Milad un Nabi Celebrating Birthday of Prophet Muhammad تحقیقی جائزہ میلاد النبی ﷺ

ربیع الاول مبارک مہینہ ہے جس میں نبی آخر زمان حضرت محمد  ﷺ کی ولادت با سعادت ہوئی – تمام دنیا کے مسلمان آپ کی محبت میں اس مبارک ماہ اور خاص طور پر ١٢ ربیع الاول جس پر اکثریت محققین متفق ہیں کہ یہ آپ کی آمد مبارکہ اکا دن تھا خوشیاں مناتے ہیں – یہ کوئی اسلامی مذہبی تہوار نہیں بلکہ مسلمانوں کا انفرادی کلچرل ایونٹ ہے جو عوام میں مقبول ہو چکا ہے- اسے دین اسلام کا حصہ سمجھنا درست نہیں- لیکن کیونکہ اس کی نسبت عظیم ہستی ﷺ کی طرف ہے تو تہذیب اور ادب آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے- صحابہ کرام جو آپ کی قربت میں تھے اور رحمتوں سے مستفیض ہوتے تھے ان کو اس اہتمام کی ضرورت نہ محسسوس ہوئی- مگر صدیوں بعد اپنے محبوب نبی حضرت محمد  ﷺ کی یاد کا ایک خاص موقع ان میں ولولہ محبت کے اظھار کا زریعہ ہے- جو خاموشی سے باطنی طور پر خوش ہیں یا جو خوشی کا اظھار با وقار طریقه سے کریں اس پر اختلاف ہے کیونکہ اس کا طریقه اجتہادی ہے کچھ حضرات اسے بدعہ کہتے ہیں، اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے-

حضرے عیسی علیہ السلام نے علماء یہود کو کہا کہ تم اندھے رہنما ہو جو خود اونٹ کھا جاتے ہو اور دوسروں کے شربت کے گلاس میں مچھر پکڑتے ہو۔  یعنی علماء یہود خود انتہائی بڑے غیر شرعی کام کرتے تھے اور عوام کی معمولئ غلطیوں پر فتوے لگاتے تھے۔ یہی روش مسلمان علماء کی ہے۔ چھوٹے فروعی اختلافات کو خوب اچھالتے ہیں اور خود بہت بڑی بدعات کے مرتکب ہوتے ہیں- [تفصیل #1] 

 [Methew 23:24] You blind guides! You strain out a gnat but swallow a camel.

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے ہاں اس کے والد، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہیں بن جاتا” … [بخاری: (15) مسلم: (44)]
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
علامہ ابن تیمیہ ، (رحمہ الله ) (728ھ) جن سے موجودہ دور کی بہت سی اسلامی تحاریک متاثر ہیں اور جن سے کچھ لوگ انسپایئریشن لیتے ہیں، میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کےثواب کومنانے والے کی ‘نیت’ کی ساتھ مشروط کرتے ہیں:
’’’اور اِسی طرح اُن اُمور پر (ثواب دیا جاتا ہے) جو بعض لوگ ایجاد کرلیتے ہیں، میلادِ عیسیٰ علیہ السلام میں نصاریٰ سے مشابہت (مکروہ) کے لیےیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور تعظیم کے لیے۔ اور اﷲ تعالیٰ اُنہیں اِس محبت اور اِجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر، اُن لوگوں کو جنہوں نے یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہ طور عید اپنایا۔‘‘- ’میلاد شریف کی تعظیم اور اسے شعار بنا لینا بعض لوگوں کا عمل ہے اور اِس میں اُس کے لیے اَجر عظیم بھی ہے کیوں کہ اُس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم بھی ہے، جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک اَمر اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے ہیں۔‘‘(ابن تيميه، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 406)
یہ جو علماء ہر بات پر بدعت کے فتوے لگاتے ہیں امام ابن تیمیہ ( رح) کو اپنا امام بھی مانتے ہیں ان لوگوں کی علمی حیثیت امام ابن تیمیہ ( رح) کے سامنے ایک زرہ برابر بھی نہیں- اس لئے آپ کی صوابدید ہے کہ امام ابن تیمیہ ( رح) کی بات قبول کریں یا ان  کی (واللہ اعلم )

ایک تصور کہ ہر وہ کام جو عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہیں تھا اور نہ خلفائے راشدین و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں اس کا ثبوت ملتا ہے، اسے اگر بعد میں کیا جائے تو – قطعِ نظر اچھائی یا برائی کے – وہ بدعت (یعنی نیا کام) ہونے کی بناء پر کلیتاً ناجائز اور حرام تصور ہوگا۔ اِس تصور کو قرآن و حدیث کی روشنی میں پرکھا جائے اور کتاب وسنت کے واضح دلائل سےمعلوم  کیا جائے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر فرحت و اِنبساط کا اِظہار کرنا ایک مشروع، مباح اور جائز عمل ہے یاگناہ؟ …….[………  ]

[ کیا میلاد منانا بدعت ہے؟ (کتاب) http://bit.ly/2BWXfZW]

Mawlid (مَولِد النَّبِي‎‎ Mawlidu n-nabiyyi, “Birth of the Prophet”) is the observance of the birthday of the Islamic prophet Muhammad which is celebrated often on the 12th day of Rabi’ al-awwal, the third month in the Islamic calendar.The 12th Day of Rabi’ al-awwall is the most popular date from a list of many dates that are reported as the birth date. The origin of Mawlid observance reportedly dates back to the early period of Islam. The Ottomans declared it an official holiday in 1588. The term Mawlid is also used in some parts of the world, such as Egypt, as a generic term for the birthday celebrations of other historical religious figures such as Sufi saints. Most denominations of Islam approve of the commemoration of Muhammad’s birthday; however, some denominations including Wahhabism/Salafism, Deobandism and the Ahmadiyya( declared non Muslims) disapprove its commemoration, considering it an unnecessary religious innovation (bid’ah or bidat). Mawlid is recognized as a national holiday in most of the Muslim-majority countries of the world except Saudi Arabia and Qatar which are officially Wahhabi/Salafi. Keep reading >>>

میلاد پر مزید تحقیق سے قبل یہ تحریر ….

جشن میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم ایک لمحہٴ فکریہ
مفتی محمد تقی عثمانی
12/ ربیع الاول کو عید میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم منانے کارواج کچھ عرصہ سے مسلسل چلا آرہا ہے، چوں کہ عہد صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین اور قرون اولیٰ میں اس ”عید“ کا کوئی پتا نشان نہیں ملتا۔ اس لیے اکابر علمائے حق ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ یہ دن منانے کی رسم ہم میں عیسائیوں اور ہندوؤں سے آئی ہے، تاریخ اسلام کے ابتدائی دور میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ملتی، لہٰذا اس رسم کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، مسلمانوں کااصل کام یہ ہے کہ وہ ان رسمی مظاہروں کے بجائے سرکار دوعالم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کی طرف متوجہ ہوں اور ایک دن میں عید میلاد مناکر فارغ ہوجانے کے بجائے اپنی پوری زندگی کو آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنے کی فکر کریں۔
یہ علمائے دیوبند اور علمائے اہل حدیث کا موقف تھا اور بریلوی مکتب فکر کے حضرات اس سے اختلاف کرتے تھے، لیکن اب چند سال سے جو صورت حال سامنے آرہی ہے، اس میں یہ مسئلہ صرف دیوبندی مکتب فکر کا نہیں رہا، بلکہ ہر اس مسلمان کا مسئلہ بن گیا ہے جو سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کی عظمت و محبت اور حرمت و تقدیس کا کوئی احساس اپنے دل میں رکھتا ہو، اب صرف علمائے دیوبند اور علمائے اہل حدیث ہی کو نہیں، بلکہ علمائے بریلی کو بھی اس پر پوری سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے کہ جشن عیدمیلاد النبی صلی الله علیہ وسلم کے نام پر یہ قوم دینی تباہی کے کس گڑھے کی طرف جارہی ہے؟ کیوں کہ جن حضرات نے ابتدا میں محفل میلاد وغیرہ کو مستحسن قرار دیا تھا، ان کے چشم تصور میں بھی غالباً وہ باتیں نہیں ہوں گی جو آج ”جشن میلادالنبی صلی الله علیہ وسلم“ کا جزوِ لازم بنتی جارہی ہیں۔
شروع میں محفل میلاد کا تصور ایک ایسی مجلس کی حد تک محدود تھا جس میں سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کا بیان کیا جاتا ہو، لیکن انسان کا نفس اس قدر شریر واقع ہوا ہے کہ جو کام وحی کی راہ نمائی کے بغیر شروع کیا جاتا ہے، وہ ابتدا میں خواہ کتنا مقدس نظر آتا ہو، لیکن رفتہ رفتہ اس میں نفسانی لذت کے مواقع تلاش کرلیتا ہے اور اس کا حلیہ بگاڑ کر چھوڑتا ہے، چناں چہ اب الله کے محبوب ترین پیغمبر صلی الله علیہ وسلم کے مقدس نام پر جو کچھ ہونے لگا ہے، اسے سن کر پیشانی عرق عرق ہوجاتی ہے۔
ہر سال ”عید میلاد النبی“ کے نام سے صرف کراچی میں ظلم وجہالت کے ایسے ایسے شرم ناک مظاہرے کیے جاتے ہیں کہ ان کے انجام کے تصور سے روح کانپ اٹھتی ہے، مختلف محلوں کو رنگین روشنیوں سے دلہن بنایا جاتا ہے اور شہر کے تقریباً تمام ہوٹلوں میں عید میلاد اس طرح منائی جاتی ہے کہ لاؤڈ اسپیکر لگاکر بلند آواز سے شب و روز ریکارڈنگ کاطوفان برپا رہتا ہے۔ بہت سے سینما ”عیدمیلاد کی خوشی میں“ سینکڑوں بلب لگا کر ان اخلاق سوز اور برہنہ تصویروں کو اور نمایاں کردیتے ہیں جو اپنی ہر ہر ادا سے سرکار دوعالم صلی الله علیہ وسلم کے احکام کی نافرمانی کی برملا دعوت دیتی ہیں اور انہی مقامات پر انسانیت کی تصویروں کے سائے میں شاید تبرک کے خیال سے خانہ کعبہ اور روضہ اقدس کی تصویریں بھی چسپاں کردی جاتی ہیں، ایک محلہ میں قدم قدم پر روضہ اطہر اور مسجد نبوی کی شبیہیں بناکر کھڑی کی جاتی ہیں، جنہیں کچھ بے فکرے نوجوان ایک تفریح گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور کچھ بے پردہ عورتیں انہیں چھو چھوکر ”خیر و برکت“ حاصل کرتی ہیں اور ظاہر ہے کہ جب پورے محلہ کو روشنیوں میں نہلاکر، جگہ جگہ محرابیں کھڑی کرکے اور قدم قدم پر فلمی ریکارڈ بجاکر ایک میلے کا سماں پیدا کردیا جائے تو پھر عورتیں اور بچے ایسے میلے کو دیکھنے کے لیے کیوں نہ پہنچیں جس میں میلے کا لطف بھی ہے اور (معاذ الله) تعظیم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ثواب بھی؟! چناں چہ راتوں کو دیر تک یہاں تفریح باز مردوں، عورتوں اور بچوں کا ایسا مخلوط اجتماع رہتا ہے جس میں بے پردگی، غنڈہ گردی اور بے حیائی کو کھلی چھوٹ ملی ہوتی ہے۔
راقم الحروف ایکایک روز اس محلے سے گزرتے ہوئے یہ دل دوز مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور اس آیت قرآنی کے تصور سے روح کانپ رہی تھی، جس کا ترجمہ یہ ہے:
” اور ایسے لوگوں سے بالکل کنارہ کشی اختیار کرلو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشہ بنارکھا ہے اور دنیاوی زندگی نے ان کو دھوکہ میں ڈال دیا ہے اور اس قرآن کے ذریعے ان کو نصیحت کرو، تاکہ کوئی شخص اپنے کیے میں اس طرح گرفتار نہ ہوجائے کہ الله کے سوا اس کا کوئی حمایتی اور سفارش کرنے والا نہ ہو اور اگر وہ دنیا بھر کا معاوضہ دے ڈالے تب بھی نہ لیا جائے، یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے کیے میں گرفتارہوئے، ان کے لیے کھولتا ہوا پانی پینے کے لیے ہوگا اور کفر کے سبب دردناک سزا ہوگی۔“
الله تعالیٰ ہر مسلمان کو اس آیت کا مصداق بننے سے محفوظ رکھے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس محلے سے گزرتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے خاتم النبین صلی الله علیہ وسلم کا لایا ہوا دین پکار پکار کر یہ فریاد کررہا ہے کہ ”محمد عربی صلی الله علیہ وسلم کے نام لیواؤ! تم گم راہی اور بے حسی کے کس اندھے غار میں جاگرے ہو؟ کیا سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کے احسانات کا بدلہ یہی ہے کہ انہی کی محبت و عظمت کے نام پر ان کی ایک ایک تعلیم کو جھٹلاؤ؟ ان کے ایک ایک حکم کی نافرمانی کرو؟ اور ان کی یاد منانے کے بہانے جاہلیت کی ان تمام رسموں کو زندہ کرکے چھوڑو جنہیں اپنے قدموں تلے روندنے کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے تھے؟ خدا کے لیے سوچو کہ جس ذات کو سازورباب اور چنگ و بربط کے توڑنے کے لیے مبعوث کیا گیا تھا، اس کے ”جشن ولادت“ میں ساز ورباب سے کھیل کر تم کس غضب الٰہی کو دعوت دے رہے ہو؟ جس ذات نے عورت کے سر پر عفت و عصمت کا تاج رکھا تھا اور جس نے اس کے گلے میں عزت و آبرو کے ہارڈالے تھے، اس کی محبت و تقدیس کے نام پر تم عورت کو بے پردگی اور بے حیائی کے کس میلے میں کھینچ لائے ہو؟ جس ذات نے نام و نمود، ریا و نمائش، اسراف و تبذیر سے منع کیا تھا، یہ نمائشیں منعقد کرکے تم کس کی خوش نودی حاصل کرنا چاہتے ہو؟ اگر دین کی کوئی صحیح خدمت تم سے نہیں ہوسکتی، اگر تم اپنی عام زندگی میں الله کی نافرمانیوں کو ترک نہیں کرسکتے، اگرمحمد عربی صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات تمہارے عیش پرست مزاج کوبار معلوم ہوتی ہیں، توتمہاری زندگی کے بہت سے شعبے اس عیش پرستی کے لیے کافی ہیں، خدا کے لیے الله کے محبوب ترین پیغمبر صلی الله علیہ وسلم کے نام پر ہوا و ہوس کا یہ بازار لگاکر اس نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کا مذاق تو نہ اڑاؤ، اس کے تقدس اور پاکیزگی کے آگے فرشتوں کی گردنیں بھی خم ہوجاتی ہیں، اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھو کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کے ایک ایک حکم کی نافرمانی کرنے کے بعد تم کس چیز کی خوشی میں اپنے درودیوار پر چراغاں کررہے ہو؟ کیا تمہیں اس بات کی خوشی ہے کہ تم نے اپنی عملی زندگی میں اس دین برحق کی کوئی قدر صحیح سالم نہیں دیکھی؟“ لیکن عیش و نشاط کی گونجتی ہوئی محفلوں میں کون تھا جو دین مظلوم کی اس فریاد کو سن سکتا؟
جن لوگوں کا مقصد ہی اس قسم کے ہنگاموں سے عیش و نشاط کا سامان پیدا کرنا ہے، ان کا تو کوئی ذکر ہی نہیں، لیکن جو لوگ واقعتاً آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تعظیم و محبت ہی کے خیال سے اس قسم کے جشن مناتے ہیں، وہ بھی یہ بات فراموش کررہے ہیں کہ اسلام اور اکابر اسلام کو دوسرے مذاہب اور ان کے پیشواؤں پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام نے جہاں ہمیں ان کی تعظیم اور ان کے تذکرے کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے، وہاں ہمیں اس کا طریقہ بھی بتایا ہے، یہ وہ دین حق ہے جو ہمیں دوسرے مذاہب کی طرح رسمی مظاہروں میں الجھانے کے بجائے زندگی کے اصلی مقصد کی طرف متوجہ کرتا ہے اور اس کے لیے یہ اکابر اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔ ورنہ اگر اسلام بھی دوسرے مذاہب کی طرح ان رسمی مظاہروں کی طرح جانا جاتا تو آج ہم اس بات پر فخر محسوس نہ کرسکتے کہ ہمارا دین بفضلہ تعالیٰ اسی شکل میں محفوظ ہے جس شکل میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم اسے لے کر دنیا میں تشریف لائے تھے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کہ جب کسی مذہب کے پیروکار محض ظاہری رسموں اور نمائشوں میں الجھ جاتے ہیں تو رفتہ رفتہ اس مذہب کی اصل تعلیمات مٹتی چلی جاتی ہیں اور بالآخر بے جان رسوم کا ایک ایسا ملغوبہ باقی رہ جاتا ہے جس کا مقصد انسانی نفسانی خواہشات کی حکم رانی کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور جو مادہ پرستی کی بدترین شکل ہے، ان تمام تقریبات کا اصل مقصد تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ ان کے ذریعہ وہ خاص شخصیت یا وہ خاص واقعہ ذہن میں تازہ ہو جس کی یاد میں وہ تقریب منعقد کی جارہی ہے اور پھر اس سے اپنی زندگی میں سبق حاصل کیا جائے، لیکن انسان کا نفس بڑا شریر واقع ہوا ہے، اس نے ان تہواروں کی اصل روح کو تو بھلا کر،نابود کردیا اور صرف وہ چیزیں لے کر بیٹھ گیا جس سے لذت اندوزی اور عیش پرستی کی راہ کھلتی تھی۔ اس کی وضاحت ایک مثال سے ہوسکے گی۔
عیسائی قومیں ہر سال 25دسمبر کو کرسمس کا جشن مناتی ہیں، یہ جشن دراصل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جشن ولادت ہے اور اس کی ابتدا اسی مقدس انداز سے ہوئی تھی کہ اس دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کی تعلیمات کو لوگوں میں عام کیا جائے گا، چناں چہ ابتدا میں اس کی تمام تقریبات کلیسا میں انجام پاتی تھیں اور ان میں کچھ مذہبی رسوم ادا کی جایا کرتی تھیں، رفتہ رفتہ اس جشن کا سلسلہ کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا؟ اس کی مختصر داستان، جشن وتقریبات کی ایک ماہر مصنفہ ہیرزلٹائن ہے، اس سے سنیے، وہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مقالہ ”کرسمس“ میں لکھتی ہیں:
”کئی صدیوں تک کرسمس خالصتاً ایک کلیسا کا تہوار تھا، جسے کچھ مذہبی رسوم ادا کرکے منایا جاتا تھا، لیکن جب عیسائی مذہب بت پرستوں کے ممالک میں پہنچا تو اس میں ”سرمانی نقطہ انقلاب“ کی بہت سی تقریبات شامل ہوگئیں اور اس کا سبب گریگوری اعظم (اول) کی آزاد خیالی اور اس کے ساتھ مبلغین عیسائیت کا تعاون تھا، اس طرح کرسمس ایک ایسا تہوار بن گیا جو بیک وقت مذہبی بھی تھا اور لادینی بھی، اس میں تقدس کا پہلو بھی تھا اور لطف اندوزی کا سامان بھی۔“
اب کرسمس کس طرح منایا جانے لگا؟ اس کو بیان کرتے ہوئے میری ہیرزلٹائن لکھتی ہیں:
”رومی لوگ اپنی عبادت گاہوں اور اپنے گھروں کو سبز جھاڑیوں اور پھولوں سے سجاتے تھے، ڈرائڈس (پرانے زمانے کے پادری) بڑے تزک و احتشام سے امربیلیں جمع کرتے اور اسے اپنے گھروں میں لٹکاتے، سیکسن قوم کے لوگ سدابہار پودے استعمال کرتے۔“
انہوں نے آگے بتایا ہے کہ:
”کس طرح شجر کرسمس( Christmas Tree) کا رواج چلا، چراغاں اور آتش بازی کے مشغلے اختیار کیے گئے، قربانی کی عبادت کی جگہ شاہ بلوط کے درخت نے لے لی، مذہبی نغموں کی جگہ عام خوشی کے نغمے گائے گئے اور : ”موسیقی کرسمس کا ایک عظیم جزو بن گئی۔“
مقالہ نگار آگے رقم طراز ہے:
”اگرچہ کرسمس میں زیادہ زور مذہبی پہلو پر دیا گیا تھا، لیکن عوامی جوش و خروش نے نشاط انگیزی کو اس کے ساتھ شامل کرکے چھوڑا۔“
اور پھر… ”گانا بجانا، کھیل کود، رقص، ناٹک بازی اور پریوں کے ڈرامے تقریبات کا حصہ ہوگئے۔“ (انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ص، 642۔اے ج 5، مطبوعہ1950ء مقالہ “کرسمس“)
ایک طرف کرسمس کے ارتقاء کی یہ مختصر تاریخ ذہن میں رکھیے اور دوسری طرف اس طرز عمل پر غور کیجیے، جو چند سالوں سے ہم نے جشن عید میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم منانے کے لیے اختیار کیا ہوا ہے، کیا اس سے یہ حقیقت بے نقاب نہیں ہوتی کہ:
:
ایں رہ کہ تو می روی بہ ترکستان است
اسلام اس عالم الغیب کا مقرر کیا ہو ادین ہے جو اس کائنات کے ذرہ ذرہ سے باخبر ہے اور جس کے علم محیط کے آگے ماضی، حال اور مستقبل کی سرحدیں بے معنی ہیں، وہ انسانی نفس کی ان فریب کاریوں سے پوری طرح واقف ہے جو تقدس کا لبادہ اوڑھ کر انسانیت کو گم راہ کرتی ہیں، اس لیے اس نے خاص خاص واقعات کی یادگار قائم کرنے کے لیے ان تمام طریقوں سے پرہیز کا حکم دیا ہے، جو ان کی اصل روح کو فنا کرکے انہیں عیش و عشرت کی چند ظاہری رسوم کے لیے بہانہ بناسکتے ہوں، چناں چہ صحابہ رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین اور تابعین کے دور میں ہمیں کہیں نظر نہیں آتا کہ انہوں نے سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کی ولادت باسعادت جیسے عظیم الشان واقعہ کا کوئی دن منایا ہو، اس کے برخلاف ان کی تمام تر توجہات آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کو اپنانے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیغام کو پھیلانے کی طرف مرکوز رہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ چودہ سو سال گزرنے پر بھی ہم مسلمان بیٹھے ہیں اور اگر اسلام پر عمل کرنا چاہیں تو یہ دین ٹھیک اسی طرح محفوظ ہے جس طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان تک پہنچایا تھا۔
لہٰذا اگر ہم اپنے اسلاف کے اس طرز عمل کو چھوڑ کر غیر مسلم اقوام کے دن منانے کے طریقے کو اپنائیں گے تو مطلب یہ ہوگاکہ ہم دین کے نام پر کھیل تماشوں کے اسی راستے پر جارہے ہیں جس سے اسلام نے بڑی احتیاطی تدابیر کے ساتھ ہمیں بچایا تھا، آپ کو معلوم ہے کہ اسلام نے غیر مسلم اقوام کی مشابہت سے پرہیز کرنے کی جابجا انتہائی تدبیر کے ساتھ تلقین فرمائی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ عاشورہ محرم کا روزہ، جو ہر ا عتبار سے ایک نیکی ہی نیکی تھی، اس میں یہودیوں کی مشابہت سے بچانے کے لیے یہ حکم دیا گیا کہ صرف دس تاریخ کا روزہ نہ رکھا جائے، بلکہ اس کے ساتھ نو یا گیارہ تاریخ کا روزہ بھی رکھا جائے، تاکہ مسلمانوں کا روزہ عاشورہٴ یہود سے ممتاز ہوجائے۔
غور فرمائیے کہ جس دین حنیف نے اس باریک بینی کے ساتھ غیر مسلم اقوام کی تقلید، بلکہ مشابہت سے بچانے کی کوشش کی ہے، اس کو یہ کیسے گوارا ہوسکتا ہے کہ سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کا یوم پیدائش منانے کے لیے ان کی نقالی شروع کردی جائے جنہوں نے اپنے دین کو بگاڑ بگاڑ کر کھیل تماشوں میں تبدیل کردیا ہے؟
مذکورہ بالا حقائق کے پیش نظر ہم اپنے ملک کے تمام علماء، دینی راہ نما، مذہبی جماعتوں اور با اثر مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس مسئلے پر پوری سنجیدگی کے ساتھ غور فرمائیں، ہماری یہ اپیل صرف اہل حدیث اور دیوبندی مکتب فکر کے حضرات کی حد تک محدود نہیں، بلکہ ہم بریلوی مکتب فکر کے حضرات سے بھی یہی گزارش کرنا چاہتے ہیں ”عید میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم“ کے نام پر جو الم ناک حرکتیں اب شروع ہوگئی ہیں، وہ یقینا ان کو بھی گوارا نہیں ہوں گی۔ [بندہ: ابو محمود مفتی نسیم اللہ فانی]

