ، حکمت و دانش:
اس سے زیر ہوتا ہے کہ اجتہاد کا راستہ چھوڑا گیا مگر عقل کو قرآن و سنت کی روشنی میں استمال کرنا چاہیے-
یقیناً اللہ کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (8:22)
جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی، اُسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی اِن باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں، جو دانشمند ہیں (2:269)
اس طرح ہم نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو سوچنے سمجھنے والے ہیں (10:24)
تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً خدا سُننے والا اور جاننے والا ہے (8:42)
يُرِيدُ اللَّـهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ
اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا (2:185)
يُرِيدُ اللَّـهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ
اللہ تم پر زندگی کو تنگ نہیں کرنا چاہتا، (5:6)
وَأَمَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَاءً الْحُسْنَىٰ ۖ وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنَا يُسْرًا ﴿٨٨﴾
اور جو ایمان لائے گا اور عمل نیک کرے گا اس کے لئے بہت اچھا بدلہ ہے۔ اور ہم اپنے معاملے میں (اس پر کسی طرح کی سختی نہیں کریں گے بلکہ) اس سے نرم بات کہیں گے (12:88)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایابے شک (اسلام) دین آسان ہے اور دین میں جو کوئی سختی کرے گا تو دین اس پر غالب آئے گا اس لئے بیچ بیچ کی چال چلو اور (افضل کام نہ کرسکو تو) اس کے نزدیک رہو اور ثواب کی امید رکھ کر خوش رہو اور صبح کی چہل قدمی اور شام کی چہل قدمی اور رات کی کچھ چہل قدمی سے مدد لو۔ (بخاری، کتاب ایمان ،جلد اول ،حدیث: 38)
اقوال رسول ﷺ
قرآن اور کچھ روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کلام بھی شرع بیان کرنے کے لیے کیا ہے وہ حق ہے، حجت ہے، وحی ہے اور قابل اتباع ہے۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ آپ کا ہر قول کسی شرعی حکم کو بیان کرنے کے لیے نہیں ہوتا تھا۔ بعض اوقات آپ ہماری طرح دنیاوی اُمور میں بھی گفتگو کرتے تھے اور آپ کایہ کلام کسی شرعی حکم کے استنباط کے لیے مصدر کی حیثیت نہیں رکھتا ہے ۔الدکتور عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں :
وأقوال النبی نما تکون مصدرا للتشریع، اذا کان المقصود بھا بیان الأحکام أو تشریعھا، أما ذا کانت فی أمور دنیویة بحتہ لا علاقة لھا بالتشریع، ولا مبنیة علی الوحی، فلا تکون دلیلا من أدلة الأحکام، و لا مصدرا تستنبط منہ الأحکام الشرعیة، و لا یلزم اتباعھا، ومن ذلک ما روی: أنہ علیہ السلام رأی قوما فی المدینة یؤبرون النخل،فأشار علیھم بترکہ، ففسد الثمر،فقال لھم: ((اَبِّرُوْا’ اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُوْرِ دُنْیَاکُمْ)) (٢٣)
”اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال صرف اُس وقت مصدرِ شریعت ہوں گے جب ان سے آپ کامقصود احکامِ شرعیہ کو بیان کرنا ہو۔لیکن اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دنیاوی امور کے بارے میں کچھ گفتگوایسی فرمائی جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہ ہو تو آپ کا ایسا کلام احکامِ شرعیہ کے لیے کوئی دلیل نہیں بنے گا اور نہ ہی وہ مصدر شریعت ہو گاکہ جس سے احکام نکالے جائیں،اور نہ ہی آپ کے ایسے اقوال کی پیروی لازمی ہے ۔اس کی ایک مثال یہ روایت ہے کہ آپ نے مدینہ کے بعض لوگوں کو دیکھا کہ وہ نر کھجور کے ساتھ مادہ کھجور کی پیوند کاری کرتے تھے ۔آپ نے لوگوں کو ایسا کرنے سے اشارتاً منع کر دیا جس کہ وجہ سے اگلی فصل کم ہوئی تو آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ :”پیوند کاری کرو ،کیونکہ دنیاوی امور کو تم زیادہ بہتر جانتے ہو”۔
اس موضوع پر کہ ”آپ کا ہر قول ہمارے لیے شریعت نہیں ہے ” شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتاب ‘ حجة اللہ البالغة’ میں ‘ المبحث السابع: مبحث استنباط الشرائع من حدیث النبی’ کے تحت مختصر لیکن بہت عمدہ بحث کی ہے ۔ شاہ صاحب کے نزدیک آپ کے وہ اقوال جو تبلیغِ رسالت کے باب سے نہیں ہیں(یعنی دنیاوی امور سے متعلق ہیں) ، بعض حضرات کے مناقب سے متعلق اقوال،طب سے متعلق بعض اقوال ،آپ کے دور میں کسی جزئی مصلحت کے حصول کے لیے آپ کے جاری کردہ احکامات،آپ کے عادی امور، آپ کے فیصلے(یعنی قضاء) اور آپ کے بعض احکامات کا آپ کی قوم کے بعض لوگوں کے لیے خاص ہوناوغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔
شاہ صاحب نے اس موقف کی دلیل کے طور پرکہ آپ کاہر قول ہمارے لیے شریعت نہیں ہے، ایک حدیث کو بیان کیا ہے۔حضرت خارجہ بن زید بن ثابت سے روایت ہے :
دَخَلَ نَفَر عَلٰی زَیْدٍ بْنِ ثَابِتٍ فَقَالُوْا حَدِّثْنَا بَعْضَ حَدِیْثِ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَقَالَ وَمَا أُحَدِّثُکُمْ؟ کُنْتُ جَارُہ فَکَانَ ِذَا نَزَلَ الْوَحْیُ أَرْسَلَ ِلَیَّ فَکَتَبْتُ الْوَحْیَ وَکَانَ ِذَا ذَکَرْنَا الْآخِرَةَ ذَکَرَھَا مَعَنَا وَذَا ذَکَرْنَا الدُّنْیَا ذَکَرَھَا مَعَنَا وَذَا ذَکَرْنَا الطَّعَامَ ذَکَرَھُ مَعَنَا’ فَکُلُّ ھٰذَا أُحَدِّثُکُمْ عَنْہُ؟ (٢٤)
”اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال صرف اُس وقت مصدرِ شریعت ہوں گے جب ان سے آپ کامقصود احکامِ شرعیہ کو بیان کرنا ہو۔لیکن اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دنیاوی امور کے بارے میں کچھ گفتگو ایسی فرمائی جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہ ہو تو آپ کا ایسا کلام احکامِ شرعیہ کے لیے کوئی دلیل نہیں بنے گا اور نہ ہی وہ مصدر شریعت ہو گاکہ جس سے احکام نکالے جائیں، اور نہ ہی آپ کے ایسے اقوال کی پیروی لازمی ہے ۔اس کی ایک مثال یہ روایت ہے کہ آپ نے مدینہ کے بعض لوگوں کو دیکھا کہ وہ نر کھجور کے ساتھ مادہ کھجور کی پیوند کاری کرتے تھے ۔آپ نے لوگوں کو ایسا کرنے سے اشارتاً منع کر دیا جس کہ وجہ سے اگلی فصل کم ہوئی تو آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ :”پیوند کاری کرو ،کیونکہ دنیاوی امور کو تم زیادہ بہتر جانتے ہو”۔
امام ہیثمی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ‘حسن’ کہا ہے۔(٢٥)امام ابن حجررحمہ اللہ نے اس روایت کو’حسن’ کہا ہے۔(٢٦) حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت سے حجت پکڑی ہے ۔جبکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ‘ضعیف ‘کہا ہے(٢٧)۔
‘سنن البیہقی’ کی ایک روایت میں ‘أَوَکُلَّ ھٰذَا نُحَدِّثُکُمْ عَنْہُ’؟ کے الفاظ بھی ہیں ۔ بعض مسلمانوں کا خیال یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قول پر عمل ضروری ہے ۔ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ قرآن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا اور آپ کی اطاعت اُمت پر لازم ہے،لہٰذا جہاں بھی آپ کا کوئی قول آ جائے، چاہے وہ دنیا سے متعلق ہو یا دین سے ، تو اس پر عمل کرنا لازم ہو گا،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال آپ کی اطاعت میں داخل ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا اور آپ کی اطاعت ہر اُمتی پر فرض ہےلیکن کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ہر قول یا ہر ہر بات، چاہے وہ دین سے متعلق ہو یا دنیا سے ، اطاعت کی تعریف میں داخل ہے ؟ اگر کوئی شخص ایسا سمجھتا ہے تو یہ موقف درست نہیں ہے۔(لنک تفصیل )
صحابہ کرام نے رسول اللہﷺ کے احکام کے الفاظ پر ایک ہی وقت میں دو طریقوں سے، الفاظ کے ظاہری مطلب اور کچھ نے (implied meanings) الفاظ کی روح پر عمل کیا اور دونوں درست قرار پا ینے:
غزوہ بنی قریظہ کے موقع پر جب صحابہ کرام نے عصر کی نماز کے سلسلے میں اجتہاد کیا تھا جب کہ آپﷺ کا حکم تھا:
“لَايُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّافِي بَنِي قُرَيْظَةَ” (بخاری، كِتَاب الْجُمُعَةِ، بَاب صَلَاةِ الطَّالِبِ وَالْمَطْلُوبِ رَاكِبًا وَإِيمَاءً:۲/۵۹۱)
ترجمہ – تم میں سے کوئی شحص نماز نہ پڑھے مگربنی قریظہ میں جاکر؛
چنانچہ بعض صحابہ نے آپﷺ کے الفاظ کو بعین ہی حقیقت پر محمول کیا اور انھوں نے مغرب کی نماز کوموخر کیا اور بنوقریظہ پہنچ کر نماز ادا کی، جب کہ دوسرے بعض صحابہ نے الفاظ کی اصل روح (spirit) کو لیا اور یہ سمجھا کہ اس حکم سے مراد جلدی جانے پر ابھارنا ہے توانھوں نے راستہ ہی میں وقت پر نماز پڑھ لی، جب حضورﷺ کودونوں فریقوں کے اجتہاد کا پتہ چلا توآپﷺ نے خاموشی اختیار کی اور کسی پر نکیر نہیں کی۔ (السنۃ ومکانتھا فی الاسلام:۴۷)
جمہور مسلمین اجتہاد کی حجیت کے قائل ہیں، اجتہاد کی حجیت کتاب و سنت سے ثابت ہے:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم ۖ فَإِن تَنٰزَعتُم فى شَيءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ۚ ذٰلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا(سورۃالنساء:59)
اے ایمان والو! حکم مانو اللہ (تعالٰیٰ) کا اور حکم مانو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اور اولولاَمر کا جو تم میں سے ہوں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اسے “لوٹاؤ” اللہ (تعالیٰ) اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف، اگر تم ایمان (ویقین) رکھتے ہو اللہ پر، اور قیامت کے دن پر، یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام. (سورۃالنساء:59)
اس آیت میں ادلہ اربعہ (چاروں دلیلوں) کی طرف اشارہ ہے: اَطِيْعُوا اللّٰهَ سے مراد “قرآن” ہے، اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ سے مراد “سنّت” ہے، اور اُولِي الْاَمْرِ سے مراد “علماء و فقہاء” ہیں، ان میں اگر اختلاف و تنازع نہ ہو بلکہ اتفاق ہوجاتے تو اسے “اجماع_فقہاء” کہتے ہیں.(یعنی اجماع_فقہاء کو بھی مانو). اور اگر ان اُولِي الْاَمْرِ(علماء و فقہاء) میں اختلاف ہو تو ہر ایک مجتہد عالم کا اپنی راۓ سے اجتہاد کرتے اس نئے غیر واضح اختلافی مسئلے کا قرآن و سنّت کی طرف “لوٹانا” اور استنباط کرنا “اجتہاد شرعی” یا “قیاس مجتہد” کہتے ہیں.
