Monotheism ، Polytheism and Bible (توحید, شرک اور بائیبل (6

 

باب -6

 

توحید اور شرک اور بائیبل

 

توحید (monotheism)  وہ عقیدہ ہے جس میں صرف ایک خدا کے وجود پریقین ہو۔ اسی سے توحیدی بنا ہے جس کو انگریزی میں monotheistic) (کہتے ہیں جبکہ اس پر عمل کرنے والے کو توحید پرست (monotheist) کہا جاتا ہے۔
The existence of God is taken for granted in the Bible. The First Commandment declared in the Old Testament as well as New Testament states the Oneness of God (Deuteronomy;6:4, Mark;12:29). There was to be no discussion on God’s nature and certainly no attempt to manipulate him as pagans sometimes did when they recited the names of their gods. Yahweh is the Unconditioned One: I shall be that which I shall be. He will be exactly as he chooses and will make no guarantees..[…….  ]ii.
اس کے برعکس مشرکیت (polytheism) ہے ، جسے ‘متعدد خدائی’ بھی کہا جاتا ہے۔ اس عقیدے میں ایک سے زائد خداؤں پر ایمان ہوتا ہے اور ان خداؤں کے اقتدار میں انسانوں کی خصوصی ضروریات ہوتی ہیں ـ مثلا قدیم یونانی مذہب میں زیوس ( , Zeus Ζεύς) باقی دیوتاؤں کا باپ اور بادشاہ تھا، ایرِیز خدائے جنگ تھا اور آفرودیتہ (Aphrodite)  محبت اور حُسن کی دیوی تھی ـ

 