…………………………………………………………………….

مذھب اور کلچر:
1. ہر سال ربیع الاول کے مہینہ میں میڈیا پر ایک لامتناہی بحث کا آغاز ہو جاتا ہے کہ میلاد النبی ﷺ کا سلیبریٹ کرنا گناہ ہے ، یہ بدعت ہے- اس کی سند نہیں ملتی- اسلام دین مکمل ہے، عقائد ، عبادات میں کوئی اضافہ ممکن نہیں نہ ہی ضرورت ہے- مگر ضروری ہے کہ اسلامی اقدار اور تہذیب کے دائرہ کا خیال رکھا جائے-

2.یہ پاپولر تہواردو تین سو سال قبل کی اسلامی تحاریک سے بہت پہلےمسلمان عوام نے محبت رسول الله ﷺ میں منانا شروع کیا – میلاد النبی ﷺ پاپولر اسلامی کلچر کا صدیوں پرانا حصہ ہے جو تمام دنیا کے مسلمان (ماسوائے سعودی عرب اور قطر) سرکاری طور پر تعطیل کے ساتھ مناتے ہیں- خلافت عثمانیہ میں 1588 سے سرکاری تعطیل کے ساتھ منایا جاتا تھا –  دن کا آغاز گن سلوٹ سے ہوتا ہے- نعت خوانی ( مدحِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی محافل منعقد ہوتی ہیں جس میں علماءاکرام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت، آپ کی ذات مبارکہ اور سیرت طیبہ کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اسی طرح مختلف شعراء اور ثناء خواںِ رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں نعتیہ گلہائے عقیدت اور درود و سلام پیش کرتے ہیں، قرآن کی تلاوت، قرات کی محافل ہوتی ہیں، مخیر حضرت طعا م تقسیم کرتے ہیں-

3.یہ محافل مسلمانوں کا ایمان تازہ کرتی ہیں، دین کی طرف راغب کرتی ہیں، رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت میں اضافہ کرتی ہیں- عزیزوں، غرباء میں کھانے کی تقسیم سے محبت و  ثواب حاصل کرتے ہیں-
4. اہل علم ، تقدس پر زور دیتے ہیں ، خرافات (جن سے کوئی تہوارمبرا نہیں)  سے لا تعلقی اور کراہت کرتے ہیں-
5.ہم کو چاہیے کہ کلچر اور مذھب کے فرق کو سمجھیں، باریک لائن کو موٹا کریں-  ان پر زمانہ قدیم میں علماء بحث مباحثےکرکہ  تھک چکے ہیں- .بہت علماء نے اس کو جائز قرار دیا مگر جو جید علماء میلادالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منانے  کے مخالف تھے وہ بھی معاملہ کی نزاکت کی وجہ سے تنقید میں بہت محتاط تھے:
علامہ ابن تیمیہ (728ھ)جن سے موجودہ دور کی بہت سی اسلامی تحاریک متاثر ہیں اور جن سے کچھ لوگ انسپایئریشن لیتے ہیں، میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کےثواب کومنانے والے کی ‘نیت’ کی ساتھ مشروط کرتے ہیں:
’’’اور اِسی طرح اُن اُمور پر (ثواب دیا جاتا ہے) جو بعض لوگ ایجاد کرلیتے ہیں، میلادِ عیسیٰ علیہ السلام میں نصاریٰ سے مشابہت (مکروہ)  کے لیےیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور تعظیم کے لیے۔ اور اﷲ تعالیٰ اُنہیں اِس محبت اور اِجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر، اُن لوگوں کو جنہوں نے یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہ طور عید اپنایا۔‘‘- ’میلاد شریف کی تعظیم اور اسے شعار بنا لینا بعض لوگوں کا عمل ہے اور اِس میں اُس کے لیے اَجر عظیم بھی ہے کیوں کہ اُس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم بھی ہے، جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک اَمر اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے ہیں۔‘‘(ابن تيميه، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 406)
میلادالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کا رویہ :
١. یاد رکھیں کہ .یہ کوئی فرض عبادت نہیں کہ اس کو منانے یا نہ منانے پر نفرت کا اظھار کریں  اور کفریہ فتوے لگاے جائیں، مذہبی تنقید کی بجائے ناقدین اس کوصرف ایک مستحب یا مباح تقریب سمجھیں جو عظیم ترین مذہبی شخصیت سےان کے عقیدت مندوں کی طرف سے محبت کے اظھارکےلئے منعقد کی جاتی ہے- حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو الله تعالی نے تمام عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا وہ سب مسلمانوں کو پیارے ہیں- ان کی ذات اقدس پر کسی ایک فرقہ کی اجارہ داری نہیں-
٢.بدعت حسنہ (اچھی ، جائز بدعت) اور بدعت سییہ یا بدعت ضلاله (بری بدعت) کے فرق کو سمجھیں- (بدعتت – تفصیل >> )
٣. جومسلمان تحقیق و دلائل سے متفق ہیں کہ:
(i) میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  بدعت نہیں
یا اس کو
(ii) بدعت  حسنہ سمجھتے ہیں
یا
(iii) اس کومستحب یا مباح ، مسلمانوں کا سوشل ، کلچرل ایونٹ، تقریب  سمجھتے ہیں-
ایسے مسلمان میلادالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تقدس اور احترام سے منائیں، خرافات اور غیر اسلامی حرکات سے پرہیز اور لاتعلقی اور بیزاری اختیار کریں- جو بھائی نہیں شامل ہوتے ان پرتنقید نہ کریں- اگر ضروری سمجھیں توخوشگوار اوراحسن طریقه سے اپنے موقف کامدلل اظھارکریں، فتویٰ بازی دشنام طرازی سے پرہیز کریں، سکوت بہتر ہے-

٤. جو مسلمان بھائی اس تقریب کو رسول الله کی محبت کی وجہ سے جائز نہیں سمجھتے، وہ میلادالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ منائیں، سکوت اورتوقف اختیار کریں- اگربہت ضروری سمجھتے ہیں تو خوشگوار اوراحسن طریقه سے اپنے موقف کا اظھارکریں، فتویٰ بازی دشنام طرازی سے پرہیز کریں-
٥. تمام مسلمان بھائیوں سے درخواست ہے کہ اپنے مسلکی اختلافات پس پشت ڈال کردوسروں کو تنقید کا نشانہ بنا نے کی بجانے اپنا وقت تعمیری کاموں میں لگائیں، سوسائٹی کوانتشار، فرقہ بازی اور  اخلاقی انحطاط سے نکالنے کی کوشش کریں، اسلام کو ان  سےشدید خطرہ ہے-
 ضروری ہے کہ ایسا ایونٹ جس کا تعلق کاینات کی عظیم ترین ہستی سے ہو اس کا تاریخ، مذہب اور سوشل کلچر کے بیک گراؤنڈ کو مد نظر رکھ کر جائزہ لیا جائے تاکہ مسلمان غیر ضروری مباحیث میں وقت کا ضیا نہ کریں اور نہ ہی کوئی ایسے اقدام کریں جو نامناسب ہوں …

 ……………………………………………………………

فیس بک پوسٹ : https://www.facebook.com/salaamone /posts/1512841395462061

اس پوسٹ کامختصر لنک : https://goo.gl/xIQyRB
………………………………..
وارننگ WARNING
میلادالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منانے والے اور اس کو بدعت یا ضلاله قرار دینےوالے اچھی طرح سے غور کر لیں کہ:
  1.  یہ تقریب یا معاملہ  کا کس ذات اقدس کے ساتھ تعلق ہے؟
  2. کیا یہ اسلام کے بنیادی عقائد، ایمان اور عبادات کا حصہ یعنی  فرض، سنت، نفل ہے یا مستحب، مباح، صرف ایک اظھار محبت کی تقریب-
  3. اگرآپ کا نظریہ غلط ہو تو اس کا کیا مطلب اور کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟
  4. کیا اس کی حمایت یا ممانعت میں کوئی واضح حکم  یا احکام قرآن و سنت میں موجود ہیں؟
  5. اگر  واضح حکم  یا احکام موجود نہیں تو جو تفاسیراور دلائل علماء نے اس کے حق یا مخالفت میں پیش کرتے ہیں ان کی علمی ،عقلی حیثیت کیا ہے اور کس حد تک قابل اعتبارہیں ؟ 
  6. اگر یہ اجتہادی معاملہ ہے تواس کے حق یا مخالفت، دونوں سورتوں میں کوئی گناہ نہیں کیونکہ درست اجتہاد پردو  ثواب اور غلط اجتہاد پر ایک ثواب ملتا ہے-
  7. میلادالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منانے والےاگر  الله کے سامنے اس معاملہ پر  پیش ہوں تو کہیں گے کہ اس کی ممانعت کا حکم موجود نہیں تھا ، مستحب ، مباح سمجھ کر منایا – ہماری نیت توصرف رسول الله سے محبت اور عقیدت کا اظھار تھا نہ شرک نہ غلو- کیا الله تعالی ان کو سزا دے گا یا جزا؟
  8. میلادالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بدعت ضلاله (گناہ)  قراردے کرشدید  مخالفت کرنے والے اگر الله  تعالی کے سامنے  اس معاملہ پر پیش ہوں تو کہیں گے کہ ہم نے میلادالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کی کیونکہ ہمارے خیال میں اس کو منانے کا حکم نہ قرآن و سنّت میں تھا، نہ صحابہ اکرام نے منایا- 

  9. یقیناً اللہ کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (8:22 قرآن) جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی، اُسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی اِن باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں، جو دانشمند ہیں (2:269 قرآن)
    تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً خدا سُننے والا اور جاننے والا ہے (8:42 قرآن)
  10. درج ذیل تحقیق پڑھ کر فیصلہ آپ خود کریں 
میلاد النبی ﷺ- تحقیقی جائزہ :