اجتہاد رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں آپ کی ھدایت پر شروع ہوا جب حضرت معا ذ بن جبل کوذمہ داری کے ساتھ یمن بھیجا گیا:-
عن معاذ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لما بعث معاذا الی الیمن قال لہ : کیف تقضی اذا عرض لک قضاء؟ قال : اقضی بکتاب اللہ ، قال : فان لم تجدہ فی کتاب اللہ ، قال : اقضی بسنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : ” فان لم تجدہ فی سنة رسول اللہ ، قال : اجتھد برائی لاآلو ، قال : فضرب بیدہ فی صدری وقال : ” الحمد للہ الذی وفق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لما یرضی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( السنن الکبری للبیہقی 114/10 )
” حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو یمن کی طرف ( گورنر بنا کر ) بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ جب تمہارے سامنے کوئی معاملہ فیصلہ کے لئے پیش ہو گا تو تم اس کا فیصلہ کس طرح کرو گے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ حضور! میں اس کا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کروں گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا : اگر تم اسے کتاب اللہ میں نہ پاؤ ؟ انہوں نے جواب دیا کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فیصلہ کروں گا ، آپ نے پھر دریافت فرمایا : اگر تم اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں بھی نہ پا سکو ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اس وقت میں اجتہاد ( بھرپور کوشش ) کروں گا اور سستی نہیں کروں گا ۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ( میرا جواب سن کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا اور فرمایا تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہےں کہ اس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو ایسی چیز کی توفیق بخشی جس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہیں ۔
تاریخ گواہ ہے کہ صحابہ اکرام رضی اللہ نے جہاں ضرورت محسوس کی قرآن ع سنت سے رہنمائی سے اجتہاد کیا- حضرت عمر رضی اللہ کے اجتہادات سب جانتے ہیں- اسلام کے اصول سدا بہار ہیں-
- اگر قرآن و سنّت میں “نئے پیش آمدہ” مسائل کا “واضح و مفصل” حل نہ ملے ،تو فقہ_دین (قرآن 9:122) کا انکار کرنے-والے حضرات کا دعویٰ“قرآن وحدیث بس” صحیح نہیں.
- اجتہاد تب کیا جائیگا جب اس نۓ مسلے/واقعہ کا واضح جواب قرآن-و-سنّت میں نہ ہو
- اجتہاد کا کرنے کا “اہل” ہر عامی(عام شخص) نہیں، بلکہ کوئی علمی-شخصیت کسی کے دینی علمی سمجھ میں گہرائی اور مہارت پرکھ لینے کے بعد تائیدی اجازت دے. چنانچہ اس سے مراد وہ حاکم ہے جو عالم ہو حکم دینے کے لائق ہو اور جاہل کا حکم دینا درست نہیں، اگر وہ حکم کرے گا تو گناہگار ہوگا
- شرعی فیصلہ/فتویٰ دینے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے قرآن سے فیصلہ کیا جائیگا، نہ کے سنّت یا قیاس سے. قرآن کے بعد سنّت سے پھر قیاس سے.
