گن پوانٹ پر انٹرنیشنل خلافت یا امامت:
داعش، القاعدہ ، تکفیری طالبان ، بوکو حرام اور اس طرح کی تکفیری دہشت گرد تنظیموں کا مقصد مذہبی بنیاد پر سیاسی طاقت کا حصول ہے تاکہ عالمی حکومت (ان کے مطابق اسلامی خلافت) قائم کی جائے- ایرانی ‘ولایت فقہ’ کا بھی اسی طرح کا بین الاقوامی نظریہ ہے، وہ سنی اصطلاح ‘خلافت’ کی بجایے شیعہ اصطلاحات (امامت ،ولایت فقہ وغیرہ) استعمال کرتے ہیں- (بہت سے عالمی شیعہ علماء ایرانی نقطہ نظر سے متفق نہیں)- اگر ایرانی ولایت فقیہ ایران تک محدود رہے توکسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا، کہ یہ ایران کا اندرونی معاملہ ہے مگر جب اس نظریہ کو دوسرے ممالک تک پھیلا دیا جائے تو پھرفکری اور عملی طور پرایرانی اورداعش جیسی دشت گرد تنظیموں میں تفریق مشکل ہو جاتی ہے ، کیونکہ ان کے مقاصد ایک طرح کے ہو جاتے ہیں جس میں طاقت اسلام کے نام پر حاصل کی جاتی ہے- عراق ، شام کی مثال سامنے ہےجہاں داعش اور ایران روس سے مل کر معصوم عوام پر ظلم اور قتل و غارت گری میں مشغول ہیں- پرھتے جایئں >>>>>>
پاسداران انقلاب اور ہٹلر کی فورسز
ایران میں پاسداران انقلاب کو ’سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی‘ کہا جاتا ہے۔ دراصل یہ ادارہ ایران کے شہر قم میں قائم مذہبی ادارے کا عسکری ونگ ہے۔ ایران میں سنہ 1979ء میں برپا ہونے والے انقلاب، بادشاہت کے خاتمے اور روح اللہ خمینی کے وضع کردہ اصولوں کو مضبوط بنانے کا کلیدی ادارہ ہے۔
جب ایران کی باقاعدہ فوج ایرانی اپوزیشن کو روکنے میں ناکام رہی تو آیت اللہ خمینی نے پاسداران انقلاب کو اپوزیشن قوتوں کو کچلنے کی ذمہ داری سونپی۔ عراق۔ ایران جنگ میں پاسداران انقلاب بھی ایک باقاعدہ فوج ہی کے طور پر استعمال کی گئی۔
امریکی اخبار میں شائع مضمون میں پاسداران انقلاب کو سابق جرمن ڈکٹیٹر ایڈوولٹ ہٹلر اور نازیوں کی قائم کردہ فورسز’ ایس ایس او‘ شوٹز شٹاقل‘ کے مشابہ قرار دیا۔
پاسداران انقلاب کے باضابطہ فوج کے ساتھ ساتھ اس کی موبلائیزیشن فورس ’باسیج‘ کے اہلکاروں کی تعداد 90 ہزار ہے جب کہ دیگر رضاکاروں کو ملا کر یہ تعداد تین سو ملین تک جا پہنچتی ہے۔
پاسداران انقلاب کا ہدف ایران کے’اسلامی جمہوری ریاستی نظام‘ کا دفاع، مخالف تنظیموں کا سدباب، ایران میں مخصوص مذہبی تعلیمات کی ترویج اور ایرانی انقلاب کو مشرق وسطیٰ اور دوسرے ملکوں تک پھیلانا ہے۔
پاسداران انقلاب کے اہلکاروں کی ایک لاکھ 25 ہزار ہے۔ دوسرے الفاظ میں پاسداران انقلاب کے اہلکاروں کی تعداد داعش کے جنگجوؤں سے چار گنا زیادہ ہے۔ پاسداران انقلاب کے پاس اسپیشل کمانڈور فورسز کے ساتھ ساتھ منظم بری اور نیول فوج کی بھاری نفری کے ساتھ ساتھ جدید ترین ہتھیار بھی موجود ہیں۔ یوں دنیا کو لاحق خطرات میں دہشت گرد تنظیموں میں پاسداران انقلاب واحد دشمن عسکری ادارہ ہے جس کے پاس بہ یک وقت بری، بحری اور فضائی فورس موجود ہے۔
عراق اور شام میں پاسداران انقلاب براہ راست ملوث ہے – کسی دوسرے ملک میں فوجی مہم جوئی سامراجیت نہیں تو اور کیا ہے-
- پاسدارانِ انقلاب ایران کی’’ کاروباری سلطنت‘‘ کہاں تک پھیلی ہوئی ہے؟
- کیا ایران کی معیشت پاسداران انقلاب کے شکنجے سے نکل پائے گی ؟
- یمن میں حوثیوں کی قیادت کرنے والے ایرانی پاسداران انقلاب کے افسران
پاکستانی بریگیڈ کے استعمال سے علاقائی تنازعہ میں ایرانی فرقہ ورانہ حربے آشکار
ان کا کہنا ہے کہ یہ حکمتِ عملی زینبیون بریگیڈ سے ثابت ہے، جس کے عناصر کو آئی آر جی سی تربیت دیتی اور مسلح کرتی ہے اور پھر انہیں شام میں منتقل کر دیا جاتا جہاں وہ آئی آر جی سی سے متعلقہ دوسرے دھڑوں کے ساتھ اور شام کی حکومت کے ساتھ مل کر لڑتے ہیں۔