عید میلاد النبی، یا جشن عید میلاد النبی یا صرف میلاد النبی (عربی: مَوْلِدُ النَبِيِّ‎) ایک اسلامی تہوار یا خوشی کا دن ہے جو اکثر مسلمان (سنی و شیعہ سوائے سلفیوں کے, جو اس کو غیر اسلامی بدہ کہتے ہیں، بدعت ، بدا، Bida’ah کیا ہے؟ یھاں پڑھیں) مناتے ہیں۔ یہ دن مسلمان ہر سال اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت کی مناسبت سے مناتے ہیں۔ یہ ربیع الاول کے مہینا میں آتا ہے جو اسلامی تقویم کے لحاظ سے تیسرا مہینا ہے۔ ویسے تو میلاد النبی اور محافلِ نعت کا انعقاد پورا سال ہی جاری رہتی ہیں، لیکن خاص ماہِ ربیع الاول میں عید میلاد النبی کا تہوار پوری مذہبی عقیدت اور احترام سے منایا جاتا ہے۔ یکم ربیع الاول سے ہی مساجد اور دیگر مقامات پر میلاد النبی اور نعت خوانی ( مدحِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی محافل شروع ہو جاتی ہیں جن علماءاکرام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت، آپ کی ذات مبارکہ اور سیرت طیبہ کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اسی طرح مختلف شعراء اور ثناء خواںِ رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں نعتیہ گلہائے عقیدت اور درود و سلام پیش کرتے ہیں۔ 12 ربیع الاول کو کئی اسلامی ممالک میں سرکاری طور پر عام تعطیل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، کوریا، جاپان اور دیگر غیر اسلامی ممالک میں بھی مسلمان کثرت سے میلادالنبی اور نعت خوانی کی محافل منعقد کرتے ہیں۔

Mawlid (مَولِد النَّبِي‎‎ mawlidu n-nabiyyi, “Birth of the Prophet”) is the observance of the birthday of the Islamic prophet Muhammad which is celebrated often on the 12th day of Rabi’ al-awwal, the third month in the Islamic calendar.The 12th Day of Rabi’ al-awwall is the most popular date from a list of many dates that are reported as the birth date. The origin of Mawlid observance reportedly dates back to the early period of Islam. The Ottomans declared it an official holiday in 1588. The term Mawlid is also used in some parts of the world, such as Egypt, as a generic term for the birthday celebrations of other historical religious figures such as Sufi saints. Most denominations of Islam approve of the commemoration of Muhammad’s birthday; however, some denominations including Wahhabism/Salafism, Deobandism and the Ahmadiyya disapprove its commemoration, considering it an unnecessary religious innovation (bid’ah or bidat). Mawlid is recognized as a national holiday in most of the Muslim-majority countries of the world except Saudi Arabia and Qatar which are officially Wahhabi/Salafi. Keep reading >>>

اس کو بدعت کہ کر مسترد کرنا مناسب نہیں-
 بدعت کیا ہے؟ 
مختصر: ’بدعت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جو ’’بَدَعَ‘‘ سے مشتق ہے۔ اس کا معنی ہے : کسی سابقہ مادہ، اَصل، مثال، نمونہ یا وجود کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا؛ یعنی کسی شے کو عدمِ محض سے وجود میں لانے کو عربی زبان میں ’’اِبداع‘‘ کہتے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں بدعت کا حکم ہر اُس فعل یا مفعول کیلئے استعمال ہوتا ہے جسکا وجود قرآن و سنت کی نص سے ثابت نہ ہو اور وہ مابعد قرآن و سنت ظاہر ہو۔ ہر وہ نئی چیز، جو شریعت کے کسی اصول کے خلاف جا رہی ہو، وہ بدعت کے زمرے میں آتی ہے۔ رسول اکرم ﷺ کی حدیث سے ماخوز ہے کہ ہر وہ عمل، جو کسی سنت کو ختم کر دے، وہ بدعت (سنتِ سئیہ) کے زمرے میں آجائے گا۔
“ما احدث قوم بذعۃ ال رفع مثلھا من السنۃ” – جب کوئی قوم بدعت ایجاد کرتی ہے تو اسی کی مثل سنت ختم ہو جاتی ہے۔ (مشکوۃ، ص ۳۱)
 بدعت وہ ہے جن کے اختیار کرنے سے سنت بدل جائے۔ اگر کسی عمل سے سنت نہیں بدلتی تو وہ عمل بدعت بھی نہیں کہلائے گا۔
مَنْ سَنَّ فِيْ الْاِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ کُتِبَ لَهُ مِثْلُ اَجْرٍ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلاَ يَنْقُصُ مِنْ اُجُوْرِهِمْ شَيْئٌ وَ مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ کُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرٍ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلاَ يَنْقُصُ مِنْ اَوْزَارِهِمْ شَيْئٌ.
‘‘جس شخص نے مسلمانوں میں کسی ‘‘نیک طریقہ ’’ (سُنَّةً حَسَنَةً)  (good practice) کی ابتدا کی اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کمی نہیں ہو گی، اور جس شخص نے مسلمانوں میں کسی برے طریقے(سُنَّةً سَيِّئَةً)(bad practice) کی ابتداء کی اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اس شخص کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔’’
مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2674

مسلم، الصحيح، کتاب الزکوٰة، باب الحث علی الصدقه، 2 : 705، رقم : 1017 نسائی، السنن، کتاب الزکاة، باب التحريض علی الصدقه، 5 : 55، 56، رقم : 2554 ابن ماجه، السنن، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، 1 : 74، رقم : 203 احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357.359 دارمی، السنن، 1 : 141، رقم : 514 ابن ابی شيبه، المصنف، 2 : 350، رقم : 9803 بيهقی، السنن الکبریٰ، 4 : 175، رقم : 7531ابو داؤد، السنن، کتاب السنة، باب لزوم السنة، 4 : 201، رقم : 4609
ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 1 : 75، رقم : 206
ابن حبان، الصحيح باب ذکر الحکم فيمن دعا إلی هدی او ضلالة فاتبع عليه، 1 : 318، رقم : 112
دارمی، السنن، 1 : 141، رقم : 513
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 397، رقم : 9149
أبو عوانة، المسند، 3 : 494، رقم : 5823

اگر غور کیا جائے تو واضح ہوگا کہ یہاں لفظِ ’’سنّت‘‘ سے مراد سنّتِ شرعی نہیں ہے بلکہ سنّتِ لغوی (practice) ہے۔ اگر من سنَّ فی الاسلام سُنّۃً سے مراد شرعی معنی میں سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا سنّتِ صحابہ ہوتی تو اسے سُنّۃً حَسَنَۃ اور سُنَّۃً سَیِّئَۃً میں ہرگز تقسیم نہ کیا جاتا۔ کیونکہ سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ہمیشہ حسنہ ہی ہوتی ہے، اس کے سیّئہ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لفظ تو ’’سنّت‘‘ کا استعمال فرمایا ہے مگر اس کے اطلاق میں حسنہ اور سیّئہ دو اقسام بیان کی ہیں اور ایک پر اجر اور دوسری قسم پر گناہ کا اطلاق فرمایا گیا ہے۔ واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
السواد الاعظم عربی زبان میں “عظیم-ترین (بڑی) جماعت” کو کہتے ہیں. [الصحاح للجوهري:١/٤٨٩] حدیث پاک میں اس کا ذکر:
عن ابن عمر قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : لا یجمع اللّٰہ ھذہ الأمۃ علی الضلالۃ ابدا. وقال ید اللّٰہ علی الجماعۃ. فإذا شذ الشاذ منھم إختطفتہ الشیاطین۱؂. فاذا رأیتم إختلافا.۲؂فاتبعوا السواد الأعظم، فإنہ من شذ، شذ فی النار.(مستدرک،کتاب العلم(ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ میری امت کو کبھی ضلالت پر جمع نہیں کرے گا۔اور آپ نے فرمایا:نظم اجتماعی پر اللہ کا ہاتھ ہے۔تو جو اس سے الگ ہوا،شیاطین اسے اچک لے جائیں گے۔چنانچہ،جب تم (اس میں) اختلاف پاؤ تو (اس کے ساتھ وابستہ رہنے کے لیے) سوادا عظم کی رائے کی پیروی کرو، اس لیے کہ جو الجماعۃ سے الگ ہوا،وہ دوزخ میں پڑا۔

رہبانیت ایجاد کی، مگر اس کا حق ادا نہ کیا :

 

ثُمَّ قَفَّیۡنَا عَلٰۤی اٰثَارِہِمۡ بِرُسُلِنَا وَ قَفَّیۡنَا بِعِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡاِنۡجِیۡلَ ۬ ۙ وَ جَعَلۡنَا فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ رَاۡفَۃً وَّ رَحۡمَۃً ؕ وَ رَہۡبَانِیَّۃَۨ ابۡتَدَعُوۡہَا مَا کَتَبۡنٰہَا عَلَیۡہِمۡ اِلَّا ابۡتِغَآءَ رِضۡوَانِ اللّٰہِ فَمَا رَعَوۡہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا ۚ فَاٰتَیۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡہُمۡ اَجۡرَہُمۡ ۚ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ [سورة الحديد 57 آیت: 27]

“ان کے بعد پھر بھی ہم اپنے رسولوں کو پے درپے بھیجتے رہے اور ان کے بعد عیسیٰ بن مریم ( علیہ السلام ) کو بھیجا اور انہیں انجیل عطا فرمائی اور ان کے ماننے والوں کے دلوں میں شفقت اور رحم پیدا کر دیا ہاں رہبانیت ( ترک دنیا ) تو ان لوگوں نے از خود ایجاد کر لی تھی ہم نے ان پر اسے واجب نہ کیا تھا سوائے اللہ کی رضا جوئی کے ۔ سوا انہوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی پھر بھی ہم نے ان میں سے جو ایمان لائے تھےانہیں ان کا اجر دیا اور ان میں زیادہ تر لو گ نافرمان ہیں” [سورة الحديد 57 آیت: 27]

عَنْ أَبِي هُرَيْرَة أَنَّ رَسُوْل اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ دَعَا إِلَی هُدًی، کَانَ لَهُ مِنَ الأجْرِ مِثْلَ أُجُوْرِ مَنْ يَتَّبِعُهُ، لَا يُنْقِصُ ذَلِکَ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْئًا. وَمَنْ دَعَا إِلَی ضَلَالَةٍ، کَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ يَتَّبِعُهُ، لَا يُنْقِصُ ذَلِکَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا.
‘‘حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے ہدایت کی طرف بلایا اس کے لئے اس راستے پر چلنے والوں کی مثل ثواب ہے اور ان کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہ ہوگا اور جس نے گناہ کی دعوت دی اس کے لئے بھی اتنا گناہ ہے جتنا اس بد عملی کا مرتکب ہونے والوں پر ہے اور ان کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔’

مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، و من دعا إلی هدی او ضلالة، 4 : 2060، رقم : 2674- ترمذي، السنن، کتاب العلم عن رسول اﷲA، باب ما جاء فيمن دعا إلی هدی فاتبع او إلی ضلالة، 5 : 43

حضرت انس رضی الله عنہ، رسول الله صلے الله علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ”میری امت کسی گمراہی پر جمع (متفق) نہیں ہوگی بس جب تم (لوگوں میں) اختلاف دیکھو تو سواد اعظم (بڑی-جماعت) کو لازم پکڑلو(یعنی اس کی اتباع کرو)” [سنن ابن_ماجہ: کتاب الفتن، باب السواد الاعظم]
دوسری روایت میں حضرت ابن عمر(رضی الله عنہ) سے حدیث میں ہے : کہ…بس تم سواد اعظم کا اتباع (پیروی) کرو، کیونکہ جو شخص الگ راستہ اختیار کریگا جہنم میں جا رہیگا.[مستدرک حاکم: کتاب العلم، ١/١١٥]

عظیم ترین  بدعت سَیِّئَۃً :

دوسروں کی آنکھ میں تنکا ڈھونڈھنے کی بجائے ہمیں اپنی آنکھ کے شہتیر کو دیکھنا ہے- یہ بریلوی، دیوبندی ، اہل حدیث، حنفی ، مالکی، حنبلی ، شافعی، سلفی، وہابی، شیعہ نام کدھر سے آگئے؟  کیا الله کا دیا نام پسند نہیں؟
جو عمل قرآن کے واضح حکم کے خلاف ہو اس کو“بدعت سَیِّئَۃً” کہنا چاہیے یا کچھ اور؟
هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَـٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ  ( سورة الحج22:78)
“اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام “مسلم” رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ”  ( سورة الحج22:78)
مسلمان کو اپنے آپ کو مسلمان کہلانا قابل عزت اور قابل فخر بات ہے- اس کے علاوہ ہر نام  کیا بدعت سَیِّئَۃً نہیں؟
إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّـهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ( ١٥٩ سورة الأنعام)
“جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں، ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے-
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ ( آل عمران،3 :103)
’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘( آل عمران،3 :103)

ہم سب مسلمان ہیں, صرف مسلمان کہلائیں-مزید پڑھیں >>>>>

مشہور بدعات( حسنہ):
١ . قرآن پاک کی کتابت و تدوین دو جلدوں کی شکل میں جو رسول الله ﷺ کے دور میں نہ تھی، مگر ضروری سمجھ کر خلفاء راشدین نے طویل مشاورت اور اجتہاد سے کی- یہ کام کتنا ضروری تھا ، اس کا اندازہ بائبل کی موجودہ حالت سے لگایا جا سکتا ہے- ٢ .قرآن پاک پراعراب حجاج بن یوسف نے لگوا یے تاکہ ایک قرات سے درست قرآن پڑھا جایے- عرب میں اعراب کا رواج نہیں مگر عجمی کو اشد ضرورت ہے- ٣ .تراویح نماز ایک بہت نیک فعل ہے جس کا بہت بڑا اجر ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے دوران یہ تراویح فقط “تین” راتوں تک ادا فرمائی، صحابہ کرام نے اپنے اجتہاد کے مطابق اس “نئے” عباداتی فعل کو 30 راتوں تک پھیلایا ہے کیونکہ اس میں کوئی قباحت نہیں- ٤ .ایمانِ مفصل و ایمانِ مجمل، چھ کلمے وغیرہ بعد کے ادوار کے بزرگان دین نے مرتب کئے اور آج بھی تعلیمات دین کا بنیادی جزو ہیں۔ ٥. لاووڈ سپیکر، ویڈیو ، انٹیر نیٹ اور جدید ٹیکنالوجی کا مساجد اور عبادات میں استمعال-(ابتدا میں حرام کہا گیا بعد میں حلال اور ضروری ہو گیا) ٦ .حضرت بلالؓ کا اذان کے بعداپنی طرف سے دو رکعت نماز ادا کرنے کا رواج- ٧ .صحابی کا اپنے اجتہاد کے مطابق نماز میں “ذکر” کے نئے کلمات ادا کرنا(صحیح بخاری، کتاب الاذان ، حدیث نمبر 800) ٨.عید میلاد النبی، درود و سلام اور محافل نعت جو کہ باقاعدہ طور پر بعد ازاں جاری کی گئیں امت مسلمہ کے دلوں میں جذبہ محبت و عشق رسول موجزن رکھنے میں معاون ثابت ہوئیں۔ (غیر اسلامی خرافات اس کا حصہ نہیں ) ٩.مرحومین کے ایصال ثواب کے لیے یا ویسے ہی قرآن اور حمدونعت خوانی کا اہتمام، خاص طور پر، قل ، چالیسواں وغیرہ- ١٠.مساجد میں محراب، گنبد اور محراب وغیرہ کا آغاز پہلی دفعہ فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں ہوا۔ یہ بدعت بھی تمام اسلامی ممالک میں آج تک مستعمل ہے۔ ١١ .تبلیغی جماعت کے اجتماعات، جو بہت اچھے مقصد حاصل کر رہے ہیں. ١٢.نماز جمعہ کی پہلی اذان. ١٣.اذان فجر میں میں “الصلاہ خیر النوم” کا اضافہ- ١٤ ہر .نماز اور نماز جنازہ کے بعد مشترکہ دعا ١٥.جمعہ کی نماز سے قبل ٤ رکعت ١٦.جمعہ میں تین خطبہ ، ایک اردو میں اور دو عربی میں ١٧.قضاء عمری کی نمازیں پڑھنا ١٨ نماز عید سے پہلے خطبہ ١٩.اذان سے قبل درود شریف پڑھنا ٢٠ . مساجد میں قالین (پہلی بدعت حسنہ) اور اعلی تعمیر و تزئین- ٢١ .پیدائش پر بچہ کی بائیں کان میں اقامت کہنا(سنت صرف دائیں کان میں اذان دینا ہے) ٢٢ .حضرت خبیب ؓ کی سنت، قتل ہونے سے قبل دو رکعت نماز پڑھنے کا رواج (صحیح بخاری، کتاب الجہاد و السیر) ٢٣.تبلیغ کے سہ روزے اور چلّے- ٢٤.بخاری شریف کا ختم کرنا- ٢٥. سیرت کانفرنسوں کا انعقاد- ٢٦.نماز کی نیت زبان سے ادا کرنا- ٢٧.جب مودودی صاحب نے خانہ کعبہ کا غلاف بنا کر شہر شہر جلوس کی شکل میں گھمایا تھا تو اسے بدعت کہنے والوں کو انھوں نے بہت دانشمندانہ جواب دیا تھا کہ ” یہ بدعت نہیں ہے کیونکہ اس میں کویؑ چیز شریعت کے مزاج کے خلاف نہیں ہے” –
مزید بدعات :مسلمان ایک دوسرے کے عقائد و نظریات پر تنقید کرتے ہوے بدعات کا الزام لگاتے ہیں: ١. امام کے پیچھے سوره فاتحہ کی تلاوت کو فرض قرار دینا. ٢. ننگے سر بغیرعذر نمازپڑھنا- ٣. ایک مٹھی سے زائد داڑھی کو سنت کہنا اور ایک مٹھی سے زائد داڑھی کاٹنے کو غلط کہنا- ٤. ٹانگیں پھیلا کر نماز پڑھنا ٥. رفع یدین کو سنت موکدہ یا فرض واجب کہنا- رفع یدین کے مسئلہ میں ائمہ اربعہؒ میں اجتہادئی اختلاف ہے شافعی اور حنبلی رفع یدین کرتے ہیں لیکن اسے فرض واجب یا سنت موکدہ نہیں سمجھتے جبکہ حنفی اور مالکی ترک رفع یدین کے قائل ہیں۔ رفع یدین کو سنت موکدہ یا فرض واجب کہنا اپنی نکالی ہوئی بدعت ہے۔ ٦۔ حلال جانوروں کی ہر چیز حلال ( پیشاب ، پاخانہ ، پیپ ، تھوک ) سمجھنا ۔ ٧. نا پاک کپڑوں میں نماز صحیح سمجھنا- ٩. شرعاً مرغ کی قربانی جائزسمجھنا- ١٠. بے وضو اور پلید شخص کا قرآن پاک کو چھونا ١١. تراویح ، تہجد اور وتر کو ایک ہی کہنا ١٢. دونوں ہاتھوں سے مصافحے کو غلط سمجھنا اور ایک ہاتھ سے مصافحے کو درست سمجھنا- ١٣. قربانی می ںقادیانی، مرزئی (غیر مسلم) کو بھی شریک کرنا- ١٤. اجماع حجت کو شرعیہ نہ سمجھنا ١٥. طلاق کی کوئی حد نہیں بار بار طلاق بار بار رجوع کرنا جائز- ١٦. غیر مجتہد بھی اجتہاد کرے- ١٧ . مساجد کو مخصوص فرقہ یا مسلک سے منصوب کرنا- کیا یہ سب بدعتیں “حسنہ” ہیں اور میلاد ﷺ منانے کی بدعت (معاذ اللہ) سیؑہ ہے؟
 بدعت کیا ہے؟ (مکمل <<تفصیل لنک  >> )
میلاد النبی پر<< سلفی تنقید – الشیخ عبد العزیز ابن باز>> تنقید کے جوابات نیچے ملاحظہ فرمائیں

