ربیع الاول مبارک مہینہ ہے جس میں نبی آخر زمان حضرت محمد ﷺ کی ولادت با سعادت ہوئی – تمام دنیا کے مسلمان آپ کی محبت میں اس مبارک ماہ اور خاص طور پر ١٢ ربیع الاول جس پر اکثریت محققین متفق ہیں کہ یہ آپ کی آمد مبارکہ اکا دن تھا خوشیاں مناتے ہیں – یہ کوئی اسلامی مذہبی تہوار نہیں بلکہ مسلمانوں کا انفرادی کلچرل ایونٹ ہے جو عوام میں مقبول ہو چکا ہے- اسے دین اسلام کا حصہ سمجھنا درست نہیں- لیکن کیونکہ اس کی نسبت عظیم ہستی ﷺ کی طرف ہے تو تہذیب اور ادب آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے- صحابہ کرام جو آپ کی قربت میں تھے اور رحمتوں سے مستفیض ہوتے تھے ان کو اس اہتمام کی ضرورت نہ محسسوس ہوئی- مگر صدیوں بعد اپنے محبوب نبی حضرت محمد ﷺ کی یاد کا ایک خاص موقع ان میں ولولہ محبت کے اظھار کا زریعہ ہے- جو خاموشی سے باطنی طور پر خوش ہیں یا جو خوشی کا اظھار با وقار طریقه سے کریں اس پر اختلاف ہے کیونکہ اس کا طریقه اجتہادی ہے کچھ حضرات اسے بدعہ کہتے ہیں، اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے-
- بدعة کی حقیقت: تحقیقی جائزہ ..Bida (ضرور پڑھیں )
- Pdf: https://salaamone.com/wp-content/uploads/2019/01/Bida.pdf
- Website: https://salaamone.com/bida
- Website: https://salaamone.com/bida-2
حضرے عیسی علیہ السلام نے علماء یہود کو کہا کہ تم اندھے رہنما ہو جو خود اونٹ کھا جاتے ہو اور دوسروں کے شربت کے گلاس میں مچھر پکڑتے ہو۔ یعنی علماء یہود خود انتہائی بڑے غیر شرعی کام کرتے تھے اور عوام کی معمولئ غلطیوں پر فتوے لگاتے تھے۔ یہی روش مسلمان علماء کی ہے۔ چھوٹے فروعی اختلافات کو خوب اچھالتے ہیں اور خود بہت بڑی بدعات کے مرتکب ہوتے ہیں- [تفصیل #1]
[Methew 23:24] You blind guides! You strain out a gnat but swallow a camel.
’’’اور اِسی طرح اُن اُمور پر (ثواب دیا جاتا ہے) جو بعض لوگ ایجاد کرلیتے ہیں، میلادِ عیسیٰ علیہ السلام میں نصاریٰ سے مشابہت (مکروہ) کے لیےیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور تعظیم کے لیے۔ اور اﷲ تعالیٰ اُنہیں اِس محبت اور اِجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر، اُن لوگوں کو جنہوں نے یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہ طور عید اپنایا۔‘‘- ’میلاد شریف کی تعظیم اور اسے شعار بنا لینا بعض لوگوں کا عمل ہے اور اِس میں اُس کے لیے اَجر عظیم بھی ہے کیوں کہ اُس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم بھی ہے، جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک اَمر اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے ہیں۔‘‘(ابن تيميه، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 406)
ایک تصور کہ ہر وہ کام جو عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہیں تھا اور نہ خلفائے راشدین و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں اس کا ثبوت ملتا ہے، اسے اگر بعد میں کیا جائے تو – قطعِ نظر اچھائی یا برائی کے – وہ بدعت (یعنی نیا کام) ہونے کی بناء پر کلیتاً ناجائز اور حرام تصور ہوگا۔ اِس تصور کو قرآن و حدیث کی روشنی میں پرکھا جائے اور کتاب وسنت کے واضح دلائل سےمعلوم کیا جائے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر فرحت و اِنبساط کا اِظہار کرنا ایک مشروع، مباح اور جائز عمل ہے یاگناہ؟ …….[……… ]
[ کیا میلاد منانا بدعت ہے؟ (کتاب) http://bit.ly/2BWXfZW]
Mawlid (مَولِد النَّبِي Mawlidu n-nabiyyi, “Birth of the Prophet”) is the observance of the birthday of the Islamic prophet Muhammad which is celebrated often on the 12th day of Rabi’ al-awwal, the third month in the Islamic calendar.The 12th Day of Rabi’ al-awwall is the most popular date from a list of many dates that are reported as the birth date. The origin of Mawlid observance reportedly dates back to the early period of Islam. The Ottomans declared it an official holiday in 1588. The term Mawlid is also used in some parts of the world, such as Egypt, as a generic term for the birthday celebrations of other historical religious figures such as Sufi saints. Most denominations of Islam approve of the commemoration of Muhammad’s birthday; however, some denominations including Wahhabism/Salafism, Deobandism and the Ahmadiyya( declared non Muslims) disapprove its commemoration, considering it an unnecessary religious innovation (bid’ah or bidat). Mawlid is recognized as a national holiday in most of the Muslim-majority countries of the world except Saudi Arabia and Qatar which are officially Wahhabi/Salafi. Keep reading >>>
میلاد پر مزید تحقیق سے قبل یہ تحریر ….
جشن میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم ایک لمحہٴ فکریہ
مفتی محمد تقی عثمانی
12/ ربیع الاول کو عید میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم منانے کارواج کچھ عرصہ سے مسلسل چلا آرہا ہے، چوں کہ عہد صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین اور قرون اولیٰ میں اس ”عید“ کا کوئی پتا نشان نہیں ملتا۔ اس لیے اکابر علمائے حق ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ یہ دن منانے کی رسم ہم میں عیسائیوں اور ہندوؤں سے آئی ہے، تاریخ اسلام کے ابتدائی دور میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ملتی، لہٰذا اس رسم کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، مسلمانوں کااصل کام یہ ہے کہ وہ ان رسمی مظاہروں کے بجائے سرکار دوعالم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کی طرف متوجہ ہوں اور ایک دن میں عید میلاد مناکر فارغ ہوجانے کے بجائے اپنی پوری زندگی کو آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنے کی فکر کریں۔
یہ علمائے دیوبند اور علمائے اہل حدیث کا موقف تھا اور بریلوی مکتب فکر کے حضرات اس سے اختلاف کرتے تھے، لیکن اب چند سال سے جو صورت حال سامنے آرہی ہے، اس میں یہ مسئلہ صرف دیوبندی مکتب فکر کا نہیں رہا، بلکہ ہر اس مسلمان کا مسئلہ بن گیا ہے جو سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کی عظمت و محبت اور حرمت و تقدیس کا کوئی احساس اپنے دل میں رکھتا ہو، اب صرف علمائے دیوبند اور علمائے اہل حدیث ہی کو نہیں، بلکہ علمائے بریلی کو بھی اس پر پوری سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے کہ جشن عیدمیلاد النبی صلی الله علیہ وسلم کے نام پر یہ قوم دینی تباہی کے کس گڑھے کی طرف جارہی ہے؟ کیوں کہ جن حضرات نے ابتدا میں محفل میلاد وغیرہ کو مستحسن قرار دیا تھا، ان کے چشم تصور میں بھی غالباً وہ باتیں نہیں ہوں گی جو آج ”جشن میلادالنبی صلی الله علیہ وسلم“ کا جزوِ لازم بنتی جارہی ہیں۔
شروع میں محفل میلاد کا تصور ایک ایسی مجلس کی حد تک محدود تھا جس میں سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کا بیان کیا جاتا ہو، لیکن انسان کا نفس اس قدر شریر واقع ہوا ہے کہ جو کام وحی کی راہ نمائی کے بغیر شروع کیا جاتا ہے، وہ ابتدا میں خواہ کتنا مقدس نظر آتا ہو، لیکن رفتہ رفتہ اس میں نفسانی لذت کے مواقع تلاش کرلیتا ہے اور اس کا حلیہ بگاڑ کر چھوڑتا ہے، چناں چہ اب الله کے محبوب ترین پیغمبر صلی الله علیہ وسلم کے مقدس نام پر جو کچھ ہونے لگا ہے، اسے سن کر پیشانی عرق عرق ہوجاتی ہے۔
ہر سال ”عید میلاد النبی“ کے نام سے صرف کراچی میں ظلم وجہالت کے ایسے ایسے شرم ناک مظاہرے کیے جاتے ہیں کہ ان کے انجام کے تصور سے روح کانپ اٹھتی ہے، مختلف محلوں کو رنگین روشنیوں سے دلہن بنایا جاتا ہے اور شہر کے تقریباً تمام ہوٹلوں میں عید میلاد اس طرح منائی جاتی ہے کہ لاؤڈ اسپیکر لگاکر بلند آواز سے شب و روز ریکارڈنگ کاطوفان برپا رہتا ہے۔ بہت سے سینما ”عیدمیلاد کی خوشی میں“ سینکڑوں بلب لگا کر ان اخلاق سوز اور برہنہ تصویروں کو اور نمایاں کردیتے ہیں جو اپنی ہر ہر ادا سے سرکار دوعالم صلی الله علیہ وسلم کے احکام کی نافرمانی کی برملا دعوت دیتی ہیں اور انہی مقامات پر انسانیت کی تصویروں کے سائے میں شاید تبرک کے خیال سے خانہ کعبہ اور روضہ اقدس کی تصویریں بھی چسپاں کردی جاتی ہیں، ایک محلہ میں قدم قدم پر روضہ اطہر اور مسجد نبوی کی شبیہیں بناکر کھڑی کی جاتی ہیں، جنہیں کچھ بے فکرے نوجوان ایک تفریح گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور کچھ بے پردہ عورتیں انہیں چھو چھوکر ”خیر و برکت“ حاصل کرتی ہیں اور ظاہر ہے کہ جب پورے محلہ کو روشنیوں میں نہلاکر، جگہ جگہ محرابیں کھڑی کرکے اور قدم قدم پر فلمی ریکارڈ بجاکر ایک میلے کا سماں پیدا کردیا جائے تو پھر عورتیں اور بچے ایسے میلے کو دیکھنے کے لیے کیوں نہ پہنچیں جس میں میلے کا لطف بھی ہے اور (معاذ الله) تعظیم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ثواب بھی؟! چناں چہ راتوں کو دیر تک یہاں تفریح باز مردوں، عورتوں اور بچوں کا ایسا مخلوط اجتماع رہتا ہے جس میں بے پردگی، غنڈہ گردی اور بے حیائی کو کھلی چھوٹ ملی ہوتی ہے۔