زینبیون بریگیڈ کو پہلی بار دمشق میں فوجی مہم کے علاقوں اور اس کے محاصرے اور حلب میں 2014 کے وسط میں دیکھا گیا۔ یہ بات قاہرہ یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے طالبِعلم شییار ترکو نے بتائی جو کہ آئی آر جی سی کی مالیات کی بارے میں تحقیق کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ “2015 سے اب تک، اس کے حامیوں کے سوشل نیٹ ورکنگ کے صفحات نے شام میں اس کی ہلاکتوں کے بارے میں تازہ ترین خبریں شائع کرنی شروع کر دی ہیں۔ جو بات قابلِ غور ہے وہ یہ ہے کہ انہیں پاکستان کی بجائے ایران میں دفن کیا گیا”۔
ترکو نے کہا کہ “زینبیون بریگیڈ پاکستانی شعیوں کو ایک مسلح گروہ ہے جن میں سے اکثریت کو مغربی پاکستان کے علاقوں سے بھرتی کیا گیا ہے”۔
انہوں نے کہا کہ دوسرے پنجاب کے غربت زدہ علاقوں، صوبہ سندھ کے دوسرے حصوں اور چین کی سرحد کے ساتھ کے شمالی علاقوں سے آئے ہیں۔
ترکو نے کہا کہ ان علاقوں میں غربت بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئی آر جی سی نے اس اپنی بھرتی کی مہمات میں اس کا استحصال کیا ہے۔ اس کے علاوہ فرقہ ورانہ کشیدگی کو ہوا دی ہے اور پاکستان کے شعیوں میں خوف کا احساس پیدا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی طالبان اور دوسرے سنی انتہاپسند گروہوں کی طرف سے شعیوں پر حملوں نے اس خوف کے احساس کو بڑھایا ہے اور آئی آر جی ایس کے لیے اپنے اثر و رسوخ کو قبائلی افراد پر ان کے محافظ کا کردار ادا کرتے ہوئے وسیع کرنے کے راستے کھولے ہیں۔
ترکو نے مزید کہا کہ زینبیون بریگیڈ وہ واحد فوجی بریگیڈ یا مسلح گروہ نہیں ہے جسے آئی آر جی ایس نے پاکستان میں بنایا ہے مگر اسے بظاہر غیر ملکی مہمات اور خصوصی طور پر شام کی جنگ کے واحد مقصد کے لیے بنایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی آر جی ایس کے حمایت یافتہ گروہوں کے پاکستان اور ایران میں بہت سے کیمپ ہیں اور “یہ بات ناممکن نہیں ہے کہ زینبیون بریگیڈ کے عناصر کو بیرونی مہمات کے ان گروہوں میں سے منتخب کیا گیا ہو”۔
لبنان کی حزب اللہ کے ساتھ مماثلت
مڈل ایسٹ سینٹر فار ریجنل اینڈ اسٹریجک اسٹیڈیز کے محقق فتح ال سید جو کہ ایرانی امور میں مہارت رکھتے ہیں نے کہا کہ زینبیون بریگیڈ اور آئی آر جی ایس کی طرف سے دوسرے ممالک میں بنائے جانے والے گروہ لبنان کی حزب اللہ جیسے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ “دراندازی کے ہتھکنڈے ایک جیسے ہیں، محرک ایک جیسے ہیں اور مقاصد بھی ایک جیسے ہیں۔ واحد فرق کا تعلق ہر ملک کے نظریاتی اور سماجی فرق کو مدِنظر رکھنا ہے”۔
انہوں نے کہا کہ ان مسلح گروہوں کو بنانے کا واحد مقصد آئی آر جی ایس کے کنٹرول کو ان ممالک پر سخت کرنا ہے جہاں سے انہیں بھرتی کیا گیا ہے اور انہیں شام جیسے ہاٹ سپاٹس پر آئی آر جی ایس کی طرف سے پراکسی وار میں ملوث کرنا ہے۔
ال سید نے کہا کہ “ایران اپنی فوج کو براہ راست جنگ میں ملوث کیے بغیر ان دہشت گردوں کو اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور اسے صرف تربیت اور فوجی مہمات کی براہ راست نگرانی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے”۔
پاکستانیوں کو اس بریگیڈ کی صفوں میں لڑنے کے لیے اکسانے کے لیے، ایران نے شہریت کے قانون کی شق 980 میں ترمیم کی ہے جس کے تحت ان لوگوں کو شہریت دی جا سکتی ہے جنہوں نے ایران میں عوامی مفادات کے لیے خدمات یا قابلِ قدر مدد فراہم کی ہو۔
انہوں نے کہا کہ “2016 میں ایک اور ترمیم متعارف کروائی گئی جس کے تحت ایسے غیر ایرانیوں کی بیویوں اور بچوں کو، جو ایران کے لیے مہم سر انجام دیتے ہوئے ہلاک ہوئے ہوں، شہریت دی جا سکتی ہے”۔
