Juma Mubarak جمعہ کی فضیلت

جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت مستحب ہے- جب کسی سورہ یا آیت کی  فضیلت رسول ﷺ سے منسوب ہو تو اس کو مکمل ترجمہ کے سآتھ پڑھنا چاہیے تاکہ اس کا مضمون، مطلب اچھی طرح سمجھ سکیں- اگرچہ تلاوت کا بھی ثواب ہے مگر قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے سمجھنا بہت ضروری ہے اس مقصد کے لیے اس سورہ کے مضامین اور خلاصہ: https://bit.ly/Al-Kahaf

……………………………………………
انسداد فرقہ واریت
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ : ’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘( آل عمران،3 :103)
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿سورة الفرقان25:30﴾ اور(روز قیامت) رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بےشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ﴿سورة الفرقان25:30﴾

اللہ کےواضح احکامات کے باوجود اسلام میں فرقہ واریت کا زہر کیسے داخل ہوا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئیے اسلام کی ابتدائی تاریخ کا مختصر جائزہ ضروری ہے >>>https://goo.gl/8ANxZ6

……………………………………………..
 جمعہ کی فضیلت :
اللہ تعالیٰ نے اس امت کو بے شمار امتیازات اور فضائلِ جلیلہ  سے مخصوص کیا، جن میں سے ایک یوم جمعہ کا امت کے لیے خاص کرنا ہے،جب کہ اس دن سے اللہ تعالیٰ نے یہود ونصاری کو محروم رکھا،حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
 
أضلّ الله عن الجمعة من كان قبلنا. فكان لليهود يوم السبت. وكان للنّصارى يوم الأحد. فجاء الله بنا. فهدانا الله ليوم الجمعة. فجعل الجمعة والسبت والأحد. وكذلك هم تبع لنا يوم القيامة. نحن الآخرون من أهل الدّنيا والأولون يوم القيامة المقضي لهم قبل الخلائق۔[رواه مسلم 856]
 

’’ اللہ تعالیٰ نے ہم سے پہلے والوں کو جمعہ کے دن سے محروم رکھا،یہود کے لیے ہفتہ کا دن اور نصاری کے لیے اتوار کا دن تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں برپا کیا اور جمعہ کے دن کی ہمیں ہدایت فرمائی اور جمعہ ہفتہ اور اتوار بنائے،اسی طرح یہ اقوام روز قیامت تک ہمارے تابع رہے گی،دنیا والوں میں ہم آخری ہیں اور قیامت کے دن اولین میں ہونگے، اورتمام مخلوقات سے قبل اولین کا فیصلہ کیا جائے گا‘‘ [رواه مسلم].

حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں: (جمعہ کو جمعہ اس لیے کہا گیا کیوں کہ یہ لفظ جَمَع سے مشتق ہے، اس دن مسلمان ہفتے میں ایک مرتبہ جمع ہوتے تھے۔
 
اللہ تعالیٰ نے اس دن اپنی بندگی کے لیے جمع ہونے کا حکم دیا: ارشاد باری تعالیٰ ہے:  
 
}يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ{ [الجمعة: 9]
 
(مومنو! جب جمعے کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے گی تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو)آیت میں سعی سے مراد تیزی سے چلنا نہیں ہے بلکہ جمعہ کے لیے جلد نکلنے کا اہتمام کرنا ہے، یاد رہے کہ نماز کے لیے بھاگتے ہوئے جانے سے روکا گیا۔
 
حسن فرماتے ہیں: ’’اللہ کی قسم سعی سے مراد بھاگتے ہوئے جانا نہیں ہے، بلکہ نماز کے لیے  وقار وسکینت اور دل کی  نیت اور خشوع وخضوع کے ساتھ جانے کا حکم دیا گیا‘‘ [تفسير ابن كثير 4/385/386].
 