الله کے عظیم پیغمبر حضرت ابراہیم (عليہ السلام) جو یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے باپ ہیں، ایک خدا کے وجود کی سچائی پر اپنی بصیرت، استدلال اور خدا کی رحمت کے ذریعے پہنچ گئے- قرآن میں ارشاد باری تعالی ہے:
“اور ہم اس طرح ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کے عجائبات دکھانے لگے تاکہ وہ خوب یقین کرنے والوں میں ہوجائیں- (یعنی) جب رات نے ان کو (پردہٴ تاریکی سے) ڈھانپ لیا (تو آسمان میں) ایک ستارا نظر پڑا۔ کہنے لگے یہ میرا پروردگار ہے۔ جب وہ غائب ہوگیا تو کہنے لگے کہ مجھے  غائب ہوجانے والے پسند نہیں پھر جب چاند کو دیکھا کہ چمک رہا ہے تو کہنے لگے یہ میرا پروردگار ہے۔ لیکن جب وہ بھی چھپ گیا تو بول اٹھے کہ میرا پروردگار مجہے سیدھا رستہ نہیں دکھائے گا تو میں ان لوگوں میں ہوجاؤں گا جو بھٹک رہے ہیں، پھر جب سورج کو دیکھا کہ جگمگا رہا ہے تو کہنے لگے میرا پروردگار یہ ہے یہ سب سے بڑا ہے۔ مگر جب وہ بھی غروب ہوگیا تو کہنے لگے لوگو! جن چیزوں کو تم (خدا کا) شریک بناتے ہو میں ان سے بیزار ہوں میں نے سب سے یکسو ہو کر اپنے تئیں اسی ذات کی طرف متوجہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں”(6:75,79 قرآن)
اسلام کی بنیاد توحید پر سختی سے کاربند ہونے پر ہے- توحید کا  پیغام حضرت آدم سے شروع ہو کر حضرت  نوح (عليہ السلام)  پھر حضرت  ابراہیم (عليہ السلام) اور دوسرے پیغمبروں کے زریعے دنیا میں  پھیلا- اللہ، ایک ہی خدا، خالق، رب اور تمام جہانوں کا پروردگارہے- توحید کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ اپنی ربوبیت ، الوہیت اور اسماء وصفات میں اکیلا ، بے مثال اور لاشریک ہے۔ تمام پیغمبروں حضرت یعقوب(عليہ السلام) سے موسیٰ (عليہ السلام) سے حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) تک یہی  پیغام توحید  کی تبلیغ کرتے رہے- الله کے آخری رسول حضرت محمد ﷺ نے چودہ سو سال قبل اس پیغام کو تمام بنی نوع انسانی کے لیے ابدی طور پر محکم کر دیا: “وہی ایک اللہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں اسی کے لیے حمد ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، فرماں روائی اسی کی ہے اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو”(قرآن28:70)
توحید، اسلام کی بنیاد ہے جس  کومکمل طور پرسمجھنے کی ضرورت ہے. توحید اس معنی میں خدا کی وحدانیت سے متعلق ہے کہ :” اور کوئی معبود نہیں مگر وہ” ، ‘کلمہ شہادت’ میں بتایا گیا ہے کہ: ” اللہ کے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں (قرآن 47:19) اور محمد (ﷺ) اس کے رسول ہیں”(48:29قرآن )
توحید خدا کی فطرت کومزید واضح کرتی ہے؛ خدا یکتا ہے، وہ حصوں میں تقسیم نہیں بلکہ متحد ایک ذات واحد ہے:
“کہو، وہ اللہ ہے، یکتا، اللہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں، نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ،اور کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے”(112:1,2,3,4، قرآن)
“تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے، اُس رحمان اور رحیم کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے””(قرآن2:163)
“اِن لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ پہچانی جیسا کہ اس کے پہچاننے کا حق ہے واقعہ یہ ہے کہ قوت اور عزت والا تو اللہ ہی ہے” (22:74قرآن)
خدا کے اتحاد کے نظریہ سے متعلق کچھ سوال پیدا ہوئے جیسے جوہر(essence) اور خدا کی صفات کے درمیان تعلق، یہ  اسلامی تاریخ میں اٹھنےوالے مسائل رہے ہیں-
توحید کومشرکانہ معنوں میں دکھایا نہیں کیا جا سکتا- یہ کہنا غلط ہے کہ:” تمام جوہر(essences) خدائی ہیں، اور خدا کی سوا کوئی مطلق وجود نہیں ہے”. خالق اور مخلوق علیحدہ ہیں، مخلوق  کو  خالق نے عدم سے  وجود میں  لا یا ، اپنے  وجود سے نہیں- وحدت الوجود ایک صوفیانہ عقیدہ ہے جس کی رو سے جو کچھ اس دنیا میں نظر آتا ہے وہ خالق حقیقی کی ہی مختلف شکلیں ہیں اور خالق حقیقی کے وجود کا ایک حصہ ہے۔ اس عقیدے کا اسلام کی اساس سے کوئی تعلق نہیں ، قران و حدیث میں اس کا کوئی حوالہ نہیں ملتا اور اکثر مسلمان علماء اس عقیدے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ چونکہ اس عقیدے کی ابتدا مسلم صوفیا کے یہاں سے ہوئی اس لیے اسے اسلام سے متعلق سمجھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت کے لیئے، توحید ایک سائنس، منظم علم الہیات ہے جس کے  ذریعے خدا کے بارے میں بہتر علم تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے-
بائبل اور توحید:
خدا کا وجود بائبل میں ایک ابدی موجود  حقیقت کے طور پر مانا جاتا ہے- خدا کوثابت کرنے کے لئے بائبل میں کہیں کوئی دلیل نہیں ہے- رسولوں اور نبیوں کی طرف سے پیروکاروں کو مطمئن کرنے کے لئے معجزے اور نشانیاں کافی سمجھی جاتی تھیں-  تاہم اس کے باوجود مصر سے معجزانہ حالات میں محفوظ نکلنے کے بعد، فوری طور پر  اسرائیلی بچھڑے کی پرستش میں مشغول ہو گئے-  بائبل کے مطابق  جس نے خدا کی سچائی کا انکار کیا وہ کم  عقل ہے :
“بے وقوف شخص اپنے دل میں کہتا ہے ، “ کو ئی خدا نہیں ہے۔   احمق لوگ تو ایسے عمل کرتے ہیں جو کہ گندے اور نفرت انگیز ہو تے ہیں۔ وہ کبھی کوئی بھلا کام نہیں کر تے۔”(زبور 14:1)
“خدا وند اسرائیل کا بادشاہ ہے۔ خدا وند قادر مطلق اسرائیل کی حفاظت کرتا ہے۔ خدا وند فرماتا ہے، ’میں ہی اول ہوں میں ہی آخر ہوں۔ میرے علاوہ کوئی دوسرا خدا نہیں ہے”۔( 44:6یسعیاہ)
پرانے عہد نامہ کے ساتھ ساتھ نئے عہد نامے میں ‘ پہلا حکم’  خدا کی کی وحدانیت کا اعلان کرتا ہے-
“سُنو ! اے بنی اسرا ئیلیو ! خداوند ہما را خدا ہے۔ خداوند ایک ہے !  اور تمہیں خداونداپنے خدا کو دل سے او ر رُوح سے محبت کرنا چا ہئے۔”  (استثناء 6:4، مرقس 12:29)
“تب یسوع نے کہا، “سب سے اہم حکم یہ ہے اے بنی اسرائیلیو سنو، خداوند ہمارا خدا ہی صرف ایک خداوند ہے۔”(مرقس 12:29)
“وہ ( خداوند) ہماری چٹان ہے،  اس کے تمام کام کا مل ہیں۔   کیوں کہ اس کے تمام راستے سچ ہیں!وہ بُرائی نہیں کرتاہے۔ خدا اچھا اور وفادار ہے”۔(استثناء 32:4)
خدا کی لامحدود یت کی واضح نشاندہی کی جاتی ہے:
تب موسیٰ نے خدا سے کہا، “اگر میں بنی اسرا ئیلیوں کے پاس جا ؤں گا اور اُن سے کہوں گا ‘ تم لوگوں کے باپ دادا کے خدا نے مجھے ے تمہا رے پاس بھیجا ہے ، ’ تب لوگ پو چھیں گے ، اُس کا کیا نام ہے ؟ میں اُن سے کیا کہوں گا ؟”تب خدا نے موسیٰ سے کہا، “تب ان سے کہو ، ’ میں جو ہوں سو میں ہوں۔ ‘ جب تم بنی اسرائیلیوں کے پاس جا ؤ تو اُن سے کہو، ’ میں جو ہوں ‘ خداوند نے مجہے تم لوگوں کے پاس بھیجا ہے۔” خدا نے موسیٰ سے یہ بھی کہا، “لوگوں سے تم جو کچھ کہو گے وہ یہ ہے :” یہواہ( خداوند)” تمہا رے باپ دادا کا خدا ، ابراہیم کا خدا ، اسحاق کا خدا اور یعقوب کا خدا ہے۔ میرا نام ہمشہ یہواہ( خداوند) رہے گا۔ اسی طرح لوگ مجہے صرف اسی نام کے ساتھ نسل در نسل یاد رکھیں گے۔ لوگوں سے کہو خداوندنے مجہے تمہا رے پاس بھیجا ہے۔”(خروج 3:13،14)
جب موسی نے خدا سے پوچھا کہ وہ کون ہے؟  جواب آیا مت فکر کرو کہ میں کون ہوں! اپنے کا م سے کام رکھو-
خدا کی فطرت پر کوئی بحث کی ضرورت نہیں اور یقینی طور پراس کے نام کے ساتھ کوئی گڑبڑ کرنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ مشرکین جب اپنے دیوتاؤں کے ناموں کو پکارتے تہے- یہواہ( خداوند) بلا شک بلا شرط ایک واحد ہے: ” میں جو ہوں سو میں ہوں۔” وہ وہی ہے جو وہ اپنے لیئے پسند کرتا ہے-
خدا کی صفات کو کچھ نے ‘مطلق’ بیان کیا ہےجو اس کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں جیسے  یہوواہ، جاہ، وغیرہ یعنی وہ جو نام جو اس کے لئے استعمال ہوتے ہیں جب اس کا مخلوق سےتعلق منسوب کرتے ہیں- دوسروں نے صفات کو ‘قابل انتقال’ ( ommunicable’) فرق سے سمجھا یعنی وہ صفات جو کسی حد تک مخلوق کو ودیعت کی جا سکتی ہیں: نیکی، پاکیزگی، حکمت، وغیرہ اور (‘Incommunicable’) ‘ناقابل انتقال”‘ جو مخلوق کو ودیعت نہیں  کی جا سکتیں: آزادی، قیام، وسعت اور دوام-
کچھ لوگوں نے ان کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ان میں  ‘قدرتی اوصاف؛ ہمیشگی، عظمت وغیرہ اور اخلاقی؛ پاکیزگی، نیکی، وغیرہ- خدا کی صفات حضرت موسیٰ علیہ السلام  کی طرف سے اس طرح پیش  کی گئیں:
خداوند موسیٰ کے سامنے سے گزرا اور اُ سنے کہا، “یہواہ خداوند، رحمدل اور مہربان خدا ہے۔ خداوند جلدی غصّہ میں نہیں آتا ہے۔ خداوند عظیم محبت سے بھرا ہے۔ خداوند بھروسہ کر نے کے لئے ہے۔ خداوند ہزا روں نسلوں پر مہربانی کر تا ہے۔ خداوند لوگوں کو ان غلطیوں کے لئے جو وہ کر تے ہیں معاف کر تا ہے۔ لیکن خداوند قصورواروں کو سزا دینا نہیں بھو لتا۔ خداوند صرف قصوروار کو ہی سزا نہیں دیگا بلکہ اُن کے بچّوں اُن کے بیٹوں اور بیٹیوں کو بھی اُس بُری بات کے لئے تکلیف برداشت کرنا ہوگا جو وہ لوگ کرتے ہیں۔”(خروج ؛ 34:6،7)
بائبل میں خدا کو لافانی ( خروج33:27 ; زبور90:2 ), دائمی ، ہمیشہ زندہ (1- تیموتاؤس ‘1:17،6:16)، نور (یشیا ؛60:19، یعقوب؛ 1:17، 1یوحنا 1:15)، غائب (ایوب ؛23؛8،9)، لا تلاش (ایوب: 11:7;زبور 145:3; یسعیاہ:40:28 ، رومیوں :11:33 ) غیر فانی، بغیر صورت رومیوں ;1:23)، مکمل خود مختارملک ( دانیال ;4:25,35),عظیم طاقتور:ایوب ;36:5)، قادر مطلق(پیدائش 17:1;خروج ;6:3),عظمت اور جلال، علیم،خبیر(139:1-6;امثال;5:21),ہر طرف موجود(زبور ; 139:7;یرمیاہ؛;23:23) ابدی ,مکمل، مستقل ;102:26-27),بڑی عظمت والا (خروج  ;15:11;زبور;145:5),سب سے بلند، اعلی (زبور:83:18;اعمال;7:48), کامل(متی:5:48؛ ایوب ;36:4; 37:16) ,مقدس، پاک (زبور;99:9; یسعیاہ:;5:16), منصف؛(استثناء;32:4; ; یسعیاہ;45:21),سچا ،راست (یرمیاہ:10:10),عزت والا، بلند مرتبہ ، اچھا (25:8; 92:15),عادل،اچھا ( عذرا;9:15;زبور;25:8; 119:68،145:17)، نیک اور مقدس (متی:19:17) ,لاجواب، (یشیا ;44:7;رمیاہ:10:7), عظیم(زبور:86:10), احسان، رحمان (خروج:34:6,زبور;116:5) ,رحیم (خروج ;34:7،6 ) ,صبر، برداشت والا (گنتی:14:18;میکاہ:7:1)
غیور ،حاسد:  “تب یشوع نے کہا ،“یہ سچ نہیں ہے تم خدا وند کی خدمت جاری رکھنے سے معذور ہو۔ خدا وند پاک خدا ہے اور خدا اپنے لوگوں کے ذریعہ دوسرے خدا ؤں کی عبادت کرنے سے حسد (نفرت) کرتا ہے اگر تم اس طرح خدا کے خلاف ہو جاؤ گے تو خدا تم کو معاف نہیں کرے گا۔” (یشوع:24:19  ) خدا وند بہت غیرت مند اور انتقام لینے والا خدا ہے۔ خدا وند وہ ہے جو طیش میں بدلہ لیتا ہے۔  وہ اپنے مخالفوں سے بدلہ لیتا ہے اور اسکا غیض و غضب اسکے دشمنوں کے خلاف ہے۔ (ناحُوم;1:2)
رحیم: (دوئم سلاطین;13:23),اس کے علاوہ کوئی اور نہیں،لا شریک (استثناء;4:35;یشوع:44:6),اول، اس سے پہلے کوئی نہیں (یشوع:;43:10),اس کی طرح کوئی نہیں(خروج؛;9:14; استثناء;33:26، 2سیموئل;7:22;یشوع:46:5,9), زمین و آسمان اس سے معمور(2سلاطین;8:27;یرمیاہ;23:24)، روح اور سچائی سےعبادت  کرنا چاہئے(یوحنا;4:24), جلانے والی آگ (عبرانیوں:12:29).علم کل، ماضی و مستقبل(یسعیاہ;46:9،10،11) ، اکیلا معبود آسمان و زمین پر(نحمیاہ:;9:6;متی؛4:10)، اکیلا نجات دھندہ ( یسعیاہ;45:21-22)،  اکیلا معاف کرنے والا (میکاہ:7:18;مرقس؛2:7)، عالمگیر(ایوب:28:24;دانیال:2:22;اعمال:15:18) ، لامحدود:(زبور؛147:5;رومیوں;11:33)، حیرت انگیز،انسانی عقل سے ماورا(زبور;139:6 ،145:6) غیرمخلوق(ایوب؛21:22;یسعیاہ;40:12،13،14)، بت پرستی کی ملامت (خروج:20:3-5,استثناء:5:7،8،9)،
بائبل میں کچھ جگہ خدا کی، بعض صفات کا بیان اس کی مخلوق کی طرح ہے جو عظیم خالق اور پروردگار کی عظمت، وقار کے شایان شان نہیں-ایسی صفات بائبل میں دوسری جگہوں پر بیان کردہ صفات کی تردید کرتی معلوم ہوتی ہیں، مثلآ:
“اس دن شام کو ٹھنڈی ہوا ئیں چل رہی تھیں، خداوند خدا باغ میں چہل قدمی کر رہا تھا۔ جب آدم ا ور اس کی عورت نے اس کی چہل قدمی کی آوا ز سُنی تو باغ کے درختوں کی آڑ میں چھپ گئے۔ خداوند خدا نے پکا ر کر آدم سے پو چھا ، “تو کہا ں ہے ؟”(پیدائش:3:8،9).
خدا کا ندامت محسوس کرنا: “خداوند کو بہت افسوس ہوا کہ اس نے لوگوں کو زمین پر پیدا کیا تھا۔ اس کی وجہ سے اس کے دِل میں بہت دُکھ ہوا۔”(پیدائش:6:6)
“اے یروشلم! تم نے مجہے چھو ڑا!   اس لئے میں سزا دوں گا اور تمہیں فنا کروں گا۔  میں تم پر رحم کرتے ہو ئے تھک گیا ہوں۔”(یرمیاہ:15:6 )
خدا نے انسان کواپنی صورت پر پیدا کیا(پیدائش:1;26-27,5:1)مگر دوسری جگہ پر :”خدا کی طرح کا کوئی نہیں” (یسعیاہ46:9)
اسلام مخلوق میں خدا کی جھلک یا مماثلت کو رد کرتا ہے:”یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کی”ا ( قرآن :95:4). کیونکہ:”اس کی طرح کا کوئی نہیں”( قرآن؛112:4)
خدا کا نائی کی طرح بال کاٹنا:
یہوداہ کو سزا دینے کے لئے خدا وند اسور کا استعمال کرے گا۔ اسور کو کرایہ پر لیگا اور اسے استرے کے طور پر استعمال کرے گا یہ ایسا ہوگا جیسے خدا وند یہوداہ کے سر اور پاؤں کے بال مونڈ رہا ہو۔ یہ ایسا ہوگا جیسے خدا وند یہوداہ کی داڑھی مونڈ رہا ہو۔”(یسعیاہ;7:20)
خداکا موسیٰ علیہ السلام کو اپنی پشت دکھانا: “تب میں اپنا ہاتھ ہٹا لوں گا اور تم میری پشت کو دیکھو گے لیکن تم میرا منھ نہیں دیکھ پاؤ گے۔”(خروج :33:23 )