راقم الحروف ایکایک روز اس محلے سے گزرتے ہوئے یہ دل دوز مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور اس آیت قرآنی کے تصور سے روح کانپ رہی تھی، جس کا ترجمہ یہ ہے:
” اور ایسے لوگوں سے بالکل کنارہ کشی اختیار کرلو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشہ بنارکھا ہے اور دنیاوی زندگی نے ان کو دھوکہ میں ڈال دیا ہے اور اس قرآن کے ذریعے ان کو نصیحت کرو، تاکہ کوئی شخص اپنے کیے میں اس طرح گرفتار نہ ہوجائے کہ الله کے سوا اس کا کوئی حمایتی اور سفارش کرنے والا نہ ہو اور اگر وہ دنیا بھر کا معاوضہ دے ڈالے تب بھی نہ لیا جائے، یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے کیے میں گرفتارہوئے، ان کے لیے کھولتا ہوا پانی پینے کے لیے ہوگا اور کفر کے سبب دردناک سزا ہوگی۔“
الله تعالیٰ ہر مسلمان کو اس آیت کا مصداق بننے سے محفوظ رکھے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس محلے سے گزرتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے خاتم النبین صلی الله علیہ وسلم کا لایا ہوا دین پکار پکار کر یہ فریاد کررہا ہے کہ ”محمد عربی صلی الله علیہ وسلم کے نام لیواؤ! تم گم راہی اور بے حسی کے کس اندھے غار میں جاگرے ہو؟ کیا سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کے احسانات کا بدلہ یہی ہے کہ انہی کی محبت و عظمت کے نام پر ان کی ایک ایک تعلیم کو جھٹلاؤ؟ ان کے ایک ایک حکم کی نافرمانی کرو؟ اور ان کی یاد منانے کے بہانے جاہلیت کی ان تمام رسموں کو زندہ کرکے چھوڑو جنہیں اپنے قدموں تلے روندنے کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے تھے؟ خدا کے لیے سوچو کہ جس ذات کو سازورباب اور چنگ و بربط کے توڑنے کے لیے مبعوث کیا گیا تھا، اس کے ”جشن ولادت“ میں ساز ورباب سے کھیل کر تم کس غضب الٰہی کو دعوت دے رہے ہو؟ جس ذات نے عورت کے سر پر عفت و عصمت کا تاج رکھا تھا اور جس نے اس کے گلے میں عزت و آبرو کے ہارڈالے تھے، اس کی محبت و تقدیس کے نام پر تم عورت کو بے پردگی اور بے حیائی کے کس میلے میں کھینچ لائے ہو؟ جس ذات نے نام و نمود، ریا و نمائش، اسراف و تبذیر سے منع کیا تھا، یہ نمائشیں منعقد کرکے تم کس کی خوش نودی حاصل کرنا چاہتے ہو؟ اگر دین کی کوئی صحیح خدمت تم سے نہیں ہوسکتی، اگر تم اپنی عام زندگی میں الله کی نافرمانیوں کو ترک نہیں کرسکتے، اگرمحمد عربی صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات تمہارے عیش پرست مزاج کوبار معلوم ہوتی ہیں، توتمہاری زندگی کے بہت سے شعبے اس عیش پرستی کے لیے کافی ہیں، خدا کے لیے الله کے محبوب ترین پیغمبر صلی الله علیہ وسلم کے نام پر ہوا و ہوس کا یہ بازار لگاکر اس نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کا مذاق تو نہ اڑاؤ، اس کے تقدس اور پاکیزگی کے آگے فرشتوں کی گردنیں بھی خم ہوجاتی ہیں، اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھو کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کے ایک ایک حکم کی نافرمانی کرنے کے بعد تم کس چیز کی خوشی میں اپنے درودیوار پر چراغاں کررہے ہو؟ کیا تمہیں اس بات کی خوشی ہے کہ تم نے اپنی عملی زندگی میں اس دین برحق کی کوئی قدر صحیح سالم نہیں دیکھی؟“ لیکن عیش و نشاط کی گونجتی ہوئی محفلوں میں کون تھا جو دین مظلوم کی اس فریاد کو سن سکتا؟
جن لوگوں کا مقصد ہی اس قسم کے ہنگاموں سے عیش و نشاط کا سامان پیدا کرنا ہے، ان کا تو کوئی ذکر ہی نہیں، لیکن جو لوگ واقعتاً آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تعظیم و محبت ہی کے خیال سے اس قسم کے جشن مناتے ہیں، وہ بھی یہ بات فراموش کررہے ہیں کہ اسلام اور اکابر اسلام کو دوسرے مذاہب اور ان کے پیشواؤں پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام نے جہاں ہمیں ان کی تعظیم اور ان کے تذکرے کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے، وہاں ہمیں اس کا طریقہ بھی بتایا ہے، یہ وہ دین حق ہے جو ہمیں دوسرے مذاہب کی طرح رسمی مظاہروں میں الجھانے کے بجائے زندگی کے اصلی مقصد کی طرف متوجہ کرتا ہے اور اس کے لیے یہ اکابر اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔ ورنہ اگر اسلام بھی دوسرے مذاہب کی طرح ان رسمی مظاہروں کی طرح جانا جاتا تو آج ہم اس بات پر فخر محسوس نہ کرسکتے کہ ہمارا دین بفضلہ تعالیٰ اسی شکل میں محفوظ ہے جس شکل میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم اسے لے کر دنیا میں تشریف لائے تھے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کہ جب کسی مذہب کے پیروکار محض ظاہری رسموں اور نمائشوں میں الجھ جاتے ہیں تو رفتہ رفتہ اس مذہب کی اصل تعلیمات مٹتی چلی جاتی ہیں اور بالآخر بے جان رسوم کا ایک ایسا ملغوبہ باقی رہ جاتا ہے جس کا مقصد انسانی نفسانی خواہشات کی حکم رانی کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور جو مادہ پرستی کی بدترین شکل ہے، ان تمام تقریبات کا اصل مقصد تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ ان کے ذریعہ وہ خاص شخصیت یا وہ خاص واقعہ ذہن میں تازہ ہو جس کی یاد میں وہ تقریب منعقد کی جارہی ہے اور پھر اس سے اپنی زندگی میں سبق حاصل کیا جائے، لیکن انسان کا نفس بڑا شریر واقع ہوا ہے، اس نے ان تہواروں کی اصل روح کو تو بھلا کر،نابود کردیا اور صرف وہ چیزیں لے کر بیٹھ گیا جس سے لذت اندوزی اور عیش پرستی کی راہ کھلتی تھی۔ اس کی وضاحت ایک مثال سے ہوسکے گی۔
عیسائی قومیں ہر سال 25دسمبر کو کرسمس کا جشن مناتی ہیں، یہ جشن دراصل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جشن ولادت ہے اور اس کی ابتدا اسی مقدس انداز سے ہوئی تھی کہ اس دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کی تعلیمات کو لوگوں میں عام کیا جائے گا، چناں چہ ابتدا میں اس کی تمام تقریبات کلیسا میں انجام پاتی تھیں اور ان میں کچھ مذہبی رسوم ادا کی جایا کرتی تھیں، رفتہ رفتہ اس جشن کا سلسلہ کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا؟ اس کی مختصر داستان، جشن وتقریبات کی ایک ماہر مصنفہ ہیرزلٹائن ہے، اس سے سنیے، وہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مقالہ ”کرسمس“ میں لکھتی ہیں:
”کئی صدیوں تک کرسمس خالصتاً ایک کلیسا کا تہوار تھا، جسے کچھ مذہبی رسوم ادا کرکے منایا جاتا تھا، لیکن جب عیسائی مذہب بت پرستوں کے ممالک میں پہنچا تو اس میں ”سرمانی نقطہ انقلاب“ کی بہت سی تقریبات شامل ہوگئیں اور اس کا سبب گریگوری اعظم (اول) کی آزاد خیالی اور اس کے ساتھ مبلغین عیسائیت کا تعاون تھا، اس طرح کرسمس ایک ایسا تہوار بن گیا جو بیک وقت مذہبی بھی تھا اور لادینی بھی، اس میں تقدس کا پہلو بھی تھا اور لطف اندوزی کا سامان بھی۔“
اب کرسمس کس طرح منایا جانے لگا؟ اس کو بیان کرتے ہوئے میری ہیرزلٹائن لکھتی ہیں:
”رومی لوگ اپنی عبادت گاہوں اور اپنے گھروں کو سبز جھاڑیوں اور پھولوں سے سجاتے تھے، ڈرائڈس (پرانے زمانے کے پادری) بڑے تزک و احتشام سے امربیلیں جمع کرتے اور اسے اپنے گھروں میں لٹکاتے، سیکسن قوم کے لوگ سدابہار پودے استعمال کرتے۔“
انہوں نے آگے بتایا ہے کہ:
”کس طرح شجر کرسمس( Christmas Tree) کا رواج چلا، چراغاں اور آتش بازی کے مشغلے اختیار کیے گئے، قربانی کی عبادت کی جگہ شاہ بلوط کے درخت نے لے لی، مذہبی نغموں کی جگہ عام خوشی کے نغمے گائے گئے اور : ”موسیقی کرسمس کا ایک عظیم جزو بن گئی۔“
مقالہ نگار آگے رقم طراز ہے:
”اگرچہ کرسمس میں زیادہ زور مذہبی پہلو پر دیا گیا تھا، لیکن عوامی جوش و خروش نے نشاط انگیزی کو اس کے ساتھ شامل کرکے چھوڑا۔“
اور پھر… ”گانا بجانا، کھیل کود، رقص، ناٹک بازی اور پریوں کے ڈرامے تقریبات کا حصہ ہوگئے۔“ (انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ص، 642۔اے ج 5، مطبوعہ1950ء مقالہ “کرسمس“)