ال سید نے کہا کہ کہ ایران کا مقصد “ایسے علاقوں میں جہاں اسے رسائی مل سکی ہے اور ان برادریوں میں جہاں وہ دراندازی کے قابل ہو گیا ہے، فرقہ واریت کو پھیلانا ہے”۔
انہوں نے کہا کہ “یہ اسے ان علاقوں میں رفتہ رفتہ کنٹرول حاصل کرنے کے قابل بنا دیتا ہے جہاں وہ فرقہ ورانہ بحران کے دوران داخل ہوتا ہے اور اسے اپنے ساتھ ملحق گروہوں کو مکمل طور پر فرقہ ورانہ بنیاد پر کنٹرول کرنے قابل بھی بنا دیتا ہے”۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی بریگیڈ کی شام کی جنگ میں شمولیت نے “تنازعہ کے فرقہ ورانہ کردار کو بڑھا دیا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں اور اس کے دورانیے میں اضافہ ہو گیا ہے”۔
مذہبی حساسیت سے فائدہ اٹھانا
فری سیرین آرمی کے ایک افسر صالح ال افیسی جو کہ دیہی حلب میں تعینات ہیں، نے کہا کہ اپریل 2016 میں حلب کی جنگوں کے دوران، حزبِ مخالف کے دھڑوں نے حکومت کی افواج کے شانہ بشانہ لڑنے والے 12 افراد کو گرفتار کیا جو کہ پاکستانی شہری اور زینبیون بریگیڈ کے ارکان نکلے۔
انہوں نے دیارونا کو بتایا کہ حزبِ مخالف کے جنگجوؤں نے آغاز میں یہ سمجھا کہ وہ لبنان کی حزب اللہ کی صفوں میں لڑنے والے پاکستانی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ “اپنی وردیوں پر انہوں نے جو بیج پہن رکھنے تھے ان پر بنے ہوئے نشان حزب اللہ سے ملتے جلتے تھے اور ان پر زرد پس منظر کے ساتھ ویسی ہی تصویر تھی اور صرف لکھائی ہی فرق تھی۔
انہوں نے کہا کہ تفتیش کے دوران ان کی پاکستانی شہریت کی تصدیق ہو گئی اور گروہ نے انکشاف کیا کہ انہیں پاکستان میں تربیت فراہم کی گئی تھی اور پھر انہیں شام منتقل کیا گیا تاکہ وہ 20,000 پاکستانی روپوں (190 ڈالر) ماہانہ کے عوض شام میں لڑیں۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ شام میں “ان کا اولین اور سب سے اہم مقصد شعیوں کے مقدس مقامات کی حفاظت کرنا ہے” کیونکہ انہیں قائل کیا گیا تھا کہ شام کے حزبِ مخالف کے دھڑے تمام شعیہ مزارات کو تباہ کرنا اور اس فرقے کے ارکان کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں۔
- ایران پاکستانی شیعہ کو اپنے ‘مذموم’ جغرافیائی سیاسی ایجنڈا کو پورا کرنے کے لیے دھوکے سے استعمال کر رہا ہے
- ایران کے زیرِ سایہ ملشیا پاکستانیوں کو بھرتی کر رہے ہیں، افغان شام میں لڑیں گے
- پاکستانی زائرین کو ایران کے زرخرید گروہوں میں بھرتی کیا جا رہا ہے
- ایران کی شیعہ لبریشن آرمی علاقائی اشتعال کو دعوت دے رہی ہے
- پاکستانیوں کو ایران کی بڑھتی ہوئی ‘ڈبل گیم’ پر تشویش
- پاکستانی بریگیڈ کے استعمال سے علاقائی تنازعہ میں ایرانی فرقہ ورانہ حربے آشکار
- ایران افغانستان میں مبینہ دشمنوں کو خوش کرنے کا متلاشی ہے
- تہران کے طالبان کے ساتھ روابط ہیں، ایرانی سفیر کا اعتراف
- ایران کے ملوث ہونے سے شام کی جنگ بھڑک اٹھی: تجزیہ کار
- ایران افغان طالبان کی معاونت اور انہیں مالی امداد فراہم کرتا ہے: حکام
…………………………………………………………………….
Why Iran is in Syria
This study goes in-depth on how Iran framed the conflict as a theological struggle from almost the very beginning, an effort aided through heavy doses of anti-American rhetoric and sectarian fear-mongering. At the same time, Iran mobilized a vast network of Iraqi and Lebanese militant groups, along with assorted other foreign elements to backstop the Assad regime and deepen Tehran’s regional clout.