میں جال میں تھا اور میں نے خداوند کو مدد کے لئے پکا را۔
“ہاں میں نے خدا کو پکا را۔ خدا اپنے گھر میں تھا اس نے میری آواز سنی۔ اسنے مدد کے لئے میری چیخ سنی۔ تب زمین ہل گئی زمین دہل گئی۔  جنت کی بنیادیں ہل گئیں۔   کیوں ؟ کیوں کہ خداوند غصّہ میں تھا! دھواں خدا کی ناک سے نکلا۔  جلتے ہو ئے شعلے اس کے مُنھ سے آئے۔  جلتی ہو ئی چنگا ریاں اس سے نکلیں۔ خداوند نے آسمان کو پھا ڑ کر کھو لا اور نیچے آیا!  وہ گھنے اور سیاہ بادل پر کھڑا ہوا! وہ کروبی فرشتوں پر  اور ہوا پر سوار ہو کر اڑرہا تھا۔”(2سموئیل:22:7,11) )
کچھ جگہوں پرخدا کی متضاد صفات موجود ہیں،کچھ  جگہ خدا کہ رہا ہے کہ  کوئی اس کونہیں دیکھ سکتا:”کسی نے کبھی بھی خدا کو نہیں دیکھا”(یوحنا:1:18)- )
“خدا ہی ہے جو لا فانی ہے خدا روشنی میں ہے اور ایسے نور کی چمک ہے کہ کوئی بھی اسکے قریب نہیں جا سکتا۔ کسی بھی آدمی نے خدا کو کبھی نہیں دیکھا کوئی بھی آدمی اسکو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے۔(۱ تِیمُتھِیُس:6:16)
“لیکن تم میرا منھ نہیں دیکھ سکتے۔ کوئی بھی آدمی مجہے نہیں دیکھ سکتا اورا گر دیکھ لے تو زندہ نہیں رہ سکتا ہے۔” (خروج:33:20)
ان سے دوسری آیات متصادم ہیں:
“پہاڑ پر ان لوگوں نے اسرائیل کے خدا کو دیکھا۔ اسکے پیڑ کے نیچے کچھ ایسی چیزیں تھیں جو نیلم سے بنے چبوترے جیسی دکھا ئی پڑ تی تھیں۔ ایسا شفاف تھا جیسے آسمان۔ “بنی اِسرائیل کے تمام قائدین نے خدا کو دیکھا لیکن خدا نے انہیں تباہ نہیں کیا تب انہوں نے ایک ساتھ کھا یا پیا۔”(خروج:(24:10,11
“خدا وند موسیٰ سے روبرو بات کر تا تھا۔ جس طرح کوئی آدمی اپنے دوست سے بات کرتا ہو۔”)خروج:(33:11
ایک بہت عجیب واقعہ مروی ہے کہ یعقوب (علیہالسلام ) نے خدا کے ساتھ کشتی اور غالب ہے کہ:
اس لئے یعقوب اکیلا رہ گیا تھا، اور ایک آدمی آیا اور ان کے ساتھ سورج طلوع ہو نے تک کُشتی لڑتا رہا۔ اُس آدمی نے یہ محسوس کیا کہ میرا یعقوب کو شکست دینا نا ممکن ہے تو اُس آدمی نے یعقوب کی ران کو چھُو لیا۔ تو یعقوب کے پیر کا جوڑ چھوٹ گیا-اُس آدمی نے یعقوب سے کہا ، “مجھے جانے دے، سورج طلوع ہو گیا ہے۔” لیکن یعقوب نے کہا کہ جب تک تو میرے حق میں دعا نہ دیدے میں تجہے نہیں چھو ڑوں گا۔ اُس آدمی نے اُس سے پو چھا، “تیرا نام کیا ہے ؟”اُس پر یعقوب نے جواب دیا کہ میرا نام یعقوب ہے۔ تب اُس آدمی نے کہا کہ اِس کے بعد تیرانام یعقوب نہ رہیگا، بلکہ “ اسرائیل” ہو گا۔ اور میں نے تجھے یہ نام دیا ہے ، کیوں کہ تو خدا سے اور آدمیوں سے لڑا ہے۔ اور غالب ہوا۔ یعقوب نے اُس سے پو چھا کہ برائے مہربانی تو اپنا نام تو بتا۔ اُس پر اُس آدمی نے جواب دیا کہ میرا نام پوچھنے کی کیا وجہ ہے یہ کہتے ہو ئے یعقوب کو دعا دی۔ اِس وجہ سے یعقوب نے کہا کہ اِس جگہ پر میں نے خدا کو آمنے سامنے دیکھا ہے اِس کے با وجود بھی میری جان بچی یہ کہتے ہو ئے اُس نے اُس جگہ کا نام “فنی ایل ” رکھا۔(پیدائش: 32:22-32)
شرک :
“اللہ کو چھوڑ کر تم جن کی پرستش کرتے ہو ان کی حقیقت اس کے سوا اور کیا ہے؟ کہ وہ چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں۔ اللہ نے ان کے لئے کوئی سند نہیں اتاری ہے فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے، اسی نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی دینِ مستقیم (سیدھا دین) ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں”(قرآن 12:40)
توحید کے مخالف شرک ہے- خدا کے ساتھ شراکت داروں یا دوسرے دیوتاوں کو شریک کرنا شرک کہلاتا ہے-  شرک کو اسلام کی طرف سے کسی بھی مسترد عقیدے یا پریکٹس کے مترادف سمجھا جاتا ہے. قرآن نے   زور دیا ہے کہ خدا کسی بھی ہستی کے ساتھ اپنے اختیارات کا اشتراک نہیں کرتا:
“اے محمدؐ، اِن سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں: بے شرمی کے کام خواہ کھلے ہوں یا چھپے اور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی اور یہ کہ اللہ کے ساتھ تم کسی کو شریک کرو جس کے لیے اُس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمہیں علم نہ ہو کہ وہ حقیقت میں اسی نے فرمائی ہے(قرآن:7:33)
“اللہ نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا ہے اور کوئی دوسرا خدا اُس کے ساتھ نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی خلق کو لے کر الگ ہو جاتا، اور پھر وہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے پاک ہے اللہ ان باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں (23:91قرآن)
شرک کی مختلف اقسام ہیں،مگر حقیقت میں اس کی دو بڑی قسمیں ہیں: “شرک اكبر” اور “شرک اصغر”، شرک کبھی خفی بھی ہو سکتا ہے اور کبھی جلی بھی۔
“شرک اکبر”میں عبادات کی ساری قسموں کو يا بعض عبادات کو غیر اللہ کی طرف پھيرنا شامل ہے، یا ایسی چیز کا انکار جن کا وجوب اللہ تعالی کے دین سے ضروری طور پر معلوم ہو، یا ایسی چیز کے انکار پر مشتمل ہے جسے اللہ نے حرام کیا ہے، جن کی حرمت دین میں ضروری طور پر معلوم ہ- خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت کو جائز سمجھنا بھی شرک ہے-
“شرک اصغر” میں وہ تمام امور ہيں جن کا نصوص سے شرک نام رکھنا ثابت ہے، لیکن “شرک اکبر” کے درجہ تک نہیں پہنچتے ہیں، تو اسے شرک اصغر کہا جاتا ہے مثلا: ريا و نمود اور شہرت طلبی، اسے شرک خفی بھی کہا جاتا ہےجو شرک اصغر ہی میں شامل ہے، اور یہ کبھی مخفی بھی ہوسکتا ہے؛ کیونکہ اس کا تعلق دل کے ساتھـ ہے-
مسلمان مکمل طور پر شرک و کفر کی تمام اقسام کو مسترد کرتے ہیں، وہ خالص توحید؛ ایک خدا، عظیم، اکبر،ابدی لامحدود اور غالب، مہربان، شفقت والا، خالق اور رب  پر ایمان رکھتے ہیں- خدا کا نہ باپ، نہ ماں اور نہ ہی کوئی بیٹا ہے نہ وہ کسی کا باپ ہے- کوئی نہ تو اس کے برابر ہے نہ اس کا حصہ دار-  اللہ آدم، نوح، ابراہیم، موسی، عیسی اور تمام انسانوں، مخلوقا ت اور کائنات کا خدا ہےوہ  کسی ایک خاص قبیلے یا نسل کا خدا نہیں- وہ تمام بنی نوع انسان اور  مخلوق کا خالق اوررب ہے-وہ عیسائیوں، یہودیوں، مسلمانوں، بودھوں، ہندوؤں، ملحد وں اور تمام مخلوق  کا خدا ہے-
الله کی  نعمتیں اس دینا میں تمام  مومنوں  اور کافروں کے لئے بطور امتحان مہیا ہیں جو اس کی حکمت اور منصوبہ بندی کا حصہ ہے، لیکن آخرت میں حساب کتاب کے بعد صرف مومنین ان کے حقدار ٹہریں گے-  لہذا ہر مؤمن کے لئے واجب ہے کہ شرک سے خبردار رہے ، اور شرک کی ان تمام اقسام سے دور رہے، خاص طور پر شرک اکبر سے، کیونکہ یہ اللہ تعالی کی نافرمانی میں سب سے بڑا گناہ ہے، اور مخلوق میں واقع ہونے والا سب سے بڑا ناقابل معافی جرم ہے-