ایک طرف کرسمس کے ارتقاء کی یہ مختصر تاریخ ذہن میں رکھیے اور دوسری طرف اس طرز عمل پر غور کیجیے، جو چند سالوں سے ہم نے جشن عید میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم منانے کے لیے اختیار کیا ہوا ہے، کیا اس سے یہ حقیقت بے نقاب نہیں ہوتی کہ:
:
ایں رہ کہ تو می روی بہ ترکستان است
اسلام اس عالم الغیب کا مقرر کیا ہو ادین ہے جو اس کائنات کے ذرہ ذرہ سے باخبر ہے اور جس کے علم محیط کے آگے ماضی، حال اور مستقبل کی سرحدیں بے معنی ہیں، وہ انسانی نفس کی ان فریب کاریوں سے پوری طرح واقف ہے جو تقدس کا لبادہ اوڑھ کر انسانیت کو گم راہ کرتی ہیں، اس لیے اس نے خاص خاص واقعات کی یادگار قائم کرنے کے لیے ان تمام طریقوں سے پرہیز کا حکم دیا ہے، جو ان کی اصل روح کو فنا کرکے انہیں عیش و عشرت کی چند ظاہری رسوم کے لیے بہانہ بناسکتے ہوں، چناں چہ صحابہ رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین اور تابعین کے دور میں ہمیں کہیں نظر نہیں آتا کہ انہوں نے سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کی ولادت باسعادت جیسے عظیم الشان واقعہ کا کوئی دن منایا ہو، اس کے برخلاف ان کی تمام تر توجہات آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کو اپنانے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیغام کو پھیلانے کی طرف مرکوز رہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ چودہ سو سال گزرنے پر بھی ہم مسلمان بیٹھے ہیں اور اگر اسلام پر عمل کرنا چاہیں تو یہ دین ٹھیک اسی طرح محفوظ ہے جس طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان تک پہنچایا تھا۔
لہٰذا اگر ہم اپنے اسلاف کے اس طرز عمل کو چھوڑ کر غیر مسلم اقوام کے دن منانے کے طریقے کو اپنائیں گے تو مطلب یہ ہوگاکہ ہم دین کے نام پر کھیل تماشوں کے اسی راستے پر جارہے ہیں جس سے اسلام نے بڑی احتیاطی تدابیر کے ساتھ ہمیں بچایا تھا، آپ کو معلوم ہے کہ اسلام نے غیر مسلم اقوام کی مشابہت سے پرہیز کرنے کی جابجا انتہائی تدبیر کے ساتھ تلقین فرمائی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ عاشورہ محرم کا روزہ، جو ہر ا عتبار سے ایک نیکی ہی نیکی تھی، اس میں یہودیوں کی مشابہت سے بچانے کے لیے یہ حکم دیا گیا کہ صرف دس تاریخ کا روزہ نہ رکھا جائے، بلکہ اس کے ساتھ نو یا گیارہ تاریخ کا روزہ بھی رکھا جائے، تاکہ مسلمانوں کا روزہ عاشورہٴ یہود سے ممتاز ہوجائے۔
غور فرمائیے کہ جس دین حنیف نے اس باریک بینی کے ساتھ غیر مسلم اقوام کی تقلید، بلکہ مشابہت سے بچانے کی کوشش کی ہے، اس کو یہ کیسے گوارا ہوسکتا ہے کہ سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کا یوم پیدائش منانے کے لیے ان کی نقالی شروع کردی جائے جنہوں نے اپنے دین کو بگاڑ بگاڑ کر کھیل تماشوں میں تبدیل کردیا ہے؟
مذکورہ بالا حقائق کے پیش نظر ہم اپنے ملک کے تمام علماء، دینی راہ نما، مذہبی جماعتوں اور با اثر مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس مسئلے پر پوری سنجیدگی کے ساتھ غور فرمائیں، ہماری یہ اپیل صرف اہل حدیث اور دیوبندی مکتب فکر کے حضرات کی حد تک محدود نہیں، بلکہ ہم بریلوی مکتب فکر کے حضرات سے بھی یہی گزارش کرنا چاہتے ہیں ”عید میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم“ کے نام پر جو الم ناک حرکتیں اب شروع ہوگئی ہیں، وہ یقینا ان کو بھی گوارا نہیں ہوں گی۔ [بندہ: ابو محمود مفتی نسیم اللہ فانی]
مذھب اور کلچر:
1. ہر سال ربیع الاول کے مہینہ میں میڈیا پر ایک لامتناہی بحث کا آغاز ہو جاتا ہے کہ میلاد النبی ﷺ کا سلیبریٹ کرنا گناہ ہے ، یہ بدعت ہے- اس کی سند نہیں ملتی- اسلام دین مکمل ہے، عقائد ، عبادات میں کوئی اضافہ ممکن نہیں نہ ہی ضرورت ہے- مگر ضروری ہے کہ اسلامی اقدار اور تہذیب کے دائرہ کا خیال رکھا جائے-
2.یہ پاپولر تہواردو تین سو سال قبل کی اسلامی تحاریک سے بہت پہلےمسلمان عوام نے محبت رسول الله ﷺ میں منانا شروع کیا – میلاد النبی ﷺ پاپولر اسلامی کلچر کا صدیوں پرانا حصہ ہے جو تمام دنیا کے مسلمان (ماسوائے سعودی عرب اور قطر) سرکاری طور پر تعطیل کے ساتھ مناتے ہیں- خلافت عثمانیہ میں 1588 سے سرکاری تعطیل کے ساتھ منایا جاتا تھا – دن کا آغاز گن سلوٹ سے ہوتا ہے- نعت خوانی ( مدحِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی محافل منعقد ہوتی ہیں جس میں علماءاکرام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت، آپ کی ذات مبارکہ اور سیرت طیبہ کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اسی طرح مختلف شعراء اور ثناء خواںِ رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں نعتیہ گلہائے عقیدت اور درود و سلام پیش کرتے ہیں، قرآن کی تلاوت، قرات کی محافل ہوتی ہیں، مخیر حضرت طعا م تقسیم کرتے ہیں-
’’’اور اِسی طرح اُن اُمور پر (ثواب دیا جاتا ہے) جو بعض لوگ ایجاد کرلیتے ہیں، میلادِ عیسیٰ علیہ السلام میں نصاریٰ سے مشابہت (مکروہ) کے لیےیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور تعظیم کے لیے۔ اور اﷲ تعالیٰ اُنہیں اِس محبت اور اِجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر، اُن لوگوں کو جنہوں نے یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہ طور عید اپنایا۔‘‘- ’میلاد شریف کی تعظیم اور اسے شعار بنا لینا بعض لوگوں کا عمل ہے اور اِس میں اُس کے لیے اَجر عظیم بھی ہے کیوں کہ اُس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم بھی ہے، جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک اَمر اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے ہیں۔‘‘(ابن تيميه، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 406)
(i) میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدعت نہیں
یا اس کو
(ii) بدعت حسنہ سمجھتے ہیں
یا
(iii) اس کومستحب یا مباح ، مسلمانوں کا سوشل ، کلچرل ایونٹ، تقریب سمجھتے ہیں-
٤. جو مسلمان بھائی اس تقریب کو رسول الله کی محبت کی وجہ سے جائز نہیں سمجھتے، وہ میلادالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ منائیں، سکوت اورتوقف اختیار کریں- اگربہت ضروری سمجھتے ہیں تو خوشگوار اوراحسن طریقه سے اپنے موقف کا اظھارکریں، فتویٰ بازی دشنام طرازی سے پرہیز کریں-
ضروری ہے کہ ایسا ایونٹ جس کا تعلق کاینات کی عظیم ترین ہستی سے ہو اس کا تاریخ، مذہب اور سوشل کلچر کے بیک گراؤنڈ کو مد نظر رکھ کر جائزہ لیا جائے تاکہ مسلمان غیر ضروری مباحیث میں وقت کا ضیا نہ کریں اور نہ ہی کوئی ایسے اقدام کریں جو نامناسب ہوں …
فیس بک پوسٹ : https://www.facebook.com/salaamone /posts/1512841395462061
- یہ تقریب یا معاملہ کا کس ذات اقدس کے ساتھ تعلق ہے؟
- کیا یہ اسلام کے بنیادی عقائد، ایمان اور عبادات کا حصہ یعنی فرض، سنت، نفل ہے یا مستحب، مباح، صرف ایک اظھار محبت کی تقریب-
- اگرآپ کا نظریہ غلط ہو تو اس کا کیا مطلب اور کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟
- کیا اس کی حمایت یا ممانعت میں کوئی واضح حکم یا احکام قرآن و سنت میں موجود ہیں؟
- اگر واضح حکم یا احکام موجود نہیں تو جو تفاسیراور دلائل علماء نے اس کے حق یا مخالفت میں پیش کرتے ہیں ان کی علمی ،عقلی حیثیت کیا ہے اور کس حد تک قابل اعتبارہیں ؟
- اگر یہ اجتہادی معاملہ ہے تواس کے حق یا مخالفت، دونوں سورتوں میں کوئی گناہ نہیں کیونکہ درست اجتہاد پردو ثواب اور غلط اجتہاد پر ایک ثواب ملتا ہے-
- میلادالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منانے والےاگر الله کے سامنے اس معاملہ پر پیش ہوں تو کہیں گے کہ اس کی ممانعت کا حکم موجود نہیں تھا ، مستحب ، مباح سمجھ کر منایا – ہماری نیت توصرف رسول الله سے محبت اور عقیدت کا اظھار تھا نہ شرک نہ غلو- کیا الله تعالی ان کو سزا دے گا یا جزا؟
- میلادالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بدعت ضلاله (گناہ) قراردے کرشدید مخالفت کرنے والے اگر الله تعالی کے سامنے اس معاملہ پر پیش ہوں تو کہیں گے کہ ہم نے میلادالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کی کیونکہ ہمارے خیال میں اس کو منانے کا حکم نہ قرآن و سنّت میں تھا، نہ صحابہ اکرام نے منایا-
یقیناً اللہ کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (8:22 قرآن) جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی، اُسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی اِن باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں، جو دانشمند ہیں (2:269 قرآن)تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً خدا سُننے والا اور جاننے والا ہے (8:42 قرآن)-