Related image

 

محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت کے احوال کے اظہار و برکات کے سلسلہ میں لفظ میلاد کا اولین استعمال جامع ترمذی میں ہے، جو صحاح ستہ میں سے ایک حدیث کی کتاب ہے۔ اس میں ایک باب بعنوان ماجاء في میلاد النبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے۔ اس بات سے لفظ میلاد کے اولین استعمال کا نشاہدہی ہو جاتی ہے۔ اس باب میں وہ روایات جمع ہیں جن میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش کا ذکر ہے۔
اس دن سنی مسلمانوں کی ایک تعداد روزہ رکھتی ہے۔ جس کی وجہ اسلام میں شکر نعمت پر نماز یا روزہ رکھنے کی سنت ہے، خود محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق احادیث میں آیا ہے کہ وہ ہر پیر کے دن اپنی ولادت کی یاد میں روزہ رکھا کرتے ( کیوں کہ یہی ان کی پیدائش کا دن ہے)۔
جلوس
اس دن کئی ممالک میں خاص کر پاکستان، بھارت، ملائشیا، بنگلہ دیش وغیرہ میں عوامی جلوس نکالے جاتے ہیں، سڑکوں، چوراہوں کو سجایا جاتا ہے، جگہ جگہ کھانے پینے کا بندوبست کیا جاتا ہے، اور منچ بنائے جاتے ہیں، جن پر علماء سیرت کا بیان کرتے ہیں جو اس دن عام طور پر معجزات نبوی، ولادت نبوی، میلاد بطور نعمت کے تشکر جیسے عنوانات پر ہوتے ہیں۔ نعت خواں پارٹیاں ٹولیوں کی صورت نعتیں پڑھتی ہیں، اور جلوس مخصوص راستوں سے ہوتے ہوئے منزل پر اختتام پزیر ہوتا ہے۔ یہ جلوس عام طور پر 12 کو نکالے جاتے ہیں، لیکن پورا مہینا ہی شہر کے الگ الگ گوشوں میں چھوٹے پیمانے پر بھی جلوس، ریلیاں اور گھروں میں مجالس میلاد کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
تاریخ
میلاد کی ابتداء (عین ولادت کے دن پیدائش کی خوشی میں کچھ اعمال کا بجا لانا) کی وجوہات میں ربیع الاول میں مکہ شہر میں جائے ولادت پر مسلمانوں کا جانا اور قرآن خوانی کرنا، نعت گوئی کرنا اور درود وغیرہ پڑھنا شامل ہے۔ ڈاکٹر این میری شمل نے مجالس میلاد کے انعقاد اور میلاد کی ابتداء اور فروغ کے بارے میں جو رائے دی ہے اس لحاظ سے یا سلسلہ چوتھی صدی ہجری سے شروع ہوا ہے۔ امام سخاوی فرماتے ہیں کہ میلاد منانے کا رواج تین صدی بعد ہوا ہے اور اس کے بعد سے تمام ممالک میں مسلمان عید میلاد النبی مناتے چلے آ رہے ہیں۔ مروج میلاد کے سلسلہ میں سید سلیمان ندوی اپنی رائے میں لکھتے ہیں کہ جس نے اس مہینے کو ولادت نبوی کی یادگار اور محفل میلاد کا زمانہ بنایا۔ ملک معظم مظفر الدین ابن زین العابدین وہ پہلا شخص ہے، جس نے مجلس میلاد (سرکاری طور پر) قائم کی۔ ابن خلکان نے ملک مظفر شاہ اربل (549ھ تا 630ھ) کے حال میں لکھا ہے مولود شریف بڑی دھوم دھام اور تزک و احتشام سے منایا کرتا تھا، یہ صلیبی جنگوں کا دود تھا۔ اس کے لیے ابن وحیہ (متوفی 633ھ) نے 604ھ میں کتاب التنویر في مولد السراج المنین لکھی تھی اور بادشاہ نے اسے انعام و اکرام سے نوازا تھا، وہ مشائیر فضلاء میں سے تھا۔
جلال الدین سیوطی کے شاگرد، محمد بن علی یوسف دمشقی شامی نے سیرت شامی (سبل الدی و الدشاد فی سیرۃ خیر العباد) میں لکھا ہے کہ؛ سب سے پہلے مولود عمر بن محمد موصلی نے کیا تھا جو ایک نیک آدمی مشہور تھے اور ان کی پیروی سلطان اربل نے کی۔ مگر حسن مثنیٰ کی تحقیق کے مطابق سلطان اربل سے بھی پہلے سرکاری مجلس میلاد شاہ سلجوقی نے منائی؛ سلطان ملک شاہ سلجوقی نے 485ھ میں ایک مجلس مولود دھوم دھام سے بغداد میں منعقد کی۔ اس کا چرچا ہوا کیوں کہ یہ سرکاری طور پر تھی اس لیے اس کا تذکرہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔ ورنہ عوامی طور پر یہ دن عوام اپنے اپنے انداز میں منا رہی تھی۔
مآخذ میلاد
قرآن سے استدلال
قرآن میں ہے: اور انہیں اللہ کے دن یاد دلاؤ ۔ ( ابراہیم ، 5) عبد اللہ بن عباس کے نزدیک ایام اللہ سے مراد وہ دن ہیں۔جن میں رب تعالٰی کی کسی نعمت کا نزول ہوا ہو ۔ ( ان ایام میں سب سے بڑی نعمت کے دن سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت و معراج کے دن ہیں ، ان کی یا د قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے)۔
بلاشبہ اللہ تعالٰی کی سب سے عظیم نعمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ ہے ۔ ارشاد باری تعالٰی ہوا :
 بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا (آل عمران ،164)
آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ عظیم نعمت ہیں کہ جن کے ملنے پر رب تعالٰی نے خوشیاں منانے کا حکم بھی دیا ہے ۔ ارشاد ہوا ، ( اے حبیب ! ) تم فرماؤ ( یہ ) اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت ( سے ہے ) اور اسی چاہیے کہ خوشی کریں ، وہ ( خو شی منانا ) ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے ) ۔ ( یونس ، 58 ) ایک اور مقام پر نعمت کا چرچا کرنے کا حکم بھی ارشاد فرما یا، (اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو)۔ (الضحی 11، کنز الایمان)
خلاصہ یہ ہے کہ عید میلاد منانا لوگوں کو اللہ تعالٰی کے دن یا د دلانا بھی ہے، اس کی نعمت عظمی کا چرچا کرنا بھی اور اس نعمت کے ملنے کی خوشی منانا بھی۔ اگر ایمان کی نظر سے قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ذکر میلاد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالٰی کی سنت بھی ہے ۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی۔
سورہ آل عمران:
سورہ آل عمران کی آیت ( 81 ) ملاحظہ کیجیے ۔ رب ذوالجلا ل نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کی محفل میں اپنے حبیب لبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اور فضائل کا ذکر فرمایا ۔ گویا یہ سب سے پہلی محفل میلاد تھی جسے اللہ تعالٰی نے منعقد فرمایا ۔ اور اس محفل کے شرکاء صرف انبیاء کرام علیہم السلام تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری اور فضائل کا ذکر قرآن کریم کی متعدد آیات کریمہ میں موجود ہے۔
رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ کی چند محافل کا ذکر ملاحظہ فرمائیے۔ آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسجد نبوی میں منبر شریف پر اپنا ذکر ولادت فرمایا۔ (جامع ترمذی ج 2 ص 201)

آپ نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے منبر پر چادر بچھائی اور انہوں نے منبر پر بیٹھ کر نعت شریف پڑھی، پھر آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی۔ (صحیح بخاری ج 1 ص 65)

حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے غزوہ تبوک سے واپسی پر بارگاہ رسالت میں ذکر میلاد پر مبنی اشعار پیش کیے (اسد الغابہ ج 2 ص 129)
اسی طرح حضرات کعب بن زبیر ، سواد بن قارب ، عبد اللہ بن رواحہ ، کعب بن مالک و دیگر صحابہ کرام ( رضی اللہ عنہم ) کی نعتیں کتب احادیث و سیرت میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ بعض لوگ یہ وسوسہ اندازی کرتے ہیں کہ اسلام میں صرف دو عید یں ہیں لہذا تیسری عید حرام ہے ۔ ( معاذ ا للہ ) اس نظریہ کے باطل ہونے کے متعلق قرآن کریم سے دلیل لیجئے ۔ ارشاد باری تعالٰی ہے ، ( عیسیٰ بن مریم نے عرض کی ، اے اللہ ! اے ہمارے رب ! ہم پر آسمان سے ایک ( کھانے کا ) خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلوں پچھلوں کی)۔ (المائدہ ، 114، کنزالایمان)
صدر الافاضل فرماتے ہیں ، ( یعنی ہم اس کے نزول کے دن کو عید بنائیں ، اسکی تعظیم کریں ، خوشیاں منائیں ، تیری عبادت کریں ، شکر بجا لا ئیں ۔ اس سے معلوم ہو ا کہ جس روز اللہ تعالٰی کی خاص رحمت نازل ہو ۔ اس دن کو عید بنانا اور خوشیاں بنانا ، عبادتیں کرنا اور شکر بجا لانا صالحین کا طریقہ ہے ۔ اور کچھ شک نہیں کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اللہ تعالٰی کی عظیم ترین نعمت اور بزرگ ترین رحمت ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف پڑھ کر شکر الہی بجا لانا اور اظہار فرح اور سرور کرنا مستحسن و محمود اور اللہ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے ) ۔ ( تفسیر خزائن العرفان )۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت (الیوم اکملت لکم دینکم ) تلاوت فرمائی تو ایک یہود ی نے کہا، اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے۔ اس پر آپ نے فرمایا ، یہ آیت جس دن نازل ہوئی اس دن دو عیدیں تھیں، عید جمعہ اور عید عرفہ۔ (ترمذی) پس قرآن و حدیث سے ثابت ہوگیا کہ جس دن کوئی خاص نعمت نازل ہو اس دن عید منانا جائز بلکہ اللہ تعالٰی کے مقرب نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کی سنت ہے۔ چونکہ عید الفطر اور عید الاضحی حضور ﷺ ہی کے صدقے میں ملی ہیں اس لیے آپ کا یوم میلاد بدرجہ اولی عید قرار پایا۔
عید میلاد پہ ہوں قربان ہماری عیدیں کہ اسی عید کا صدقہ ہیں یہ ساری عیدیں
محدثین و علماء اسلام کی حمایت میں آراء
شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ اکابر محدثین کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ شب میلاد مصفطے صلی اللہ علیہ وسلم شب قدر سے افضل ہے، کیونکہ شب قدر میں قرآن نازل ہو اس لیے وہ ہزار مہینوں سے بہتر قرار پائی تو جس شب میں صاحب قرآن آیا وہ کیونکہ شب قدر سے افضل نہ ہو گی؟ 
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
محدث ابن جوزی
محدث ابن جوزی رحمہ اللہ (متوفی 597 ھ) فرماتے ہیں، (مکہ مکرمہ ، مدینہ طیبہ ، یمن ، مصر، شام اور تمام عالم اسلام کے لوگ مشرق سے مغرب تک ہمیشہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر محافل میلاد کا انعقاد کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہتمام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے تذکرے کا کیا جاتا ہے اور مسلمان ان محافل کے ذریعے اجر عظیم اور بڑی روحانی کامیابی پاتے ہیں)۔ 

 امام ابن حجر شافعی ( رحمہ اللہ ) ۔ ( م 852 ھ ) فرماتے ہیں ، ( محافل میلاد و اذکار اکثر خیر ہی پر مشتمل ہوتی ہیں کیونکہ ان میں صدقات ذکر الہی اور بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں درود و سلام پیش کیا جاتا ہے)۔ 

 امام جلال الدین سیوطی ( رحمہ اللہ ) ۔ ( م 911 ھ ) فرماتے ہیں ، ( میرے نزدیک میلاد کے لیے اجتماع تلاوت قرآن ، حیات طیبہ کے واقعات اور میلاد کے وقت ظاہر ہونے والی علامات کا تذکرہ ان بدعات حسنہ میں سے ہے ۔ جن پر ثواب ملتا ہے ۔ کیونکہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور آپ کی ولادت پر خوشی کا ا ظہا ر ہوتا ہے ) ۔ 

امام قسطلانی شارح بخاری رحمہ اللہ (م 923ھ) فرماتے ہیں، (ربیع الاول میں تمام اہل اسلام ہمیشہ سے میلاد کی خوشی میں محافل منعقد کرتے رہے ہیں۔ محفل میلادکی یہ برکت مجرب ہے کہ اس کی وجہ سے سارا سال امن سے گزرتا ہے ۔ اور ہر مراد جلد پوری ہوتی ہے۔ اللہ تعالٰی اس شخص پر رحمتیں نازل فرمائے جس نے ماہ میلاد کی ہر رات کو عید بنا کر ایسے شخص پر شدت کی جس کے دل میں مرض و عناد ہے)۔ 

امام صدر الدین موہوب بن عمر الجزری (م 665ھ)
قاضیء مصر صدر الدین موہوب بن عمر بن موہوب الجزری الشافعی فرماتے ہیں :

هذه بدعة لا بأس بها، ولا تُکره البِدع إلا إذا راغمت السُّنة، وأما إذا لم تراغمها فلا تُکره، ويُثاب الإنسان بحسب قصده في إظهار السرور والفرح بمولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم .
وقال في موضع آخر : هذا بدعة، ولکنها بدعة لا بأس بها، ولکن لا يجوز له أن يسأل الناس بل إن کان يَعلمْ أو يغلب علي ظنه أن نفس المسؤول تَطِيب بما يعطيه فالسؤال لذلک مباح أرجو أن لا ينتهي إلي الکراهة.

’’یہ بدعت ہے لیکن اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور بدعتِ مکروہ وہ ہے جس میں سنت کی بے حرمتی ہو۔ اگر یہ پہلو نہ پایا جائے تو (بدعت) مکروہ نہیں اور انسان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی حسبِ توفیق اور حسبِ اِرادہ مسرت و خوشی کے اظہار کے مطابق اجر و ثواب پاتا ہے۔
’’اور ایک دوسرے مقام پر کہتے ہیں : یہ بدعت ہے لیکن اس بدعت میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن اِس کے لیے لوگوں سے سوال کرنا جائز نہیں، اور اگر وہ یہ جانتا ہے یا اُسے غالب گمان ہے کہ اس کا سوال مسؤل کی طبیعت پر گراں نہیں گزرے گا اور وہ خوشی سے سوال کو پورا کرے گا تو ایسی صورت میں یہ سوال مباح ہوگا، اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ عمل مبنی بر کراہت نہیں ہوگا۔‘‘
صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 365، 366

 اِمام ظہیر الدین جعفر التزمنتی (م 682ھ)
اِمام ظہیر الدین جعفر بن یحیٰ بن جعفر التزمنتی الشافعی (م 1283ء) کہتے ہیں :

هذا الفعل لم يقع في الصدر الأول من السلف الصالح مع تعظيمهم وحبهم له إعظاماً ومحبة لا يبلغ جَمعُنا الواحدَ منهم ولا ذرّة منه، وهي بدعة حسنة إذا قصد فاعلها جمع الصالحين والصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم وإطعام الطعام للفقراء والمساکين وهذا القدر يثاب عليه بهذا الشرط في کل وقت.