نظریہ تثلیث :

 

مسیحیت کی بنیاد ایک انتہائی پیچیدہ نظریہ” تثلیث” کو توحید کے طور پرپیش کیا جاتا ہے جو واضح طور پر ‘عہد نامہ قدیم’ اور حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیمات کے سے مکمل انحراف ہے- لفظ ” تثلیث” بائبل  میں موجود نہیں- دوسری صدی عیسوی میں اس نظریہ کے ارتقاء کا آغاز ہوا- دوسری صدی کے آخر میں پہلی مرتبہ انطاکیہ کے تھیوفلس کی تحریروں میں  ” تثلیث” کا لفظ  استعمال ہوا- 325ء میں قسطنطین بادشاہ نے مسیحیت کو سرکاری مذہب قرار دیا تو اس وقت اس نے ایک عالمگیر کونسل  (council) بلوائی جس کا مقصد انجیل کو مدون و مرتب کرنا، اسی کونسل میں تثلیث کو مسیحیت کا بنیادی عقیدہ قرار دیا گيا۔ یہ کونسل نیقیہ میں منعقد ہوئی جو آج کل ترکی کا حصہ ہے۔ اسی نسبت سے اسے نیقیہ کونسل  (Council of Nicaea)  کہا جاتا ہے۔  آریوس (Arius) اسکندریہ، مصر میں شمالی افریقی عیسائی پروہت اور پادری تھا -آریوس (256-336ھ) عیسائی مذاہب میں سے آریوسی مذہب (Arianism) کا موجد ہے جو اس بات کا قائل ہے کہ عیسی علیہ السلام معبود نہیں بلکہ اللہ (باپ) کی طرف سے پیدا کیا گیا ہے تو حضرت عیسی علیہ اسلام اللہ کے ساتھ اسکی فطرت میں شریک نہیں بلکہ ان کے درمیان تبنی (بیٹا ہونے) کا تعلق اور نسبت ہے-آریوس نے اس بات پر زور دیا کہ عیسی علیہ السلام اللہ کی مخلوق ہیں نیز کہا کہ  مخالفین  کے نظریات بت پرستوں کے نظریت سے ملتے جلتے ہیں- کونسل نے آریوس کے عقیدہ کو رد کر کے تثلیث کو قبول کر لیا اور کئی اناجیل کو بھی بدعتی اور غیر مسلمہ قرار دیتے ہوئے ان کو پڑھنے سے منع کر دیا۔ تثلیت کا مطلب ہے ”ایک میں تین” اور ”تین میں ایک“۔ عیسائی خدا کو ایک ہی مانتے میں مگر ایک میں تین ہستیوں کو شامل کرتے ہیں۔ اس عقیدے کو ایک لفظ میں سمونے کے لیے عیسائیت کے اولین علماء نے لفظ “تثلیت” (Trinity) استعمال کیا۔ جن تین ہستیوں کو اس ایک میں شامل کیا جاتا ہے وہ اس طرح ہیں۔ (1)خدا، (2) عیسیٰ علیہ السلام (3) روح القدس-  جس ” توحید” کو حضرت ابراہیم نےاپنایا اور تبلیغ کی، جس کو یہودی، مسلمان اور مسیحی ماننے کا دعوی دعویٰ کرتے ہیں  “تثلیت” اس کے الٹ ہے-

 