درج ذیل تحقیق پڑھ کر فیصلہ آپ خود کریں
عید میلاد النبی، یا جشن عید میلاد النبی یا صرف میلاد النبی (عربی: مَوْلِدُ النَبِيِّ) ایک اسلامی تہوار یا خوشی کا دن ہے جو اکثر مسلمان (سنی و شیعہ سوائے سلفیوں کے, جو اس کو غیر اسلامی بدہ کہتے ہیں، بدعت ، بدا، Bida’ah کیا ہے؟ یھاں پڑھیں) مناتے ہیں۔ یہ دن مسلمان ہر سال اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت کی مناسبت سے مناتے ہیں۔ یہ ربیع الاول کے مہینا میں آتا ہے جو اسلامی تقویم کے لحاظ سے تیسرا مہینا ہے۔ ویسے تو میلاد النبی اور محافلِ نعت کا انعقاد پورا سال ہی جاری رہتی ہیں، لیکن خاص ماہِ ربیع الاول میں عید میلاد النبی کا تہوار پوری مذہبی عقیدت اور احترام سے منایا جاتا ہے۔ یکم ربیع الاول سے ہی مساجد اور دیگر مقامات پر میلاد النبی اور نعت خوانی ( مدحِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی محافل شروع ہو جاتی ہیں جن علماءاکرام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت، آپ کی ذات مبارکہ اور سیرت طیبہ کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اسی طرح مختلف شعراء اور ثناء خواںِ رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں نعتیہ گلہائے عقیدت اور درود و سلام پیش کرتے ہیں۔ 12 ربیع الاول کو کئی اسلامی ممالک میں سرکاری طور پر عام تعطیل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، کوریا، جاپان اور دیگر غیر اسلامی ممالک میں بھی مسلمان کثرت سے میلادالنبی اور نعت خوانی کی محافل منعقد کرتے ہیں۔
Mawlid (مَولِد النَّبِي mawlidu n-nabiyyi, “Birth of the Prophet”) is the observance of the birthday of the Islamic prophet Muhammad which is celebrated often on the 12th day of Rabi’ al-awwal, the third month in the Islamic calendar.The 12th Day of Rabi’ al-awwall is the most popular date from a list of many dates that are reported as the birth date. The origin of Mawlid observance reportedly dates back to the early period of Islam. The Ottomans declared it an official holiday in 1588. The term Mawlid is also used in some parts of the world, such as Egypt, as a generic term for the birthday celebrations of other historical religious figures such as Sufi saints. Most denominations of Islam approve of the commemoration of Muhammad’s birthday; however, some denominations including Wahhabism/Salafism, Deobandism and the Ahmadiyya disapprove its commemoration, considering it an unnecessary religious innovation (bid’ah or bidat). Mawlid is recognized as a national holiday in most of the Muslim-majority countries of the world except Saudi Arabia and Qatar which are officially Wahhabi/Salafi. Keep reading >>>
بدعت کیا ہے؟
مختصر: ’بدعت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جو ’’بَدَعَ‘‘ سے مشتق ہے۔ اس کا معنی ہے : کسی سابقہ مادہ، اَصل، مثال، نمونہ یا وجود کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا؛ یعنی کسی شے کو عدمِ محض سے وجود میں لانے کو عربی زبان میں ’’اِبداع‘‘ کہتے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں بدعت کا حکم ہر اُس فعل یا مفعول کیلئے استعمال ہوتا ہے جسکا وجود قرآن و سنت کی نص سے ثابت نہ ہو اور وہ مابعد قرآن و سنت ظاہر ہو۔ ہر وہ نئی چیز، جو شریعت کے کسی اصول کے خلاف جا رہی ہو، وہ بدعت کے زمرے میں آتی ہے۔ رسول اکرم ﷺ کی حدیث سے ماخوز ہے کہ ہر وہ عمل، جو کسی سنت کو ختم کر دے، وہ بدعت (سنتِ سئیہ) کے زمرے میں آجائے گا۔
“ما احدث قوم بذعۃ ال رفع مثلھا من السنۃ” – جب کوئی قوم بدعت ایجاد کرتی ہے تو اسی کی مثل سنت ختم ہو جاتی ہے۔ (مشکوۃ، ص ۳۱)
بدعت وہ ہے جن کے اختیار کرنے سے سنت بدل جائے۔ اگر کسی عمل سے سنت نہیں بدلتی تو وہ عمل بدعت بھی نہیں کہلائے گا۔
مسلم، الصحيح، کتاب الزکوٰة، باب الحث علی الصدقه، 2 : 705، رقم : 1017 نسائی، السنن، کتاب الزکاة، باب التحريض علی الصدقه، 5 : 55، 56، رقم : 2554 ابن ماجه، السنن، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، 1 : 74، رقم : 203 احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357.359 دارمی، السنن، 1 : 141، رقم : 514 ابن ابی شيبه، المصنف، 2 : 350، رقم : 9803 بيهقی، السنن الکبریٰ، 4 : 175، رقم : 7531ابو داؤد، السنن، کتاب السنة، باب لزوم السنة، 4 : 201، رقم : 4609
ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 1 : 75، رقم : 206
ابن حبان، الصحيح باب ذکر الحکم فيمن دعا إلی هدی او ضلالة فاتبع عليه، 1 : 318، رقم : 112
دارمی، السنن، 1 : 141، رقم : 513
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 397، رقم : 9149
أبو عوانة، المسند، 3 : 494، رقم : 5823
اگر غور کیا جائے تو واضح ہوگا کہ یہاں لفظِ ’’سنّت‘‘ سے مراد سنّتِ شرعی نہیں ہے بلکہ سنّتِ لغوی (practice) ہے۔ اگر من سنَّ فی الاسلام سُنّۃً سے مراد شرعی معنی میں سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا سنّتِ صحابہ ہوتی تو اسے سُنّۃً حَسَنَۃ اور سُنَّۃً سَیِّئَۃً میں ہرگز تقسیم نہ کیا جاتا۔ کیونکہ سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ہمیشہ حسنہ ہی ہوتی ہے، اس کے سیّئہ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لفظ تو ’’سنّت‘‘ کا استعمال فرمایا ہے مگر اس کے اطلاق میں حسنہ اور سیّئہ دو اقسام بیان کی ہیں اور ایک پر اجر اور دوسری قسم پر گناہ کا اطلاق فرمایا گیا ہے۔ واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
السواد الاعظم عربی زبان میں “عظیم-ترین (بڑی) جماعت” کو کہتے ہیں. [الصحاح للجوهري:١/٤٨٩] حدیث پاک میں اس کا ذکر:
عن ابن عمر قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : لا یجمع اللّٰہ ھذہ الأمۃ علی الضلالۃ ابدا. وقال ید اللّٰہ علی الجماعۃ. فإذا شذ الشاذ منھم إختطفتہ الشیاطین۱. فاذا رأیتم إختلافا.۲فاتبعوا السواد الأعظم، فإنہ من شذ، شذ فی النار.(مستدرک،کتاب العلم(ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ میری امت کو کبھی ضلالت پر جمع نہیں کرے گا۔اور آپ نے فرمایا:نظم اجتماعی پر اللہ کا ہاتھ ہے۔تو جو اس سے الگ ہوا،شیاطین اسے اچک لے جائیں گے۔چنانچہ،جب تم (اس میں) اختلاف پاؤ تو (اس کے ساتھ وابستہ رہنے کے لیے) سوادا عظم کی رائے کی پیروی کرو، اس لیے کہ جو الجماعۃ سے الگ ہوا،وہ دوزخ میں پڑا۔
رہبانیت ایجاد کی، مگر اس کا حق ادا نہ کیا :
ثُمَّ قَفَّیۡنَا عَلٰۤی اٰثَارِہِمۡ بِرُسُلِنَا وَ قَفَّیۡنَا بِعِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡاِنۡجِیۡلَ ۬ ۙ وَ جَعَلۡنَا فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ رَاۡفَۃً وَّ رَحۡمَۃً ؕ وَ رَہۡبَانِیَّۃَۨ ابۡتَدَعُوۡہَا مَا کَتَبۡنٰہَا عَلَیۡہِمۡ اِلَّا ابۡتِغَآءَ رِضۡوَانِ اللّٰہِ فَمَا رَعَوۡہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا ۚ فَاٰتَیۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡہُمۡ اَجۡرَہُمۡ ۚ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ [سورة الحديد 57 آیت: 27]
“ان کے بعد پھر بھی ہم اپنے رسولوں کو پے درپے بھیجتے رہے اور ان کے بعد عیسیٰ بن مریم ( علیہ السلام ) کو بھیجا اور انہیں انجیل عطا فرمائی اور ان کے ماننے والوں کے دلوں میں شفقت اور رحم پیدا کر دیا ہاں رہبانیت ( ترک دنیا ) تو ان لوگوں نے از خود ایجاد کر لی تھی ہم نے ان پر اسے واجب نہ کیا تھا سوائے اللہ کی رضا جوئی کے ۔ سوا انہوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی پھر بھی ہم نے ان میں سے جو ایمان لائے تھےانہیں ان کا اجر دیا اور ان میں زیادہ تر لو گ نافرمان ہیں” [سورة الحديد 57 آیت: 27]
عَنْ أَبِي هُرَيْرَة أَنَّ رَسُوْل اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ دَعَا إِلَی هُدًی، کَانَ لَهُ مِنَ الأجْرِ مِثْلَ أُجُوْرِ مَنْ يَتَّبِعُهُ، لَا يُنْقِصُ ذَلِکَ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْئًا. وَمَنْ دَعَا إِلَی ضَلَالَةٍ، کَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ يَتَّبِعُهُ، لَا يُنْقِصُ ذَلِکَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا.