’’محافلِ میلاد کے انعقاد کا سلسلہ پہلی صدی ہجری میں شروع نہیں ہوا اگرچہ ہمارے اَسلاف صالحین عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس قدر سرشار تھے کہ ہم سب کا عشق و محبت ان بزرگانِ دین میں سے کسی ایک شخص کے عشقِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں پہنچ سکتا۔ میلاد کا انعقاد بدعتِ حسنہ ہے، اگر اس کا اہتمام کرنے والا صالحین کو جمع کرنے، محفلِ درود و سلام اور فقراء و مساکین کے طعام کا بندوبست کرنے کا قصد کرتا ہے۔ اس شرط کے ساتھ جب بھی یہ عمل کیا جائے گا موجبِ ثواب ہوگا۔‘‘
صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 364

شاہ عبد الرحیم محدث دہلوی رحمہ اللہ ( والد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ ، م 1176 ھ ) فرماتے ہیں کہ میں ہر سال میلاد شریف کے دنوں میں کھانا پکوا کر لوگوں کو کھلایا کرتا تھا ۔ ایک سال قحط کی وجہ سے بھنے ہوئے چنوں کے سوا کچھ میسر نہ ہو ا ، میں نے وہی چنے تقسیم کرد ئیے ۔ رات کو خواب میں آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہو اتو دیکھا کہ وہی بھنے ہوئے چنے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ بیحد خوش اور مسرور ہیں۔ 

حاجی امداد الله مہاجر مکی کا شمار برصغیر پاک و ہند میں اہلسنت مسلمانوں، خاص طور پر دیوبندی مسلک کے اکابرین میں ہوتا ہے – دیوبندی مسلک کے بعض دیگر اکابرین اور علما کے تکفیری اور نیم وہابی نظریات کے برعکس حاجی امداد الله مکی اپنے نظریات اور افکار میں انتہائی اعتدال پسند اور محبت کرنے والے عالم دین تھے  اگرچہ ان کے بعض شاگردوں نے سعودی اور وہابی زیر اثر آ کر دیوبندی مسلک کو وہابیت کی ہی ایک شاخ بنا دیا او ر شرک اور کفر کے فتوے جاری کرنا شروع کر دیے لیکن حاجی امداد الله مکی کا طریق یہ نہ تھا-حاجی صاحب کی پیدائش 1818ء اور وفات 1899ء میں ہوئی
میلاد شریف کے حوالے سے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کا قول تھانوی صاحب لکھتے ہیں کہ میلاد شریف کا انعقاد میں بھی کرتا ہوں، شرکت بھی کرتا ہوں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف میں سلام پر قیام بھی کرتا ہوں اور لذت بھی پاتا ہوں۔ کسی نے اس عمل کی دلیل پوچھی تو فرمایا : مولد شریف تمامی اہل حرمین شریفین کرتے ہیں۔ ہمارے لئے تو حرمین شریفین کا عمل ہی کافی ہے اور حجت ہے۔ (یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے اہلِ حرمینِ شریفین کی بات کررہے ہیں)
احادیث
صحیح بخاری جلد دوم میں ہے کہ ابو لہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں بہت بری حالت میں دیکھا اور پوچھا ، مرنے کے بعد تیرا کیا حال رہا؟ ابو لہب نے کہا، تم سے جدا ہو کر میں نے کوئی راحت نہیں پائی سوائے اس کے کہ میں تھوڑا سا سیراب کیا جاتا ہوں کیونکہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔ امام ابن جزری فرماتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد کی خوشی کی وجہ سے ابو لہب جیسے کافر کا یہ حا ل ہے کہ اس کے عذاب میں کمی کردی جاتی ہے ۔ حالانکہ ا س کی مذمت میں قرآن نازل ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مومن امتی کا کیا حال ہوگا ۔ جو میلاد کی خوشی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے سبب مال خرچ کرتا ہے ۔ قسم ہے میری عمر کی ، اس کی جزا یہی ہے کہ اللہ تعالٰی اسے اپنے افضل و کرم سے جنت نعیم میں داخل فرمادے ۔
اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ خالق کائنات نے اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن عید میلاد کیسے منایا؟ سیرت حلبیہ ج 1 ص 78 اور خصائص کبری ج 1 ص 47 پر یہ روایت موجود ہے کہ (جس سال نور مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کو ودیعت ہوا وہ سال فتح و نصرت ، تر و تازگی اور خوشحالی کا سال کہلایا۔ اہل قریش اس سے قبل معاشی بد حالی اور قحط سالی میں مبتلا تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی برکت سے اس سال رب کریم نے ویران زمین کو شادابی اور ہریالی عطا فرمائی، سوکھے درخت پھلوں سے لدگئے اور اہل قریش خوشحال ہوگئے ) ۔ اہلسنت اسی مناسبت سے میلاد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی خوسی میں اپنی استطاعت کے مطابق کھانے، شیرینی اور پھل وغیرہ تقسیم کرتے ہیں ۔
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر شمع رسالت کے پروانے چراغاں بھی کرتے ہیں ۔ اس کی اصل مندرجہ ذیل احادیث مبارکہ ہیں۔ آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ، (میری والدہ ماجدہ نے میری پیدائش کے وقت دیکھا کہ ان سے ایسا نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے)۔ (مشکوٰۃ)
روایات
حضرت آمنہ ( رضی اللہ عنہا ) فرماتی ہیں ، ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تو ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے مشرق سے مغرب تک ساری کائنات روشن ہوگئی ) ۔
ہم تو عید میلاد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی میں اپنے گھروں ا ور مساجد پر چراغاں کرتے ہیں ، خالق کائنات نے نہ صرف سا ر ی کائنات میں چراغاں کیا بلکہ آسمان کے ستاروں کو فانوس اور قمقمے بنا کر زمین کے قریب کردیا ۔حضرت عثمان بن ابی العاص ( رضی اللہ عنہ ) کی والدہ فرماتی ہیں ، ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی میں خانہ کعبہ کے پاس تھی ، میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے روشن ہوگیا ۔ اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ کہیں وہ مجھ پر گر نہ پڑیں ) ۔ 
سیدتنا آمنہ ( رضی اللہ عنہا ) فرماتی ہیں ، ( میں نے تین جھنڈے بھی دیکھے ، ایک مشرق میں گاڑا گیا تھا ۔ دوسرا مغرب میں اور تیسرا جھنڈا خا نہ کعبہ کی چھت پر لہرارہا تھا )
 یہ حدیث ( الو فابا حوال المصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ) میں محدث ابن جوزی نے بھی روایت کی ہے ۔ اس سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جھنڈے لگانے کی اصل بھی ثابت ہوئی۔ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جلوس بھی نکالا جاتا ہے اور نعرئہ رسالت بلند کیے جاتے ہیں۔ اس کی اصل یہ حدیث پاک ہے کہ جب آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہلیان مدینہ نے جلوس کی صورت میں استقبال کیا۔ حدیث شریف میں ہے کہ مرد اور عورتیں گھروں کی چھتوں پر چرھ گئے اور بچے اور خدام گلیوں میں پھیل گئے، یہ سب با آواز بلند کہہ رہے تھے، یا محمد یا رسول اللہ ، یا محمد یا رسول اللہ ۔ (صلی اللہ علیہ وسلم) ۔
جشن عید میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت بیان کرنے کے بعد اب چند تاریخی حوالہ جات پیش خدمت ہیں ۔ جن سے ثا بت ہو جائے گا کہ محافل میلاد کا سلسلہ عالم اسلام میں ہمیشہ سے جاری ہے ۔