ابن قیمؒ فرماتے ہیں: (جمعہ کا دن عبادت کا دن ہے، اِس کا دنوں میں ایسا مقام ہے جیسا کہ مہینوں میں ماہِ رمضان کا، اور اس دن مقبولیت کی گھڑی کا وہی درجہ ہے جیسا کہ رمضان میں شبِ قدر کا)۔  [زاد المعاد 1/398].
 
جمعہ کے دن کے فضائل:
 
1-دنوں میں بہترین دن: حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
 
خير يوم طلعت عليه الشّمس يوم الجمعة، فيه خلق آدم، وفيه أدخل الجنّة، وفيه أخرج منها، ولا تقوم السّاعة إلا في يوم الجمعة۔ [رواه مسلم 854]
 
’’جس دن میں سورج طلوع ہوتا ہے اس میں سب سے بہترین جمعہ کا دن ہے،اسی دن میں حضرت آدم پیدا ہوئے، اسی دن جنت میں داخل کیئے گئے، اور اسی دن اس سے نکالے گئے اور قیامت قائم نہیں ہوگی مگر جمعہ کے دن‘‘ [مسلم].
 
2-فضائلِ جمعہ میں نمازِ  جمعہ کے بھی فضائل شامل ہیں، کیونکہ نماز اسلام کے فرائض اور مسلمانوں کے جمع ہونے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، جس نے نمازکی ادائیگی میں غفلت برتی اللہ تعالیٰ اس کے قلب پر مہر لگادیتے ہیں جیسا کہ مسلم شریف کی روایت میں مذکور ہے۔
 
3-جمعہ کے دن ایک گھڑی ہوتی ہے اس میں دعا قبول کی جاتی ہے،حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے: نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
 
فيه ساعة. لا يوافقها عبد مسلم، وهو يصلّي، يسأل الله شيئًا، إلا أعطاه إياه”. زاد قتيبة في روايته: وأشار بيده يُقَلَلها۔[رواه البخاري 935 ومسلم 852]
(اس میں ایک گھڑی ایسی ہے، جس میں کوئی مسلمان نماز پڑھے، اور اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو عنایت فرمادیتا ہے) ۔[متفق عليه].
 
ابن قیمؒ نے قبولیت دعا کی گھڑی کے تعیین کے سلسلے میں اختلاف کو ذکر کرنے کے بعد حدیثِ رسول کی روشنی میں ذیل کے دو قول کو ترجیح دی ہیں۔
 
اول: وہ گھڑی خطبہ شروع ہونے سے لے کر نماز کے ختم ہونے تک کا درمیانی وقت ہے۔ [مسلم].
 
دوم: جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک، اور یہی قول راجح ہے۔ [زاد المعاد 1/389، 390].
 
4- جمعہ کے دن کا صدقہ دیگر ایام کے صدقوں سے بہتر ہے۔
 
ابن قیم ؒفرماتے ہیں: (ہفتے  کے دیگر دنوں کے مقابلے جمعہ کے دن کے صدقہ کا ویسا ہی مقام ہے جیسا کہ سارے مہینوں میں رمضان کا مقام ومرتبہ ہے۔) حضرت کعب کی حدیث میں ہے: ’’…جمعہ کے دن صدقہ دیگر ایام کے مقابلے (ثواب کے اعتبار سے) عظیم ہے۔ [موقوف صحيح وله حكم الرفع].
 
5- یہ وہ دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ اپنے مومنین بندوں کے لیے جنت میں تجلی فرمائیں گے، انس بن مالک ؓ اللہ تعالیٰ کے فرمان}وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ{ [ق:35]  کے بارے میں فرماتے ہیں: اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا ہر جمعہ تجلی فرمانا ہے۔
 
6-جمعہ کا دن ہفتہ میں بار بار آنے والی عید ہے، حضرت عباس ؓ سے مروی کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
 
إن هذا يوم عيد جعله الله للمسلمين فمن جاء إلى الجمعة فليغتسل۔ [رواه ابن ماجه 908 وحسنه الألباني].
 