‘‘حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے ہدایت کی طرف بلایا اس کے لئے اس راستے پر چلنے والوں کی مثل ثواب ہے اور ان کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہ ہوگا اور جس نے گناہ کی دعوت دی اس کے لئے بھی اتنا گناہ ہے جتنا اس بد عملی کا مرتکب ہونے والوں پر ہے اور ان کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔’
حضرت انس رضی الله عنہ، رسول الله صلے الله علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ”میری امت کسی گمراہی پر جمع (متفق) نہیں ہوگی بس جب تم (لوگوں میں) اختلاف دیکھو تو سواد اعظم (بڑی-جماعت) کو لازم پکڑلو(یعنی اس کی اتباع کرو)” [سنن ابن_ماجہ: کتاب الفتن، باب السواد الاعظم]
دوسری روایت میں حضرت ابن عمر(رضی الله عنہ) سے حدیث میں ہے : کہ…بس تم سواد اعظم کا اتباع (پیروی) کرو، کیونکہ جو شخص الگ راستہ اختیار کریگا جہنم میں جا رہیگا.[مستدرک حاکم: کتاب العلم، ١/١١٥]
عظیم ترین بدعت سَیِّئَۃً :
ہم سب مسلمان ہیں, صرف مسلمان کہلائیں-مزید پڑھیں >>>>>
مشہور بدعات( حسنہ):
١ . قرآن پاک کی کتابت و تدوین دو جلدوں کی شکل میں جو رسول الله ﷺ کے دور میں نہ تھی، مگر ضروری سمجھ کر خلفاء راشدین نے طویل مشاورت اور اجتہاد سے کی- یہ کام کتنا ضروری تھا ، اس کا اندازہ بائبل کی موجودہ حالت سے لگایا جا سکتا ہے- ٢ .قرآن پاک پراعراب حجاج بن یوسف نے لگوا یے تاکہ ایک قرات سے درست قرآن پڑھا جایے- عرب میں اعراب کا رواج نہیں مگر عجمی کو اشد ضرورت ہے- ٣ .تراویح نماز ایک بہت نیک فعل ہے جس کا بہت بڑا اجر ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے دوران یہ تراویح فقط “تین” راتوں تک ادا فرمائی، صحابہ کرام نے اپنے اجتہاد کے مطابق اس “نئے” عباداتی فعل کو 30 راتوں تک پھیلایا ہے کیونکہ اس میں کوئی قباحت نہیں- ٤ .ایمانِ مفصل و ایمانِ مجمل، چھ کلمے وغیرہ بعد کے ادوار کے بزرگان دین نے مرتب کئے اور آج بھی تعلیمات دین کا بنیادی جزو ہیں۔ ٥. لاووڈ سپیکر، ویڈیو ، انٹیر نیٹ اور جدید ٹیکنالوجی کا مساجد اور عبادات میں استمعال-(ابتدا میں حرام کہا گیا بعد میں حلال اور ضروری ہو گیا) ٦ .حضرت بلالؓ کا اذان کے بعداپنی طرف سے دو رکعت نماز ادا کرنے کا رواج- ٧ .صحابی کا اپنے اجتہاد کے مطابق نماز میں “ذکر” کے نئے کلمات ادا کرنا(صحیح بخاری، کتاب الاذان ، حدیث نمبر 800) ٨.عید میلاد النبی، درود و سلام اور محافل نعت جو کہ باقاعدہ طور پر بعد ازاں جاری کی گئیں امت مسلمہ کے دلوں میں جذبہ محبت و عشق رسول موجزن رکھنے میں معاون ثابت ہوئیں۔ (غیر اسلامی خرافات اس کا حصہ نہیں ) ٩.مرحومین کے ایصال ثواب کے لیے یا ویسے ہی قرآن اور حمدونعت خوانی کا اہتمام، خاص طور پر، قل ، چالیسواں وغیرہ- ١٠.مساجد میں محراب، گنبد اور محراب وغیرہ کا آغاز پہلی دفعہ فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں ہوا۔ یہ بدعت بھی تمام اسلامی ممالک میں آج تک مستعمل ہے۔ ١١ .تبلیغی جماعت کے اجتماعات، جو بہت اچھے مقصد حاصل کر رہے ہیں. ١٢.نماز جمعہ کی پہلی اذان. ١٣.اذان فجر میں میں “الصلاہ خیر النوم” کا اضافہ- ١٤ ہر .نماز اور نماز جنازہ کے بعد مشترکہ دعا ١٥.جمعہ کی نماز سے قبل ٤ رکعت ١٦.جمعہ میں تین خطبہ ، ایک اردو میں اور دو عربی میں ١٧.قضاء عمری کی نمازیں پڑھنا ١٨ نماز عید سے پہلے خطبہ ١٩.اذان سے قبل درود شریف پڑھنا ٢٠ . مساجد میں قالین (پہلی بدعت حسنہ) اور اعلی تعمیر و تزئین- ٢١ .پیدائش پر بچہ کی بائیں کان میں اقامت کہنا(سنت صرف دائیں کان میں اذان دینا ہے) ٢٢ .حضرت خبیب ؓ کی سنت، قتل ہونے سے قبل دو رکعت نماز پڑھنے کا رواج (صحیح بخاری، کتاب الجہاد و السیر) ٢٣.تبلیغ کے سہ روزے اور چلّے- ٢٤.بخاری شریف کا ختم کرنا- ٢٥. سیرت کانفرنسوں کا انعقاد- ٢٦.نماز کی نیت زبان سے ادا کرنا- ٢٧.جب مودودی صاحب نے خانہ کعبہ کا غلاف بنا کر شہر شہر جلوس کی شکل میں گھمایا تھا تو اسے بدعت کہنے والوں کو انھوں نے بہت دانشمندانہ جواب دیا تھا کہ ” یہ بدعت نہیں ہے کیونکہ اس میں کویؑ چیز شریعت کے مزاج کے خلاف نہیں ہے” –
مزید بدعات :مسلمان ایک دوسرے کے عقائد و نظریات پر تنقید کرتے ہوے بدعات کا الزام لگاتے ہیں: ١. امام کے پیچھے سوره فاتحہ کی تلاوت کو فرض قرار دینا. ٢. ننگے سر بغیرعذر نمازپڑھنا- ٣. ایک مٹھی سے زائد داڑھی کو سنت کہنا اور ایک مٹھی سے زائد داڑھی کاٹنے کو غلط کہنا- ٤. ٹانگیں پھیلا کر نماز پڑھنا ٥. رفع یدین کو سنت موکدہ یا فرض واجب کہنا- رفع یدین کے مسئلہ میں ائمہ اربعہؒ میں اجتہادئی اختلاف ہے شافعی اور حنبلی رفع یدین کرتے ہیں لیکن اسے فرض واجب یا سنت موکدہ نہیں سمجھتے جبکہ حنفی اور مالکی ترک رفع یدین کے قائل ہیں۔ رفع یدین کو سنت موکدہ یا فرض واجب کہنا اپنی نکالی ہوئی بدعت ہے۔ ٦۔ حلال جانوروں کی ہر چیز حلال ( پیشاب ، پاخانہ ، پیپ ، تھوک ) سمجھنا ۔ ٧. نا پاک کپڑوں میں نماز صحیح سمجھنا- ٩. شرعاً مرغ کی قربانی جائزسمجھنا- ١٠. بے وضو اور پلید شخص کا قرآن پاک کو چھونا ١١. تراویح ، تہجد اور وتر کو ایک ہی کہنا ١٢. دونوں ہاتھوں سے مصافحے کو غلط سمجھنا اور ایک ہاتھ سے مصافحے کو درست سمجھنا- ١٣. قربانی می ںقادیانی، مرزئی (غیر مسلم) کو بھی شریک کرنا- ١٤. اجماع حجت کو شرعیہ نہ سمجھنا ١٥. طلاق کی کوئی حد نہیں بار بار طلاق بار بار رجوع کرنا جائز- ١٦. غیر مجتہد بھی اجتہاد کرے- ١٧ . مساجد کو مخصوص فرقہ یا مسلک سے منصوب کرنا- کیا یہ سب بدعتیں “حسنہ” ہیں اور میلاد ﷺ منانے کی بدعت (معاذ اللہ) سیؑہ ہے؟
بدعت کیا ہے؟ (مکمل <<تفصیل لنک >> )
میلاد النبی پر<< سلفی تنقید – الشیخ عبد العزیز ابن باز>> تنقید کے جوابات نیچے ملاحظہ فرمائیں
بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا (آل عمران ،164)
آپ نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے منبر پر چادر بچھائی اور انہوں نے منبر پر بیٹھ کر نعت شریف پڑھی، پھر آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی۔ (صحیح بخاری ج 1 ص 65)
حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے غزوہ تبوک سے واپسی پر بارگاہ رسالت میں ذکر میلاد پر مبنی اشعار پیش کیے (اسد الغابہ ج 2 ص 129)
امام ابن حجر شافعی ( رحمہ اللہ ) ۔ ( م 852 ھ ) فرماتے ہیں ، ( محافل میلاد و اذکار اکثر خیر ہی پر مشتمل ہوتی ہیں کیونکہ ان میں صدقات ذکر الہی اور بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں درود و سلام پیش کیا جاتا ہے)۔
امام جلال الدین سیوطی ( رحمہ اللہ ) ۔ ( م 911 ھ ) فرماتے ہیں ، ( میرے نزدیک میلاد کے لیے اجتماع تلاوت قرآن ، حیات طیبہ کے واقعات اور میلاد کے وقت ظاہر ہونے والی علامات کا تذکرہ ان بدعات حسنہ میں سے ہے ۔ جن پر ثواب ملتا ہے ۔ کیونکہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور آپ کی ولادت پر خوشی کا ا ظہا ر ہوتا ہے ) ۔
امام قسطلانی شارح بخاری رحمہ اللہ (م 923ھ) فرماتے ہیں، (ربیع الاول میں تمام اہل اسلام ہمیشہ سے میلاد کی خوشی میں محافل منعقد کرتے رہے ہیں۔ محفل میلادکی یہ برکت مجرب ہے کہ اس کی وجہ سے سارا سال امن سے گزرتا ہے ۔ اور ہر مراد جلد پوری ہوتی ہے۔ اللہ تعالٰی اس شخص پر رحمتیں نازل فرمائے جس نے ماہ میلاد کی ہر رات کو عید بنا کر ایسے شخص پر شدت کی جس کے دل میں مرض و عناد ہے)۔
امام صدر الدین موہوب بن عمر الجزری (م 665ھ)
قاضیء مصر صدر الدین موہوب بن عمر بن موہوب الجزری الشافعی فرماتے ہیں :
هذه بدعة لا بأس بها، ولا تُکره البِدع إلا إذا راغمت السُّنة، وأما إذا لم تراغمها فلا تُکره، ويُثاب الإنسان بحسب قصده في إظهار السرور والفرح بمولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم .
وقال في موضع آخر : هذا بدعة، ولکنها بدعة لا بأس بها، ولکن لا يجوز له أن يسأل الناس بل إن کان يَعلمْ أو يغلب علي ظنه أن نفس المسؤول تَطِيب بما يعطيه فالسؤال لذلک مباح أرجو أن لا ينتهي إلي الکراهة.
