تخلیق کاینات
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ تمام انسانوں میں بلند ہے ، وہ الله کے محبوب ہیں- مسلمان ان کو اپنی اولاد اور ماں باپ سے زیادہ پیار کرتے ہیں- غیر مسلم بھی ان کی عظمت کے قائل ہیں، امریکی مصنف اور تاریخ دان مایکل ہارٹ نے دنیا کے ١٠٠اعلی انسانوں کی فہرست میں پہلے نمبر پر رکھا- کچھ مسلمان ان کی محبت میں اتنا آگے چلے جاتے ہیں کہ کہتے ہیں:
١.نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نور سے پیدا کیا گیا.
٢. تخلیقِ کائنات کی وجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.
ان دو باتوں کا علمی جایزہ لینے کی ضرورت ہے:
قرآن میں الله نے تخلیق کاینات ،( زندگی موت) کے متلعق فرمایا :
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ0 تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿١﴾ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ ﴿٢﴾ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ۖ مَّا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَـٰنِ مِن تَفَاوُتٍ ۖ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ ﴿٣﴾ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ ( سورة الملك67:4)
نہایت بزرگ و برتر ہے وہ جس کے ہاتھ میں کائنات کی سلطنت ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے (1) جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے، اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی (2) جس نے تہ بر تہ سات آسمان بنائے تم رحمان کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پاؤ گے پھر پلٹ کر دیکھو، کہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ (3) بار بار نگاہ دوڑاؤ تمہاری نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی ( سورة الملك67:4)
قرآن میں کوئی ایسی آیات نہیں جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تخلیق کاینات کی وجہ قرار دیا گیا ہو- اِس کے حق میں دلیل کے طور پر جو کچھ بیان کیا جاتا ہے ، وہ مندرجہ ذیل بعض ایسی ناقابلِ اعتبار ، بے بنیاد اور من کھڑت روایات ہیں ، جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا استناد ، چونکہ کسی قابلِ اعتماد ذریعے سے حاصل ہی نہیں ہے ، چنانچہ اُن کی بنیاد پر اِس طرح کا کوئی اعتقاد دین میں سرے سے ثابت ہی نہیں ہوتا ۔ اور نہ اِس طرح کی روایتیں مسلمانوں کے لیے قابل التفات ہی ہیں ۔
ایک مرفوع روایت دیلمی نے حضرت ابن عباس سے اس طرح نقل کی ہے :
” ایک مرتبہ جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور فرمایا : اے محمد ! اگر تو نہ ہوتا تو میں جنت کو تخلیق نہ کرتا ، اگر تو نہ ہوتا تو میں دوزخ کو بھی تخلیق نہ کرتا ۔ ابن عساکر کی روایت کے الفاظ ہیں : اگر تو نہ ہوتا تو میں دنیا ہی کو تخلیق نہ کرتا ۔ اس روایت پر بھی کلام کر کے امام البانی نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ یہ بھی منجملہ واہی روایات ہے ۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ ، رقم 282)
اِسی موضوع سے متعلق ایک روایت سیدنا ابن عباس ہی سے حاکم نے مستدرک میں اِس طرح نقل کی ہے :
” اللہ تعالٰی نے عیسی علیہ السلام کو وحی کی اور فرمایا : اے عیسی ! محمد پر ایمان لاؤ ، اور اپنی اُمت کے اُن لوگوں کو جو محمد کو اپنے حین حیات پائیں گے؛اُن کو بھی محمد پر ایمان لانے کا حکم دو ، کیونکہ اگر محمد نہ ہوتے تو میں آدم ہی کو پیدا نہ کرتا ، اگر محمد نہ ہوتے تو میں جنت اور دوزخ کی تخلیق بھی نہ کرتا ۔ میں نے پانی پر اپنا عرش بنایا تو وہ ہلنے لگا ، چنانچہ جب میں نے اُس پر ” لا الٰہ اللہ ، محمد رسول اللہ ” لکھا تو وہ اپنی جگہ پر ٹھیر گیا ” ۔