علامہ ابن تیمیہ (661. 728ھ)، میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کےثواب کومنانے والے کی ‘نیت’ کی ساتھ مشروط کرتے ہیں:
علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام بن تیمیہ (1263۔ 1328ء) اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم میں لکھتے ہیں :
فتعظيم المولد واتخاذه موسماً، قد يفعله بعض الناس، ويکون له فيه أجر عظيم؛ لحسن قصده، وتعظيمه لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، کما قدمته لک أنه يحسن من بعض الناس ما يستقبح من المؤمن المسدد.
’’میلاد شریف کی تعظیم اور اسے شعار بنا لینا بعض لوگوں کا عمل ہے اور اِس میں اُس کے لیے اَجر عظیم بھی ہے کیوں کہ اُس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم بھی ہے، جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک اَمر اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے ہیں۔‘‘
(ابن تيميه، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 406)
اِسی کتاب میں دوسری جگہ لکھتے ہیں :
وکذلک ما يحدثه بعض الناس، إما مضاهاة للنصاري في ميلاد عيسي عليه السلام، وإما محبة للنبي صلي الله عليه وآله وسلم وتعظيمًا. واﷲ قد يثيبهم علي هذه المحبة والاجتهاد، لا علي البدع، من اتخاذ مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم عيدًا.
’’اور اِسی طرح اُن اُمور پر (ثواب دیا جاتا ہے) جو بعض لوگ ایجاد کرلیتے ہیں، میلادِ عیسیٰ علیہ السلام میں نصاریٰ سے مشابہت کے لیے یا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور تعظیم کے لیے۔ اور اﷲ تعالیٰ اُنہیں اِس محبت اور اِجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر، اُن لوگوں کو جنہوں نے یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہ طور عید اپنایا۔‘‘
(ابن تيميه، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : )404
Not only does Ibn Taymiyyah recognize the pious elements within devotional innovations, but he asserts that sincere practitioners of these innovations merit a reward. Ibn Taymiyyah’s paradoxical position stems from a practical awareness of the way that Muslims of his day engaged in devotional practices. Ibn Taymiyya states that: “There is no doubt that the one who performs these [innovated festivals], either because of his own interpretation and independent reasoning or his being a blind imitator (muqallid) of another, receives a reward for his good purpose and for the aspects of his acts that confirm with the lawful and he is forgiven for those aspects that fall under the scope of the innovated if his independent reasoning or blind obedience is pardonable.”
Reference : Islamic Law in Theory: Studies on Jurisprudence in Honor of Bernard Weiss. BRILL. 2014-05-09. ISBN 9789004265196.
Ibn Taymiyya’s position on the Mawlid has been described as “paradoxical” and “complex” by some academics.
Ibn Taymiyya’s recognised that some observe the Prophet’s birthday out of a desire to show their love and reverence of the Prophet and thus deserve a great reward for their good intentions. At the same time, he says that it was a reprehensible (makrūh) devotional innovation and criticised those who celebrated the Mawlid out of a desire to imitate the Christian celebration of Jesus’ birthday.
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Mawlid#Permissibility
………………………………………………………………………
کیا عید میلاد النبیﷺ منانا عیسائیوں کی تقلید ہے؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ سرکار دوعالمﷺ کا جشن ولادت منانا کیسا ہے؟ مسلمانوں کو عید میلاد النبیﷺ منانا چاہئے یا نہیں؟ دارالعلوم دیوبند کے فتوے میں ہے کہ جشن عید میلاد النبیﷺ کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث سے نہیں ملتا۔ یہ کرسچن کی ایجاد ہے۔ سرکارﷺ کے چھ سو سال بعد شروع ہوا۔ ہم کو حکم نہیں ہے کہ حضورﷺ کی ولادت (پیدائش) (Birth Day) یا وصال کا دن منائیں۔ یہ دن بھی عام دنوں کی طرح ہونا چاہئے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ یہ فتویٰ قرآن و حدیث اور شریعت اسلامیہ کی رو سے صحیح ہے یا نہیں؟ صحیح و تحقیقی جواب سے نوازیں؟ بینوا توجروا۔
جواب:
 ماہ مبارک ربیع الاول شریف ہو یا کوئی دوسرا مہینہ، اس میں حضورﷺ کی ولادت مقدسہ مبارکہ کا جشن منانا، اظہار فرحت و سرور کرنا، واقعات میلاد کا تذکرہ کرنا نہ صرف جائز و مستحسن بلکہ باعث خیر وبرکت ہے۔ تذکرۂ ولادت پاک تو سنت الٰہیہ بھی ہے اور سنت نبی کریمﷺ و سنت صحابہ و تابعین و طریق جملہ مسلمین بھی۔ یہی وجہ ہے کہ صدہا سال سے پوری دنیا کے عامہ مسلمین و علمائے راسخین و عارفین جنہیں قرآن کریم نے ’’اولوالامر‘‘ کہا ’’راسخون فی العلم‘‘ فرمایا، ولادت رسولﷺ کے موقع پر محفل ذکر ولادت کرتے اور خوشی و عید مناتے رہے ہیں اور مسلمانان عالم میں یہ رائج عمل مولود مقبول ہے
.آیت کریمہ ہے:
قل بفضل اﷲ وبرحمتہ فذالک فلیفرحوا
تم فرماو& اﷲ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں
(یونس، آیت 58)
 واذکرو نعمۃ اﷲ علیکم
اور اﷲ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو
(آل عمران، آیت 103)
 واما بنعمۃ ربک فحدث
اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو
(الضحیٰ، آیت 12)
کے تحت داخل ہے۔ حضور اقدسﷺ کی ذات اقدس سے بڑھ کر نہ کوئی نعمت خلق خدا کو ملی، نہ اس سے بڑا کوئی فضل و رحمت اﷲ تعالیٰ نے انسانوں، جنوں، فرشتوں و دیگر مخلوقات کو عطا فرمائی۔
سیدنا عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے آیت کریمہ
’’الذین بدلوا انعمۃ اﷲ کفرا‘‘
(ابراہیم۔ آیت ۲۸)
(جنہوں نے اﷲ کی نعمت کو کفر سے بدل دیا) کی تفسیر میں فرمایا ’’ہو محمدﷺ‘‘ (اﷲ عزوجل کی نعمت سے مراد محمدﷺ ہیں) اس عظیم و جلیل نعمت پر شکر ادا کرنا خواہ تذکرۂ میلاد کی صورت میں ہو یا جشن و جلوس وغیرہ کی صورت میں، یہ سب اسی حکم ادائے شکر کے تحت داخل ہیں۔
قرآن کریم کی صراحت کے مطابق موقع ولادت (پیدائش کا دن) ان تین موقعوں میں سے ایک ہے جن پر سلامتی کی دعا انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام نے خود فرمائی۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی دعا قرآن کریم میں بایں کلمات وارد ہوئیں
’’وسلام علیہ یوم ولد و یوم یموت و یوم یبعث حیا‘‘
سلامتی ہو اس پر جس دن پیدا ہو اور جس دن مرے گا اور جس دن زندہ اٹھایا جائے گا
(مریم آیت ۱۵)
’’والسلام علی یوم ولدت و یوم اموت و یوم ابعث حیا‘‘
اور وہی سلامتی مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں
(مریم: آیت ۳۳)
اسی طرح سورہ قصص آیت نمبر ۷ تا ۱۳ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا ذکر ہے۔
سورہ آل عمران آیت نمبر ۳۴ تا ۳۷ میں حضرت مریم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی ولادت کا ذکر ہے۔ قرآن کریم میں انبیاء کا ذکر میلاد اس بات کی دلیل ہے کہ سیدالانبیاء نبی اکرمﷺ کا ذکر میلاد ایک اچھا عمل اور باعث خیر وبرکت و قابل اجر و ثواب ہے۔ پھر انبیائے کرام کا یہ تذکرۂ میلاد اور ان کی دعائوں کا بیان ان کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد ہوا۔ جو اس بات پر دلیل ہے کہ انبیائے کرام و سید الانبیاء علیہم افضل الصلوٰۃ والسلام کے وصال مبارک کے بعد ان کا ذکر میلاد کوئی برا عمل نہیں بلکہ قرآن کریم کی اتباع و پیروی ہے۔
قرآن کریم میں حضور اکرمﷺ کی دنیا میں تشریف آوری سے پہلے میلاد النبیﷺ کا تذکرہ موجود ہے۔
سورہ آل عمران میں ہے
’’ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ ولتنصرنہ‘‘
پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضروراس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا
(آل عمران آیت ۸۰)
حدیث پاک میں بھی میلاد النبی کا تذکرہ موجود ہے۔
حضرت ابو قتادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ’’ان رسول اﷲﷺ سئل عن صوم یوم الاثنین، فقال فیہ ولدت و فیہ انزل علی‘‘ (حضور اقدس٭ﷺ سے دوشنبہ (سوموار) کے دن روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اسی دن میں پیدا ہوا، اور اسی دن میری طرف وحی نازل کی گئی۔
(مسلم شریف، جلد ۱، ص ۳۶۸)
محدثین نے اس حدیث کے صحیح ہونے کی صراحت فرمائی، اس حدیث سے رسول اﷲﷺ کا اپنی ولادت مبارکہ کے دن روزہ رکھنا ثابت ہے جس سے یہ بات بغیر کسی شبہ کے واضح ہے کہ حضور اقدسﷺ کی پیدائش کا دن معظم و لائق احترام ہے۔ اب اگرکوئی ولادت مبارکہ کے دن خوشی مناتا ہے، صدقات و خیرات کرتا ہے، واقعہ میلاد کے تذکرہ کے لئے جلسے کرتا ہے، جشن مناتا ہے، اس دن نبی کی یاد میں جلوس نکالتا ہے، کوئی اچھا اور نیک کام کرتا ہے تو یہ رسول اﷲﷺ کی متابعت اور پیروی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم آپﷺ کی حیات ظاہری میں بھی اور حیات ظاہری کے بعد بھی ولادت مبارکہ کے حالات و واقعات بیان فرماتے تھے۔
جیسا کہ حضرت ابو درداء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ وہ حضور اقدسﷺ کے ساتھ حضرت عامر انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے گھر گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ اپنے بچوں اور اپنے خاندان والوں کو ولادت مبارکہ کے حالات وواقعات بتا رہے ہیں۔
نبی کریمﷺ نے یہ دیکھ کر فرمایا
’’ان اﷲ تعالیٰ فتح لک ابواب الرحمۃ والملئکۃ من فعل ذالک نجح‘‘
اﷲ تعالیٰ نے تم پر رحمت اور فرشتوں کے دروازے کھول دیئے ہیں جو شخص بھی یہ عمل کرے گا، نجات پائے گا
(التنویر فی مولد السراج المنیر، ص ۶۲۳)
حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے بارے میں منقول ہے
’’انہ کان یحدث ذات یوم فی بیتہ وقائع علیہ السلام‘‘
ایک دن وہ اپنے گھر میں نبی اکرمﷺ کی پیدائش مبارک کے حالات و واقعات بیان فرما رہے تھے
(التنویر فی مولد السراج المنیر، ص ۶۲۳)
مذکورہ بالا آیت و نصوص و آثار اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حضور اقدسﷺ کی ولادت مبارک کا تذکرہ کرنا جائزو مستحسن ہے۔ اور یہ کہ یہ قرآن کریم و احادیث مبارکہ کی اتباع و پیروی ہے۔ میلاد النبیﷺ کے تاریخی واقعات و حالات کا بیان اور اس کے لئے مجلس کا انعقاد عہد صحابہ میں بھی ہوا اور یہی چیز میلاد کی مجلس کا مقصود اعظم اور جزو اہم ہے۔
قرون ثلاثہ کے بعد اس ہیئت کذائیہ میں اضافہ ہوا اور میلاد النبیﷺ کے دن کو عید وخوشی اور گوناگوں نیکی و مسرت اور جشن ولادت کے دن کے طور پر منایا جانے لگا۔ یہ تفصیلات اور ہیئت میلاد اگرچہ بعد میں رواج پذیر ہوئی مگر یہ بھی اجمالاً یا تفصیلاً ماذونات شرعیہ بلکہ مامورات شرعیہ میں داخل ہیں۔ صاحب مجمع البحار علامہ طاہر فتنی، جو ائمہ محققین واجلہ فقہاء و محدثین میں سے ہیں، اپنی مشہور و معروف کتاب ’’مجمع بحار الانوار‘‘ کے خاتمے میں تحریر فرماتے ہیں:
بحمدہ تعالیٰ اﷲ عزوجل نے جو آسانی پیدا فرمائی اس کی وجہ سے ’’مجمع بحار الانوار‘‘ کا آخری حصہ رحمت و انوار کے سرچشمے کا مظہر مسرت و رونق کا مہینہ ماہ ربیع الاول کی بارہویں شب میں پایہ تکمیل کو پہنچ گیا، کیونکہ یہی وہ مہینہ ہے جس میں ہر سال ہمیں اظہار مسرت کا حکم دیا گیا ہے۔ الیٰ آخرہ)
یہی وجہ ہے کہ علماء فرماتے ہیں کہ جو چیز شریعت کے ماذونات و مامورات میں داخل ہو، وہ ہرگز ناجائز و بدعت مذمومہ نہیں ہوسکتی، ایسی چیز کو وہی شخص ممنوع وبدعت سئیہ قرار دے گا جس سے قرآن فہمی، حدیث کی سمجھ اور شرعی معلومات کی توفیق چھین لی گئی ہو، ورنہ جس کام کی اصل قرآن و سنت میں موجود ہو، اصول شرع جس کے جواز کے مقتضی ہوں، اس کے جواز میں کیا کلام ہوسکتا ہے؟ چاہے تفصیلا وہ عمل قرون ثلٰثہ میں نہ رہا ہو، اس لئے علمائے اصول فرماتے ہیں جواز کے لئے صرف اتنا کافی ہے کہ خدا و رسول جل و علا و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے منع نہ فرمایا
’’لان الاصل فی الاشیاء الاباحقہ‘‘
کمافی الاشباہ و النظاہر وغیرہا۔ کسی چیز کی ممانعت قرآن و حدیث میں نہ ہو تو اسے منع کرنے والا قرآن و حدیث کی مخالفت کرا اور نئی شریعت گڑھتا ہے، الیاقوتتہ الواسطتہ میں ہےباقاعدہ اصول بینہ ذمہ مدعی ہے اور قابل جواز تممسک باصل، جسے ہرگز کسی دلیل کی حاجت نہیں، بعض حضرات جہلاً یا تجاہلاً مانع فقہی و بحثی میں فرق نہ کرکے دھوکہ کھاتے دیتے ہیں کہ تم قائل جواز اور ہم مانع و منکر، تو دلیل تم پر چاہئے۔ حالانکہ یہ سخت ذہول و غفلت یاکید وخذیعت ہے، نہ جانا یا جانا اور نہ مانا کہ قول جواز کا حاصل کتنا؟ صرف اس قدر کہ ’’لم ینہ عنہ یالم یومر بہ ولم ینہ عنہ‘‘ تو مجوز نافی امرونہی ہے اور نافی پر شرعاً و عقلاً بینہ نہیں، جو حرام و ممنوع کہے وہ نہی شرعی کا مدعی ہے، ثبوت دینا اس کے ذمے ہے کہ شرح نے کہاں منع کیا ہے؟(ص ۳۔۴)
اسی میں ہے
’’علامہ عبدالغنی نابلسی ’’رسالۃ الصلح بین الاخوان‘‘ میں فرماتے ہیں
’’ولیس الاحیتاط فی الافتراء علی اﷲ تعالیٰ باثبات الحرمۃ والکراہۃ الذین لابدلھما من دلیل بل فی الاباحۃ التی ہی الاصل‘‘
علامہ علی مکی رسالہ اقتدا بالمخالف میں فرماتے ہیں
’’من المعلوم ان الاصل فی کل مسئلۃ ہو الصلحۃ واما القول بالفسادو والکراہۃ فیحتاج الی حجۃ‘‘
’’غرض مانع فقہی مدعی بحثی ہے اور جوا زکاقائل مثل سائل مدعا علیہ، جس سے مطالبۂ دلیل محض جنون یا تسویل، اس کے لئے یہی دلیل بس ہے کہ منع پر کوئی دلیل نہیں‘‘
نفس میلاد و تذکرہ واقعات میلاد تو ہر دور میں رہا۔ عہد رسالت و عہد صحابہ و تابعین میں بھی اپنی مخصوص شکل میں موجود تھا۔ اس لئے اس کی اصل کا جواز استحسان تو منصوص ہے۔ رہا جشن عید میلاد النبیﷺ منانے کا موجودہ طریقہ تو یہ ہیئت کذائیہ بعد کی ایجاد ہے جسے اصطلاح میں ’’بدعت‘‘ کہتے ہیں۔ مگر یہ ’’بدعت حسنہ‘‘ یعنی اچھی ایجاد ہے نہ کہ ’’بدعت سیئہ‘‘ یعنی بری ایجاد۔
علامہ سخاوی علیہ الرحمہ، مسلم الثبوت محدث ہیں، وہ اس ہیئت کی ایجاد کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’میلاد النبیﷺ کا مروجہ طریقہ قرون ثلٰثہ میں کسی سلف سے منقول نہیں، اس کی بنیاد قرون ثلٰثہ کے بعد پڑی پھر پوری دنیا کے تمام شہروں اور خطوں کے مسلمان جب بھی ربیع الاول شریف کا مہینہ آتا ہے، اس میں جشن مناتے ہیں، پرتکلف کھانوں سے دستر خوان سجاتے ہیں، اس مہینے کی راتوں میں صدقات بانٹتے ہیں، خوشیاں مناتے ہیں، نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہیں اور میلاد النبیﷺ کے واقعات و حالات پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں اور اس کے برکات و ثمرات بھی ان پر خوب ظاہر ہوتے ہیں‘‘
(سبل الہدیٰ والرشاد، ج ۱، ص ۳۶۲)
عید میلاد النبیﷺ کے مروجہ طریقے کے تعلق سے جلیل القدر محدث حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ
میرے نزدیک مروجہ طریقے سے میلاد کرنے کی اصل اس حدیث سے ثابت ہے جو بخاری و مسلم میں موجود ہے کہ جب حضور اکرمﷺ مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو دیکھا کہ وہ دسویں محرم (عاشورہ) کو روزہ رکھتے ہیں۔ آپ نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اسی دن اﷲ تعالیٰ نے فرعون کو ڈبویا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی اس لئے ہم لوگ شکرانے کے طور پر آج کے دن روزہ رکھتے ہیں۔
حضور اقدسﷺ نے فرمایا
’’ہم تمہاری بہ نسبت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ حقدار ہیں‘‘
آپ نے خود اس دن روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی حکم دیا۔ اس حدیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ جس دن میں اﷲ تعالیٰ کسی عظیم نعمت کا فیضان فرمائے یا کسی بڑی مصیبت سے نجات دلاکر احسان فرمائے تو خاص اس انعام الٰہی کے دن میں شکرانے کے طور پر کوئی کام کرنا اور پھر اس عمل کو آنے والے ہر سال میں اسی دن کرتے رہنا جائز و مستحسن ہے۔ نبی کریمﷺ کی تشریف آوری سے بڑھ کر اور کوئی نعمت نہیں، لہذا مناسب ہے کہ اہل اسلام خاص ولادت نبوی کے دن اس کا اہتمام کریں تاکہ یہ دسویں محرم کے دن حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے مطابق ہوجائے‘‘
(الحاوی للفتاویٰ، ج ۱، ص ۲۶۰)
یہی وجہ ہے کہ پورے عالم اسلام میں حضور اقدسﷺ کی ولادت کے ذکر کی محفلوں کا انعقاد، اس کا اعلان و اظہار اور اس عظیم نعمت پر صدقات و خیرات وغیرہ کرکے ادائے شکر بجا لانے کا عمل ہمیشہ سے مسلمانوں میں رائج رہا، چنانچہ چھٹی صدی کے مشہور و معتبر محدث علامہ ابن جوزی اپنی کتاب مولد النبیﷺ میں لکھتے ہیں:
’’عرب کے شرق و غرب، مصر و شام اور تمام آبادی اہل اسلام میں بالخصوص حرمین شریفین میں مولد النبیﷺ کی مجالس منعقد ہوتی ہیں۔ ماہ ربیع الاول کا چاند دیکھتے ہی خوشیاں مناتے ہیں، قیمتی کپڑے پہنتے ہیں، قسم قسم کی زیب و آرائش کرتے ہیں، خوشبو اور سرمہ لگاتے ہیں اور ان دنوں میں خوشیاں مناتے ہیں اور جو ان کو میسر ہوتا ہے، خرچ کرتے ہیں۔ میلاد النبیﷺ سننے کا بہت اہتمام کرتے ہیں اور اس کے عوض اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بڑی کامیابی اور خیروبرکت حاصل کرتے ہیں اور یہ آزمایا ہوا امر ہے کہ ان دنوں میں کثرت سے خیروبرکت پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ تمام ملک میں سلامتی و عافیت، رزق میں وسعت، مال میں زیادتی، مال و دولت میں ترقی او رامن وامان پایا جاتا ہے، اور تمام گھروں میں سکون آرام حاصل ہوتا ہے۔ یہ سب رسول اکرمﷺ کی برکت کے سبب سے ہے‘‘
اس سے ظاہر ہوا کہ سواد اعظم جمہور اہل اسلام نے یہ مبارک مجلس منعقد کی ہے اور آج تک پورے عالم اسلام میں یہ تقریب سعید منائی جارہی ہے اور اعازم دین و جمہور اہل اسلام میں سے کوئی بھی اس کا انکار نہیں کرتا۔ مشہور محدث امام نووی شافعی استاذ شیخ ابوشامہ رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ (متوفی ۶۶۵ھ) فرماتے ہیں:
’’نو ایجاد امور میں سب سے اچھا کام وہ ہے جو ہمارے زمانے میں ہورہا ہے۔ ہر سال یوم عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر اہل اسلام اظہار فرحت و سرور و صدقات و خیرات کرتے ہیں کہ اس میں غریبوں کے ساتھ حسن سلوک اور حضورﷺ کی محبت اور آپ کی تعظیم و توقیر کے ساتھ آپ کی ولادت مبارکہ کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ اﷲ کریم نے نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو اس دن رحمتہ للعالمین بناکر بھیجا‘‘
(السیرۃ الحلبیہ، ج ۱، ص ۱۳۷)
میلاد النبیﷺ کی خوشی پر اجر و نفع کا ذکر صحیح بخاری شریف میں ہے
’’جب ابولہب مرگیا تو اس کے گھر والوں میں سے کسی نے اسے بہت بری حالت میں دیکھا پوچھا، ابولہب! تیرے ساتھ کیا معاملہ درپیش ہوا؟‘‘ اس نے جواب دیا’’مجھے تمہاری بعد صرف یہ بھلائی پہنچی کہ (محمدﷺ کی پیدائش کی خوشی میں) ثویبہ باندی کو آزاد کرنے کی وجہ سے کچھ سیراب کردیا جاتا ہوں‘‘
(بخاری، جلد ۲، ص ۳۶۳)
اس حدیث کے ذیل میں حافظ شمس الدین جزری لکھتے ہیں:
’’جب یہ کافر (ابولہب) جس کی مذمت پر قرآن اترا، نبی کریمﷺ کی شب ولادت کی خوشی میں اس کے عذاب میں تخفیف کردی گئی تو امت محمدیہ کے اس مسلمان کا کیا کہنا جو میلاد النبیﷺ کے موقع پر خوشی و جشن مناتا ہے، حضورﷺ کی محبت میں استطاعت بھر خرچ کرتا ہے، میری زندگی کی قسم اﷲ کریم کی طرف سے اس کی جزاء یہ ہے کہ اپنے فضل و کرم سے اسے جنت الفردوس میں داخل کرے گا‘‘
(المواہب اللدنیہ، بشرح الزرقانی، ج ۱، ص ۲۶۱)
علامہ زرقانی کی نقل کا حاصل یہ ہے کہ ابولہب جیسے کافر کو، جس کی مذمت میں قرآن کی سورت اتری، ثویبہ لونڈی کو آزاد کرکے میلاد النبیﷺ کی خوشی کا اظہار کرنے پر اجر و نفع ملا، جبکہ قرآن کریم کی نص قطعی ہے کہ کافر کا کوئی عمل اجر و نفع کے قابل نہیں، ان کے اعمال باطل کردیئے گئے،
قال اﷲ تعالیٰ ’’وقدمنا الیٰ ماعملوا من عمل فجعلناہ ہباء منثورا‘‘
(الفرقان: آیت ۲۳)
جو کچھ انہوں نے کام کئے تھے ہم نے قصد فرما کر انہیں باریک باریک غبار کے بکھری ہوئے ذرے کردیئے کہ روزن کی دھوپ میں نظر آتے ہیں
مگر صحیح حدیث میں ابولہب اسی طرح ابوطالب (جمہور کے نزدیک جس کی موت کفر پر ہوئی) کو نفع پہنچنے کا ذکر ہے۔ اس تعلق سے علامہ بدرالدین عینی عمدۃ القاری میں فرماتے ہیں:
’’جس عمل کا تعلق حضورﷺ سے ہو تو یہ آیت کریمہ کے حکم عام سے مخصوص ہے جس پر دلیل ابوطالب کا وہ واقعہ ہے کہ اس کے عذاب میں تخفیف کی گئی تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے سے اوپر لایا گیا (یعنی اس کے عذاب میں تخفیف کی گئی)‘‘
(عمدۃ القاری، ج ۲۹، ص ۲۴۲، المکتبۃ الشاملۃ)
علامہ کرمانی نے بھی شرح بخاری میں یہی بات ارشاد فرمائی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کافر کا وہ عمل جس کا تعلق حضور اکرمﷺ کی ذات سے ہو، وہ عمل قابل اجر و نفع ہے۔ یہ خصوصیت اﷲ عزوجل نے اپنے محبوب کی ذات سے متعلق رکھی، عمدۃ القاری ہی میں ہے:
’’اگر آپ کہیں کافروں کے اعمال حسنہ تو نیست و نابود کردیئے گئے، جس میں کوئی فائدہ نفع نہیں ہے، میںکہوں گا کہ (ابو طالب و ابولہب جیسے کافروں کو) اس نفع کا ملنا رسول اﷲﷺ کی برکت اور آپ کی خصوصیت کی وجہ سے ہے‘‘
(عمدۃ القاری، باب قصۃ ابی طالب، ج ۱۱، ص ۵۹۳)
پوری دنیا کے جلیل القدر فقہاء و محدثین و علمائے راسخین نے اپنی معتبر و مستند کتابوں میں عمل میلاد کو جائز و مستحسن اور قابل اجر و نفع قرار دیا ہے جس میں حافظ ابو شامہ استاذ امام نووی، حافظ ابن حجر عسقلانی، امام سخاوی، علامہ امام برہان الدین صاحب سیرت حلبیہ، علامہ ابن حجر مکی، امام ابن جزری صاحب حصن حصین، حافظ جلال الدین سیوطی، حافظ ابن رجب حنبلی، علامہ طاہر فتنی صاحب مجمع البحار، ملا علی قاری، شیخ عبدالوہاب متقی مکی، حافظ زین الدین عراقی اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی جیسے بلند پایہ علمائے معتمدین شامل ہیں تو یہ ازروئے اصول مروجہ عمل مولود کے جواز و استحسان پر صدیوں سے عرف مسلمین قائم ہے اور عرف عام خود حجت شرعیہ ہے
جس کی اصل حدیث پاک
’’مارأہ المسلمون حسناً فہو عنداﷲ حسن‘‘
(جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ چیز اﷲ کے نزدیک بھی اچھی ہے) ہے۔
موجودہ میلاد النبیﷺ کی ہیئت کو نئی ایجاد اور بدعت کہہ کر ممنوع قرار دینا، جیسا کہ وہابیہ اور دیابنہ کا نقطہ نظر ہے، سخت محرومی، بددیانتی اور جہل و بے خبری ہے۔ کسی چیز کے حسن و قبح کا مدار اس پر نہیں کہ وہ چیز عہد رسالت میں یا عہد صحابہ و تابعین میں تھی، یا نہیں بلکہ مدار اس پر ہے کہ وہ نئی ایجاد قرآن وسنت کے مزاحم اور اصول شرعیہ سے متصادم ہے یا نہیں؟ اگر متصادم ہے تو وہ قبیح و بدعت سئیہ ہے اور اگر متصادم ہے یا نہیں؟ اگر متصادم ہے تو وہ قبیح و بدعت سئیہ ہے اور اگر تمصادم نہیں اور وہ چیز اپنے اندر وصف استحسان رکھتی ہے تو اسی ممنوع و ناجائز کہنا حدیث پاک کا صریح رد ہے۔
حضور اقدسﷺ فرماتے ہیں:
1۔ من سنّ فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ اجرہا واجرمن عمل بہا الیٰ یوم القیامۃ،
2۔ من سنّ فی الاسلام سنۃ سئیئۃ فلہ وزرہاووزر من عمل بہا الی یوم القیامۃ
(مشکوٰۃ شریف، ص ۳۵، مجلس برکات)
’’سیرت حلبیہ‘‘ میں ہے
’’خلاصہ بدعت حسنہ کا مندوب و مستحب ہونا متفق علیہ ہے۔ عید میلاد النبیﷺ منانا اور اس کے لئے لوگوں کا اکھٹا ہونا اچھی ایجاد ہے‘‘
(جلد۱، ص ۱۳۷)
 کیا کوئی مفتی اپنے بیان کردہ ضابطے کے مطابق یہ کہنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ:
1۔ قرآن کریم میں اعراب و نقطے کا اضافہ بدعت سئیہ اور حرام ہے؟
جبکہ خاص کتاب اﷲ میں اعراب و حرکات کا کام نہ عہد رسالت میں ہوا، نہ عہد صحابہ میں اور نہ قرآن و حدیث میں اس کا حکم آیا بلکہ یہ نو ایجاد کام عہد تابعین میں ہوا۔ اموی حکومت کے ظالم و جابر گورنر حجاج ابن یوسف ثقفی نے نقطے اور حرکتیں لگوائیں۔
2۔ مسجدوں میں محراب و مینار کا بنانا ناجائز و حرام ہے؟
جبکہ محراب و مینار کی ایجاد نہ عہد رسالت میں ہوئی نہ عہد صحابہ میں، نہ عہد تابعین میں بلکہ تبع تابعین کے دور میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے مسجد نبوی شریف کی تعمیر جدید میں محراب بھی بنوایا، کنگورے بھی لگوائے اور مینارے بھی بنوائے، یہ کام ۸۱ھ سے ۹۳ھ تک ہوا۔
3۔ خطبے میں عمین کریمین کے ناموں کا اضافہ بدعت و گناہ ہے؟ 
جبکہ خطبے میں یہ دونوں مبارک نام کب شامل ہوئے؟ کس نے شامل کئے؟ اس کی تاریخ کا کچھ پتہ نہیں۔ جبکہ یہ طے ہے کہ حضور اقدسﷺ اور صحابہ کرام کے عہد مبارک میں یہ نام شامل خطبہ نہ تھے، مگر اس نو ایجاد چیز کو تمام اہل اسلام نے قبول کیا اور یہ آج تک رائج ہے۔
4۔ بیس رکعت نماز تراویح باجماعت پڑھنا، حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ایجاد، بدعت و گناہ ہے؟
5۔جمعہ کے دن اذان اول کا اضافہ بدعت سئیہ ہے؟
 جبکہ اس کی ایجاد حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کی۔
6۔ تثویب (اذان کے بعد جماعت سے قبل صلوٰۃ پکارنا) بدعت و حرام ہے؟
 جبکہ یہ فقہائے متاخرین کی ایجاد ہے۔
فقہ حنفی کی عام کتابوں میں ہے:
’’استحسنہ المتاخرون‘‘ تثویب کو متاخرین نے مستحسن قرار دیا ہے۔ دور کیوں جایئے اہل انصاف پوچھیں،
 کیا دارالعلوم دیوبند کا جشن صد سالہ منانے اور سالانہ جلسہ دستار منعقد کرنے کا حکم قرآن نے دیا ہے؟ یا حدیث میں اس کا حکم آیا؟ 
اس مفتی سے سیکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ جشن صد سالہ کرسچن کی ایجاد ہے؟ یا یہودیوں کی ایجاد ہے؟ 
تو یہ چودہ سو سال بعد کی بدعت ہے تو پھر اس قسم کے جشن و جلسے پر ناجائز و حرام و بدعت سئیہ ہونے کا حکم کیوں نہیں لگایا جاتا؟
 خاص نماز میں وہابی دیوبندی لائوڈ اسپیکر کا استعمال کرتے ہیں۔ کیا قرآن کریم نے اقامت نماز کے حکم کے ساتھ اس آلہ مکبر الصوت کے استعمال کا بھی حکم دیا ہے؟ 
حدیث میں مسجدوں کو منڈیر بنانے کا حکم دیا ہے مگر وہابیہ کنگورے لگاتے ہیں، وہابی اصول پر یہ تمام بری بدعتیں اور ضلالت ہیں۔ اس کے باوجود وہ اس کا ارتکاب خوش دلی سے کرتے ہیں۔ اگران کے اعتقاد و عمل، قول و فعل اور فتوے میں جواز و استحسان کی کوئی جگہ نہیں ہے تو وہ ہے ’’وجہ وجود کائنات سرکار دوعالمﷺ کی ولادت مبارکہ کے شکریہ میں جشن و عید کی، اس موقع پر مسرت و شادمانی کی‘‘
غور فرمایئے کہ ایک روایت کے مطابق ۳۷۷ھ میں عید میلاد النبیﷺ کی موجودہ ہیئت کذائیہ کے ساتھ ایجاد ہوئی اور دوسری روایت کے مطابق ۵۵۰ھ میں ہوئی، وہابیوں دیوبندیوں کے مقتدا ابن تیمیہ کی پیدائش ۶۶۱ھ ہے۔
پہلی روایت کی رو سے ایجاد میلاد اور ابن تیمیہ کے درمیان ۲۸۴ بلکہ اس سے زائد کا زمانہ ہے، اور دوسری روایت کے مطابق ۱۱۱ (ایک سو گیارہ سال) سے بھی زائد کا عرصہ گزرا ہے، مگر پورے عالم اسلام میں ابن تیمیہ سے پہلے کسی نے بھی عید میلاد النبیﷺ کو ناجائز و حرام نہیں کہا، بری بدعت نہیں بتایا، بلکہ تمام علماء فقہائ، محدثین اس کے جائز و مستحسن ہونے کی صراحت فرماتے رہے۔ اب یہ اہل انصاف بتائیں گے کہ جمہور اہل اسلام کے قول و عمل کے بالمقابل پوری ایک صدی یا پونے تین صدی بعد پیدا ہونے والے ابن تیمیہ کی اتباع کی جائے گی؟ ادنیٰ سی عقل رکھنے والا شخص بھی کہے گا کہ سواداعظم، جمہور اہل اسلام کے خلاف ابن تیمیہ کا قول اہم نہیں ہے، جبکہ دو ممالک کے علاوہ پورے عالم اسلام میں رائج عمل جشن عید میلاد النبیﷺ جائز و مستحسن اور باعث خیروبرکت و علامت محبت رسولﷺ ہے۔
واﷲ تعالیٰ اعلم: http://tahaffuz.com/5222/#.WExuBdV97IV

