اَہْلُ السُّنَّۃ وَالْجَمَاعَۃ‘‘ کون؟ Who are real Sunni Muslim?


اہلسنت و الجماعت (أهل السنة والجماعة)  کو عام الفاظ میں سنی بھی کہا جاتا ہے جو مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ اہل سنت وہ لوگ ہیں جو الله اوررسول اللہ ﷺ کی اطاعت پر ایمان رکھتے ہیں۔ تمام صحابہ کرام کو احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک سب صحابی بالخصوص خلفائے راشدین برحق ہیں۔ اور ان کا زمانہ ملت اسلامیہ کا بہترین اور درخشاں دور ہے۔ ان کے نزدیک خلافت پر ہر مومن فائز ہو سکتا ہے بشرطیکہ وہ اس کا اہل ہو۔ ان کے نزدیک خلیفہ جمہور کی رائے سے منتخب ہونا چاہئے۔ وہ الله کی طرف سے مامور نہیں ہوتا، وہ خلافت کے موروثی نظریئے کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک ابوبکر صدیق صحابہ میں فضیلت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اور پھر خلافت کی ترتیب سے حضرت عمر فاروق حضرت عثمان اور حضرت علی بن ابی طالب ۔ خاندان اہل بیت کو بھی سنی بڑی احترام و عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سنی عقیدہ کے مطابق سوائے پیغمبروں کے کوئی انسان معصوم نہیں۔ یہ اسلامی فرقہ مذہب میں اعتدال اور میانہ روی پر زور دیتا ہے۔ سنی چار فقہوں میں بٹے ہوئے ہیں جیسے؛ شافعی ، مالکی ، حنفی اور حنبلی۔ مزید پڑھیں >>>

عرباض بن ساریہ ؓ کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسی نصیحت فرمائی جس سے ہماری آنکھیں ڈبدبا گئیں، اور دل لرز گئے، ہم نے کہا: اللہ کے رسول! یہ تو رخصت ہونے والے کی نصیحت معلوم ہوتی ہے، تو آپ ہمیں کیا نصیحت کرتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

(1) میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستہ سے میرے بعد صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا،

(2) امیر کی اطاعت کرنا، چاہے وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ مومن نکیل لگے ہوئے اونٹ کی طرح ہے، جدھر اسے لے جایا جائے ادھر ہی چل پڑتا ہے-

(3) تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سارے اختلافات دیکھے گا، لہٰذا میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت  کو لازم پکڑنا، تم اس سے چمٹ جانا، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا،

(4) اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے (خلاصہ احادیث: ابن ماجہ 43 و ابی داوود 4607)

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/السنة ٦ (٤٦٠٧)، سنن الترمذی/العلم ١٦ (٢٦٧٦)، (تحفة الأشراف: ٩٨٩٠)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٤/١٢٦، ١٢٧)، سنن الدارمی/المقدمة ١٦ (٩٦) (صحیح )

Image result for ‫مسجد نبوی کی تصویر‬‎


اہل سنت کے چاروں ائمہ حضرت امام ابو حنیفہ، حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل ؛بلکہ حضرت امام داؤد ظاہری کی فقہ ودرایت سے بھی امت مسلمہ نے ہر دور میں استفادہ کیا ہے، ان کے مقلدین ومتبعین لاکھوں کی تعداد میں ہمیشہ موجود رہے ہیں اور آج بھی کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں؛ مگر ان میں سب سے زیادہ امتیاز فقہ حنفی کو حاصل ہوا جس کا اعتراف واحترام اہل علم وفضل نے ہمیشہ کیا ہے اور یہ تعداد میں اکثریت میں ہیں. مزید پڑھیں >>>>

اہل  سنت  والجماعت انٹرنیشنل  کانفرنس  چیچنیا گروزنی  میں اگست ٢٠١٦ میں ہوئی جس میں داعیش ، اور اس طرح کے دشت گرد  جتھوں  سے  لا تعلقی  کا  اعلان  کر دیا – نحرافی فکر کا فتنہ ہر دور میں سر اٹھاتا رہا ہے ،یہ لوگ ہردور میں اپنی فکر کو قرآن وسنت کی طرف منسوب کرکے صحیح مَنہَجِ علمی کو مٹانے کی کوشش کرتے رہے ہیں- ان کی وجہ سے عام لوگوں کا امن وسکون غارت ہوجاتا ہے ،ایسی ہی گمراہ فکر کے حاملین قدیم دور کے خوارج تھے جن کاتسلسل ہمارے عہد کے وہ خوارج ہیں جو اپنے آپ کو سَلَفیت کی طرف  پر  منسوب کرتے ہیں اور مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں-
 (سعودی علماء نے دہشت گردی کے خلاف فتوے جاری کیے)۔ 
 
داعش اور اُن کی انتہا پسندانہ فکر کی حامل ساری تنظیموں میں یہ چیز بھی مشترک ہے کہ وہ دین کی مُسَلَّمہ اور مُتفقہ تعلیمات میں تحریف کرتے ہیں ، انتہا پسند ہیں ،جہالت پر مبنی باطل تاویلات کو دین سے منسوب کرتے ہیں ،اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں فکری انتشار پیدا ہوتا ہے۔ اِن باطل تاویلات کے بَطن سے تکفیری اور تباہ کُن فکر،خوں ریزی اور تخریب وفساد جنم لیتا ہے اور اسلام کا نام بدنام ہوتا ہے۔اِن کی برپاکردہ جنگوںاور حق سے تجاوز کا تقاضا ہے کہ دینِ حنیف کے حاملین برملا اِن سے برائت کا اعلان کریں اور یہ رسول اللہﷺ کی اس حدیث کا مصداق ہوگا:”بعد میں آنے والوں میں سے اس دین کے حامل وہ انتہائی منصف مزاج علماء ہوں گے، جواِس دین کو انتہا پسندوں کی تحریف ، باطل پرستوں کی بے اصل باتوں اور جاہلوں کی تاویلوں سے پاک کریں گے،(شرح مشکل الآثار:3884) ‘‘۔
شرکا کے خیال میں  یہ کانفرنس ایسا سنگِ میل ثابت ہوگی جو اِلحادی فکر کی اصلاح کرے گی اور انتہا پسندوں کے باطل اجتہاد ات وتاویلات کے ذریعے اھل السّنّۃ والجماعۃ کے لیے جو خطرات پیدا ہوچکے ہیں ،اُن سے نجات کا باعث ہوگی۔اس کا احسن طریقہ یہ ہے کہ ہماری بڑی درس گاہوں میں اس اِنحرافی فکر کو رد کرنے کے لیے مضبوط علمی استدلال کا طریقہ اختیار کیا جائے اورتکفیر اور انتہاپسندی سے نجات پانے کے لیے امن وسلامتی کے اسلامی پیغام کو پورے عالَمِ انسانیت کے لیے عام کیا جائے تاکہ ہمارے ممالک سب کے سب ہدایت کے سرچشمے اور مَنارۂ نور بنیں – 
 