’’یہ بدعت ہے لیکن اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور بدعتِ مکروہ وہ ہے جس میں سنت کی بے حرمتی ہو۔ اگر یہ پہلو نہ پایا جائے تو (بدعت) مکروہ نہیں اور انسان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی حسبِ توفیق اور حسبِ اِرادہ مسرت و خوشی کے اظہار کے مطابق اجر و ثواب پاتا ہے۔
’’اور ایک دوسرے مقام پر کہتے ہیں : یہ بدعت ہے لیکن اس بدعت میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن اِس کے لیے لوگوں سے سوال کرنا جائز نہیں، اور اگر وہ یہ جانتا ہے یا اُسے غالب گمان ہے کہ اس کا سوال مسؤل کی طبیعت پر گراں نہیں گزرے گا اور وہ خوشی سے سوال کو پورا کرے گا تو ایسی صورت میں یہ سوال مباح ہوگا، اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ عمل مبنی بر کراہت نہیں ہوگا۔‘‘
صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 365، 366
اِمام ظہیر الدین جعفر التزمنتی (م 682ھ)
اِمام ظہیر الدین جعفر بن یحیٰ بن جعفر التزمنتی الشافعی (م 1283ء) کہتے ہیں :
هذا الفعل لم يقع في الصدر الأول من السلف الصالح مع تعظيمهم وحبهم له إعظاماً ومحبة لا يبلغ جَمعُنا الواحدَ منهم ولا ذرّة منه، وهي بدعة حسنة إذا قصد فاعلها جمع الصالحين والصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم وإطعام الطعام للفقراء والمساکين وهذا القدر يثاب عليه بهذا الشرط في کل وقت.
’’محافلِ میلاد کے انعقاد کا سلسلہ پہلی صدی ہجری میں شروع نہیں ہوا اگرچہ ہمارے اَسلاف صالحین عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس قدر سرشار تھے کہ ہم سب کا عشق و محبت ان بزرگانِ دین میں سے کسی ایک شخص کے عشقِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں پہنچ سکتا۔ میلاد کا انعقاد بدعتِ حسنہ ہے، اگر اس کا اہتمام کرنے والا صالحین کو جمع کرنے، محفلِ درود و سلام اور فقراء و مساکین کے طعام کا بندوبست کرنے کا قصد کرتا ہے۔ اس شرط کے ساتھ جب بھی یہ عمل کیا جائے گا موجبِ ثواب ہوگا۔‘‘
صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 364
شاہ عبد الرحیم محدث دہلوی رحمہ اللہ ( والد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ ، م 1176 ھ ) فرماتے ہیں کہ میں ہر سال میلاد شریف کے دنوں میں کھانا پکوا کر لوگوں کو کھلایا کرتا تھا ۔ ایک سال قحط کی وجہ سے بھنے ہوئے چنوں کے سوا کچھ میسر نہ ہو ا ، میں نے وہی چنے تقسیم کرد ئیے ۔ رات کو خواب میں آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہو اتو دیکھا کہ وہی بھنے ہوئے چنے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ بیحد خوش اور مسرور ہیں۔
ہم تو عید میلاد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی میں اپنے گھروں ا ور مساجد پر چراغاں کرتے ہیں ، خالق کائنات نے نہ صرف سا ر ی کائنات میں چراغاں کیا بلکہ آسمان کے ستاروں کو فانوس اور قمقمے بنا کر زمین کے قریب کردیا ۔حضرت عثمان بن ابی العاص ( رضی اللہ عنہ ) کی والدہ فرماتی ہیں ، ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی میں خانہ کعبہ کے پاس تھی ، میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے روشن ہوگیا ۔ اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ کہیں وہ مجھ پر گر نہ پڑیں ) ۔
یہ حدیث ( الو فابا حوال المصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ) میں محدث ابن جوزی نے بھی روایت کی ہے ۔ اس سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جھنڈے لگانے کی اصل بھی ثابت ہوئی۔ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جلوس بھی نکالا جاتا ہے اور نعرئہ رسالت بلند کیے جاتے ہیں۔ اس کی اصل یہ حدیث پاک ہے کہ جب آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہلیان مدینہ نے جلوس کی صورت میں استقبال کیا۔ حدیث شریف میں ہے کہ مرد اور عورتیں گھروں کی چھتوں پر چرھ گئے اور بچے اور خدام گلیوں میں پھیل گئے، یہ سب با آواز بلند کہہ رہے تھے، یا محمد یا رسول اللہ ، یا محمد یا رسول اللہ ۔ (صلی اللہ علیہ وسلم) ۔
جشن عید میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت بیان کرنے کے بعد اب چند تاریخی حوالہ جات پیش خدمت ہیں ۔ جن سے ثا بت ہو جائے گا کہ محافل میلاد کا سلسلہ عالم اسلام میں ہمیشہ سے جاری ہے ۔
جبکہ خاص کتاب اﷲ میں اعراب و حرکات کا کام نہ عہد رسالت میں ہوا، نہ عہد صحابہ میں اور نہ قرآن و حدیث میں اس کا حکم آیا بلکہ یہ نو ایجاد کام عہد تابعین میں ہوا۔ اموی حکومت کے ظالم و جابر گورنر حجاج ابن یوسف ثقفی نے نقطے اور حرکتیں لگوائیں۔
جبکہ محراب و مینار کی ایجاد نہ عہد رسالت میں ہوئی نہ عہد صحابہ میں، نہ عہد تابعین میں بلکہ تبع تابعین کے دور میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے مسجد نبوی شریف کی تعمیر جدید میں محراب بھی بنوایا، کنگورے بھی لگوائے اور مینارے بھی بنوائے، یہ کام ۸۱ھ سے ۹۳ھ تک ہوا۔
جبکہ خطبے میں یہ دونوں مبارک نام کب شامل ہوئے؟ کس نے شامل کئے؟ اس کی تاریخ کا کچھ پتہ نہیں۔ جبکہ یہ طے ہے کہ حضور اقدسﷺ اور صحابہ کرام کے عہد مبارک میں یہ نام شامل خطبہ نہ تھے، مگر اس نو ایجاد چیز کو تمام اہل اسلام نے قبول کیا اور یہ آج تک رائج ہے۔
جبکہ اس کی ایجاد حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کی۔
جبکہ یہ فقہائے متاخرین کی ایجاد ہے۔
’’استحسنہ المتاخرون‘‘ تثویب کو متاخرین نے مستحسن قرار دیا ہے۔ دور کیوں جایئے اہل انصاف پوچھیں،
کیا دارالعلوم دیوبند کا جشن صد سالہ منانے اور سالانہ جلسہ دستار منعقد کرنے کا حکم قرآن نے دیا ہے؟ یا حدیث میں اس کا حکم آیا؟
اس مفتی سے سیکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ جشن صد سالہ کرسچن کی ایجاد ہے؟ یا یہودیوں کی ایجاد ہے؟
تو یہ چودہ سو سال بعد کی بدعت ہے تو پھر اس قسم کے جشن و جلسے پر ناجائز و حرام و بدعت سئیہ ہونے کا حکم کیوں نہیں لگایا جاتا؟
خاص نماز میں وہابی دیوبندی لائوڈ اسپیکر کا استعمال کرتے ہیں۔ کیا قرآن کریم نے اقامت نماز کے حکم کے ساتھ اس آلہ مکبر الصوت کے استعمال کا بھی حکم دیا ہے؟
حدیث میں مسجدوں کو منڈیر بنانے کا حکم دیا ہے مگر وہابیہ کنگورے لگاتے ہیں، وہابی اصول پر یہ تمام بری بدعتیں اور ضلالت ہیں۔ اس کے باوجود وہ اس کا ارتکاب خوش دلی سے کرتے ہیں۔ اگران کے اعتقاد و عمل، قول و فعل اور فتوے میں جواز و استحسان کی کوئی جگہ نہیں ہے تو وہ ہے ’’وجہ وجود کائنات سرکار دوعالمﷺ کی ولادت مبارکہ کے شکریہ میں جشن و عید کی، اس موقع پر مسرت و شادمانی کی‘‘
……………………………………………
اس سے ہر مسلمان کو پرہیز کرنا چاہیے بلکہ جس امر مباح کو عمل بنظر تعظیم و محبت کیا جا تا ہے تو وہ مستحب و مستحسن اور دربار الٰہی میں محبوب و مقبول ہو جاتا ہے جیسے محفل میلاد شریف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر خوشی اور حضور اقد س صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کا اظہار ہے۔ اسی لیے اہل سنت و جماعت کا اس پر اتفاق اور اجماع ہے کہ یہ قیام مستحب و مستحسن ہے۔
اختتامیہ
جو مسلمان میلادالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منانا چاہتے ہیں ، تقدس اور احترام سے منائیں، خرافات اور غیر اسلامی حرکات سے پرہیز اور لاتعلقی اور بیزاری اختیار کریں- جو بھائی نہیں شامل ہوتے ان پرتنقید نہ کریں- اگر ضروری سمجھیں توخوشگوار اوراحسن طریقه سے اپنے موقف کامدلل اظھارکریں، فتویٰ بازی دشنام طرازی سے پرہیز کریں، سکوت بہتر ہے-
جو مسلمان بھائی اس تقریب کو رسول الله کی محبت کی وجہ سے جائز نہیں سمجھتے، وہ میلادالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ منائیں، سکوت اورتوقف اختیار کریں- اگربہت ضروری سمجھتے ہیں تو خوشگوار اوراحسن طریقه سے اپنے موقف کا اظھارکریں، فتویٰ بازی دشنام طرازی سے پرہیز کریں-٥. تمام مسلمان بھائیوں سے درخواست ہے کہ اپنے مسلکی اختلافات پس پشت ڈال کردوسروں کو تنقید کا نشانہ بنا نے کی بجانے اپنا وقت تعمیری کاموں میں لگائیں، سوسائٹی کوانتشار، فرقہ بازی اور اخلاقی انحطاط سے نکالنے کی کوشش کریں، اسلام کو ان سےشدید خطرہ ہے-