(یہ عید کا دن ہے،جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے طے کیا ہے، لہٰذا جسے جمعہ ملے وہ اس دن غسل کرے)
 
7-یہ وہ دن ہے جس میں گناہوں کی معافی ہوتی ہے: سلمان سے مروی ہے: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
 
لا يغتسل رجلٌ يوم الجمعة، ويتطهر ما استطاع من طهرٍ، ويدهن من دهنه، أو يمس من طيب بيته، ثم يخرج فلا يفرق بين اثنين، ثم يصلّي ما كتب له، ثم ينصت إذا تكلم الإمام، إلا غفر له ما بينه وبين الجمعة الأخرى» [رواه البخاري 883]
(جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور خوب اچھی طرح سے پاکی حاصل کرے اور تیل استعمال کرے یا گھر میں جو خوشبو میسر ہو استعمال کرے پھر نماز جمعہ کے لیے نکلے اور مسجد میں پہنچ کر دو آدمیوں کے درمیان نہ گھسے، پھر جتنی ہو سکے نفل نماز پڑھے اور جب امام خطبہ شروع کرے تو خاموش سنتا رہے تو اس کے اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک سارے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں)۔ [البخاري].
 
8-جمعہ کے لیے چل کرجانے والے کے ہر قدم پر ایک برس کے روزے رکھنے اور قیام کرنے کا ثواب ملتا ہے، حضرت اوس بن اوس سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: من غَسَّل يوم الجمعة واغتسل، وبكَّر وابتكر، ومشى ولم يركب، ودنا من الإمام فاستمع ولم يلغ كان له بكل خطوة عمل سنّة أجر صيامها وقيامها»  [رواه ابن ماجه 898 وأبو داود 345وصححه الألباني]
 
(جس نے جمعہ کے دن اچھی طرح غسل کیا، اور مسجد اول وقت پہنچ کر خطبہ اولی میں شریک رہا، اور امام سے قریب بیٹھ کر خاموشی سے خطبہ سنا، اس کے لیے ہر قدم پر ایک سال کے روزوں اور قیام کا ثواب ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کے لیے بہت آسان ہے۔) [أحمد وأصحاب السنن وصححه ابن خزيمة].
 
الله أكبر!! جمعہ کے لیے جانے پر ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزے اور قیام کا ثواب؟!
 
تو ان نعمتوں کو پانے والے کہاں ہے؟! ان عظیم لمحات کو گنوانے والے کہاں ہے؟!
 
ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ [الحديد:21].
 
(یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عطا فرمائے۔اور اللہ بڑے فضل کا مالک ہے)
 
9- ہفتے کے پورے دنوں میں جہنم کو تپایا جاتا ہے مگر جمعہ کے دن اس عظیم دن کے اکرام وشرف میں یہ عمل بند رہتا ہے[دیکھیے: زاد المعاد 1/387].
 
10-جمعہ کے دن یا رات میں فوت ہونا حُسن خاتمہ کی علامت ہے، کیونکہ جمعہ کے دن مرنے والا قبر کے عذاب اور فرشتوں کے سوالات سے محفوظ رہتا ہے، حضرت ابن  عمرو ؓ سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
 
ما من مسلمٍ يموت يوم الجمعة أو ليلة الجمعة، إلا وقاه الله فتنة القبر» [رواه التّرمذي 1074 وحسنه الألباني]
 
(جو مسلمان جمعہ کے دن یا رات میں فوت ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اُسےقبر کی آزمائش سے بچادیتے ہیں)۔ [أحمد والترمذي وصححه الألباني].
 
جمعه أحكام اور آداب
 
پیارے مسلم بھائی:
 
ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ جمعہ کے دن کی تعظیم کرے، اس دن کے فضائل کو غنیمت جانے اور اس دن ہر قسم کی عبادتوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرے، یومِ جمعہ کے کچھ آداب اور احکام ہیں، جن سے آراستہ ہونا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔
 
ابن قیمؒ فرماتے ہیں: (نبی کریم ﷺ کا طریقہ کار یہ تھا کہ آپ ﷺ دیگر ایام کے مقابلے مخصوص عبادتوں کے ذریعے جمعہ کے دن کی تعظیم وتکریم کرتے تھے،علماء کرام کے درمیان یہ اختلاف ہے کہ آیا جمعہ کا دن افضل ہے یا عرفہ کا دن۔ [زاد المعاد 1/375].
 