اعلامیہ  میںاہل السنۃ والجماعۃ کی تعریف کی گیی:
اہل السنۃ والجماعۃ اعتقادی یعنی کلامی مسائل میں اَشاعِرہ (جو امام ابوالحسن الاشعری کی طرف منسوب ہیں)،ماتُریدیہ (جو امام ابومنصور ماتریدی کی طرف منسوب ہیں)اور ”اَھْلُ الْحَدِیْثِ الْمُفَوِّضَہ‘‘شامل ہیں (یعنی وہ اہلِ حدیث جو اعتقادی مسائل میں صفاتِ الٰہی سے متعلق آیاتِ متشابہات پر ایمان لاتے ہیں اور اُن کے مرادی یا حقیقی معنی کو اللہ تعالیٰ کے علم کی طرف تفویض کردیتے ہیں،یعنی وہ ان الفاظ کے ظاہری معنی مراد نہیں لیتے ۔ان آیاتِ متشابہات میں اللہ تعالیٰ کے لیے ”یَدْ،وَجْہ،ساق، نفس، عَین اور جہت وغیرہا‘‘ کلمات آئے ہیں ۔پس جن اہلِ حدیث نے اِن کلمات کو اعضاء وجوارح (Organs)کے معنی میں لیا ہے، اس کانفرنس کی قرارداد کی رُو سے انہیں ”اہلُ السُّنَّۃ والجماعۃ‘‘ سے خارج قرار دیا گیا ہے، اس فکر کے حاملین کو علمائے علم الکلام نے ”مُجَسِّمین‘‘ سے تعبیر کیا ہے)۔ ان میں چار فقہی مذاہب کے ماننے والے حنفیہ ،مالکیہ، شافعیہ اور حنابلَہ شامل ہیںاور ان کے علاوہ سید الطائفہ امام جُنید اورعلم ،اَخلاق اور تزکیہ میں اُن کے طریقِ اصلاح کے حامل ائمّہ ھُدیٰ شامل ہیں۔یہ علمی مَنہَج اُن علوم کا احترام کرتا ہے جو، وحیِ ربّانی کو سمجھنے کے لیے خادم کا درجہ رکھتے ہیں اور نفس وفکر کی اصلاح ،دین کو تحریف اور بے مقصد باتوں سے محفوظ رکھنے اور اموال اور آبرو کی حفاظت اور نظامِ اخلاق کی حفاظت کرنے میں ،اس دین کی اَقدار اور مقاصد کو واضح کرتے ہیں- اس کوسعودی، سلافی، وھابی، اہل حدیث نے سخت ناپسند کیا اور ملت اسلامیہ کو تقسیم کرنے کی سازش قرار دیا-
مزید  پڑھیں  >>>>>
 
تجزیہ :
چیچنیا کے دار الحکومت گروزنی میں علماء کی کانفرنس  جس کا موضوع ”اہل سنت والجماعت کون ہیں؟“ اس کے سیاسی اور مذہبی aspects کا جایزہ لینے کی ضرورت ہے-

معزز اہل حدیث بھائیوں  نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا جو کہ ان کا حق ہے- اس سلسلے میں مناسب ہے  کہ دوسرا نقطہ نظر پیش کیا جائے تاکہ حق کے متلاشی دوستوں کے لیے تقابل میں آسانی ہو- اہل حدیث ساتھی امید ہے صبرو تحمل سے مطالعہ کریں گے – بحث مباحثہ کی ضرورت نہیں دونوں طرف کے نقطہ نظر آخر میں لنک موجود ہیں جن سے مزید استفادہ کیا جا سکتا ہے-

سیاسی معاملہ Political Aspect:

دیکھنا ہے کہ ایسی کے ضرورت پڑی؟ اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے مقامی طور پر مختلف ممالک میں debate ہونا چاہیے تھی- بظاھر یہ ایک مذہبی ، دینی نہیں بلکہ سیاسی معاملہ لگتا ہےجس میں تمام اہل سنّه شامل نظر نہیں آتے- بہتر تھا کہ اس کو ایک مکالمہ مان لیا جاتا اور ایک مکالمے کا آغاز کیاجاتا کہ ”اہل سنت والجماعت کون ہیں؟“ تاکہ ہر دو طرف سے لوگ لکھیں اور پھر خود ہی قارئین طے کرتے کہ کون کیا ہے؟
اگر مقصد مکالمہ کے بجائے امت میں اتحاد کی راہ ہموار کرنا ہے، تو پھر ایک مکتب فکر کو نکال دینا، اتحاد کے بجائے اتنشار کی طرف کا سفر ہے۔
کانفرنس کا اگر تو اصل مقصد یہ تھا کہ عالم اسلام میں پائی جانے والی تکفیری سوچ اور اس کے حاملین کو اہل سنت و الجماعت سے خارج قرار دیا جائے، تو اس حد تک تو یہ بات سمجھ میں آتی تھی کہ یہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے اور یہ نکتہ تمام مکاتب فکر کے اتحاد و اتفاق کی بنیاد بن سکتا ہے۔
یہ واضح ہے کہ داعش اور تکفیری، سلفی نہیں ہیں بلکہ اپنے آپ کو سلفیت کی طرف غلط طور پر یا دھوکہ کے لیے منسوب کرتے ہیں۔ سعودی علماء کے فتوے موجود ہیں-
اسی طرح دوسرے مسلمان اہل سنّه میں بھی تکفیری (طالبان ، بوکو حرام وغیرہ) ہیں جو اپنے آپ کو اہل سنّه کی طرف غلط طور پر یا دھوکہ کے لیے منسوب کرتے ہیں۔ ان کو بھی خارج کرنے پر غور ہونا چاہیے-
اس کانفرنس کے اعلامیے میں جس طرح سے معاصر سلفیہ اور اہل الحدیث کو اہل سنت والجماعت سے خارج کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو واضح رہے کہ اہل الحدیث میں سے بہت سے علماء اہل سنت والجماعت میں سے بریلویوں اور دیوبندیوں کو خارج قرار دے کر یہی کام بہت احسن انداز میں ان سے پہلے ہی کر چکے ہیں۔ اس طرح ایک دوسرے کو اسلام اور اہل سنت کے دائرے کے اندر باہر کرنے سے امت میں کوئی اتحاد کی راہ ہموار نہیں ہونے لگی بلکہ فکری انتشار اور تعصب بڑھے گا۔
وسائل اور اسباب ان کے پاس بھی ہیں جنہیں اہل سنت والجماعت سے خارج قرار دے رہے ہیں، عالمی کانفرنسیں وہ بھی منعقد کروا سکتے ہیں، علماء اور جماعتیں بھی ان کے پاس ہیں اور جب وہ منظم انداز میں حکومتی سطح پر ایسی کانفرنسیں کروائیں گے کہ جن میں صوفیوں کو اہل سنت والجماعت سے خارج قرار دیں گے تو لازما ان پر تنقید ہو گی ۔ کسی ایک مسلک کے علماء کا دوسرے مسلک کو گمراہ ، کافر کہنا کوئی نیی بات نہیں ، یہ اسی سسلے کی کڑی معلوم ہوتی ہے-
حج سے پہلے علاقائی حریف ملکوں سعودی عرب اور ایران کے مابین کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے۔ پہلے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے سعودی حکام کو ’بے دین‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ مذہبی مقامات کا انتظام مسلم دنیا کو اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہیے۔ خامنہ ای نے سعودی عرب کے حکمران خاندان پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے حج کو سیاست بنا دیا ہے اور خود کو ’’حقیر اور چھوٹے شیطانوں میں بدل لیا ہے جو بڑے شیطان (امریکا) کے مفادات خطرے میں پڑنے کی وجہ سے تھرتھرا رہے ہیں۔‘‘پھر سعودی مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز الشیخ کا کہنا تھا کہ ؛’’ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں۔ ان کے اہم دشمن وہ ہیں، جو سنت کے پیروکار (سنی) ہیں۔ ایرانی لیڈر ’مجوسی‘ کی اولاد ہے۔
 بظاھر سیاسی محرکات کی وجہ سے اعلان  گروزنی کی کوئی زیادہ مذہبی اہمیت نظر نہیں آتی-
  دینی عقیدہ Religious Aspects :
گروزنی میں علماء کی کانفرنس کے اعلامیہ میں یہ بیان جاری کیا گیا کہ جو سلفی اہل علم صفات متشابہات کا لغوی معنی جاری کرتے ہیں، وہ اہل سنت و الجماعت سے خارج ہیں کہ وہ مجسمہ ہیں یعنی اللہ عزوجل کی تجسیم کے قائل ہیں۔

الہیات ، الله کی ذات کے متعلق اہل حدیث کے نقطہ نظر کے مطابق اہل اہل سنت و الجماعت کا نظریہ باطل اور غلط ہے- ضرورت ہے کہ اہل سنت و الجماعتکا نقطہ نظر پیش کیا جایے-

اسلامی عقائد کی جو تفصیلات وضاحت طلب ہیں وہ علماء کرام، ائمہ نےقرآن و سنت و احادیث سے تحقیق کے بعد اخذ کی ہیں- تحقیق interpretation ایک انسانی عمل ہے جس کی وجہ سے ایک سے زیادہ opinions ممکن ہیں-

آراءمیں اختلاف ایک انسانی خصوصیت ہےعیب نہیں جس سے صحابہ اکرام بھی مستثنیٰ نہ تھے:

 امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المغازی میں ایک روایت ذکر کی ہے:“لاَ يُصَلِّيَنَّ اَحَدٌ العَصْرَ إلاَّ فِيْ بَنِيْ قُرَيْظَةَ “ (بخاری ،محمد بن اسماعیل البخاری ؛ کتاب المغازی، ج:۲،ص:۵۱) تم ميں سے هر آدمي نماز عصر بنوقريظه هي ميں پڑھے!مگر ہوا کچھ یوں کہ بعض صحابهٔ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بنی قریظہ پہنچنے سے قبل ہی نماز عصر اس وجہ سے پڑھ لی کہ وقت بالکل ختم ہونے والا تھا اور ان کو یہ خوف دامن گیر ہوا كه کہیں نماز کا وقت ہی ختم نہ ہوجائے اورقضا ء نہ ہوجائے، ان حضرات نے  فرمان نبوی لایصلین احد العصر الا فی بنی قریظۃ  میں یہ اجتہاد کیا کہ جلدی پہنچنا ہے یعنی  نماز عصر تک وہاں ضرور پہنچنا ہے ۔اس حکم کا تعلق ادائے صلوۃ سے نہیں؛ بلکہ جلد پہنچنے سے ہے، اب چونکہ وقت ختم ہورہا ہے اور نماز کو اپنے وقت پر ادا کرنا بھی ضروری ہے؛ اس لیے نماز کو ادا کر لیا؛ جبکہ دوسرے فریق نے الفاظِ حدیث سے یہی سمجھا کہ اس کے ظاہر پر عمل ضروری ہے؛ چنانچہ انہوں نے بنی قریظہ پہنچ کر ہی نماز عصر ادا فرمائی ۔اس امر کی اطلاع جب پیغمبر دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی تو آپ نے کسي کو غلط قرار نہیں دیا ۔بدر کا معرکہ ہوا، کفار کے تقریبا۷۰  افراد کو جنگی قیدی بنالیا گیا ۔اب معاملہ پیش آیا کہ ان قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟ اس وقت  صحابۂ کرامؓ کی مختلف آرا سامنے آئیں ۔سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن معاذ  رضی اللہ عنہ  اس جانب کو ترجیح دیتے تھے کہ ان قیدیوں کو قتل کردیا جائے؛ جبکہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ ان سے فدیہ لے کر انھيں چھوڑ دیا جائے ۔  (التفسیر الکبیر للرازی،ج:۱۵،ص:۱۹۷)
فتنۂ مانعین زکوۃ رونما ہوا سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کي رائے یہ تھی کہ مانعینِ زکوۃ سے قتال کیا جائے؛ جبکہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے کا اظہار کیاجو سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی رائے سے مختلف تھی ۔فتنۂ مانعینِ زکوۃ اور صحابۂ کرامؓ کے علمی اختلاف کی وجوہات کو امام ابن کثیر نے البدایہ والنهایہ میں بالتفصیل لکھ دیا ہے ۔(البدایہ والنهایہ لابن کثیر،ج:۶،ص:۳۱۵)فتنۂ مانعینِ زکوۃ کا سر سیدنا صدیق اکبرؓ کی دلیری اور جواںمردی نے دیگر صحابۂ کرامؓ کے تعاون سے جب کچل ڈالا، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خلیفۃ المسلمین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے بصد احترام التماس کیا کہ اسلام روز افزوں ترقی کی شاه راہ پر گامزن ہے؛ اس لیے بلاد عرب سے نکل کر سارے عالم میں جانے لگا ہے، میری تجویز یہ ہے کہ قرآن کریم کو یکجا جمع کردیا جائے۔ اولاً جناب صدیق اکبرؓ نے یہ کہا کہ: جوکام نبی نے نہیں کیا، ابو بکر اُسے كيسے كرسكتا هے؟ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بار بار اصرار پر جناب صدیق اکبرؓ کو اس معاملے میں انشراح ہو گیا۔ (صحیح البخاری،ج:۲،ص:۷۴۵باب جمع القرآن)اسی طرح انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘‘کہ ہم نے رسول اللہﷺکے ساتھ رمضام میں جہاد کا سفر کیا ہم میں سے بعض نے روزہ رکھا اور بعض نے نہیں رکھا۔روزہ دار روزہ نہ رکھنے والے پر اعتراض نہ کرتا تھا اور نہ ہی روزہ نہ رکھنے والا روزہ دار پر اعتراض کرتا تھا‘‘(صحیح بخاری:۱۹۴۷،صحیح مسلم:۱۱۱۸)فقہی اختلاف کی قرآنی شہادت :قرآنِ کریم میں دو جلیل القدر انبیاء حضرت داود اور حضرت سلیمان علیہما السلام کا تذکرہ موجود ہے، جن کے مابین فروعی اختلاف ہوا، جسےاوراقِ قرآنیہ نے آج تلک اپنے سینے میں محفوظ رکھا ہوا ہے۔(پ۱۷،سورۃ الانبیاءآیت۷۸)بنو نضیر سے جنگ کے موقع پر جب صحابہ کرام نے کافروں کے کچھ درخت کاٹے اور کچھ چھوڑ دیے تو اللہ تبارک و تعالی ٰ نے دونوں عمل کو درست قرار دیتے ہوئے فرمایا:﴿مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَآىِٕمَةً عَلٰۤى اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِيُخْزِيَ الْفٰسِقِيْنَ﴾(سورۃ الحشر:۵)‘‘تم لوگوں نے کھجوروں کے جو درخت کاٹے یا جن کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا ، یہ سب اللہ ہی کے اِذن(حکم) سے تھا اور اس لیے کہ فاسقوں کو ذلیل و خوار کرے’’اجتہادمیں کوئی سچا اور کوئی جھوٹا والا معاملہ نہیں ہوتا؛ بلکہ به موجبِ حدیث اگر مجتہد صحیح اور درست بات تک رسائی حاصل کر لے تو ’’فَلَہٗ أجْرَانِ‘‘ اور اگر اس میں اس کو خطا بھی ہوجائے تب بھی اس مخطی کو گناہ وعقاب وعتاب نہیں؛ بلکہ فلہ اجر کا  وعدہ اوراعزاز بخشا گیا ہے۔(صحیح البخاری،ج:۲،ص:۱۰۹۲، صحیح مسلم،ج:۲،ص:۷۶)سورة النورآیت ٢٤ کی تفسیر میں بھی جید صحابہ کی آرا مختلف تھی:وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ(سورة النور,24:31). ترجمہ : “اور مومنات سے کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی عفت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کا اظہار نہ کریں علاوہ اس کے جو ازخود ظاہر ہے…” ۖ(سورة النور,24:31).حضرت عبدللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہ نے “إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا”  (علاوہ اس کے جو ازخود ظاہر ہے) کے معتلق فرمایا کہ اس سے مراد “چہرہ (وَجْهِهِ) اور ہا تھ” ہیں کیونکہ کام کے دوران ان کا چھپانا مشکل ہے. یہ تفسیرسنن أَبُو دَاوُدَ حدیث نمبر4104 میں فرمان رسول اللہ ﷺ سے مطابقت رکھتی ہے. ابن کثیرمیں بھی اس کا ذکر ہے. مگر حضرت عبدللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو ابن عبّاس رضی اللہ عنہ کی اس تفسیر سے اختلاف ہے. دونوں اصحاب رسول اللہﷺ اعلی درجہ کےعالم اورمفسر قرآن تھے.ابن کثیرمیں بھی اس کا ذکر ہے. مگر حضرت عبدللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو ابن عبّاس رضی اللہ عنہ کی اس تفسیر سے اختلاف ہے. دونوں اصحاب رسول اللہﷺ اعلی درجہ کےعالم اورمفسر قرآن تھے-
عہد تابعین و تبع تابعین میں نوعیت اختلاف:
شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں:“صحابہ اکرامؓ کے مذاہب مختلف ہو گئے،پھر یہی اختلاف وراثتا تابعین تک پہنچے پھر تابعی کو جو کچھ مل سکا ،اسی کو اس نے اپنا لیا اور آئحضرت ﷺ کی جو حدیثیں اور صحابہ کے جو مذاہب اس نے سنے ان کو محفوظ اور ذہن نشین کر لیا،نیز صحابہ کے جو مختلف اقوال اس کے سامنے آئے ان میں اپنی فہم کی حد تک مطابقت پیدا کی”(اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ،ص:۲۸) پھر عہد تابعین کے بارے میں فرماتے ہیں کہعہد تابعین کے ختم ہونے پر اللہ تعالی نے علم دین کے خادموں کا ایک گروہ پیدا کر دیا تاکہ وہ وعدہ پورا ہو،جو اللہ کے رسول ﷺ کی زبان سے اس علم کے متعلق نکلا تھا کہ آنے ولی نسلوں میں سے ہر نسل کے عادل لوگ اس علم کے امانت دار ہونگے،(اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ:ص:۳۲)یہ بات بالکل واضح ہےکہ ہراختلاف مذموم نہیں؛ بلکہ اختلاف محمود بھی ہوتا ہے ۔ امام عبدالقادر بن طاہر البغدادیؒ نے فرمایا كه اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقہاء کے اختلاف کو مذموم نہیں کہا؛ کیونکہ یہ اصولِ دین میں متفق ہیں۔ (الفرق بین الفرق،ص:۶)بلکہ علامہ شاطبی رحمہ اللہ نے ’الاعتصام ‘‘میں لکھا ہے کہ فَاِخْتِلَافُهُمْ فِي الْفُرُوْعِ كَاِتِّفَاقِهِمْ فِيْهَا،  ان کا اختلاف ان کے اتفاق کے مثل ہے ۔(الاعتصام،ج:۲،ص:۱۶۹)امام ابو حنیفہ،امام مالک،امام شافعی اور امام احمد بن حنبل اور ائمہ حدیثکے بعض فقہی اختلافات کا ذکر کر کےانہیں کتاب و سنت کے مخالف قرار دیتے ہوئے اسلام ہی سے خارج قرار دیا جا رہا ہے انہیں فرقہ پرست اور شرک فی الرسالت کا مرتکب گردانا جا رہا ہے حالانکہ کے ان ائمہ کرام کے وہی عقائد ہیں جو کتاب و سنت نے بیان کئے اور جس پر صحابہ اور تابعین تھے۔الحمدللہ ان ائمہ اربعہ اور ان جیسے اہل علم کے درمیان اصولِ دین میں کوئی نزاع نہیں ہے۔بلکہ یہ اختلافات ان امور میں ہوتے ہیں جو کہ اجتہادی ہیں۔فروعات کے فہم کا اختلاف صحابہ تک میں ہوا ہے۔امت کے بڑے بڑے محدثین،مفسرین اورفقہاء خود حنفی،شافعی،مالکی و حنبلی اور اہل حدیث کا مذہب رکھتے تھے۔ان امور میں ان کے درمیان کوئی تعصب نہیں تھا۔مقصد ان واقعات کا مکمل احصا ءنہیں؛ بلکہ ایسے چند نظائر کو سامنے لانا تھا، جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ یہ اختلاف عہدِ نبوی سے موجود ہے؛ بلکہ اس اختلاف پر عہدِ نبوی ہی سے ماجور ہونے کا سہرا سجا ہوا ہے؛ اس لیے فقہاء کرام  امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ ،امام مالک رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا باہم دلائل کی بنیاد پر کسی بھی جزوی اور فروعی مسئلے میں مختلف رائے رکھنا ہر گز فرقہ واریت نہیں؛ بلکہ انہی ائمہ اربعہ میں منحصر رہنے سےہی فتنوں سے بچا جا سکتا ہے ۔(عقدالجید، از: شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ )مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیںایک عالم سے جو کہ فارسی میں استاد ہیں۔ایک عیسائی نے ان سے اعتراض کیا کہ اہل اسلام میں سینی تحقیق کی کمی کی ایک بڑی دلیل ہی یہ ہے کہ ان کے اکثر مسائل میں اختلاف ہے۔اگر کافی تحقیق ہوتی تو اختلاف نہ ہوتا تو انھوں نے جواب دیا کہ یہی تو دلیل ہے ان کی تحقیق کرنے کی،کوئی چھوٹے سے چھوٹا جزو بھی نہیں چھوڑا۔گویا اجتہادی امور میں فقہائے اکرام کا اختلاف رائے فطری بھی ہے اور منطقی بھی،کیونکہ فقہاء میں سے ہر ایک نے اجتہادی مسائل کا اپنے نقطء نظر سے جائزہ لیا ہے،جس سے ہر مسئلے کے مختلف پہلو آشکار ہو کر حقیقت زیادہ واضح ہو گئی،اور اسلامی فقہ میں میں ایسا توسع پیدا ہو گیا اور اس میں ہر طرح کے حالات کے مطابق منطبق ہونے کی صلاحیت پیدا ہوگئی۔امام ابوحنیفہ اور ان کے جلیل القدر شاگردوں کا عمل ایک روشن مثال ہے۔شرف تلمذ سے مشرف ہونے کے باوجود شاگردوں نے مسائل کے استنباط میں استاد کی آراء سے بے تکلف اختلاف کیا،جبکہ ان کا استاد وہ شخص تھا۔جس کی دوستی اور نکتہ شناسی کی مثال صحابہ اکرامؓ کے بعد آج تک تاریخ دکھانے سے قاصر ہے۔
فقہی اختلافات کی بنیاد پر افتراق کرنا درست نہیں​:مسائل کے ان اختلافات کی بنیاد پر آپس میں دشمنی اور افتراق کرنا درست نہیں۔کیونکہ فقہی اور اجتہادی امور میں صحابہ کرام کا بھی اختلاف ہوا۔کسی مسئلہ میں قرآن و حدیث کی صریح نص نہ ہونے کی وجہ سے ان کے اجتہادات مختلف ہوئے اور بعض اوقات اللہ اور اس کے رسول کی بات کا مفہوم سمجھنے میں اختلاف ہوا مگر ان میں وحدت اوراخوت برقرار رہی سلف کے مابین باہمی محبت و ہمدردی اور آپس کے تعلقات کی گرمجوشی میں کوئی کمی نہیں آئی۔افسوس کے آج فقہی امور پر بحث و مناظرہ کرتے ہوئے علماء کرام کی عزت و آبروکی بھی پرواہ نہیں کی جاتی۔ایک مسلمان عالم کی ذمہ داری ہے کہ فقہی امور میں تنقید کرتے وقت احسن انداز اختیار کرے۔ان فقہی امور میں اختلاف کرنے والوں سے وہ رویہ نہ رکھے جو کہ ایک ملحد،کافرومشرک یا کلمہ پڑھنے کے بعد اسلام کے منافی امور کےمرتکب شخص سے رکھنا واجب ہے۔امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اجتہادی مسائل میں اختلاف صحابہ کے دور سے لے کر آج تک واقع ہوتا آیا ہے۔سب سے پہلے جو اختلاف ہوا وہ خلفائے راشدین مہدیین کے زمانے میں ہوا پھر صحابہ کے سب ادوار میں رہا۔پھر تابعین میں ہوا۔ان میں سے کسی نے بھی اس پر کسی کو معیوب نہ جانا۔صحابہ کے بعد والوں میں بھی اسی طرز پر اختلاف ہوا اور اس میں توسیع بھی ہوئی’’(الاعتصام از امام ابو اسحاق الشاطبی۸۰۹)امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:‘‘وامالاختلاف فی (الاحکام)فاکثر من ان ینضبط ولو کان کل ما اختلف مسلمان فی شئی تھاجرا۔لم یبق بین المسلمین عصمۃ ولا اخوۃ’’(فتاوی ابن تیمیہ۲۴/۱۷۳)مسائل احکام میں تو اس قدر اختلاف ہوا ہے کہ اس کا ضبط میں آنا ممکن نہیں،اگر کہیں ایسا ہوتا کہ جب بھی کبھی دو مسلمانوں میں کسی مسئلے کی بابت اختلاف ہو تو ایک دوسرے سے قطع تعلقی اختیار کرلی جاتی تو مسلمانوں میں کسی عصمت یا اخوت کا نام تک باقی نہ رہتا’’رسول اللہﷺکی وفات کے بعد صحابہ کرام مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔مدینہ میں ام المومنین عائشہ صدیقہ،زید بن ثابت اور عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ لوگوں کو دین سکھلانے لگے،تابعین کے دور میں سعید بن مسیب،عروہ بن زبیر،پھر امام زہری اور یحییٰ بن سعد آئے۔پھر امام مالک رحمہ اللہ ان سب کا علم مدون کردیا۔مکہ مکرمہ میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے دینی حلقہ قائم کیا۔ان سے عکرمہ،مجاہد اور عطارحمہ اللہ نے دین سیکھ کر پھیلایا۔