……………………………………………

شریعت کے دلائل چار ہیں، قرآن ، حدیث، اجماع امت اور قیاس۔
قیاس کے شرعی معنی ہیں کہ فرعی مسئلہ کو اصل مسئلہ سے علت اور حکم میں ملادینا ۔ یعنی ایک مسئلہ ایسا درپیش آگیا جس کا ثبوت قرآن وحدیث میں نہیں ملتا تو اس کی مثل کوئی وہ مسئلہ لیا جو قرآن و حدیث میں ہے اور اس کے حکم علت معلوم کر کے یہ کہا کہ چونکہ وہ علت یہاں بھی ہے لہٰذا اس کا حکم بھی وہی ہوگا۔ اسی کا نام قیاس ہے۔ تو قیاس اصل میں حکم شریعت کا مظہر یعنی ظاہر کرنے والا ہے خود مستقل حکم نہیں یعنی قرآن و حدیث میں یہ حکم تو تھا مگر ظاہر نہ تھا۔ قیاس نے اسے ظاہر کر دیا۔ البتہ قیاس میں شرط یہ ہے کہ قیاس کرنے والا مجتہد ہو، ہر کس و ناقص کا خیال معتبر نہیں۔ قیاس کا ثبوت قرآن و حدیث اور افعال صحابہ سے ہے، اسی لیے اس کا مطلقاً انکار کفر ہے۔
فرض – واجب – سنت موکدہ – سنت غیرموکدہ- مستحب
:مستحب وہ حکم شرعی جس کا بجالانا نظر شرع میں پسند ہے، خواہ خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کیا ہو۔ یا اس کی طرف رغبت دلائی یا علمائے کرام نے اسے پسند فرمایا اگرچہ احادیث میں اس کا ذکر نہ آیا۔ اس کا کرنا ثواب اور نہ کرنے پر کچھ الزام نہیں۔
مباح اس کام کو کہتے ہیں جس کے لیے نہ کوئی حکم ہے نہ ممانعت لہٰذا اس کا کرنا نہ کرنا یکساں ہے، کرو تو ثواب نہیں نہ کرو تو کچھ عذاب نہیں جیسے لذیذ غذا عمدہ لباس جبکہ بطورِ اسراف نہ ہو۔
:کسی امر کو جائز و مباح کہنے والوں کو ہر گز دلیل کی حاجت نہیں کہ ممانعت پر کوئی دلیل شرعی نہ ہونا ۔ یہی اس کے جائز ہونے کی دلیل کافی ہے۔ اگر اس فعل میں کوئی برائی ہوتی تو شریعت مطہرہ ضرور اس سے آگاہ فرماتی اور اس سے باز رہنے کا کوئی نہ کوئی حکم شریعت میں وارد ہو جاتا۔
اب کہ قرآن کریم اتر چکا ، دین کامل ہو گیا اور کوئی نیا حکم آنے کو نہ رہا تو جتنی باتوں کا شریعت نے نہ حکم دیا نہ منع کیا۔ ان کی معافی مقرر ہو چکی، خدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازراہ عنایت ہی انھیں ہم پر چھوڑ دیا۔ 
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال فرمایا وہ حلال ہے اور جو کچھ حرام فرمایا وہ حرام ہے۔ اور جس کا کچھ ذکر نہ فرمایا وہ معاف ہے اور خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ جو کچھ رسول تمھیں عطا فرمائیں وہ لو (یعنی اس پر عمل کرو) اور جس سے منع فرمائیں اس سے باز رہو‘‘ تو معلوم ہو ا کہ:
خدا و رسول نے جس بات کا حکم نہ دیا، نہ منع کیا وہ نہ واجب ہے نہ گناہ بلکہ معافی میں ہے۔ 
اب جو شخص کسی فعل کو ناجائز یا حرام یا مکروہ ہی کہے۔ اس پر واجب ہے کہ دو باتوں میں سے ایک بات کا ثبوت دے یا تویہ کہ فی نفسہٖ اس کام میں ششر (برائی) ہے یا یہ کہ شرع مطہرہ نے اسے منع فرمایا ہے اور قرآن و حدیث یا اجماع امت کی رو سے یہ فعل ممنوع ہے اور احتیاط نہیں کہ کسی چیز کو بلا دلیل شرعی حرام یا مکروہ کہہ کر مسلمانوں پر تنگی کر دی جائے،
بلکہ جس چیز کو خدا و رسول منع نہ فرمائیں اور شرعاً اس کی ممانعت ثابت نہ ہو اسے منع کرنا خود صاحب شرع بننا اور نئی شریعت گھڑنا ہے۔ 

اس سے ہر مسلمان کو پرہیز کرنا چاہیے بلکہ جس امر مباح کو عمل بنظر تعظیم و محبت کیا جا تا ہے تو وہ مستحب و مستحسن اور دربار الٰہی میں محبوب و مقبول ہو جاتا ہے جیسے محفل میلاد شریف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر خوشی اور حضور اقد س صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کا اظہار ہے۔ اسی لیے اہل سنت و جماعت کا اس پر اتفاق اور اجماع ہے کہ یہ قیام مستحب و مستحسن ہے۔

اختتامیہ

جو مسلمان میلادالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منانا چاہتے ہیں ، تقدس اور احترام سے منائیں، خرافات اور غیر اسلامی حرکات سے پرہیز اور لاتعلقی اور بیزاری اختیار کریں- جو بھائی نہیں شامل ہوتے ان پرتنقید نہ کریں- اگر ضروری سمجھیں توخوشگوار اوراحسن طریقه سے اپنے موقف کامدلل اظھارکریں، فتویٰ بازی دشنام طرازی سے پرہیز کریں، سکوت بہتر ہے-

جو مسلمان بھائی اس تقریب کو رسول الله کی محبت کی وجہ سے جائز نہیں سمجھتے، وہ میلادالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ منائیں، سکوت اورتوقف اختیار کریں- اگربہت ضروری سمجھتے ہیں تو خوشگوار اوراحسن طریقه سے اپنے موقف کا اظھارکریں، فتویٰ بازی دشنام طرازی سے پرہیز کریں-٥. تمام مسلمان بھائیوں سے درخواست ہے کہ اپنے مسلکی اختلافات پس پشت ڈال کردوسروں کو تنقید کا نشانہ بنا نے کی بجانے اپنا وقت تعمیری کاموں میں لگائیں، سوسائٹی کوانتشار، فرقہ بازی اور  اخلاقی انحطاط سے نکالنے کی کوشش کریں، اسلام کو ان  سےشدید خطرہ ہے-

اس مقالہ سےکسی کی دلآزاری مقصود نہیں- یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر دو آرا ہیں،اجتہادی معاملات حتمی نہیں ہوتے ، اس لیے کسی کو غلط یا درست کہنا مشکل ہے، نیتوں کا علم الله کو ہے [واللہ اعلم]

 

بدعت بدعة ، بدا، Bid’a

‘ بدعت” عربی زبان کا لفظ ہے جو ”بَدَعَ” سے مشتق ہے۔ اس کا معنی ہے : کسی سابقہ مادہ، اَصل، مثال، نمونہ یا وجود کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا؛ یعنی کسی شے کو عدمِ محض سے وجود میں لانے کو عربی زبان میں ”اِبداع” کہتے ہیں۔ تحریر


کیا صحابہ نے میلاد منایا ؟

میلاد منانے کا انداز اپنا اپنا ۔۔۔ ایک طبقہ ایسا ہے جو کہتا ہے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی قسمت اچھی تھی کہ انھیں عمر فاروق جیسا ساتھی ملا ۔ دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ آقا کے مقدر اچھے کہ امام حسن و حسین جیسے نواسے ملے – دونوں طبقے غلط ہیں – ہم کہتے ہیں عمر ابن الخطاب کی قسمت اچھی جو محمد عربی علیہ السلام جیسے آقا ملے اسی طرح حسنین کریمین کے بخت اچھے جو آقا جیسے نانا ملے ۔ ہم نے جسے بھی مانا حضور علیہ السلام کی وجہ سے مانا ۔
انھیں مانا انھیں جانا نہ رکھا غیر سے کام
للله الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا ۔

سوال :- کیا میلاد منانا قرآن و سنت سے ثابت ہے ؟ ٹھیک اسی طریقے پر جیسے آپ مناتے ہیں ۔ کیا نبی اکرم علیہ السلام نے میلاد منایا ؟ کیا صحابہ نے ٹھیک اسطرح میلاد منایا جسطرح آپ لوگ آجکل مناتے ہیں ۔ ؟

جواب :- آقا علیہ السلام ہر پیر کو روزہ رکھتے تھے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا میں اس دن پیدا ہوا تھا ۔ آپکا ولادت کی خوشی منانے کا اپنا انداز تھا ۔ رہی بات صحابہ کی تو خدا کی قسم جسطرح صحابہ نے میلاد منایا ہم اسطرح منانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ آٹھ تلواریں لیکر بدر میں چل پڑے ایک ہزار کے لشکر کی صفیں الٹ کر اعلان کیا کہ حضور آگئے ہم ذلیل تھے آقا نے آکر معزز کردیا ۔ الله نے آقا کی صورت میں ہم پر احسان عظیم کیا اور میلاد کسے کہتے ہو ؟ گھوڑوں کی پشتوں پر بیٹھ کر قیصر و کسری کی چوکھٹوں پر پہنچ کر اعلان کیا حضور آگئے اب سکہ انھی کا چلے گا – ابو عبیدہ بن جراح باپ کا سر کاٹ کر لائے آقا کے قدموں میں ڈال دیا آپ نے پوچھا ابو عبیدہ یہ کس کا سر کاٹ کر لائے ہو ، جواب دیا آقا اپنے باپ کا سر لایا ہوں آپکو بھونکتا تھا – لوگ کہتے ہیں کیا صحابہ نے جھنڈیاں اور فانوس لگائے – ؟ جو باپ کا سر کاٹنے سے دریغ نہ کرتے تھے انھوں نے دس روپے کی جھنڈیاں نہیں لگانی تھیں اور فانوس گھر میں چھپائے رکھنے تھے ، عقل کے اندھو اسوقت نہ کاغذ تھا نہ فانوس – عقل ہوتی تو نہ لیتے خدا سے لڑائی ۔ سرکار اونٹ پر سوار تھے صحابی رسول عبدالله بن رواح نے اونٹ کی مہار پکڑی تھی ۔ فتح مکہ کے دن مہار تھامے عبدالله بن رواح جب حرم میں داخل ہوئے تو آپ بلند آواز سے کہہ رہے تھے ہٹ جاؤ کافرو حضور آگئے ہیں یہ انکا انداز تھا آمد مصطفی کا اعلان کرنے کا ۔ مدینے کی ننھی بچیوں نے طلع البدر علینا پڑھکر آمد رسول کا جشن منایا –