حاکم کی اِس روایت کو امام ذھبی ” موضوع ” قرار دیا ہے ۔(مستدرک حاکم2/671 )
شیخ البانی فرماتے ہیں : یہ ایک بے بنیاد روایت ہے ۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ ، رقم 280)
ایک روایت سیدنا عمر سے یہ بیان کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” جب آدم سے لغزش ہوئی تو اُنہوں نے کہا : اے پروردگار! میں محمد کے واسطے سے تجھ سے مغفرت طلب کرتا ہوں ۔ اِس پر اللہ تعالٰی نے فرمایا : اے آدم ! تو محمد کو کیسے جانتا ہے ، دراں حالیکہ ابھی تو میں نے اُسے پیدا بھی نہیں کیا ؟ تب آدم نے کہا : اے میرے رب ! تونے جب مجھے اپنے ہاتھ سے تخلیق کر کے مجھ میں اپنی روح پھونکی تو میں نے اپنا سر اُٹھایا اور تیرے عرش کے پایوں پر لکھا ہوا پایا کہ : ” لا الٰہ اللہ ، محمد رسول اللہ “،چنانچہ اِس سے میں نے جان لیا کہ جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے وہ ضرور تیری مخلوق میں سے تجھے سب سے زیادہ محبوب ہوگا ۔ اِس پر اللہ تعالٰی نے فرمایا : تو نے سچ کہا ہے ، اے آدم ! ، وہی میری خلق میں میرا سب سے زیادہ محبوب ہے ۔ اور تو نے چونکہ اُس کے واسطے سے مغفرت مانگی ہے ؛ تَو جا میں نے تجھے بخش دیا ۔ اگر محمد نہ ہوتا تو میں تجھے پیدا ہی نہ کرتا ” ۔ (مستدرک حاکم ، رقم 4228)
حاکم کی اس روایت کو بھی امام ذھبی ” موضوع ” قرار دیا ہے ۔(مستدرک حاکم ، رقم 4228)
اس روایت کے بارے میں بھی علماے حدیث وہی حکم لگاتے ہیں جو اِس سے پچھلی روایت کے بارے میں لگایا ہے۔(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ ، رقم 25)
شیخ عبد العزیز بن باز فرماتے ہیں : یہ روایت ، جیساکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے واضح کردیا ہے ، ایک من گھڑت روایت ہے ۔ (مجموع فتاوی ابن باز ، 26/328)
اِس باب کی اِن تمام روایات کو تحقیق کی نگاہ سے دیکھنے کے بعد ظاہر ہے کہ ہر عاقل آدمی اِسی نتیجے پر پہنچے گا کہ اِس طرح کی روایتوں سے کوئی دینی استدلال کیا جاسکتا ہے ، نہ کسی مذھبی اعتقاد کی بنیاد ہی اِن پر رکھی جاسکتی ہے ۔ بلکہ اِس سے آگے بڑھ کر میں یہ کہوں گا کہ اِس طرح کی احادیث کی طرف کسی مسلمان کو التفات بھی نہیں کرنا چاہیے ۔ اِس لیے کہ اِس طرح کے مضامین پر مبنی روایتیں اگر اپنی سند کے اعتبار سے بالفرض قابل اعتماد بھی ہوتیں ، تب بھی قرآنِ مجید کی روشنی میں وہ لامحالہ رد کردی جاتیں ۔ کیونکہ کوئی بھی خبر واحد ، خواہ سنداً صحیح ہی کیوں نہ ہو ، قرآن کے خلاف قطعاً قبول نہیں کی جاسکتی ۔ اور تخلیقِ جن وانس کا مقصد تو خود قرآن نے واضح کردیا ہے کہ وہ اللہ کی بندگی ہے ۔ (الذاریات51:56 )
خالق کائنات کون؟
خالق کائنات کون؟
ہم کون ہیں؟ ہم کیوں اس دنیا میں موجود ہیں ؟ اس کائنات کو کسی نے تخلیق کیا یا اتفاقا خود بخود معرض وجود میں آگئی؟ اس طرح کے لا تعداد سوالات انسانی ذہن میں آتے ہیں جن کے جوابات فلسفی، مفکر، مذہبی پیشوا اورسائنسدان صدیوں سےمعلوم کرتے اور پیش کرتے رہے ہیں- ان میں ایک عظیم طاقت کا تصورنمایاں طور پر ابھر کر سامنے آتا ہے، جس کوکچھ لوگ (ضروری نہیں کہ وہ سائنسدان ہوں) عظیم ہستی خدا اور کچھ فطرت اورغیر مرئی طاقت جیسے ناموں سےجانتے ہیں- انسانوں کے گروہوں کے خدا یا دیوتاؤں (یا جس کسی کو بھی وہ مقدس، مافوقِ الفطرت طاقت و ہستی سمجھتے ہوں) کے ساتھ تعلق کوعمومی طور پر’مذہب’ کے طور پر جانا جاتا ہے- باقی لوگوں کو لا مذھب کہا جا سکتا ہے- سب سے اہم مسئلہ جو خدا کو ماننے والوں کی توجہ کا مرکز رہا؛ کہ کس طرح عقل سے خدا کے وجود کو ثابت کیا جائے؟ یہی اس تحقیقی مقالہ کا موضوع ہے>>>>>>>
……………………………….