پھر سفیان بن عیینہ اور مسلم بن خالد آئے اور آخر کار محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ نے ان سے منقول شدہ احادیث اور فتاوی جمع کر دئیے۔عراق اور کوفہ میں سیدنا علی بن ابی طالب اور سیدنا عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے اللہ کے دین کا روشن کیا۔ان کے شاگرد علقمہ بن قیس اور قاضی شریح نے یہ دین ابراہیم نخعی اور پھر حماد بن سلیمان سے ہوتے ہوئے امام ابو حنیفہ نعمان رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد امام ابو یوسف اور امام محمدوغیرہ تک وہ فتاوی آئے۔جب خلیفہ منصور نے امام مالک رحمہ اللہ سے مشورہ کیا کہ مؤطا مالک کو سب مسلم خطوں میں نافذ کر دیا جائے تو امام مالک رحمہ اللہ نے جوجواب دیاوہ ہمارے لیے قابل غور ہے۔امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ کے الفاظ یو ں نقل کرتے ہیں:اصحاب رسولﷺملکوں کے اندر بکھر گئے تھے۔اب ہر قوم ان کے علم سے وہ چیز لے چکی ہے جوان کو صحابہ سےپہنچی تھی۔(مجموع الفتاوی)امام ذہبی رحمہ اللہ یوں نقل کرتے ہیں:‘‘اے امیر المومنین ایسا مت کیجیے کیونکہ اس سے قبل لوگوں کے ہاں اقوال پہنچے ہوئے ہیں۔ان کو احادیث اور روایات ملی ہوئی ہیں۔اصحاب رسول اور دیگر اہل علم کے اختلاف سے ہر قوم کو جو چیز پہنچی وہ اس کو لے چکی اور اس کو معمول بنا کر بطور دین اختیار کر چکی ہے۔اب لوگ جس بات کے قائل ہو چکے اس سے ان کو ہٹانا شدید بات ہے۔لہٰذا لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے۔ہر ملک کے لوگوں نے جو کچھ اختیار کیا ہے ان کو اسی پر رہنا دیجئے’’(سیر اعلام النبلاء)اجتہادی مسائل کا اختلاف کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہوکبھی صحابہ نے ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کی۔دیکھیے عائشہ،معاویہ اور علیکے مابین اختلاف نے کتنی شدت اختیار کی مگر اس کے باوجود انہوں نے ایک دوسرے کو مسلمان ہی سمجھا ۔ملاحظہ فرماہیں:عن رباع بن ھارث قال:انا لبواد،وان رکبتی لتکادتمس رکبۃ عمار بن یاسر اذ أقبل رجل فقال:کفر واللہ أھل الشام۔فقال عمار:لا تقل ذلک،فقبلتنا و احدۃ،ونبینا واحد،ولکنھم قوم مفتونون،فحق علینا قتالھم حتی یر جعواالی الحقرباح بن حارث کہتے ہیں ہم عمار بن یاسررضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک وادی میں تھے(عمار بن یاسرسیدنا علیرضی اللہ عنہ کے ساتھی تھےاورآپ کے بارے میں نبی کریمﷺنے یہ خبر دی تھی کہ آپ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔چنانچہ آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ کے ہاتھوں شہید ہوئے)ایک آدمی آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا اللہ کی قسم!اہل شام(معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھی)کافر ہوگئے۔عماررضی اللہ عنہ نے کہا:ایسا مت کہو،ہمارا قبلہ ایک ہے،نبی ایک ہے۔صحیح بات یہ ہے کہ وہ فتنہ زدہ لوگ ہیں جن سے قتال کرنا ہم پر واجب ہےیہاں تک کے وہ حق کی طرف لوٹ آئیں۔ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا:لا تقولوا:کفر أھل الشام۔قولوا:فسقوا،قولوا:ظلموا‘‘یہ نہ کہو کہ اہل شام نے کفر کیا،کہو انہوں نے فسق کیا،ظلم کیا’’(منھاج السنہ۵/۲۴۶)یاد رہے کہ جنگ جمل و صفین میں گنتی کے چند صحابہ نے شرکت کی تھی۔ان کا مقصد بھی جنگ کرنا نہیں تھا بلکہ ان دو گروہوں میں اصلاح کروانا تھا۔ان جنگوں کو بھڑکانے میں اصل کردار منافقین اور سبائی پارٹی کا تھا۔قال عبداللہ بن الامام احمد:حدثنا أبی،حدثنا اسماعیل یعنی ابن علیۃ،حدثنا ایوب السختیانی،عن محمد بن سیرین،قال:ھاجت الفتنۃ و أصحاب رسول اللہﷺ عشرۃآلاف،فما حضرھا منھم مائۃ،بل یبلغوا ثلاثین(السنۃ للخلال۴۴۶/۱)امام ابن تیمیہ اس روایت کی سند کے بارے میں فرماتے ہیں:و ھذاالاسناد من اصح اسناد علی وجہ الارض(منھاج السنہ۲۳۶/۶)جب کسی فقہی معاملہ میں ایک سے زیادہ آراء ہوں توایک دوسرے پر طعن و تشنیع کی بجایے  فقہ میں (١) قرآن (٢) سنت کے بعد (٣)اجماع کا اصول اپنایا جاتا ہے اور اس کا احترام کیا جاتا ہے کیوں کہ  رسول اللہﷺ کا (صلى الله عليہ وسلم) کا ارشاد ہے: “عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ لَايَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْقَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ”۔ (ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الْجَمَاعَةِ، كِتَاب الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حدیث نمبر:۲۰۹۳)ترجمہ:حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ:اللہ تعالٰیٰ میری امت کو یا (راوی نے کہا) کہ محمد صلى الله عليه وسلم کی اُمت کو ضلالت وگمراہی پر مجتمع نہیں کریگا۔نیز آپ (صلى الله عليه وسلم) کا فرمان ہے: “فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَهُوَعِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ وَمَارَأَوْا سَيِّئًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ”۔(مسندِاحمد، حدیث نمبر۳۶۰۰)ترجمہ:جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے اور جس چیز کو مسلمان بُرا سمجھیں وہ اللہ تعالٰیٰ کے نزدیک بھی بری ہے۔ایک اور موقع سے آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: “مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْراً فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ”(مشکوٰۃ:۳۱)ترجمہ:جوشخص جماعت سے بالشت برابر جدا ہوا تواس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے الگ کردی۔اگر ہر شخص کو اختیار ہو کہ مسائلِ غیر منصوصہ میں جو چاہےاپنی رائے قائم کر لے تو بتلائیےیہ دینِ متین کھلونا بنے گا یا نہیں؟  ہر فردِ بشر  اپنی عقلِ نارسا کو حرفِ آخر گرداننے لگے گا اور اسی کے مطابق عمل کرے گا،  اس مضحکہ خیز  صورتِ حال پر سوائے ہنگامہ آرائی کے اور کیا ہوگا ؟“اجماع”،  فقہ اسلام کی ایک اصطلاح اور اسلامی شریعت کا تیسرا اہم مآخد ہنے.اجماع سے مراد علمائے امت کا یا ان کی بڑی اکثریت کا، ہر زمانے میں کسی مسئلہ پر متفق ہوجانا ہنے. کسی ایسے فقہی معاملہ جس پرعلماء اور جمہور کا اجماع ہو اس  پر ضرورت سے زیادہ اصرار کرنا امت میں فکری کنفیوژن، تفرقہ، فتنہ و فساد کا باعث ہو سکتا ہے. متنازعہ فقہی مسائل پر علمی بحث کے لیے مناسب فورم اعلی مدارس، تعلیمی تحقیقی ادارہ جات اور یونیورسٹیاں ہیں نہ کہ عوام الناس-