حضرت حذیفہ بن یمان صحابی کو ایک تابعی ملے تابعی نے پوچھا بابا جی آپ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو پایا آپ نے انکے لئیے کیا کیا ؟ صحابی نے فرمایا بیٹا ہم نے سب کچھ ہی ان پر لٹا دیا کچھ نہیں بچایا ۔ تابعی نے کہا بزرگو اگر والله ہم حضور کا زمانہ پاتے تو ہم نے آقا کو زمین پر نہیں چلنے دینا تھا انکو ہمیشہ اپنی گردنوں پر اٹھائے رکھتے ۔ صحابی نے یہ نہیں کہا کہ تم ہم سے بڑے عاشق ہو بلکہ فرمایا بیٹا آج تم نے مجھے تڑپا کر رکھ دیا ہے ۔ صحابہ کا انداز اپنا تابعی کا انداز اپنا ۔ امام مالک نے ساری زندگی مدینہ منورہ میں جوتا نہیں پہنا ۔ اب چودہ صدیوں میں کسی کو جرات نہ ہوئی کہ امام مالک سے پوچھے کہ جناب صحابہ تو مدینے میں جوتے پہن کر پھرتے تھے آپ بغیر جوتوں کے ، کیا آپ صحابہ سے بڑے عاشق رسول ہیں ۔ ؟ کسی نے امام مالک پر آجتک فتوی نہیں لگایا کیونکہ اہل دل جانتے ہیں محبت کا انداز اپنا اپنا ۔ دلو رآم کوثری کا ایک شعر یاد آرہا ہے
ہم مرد ہیں اور عشق ہے مردانہ ہمارا
سرکار دو عالم سے ہے یارانہ ہمارا

جنگ یمامہ میں چودہ سو صحابہ نے جانوں کا نذرانہ دیکر فرمایا خبر دارحضور آگئے اب کسی اور نبی کی گنجائش ہی نہیں ۔ جنگ یمامہ ہی میں وحشی بن حرب نے نیزا مار کار مسیلمہ کذاب کو مار کر اعلان کیا حضور آگئے اب کسی جھوٹے کمینے کی گنجائش ہی نہیں ۔ صحابہ آمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کا اعلان کرتے کرتے افغانستان تک آگئے ۔ آگئے آقا اب سکہ محمد عربی ہی کا چلے گا ۔ جسطرح آمد مصطفی کا جشن صحابہ نے منایا ہم اسطرح نہیں مناسکتے ہاں جھنڈیاں فانوس لگاکر چراغاں کرکے درود وسلام پڑھکر اپنی خوشی کا اظہار کرلیتے ہیں ۔ اب صحابہ نے چائے نہیں پی تھی اسکو بنیاد بنا کر اب اگر میں فتوی لگا دوں کہ چائے پینا حرام ہے لوگ مجھے پاگل کہیں گے اور مجھے قائل کریں گئے کہ چاہے صحابہ نے چائے نہیں پی مگر یہ حلال ہے کیونکہ چائے کے تمام اجزا دودھ پانی پتی چینی سب حلال ہے ۔ ان سب کو مکس کیا آگ پر چڑھایا نئی شکل بن گئی جسے چائے کہتے ہیں اب چاہے یہ شکل صحابہ کے دور سے ثابت نہیں مگر پھر بھی حلال بھی اور جائز بھی ہے ۔ اسی طرح ذکر مصطفی جائز ، نعت جائز ، تلاوت جائز ، شرعی حدود میں آرائش سجاوٹ جائز ، درود سلام جائز ۔ ان سب عوامل کو یکجاکیا خوشی منانے کی نئی صورت بن گئی دور جدید کے مطابق تو یہ ناجائز کیسے ، ہاں ڈھول باجا ناچ گانے اور غیر شرعی افعال کی آمیزش نہیں ہونی چاہئیے – ایک مولوی جی کو میں نے چائے والی مثال دی کہنے لگے چائے پینا دین نہیں میں نے عرض کیا جب چائے پیتے ہو اسوقت بے دین ہوتے ہو ؟ تمھیں کس نے کہا کھانا پینا دین نہیں ہمارا دین کوئی رہبانیت ہے جو کھانا پینا چھوڑ کر جنگلوں میں چلے جائیں ۔ خیر چھوڑو حج کرنا تو دین ہے صحابہ نے پیدل کیا یا اونٹ پر تم ہوائی جہاز پر کیوں کرتے ہو ۔ فرمانے لگے اسوقت اونٹ سواری تھا آج جہاز ۔ میں نے عرض کیا ملاں جی یہی نقطہ سمجھنے کا ہے کہ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں صحابہ کے خوشی منانے کا اپنا انداز تھا ہمارا اپنا انداز ہے ، مومن جس دور میں جیتا ہے اسکے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے ۔ منکرین سے آخر میں سوال
کیا صحابہ نے غائبانہ نماز جنازہ کسی کی کبھی پڑھی ؟ کیا صحابہ نے ختم بخاری کیا ؟ کیا صحابہ نے دفاع پاکستان ریلی نکالی ؟ کیا صحابہ قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہوئے ؟ ڈیزل اور ساجد میر وہابی بھی ترآنے کے احترام میں کھڑے ہوتے ہیں حلالی بنو لگاؤ فتوی – ظالمو تمھارے سارے فتوے میلاد کے لئیے ہیں۔ ؟ صحابہ نے یوم صدیق اکبر منایا ؟ صحابہ نے یوم فاروق اعظم پر جلوس نکالے ؟ اپنی بدعت کی تعریف درست کرلو ورنہ وہ تمام کام ترک کردو جو ادوار صحابہ سے ثابت نہیں ۔ منہ اٹھا کر کہہ دیتے ہیں کیا صحابہ نے میلاد منایا ؟ تمھارا صحابہ سے تعلق کیا ہے ؟ جب تمھیں تمھارے عقیدے کے خلاف کسی صحابی کا قول سنائیں تو جھٹ کہتے ہو صحابہ ہمارے لئیے حجت نہیں ۔ یہ دورنگی اور منافقت چھوڑو ۔ [ (Usman Ahsan, Liverpool UK)

کیا صحابہ نے میلاد منایا ؟

(Usman Ahsan)

لنک/ریفرنس

  1. [ کیا میلاد منانا بدعت ہے؟ (کتاب) http://bit.ly/2BWXfZW]
  2. 2.میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت اور تنقید:  https://goo.gl/qKmprR
  3. ولادتِ نبوی۱۲/ربیع الاوّل اوروفات ۲/ربیع الاوّل- ایک تحقیق: https://goo.gl/eqjmuH
  4. بدعات اہل حدیث: https://goo.gl/V2qySV
  5. ایک مسلمان کا اعلئ جامعه الاسلامیه سے (SMS) ایس ایم ایس پر مکالمہ :https://goo.gl/53xHtc

https://www.facebook.com/SalaamOne/posts/1512841395462061


.

ہر نیا کام دین میں جاری کرنا بدعت ہے

۔ ہر سال ربیع الاول کے مہینہ میں خوب جوش وِخروش سے ایک مہم شروع ہوتی ہے کی میلاد النبی ﷺ منانا بدعت ہے، کیونکہ یہ سلسلہ بعد میں شروع ہوا یہ ایک تاریخی حقیقت ہے- مگر یہ کوئی مذہبی عبادت یا دین کا حصہ نہیں کلچرل ایونٹ ہے اس پر علماء کی مختلف آراء ہیں تفصیل ملاحضہ کر سکتے ہیں اس پر تفصیل ملاحضہ کر سکتے ہیں:
https://salaamone.com/milad

بدعہ کے سخت ترین مخالف امام ابن تیمیہ( رح ) نے میلاد النبی ﷺ منانے کے ثواب کو نیت کے ساتھ مشروط کیا (نیت کاحال اللہ کو معلوم ہے) اس لحاظ سے کسی کی صوابدید پر  ہے کہ احترام و محبت سے مگر  خرافات سے پاک ، پر وقار طریقہ سے منائے یا نہ منائے ، لیکن بحر حال یہ دین کا حصہ نہیں ہے۔

’’اور اِسی طرح اُن اُمور پر (ثواب دیا جاتا ہے) جو بعض لوگ ایجاد کرلیتے ہیں، میلادِ عیسیٰ علیہ السلام میں نصاریٰ سے مشابہت (مکروہ) کے لیےیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور تعظیم کے لیے۔ اور اﷲ تعالیٰ اُنہیں اِس محبت اور اِجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر، اُن لوگوں کو جنہوں نے یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہ طور عید اپنایا۔‘‘- ’میلاد شریف کی تعظیم اور اسے شعار بنا لینا بعض لوگوں کا عمل ہے اور اِس میں اُس کے لیے اَجر عظیم بھی ہے کیوں کہ اُس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم بھی ہے، جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک اَمر اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے ہیں۔‘‘(ابن تيميه، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 406))

یہ جو لوگ ہر بات پر بدعت کے فتوے لگاتے ہیں امام ابن تیمیہ ( رح) کو اپنا امام بھی مانتے ہیں ان لوگوں کی علمی حیثیت امام ابن تیمیہ ( رح) کے سامنے ایک زرہ برابر بھی نہیں- اس لئے آپ کی صوابدید ہے کہ امام ابن تیمیہ ( رح) کی بات قبول کریں یا کسی اور کی (واللہ اعلم )-

یہ ایک ایسا کلچرل عمل ہے جس پر دین کی عمارت نہیں کھڑی، رسول اللہ ﷺ سے محبت اور عقیدت کا اظہار ہے۔ جاہل لوگ خرافات ، راستے روک کر عوام کو پریشان کرکہ غیر شرعی کام کرکہ سمجھتے ہیں کہ رسول ﷺ خوش ہوں گے؟ رسول ﷺ تو قرآن و سنت پر عمل سے خوش ہوں گے۔ اس موقع کو مسلمانوں میں نفاق اور نفرت ، فرقہ واریت کے لئیے استعمال کرنا افسوسناک عمل ہے جس سے پرہیز بہتر ہے۔
حضرت عیسی علیہ السلام نے علماء یہود کو کہا کہ:

تم اندھے رہنما ہو خود اونٹ کھا جاتے ہو اور دوسروں کے مشروب میں مچھر پکڑتے ہو۔

 You blind guides! You strain out a gnat but swallow a camel.  [Methew 23:24]

یعنی علماء یہود خود انتہائی بڑے غیر شرعی کام کرتے تھے اور عوام کی معمولئ غلطیوں پر فتوے لگاتے تھے۔ یہی روش آج کے مسلمان علماء کی ہے۔ چھوٹے فروعی اختلافات کو خوب اچھالتے ہیں اور خود بہت بڑی بدعات کے مرتکب ہوتے ہیں۔
ایسے بہت اہم نئے نئے کام صدیوں بعد ایجاد ہوئے جن سے اسلام کی بنیادیں ہل گئیں ، وہ کام جو کہ  نہ صرف یہ کہ بدعت ہیں بلکہ اللہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفا راشدین کی سنت اور احکام کے برخلاف ہیں۔ اس طرف کسی کی توجہ نہیں ہوتی ۔۔۔۔

عوام کو حقائق معلوم ہونا چاہیئے کہ ہمارے دینی رہنماوں کی ترجیحات علماء یہود سے مختلف نہیں اور وہ ہمیں کدھر لے جا رہے ہیں

عرباض رضی اللہ عنہ نے کہا

ایک دن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی ، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں دل موہ لینے والی نصیحت کی جس سے آنکھیں اشک بار ہو گئیں ، اور دل کانپ گئے ، پھر ایک شخص نے عرض کیا :
اللہ کے رسول ! یہ تو کسی رخصت کرنے والے کی سی نصیحت ہے ، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرما رہے ہیں ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستہ سے میرے بعد صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا (ماجہ ٤٣)
” میں تمہیں اللہ سے ڈرنے ، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں ، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو ، اس لیے کہ جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا ، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا ، تم اس سے چمٹ جانا ، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا ، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا ، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے ، اور ہر بدعت گمراہی ہے
(عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ ‏)
[ابن ماجہ, 42 , ابی داود 4607 ، ترمزی 2676 وَقَالَ: حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ كتاب السنة باب فِي لُزُومِ السُّنَّةِ حكم صحيح (الألباني)]
دل تھام کر زرا غور سے پڑھیں ۔۔۔ کہ ۔۔۔
۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت میں کوئی مدون جلد میں کتاب نہ چھوڑی،

خلفا ء راشدین کے دور میں بہت ترد و سوچ بچار کے بعد قرآن کو جمع کیا گیا پھر کئی سال بعد کتاب کی شکل میں مدون کرکہ محفوظ کردیا گیا،

لیکن کتب احادیث مدون نہ کرنے کا فیصلہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ پچھلی اقوام کتاب اللہ کے علاوہ کتب لکھ کر گمراہ ہوئیں (یہود تالمود 38 جلد اور نصاری عہد نامہ جدید کی 23 کتب)۔ اس پر حضرت ابوحریرہ رض نے اپنا زخیرہ کو آگ لگادی اور مرتے دم تک حدیث نہ لکھی حفظ و بیان کرتے۔ یہی حال دوسرے صحابہ کا تھا ، کچھ حفظ کے لئیے لکھتے پھر مٹا دیتے کچھ نے نوٹس رکھے مگر کتاب مدون نہ کی۔ حضرت عمر (رض) نے استخارہ کے بعد زخیرہ احادیث جمع کرکہ جلادیں۔
۔ اس حکم رسول اللہ ﷺ و خلفاء راشدین پر صحابہ اور تابعین نے عمل کیا۔
۔ لیکن  تیسری صدی میں مشہور کتب احادیث مدون ہوئیں
۔ یہ سارے ناقابل تردید حقائیق احادیث اور تاریخ میں آن ریکارڈ ہیں۔ جو لنکس زیل پر بھی ہیں۔
دوسری تیسری صدی ہجرہ میں تدوین کتب احادیث کو جتنا بھی ضروری اور اچھا کہیں ، یہ احکام و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سنت خلفاء   راشدین کی حکم عدولی ہے۔

 ایک کتاب اللہ ، قرآن کے مقابل سینکڑوں کتب رسول اللہ ﷺ کے نام سے ان کے حکم کے برخلاف لکھ کر اور منسوب بھی کر دی گیئں

(مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ ‏)
اللہ کا اطاعت رسول کا حکم ، اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اپنی اور خلفاء راشدین کی سنت کو دانتوں سے پکڑنے اور نئی باتوں ، بدعات گمراہی ضَلاَلَةٌ سے بچنے کا حکم دانتوں سے پکڑنے کی بجائے پاوں تلے روند دیا گیا (مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ ‏)۔ اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔

جب رسول اللہ ﷺ نے اختلافات کا ذکر فرمایا اور ان کو حل کرنے لیے خلفاء راشدین (رض) کو حکم ، قاضی مقرر فرما دیا تو کتب احادیث لکھنے یا نہ لکھنے کے اختلاف کا فیصلہ انہوں نے اپنی سنت سے نہ لکھ کر کر دیا- اس فیصلہ پر رسول اللہ ﷺ کی مہرپہلے ہی لگ چکی، اس کا انکار رسول اللہ ﷺ کے حکم کا انکار ہے اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کا انکار الله کے حکم کا انکار ہے- جو لوگ آج بھی یہ فضول بحث کرتے ہیں کہ کتب حدیث لکھنے کی اجازت رسول اللہ ﷺ نے دی تھی وہ خلفاء راشدین سے زیادہ علم کا دعوی کرتے ہیں، کیا ان لوگوں کو خلفاء راشدین سے زیادہ حالات کا علم ہے؟ جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے حکم سے انکار کرتے ہیں جس کا انجام قرآن کے مطابق ابدی جہنم ہے

عوام کو تاویلوںں اور من گھڑت کہانیوں کے زور پر صدیوں سے گمراہ رکھا گیا ہے۔ اس عمل کو بدعت کہیں یا انکار رسول اللہ ﷺ ؟
حضرے عیسی علیہ السلام نے علماء یہود کو کہا کہ تم خود اونٹ کھا جاتے ہو اور دوسروں کے گلاس میں مچھر پکڑتے ہو۔
یعنی علماء یہود خود انتہائی بڑے غیر شرعی کام کرتے تھے اور عوام کی معمولئ غلطیوں پر فتوے لگاتے تھے۔ یہی روش مسلمان علماء کی ہے۔ چھوٹے فروعی اختلافات کو خوب اچھالتے ہیں اور خود بہت بڑی بدعات کے مرتکب ہوتے ہیں۔

<<<<<< تفصیل

https://bit.ly/Tejdeed-Islam
https://bit.ly/Hadith-Basics

 تجديد الإسلام: مقدمہ  [Read  <Abstract >English]

Islamic Revival (تجديد الإسلام ) Abstract

An in-depth study of Islamic religious history reveals surprisingly incredible facts – but these bitter facts make clear the urgency and necessity of reviving the perfect religion of the first century Hijrah. The Quran, also known as Al-Furqan (the criterion to distinguish truth from falsehood), presents a straightforward approach to rejuvenate the perfected faith of…