امت مسلمہ غیر ضروری باتوں اور تفرقہ بازی میں اپنا قیمتی وقت اور <<عمر ضائع>> کردیتے ہیں–
بدعت کیا ہے؟
’بدعت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جو ’’بَدَعَ‘‘ سے مشتق ہے۔ اس کا معنی ہے : کسی سابقہ مادہ، اَصل، مثال، نمونہ یا وجود کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا؛ یعنی کسی شے کو عدمِ محض سے وجود میں لانے کو عربی زبان میں ’’اِبداع‘‘ کہتے ہیں۔
بدعت بنیادی طور پر عربی لفظ “بدعۃ” سے ماخوذ ہے جو کہ “بَدَعَ” سے مشتق ہے جس کے معنی وجود میں لانا یا وقوع پذیر ہونا کے ہیں۔ کسی شے کے عدم سے وجود میں آنے کو بدعت کہتے ہیں۔ اس طرح بدعت کرنے والے فاعل کو مبتدع یا بدعتی اور عربی میں “بَدِيع” کہا جاتا ہے۔ لغوی اصطلاح میں بدعت کسی مفعول کے عدم سے وجود میں آنے اور مبتدع اُسے وجود میں لانے والے فاعل کیلئے استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ (قرآن ٢:١١٧)
ترجمہ: (وہی اللہ) موجد (نیا پیدا کرنے والا) ہے آسمانوں اور زمین کا
اس آیتِ میں اللہ نے آسمانوں اور زمین کے وجود میں آنے کا بیان کرتے ہوئے اپنی ذات کو آسمانوں اور زمین کا بدیع یعنی مبدع (وجود میں لانے والا) کہا۔ اسی وجہ سے اللہ کا ایک صفاتی نام “البَدِيع” یعنی مبتدع(وجود میں لانے والا) بھی ہے۔
شرعی اصطلاح میں بدعت کا حکم ہر اُس فعل یا مفعول کیلئے استعمال ہوتا ہے جسکا وجود قرآن و سنت کی نص سے ثابت نہ ہو اور وہ مابعد قرآن و سنت ظاہر ہو۔
مَنْ سَنَّ فِيْ الْاِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ کُتِبَ لَهُ مِثْلُ اَجْرٍ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلاَ يَنْقُصُ مِنْ اُجُوْرِهِمْ شَيْئٌ وَ مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ کُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرٍ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلاَ يَنْقُصُ مِنْ اَوْزَارِهِمْ شَيْئٌ.
‘‘جس شخص نے مسلمانوں میں کسی ‘‘نیک طریقہ ’’ کی ابتدا کی اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کمی نہیں ہو گی، اور جس شخص نے مسلمانوں میں کسی برے طریقے کی ابتداء کی اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اس شخص کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔’’
…https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?tarqeem=1&bookid=2&hadith_number=6800
مسلم، الصحيح، کتاب الزکوٰة، باب الحث علی الصدقه، 2 : 705، رقم : 1017 نسائی، السنن، کتاب الزکاة، باب التحريض علی الصدقه، 5 : 55، 56، رقم : 2554 ابن ماجه، السنن، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، 1 : 74، رقم : 203 احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357.359 دارمی، السنن، 1 : 141، رقم : 514 ابن ابی شيبه، المصنف، 2 : 350، رقم : 9803 بيهقی، السنن الکبریٰ، 4 : 175، رقم : 7531
ابو داؤد، السنن، کتاب السنة، باب لزوم السنة، 4 : 201، رقم : 4609
ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 1 : 75، رقم : 206
ابن حبان، الصحيح باب ذکر الحکم فيمن دعا إلی هدی او ضلالة فاتبع عليه، 1 : 318، رقم : 112
دارمی، السنن، 1 : 141، رقم : 513
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 397، رقم : 9149
أبو عوانة، المسند، 3 : 494، رقم : 5823
السواد الاعظم عربی زبان میں “عظیم-ترین (بڑی) جماعت” کو کہتے ہیں. [الصحاح للجوهري:١/٤٨٩] حدیث پاک میں اس کا ذکر:
عن ابن عمر قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : لا یجمع اللّٰہ ھذہ الأمۃ علی الضلالۃ ابدا. وقال ید اللّٰہ علی الجماعۃ. فإذا شذ الشاذ منھم إختطفتہ الشیاطین۱. فاذا رأیتم إختلافا.۲فاتبعوا السواد الأعظم، فإنہ من شذ، شذ فی النار.(مستدر ک،کتاب العلم(ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ میری امت کو کبھی ضلالت پر جمع نہیں کرے گا۔اور آپ نے فرمایا:نظم اجتماعی پر اللہ کا ہاتھ ہے۔تو جو اس سے الگ ہوا،شیاطین اسے اچک لے جائیں گے۔چنانچہ،جب تم (اس میں) اختلاف پاؤ تو (اس کے ساتھ وابستہ رہنے کے لیے) سوادا عظم کی رائے کی پیروی کرو، اس لیے کہ جو الجماعۃ سے الگ ہوا،وہ دوزخ میں پڑا۔رہبانیت سنت کو بدلنے کی وجہ سے حرام قرار پائی۔ ذیل کی حدیث ملاحظہ فرمائیے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَة أَنَّ رَسُوْل اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ دَعَا إِلَی هُدًی، کَانَ لَهُ مِنَ الأجْرِ مِثْلَ أُجُوْرِ مَنْ يَتَّبِعُهُ، لَا يُنْقِصُ ذَلِکَ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْئًا. وَمَنْ دَعَا إِلَی ضَلَالَةٍ، کَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ يَتَّبِعُهُ، لَا يُنْقِصُ ذَلِکَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا.