دیکھیے- پیارے بھائی – کتنے جمعہ مہمان کی طرح گذر گئے، اور آپ نے کوئی توجہ بھی نہیں دی، بلکہ بہت سے لوگوں کا تو یہ حال ہے کہ  وہ جمعہ کے دن  اس لیے انتظار کرتے ہیں تاکہ اس میں نافرمانی ِرب اور معاصیِ الہٰی کریں۔
 
احکام وآداب:
 
1-مستحب ہے کہ امام جمعہ کی فجر میں مکمل سورہ سجدہ اور سورہ دھر پڑھے،جیسا کہ آپ ﷺ کا طریقہ تھا، اور کسی ایک سورت پر اکتفاء نہ کرے، جیسا کہ بعض ائمہ کا معمول ہے۔
 
2-جمعہ کے دن کثرت سے درود پڑھنا مستحب ہے۔ حضرت اوس بن اوس ؓ سے مروی ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
 
إنّ من أفضل أيامكم يوم الجمعة فيه خُلق آدم وفيه قُبض وفيه النّفخة وفيه الصّعقة فأكثروا عليّ من الصّلاة فيه فإنّ صلاتكم معروضة عليّ» [رواه أبو داود 1047 والنّسائي 1373 وابن ماجه 896 وصححه الألباني]
 
 (تمہارے دنوں میں افضل ترین دن جمعہ ہے،اسی روز آدم کی تخلیق ہوئی، اسی دن ان کی روح قبض کی گئی اور اسی دن صور پھونكا جائےگا، اور اسى ميں بے ہوشى طارى ہو گى، لہذا مجھ پر اس دن كثرت سے درود پڑھو، كيونكہ تمہارا درود مجھ پر پيش كيا جاتا ہے)
 
3- نماز ِجمعہ ہر آزاد مکلف مقیم مرد پر فرض ہے، لہٰذا کسی مسافر، کسی عورت یا غلام پر جمعہ واجب نہیں ہے، ہاں ان میں سے کوئی اگر جمعہ میں شریک ہوجائے توان کی نماز ِجمعہ درست ہے، بیماری یا خوف وغیرہ جیسے عذر کی وجہ سے نماز جمعہ ساقط ہوجاتی ہے۔ [الشرح الممتع 5/7-24].
 
4-جمعہ کے دن غسل کرنا نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے:
 
’’إذا جاء أحدكم إلى الجمعة فليغتسل‘‘
 
(جب تم میں سے کوئی جمعہ کے لیے آئے  تو چاہیے کہ غسل کرے) [متفق عليه].
 
5-خوشبو کا استعمال کرنا، مسواک کرنا اور اچھا لباس زیبِ تن کرنا، جمعہ کے آداب میں شامل ہے، حضرت ابوایوب ؓ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
 
من اغتسل يوم الجمعة ومس من طيب امرأته إن كان لها ولبس من صالح ثيابه ثم لم يتخط رقاب الناس ولم يلغ عند الموعظة كانت كفارة لما بينهما» [رواه أبو داود 347 وحسنه الألباني].
 