بائبل کے تحقیقی ، تجزیاتی جائزے سے مندرجہ ذیل نتائج ظاہر ہوتے ہیں:
بائبل کی اصطلاحات؛ ‘باپ’ (خدا کے) اور ‘خدا کا بیٹا’ (خدا کے قریب، پیارا) کا استعمال عبرانیوں اور بائبل کے متن کے میں اس کے استعمال کے مطابق سمجھنے کی ضرورت ہے. عبرانیوں کا ایمان تھا کہ خدا (معبود) ایک ہی ہے اور کسی بھی لغوی معنی میں نہ تواس کی  بیوی ہے اور نہ ہی بچے، اس وجہ سے بائبل میں ‘خدا کا بیٹا’ محض مراد ہے کہ ‘خدا کا بندہ’،ایسا شخص جو خدا کا وفادار غلام ہونے کی وجہ سے خدا کے قریب اور خدا کو پیارا ہوجیسا کہ ایک باپ کوفرمانبردار بیٹا پیارا ہوتا ہے-  بعد میں یونانی اور رومن پس منظر سے شامل ہونے والے عیسائیوں نے بائبل کی  ان مروجہ اصطلاحات کا غلط استعمال کیا-
نئے عہد نامےمیں سترہ جگہ ‘باپ’ کی اصطلاح ‘خدا’ کے معنی میں استعمال ہوتی ہے، جبکہ ایک عبارت بھی ایسی نہیں جس میں بیٹا اس معنی میں استعمال ہوا ہو-
 320جگہ “باپ” بلکل واضح طور پر”خدا”کے لیئے استمعال ہوا، جبکہ ایک مرتبہ بھی “بیٹا “اس معنی میں استعمال نہیں ہوا-
105جگہ ”باپ” اعلی خطابات کے ساتھ خدا کے لیئے استعمال ہوا مگر ایک مرتبہ بھی ‘بیٹا’ اس طرح نہیں استعمال ہوا-
واضح طور90 جگہ حکم ہے کہ تمام تعریفیں اور عبادت صرف اس (خدا ) کے لینےہیں اور تمام عزت اور جلال بھی اسی کے لئیے ہے- بیٹے کے لئیے ایسا کوئی حکم نہیں-
عہد نامہ جدید میں 1300مرتبہ لفظ ‘خدا’ کا ذکر ہوا مگر کسی جگہ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں نکل سکتا کہ ‘خدا’،  باپ سے علیحدہ کوئی ہستی ہے یا کہ ‘خدا’ کی ذات میں ایک سے زیادہ ہستیاں شامل ہیں-
ایسی آیات یا مجموعہ کلام کی تعداد 300 ہے ، جہاں ‘بیٹا’ واضح طور پر ‘باپ’ کا ماتحت  بیان کیا گیا ہے اور وہ ‘باپ’ سے اپنے وجود کا محتاج ہے ، اس (‘باپ’) سے طاقت حاصل کرتا ہے اور تمام کاموں میں ”باپ” کی مرضی کے مطابق عمل کرتا ہے-
یونانی رومن ورثےاور روایات میں، ‘خدا کا بیٹا’ کا مطلب ہے کہ خدا کا اوتار، یا دیوتا اور دیویوں کے جنسی تعلقات سے ایک اور دیوتا یا دیوی کی پیدائیش-
جب چرچ نے عبرانی بنیادی روایات کو ایک طرف پھینک دیا تو پھر انہوں نے کافرانہ، مشرکانہ ‘خدا کا بیٹا’ کا نظریہ اپنا لیا، جو کہ عبرانی استعمال سے بالکل مختلف تھا اس کا مقصد نئے مذہب ( مسیحیت) کوغیر یہودی بت پرست کافروں کے لیئے آسان،مانوس اورقابل قبول بنانا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ بت پرستوں  کو مسیحی بنایا جا سکے- لہٰذا بائبل کی اصطلاح ‘خدا کا بیٹا’ کا استعمال عبرانیوں میں اس کے علامتی، متشابہ استعمال: ‘خدا کا غلام ، خدا کے قریب’ سمجھنا چاہیےنہ کہ لغوی معنوں میں جیسا کہ ،بت پرست کافر’ دیوتاؤں کی اولاد’  پر یقین رکھتے تہے- انجیل  مقدس میں عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں: “مبارک ہیں وہ لوگ جو صلح کراتے ہیں، وہ تو خدا کے بیٹے کہلائیں گے۔”(متی:5:9)
بائبل (عہد نامہ قدیم اور جدید)  میں ‘خدا کا بیٹا’   کی اصطلاح علامتی طور پر استعمال ہوئی  نہ کہ لغوی پر – فرشتوں کو،آدم، اسرائیل قوم کو خدا کا بیٹا کہا گیا:(ہوسیع؛1:10،یرمیاه؛31:9، ایوب؛2:1، پیدائیش؛6:2،استثناء: 14:1، خروج:4؛22،23، 2سیموئل؛8:13،14،زبور:2:7،ایوب؛1:6،لوقا؛9:22،3:38،، 4:41)، مسیحی بھی خدا کے بیٹے کہلائے (یوحنا:12؛1)-
باپ: اسی طرح  اصطلاح ”ابا” ، (پیارا باپ) یسوع مسیح (عیسیٰ علیہ السلام) نے حیاتیاتی باپ کے طور پر نہیں بلکہ ‘خدا’، ‘رب’ کے طور پر استعمال کی:
“کیوں کہ وہ روح جو تمہیں ملی ہے تمہیں غلام نہیں بناتی۔ جس سے ڈر پیدا نہیں ہوتی۔ جو روح تم نے پا ئی ہے تمہیں خدا کے چنے ہوئے اولاد بناتی ہے اس روح کے ذریعہ ہم پکار اٹھتے ہیں “ اباّ، اے باپ!”(رومیوں:8:15)
وہ مجھ سے کہے گا، “ تو میرا باپ ہے۔ تو میرا خدا، میری چٹان میری نجات ہے۔”(زبور:89:26)
“اس لئے جیسا کہ تمہارا باپ آسمانوں میں ہے اسی طرح تم کو بھی کامل بننا چاہئے۔”(متی:5:48)
اسی طرح بائبل میں  کیئ جگہ خدا کو ”باپ” کھا گیا ہے (متی:5:16,45,48, 6:1,6,8,9,32, 7:11,21, 10:32,33,زبور:89:26،یوحنا:5:30, 5:37, 14:16, 20:17، 2سیموئل: 7:14)
اس کے علاوہ لفظ ‘باپ’ بائبل میں علامتی طورپر؛ تعظیم، ‘رسول’ اور ‘تسلط’ کی علامت کے طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے:حضرت یوسف علیہ السلام کو فرعون کا باپ کہ گیا (پیدائیش:45:8)؛ ابراہیم علیہ السلام کو اقوام کا باپ کہ گیا (پیدائیش:17:5) اور حضرت ایوب علیہ السلام  کو ضرورت مندوں کا باپ کہا گیا (ایوب:29:16)
زبور: 110سے مسیحی فقہاء  بلواسطہ طور پر یسوع کو ہمیشہ کے لئے، پادری یا پجاری کا باپ بھی کہا جاتا ہے.
اعلیٰ کاہن ملک صدق صرف ایک ایسا شخص ہے جس کو قطعی طور پر  خدا جیسی صفات سے بیان کیا  گیا ہے:
ملک صدق سالم کا بادشاہ اور خدا تعالیٰ کا کاہن تھا جب ابراہیم بادشاہوں کو شکشت دیکر واپس آرہے تہے تو ملک صدق ابراہیم سے ملا اس دن ملک صدق نے ابرا ہیم کو مبارک باد دی۔ اور ابرا ہیم نے ملک صدق کو اپنے پاس کی سب چیزوں کا دسواں حصہ نذر کیا۔ ملک صدق کے دو معنی ہیں پہلا معنی “راست بازی کا بادشاہ” اور دوسرا “سالم کا باد شاہ” یعنی “سلامتی کا بادشاہ۔” کو ئی نہیں جانتا کہ اس کا باپ کون تھا اور ماں کون تھی۔ یا وہ کہا ں سے آیا تھا یا وہ کب پیدا ہوا تھا اور کب وہ مر گیا۔ ملک صدق ایک خدا کے بیٹے کی مانند ہمیشہ کے لئے اعلیٰ کاہن ٹھہرا۔  پس تم غور کرو کہ وہ کیسا عظیم تھا ملک صدق کو ابراہیم عظیم بزرگ نے اپنے مال کا دسواں حصّہ عطیہ میں دیا تھا جو اس نے جنگ میں جیتا تھا۔  شریعت کے قانون کے مطا بق لاوی کے قبیلے کے لوگ کاہن ہو تے ہیں اور وہ لوگوں سے دسواں حصّہ وصول کر تے ہیں اور کاہن یہ سب ان کے اپنے لوگوں سے وصول کرتاہے اگر چہ کہ دونوں ہی یعنی جن کاہنوں کا تعلق ابراہیم کے خاندان سے ہی کیوں نہ ہو۔(عبرانیوں7:1،2،3،4). لغوی طور پر یہاں ملک صدق یسوع مسیح سے بلند مرتبہ معلوم ہوتا ہے-
ابتدائی مسیحیوں نے تثلیث کے نئے نظریے کو مسترد کر دیا مگر   عیسائیت میں تثلیث کے عقیدہ کے مطابق، خدا لفظی بیٹے یعنی یسوع مسیح کی شکل میں ایک انسان کا  روپ بن گیا-  اس “تثلیثی توحید” کو  بنیادی عیسائی مذاہب اور کئی عیسائی فرقوں کی طرف سے مسترد کر دیا گیا مگر طاقت کے زور پر اس کو امپائیر میں نافذ کر دیا گیا –  نیقیہ کی کونسل (325) نے آریوس کی مذمت کی اوربیٹے  کو والد کے ساتھ ایک مادہ قرار دیا- اگلے 50 سال تک آریان ازم کے متعدد محافظ  تھے  لیکن جب  روم میں مسیحی گرا ٹتین اور  تھیوڈوسس شہنشاہوں نے اقتدار سنبھالا تو بلآخر وہ  ختم  ہو گئے- قسطنطنیہ کی پہلی کونسل (381) نے نیقیاس عقیدہ( Nicene Creed)کی  منظوری دے دی اور اریان ازم Arianism  کو کالعدم کر دیا-
تاہم یہ نظریہ جرمن قبیلوں میں ساتویں صدی کے دوران تک جاری رہا ،اسی طرح کے عقائد ‘یہوواہ کے گواہوں’ (Jehovah’s Witnesses) اور’خدا کی وحدانیت , توحید پسند’ (Unitarianism) کے پیروکاروں میں آج تک پا ئےجاتے ہیں-
سخت ‘یونیٹیرین’ مسیحی (وحدانیت پسند) خدا (باپ)  کی وحدانیت پر مکمل یقین رکھتے ہیں-ان کے عقیدہ میں؛ نجات تمام بنی نوع انسانی کو ملے گی، اور یہ کہ ایمان اور اعمال کا بنیادی معیار، عقل اور شعورہے-جبکہ کچھ دوسروں کے خیال میں یسوع مسیح ایک تخلیق شدہ معبود ہے-
‘یہوواہ کے گواہوں’ (Jehovah’s Witnesses)میں مذہبی طور پر یسوع (‘کلام’Logos) کی پرستش نہیں، مگر ان کا عقیدہ ہے کہ ‘باپ’ نے دنیا کو ‘کلام’ (Logos) سے پیدا کیا-
بہت تعجب کی بات ہے کہ چرچ کی بنیادی تعلیمات مثلآ، ‘تثلیث’  اور ‘متبادل کفارہ’ کا بائبل میں ذکرنہیں پایا جاتا- پوری بائبل میں ایک بھی غیر مبہم بیان نہیں ہےجس میں یسوع مسیح خود کہے کہ:”میں خدا ہوں” یا وہ کہے کہ، “میری عبادت کرو” بلکہ اس نے کہا”نیکی کی بابت تو مجھ سے کیوں پو چھتا ہے ؟ خداوند خدا ہی نیک اور مقدس ہے۔ اگر تو ہمیشگی کی زندگی کو پانا چاہتے ہو تو حکموں پر عمل کر۔”(متی:19؛17)
مسحیت کے بنیادی عقیدہ “تثلیث” کےوجود کو ثابت کرنے کے لیےپوری بائبل میں صرف ایک آیت ہے  (اگرچہ بہت دوسری آیات کو توڑ مروڑ کر مطلب کی تشریح حاصل کی جاتی ہے )جس کی تشریح کے سہارے اس مسیحی عقیدے کو تسلیم کرنے میں مدد لی جاتی ہے:
“For there are three that bear record in heaven, the Father, the Word, and the Holy Ghost: and these three are one. And there are three that bear witness in earth, the Spirit, and the water, and the blood: and these three agree in one.”(1John:5;7,8,9-Authorized King James Version)
اس کے اردو میں تراجم اس طرح ہیں:
“جنت میں تین ریکارڈ برداشت کرتے ہیں، باپ، کلام اور روح القدس؛ اور یہ تینوں ایک ہیں .”(یوحنا کا پہلا خط؛ 5: 7،8).
کچھ جلدوں میں اس آیت کو اس طرح  لکھا ہے: ‘ زمین پر تین گواہوں میں، روح، پانی اور خون ہیں؛ اور تینوں ‘اتفاق کرتے ہیں”.
“اس طرح تین گواہ ایسے ہیں جو ہمیں یسوع کے متعلق کہتے ہیں ، روح ،پانی اور خون۔ یہ تینوں گواہ اقرار کر تے ہیں۔”)1یوحنا:(5:7,8
‘نئے بین الاقوامی ورژن بائبل’ (New International Version Bible’) میں اس آیت کے فٹ نوٹ میں لکھا ہے؛ “سولہویں  صدی سے پہلے کسی بھی یونانی مسودات نہیں پائ گیئی-.
ڈاکٹر سکوفیلڈ، (Dr C.I, Scofield، D.D). اس آیت کے فٹ نوٹ میں آٹھ دیگرآٹھ ماہرین الہیات  کی حمایت سے  رائے دیتا ہے:
“It is generally agreed that this verse has no manuscript authority and has been inserted.”
“عام طور پراس بات پراتفاق ہے کہ اس آیت کی (قدیم) مسودات سے تصدیق نہیں ہوتی اوراس کو (بعد میں ) ڈالا گیا ہے-“
بنیاد پرست عیسائی اب بھی اس من گھڑت  پر یقین رکھتے ہیں، جبکہ بائبل کےاکثر جدید تراجم میں اس مقدس دھوکہ کوحذف کردیا گیا ہے یا فٹ نوٹ میں لکھ دیا-
اس کے برعکس یسوع مسیح نے یہ بھی کہا کہ: “اے بنی اسرائیلیو سنو، خداوند ہمارا خدا ہی صرف ایک خداوند ہے۔ (مرقس:(2:29
حقیقت یہ ہے کہ اصل میں بائبل کی مختلف آیات  یسوع کے  اصل مقصد کی طرف اشارہ کرتی ہیں؛ جو کہ شریعت حضرت موسی علیہ السلام کے  احکام وحی کو پورا کرنے کے لئے تھا (متی: 5:17,18,19)
درحقیقت حضرت عیسی (علیہ سلام) نےکسی بھی ایسی تجاویز کو مسترد کیا جن سے ان پر الوہیت منسوب کی جا سکتی ہو- انہوں نے  واضح کیا کہ  ان کےمعجزات ایک سچے خدا کی طاقت سے وقوع پزیر ہوتے ہیں: حضرت عیسی (علیہ سلام) نے اسی پیغام توحید کااعادہ کیا جو پیغام خدا کے پہلے انبیاء نے دیا تھا-
Read More:

 

اسلام  مکمل طور پرتثلیث کو رد کرتا ہے، قرآن میں ذکر ہے:
“یقیناً کفر کیا اُن لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ تین میں کا ایک ہے، حالانکہ ایک خدا کے سوا کوئی خدا نہیں ہے اگر یہ لوگ اپنی اِن باتوں سے باز نہ آئے تو ان میں سے جس جس نے کفر کیا ہے اُس کو درد ناک سزا دی جائے گی “( قرآن؛ 5:73)
“اے اہل کتاب! اپنے دین میں غلو نہ کرو اور اللہ کی طرف حق کے سوا کوئی بات منسوب نہ کرو مسیح عیسیٰ ابن مریم اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اللہ کا ایک رسول تھا اور ایک ( وَكَلِمَتُهُ) فرمان تھا جو اللہ نے مریم کی طرف بھیجا اور ایک روح تھی اللہ کی طرف سے (جس نے مریم کے رحم میں بچہ کی شکل اختیار کی) پس تم اللہ اور اُ س کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور نہ کہو کہ “تین” ہیں باز آ جاؤ، یہ تمہارے ہی لیے بہتر ہے اللہ تو بس ایک ہی خدا ہے وہ بالا تر ہے اس سے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں اس کی مِلک ہیں، اور ان کی کفالت و خبر گیری کے لیے بس وہی کافی ہے “( قرآن:4:171)
علامہ محمداسد منطقی طور پراس آیت کی  وضاحت کرتےھیں:”اس (خدا)کے کلمات جو مریم کو پہنچاےگئےاور روح جو اس کی طرف سے تھی”. امام طبری کے مطابق “لفظ” (کلمہ)ایک “اعلان” (رسالہ)تھا جس کوخوشخبری کے ساتھ حضرت مریم (علیہ السلام) تک پہنچانے کا کام  فرشتے کو دیا گیا تھا:
“اور جب فرشتوں نے کہا، “اے مریمؑ! اللہ تجہے اپنے ایک فرمان کی خوش خبری دیتا ہے اُس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا، دنیا اور آخرت میں معزز ہوگا، اللہ کے مقرب بندوں میں شمار کیا جائے گا” (قرآن :3:145)
اس طرح سے ” وَكَلِمَتُهُ”( قرآن؛4:171)کا مطلب اس کے وعدہ کی تکمیل تھی-
جہاں تک اقوال: ‘اپنی طرف سے ایک روح’ یا  ‘وہ اس کی تخلیق’ کا تعلق ہے،یہ بات قابل ذکر ہے کہ مختلف معانی میں سے لفظ ”روح” کا قرآن میں مطلب ہے (وحی : قرآن;2:87،253 ) یہ” زندگی کا بنیادی سانس”روح” یا “سپرٹ”ہے- لہٰذا قرآن 32:9 ، جہاں مکرر انسانی  ارتقاء میں  انسانی جینین کا ذکر ہے: “پھر وہ اس (انسان)کو بناتا ہے اور اس میں اپنی روح پھونک دیتا ہے”- اس طرح سے وہ اس کوحیوانی لوتھڑ ے سے ؛”ہوش مند” وجود بنا دیتا ہے، جو انسان کو خدا کا عظیم تحفہ ہے، اس لیے اس کو ‘روح کا سانس’ کہا گیا- آیت “( قرآن؛ 4:171) میں خالصتاً یسوع کی انسانی فطرت پر زور دیااور اس کی الوہیت کا مکمل رد کیا- قرآن واضح کرتا ہے کہ یسوع، دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان تھا، ‘ایک روح جوخالق نے تخلیق کی”-
الله نے انسانوں کی تخلیق کے بعد انکو قبائل اور اقوام میں تقسیم کر دیا:
“لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو  در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے” ( قرآن 49:13)
اس نے پیغمبروں کے زریعے رہنمائی مہیا کی:
“ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا، اور اُس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کر دیا کہ “اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو” اس کے بعد ان میں سے کسی کو اللہ نے ہدایت بخشی اور کسی پر ضلالت مسلط ہو گئی پھر ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہو چکا ہے” (16:36قرآن)
اسی لیے میں بڑے مذاہب کی  مُقدّس کتابوں میں اب بھی توحید  کے نشانات پائے جاتے ہیں،  لوگ اس پر عمل پیرا نہیں-
ہندومت عام طور پر ایک مشرکانہ مذہب سمجھا جاتا ہے، کیونکہ عام طور پر دیکھا جا تا ہے کہ  ہندوبہت سے معبودوں کی عبادت کرتے ہیں- تاہم وہ  ہندوجواپنی مقدس کتابوں کا علم رکھتے ہیں وہ اس پر اصرارکرتے ہیں کہ ہندووں کو ایک خدا پر ایمان اورایک خدا کی عبادت کرنا چاہیئے، جیسا کہ درج ذیل عبارات سے ظاہر ہے:
1.       “جن کی  فہم مادی خواہشات نے سلب کر لی ہے، انہوں نے دیوتا ؤوں (اوتاروں) کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں اور پھر اپنی مرضی کے مطابق پوجا کے اصول بنا لیئے ہیں”(بھگودگیتا :7:20 )
2.       “وہ صرف ایک ہے کسی دوسرے کے بغیر”(چندو گیا اپنشد ;6:2:1)
3.       “نہ ہی اس کے ماں باپ ہیں اور نہ ہی کوئی خدا”(سویت سواترا اپنشد6:9)
4.       “اس جیسا کوئی نہیں ہے”(سویت سواترا اپنشد4:19)
5.       “اس کا پیکرنظر نہیں آتا، کوئی اس کو آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتا- جو اسے دل اور دماغ سے دیکھتے ہیں وہ ان کے دل میں رہ کر انہیں لا فانی بنا دیتا ہے”(سویت سواترا اپنشد; 4:20)
6.       “اس کا کوئی عکس نہیں”(یجروید;32:3)
7.       “وہ بے جسم اور خالص ہے” “(یجروید;40:8)
8.       “جو قدرتی مظاھر کی پوجا کریں گے، اندھیرے میں داخل ہوں گے’مثلآ ہوا ،پانی اور آگ وغیرہ’-جو سنبھوتی کی عبادت کریں گے، اندھیروں کی مزید گہرائی میں غرق ہو جایئں گے” سنبھوتی کا مطلب اشیا کی تخلیق ہے مثلآ کرسی، میز اور بت وغیرہ بنانا’ (یجروید;40:9)
9.       “وہ کسی سے پیدا نہیں ہوا، وہی ہماری عبادت کا مستحق ہے- اس کا کوئی عکس نہیں اور یقیناّ اس کی شان سب سے بلند ہے- وہ خود کو سورج وغیرہ میں قائم رکھ سکتا ہے، شائید  وہ  مجہے نقصان نہ پہنچائے- یہی میری دعا ہے- وہ کسی سے پیدا نہیں ہوا اور ہماری عبادت کے لائق ہے” (یجروید،دیوی چند ایم اےفلسفہ ،صفحہ377)
10.   “اے دوست اس ایک خدا کے علاوہ کسی کی عبادت مت کر،صرف اکیلے اس کی عبادت کر”(رگ وید ;8:1:1)
11.   “مذہبی بزرگ خدا کو کئی ناموں سے پکارتے ہیں”(رگوید:1:164::46)
12.    “عقلمند جوگی اپنے ذہن اور اپنی سوچ کی توجہ حقیقت اعلی پر مرکوز رکھتے ہیں جو قدر مطلق، عظیم اور حاکم اعلی ہے- وہ تنہا ،ان کے اعمال اور ہسیاتی اعضا کی تفویض کئیےجانے والے امور سے آگاہ ہے- بے شک ووہی عظیم ہے اور آسمانی خالق ہے”(رگ وید5 :81)
13.   ہندوویدانت کی برہما سترامیں درج ہے:”صرف ایک خدا ہے ، دوسرا نہیں ہے،نہیں ہے ، بلکل نہیں ہے”
عوام مذہبی کتب کا مطالعہ نہیں کرتے اور مندروں کے پجاری اپنے فائدہ کے لیے عوام کو گمراہی کے راستہ پر ڈال دیتے ہیں-

……………………………………………………..
برقی کتاب (  html فارمٹ):  https://goo.gl/kgkTl8
برقی کتاب (Pdf فارمٹ): https://goo.gl/bsTBJt 

……………………………………………………..