Tehran was able to inflame and then channel Shi’ite sectarian fighters from throughout the Middle East. But Iran’s end-goals are earthly and political in nature: “What may have appeared to be a disjointed or even organic flow of Shiite fighters into Syria, ostensibly to defend the country’s Shiite holy sites is actually a highly organized geostrategic and ideological effort by Iran to protect its ally in Damascus and project power within Syria, Iraq, and across the Middle East. http://peace-forum.blogspot.com/…/the-most-important-thing-…
ساسانی سلطنت موجودہ ایران، عراق، آرمینیا، افغانستان، ترکی اور شام کے مشرقی حصوں، پاکستان، قفقاز، وسط ایشیا اور عرب پر محیط تھی۔ خسرو ثانی (590ء تا 628ء) کے دور میں مصر، اردن، فلسطین اور لبنان بھی سلطنت میں شامل ہوگئے۔ ایرانی ساسانی سلطنت کو “ایران شہر” کہتے ہیں- یہ ایران میں اسلام آنے سے قبل آخری سلطنت تھی۔
ایران اور سعودی حکمران مذہبی جنونیت، فرقہ واریت پسند ملاؤوں کے زیر اثر ہیں، “ملا” کو آکسیجن نفرت ، فرقہ واریت کی جنگ سے ملتی ہے۔
ایران کے ولایت فقیہ (اعلی ملا کونسل ) نے حال ہی میں اعلان کیا کہ جہاں کہیں شیعوں کے ساتھ زیادتی ہو گی ایران بروئے کار آئے گا۔ یہ ایک تباہ کن انداز فکر ہے۔
ایران در اصل ایک شیعہ اسلامک ریپبلک ہے . جہاں سخت قسم کی مللایت قائم ہے . ملا کسی مکتبہ فکر ہو وہ سخت متصب ہوتا ہے . اپنے علاوہ سب کو غلط حتی کہ کافر کہنا عام بات ہیے . خمینی انقلاب کے بعد انقلاب کو پھیلانے ا نے کا پروگرام عراق سے جنگ کی وجہ سے رک گیا مگر ختم نہیں ہوا . عراق پر امریکی حملے کے بعد اس پر عمل شروع ہو گیا . عراق کی فرقہ وار حکومت کی مدد کر کہ ایران نے داعیش کا جن کھڑا کیا ، پھر شام میں ظالم اقلیتی اسد کی حکومت کی فوجی مالی سیاسی مدد کی . لبنان یمن میں بھی ایرانی دراندازی شامل ہے .
پاکستان اسلامک اسٹیٹ ہے- آئین پاکستان میں شیعہ ، سنی کی تفریق نہیں ، تمام مسلمان کسی بھی عھدہ پر فائز ہو سکتے ہیں-
وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّـهِ ۚ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴿٩﴾
پاکستان، شیعہ ، سنی ، غیر مسلم ، ہم سب کا وطن ہے ہماری وفاداری پہلے پاکستان ہونا چاہیے. غیر ملک کا آلہ کار کوئی نہ بننے گا . ہم ایک ہیں . مل کر ملک کی حفاظت کرین
India offers to invest $20 billion in Iran >>
پاکستان نے جند اللہ کے عہدیدار کو پکڑ کر ایران کے حوالے کیا۔ ایران نے اسے پھانسی دی۔ بدلے میں پاکستان کو کیا ملا؟ چاہ بہار اور بھارتی نیوی کا افسر! جو پاکستان میں دہشت گردی پھیلا رہا تھا۔ سابق سیکرٹری خارجہ ایران کے بارے میں کچھ کہنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ کبھی کہتے بھارت پر فوکس رکھنا چاہیے‘ کبھی کہتے کہ ہمارے اداروں نے بھارتی افسر کو پکڑ دکھایا۔ کبھی مشرق و سطیٰ کی طرف نکل جاتے۔
یہ ہیں وہ بیوروکریٹ جو وزارتِ خارجہ چلاتے رہے اور چلا رہے ہیں۔ جرأت، نہ وژن‘ نہ معلومات! فرمایا کہ اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایران بھارت قربت میں تعطّل رہا! غلط بالکل غلط! پوری دنیا جانتی ہے کہ بھارت پابندیوں کے دوران ایران کی ہر ممکن مدد کرتا رہا۔ سابق سیکرٹری صاحب کو وقت ملے تو وُو ڈروولسن سنٹر ہی کی سپیشل رپورٹ دیکھ لیں۔ اس رپورٹ میںThe “Strategic Partnership” Between India and Iran کے عنوان سے چشم کشا
یعنی اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کے ساتھ بھارتی جنگ کی صورت میں بھارت ایران کی ملٹریBases کو استعمال کر سکتا ہے اور یوں پاکستان کے گرد
– See more at: http://dunya.com.pk/index.php/author/muhammad-izhar-ul-haq/2016-04-01/14925/35948211#tab2
Original: http://dunya.com.pk/index.php/author/haroon-ur-rahid/2016-04-02/14933/19458254#tab2
ایران پاکستان، محبت سے نفرت تک۔۔۔۔!