اس مقالہ سےکسی کی دلآزاری مقصود نہیں- یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر دو آرا ہیں،اجتہادی معاملات حتمی نہیں ہوتے ، اس لیے کسی کو غلط یا درست کہنا مشکل ہے، نیتوں کا علم الله کو ہے [واللہ اعلم]
بدعت بدعة ، بدا، Bid’a
‘ بدعت” عربی زبان کا لفظ ہے جو ”بَدَعَ” سے مشتق ہے۔ اس کا معنی ہے : کسی سابقہ مادہ، اَصل، مثال، نمونہ یا وجود کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا؛ یعنی کسی شے کو عدمِ محض سے وجود میں لانے کو عربی زبان میں ”اِبداع” کہتے ہیں۔ تحریر
کیا صحابہ نے میلاد منایا ؟
میلاد منانے کا انداز اپنا اپنا ۔۔۔ ایک طبقہ ایسا ہے جو کہتا ہے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی قسمت اچھی تھی کہ انھیں عمر فاروق جیسا ساتھی ملا ۔ دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ آقا کے مقدر اچھے کہ امام حسن و حسین جیسے نواسے ملے – دونوں طبقے غلط ہیں – ہم کہتے ہیں عمر ابن الخطاب کی قسمت اچھی جو محمد عربی علیہ السلام جیسے آقا ملے اسی طرح حسنین کریمین کے بخت اچھے جو آقا جیسے نانا ملے ۔ ہم نے جسے بھی مانا حضور علیہ السلام کی وجہ سے مانا ۔
انھیں مانا انھیں جانا نہ رکھا غیر سے کام
للله الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا ۔
سوال :- کیا میلاد منانا قرآن و سنت سے ثابت ہے ؟ ٹھیک اسی طریقے پر جیسے آپ مناتے ہیں ۔ کیا نبی اکرم علیہ السلام نے میلاد منایا ؟ کیا صحابہ نے ٹھیک اسطرح میلاد منایا جسطرح آپ لوگ آجکل مناتے ہیں ۔ ؟
جواب :- آقا علیہ السلام ہر پیر کو روزہ رکھتے تھے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا میں اس دن پیدا ہوا تھا ۔ آپکا ولادت کی خوشی منانے کا اپنا انداز تھا ۔ رہی بات صحابہ کی تو خدا کی قسم جسطرح صحابہ نے میلاد منایا ہم اسطرح منانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ آٹھ تلواریں لیکر بدر میں چل پڑے ایک ہزار کے لشکر کی صفیں الٹ کر اعلان کیا کہ حضور آگئے ہم ذلیل تھے آقا نے آکر معزز کردیا ۔ الله نے آقا کی صورت میں ہم پر احسان عظیم کیا اور میلاد کسے کہتے ہو ؟ گھوڑوں کی پشتوں پر بیٹھ کر قیصر و کسری کی چوکھٹوں پر پہنچ کر اعلان کیا حضور آگئے اب سکہ انھی کا چلے گا – ابو عبیدہ بن جراح باپ کا سر کاٹ کر لائے آقا کے قدموں میں ڈال دیا آپ نے پوچھا ابو عبیدہ یہ کس کا سر کاٹ کر لائے ہو ، جواب دیا آقا اپنے باپ کا سر لایا ہوں آپکو بھونکتا تھا – لوگ کہتے ہیں کیا صحابہ نے جھنڈیاں اور فانوس لگائے – ؟ جو باپ کا سر کاٹنے سے دریغ نہ کرتے تھے انھوں نے دس روپے کی جھنڈیاں نہیں لگانی تھیں اور فانوس گھر میں چھپائے رکھنے تھے ، عقل کے اندھو اسوقت نہ کاغذ تھا نہ فانوس – عقل ہوتی تو نہ لیتے خدا سے لڑائی ۔ سرکار اونٹ پر سوار تھے صحابی رسول عبدالله بن رواح نے اونٹ کی مہار پکڑی تھی ۔ فتح مکہ کے دن مہار تھامے عبدالله بن رواح جب حرم میں داخل ہوئے تو آپ بلند آواز سے کہہ رہے تھے ہٹ جاؤ کافرو حضور آگئے ہیں یہ انکا انداز تھا آمد مصطفی کا اعلان کرنے کا ۔ مدینے کی ننھی بچیوں نے طلع البدر علینا پڑھکر آمد رسول کا جشن منایا –
حضرت حذیفہ بن یمان صحابی کو ایک تابعی ملے تابعی نے پوچھا بابا جی آپ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو پایا آپ نے انکے لئیے کیا کیا ؟ صحابی نے فرمایا بیٹا ہم نے سب کچھ ہی ان پر لٹا دیا کچھ نہیں بچایا ۔ تابعی نے کہا بزرگو اگر والله ہم حضور کا زمانہ پاتے تو ہم نے آقا کو زمین پر نہیں چلنے دینا تھا انکو ہمیشہ اپنی گردنوں پر اٹھائے رکھتے ۔ صحابی نے یہ نہیں کہا کہ تم ہم سے بڑے عاشق ہو بلکہ فرمایا بیٹا آج تم نے مجھے تڑپا کر رکھ دیا ہے ۔ صحابہ کا انداز اپنا تابعی کا انداز اپنا ۔ امام مالک نے ساری زندگی مدینہ منورہ میں جوتا نہیں پہنا ۔ اب چودہ صدیوں میں کسی کو جرات نہ ہوئی کہ امام مالک سے پوچھے کہ جناب صحابہ تو مدینے میں جوتے پہن کر پھرتے تھے آپ بغیر جوتوں کے ، کیا آپ صحابہ سے بڑے عاشق رسول ہیں ۔ ؟ کسی نے امام مالک پر آجتک فتوی نہیں لگایا کیونکہ اہل دل جانتے ہیں محبت کا انداز اپنا اپنا ۔ دلو رآم کوثری کا ایک شعر یاد آرہا ہے
ہم مرد ہیں اور عشق ہے مردانہ ہمارا
سرکار دو عالم سے ہے یارانہ ہمارا
جنگ یمامہ میں چودہ سو صحابہ نے جانوں کا نذرانہ دیکر فرمایا خبر دارحضور آگئے اب کسی اور نبی کی گنجائش ہی نہیں ۔ جنگ یمامہ ہی میں وحشی بن حرب نے نیزا مار کار مسیلمہ کذاب کو مار کر اعلان کیا حضور آگئے اب کسی جھوٹے کمینے کی گنجائش ہی نہیں ۔ صحابہ آمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کا اعلان کرتے کرتے افغانستان تک آگئے ۔ آگئے آقا اب سکہ محمد عربی ہی کا چلے گا ۔ جسطرح آمد مصطفی کا جشن صحابہ نے منایا ہم اسطرح نہیں مناسکتے ہاں جھنڈیاں فانوس لگاکر چراغاں کرکے درود وسلام پڑھکر اپنی خوشی کا اظہار کرلیتے ہیں ۔ اب صحابہ نے چائے نہیں پی تھی اسکو بنیاد بنا کر اب اگر میں فتوی لگا دوں کہ چائے پینا حرام ہے لوگ مجھے پاگل کہیں گے اور مجھے قائل کریں گئے کہ چاہے صحابہ نے چائے نہیں پی مگر یہ حلال ہے کیونکہ چائے کے تمام اجزا دودھ پانی پتی چینی سب حلال ہے ۔ ان سب کو مکس کیا آگ پر چڑھایا نئی شکل بن گئی جسے چائے کہتے ہیں اب چاہے یہ شکل صحابہ کے دور سے ثابت نہیں مگر پھر بھی حلال بھی اور جائز بھی ہے ۔ اسی طرح ذکر مصطفی جائز ، نعت جائز ، تلاوت جائز ، شرعی حدود میں آرائش سجاوٹ جائز ، درود سلام جائز ۔ ان سب عوامل کو یکجاکیا خوشی منانے کی نئی صورت بن گئی دور جدید کے مطابق تو یہ ناجائز کیسے ، ہاں ڈھول باجا ناچ گانے اور غیر شرعی افعال کی آمیزش نہیں ہونی چاہئیے – ایک مولوی جی کو میں نے چائے والی مثال دی کہنے لگے چائے پینا دین نہیں میں نے عرض کیا جب چائے پیتے ہو اسوقت بے دین ہوتے ہو ؟ تمھیں کس نے کہا کھانا پینا دین نہیں ہمارا دین کوئی رہبانیت ہے جو کھانا پینا چھوڑ کر جنگلوں میں چلے جائیں ۔ خیر چھوڑو حج کرنا تو دین ہے صحابہ نے پیدل کیا یا اونٹ پر تم ہوائی جہاز پر کیوں کرتے ہو ۔ فرمانے لگے اسوقت اونٹ سواری تھا آج جہاز ۔ میں نے عرض کیا ملاں جی یہی نقطہ سمجھنے کا ہے کہ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں صحابہ کے خوشی منانے کا اپنا انداز تھا ہمارا اپنا انداز ہے ، مومن جس دور میں جیتا ہے اسکے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے ۔ منکرین سے آخر میں سوال
کیا صحابہ نے غائبانہ نماز جنازہ کسی کی کبھی پڑھی ؟ کیا صحابہ نے ختم بخاری کیا ؟ کیا صحابہ نے دفاع پاکستان ریلی نکالی ؟ کیا صحابہ قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہوئے ؟ ڈیزل اور ساجد میر وہابی بھی ترآنے کے احترام میں کھڑے ہوتے ہیں حلالی بنو لگاؤ فتوی – ظالمو تمھارے سارے فتوے میلاد کے لئیے ہیں۔ ؟ صحابہ نے یوم صدیق اکبر منایا ؟ صحابہ نے یوم فاروق اعظم پر جلوس نکالے ؟ اپنی بدعت کی تعریف درست کرلو ورنہ وہ تمام کام ترک کردو جو ادوار صحابہ سے ثابت نہیں ۔ منہ اٹھا کر کہہ دیتے ہیں کیا صحابہ نے میلاد منایا ؟ تمھارا صحابہ سے تعلق کیا ہے ؟ جب تمھیں تمھارے عقیدے کے خلاف کسی صحابی کا قول سنائیں تو جھٹ کہتے ہو صحابہ ہمارے لئیے حجت نہیں ۔ یہ دورنگی اور منافقت چھوڑو ۔ [ (Usman Ahsan, Liverpool UK)
کیا صحابہ نے میلاد منایا ؟
(Usman Ahsan)
لنک/ریفرنس
- [ کیا میلاد منانا بدعت ہے؟ (کتاب) http://bit.ly/2BWXfZW]
-
1.بدعت: https://goo.gl/gcjjw6
-
2.میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت اور تنقید: https://goo.gl/qKmprR
-
ولادتِ نبوی۱۲/ربیع الاوّل اوروفات ۲/ربیع الاوّل- ایک تحقیق: https://goo.gl/eqjmuH
- بدعات اہل حدیث: https://goo.gl/V2qySV