        
لہٰذاہ کسی ایک کو مکمل طور پر غلط یا مکمل طور پر درست  قرار دینا اپنی تحقیق اور علم پرover confidence ہے- امام شافی کا ایک قول ہے :

“I am convinced about the veracity of my opinions, but I do consider it likely that they may turn out to be incorrect. Likewise, I am convinced about the incorrectness of the views different from mine, but I do concede the possibility that they may turn out to be correct.” — Imam Shafi
 مقصد فضول بحث برا یے بحث ،مباحثہ ، اختلاف ، توہین ، دشنام ترازی ، فتویٰ بازی نہیں بلکہ:
 
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧
(الله) ہمیں سیدھا راستہ دکھا- اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں-
الله کون ہے:
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ اللَّـهُ الصَّمَدُ ﴿٢﴾ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ﴿٣﴾ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ﴿٤﴾
کہو، وہ اللہ ہے، یکتا (1) اللہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں (2) نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد (3) اور کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے (سورة الإخلاص 112:4)

اللَّـهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ

اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے(النور 24:35)
محکمات اور متشابہات آیات:
هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّـهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ ﴿٧﴾
وہی خدا ہے، جس نے یہ کتاب تم پر نازل کی ہے اِس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں: ایک محکمات، جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات جن لوگوں کے دلو ں میں ٹیڑھ ہے، وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور اُن کو معنی پہنانے کی کوشش کیا کرتے ہیں، حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا بخلا ف اِس کے جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں، وہ کہتے ہیں کہ “ہمارا اُن پر ایمان ہے، یہ سب ہمارے رب ہی کی طرف سے ہیں” اور سچ یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق صرف دانشمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں ( آل عمران3:7)
الله کہاں ہے؟
اگر کوئی شخص سوال کرے’’ اَیْنَ اللّٰہُ ؟‘‘ ( اللہ کہاں ہے ؟) تو اس کا جواب یہ دینا چاہیے  :’’ھُوَ مَوْجُوْدٌ بِلَا مَکَانٍ‘‘
کہ اللہ تعالیٰ بغیر مکان کے موجود ہیں۔ یہ اہل السنت والجماعت کا موقف و نظریہ ہے جس پر دلائل ِ عقلیہ و نقلیہ موجود ہیں:
 
فائدہ:  ’’ھُوَ مَوْجُوْدٌ بِلَا مَکَانٍ‘‘ یہ تعبیراہل علم حضرات کی ہے، اسی لیے طلبہ کو سمجھانے کے لیے’’اللہ تعالی بلا مکان موجو دہے‘‘کہہ دیا جاتا ہے۔ عوام الناس چونکہ ان اصطلاحات سے واقف نہیں ہوتے اس لیے اس عقیدہ کو عوامی ذہن کے پیش نظر ’’اللہ تعالیٰ حاضر ناظر ہے‘‘ یا’’اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے‘‘ سے تعبیر کر دیا جاتا ہے۔
آیاتِ قرآنیہ:
 
1: وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْافَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ (سورہ بقرہ؛ 115)
ترجمہ :   مشرق و مغرب اللہ تعالیٰ ہی کا ہے ،جس طرف پھر جاؤ ادھر اللہ تعالی کا رخ ہے ۔
 
2: وَاِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ (سورہ بقرہ؛ 186)
ترجمہ :  جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں تو (کہہ دو کہ ) میں تو تمہارے پاس ہی ہوں۔
فائدہ : عرش بعید ہے کیونکہ ہمارے اوپر سات آسمان ہیں، ان پر کرسی ہے جو سمندر پر ہے اور اوپر عرش ہے۔
(کتاب الاسماء والصفات للامام البیہقی ج 2ص 145)
 
٭اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰاتٍ۔٭ وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ۔٭ وَ کَانَ عَرْشُہُ عَلَی الْمَآئِ۔
 