 (جس نے جمعہ کے دن غسل کیا،اگر خوشبو ہوتو استعمال کیا، بہترین کپڑے پہنے، پھر اطمینان کے ساتھ مسجد کی جانب نکلا، اگر موقع ملے تو دو رکعت پڑھی، کسی کو تکلیف نہیں دی، پھر امام کے خطبہ ختم کرنے تک خاموش رہا، (اس کا یہ عمل) دوسرے جمعہ تک گناہوں کا کفارہ ہے)۔
 
ابوسعید خدری ؓ سے مروی ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
 
غسل يوم الجمعة على كل محتلم. وسواك. ويمس من الطّيب ما قدر عليه» [رواه مسلم 846]
 
 (جمعہ کے دن غسل کرنا ہر بالغ پر ضروری ہے، اسی طرح مسواک کرنا اور اگر قدرت ہوتو خوشبو کا استعمال کرنا)
 
6-نماز ِجمعہ کے لیے جلدی جانا مستحب ہے، لیکن  آج اس سنت کا جنازہ نکل رہا ہے، اللہ تعالیٰ اس سنت کو زندہ کرنے والوں کی زندگی میں برکت دے۔
 
اور آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
 
 إذا كان يوم الجمعة كان على كل باب من أبواب المسجد ملائكة يكتبون الأول فالأول. فإذا جلس الإمام طووا الصحف وجاؤوا يستمعون الذّكر. ومثل المهجر الّذي يهدي البدنة. ثم كالّذي يهدي بقرة. ثم كالّذي يهدي الكبش. ثم كالّذي يهدي الدّجاجة. ثم كالّذي يهدي البيضة» [رواه مسلم 850]
 
(جب جمعہ كا دن ہوتا ہے تو مسجد كے ہر دروزاے پر فرشتے كھڑے ہو كر پہلے آنے والے كو پہلے لكھتے ہيں، سب سے پہلے آنے والا شخص اس كى طرح ہے جس نے اونٹ قربان كيا ہو، اوراس كے بعد اس كى طرح جس نے گائے قربان كى اور اس كے بعد جس نے مينڈھا قربان كيا ہے، پھر وہ جس نے مرغى قربان كى ہو پھر وہ جس نے انڈا قربان كيا ہو، اور جب امام نکلے اور منبر پر بيٹھ جائے تو وہ اپنے رجسٹر لپيٹ كر ذكر سننے آجاتے ہيں)
 
بھائیو:
 
خیر کے کاموں میں سبقت کرنے والے کہاں ہیں ؟!
 
نمازوں کے لیے پہلے جانے والے کہاں ہیں ؟!
 
عزم وہمت اور پامردی والے لوگ کہاں چلے گئے ؟!
 
7-جمعہ کے دن مستحب ہے کہ امام کے خطبے کے لیے آنے تک لوگ نفل نمازوں، ذکر اور تلاوت قرآن میں مصروف رہیں۔
 
8-خطبہ کے دوران خاموش رہنا اور بغور خطبہ سننا واجب ہے، حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
 
إذا قلت لصاحبك يوم الجمعة أنصت، والإمام يخطب، فقد لغوت [متفق عليه].
 
(اگر تم نے جمعہ کے دن امام کے خطبہ کے دوران اپنے ساتھی سے کہا: خاموش رہو، تو تم نے غلطی کی)۔ اور احمد کی روایت میں اس طرح ہے: «’’اور جس نے غلطی کی اس( جمعہ  کے اجر وثواب) میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے‘‘۔
 
اور ابوداؤد کی روایت میں ہے: «اور جس نے غلطی یا خطا کی؛ تو وہ (جمعہ کے ثواب سے محروم ہوجاتا ہے) ظہر کا اجر پاتا ہے۔ [صححه ابن خزيمة].
 
9-جمعہ کے دن سورۂ کہف کی تلاوت مستحب ہے، حضرت ابوسعید خدری سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
 
من قرأ سورة الكهف في يوم الجمعة، أضاء له من النّور ما بين الجمعتين [صححه الألباني 6470 في صحيح الجامع]
 
(جس نے جمعہ کے دن سورۂ کہف پڑھی تو اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اس کے لیے نور کو روشن کردیا جاتا ہے)۔
 
10- جمعہ کے دن وقتِ جمعہ کے دُخول کے بعد جس پر جمعہ واجب ہوجائے اس کے لیے جمعہ سے پہلے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ [زاد المعاد 1/382].
 