تبصرہ
ایران در اصل ایک شیعہ اسلامک ریپبلک ہے . جہاں سخت قسم کی مللایت قائم ہے . ملا کسی مکتبہ فکر ہو وہ سخت متصب ہوتا ہے . اپنے علاوہ سب کو غلط حتی کہ کافر کہنا عام بات ہیے . خمینی انقلاب کے بعد انقلاب کو پھیلانے ا نے کا پروگرام عراق سے جنگ کی وجہ سے رک گیا مگر ختم نہیں ہوا . عراق پر امریکی حملے کے بعد اس پر عمل شروع ہو گیا . عراق کی فرقہ وار حکومت کی مدد کر کہ ایران نے داعیش کا جن کھڑا کیا ، پھر شام میں ظالم اقلیتی اسد کی حکومت کی فوجی مالی سیاسی مدد کی . لبنان یمن میں بھی ایرانی دراندازی شامل ہے . اب انڈیا کے ساتھ مل کر پاکستا ن کو تباہ کرنے کا پروگرام نظر ا رہا ہے . ایران علاقائی طاقت اور انڈیا بین الاقوامی طاقت بننا چاہتے ہیں پاکستان کو دشمن سمجھنا غلط ہے . پاکستان سنی نہیں اسلامک اسٹیٹ ہے. قاید اعظم محمد علی جناح شیعہ تھے . یہاں لیاقت علی خان ، سکندر مرزا ، یحییٰ خان ، زلفقار بھتو ، بے نظیر ، زرداری شیعہ بھی وزیر ا عظیم یا صدر بننے . ایران میں صرف شیعہ ہی صدر ہو سکتا ہے . پاکستان ہم سب کا وطن ہے ہماری وفاداری پہلے پاکستان ہونا چاہیے. غیر ملک کا آلہ کار کوئی نہ بننے گا . ہم ایک ہیں . مل کر ملک کی حفاظت کرین –
ایران سے امریکا سے صلح کر لی لیکن اہل سنت کو معاف کرنے پر تیار نہیں
ایران میں سنہ 1979ء میں برپا ہونے والے نام نہاد اسلامی انقلاب کے بعد جہاں یہ ملک ایک مخصوص فرقے اور طبقے کے لوگوں کےلیے جنت ثابت ہوا مگر وہاں اہل سنت والجماعت مسلک کے پیروکاروں کی زندگی عذاب بن کر رہ گئی ہے۔ ایران کے سنی مسلمانوں کو حکومت کی انتقامی کارروائیوں کا سامنا ہے اور انہیں مذہبی اور نسلی بنیادوں پر عدم مساوات کے ظالمانہ سلوک کا سامنا ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ نے ایران میں اہل سنت والجماعت مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو درپیش مسائل اور ایرانی رجیم کے ہاتھوں ہونے والی صریح زیادتیوں پرمبنی ایک تفصیلی رپورٹ میں روشنی ڈالی ہے۔
رپورٹ کا آغاز ایک سنی نوجوان مبلغ شہرام احمدی کی پھانسی کے واقعے سے کیا جا رہا ہے۔ شہرام احمد کو حال ہی میں سزائے موت سنائی گئی۔ اس واقعے نے ایران میں اہل سنت مسلک کے پیروکاروں کی بنیادی حقوق کی سنگین پامالیوں کا معاملہ ایک بار پھر منظر عام پر آ گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ایرانی حکام کسی بھی وقت شہرام احمدی کو سنائی گئی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کر دیں گے۔
ایران میں پھانسی کے منتظر سنی مبلغ شہرام احمدی
احمدی کو سنائی گئی سزا سے یہ آشکار ہو رہا ہے کہ ملک میں غیر فارسی بان بالخصوص سنی اقلیت کے ساتھ کس درجے کا ظالمانہ اور غیر مساوی سلوک کیا جا رہا ہے۔ ایران کے جنوبی اضلاع، جہاں سنی مسلمانوں کی اکثریت ہے، ایرانی رجیم کی انتقامی پالیسی کا منہ چڑاتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایرانی حکومت صرف مذہب اور مسلک ہی کی بنیاد پر امتیاز نہیں برت رہی ہے بلکہ رنگ ونسل کی بنیاد پر بھی اقلیتوں کو انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثالیں ایران کی کرد، ترکمان، عرب اور بلوچ اقوام ہیں۔ چاہے ان کا تعلق کسی بھی مسلک یا مذہب سے ہو مگر انہیں صرف اس لیے عدم مساوات کا سامنا ہے کہ یہ لوگ ایرانی اور فارسی النسل نہیں ہیں۔
ایران میں جہاں اہلسنت کے مسلمان اپنے ساتھ ہونے والی زیادیتوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں وہیں دوسری جانب ایرانی حکومت اور سرکاری میڈیا بار بار یہ پروپیگنڈہ کرتا دکھائی دیتا ہے کہ ایران میں کسی کے ساتھ مذہب، زبان، مسلک اور قومیت کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا ہے۔
اہل سنت مسلک کے پیروکاروں کا کہنا ہے کہ انہیں حکومت کی فرقہ وارانہ پالیسیوں کا سامنا ہے۔ ملکی سیاست میں اقلیتوں کے لیے کوئی جگہ پہلے ہی نہیں تھی مگر اب سنی مسلمانوں کو مساجد میں اپنے طریقے کے مطابق نماز اور عبادت سے بھی روکا جانے لگا ہے۔ ایران کے دارالحکومت تہران اور کئی دوسرے شہروں میں مساجد کے قیام پر پابندی ہے۔ کچھ عرصہ قبل تہران بلدیہ نے دارالحکومت کی اکلوتی جامع مسجد بھی شہید کر دی تھی جس پر ایران بھر میں اہل سنت والجماعت مسلک کی جانب سے شید ردعمل سامنے آیا تھا۔
ایران کے سنی رہ نما الشیخ عبدالحمید اسماعیل زئی بلوچستان کے دارالحکومت زاھدان کی جامع مسجد کے امام ہیں۔ تہران بلدیہ کی جانب سے مسجد کی شہید کرنے کے واقعے پر انہوں نے نہ صرف احتجاج کیا بلکہ رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک مکتوب میں اس معاملے پر متوجہ کیا مگر انہوں نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔
رواں سال اگست میں ایرانی صدر حسن روحانی نے سنی اکثریت علاقے کردستان کا دورہ کیا جہاں انہیں صحافیوں کی جانب سے تلخ سوالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ صحافیوں نے صدر حسن روحانی سے پوچھا کہ ایرانی کابینہ میں کوئی سُنی وزیر کیوں نہیں ہے تو انہوں نے سخت غصے میں جواب دیا کہ ہم ایران میں شیعہ اور سنی کے درمیان تفریق نہیں کرتے۔
ایران میں سنی آبادی کا تناسب
ایران کی کل 15 سے 17 ملین آبادی یعنی کل آبادی کا 20 سے 25 فی صد اہل سنت والجماعت کے مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یہ معلومات غیر سرکاری اعداد وشمار کے ذریعے سامنے آئے ہیں۔ سرکاری سطح پر اقلیتوں کی آبادی کے بارے میں کوئی ٹھوس معلومات نہ تو جمع کی جاتی ہیں اور نہ ہی انہیں ظاہر کیا جاتا ہے۔
سنی آبادی کی اکثریت مغربی ایران کے ضلع کردستان، جنوب مشرق میں بلوچستان، شمال مشرق میں چولستان، ساحلی شہر آذربائیجان، جنوب مغرب میں اھواز، شمال مشرق میں خرسان، اور شمال میں جیلا اور طالش کے علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔
ایرانی دستور اور اہل سنت
ایران میں مسلک اور مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک صرف حکومت کی پالیسی نہیں بلکہ یہ سب کچھ ایران کے دستور کا حصہ ہے۔ ایرانی دستور میں اعلیٰ عہدے صرف امامی اہل تشیع کے لیے مختص ہیں۔ دستور کی دفعہ 107 میں وضاحت کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ کوئی غیر مذہب [مراد سنی مسلمان] مرشد اعلیٰ کے عہدے پر فائز نہیں ہو سکا۔ ایران کی گارڈین کونسل کا رکن نہیں بن سکتا۔ گارڈین کونسل کا چیئرمین بھی نہیں بن سکتا۔ آرٹیکل 61 کے مطابق ‘کوئی سنی مسلمان کسی عدالت کا جج نہیں بن سکتا۔’
آرٹیکل 115 کی دفعہ 5 میں تحریر ہے کہ ‘صدر جمہوریہ کے لیے سرکاری مذہب شیعہ کا پیروکار ہونا ضروری ہے۔’ آئین کی دفعہ 121 میں ہے کہ ریاست کا ہر عہدیدار سرکاری مذہب[شیعہ] کے مطابق حلف اٹھائے گا۔
آرٹیکل 12 اور 13 میں صراحت کی گئی ہے کہ شیعہ مذہب کے سوا کسی دوسرے مذہب کی تبلیغ کی قطعی اجازت نہیں ہوگی تاہم اہل تشیع کو تمام تر مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ اپنے مذہب کی تبلیغ اور تشہیر کی بھی اجازت ہے۔ اسی ضمن میں ایران کے دارالحکومت تہران میں اہل سنت والجماعت کو مسجد بنانے سے روکا گیا ہے۔ مساجد کی تعمیر ان تمام شہروں میں ممنوع ہے جہاں شیعہ اکثریت ہے۔
ایرانی دستور کے آرٹیکل دو میں ایران کے سیاسی نظام کی تعریف کے بعد اس کے طریقہ کار کی وضاحت کی گئی ہے۔ آئین کی رو سے ایران میں اسلامی جمہوریہ ایران کا سیاسی ڈھانچہ امامی شیعہ کی تعلیمات کے تحت ہو گا۔ ملک کی زمام کار امامی اہل تشیع کے ہاتھ میں ہوگی جو فقہا کی وضع کردہ تمام شرائط پر پورا اترنے کے بعد کوئی عہدہ اور منصب سنھبالنے کے اہل ہوں گے۔
اہل سنت کی آبادی میں اضافے کا خوف
ایران میں جہاں ایک جانب سرکاری سطح پر اہل سنت مسلک کے پیروکاروں کو دبایا اور انہیں بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے وہیں ایران حکومت اہل سنت کی آبادی میں اضافے سے خوف کا بھی شکار دکھائی دیتی ہے۔
ایران میں متعدد مرتبہ حکومتی عہدیدار ملک میں سنی مسلک کے لوگوں کی تعداد بڑھنے پر تشویش میں مبتلا دکھائی دیے ہیں۔ انہوں نے اپنی زبان سے کھل کر اس بات کا اظہار اور اقرار کیا ہے کہ ایران میں سنی مسلک کے لوگوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ولایت فقیہ کے نظام کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔
بین الاقوامی المصطفیٰ یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر ناصر رفیعی کا کہنا ہے کہ ایران میں اہل سنت مسلک کی آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ شیعہ مسلک کی آبادی اس سرعت کے ساتھ نہیں بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے بتایا بعض شہروں میں قائم سکولوں میں سنی بچوں کی تعداد 50 فی صد سے تجاوز کر رہی ہے۔ شیعہ آبادی کی تعداد زیادہ ہونے کے باوجود ان کے اسکولوں میں موجود بچوں کی تعداد سنی مسلمانوں کے بچوں سے کم ہے۔
ایرانی خبر رساں ایجنسی”مہر” نے حال ہی میں ایک حکومتی عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ آذربائیجان میں سنی آبادی میں 70 فی صد اضافہ ہو چکا ہے اور شیعہ آبادی صرف 30 رہ گئی ہے۔ شیعہ آن لائن نامی ایک ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق آئندہ 20 برسوں میں ملک میں شیعہ مسلمان اقلیت میں بدل جائیں گے۔