‘‘حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے ہدایت کی طرف بلایا اس کے لئے اس راستے پر چلنے والوں کی مثل ثواب ہے اور ان کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہ ہوگا اور جس نے گناہ کی دعوت دی اس کے لئے بھی اتنا گناہ ہے جتنا اس بد عملی کا مرتکب ہونے والوں پر ہے اور ان کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔’
حضرت انس رضی الله عنہ، رسول الله صلے الله علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ”میری امت کسی گمراہی پر جمع (متفق) نہیں ہوگی بس جب تم (لوگوں میں) اختلاف دیکھو تو سواد اعظم (بڑی-جماعت) کو لازم پکڑلو(یعنی اس کی اتباع کرو)” [سنن ابن_ماجہ: کتاب الفتن، باب السواد الاعظم]
دوسری روایت میں حضرت ابن عمر(رضی الله عنہ) سے حدیث میں ہے = کہ…بس تم سواد اعظم کا اتباع (پیروی) کرو، کیونکہ جو شخص الگ راستہ اختیار کریگا جہنم میں جا رہیگا.[مستدرک حاکم: کتاب العلم، ١/١١٥]
صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح
-
ایک صحابی نے عزم کیا کہ وہ پوری زندگی کبھی شادی نہیں کرے گا۔
-
دوسرے صحابی نے عزم کیا کہ کہ وہ پوری زندگی کبھی سوئے گا نہیں (بلکہ ساری رات عبادت کرے گا)۔
-
تیسرے صحابی نے عزم کیا کہ وہ تمام زندگی بلا ناغہ روزے رکھے گا۔
اس حدیث پر مزید تبصرہ کرنے سے قبل بہتر ہے کہ اس سلسلے سے متعلق کچھ بنیادی باتیں سمجھی جائیں، کہ جن کو نظر انداز کر دینے سے ہم کبھی صحیح نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔
واضح رہے کہ یہاں کسی فرقہ یا فقہ کی تنقید ، مخالفت یا حمایت نہیں- کوئی ہاتھ با ندھ کر نماز پڑھنے یا کھلے چھوڑ کر، رفع یدین کرے یا نہ کرے، آمین زور سے کہے یا دل میں کہے یہ اس کا اور اللہ کا معاملہ ہے-
-
پہلے صحابی نے کہا کہ وہ ساری عمر شادی نہیں کرے گا (یہ حرام اس لیے ہوا کیونکہ یہ رہبانیت کی حد آ گئی تھی، جبکہ رسول ﷺ کی ایک سنت شادی کر کے مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ کرنا بھی ہے)
-
دوسرے صحابی نے کہا کہ وہ ساری عمر رات کو سوئے گا نہیں (جبکہ رسول ﷺ کی سنت رات کو سونا بھی تھا اور ایسا کرنے سے رسول ﷺ کی یہ سنت ختم ہو رہی تھی)
-
تیسرے صحابی نے کہا کہ وہ ساری عمر بلا ناغہ روزے رکھے گا (جبکہ رسول ﷺ کی سنت کچھ دن ناغہ کرنے کی بھی تھی اور ایسا کرنے سے یہ سنت مکمل طور پر ختم ہو رہی تھی)۔
-
. پہلا یہ کہ عبادت کا یہ نیا عمل قران و سنتِ رسول کے کسی اصول کے خلاف نہ ہو۔
-
. اور دوسرا یہ کہ عبادت کا یہ نیا عمل رہبانیت کی اُس انتہا Extreme کی حد تک نہ ہو کہ جس کی وجہ سے رسول ﷺ کی کوئی سنت مکمل طور پر ختم ہو جائے۔
-
اور تیسری شرط اور بیان کر دی جائے، اور وہ یہ کہ رسول ﷺ نے نام لیکر کہا ہوتا کہ یہ کام اتنی مقدار میں ہی ہو سکتا ہے، تو پھر اُس معاملے میں اِس مقدار سے زیادہ کام نہیں ہو سکتا (مثلاً ظہر کی نماز نام لیکر رسول ﷺ نے چار رکعت مقرر کی ہے۔ اگر اس مقرر کردہ سنت میں (کہ جس کی تعداد رسول ﷺ نے خود مقرر کر دی ہے) زیادتی کی جائے، تو پھر دوبارہ یہ بدعت بن جائے گی۔
-
مگر نفل نماز کی تعداد نام لیکر مقرر نہیں کی گئی ہے۔ لہذا اس میں اجازت ہے کہ اگر رسول ﷺ شب بھر میں پچاس رکعات نماز ادا کرتے تھے تو آپ 100 رکعات نماز پڑھ سکتے ہیں۔
-
نفلی عبادات کو فرض بنانے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے- فرض ناقابل تبدیلی ہیں-
رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے دوران یہ تراویح فقط “تین” راتوں تک ادا فرمائی۔ حضرات یہ جواب دیں کہ انہیں یہ رمضان کی 30 راتوں والی تراویح کون سے قرآن یا حدیث میں ملتی ہے؟ (یاد رہے صحابہ کرام نے اپنے اجتہاد کے مطابق اس فعل کو 30 راتوں تک پھیلایا ہے، مگر کچھ حضرات کی ظاہر پرستی کی بیماری کے مطابق ایسے نئے افعال بدعت و ضلالت ہیں)۔
بدعت کا اِصطلاحی مفہوم مزید واضح کرتے ہوئے فقہاءِ اُمت اور ائمۂ حدیث نے اس کی مختلف تعریفات پیش کی ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
تراویح سے قبل اردو میں خلاصہ قرآن:
پڑھیں : قرآنِ مجید عربی میں کیوں نازل ہوا ؟ کیا قراآن سمجھ کر پڑھنا ضروری ہے؟
قران کی آیات اور تعلیمات کو سب تک پہچانا ہمارا فرض ہے:
حق یہ ہے کہ جو لوگ اُن احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں ناز ل کیے ہیں اور تھوڑے سے دُنیوی فائدوں پرا نہیں بھینٹ چڑھاتے ہیں، وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں قیامت کے روز اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا، نہ اُنہیں پاکیزہ ٹھیرائے گا، اور اُن کے لیے دردناک سزا ہے (2:174)
- ایمانِ مفصل و ایمانِ مجمل، چھ کلمے وغیرہ بعد کے ادوار کے بزرگان دین نے مرتب کئے اور آج بھی تعلیمات دین کا بنیادی جزو ہیں۔
- قرآن پاک پراعراب حجاج بن یوسف نے لگوا یے تاکہ ایک قرات سے درست قرآن پڑھا جایے-
- عید میلاد النبی، درود و سلام اور محافل نعت جو کہ باقاعدہ طور پر بعد ازاں جاری کی گئیں امت مسلمہ کے دلوں میں جذبہ محبت و عشق رسول موجزن رکھنے میں معاون ثابت ہوئیں۔ (غیر اسلامی خرافات اس کا حصہ نہیں )
- مرحومین کے ایصال ثواب کے لیے قرآن اور حمدونعت خوانی کا اہتمام، خاص طور پر، قل ، چالیسواں وغیرہ-
- مساجد میں محراب، گنبد اور محراب وغیرہ کا آغاز پہلی دفعہ فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں ہوا۔ یہ بدعت بھی تمام اسلامی ممالک میں آج تک مستعمل ہے۔
- تبلیغی جماعت کے اجتماعات، جو بہت اچھے مقصد حاصل کر رہے ہیں.