11-بطور خاص جمعہ کے دن کو روزہ کے لیے خاص کرنا اور اس کی رات کو قیام کے لیے خاص کرنا مکروہ ہے، حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
 
لا تختصّوا ليلة الجمعة بقيام من بين الليالي. ولا تخصّوا يوم الجمعة بصيام من بين الأيام. إلا أن يكون في صوم يصومه أحدكم [رواه مسلم 1144]
 
 (جمعہ کی رات کو قیام کے لیے خاص نہ کرو، اور دنوں میں جمعہ کے دن کو روزے کے لیے  خاص نہ کرو، مگر یہ کہ کوئی سلسلہ وار  روزے رکھ رہا ہو)۔
 
12-جو شخص جمعہ کے دن روزہ رکھنے کا خواہاں ہو اسے چاہیے کہ وہ جمعہ سے پہلے والے دن (جمعرات) یا بعد والے دن(ہفتہ) کو رکھے؛ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
 
لا يصومنّ أحدكم يوم الجمعة إلا يوما قبله أو بعده [رواه البخاري 1985]
 
( تم میں سے کوئی جمعہ کے دن ہرگز روزہ نہ رکھے،مگر یہ کہ اس سے پہلے والے ایک دن(بھی) رکھے یا بعد والے دن)۔
 
13-جمعہ کی سنتیں: حدیث میں آیا ہے کہ ’’نبی کریم ﷺ جمعہ کے بعد دو رکعت پڑھتے تھے‘‘ [متفق عليه] اسی طرح یہ بھی وارد ہے کہ آپ ﷺ نے جمعہ کے بعد نماز پڑھنے والوں کو چار رکعت پڑھنے کا حکم دیا‘‘[مسلم].
 
اسحاق کہتے ہیں: اگر جمعہ کی (سنتیں) مسجد میں پڑھے تو چار پڑھے، اور اگر گھر میں پڑھے تو دو رکعت پڑھے۔ ابوبکر الاثرم کہتے ہیں: یہ دونوں بھی جائز ہے۔ [الحدائق لابن الجوزي 2/183].
 
14-اس شخص کے لیے مستحب ہے جو مسجد میں اُس وقت داخل ہو جب امام خطبہ دے رہا ہو کہ بیٹھنے سے پہلے دو  مختصر رکعتیں پڑھ لے؛ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے: نبی کریم ﷺ خطبۂ  جمعہ دے رہے تھے، سلیک الغطفانی آئے، اور بیٹھ گئے، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
 
إذا جاء أحدكم، يوم الجمعة، والإمام يخطب، فليركع ركعتين، وليتجوز فيهما [رواه مسلم 875]
 
( جب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن مسجد آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو چاہیے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھ لے)۔
 
15-جمعہ کے دن مستحب ہے کہ امام نمازِ جمعہ میں سورہ ٔ جمعہ اور سورہ ٔ منافقون، یا سورۂ  اعلی اور غاشیہ پڑھے، نبی کریم ﷺ یہ سورتیں پڑھا کرتے تھے‘‘۔ [مسلم].
 
جمعہ اور ہماری غلطیاں
 
أ-نمازیوں کی غلطیاں:
 
1-بعض لوگ نمازِ جمعہ کاہلی اور سستی کی وجہ سے چھوڑدیتے ہیں، حالانکہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
 
لينتهين أقوام عن ودعهم الجمعات. أو ليختمن الله على قلوبهم. ثم ليكونن من الغافلين [رواه مسلم 865]
 
(خبردار! لوگ جمعہ چھوڑنے سے رُک جائیں یا پھر اللہ تعالیٰ اُن کے دلوں پر مہر لگادے گا، پھر یہ لوگ غافلین میں سے ہوجائیں گے)۔
 
2-بعض لوگ نمازِ جمعہ کے لیے آتے وقت جمعہ کی نیت کے استحضار کا خیال نہیں رکھتے، اور عام معمول کے مطابق مسجد پہنچ جاتے ہیں، حالانکہ جمعہ اور دیگر عبادات کی درستگی کے لیے نیت کا ہونا شرط ہے۔آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
 