ایران کے ایک سرکردہ مذہبی رہ نما آیت اللہ مکارم شیرازی نے ایک بیان میں خبردار کیا کہ ملک میں اہل سنت تیزی کے ساتھ پھل پھول رہے ہیں۔ انہوں نے جنوبی ضلع خراسان میں وسیع علاقے پر اراضی کی خریداری شروع کی ہے۔ انہوں نے اہل تشیع کو کثرت اولاد کی ترغیب دی اور کہا کہ جو شخص اہل تشیع کی ترویج اور آبادی میں اضافے پر ایک ریال خرچ کرتا ہے وہ ایران کے امن واستحکام میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔
آبادی سے متعلق مرشد اعلیٰ کا پیغام
ایران میں اہل تشیع کی آبادی میں بتدریج کمی پر رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای بھی سخت پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ چند ماہ قبل انہوں نے ایرانی شیعہ مسلک کے پیروکاروں کو اپنی آبادی میں اضافے حکم دیا تھا۔ جہاں جہاں سنی مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے وہاں شیعہ آبادی میں اضافے کے لیے حکومت نے ایک نیا پلان ترتیب دینا شروع کیا ہے۔ خلیج العربی سے متصل علاقوں، بحر عمان کے آس پاس، اماراتی جزیروں طنب الکبریٰ، طنب الصغریٰ اور ابو موسیٰ میں شیعہ آبادی کو کھپانے کے لیے سرمایہ کاری کے کئی منصوبے شروع کیے گئے ہیں تاکہ ان اہل تشیع کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں یہاں آباد ہونے کی ترغیب دی جا سکے۔
اس منصوبے پر عمل درآمد کرنے کے بعد ایک ایرانی عہدیدار محمد ناظمی اردکانی نے بتایا کہ اگلے ڈیڑھ سال میں ایران کی آبادی 80 ملین سے تجاوز کر جائے گی۔ سنہ 2014ء میں سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کا آبادی میں اضافے کا پلان ایران کی مجلس شوریٰ میں بھی زیر بحث آیا۔ حکومت نے سپریم لیڈر کی شیعہ آبادی میں اضافے کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے آئندہ چند برسوں میں اس حوالے سے مزید اقدامات کا بھی اعلان کیا۔
یاد رہے کہ آیت اللہ علی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ ہم مغرب کی اندھی تقلید کرتے ہوئے اپنی آبادی میں تیزی کے ساتھ کمی کی طرف گامزن ہیں۔ ہمیں کچھ عرصے کے اندر ایران کی آبادی کو مزید ایک گنا بڑھا کر 150 ملین تک لے جانا ہے۔
اشتعال انگیز مذہبی رسومات
ایران میں حکومت کی سطح پر اہل سنت مسلک کے مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی پالیسی پر عمل کے ساتھ ساتھ اہل تشیع کے ہاں ایسی ایسی مذہبی رسومات ادا کی جاتی ہیں جو سنی مسلمانوں کے لیے اشتعال انگیزی سے کم نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعے کو “عمر کشتون”[قتل عمر] کو خوشی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یوں 9 ربیع الاول شہادت عمر فاروق کو ایران میں “عیدالزھراء” کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ایران میں حضرت عمر فاروق کی شہادت کو عید کے طور پر منانے کی مکروہ روایت کوئی پانچ سو سال قبل صفویوں نے شروع کی تھی۔ صفوی چار صدیوں تک ایران میں حکمران رہے اور انہی کی دور میں ایران میں شیعہ مذہب تیزی کے ساتھ پھیلا۔
حضرت عمر فاروق کے قاتل ابو لولو مجوسی کو بھی ایران میں نہایت عقیدت واحترام کا مقام دیا جاتا ہے۔ وسطی ایران کے کاشان شہر میں بد بخت ابو لولو مجوسی کا باقاعدہ مزار ہے جہاں دور دور سے شیعہ زائرین ‘عبادت’ کے لیے وہاں آتے ہیں۔
ایران میں خلفائے راشدین اور ازواج مطہرات پر طعن وتشنیع کا سلسلہ بھی عام ہے خاص طور پر محرم الحرام کے موقع پر ایران کے شیعہ مذہبی ذاکرین کھلے عام صحابہ کرام اور ازواج نبی کے خلاف دشنام طراز کرتے ہیں۔
ایران میں ہر سال 21 مارچ کو نئے سال کا آغاز بھی مذہبی جوش و جذبے منایا جاتا ہے۔ اس تاریخ کو حضرت فاطمۃ الزھراء کے یوم وفات کی نسبت ماتم کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ خلفائے راشدین کی شان میں گستاخیاں کی جاتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایران کے دارالحکومت تہران میں قائم جامع تہران کے شیعہ امام محمد علی موحدی کرمانی نے اہل تشیع پر زور دیا تھا کہ وہ عید نوروز کے موقع پر خوشی کے بجائے ماتم کو زیادہ اہمیت دیں۔
پھانسی کی سزائیں
ایران میں معمولی معمولی واقعات کی بنیاد پر لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ اس ظلم کا شکار ہونے والوں میں بھی اہل سنت کے پیروکار سب سے زیادہ ہیں۔ ایران کی جیلیں اہل سنت مسلک کے پیروکاروں سے بھری ہوئی ہیں۔ ان میں سے بیشتر کو ان کے مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر جیلوں میں ڈالا گیا ہے۔ بیشتر کو پھانسی کی سزائیں سنائی گئی ہیں جنہیں کسی بھی وقت سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