- حضرت عمر رضی اللہ نے نماز تراویح کا اجراء کیا، اور نہت دور رس اجتہاد کیے جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی – << ملاحظہ کریں >>>
- <<کتابت حدیث>>
بدعت – اَحاديث و اَقوالِ اَئمہ کی روشنی ميں -Bidah-2
ہر عمل کو اس ڈھب پر اور اس نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جاتا کہ یہ عمل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہوتا تھا یا نہیں اور بعد میں کب شروع ہوا بلکہ اس کو پرکھنے کے لئے ہمیں یہ اَمر ملحوظِ خاطر رکھنا ہو گا
- کچھ بدعات جو علماء نے مشہور کر رکھی ہیں درج ذیل ہیں- مگر بہت بڑی بدعت کا ذکر ہی نہیں … اگ مزید معلومات چائیں تو <<<وزٹ کریں>>
- تلاوت کی گئی اجر کے ساتھ میت کو فائدہ پہنچانے کی خاطر قرآن کی تلاوت کرنا۔ اس میں لوگوں کی خدمات حاصل کرکے یا رشتہ داروں کو مدعو کرکے ، گروہ کے طور پر قرآن پاک کی تلاوت کرنا ، تلاوت کے بعد کھانے پر پھونک پھینکنا ، اور اس کھانے کو کسی شخص کی برسی کے موقع پر لوگوں کے ساتھ بانٹنا شامل ہے۔
- ہر سلام کے اختتام پر گروپ دعا کرنا۔
- ہر سلام کے اختتام پر کلمی iو اخلاص کا گروپی نعرہ لگانا۔ (سنت اللہ اکبر ، استغفر اللہ x 3 ، اور دوسرے مسنون دعا ، ، بشمول کلمہ ذاتی طور پر کہنا ہے)
- نماز جنازہ کے فورا بعد اجتماعی دعوے کرنا۔
- نماز جمعہ کے فردوس سے پہلے چار رکعت پڑھنا۔
- میلاد منانا (یوم پیدائش رسول)
- نوزائیدہ کے بائیں کان میں اقامت کہنا۔ (سنت اکیلے دائیں کان میں اذان کہنا ہے)
- شب بابرات منانا (شعبان کی 15 تاریخ)
- رات چڑھائی (مئی راج) (27 رجب) کو منانا
- 3 ، 10 ، 40 ویں اور سوگوار کی سالانہ یوم وفات پر سوگ
- پتھر ، کنکر یا پسند پر تسبیح (سبحان اللہ) ، تہلیل (لا الہٰ الاللہ اور تمحید (الحمد للہ) کرنا اور ایک گروپ میں ایسا کرنا۔
- جمعہ کے لئے کل تین خطبہ کر رہے ہیں۔ ایک اردو میں اور دو عربی میں۔
- اولیاء کرام کا عرس (سالانہ تہوار) منانا۔
- اولیاء کے نام پر جانوروں کو قربان کرنا۔
- مرنے والوں ، سنتوں ، یا اللہ کے سوا کسی اور سے دُعا یا دعا۔ (اس میں یا علی ، یا حسین اور پسند والے نعرے شامل ہیں)
- بچپن یا غیر مسلم ہونے کی حالت میں چھوٹ جانے والی قضا نمازیں پڑھنا۔
- خوش قسمت توجہ ، تعویذات ، اور soothsayers (najomis) میں یقین یا استعمال کرنا۔
- دعا کے ارادے سے اونچی آواز میں کہنا۔
- قبروں پر یادگار بنانا۔ ٹھوس قبریں بنانا (اینٹوں اور پتھروں سے)
- محرم کے پہلے دس دن تک نکاح کی تقریبات نہ ہونے سے یا شہدائے کربلا کے سوگ پر سوگ۔
- عید کی نماز سے قبل خطبہ کرنا۔
- عید کی نماز اس انداز سے پڑھنا جو احادیث میں نہیں ملتی۔
- یہ ماننا کہ اللہ ہر جگہ ہے۔ (قرآن مجید کی متعدد آیات اور حدیث کی روایتوں میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ اللہ اپنے تخت سے بالاتر ہے۔ ای جی ، سورہ طہ ، آیت 5)
- یہ ماننا کہ اللہ بے شبیہ ہے اور بے بنیاد اور / یا اس کی صفات سے کفر کرتا ہے۔ (قرآن و سنت میں ہمیں اللہ کی کچھ جسمانی صفات ملتی ہیں۔ وہ جسمانی صفات کسی ایسی چیز کی طرح نہیں ہیں جس سے ہم موازنہ کرسکیں اور ایسی بھی ہیں کہ اسی کے مطابق وہ اس پر سوٹ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن اور سنت سے ذکر اللہ کے ہاتھ ، آنکھیں، پنڈلی لیکن ان سب کا موازنہ کسی اور بھی چیز سے نہیں کیا جاسکتا جو پیدا کیا گیا ہے۔
- طریقت ، ابدال اور اس طرح کے صوفی طریقہ کار پر یقین کرنا۔
- نمازختم کرنے کے بعد بائیں اور دائیں بائیں سے ایک کے ساتھ مصافحہ کرنا۔
- آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام سن کر انگوٹھے چومنا
- اولیاء کرام کے مزارات کی زیارت کرنا۔
- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اونچی آواز میں اور ایک گروہ کی حیثیت سے ہر سلام کے بعد سلام بھیجنا ، خاص طور پر سلامت الجماعت کے بعد –
- وضو کرتے وقت گردن کی پشت پر ہاتھ مسح کرنا (وضو)۔