نور اور بشر:
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا (سورة الكهف18:110)
اے محمدؐ، کہو کہ میں تو ایک انسان ہوں تم ہی جیسا، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے
(سورة الكهف18:110)
قرآنِ مجید میں بلا شبہ اللہ تعالٰی نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کے منصبِ نبوت کے اعتبار سے “سراج منیر” یعنی ایک روشن چراغ قرار دیا ہے ۔ (احزاب33:46) جس کے معنی محض یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا روشن چراغ بنایا جو خود بھی اُس کی ہدایت اور علم وحکمت سے منوّر ہے اور لوگوں کو بھی تاریکیوں سے نکال کر اللہ کی صراط مستقیم کی طرف لانے کے لیے ایک راہنما کی حیثیت رکھتا ہے ۔
دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیے کہ اللہ کا دین انسانیت کے لیے اِس دنیا میں اُس کی ہدایت ہے ، چنانچہ یہ ہدایت بے شک انسان کے لیے نور اور روشنی ہے ۔ اور اِس نور کا ماخذ ومرجع انسانیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ والا صفات ہے ۔ چونکہ اللہ کی ہدایت کا نور انسانیت کو آپ ہی کی وساطت سے ملا ہے ، چنانچہ اِس حیثیتِ رسالت سے تو بہر حال آپ کو “نور” کہا جاسکتا ہے ۔
تاہم یہ بات کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات کے اعتبار سے ایک بشر تھے (سورة الكهف18:110)، بشر ہی طرح آپ کی ولادت ہوئی اور بشر ہی کی حیثیت سے اِس دنیا میں آپ نے زندگی بسر کی ؛ اِس کے شواہد قرآن مجید اور مسلّمہ تاریخ میں پوری صراحت کے ساتھ جگہ جگہ دیکھے جاسکتے ہیں ۔
جہاں تک بعض مسلمان معاشروں کے اِس عامیانہ اعتقاد کا تعلق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو “نور” سے تخلیق کیا گیا تھا ، وہ اللہ کے نور میں سے ایک نور تھے ، تو یہ ایک طرف قرآن کے صریح خلاف ہے اور دوسری طرف اِس بات کی کوئی بنیاد کسی مستند ماخذ میں موجود نہیں ہے.
……………………………
ابلیس جنّوں سے هے یا فرشتوں میں سے هے؟
اس سلسله میں مختلف آراء هیں:
اس سلسله میں مختلف آراء هیں:
بعض حضرات کهتے هیں ابلیس فرشتوں مین سے تھا،ان کی دلیل یه هے که چونکه آیت شریفه مین ابلیس ملائکه کے درمیان سے استثناء (جدا) کیا گیا هے (یعنی سارے ملائکه نے سجده کیا سوائے ابلیس کے) لهذا ابلیس ملائکه مین سے هے۔
ابلیس کا ملائکه کے درمیان سے جدا هونا اس بات پر دلیل نهیں هے که وه ملائکه میں سے هے یا ملائکه میں سے نهیں هے بلکه اس بحث سے یه نتیجه نکلتا هے که ابلیس (اپنی کئی ساله عبادت کی وجه سے)ملائکه کے در میان اور انکی صفوں میں رهتا تھا لیکن بعد میں تکبر و نافرمانی اوردشمنی کی بنا پر بارگاه خدا اور جنت سے نکال دیا گیا۔
اس مدّعا کی دلیل:
۱۔ پروردگار سوره کهف میں فرماتا هے ۔ کانَ مِنَ الجِن (آیت ۵۰) وه جنّات میں سے تھا۔
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ ۗ أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۚ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا (سورة الكهف18:50)
یاد کرو، جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا وہ جنوں میں سے تھا اس لیے اپنے رب کے حکم کی اطاعت سے نکل گیا اب کیا تم مجھے چھوڑ کر اُس کو اور اس کی ذرّیّت کو اپنا سرپرست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں؟ بڑا ہی برا بدل ہے جسے ظالم لوگ اختیار کر رہے ہیں (سورة الكهف18:50)
۲۔ خدا نے عمومی طور پر معصیت (گناه) کو ملائکه سے الگ رکھتا هے لهذا ملائکه معصوم هیں کبھی بھی گناه ،دشمنی ،غرور اور تکبر اور ایک دوسرے پر فخر نهیں کرتے هیں۔
۳۔ بعض آیتوں میں شیطان کے آباؤ اجداد کا تذکره هے جو اس مطلب پر دلیل هے که اولاد اور نسل بڑھانے کا رواج شیطان اور جنّات کے درمیان عام هے جبکه ملائکه روحانی مخلوقات هیں اور اس طرح کے مسائل حتّی ان کے یهاں کھانے پینے کا تصوّر بھی نهیں هے۔
۴۔ پروردگار بعض آیتوں میں اس طرح فرمایا هے: که هم نے ملائکه کو رسول بنایا هے اور رسول کا مطلب هے خدا کا بھیجا هوا جو رسول کے عنوان سے الله کی طرف سے منتخب هوتا هے جس کے یهان کفر،معصیت، خطا،اور هر طرح کی غلطی کا امکان نهیں هوتا هے لهذا کیسے ممکن هے که جو شیطان اتنے بڑے گناه کا مرتکب هوا هے وه ملائکه میں سے هو۔
اس کے علاوه علماء کا اجماع اور متواتر خبریں جو هم تک پهونچی هیں جو اس بات پر دلیل هیں که شیطان ملائکه میں سے هے-
References:
مزید پڑھیں:
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
سلام فورم نیٹ ورک
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں
Salaamforum.blogspot.com
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر“وہاٹس اپپ”یا SMS کریں