- ایک مسلمان کا اعلئ جامعه الاسلامیه سے (SMS) ایس ایم ایس پر مکالمہ :https://goo.gl/53xHtc
https://www.facebook.com/SalaamOne/posts/1512841395462061
ہر نیا کام دین میں جاری کرنا بدعت ہے
۔ ہر سال ربیع الاول کے مہینہ میں خوب جوش وِخروش سے ایک مہم شروع ہوتی ہے کی میلاد النبی ﷺ منانا بدعت ہے، کیونکہ یہ سلسلہ بعد میں شروع ہوا یہ ایک تاریخی حقیقت ہے- مگر یہ کوئی مذہبی عبادت یا دین کا حصہ نہیں کلچرل ایونٹ ہے اس پر علماء کی مختلف آراء ہیں تفصیل ملاحضہ کر سکتے ہیں اس پر تفصیل ملاحضہ کر سکتے ہیں:
https://salaamone.com/milad
بدعہ کے سخت ترین مخالف امام ابن تیمیہ( رح ) نے میلاد النبی ﷺ منانے کے ثواب کو نیت کے ساتھ مشروط کیا (نیت کاحال اللہ کو معلوم ہے) اس لحاظ سے کسی کی صوابدید پر ہے کہ احترام و محبت سے مگر خرافات سے پاک ، پر وقار طریقہ سے منائے یا نہ منائے ، لیکن بحر حال یہ دین کا حصہ نہیں ہے۔
یہ جو لوگ ہر بات پر بدعت کے فتوے لگاتے ہیں امام ابن تیمیہ ( رح) کو اپنا امام بھی مانتے ہیں ان لوگوں کی علمی حیثیت امام ابن تیمیہ ( رح) کے سامنے ایک زرہ برابر بھی نہیں- اس لئے آپ کی صوابدید ہے کہ امام ابن تیمیہ ( رح) کی بات قبول کریں یا کسی اور کی (واللہ اعلم )-
یہ ایک ایسا کلچرل عمل ہے جس پر دین کی عمارت نہیں کھڑی، رسول اللہ ﷺ سے محبت اور عقیدت کا اظہار ہے۔ جاہل لوگ خرافات ، راستے روک کر عوام کو پریشان کرکہ غیر شرعی کام کرکہ سمجھتے ہیں کہ رسول ﷺ خوش ہوں گے؟ رسول ﷺ تو قرآن و سنت پر عمل سے خوش ہوں گے۔ اس موقع کو مسلمانوں میں نفاق اور نفرت ، فرقہ واریت کے لئیے استعمال کرنا افسوسناک عمل ہے جس سے پرہیز بہتر ہے۔
حضرت عیسی علیہ السلام نے علماء یہود کو کہا کہ:
تم اندھے رہنما ہو خود اونٹ کھا جاتے ہو اور دوسروں کے مشروب میں مچھر پکڑتے ہو۔
You blind guides! You strain out a gnat but swallow a camel. [Methew 23:24]
یعنی علماء یہود خود انتہائی بڑے غیر شرعی کام کرتے تھے اور عوام کی معمولئ غلطیوں پر فتوے لگاتے تھے۔ یہی روش آج کے مسلمان علماء کی ہے۔ چھوٹے فروعی اختلافات کو خوب اچھالتے ہیں اور خود بہت بڑی بدعات کے مرتکب ہوتے ہیں۔
ایسے بہت اہم نئے نئے کام صدیوں بعد ایجاد ہوئے جن سے اسلام کی بنیادیں ہل گئیں ، وہ کام جو کہ نہ صرف یہ کہ بدعت ہیں بلکہ اللہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفا راشدین کی سنت اور احکام کے برخلاف ہیں۔ اس طرف کسی کی توجہ نہیں ہوتی ۔۔۔۔
عوام کو حقائق معلوم ہونا چاہیئے کہ ہمارے دینی رہنماوں کی ترجیحات علماء یہود سے مختلف نہیں اور وہ ہمیں کدھر لے جا رہے ہیں
عرباض رضی اللہ عنہ نے کہا
ایک دن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی ، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں دل موہ لینے والی نصیحت کی جس سے آنکھیں اشک بار ہو گئیں ، اور دل کانپ گئے ، پھر ایک شخص نے عرض کیا :
اللہ کے رسول ! یہ تو کسی رخصت کرنے والے کی سی نصیحت ہے ، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرما رہے ہیں ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستہ سے میرے بعد صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا (ماجہ ٤٣)
” میں تمہیں اللہ سے ڈرنے ، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں ، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو ، اس لیے کہ جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا ، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا ، تم اس سے چمٹ جانا ، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا ، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا ، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے ، اور ہر بدعت گمراہی ہے
(عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ )
[ابن ماجہ, 42 , ابی داود 4607 ، ترمزی 2676 وَقَالَ: حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ كتاب السنة باب فِي لُزُومِ السُّنَّةِ حكم صحيح (الألباني)]
دل تھام کر زرا غور سے پڑھیں ۔۔۔ کہ ۔۔۔
۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت میں کوئی مدون جلد میں کتاب نہ چھوڑی،
خلفا ء راشدین کے دور میں بہت ترد و سوچ بچار کے بعد قرآن کو جمع کیا گیا پھر کئی سال بعد کتاب کی شکل میں مدون کرکہ محفوظ کردیا گیا،
لیکن کتب احادیث مدون نہ کرنے کا فیصلہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ پچھلی اقوام کتاب اللہ کے علاوہ کتب لکھ کر گمراہ ہوئیں (یہود تالمود 38 جلد اور نصاری عہد نامہ جدید کی 23 کتب)۔ اس پر حضرت ابوحریرہ رض نے اپنا زخیرہ کو آگ لگادی اور مرتے دم تک حدیث نہ لکھی حفظ و بیان کرتے۔ یہی حال دوسرے صحابہ کا تھا ، کچھ حفظ کے لئیے لکھتے پھر مٹا دیتے کچھ نے نوٹس رکھے مگر کتاب مدون نہ کی۔ حضرت عمر (رض) نے استخارہ کے بعد زخیرہ احادیث جمع کرکہ جلادیں۔
۔ اس حکم رسول اللہ ﷺ و خلفاء راشدین پر صحابہ اور تابعین نے عمل کیا۔
۔ لیکن تیسری صدی میں مشہور کتب احادیث مدون ہوئیں
۔ یہ سارے ناقابل تردید حقائیق احادیث اور تاریخ میں آن ریکارڈ ہیں۔ جو لنکس زیل پر بھی ہیں۔
دوسری تیسری صدی ہجرہ میں تدوین کتب احادیث کو جتنا بھی ضروری اور اچھا کہیں ، یہ احکام و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سنت خلفاء راشدین کی حکم عدولی ہے۔
ایک کتاب اللہ ، قرآن کے مقابل سینکڑوں کتب رسول اللہ ﷺ کے نام سے ان کے حکم کے برخلاف لکھ کر اور منسوب بھی کر دی گیئں
(مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ )
اللہ کا اطاعت رسول کا حکم ، اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اپنی اور خلفاء راشدین کی سنت کو دانتوں سے پکڑنے اور نئی باتوں ، بدعات گمراہی ضَلاَلَةٌ سے بچنے کا حکم دانتوں سے پکڑنے کی بجائے پاوں تلے روند دیا گیا (مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ )۔ اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔
جب رسول اللہ ﷺ نے اختلافات کا ذکر فرمایا اور ان کو حل کرنے لیے خلفاء راشدین (رض) کو حکم ، قاضی مقرر فرما دیا تو کتب احادیث لکھنے یا نہ لکھنے کے اختلاف کا فیصلہ انہوں نے اپنی سنت سے نہ لکھ کر کر دیا- اس فیصلہ پر رسول اللہ ﷺ کی مہرپہلے ہی لگ چکی، اس کا انکار رسول اللہ ﷺ کے حکم کا انکار ہے اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کا انکار الله کے حکم کا انکار ہے- جو لوگ آج بھی یہ فضول بحث کرتے ہیں کہ کتب حدیث لکھنے کی اجازت رسول اللہ ﷺ نے دی تھی وہ خلفاء راشدین سے زیادہ علم کا دعوی کرتے ہیں، کیا ان لوگوں کو خلفاء راشدین سے زیادہ حالات کا علم ہے؟ جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے حکم سے انکار کرتے ہیں جس کا انجام قرآن کے مطابق ابدی جہنم ہے
عوام کو تاویلوںں اور من گھڑت کہانیوں کے زور پر صدیوں سے گمراہ رکھا گیا ہے۔ اس عمل کو بدعت کہیں یا انکار رسول اللہ ﷺ ؟
حضرے عیسی علیہ السلام نے علماء یہود کو کہا کہ تم خود اونٹ کھا جاتے ہو اور دوسروں کے گلاس میں مچھر پکڑتے ہو۔
یعنی علماء یہود خود انتہائی بڑے غیر شرعی کام کرتے تھے اور عوام کی معمولئ غلطیوں پر فتوے لگاتے تھے۔ یہی روش مسلمان علماء کی ہے۔ چھوٹے فروعی اختلافات کو خوب اچھالتے ہیں اور خود بہت بڑی بدعات کے مرتکب ہوتے ہیں۔
<<<<<< تفصیل
https://bit.ly/Tejdeed-Islam
https://bit.ly/Hadith-Basics
تجديد الإسلام: مقدمہ [Read <Abstract >English]
Islamic Revival (تجديد الإسلام ) Abstract
An in-depth study of Islamic religious history reveals surprisingly incredible facts – but these bitter facts make clear the urgency and necessity of reviving the perfect religion of the first century Hijrah. The Quran, also known as Al-Furqan (the criterion to distinguish truth from falsehood), presents a straightforward approach to rejuvenate the perfected faith of…