- اس کے بعد شہادت پڑھتے ہوئے اوپر کی طرف دیکھا اور آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ وضو کی تکمیل۔ (صرف شہادت پڑھنا سنت ہے)۔
- صلوٰت تسبیح پڑھتے ہوئے۔ (اس قسم کی دعا کے بارے میں کوئی مستند حدیث بات نہیں کرتی)
- عید کی نماز سے پہلے عید کے دن نوافل پڑھتے ہو۔
- یہ ماننا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد نبی یا رسول ہیں۔ (یہ کوئی مسلمان نہیں کرتا کفر پر اجماع ہے )
- یہ ماننا کہ اولیاء ، نبی ، یا دوسرے لوگ اللہ کی خصوصیات کا اشتراک کرتے ہیں یا اللہ کی طرف سے انھیں خصوصی آزاد اختیارات حاصل ہیں۔ جیسے کہ یہ ماننا کہ سنتیں زندگی دے سکتی ہیں ، یا یہ کہ وہ جنت اور زمین کے مادی خزانوں کی کنجی رکھتے ہیں۔ اس میں یہ یقین بھی شامل ہے کہ نبی اکرم (ص) کو غیب کا مکمل اور مطلق علم تھا۔
- یہ عقیدہ کہ نبی اللہ کے نور (نور) سے پیدا ہوئے ہیں۔
- یہ ماننا کہ ساری دنیا اور اس میں موجود ہر چیز حضرت محمد مصطفی (ص) کے لئے پیدا کی گئی ہے۔ (قرآن پاک 51:56 سے رجوع کریں)
- یہ یقین رکھتے ہوئے کہ جو لوگ تقوی (جیسے سنتوں) کے ذریعہ اعلی درجہ کی صداقت کو حاصل کرتے ہیں انہیں اب شرعی ہدایات پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
- اچھے لوگوں کی تعریف میں مبالغہ آرائی۔
- نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعتیں (موسیقی) یا ایسے تکنیکوں کا استعمال کرکے جو گانے اور موسیقی سے ملتی ہیں۔ اس میں قوالی کا میدان بھی شامل ہے جو پاک بھارت خطے میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔
- اس دنیا کی کمائی کے واحد مقصد کے لئے دین سیکھنا۔
- تقلید کا تصور۔ (کسی امام کا انتخاب کرنا اور دین کے سارے معاملات میں تنہا اپنے احکام پر قائم رہنا)
- دینی معاملات کو دنیاوی معاملات سے الگ کرنا جیسے عیسائی نے ریاست اور چرچ کو الگ کرنے کے ساتھ کیا تھا۔
- جادو ، جادوگر ، کھجور کے ماہر ، ماہر نجومیات اور شماریات ،
- Saying Iqamah in the left ear of a new born. (The sunnah is to say the azaan in the right ear alone)
- Celebrating Shabe-ba’rat (15th of shaban)
- Celebrating the night of ascension (mi’raj) (27th of Rajab)
- Celebrating Mawlid (Birthday of the Prophet)
- Mourning on the 3rd, 10th, 40th and on the yearly death anniversary of the deceased
- Doing tasbeeh (Subhan Allah), tahleel (la ilaha ill lal la) and tamheed (Alhamduliah) on stone, pebbles or the likes and doing so in a group.
- Reciting quran for the sake of benefiting the deceased with the reward of what is recited. This includes reciting quran as group by hiring people or inviting relatives, blowing over the food after recitation, and sharing that food with people on the death anniversary of a person.
- Making group dua right after the funeral prayer.
- Praying four rakat before the fard of jummah prayers.
- Making group dua at the end of each salah. (We cannot find any reference where after each salah the Prophet would make a dua and the sahaba will repeat ameen after him. Post salah zikr and Individual duas are found in the authentic narrations)
- Making group chanting of kalmiatu ikhlas at the end of each salah. (sunnah is to say Allahu Akbar, Astagfurllah x 3, and other masnoon duas, including kalima on personal basis)
- Doing a total of three khutbahs for Jumma. One in urdu and two in Arabic.
- Celebrating Urs (yearly festival) of saints.
- Sacrificing animals in the name of saints.
- Praying or supplicating to the dead, the saints, or anyone else besides Allah. (This includes slogans like Ya Ali, Ya Hussain and the likes)
- Making up for missed salahs that were missed during the state of being a child or a non-muslim.