إنّما الأعمال بالنّيات [رواه البخاري 1] (اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے)۔
 
3-جمعہ کی رات میں دیر تک شب بیداری کرنا، اور نمازِ فجر کے وقت سوتے رہنا، جس کی وجہ سے جمعہ کے دن کا آغاز ہی کبیرہ گناہ سے ہوتا ہے، حالانکہ فرمان نبوی ﷺ ہے:
 
أفضل الصّلوات عند الله صلاة الصبح يوم الجمعة في جماعة [صححه الألباني 1566 في السّلسلة الصّحيحة]
 
(اللہ تعالیٰ کے نزدیک نمازوں میں افضل ترین نماز جمعہ کے دن کی باجماعت فجر کی نماز ہے)۔
 
4-خطبہ جمعہ میں شریک ہونے میں غفلت اورر سستی سے کام لینا،بعض لوگ خطبہ کے دوران مسجد پہنچتے ہیں اور بعض کا تو یہ حال ہوتا ہے اس وقت مسجد پہنچتے ہیں جب جمعہ کی نماز شروع ہوجاتی ہے۔
 
5-جمعہ کا غسل چھوڑنا، خوشبو کا استعمال نہ کرنا، مسواک کا اہتمام نہ کرنا اسی طرح جمعہ کے دن اچھے کپڑے زیب تن نہ کرنا۔
 
6-اذان جمعہ کے بعد خریدوفروخت کرنا؛ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
 
}يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ{ [الجمعة:9].
 
(مومنو! جب جمعے کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے گی تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو اور خرید وفروخت ترک کردو، اگر سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔)
 
ابن عباسؓ فرماتے ہیں: ’’اذان جمعہ کے بعد خرید وفروخت حرام ہے. ‘‘
 
7-بعض افراد نافرمانی کے کاموں کو جمعہ کے دن عبادت سمجھ کر کرتے ہیں، جیسے بعض لوگ کمالِ نظافت خیال کرتے ہوئے داڑھی کاٹتے ہیں۔
 
8-بعض لوگ اگلی صفوں کے پُر ہونے سے پہلے ہی مسجد کے آخری حصے میں بیٹھ جاتے ہیں، بلکہ بعض لوگ تو مسجد کے اندرونی حصے میں جگہ ہونے کے باوجود بیرونی حصے میں ہی بیٹھتے ہیں۔
 
9-کسی شخص کو اس کی جگہ سے ہٹاکر اس جگہ پر خود بیٹھنا: حضرت جابر ؓ سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
 
لا يُقيمنَّ أحدكم أخاه يوم الجمعة. ثمّ ليخالف إلى مقعده فيقعد فيه. ولكن يقول: افسحوا۔ [رواه مسلم 2178]
 
(جمعہ کے دن کوئی شخص اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے ہرگز نہ اٹھائے،کہ اس جگہ پر خود بیٹھے، بلکہ کہے: جگہ کشادہ کرو )۔
 
10-گردنوں کو پھلانگنا اور دو کے درمیان تفریق کرنا اور بیٹھے ہوئے لوگوں پر تنگی کرنا۔ ’’ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جمعہ كا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے كہ ايك شخص لوگوں كى گردنيں پھلانگتا ہوا آيا، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے فرمايا:
 
اجلس فقد آذيت وآنيت [رواه ابن ماجه 923 وصححه الألباني]  (بیٹھ جا تونے تکلیف دی اور تاخیر کی)۔
 
11-باتوں یا تلاوت کے ذریعے آواز بلند نہ کرے، کہ نمازیوں اور دیگر تلاوت کرنے والوں کو دشواری کا سامنا  نہ ہو۔
 
12-بغیر عذر کے اذان کے بعد مسجد سے نکلنا۔
 
13-خطبہ کے دوران خطیب کی جانب توجہ نہ دینا۔
 
14-دونوں خطبوں کے درمیان دو رکعت کا پڑھنا، ہاں دونوں خطبوں کے دوران کے وقفے میں دعا اور استغفار پڑھنا مشروع ہے۔ لیکن  نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔
 