رواں سال مارچ میں کرج نامی شہر کے “رجائی شہر” جیل میں قید 6 سنی کرد کارکنوں حامد احمدی، کمال ملائی، جمشید دھقانی، جہانگیر دھقانی، صدیق محمدی اور ھادی حسینی کو پھانسی دے دی گئی تھی۔ انہیں سنہ 2012ء میں ایران کی ایک انقلاب عدالت نے ‘فساد فی الارض’ کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
حال ہی میں ایک اور سنی مبلغ شہرام احمدی کو بھی سزائے موت سنائی گئی ہے۔ شہرام ایک سلفی تنظیم کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور پچھلے چھ سال سے ایران کی جیل میں پابند سلاسل ہیں۔ ان پر ایران کے ولایت فقیہ کے نظام کے خلاف گفتگو کرنے اور اپنے سیاسی اور مذہبی عقائد کی تشہیر کے لیے کتب اور سی ڈیز فروخت کرنے کا الزام عاید کیا گیا ہے۔ شہرام کے ایک بھائی کو اسی الزام میں 2012ء میں 18 سال کی عمر میں پھانسی دے دی گئی تھی۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ شہرام احمدی کو دوران حراست ہولناک جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
صالح حمید ۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ
مختصر لنک : http://ara.tv/664ez
More:
It is common to brush aside the conspiracy theories. However if one critically examines the plans conceived decades back by scholar or groups with close association with the policy makers in USA and UK and the events on ground bear close semblance, its difficult to reject it out rightly. The governments of Muslim countries should consider these aspects seriously and instead of investing in construction of high rise building and other symbols of luxury, should invest in education, and establish think tanks, with genuine intellectuals, analysts and thinkers. They should constantly review the international plans and conspiracies, suggesting concrete counter measures for the national survival and advancement of peace and stability.
Also read:
- How to counter Zionist Plans? http://aftabkhan-net.page.tl/Counter-Zionist-Plans.htm
- Bernard Lewis Plan to Carve up Middle East and Pakistan
-
Indian Act of War – India Naval Officer captured in Pakistan, not SPY involved in Terrorism, its an Act of War;
ایرانی جنرل فلوجہ کی شیعہ ملیشیا میں نمودار – صفحہ اول
… بغداد حکومت نے شیعہ ملیشیا کو فلوجہ میں سُنی شدت پسند گروپوں کے خلاف کارروائی کا ٹاسک دیا ہے۔ … یہی وجہ ہے کہ تہران حکومت کی جانب سے عراق میں داعش کے خلاف جنگ …
https://en.wikipedia.org/wiki/List_of_Pakistani_Shia_Muslims
http://www.alarabiya.net/articles/2012/08/25/234050.html
http://www.dw.com/ur/
https://www.facebook.com/permalink.php?id=909803712407139&story_fbid=920827471304763
http://dailypakistan.pk/ رایرانی-سنی-حکومت-کے-امتیازی-سلوک-کے-شکا
http://iblagh.com/55439
http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2016/01/160110_baat_se_baat_wusat_zh
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=76930
http://www.fikrokhabar.com/index.php/2014-03-15-09-42-26/item/10696-tehran-me-ahle-sunnat-maslak-ki-akloti-masjid-shahed-kardi-gayi
http://sunnionline.us/urdu/2015/05/4557/
http://www.urdu.shiitenews.org/index.php?option=com_k2&view=item&id=43594:2016-10-24-13-01-14&Itemid=239
https://en.wikipedia.org/wiki/Sasanian_Empire
Videos >>>
- ولایت فقه (شیعہ عالمی خلافت ) کا ایرانی نظریہ
- مشرق وسطی جنگ اور ایران- سعودی کردار
- ایران سنی اکثریتی ملک سے کٹر شیعہ ملک کیسے بنا؟
فرقہ واریت
- فرقہ واریت کا خاتمہ : پہلا قدم
- مسلمان کون؟
- عمر ضائع کردی
- اختلاف فقه اور اتحاد مسلم
- بدعت ، بدا، 1
- بدعت – اَحاديث و اَقوالِ اَئمہ -2
- فرقہ وارانہ مذہبی بیانیوں پر مختصر تبصرہ
- فرقہ واریت – تاویلیں، دلائل اور تجزیہ
- ہْلُ السُّنَّۃ وَالْجَمَاعَۃ‘‘ کون؟
- تاریخی واقعات دین اسلام کی بنیاد ؟
- شیعہ عقائد اور اسلام
- شیعیت-عقائد-و-نظریات
- تکفیری، خوارج فتنہ
- انسداد فرقہ واریت
- امام خامنہ ای – خونی ماتم ممنوع
- https://wp.me/p9pwXk-1c3
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~