- Believing in or using lucky charms, amulets, and soothsayers (najomis).
- Saying out loud the intention for prayer.
- Making monuments on graves. Making solid graves (through brick and stones)
- Mourning the first ten days of Muharam by not having marriage ceremonies or by mourning the martyrs of Karbala.
- Doing a khutbah before eid prayers.
- Praying eid prayers in a manner not found in the ahadith.
- Believing that Allah is everywhere. (Numerous verses from the Quran and narrations from hadith clearly mention that Allah is above His throne. e-g, Surah Taha, Verse 5)
- Believing that Allah is without image and is formless and/or disbelieving in His attributes. (We find certain physical attributes of Allah in Quran and Sunnah. Those physical attributes are not like anything we can compare to and are such that they suite Him accordingly. For example, we know from Quran & Sunnah that Allah has hands, eyes, shin but all of these cannot be compared to anything else that has been created.)
- Believing in the sufi methodology of tarikat, abdaals, and such. (These believes have no basis in sharia. search for ‘abdal’ on wikipedia for a general understanding of this concept)
- Shaking hands with the one on the left and right after finishing every salah.
- Kissing thumbs upon hearing the name of the Prophet (PBUH).
- Visiting shrines of the saints.
- Sending salam on the Prophet (PBUH) out loud and as a group after every salah, especially after salatul jummah like done by the Barelvi community.
- Wiping the hands on the back of the neck while doing ablution (wudu). (This practice cannot be found in the authentic ahadith)
- Looking up and pointing towards the sky while reciting the shahada (testimony of faith) after. completion of wudu. (only reciting the shahada is from the sunnah).
- praying salatul tasbeeh. (no authentic hadith talks about this kind of prayer)
- praying nawafil on eid day before eid prayers.
- Believing that there are Prophets or messengers after Muhammad (PBUH).
- Believing that saints, prophets, or other people share characteristics of Allah or have special independent powers from Allah. Such as believing that saints can give life, or that they hold keys to the material treasures of heaven and earth. This includes believing that the Prophet (PBUH) had complete and absolute Knowledge of the unseen.
- Belief that the Prophet was created from the Noor (light) of Allah.
- Believing that the whole world and everything in it was created for Prophet Muhammad (PBUH). (Refer to Quran 51:56)
- Believing that those who achieve the high level of righteousness through piety (like saints) no longer need to follow the guidelines of the sharia.
- Exaggeration in praising of the good people.
- Reciting Naats (Nasheeds/Priases) of the Prophet (PBUH) by using musical instruments or techniques which resemble songs and music. This includes the field of Qawali as found abundantly in Indo-Pakistan region.
- Learning religion for the sole purpose of earning this world.
- The concept of taqleed. (choosing an imam and sticking with his rulings alone in all the matters of the deen)
- Separating religious matters from worldly matters like the Christian did with segregation of state and church.
- Indulging in magic, soothsayers, palmists, astrologists and numerologists, whether you believe them or not.
- Sending blessings on the Prophet (PBUH) out loud before making each azan.
- Asking some one else to do istikahra for oneself. Paying some one to do Istikhara.
- Washing the limbs more than three times during wudu (ablution).
- Believing that only a black sheep can be given as sadaqa (charity).
- Believing that black color is associated with mourning, bad news, and sadness.
- Believing that the Prophet (PBUH) is everywhere and/or that he attends certain gatherings of ‘remembrance’.
- Believing that talking during making wudu (ablution) or smiling/laughing while with wudu invalidates the ablution.
- Believing in the altered concept of tawassul. For example, making dua to Allah that he grants you something by the name of His Prophet (PBUH).
- Source: https://completeconfusion.wordpress.com/2011/03/01/the-grand-list-of-common-bidahs/
-
http://www.alahazrat.net/islam/concept-of-bidah-in-islam.php
پڑھیں : قرآنِ مجید عربی میں کیوں نازل ہوا ؟ کیا قراآن سمجھ کر پڑھنا ضروری ہے؟
ترجمہ : جو بھلائی کی سفارش کریگا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا، اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے (قرآن ;4:85)
بدعت – اَحاديث و اَقوالِ اَئمہ کی روشنی ميں -Bidah-2
ہر عمل کو اس ڈھب پر اور اس نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جاتا کہ یہ عمل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہوتا تھا یا نہیں اور بعد میں کب شروع ہوا بلکہ اس کو پرکھنے کے لئے ہمیں یہ اَمر ملحوظِ خاطر رکھنا ہو گا
- http://salaamforum.blogspot.com/2016/06/blog-post.html
- تراویح کی اہمیت اور قرآن کریم کے تیس پاروں کا<<خلاصہ>> http://salaamforum.blogspot.com/2016/06/summary-quran-30-parah.html
- https://alwaqiamagzine.wordpress.com/2015/11/14/سیدنا-فاروق-اعظم-رضی-اللہ-عنہ-کا-مقام-اج/
- http://www.al-mawrid.org/index.php/articles_urdu/view/Hazrat-Omer-farooq-14
- http://www.minhajbooks.com/english/btext/cid/4/bid/318/btid/1057/read/txt/فصل-چہارم-The-Kinds-of-Innovation.html
- https://en.wikipedia.org/wiki/Islamic_culture
- https://ur.wikipedia.org/wiki/اجتہاد
- https://ur.wikipedia.org/wiki/ایمان
بسم الله الرحمن الرحيم
لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