15- نماز کے دوران کثرت سے حرکت کرنا، اور امام کا سلام پھیرتے ہی مسجد سے نکلنا، اور نماز کے بعد کے اذکار چھوڑ کر مسجد کے دروازوں پر بھیڑ کرنا۔
 
ب-خطباء اور واعظین کی غلطیاں:
 
1-خطبہ کا طویل کرنا اور نماز کا مختصر کرنا، حضرت عمارہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
 
إن طول صلاة الرّجل، وقصر خطبته، مئنة من فقهه -أي علامة- فأطيلوا الصّلاة واقصروا الخطبة. وإن من البيان سحرًا [رواه مسلم 869]
 
(آدمی کا نماز کو طویل کرنا اور خطبہ کو مختصر کرنا اس کے فقیہ ہونے کی علامت ہے، تو نماز کو طویل کرو اور خطبہ کو مختصر، اور بیشک تقریر جادو کا اثر رکھتی ہے)۔
 
2-خطبہ کے لیے مناسب موضوع کا انتخاب نہ کرنا اور اسی طرح مناسب تیاری نہ کرنا، اور ایسے موضوعات پر تقریر کرنا جس کی لوگوں کو کوئی خاص ضرورت نہ ہو۔
 
3-بہت سے  واعظین اور خطباء لغوی  غلطیوں کی جانب توجہ نہیں دیتے۔
 
4-بعض خطباء موضوع اور ضعیف احادیث اور بغیر سوچے سمجھے غلط اقوال نقل کرتے ہیں۔
 
5- بعض خطباء دوسرے خطبہ میں صرف دعا پر اکتفاء کرتے ہیں اور اسی کے عادی ہیں۔.
 
6-خطبہ کے دوران قرآن کی کسی بھی آیت کا پیش نہ کرنا، یہ انداز نبی کریم ﷺ کے طریقے کے خلاف ہے، حضرت حارثہ بنت نعمان فرماتی ہیں: میں نے سورۂ}ق وَالْقُرْآَنِ الْمَجِيدِ{ زبانی یاد نہیں کیا مگر ہر جمعہ آپ ﷺ سے خطبوں میں سن سن کر۔ [مسلم].
 
7-بعض خطباء کا خطبہ کے دوران جوش وولولہ کا اظہار نہ کرنا،حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں:
 
كان رسول الله -صلّى الله عليه وسلم- إذا خطب احمرّت عيناه، وعلا صوته، واشتد غضبه كأنه منذر جيش. [رواه مسلم 867]۔
 
(نبی کریم ﷺ  جب خطبہ ارشاد فرماتے تھے، تو آپ کی آنکھیں سرخ ہوجاتی تھیں، آواز بلند ہوجاتا تھا،اور آپ کا غصہ شدید ہوجاتا تھا ایسا لگتا تھا کہ آپ کسی لشکر کو آگاہ فرمارہے ہیں )۔
 
وصلى الله وسلم وبارك على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم.
 
http://www.wathakker.info/ur/flyers/view.php?id=805

</div>

Why Friday Khutbah (Sermons) are ineffective ?

جمعہ کا خطبہ غیر موثر کیوں ہوتا ہے ؟

Why Friday Khutbah (Sermons) are ineffective ?جمعہ کا خطبہ غیر موثر کیوں ہوتا ہے ؟

Why Friday Khutbah (Sermons) are ineffective ?جمعہ کا خطبہ غیر موثر کیوں ہوتا ہے ؟

جمعہ “جمع” سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں: جمع ہونا؛ کیونکہ مسلمان اِس دن بڑی مساجد میں جمع ہوتے ہیں اور امت ِمسلمہ کے اجتماعات ہوتے ہیں ، اِس لیے اِس دن کو جمعہ کہا جاتا ہے۔ چھ ایام (ادوار) میں اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان اور تمام مخلوق