3: یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلَا یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰہِ وَھُوَ مَعَھُمْ اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لَا یَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ۔(النساء:108)
ترجمہ: وہ شرماتے ہیں لوگوں سے اور نہیں شرماتے اللہ سے اوروہ ان کے ساتھ ہے جب کہ مشورہ کرتے ہیں رات کو اس بات کا جس سے اللہ راضی نہیں۔
 
4: اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ(ہود:61)
ترجمہ: بے شک میرا رب قریب ہے قبول کرنے والاہے۔
 
5: وَاِنِ اھْتَدَیْتُ فَبِمَا یُوْحٰی اِلَیَّ رَبِّیْ اِنَّہٗ سَمِیْعٌ قَرِیْبٌ (سبا:50)
ترجمہ: اور اگر میں راہ پر ہوں تو یہ بدولت اس قرآن کے ہے جس کو میرا رب میرے پاس بھیج رہاہے وہ سب کچھ سنتا ہے ،بہت قریب ہے۔
 
6: وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (سورہ ق؛16)
ترجمہ :  ہم اس کی شہ رگ سے زیادہ اس کے قریب ہیں۔
 
حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی توجیہ:
حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے اس کی بڑی عجیب توجیہ فرمائی ہے، فرماتے ہیں کہ اللہ بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ اللہ تو ’’لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَئیٌ‘‘ ذات ہے، لیکن میں صرف سمجھانے کے لیے مثال دیتاہوں کہ دو کاغذوں کو جب گوند کے ذریعے جوڑا جاتا ہے تو کاغذاول کاغذ ثانی کے قریب ہوجاتاہے لیکن ان کو جوڑنے والی گوند کاغذ اول کی بنسبت کاغذ ثانی سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔انسان کی شہ رگ انسان کے قریب ہے تو اللہ فرما رہے کہ میں انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہوں۔ دو جڑے ہوئے کاغذوں میں سے ایک کاغذ دوسرے کے قریب ہے لیکن گوند دوسرے کاغذ کے زیادہ قریب ہے ،اسی طرح شہ رگ انسان کے قریب ہے لیکن اللہ اس سے زیادہ قریب ہے۔
 
7: وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْکُمْ وَلٰکِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ (سورہ واقعہ؛85)
ترجمہ :  تم سے زیادہ ہم اس کے قریب ہوتے ہیں لیکن تم دیکھتے نہیں۔
 
8: وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَمَا کُنْتُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ (سورہ حدید؛4)
ترجمہ :   تم جہاں کہیں ہو، وہ (اللہ ) تمہارے ساتھ ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے ۔
 
فائدہ: جب ہم وہ آیات پیش کرتے ہیں جن میں معیت کا ذکر ہے تو غیرمقلدین کہتے ہیں کہ اس سے’’ معیت علمیہ‘‘ مراد ہے مثلاً “وَہُوَ مَعَکُمْ ای عِلْمُہُ مَعَکُمْ”وغیرہ۔
 
جواب: اولاً ۔۔۔۔معیت علمیہ لازم ہے معیت ذاتیہ کو،جہاں ذات وہاں علم ،رہا غیرمقلدین کا’’اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَآئِ وَ  الْاَرْضِ الآیۃ (الحج:70)‘‘ وغیرہ کی بناء پر یہ کہناکہ اس سے علم مراد ہے، تو ہم پوچھتے ہیں کہ اس میں ذات کی نفی کہاں ہے؟بلکہ اثباتِ علم سے تو معیت ِذاتیہ ثابت ہوگی بوجہ تلازم کے۔
 
ثانیاً۔۔۔غیرمقلدین سے ہم پوچھتے ہیں کہ جب ’’اِسْتَوَیٰ عَلَی الْعَرْشِ‘‘یا ’’یَدُاللّٰہِ‘‘ جیسی آیات کو تم ظاہر پر رکھتے ہو،تاویل نہیں کرتے تو یہاں’’وَہُوَ مَعَکُمْ‘‘  [جس میں’’ہو‘‘ ضمیر برائے ذات ہے]جیسی ٓیات میں تاویل کیوں کرتے ہو؟
 
9: مَا یَکُوْنُ مِنْ نَّجْوَیٰ ثَلٰثَۃٍ اِلَّا ھُوَرَابِعُھُمْ (سورہ مجادلہ؛7)
ترجمہ :   جو مشورہ تین آدمیوں میں ہوتا ہے تو اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے ۔
 
10: اَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَائِ ( سورہ ملک :16)
ترجمہ :  کیا تم کو اس (اللہ تعالی )کا جو آسمان میں ہے، خوف نہیں رہا۔
 
احادیث مبارکہ :
 
1: عَنِ ابْنِ عُمَرَ  رضی اللہ عنہ  اَنَّہٗ قَالَ رَاٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم نُخَا مَۃً فِیْ قِبْلَۃِ الْمَسْجِدِ وَھُوَیُصَلِّیْ بَیْنَ یَدَیِ النَّاسِ فَحَتَّھَا ثُمَّ قَالَ حِیْنَ انْصَرَفَ :اِنَّ اِحَدَکُمْ اِذَا کَانَ فِی الصَّلٰوۃِ فَاِنَّ اللّٰہَ قِبَلَ وَجْھِہٖ فَلَا یَتَخَمَّنْ اَحَدٌ قِبَلَ وَجْھِہٖ فِی الصَّلٰوۃِ۔
(صحیح البخاری ج1ص104باب ھل یلتفت لامر ینزل بہ الخ، صحیح مسلم ج1ص207باب النہی عن البصاق فی المسجد الخ)
 
ترجمہ: حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلہ(کی جانب) میں کچھ تھوک دیکھا اس وقت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے آگے نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ نے اس کو چھیل ڈالا ۔اس کے بعد جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: جب کوئی شخص نماز میں ہوتو اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے‘  لہذا کوئی شخص نماز میں اپنے منہ کے سامنے نہ تھوکے۔
 
2: عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیْ  رضی اللہ عنہ  یَقُوْلُ: بَعَثَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنَ الْیَمَنِ بِذُھَیْبَۃٍ فِیْ اَدِیْمٍ مَقْرُوْطٍ لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِھَا قَالَ فَقَسَمَھَا بَیْنَ اَرْبَعَۃِ نَفَرٍ بَیْنَ عُیَیْنَۃَ بْنِ بَدْرٍ وَاَقْرَعَ بْنِ حَابِسٍ وَزَیْدٍ الْخَیْلِ وَالرَّابِعِ اِمَّا عَلْقَمَۃَ وَاِمَّا عَامِرِ بْنِ الطُّفُیْلِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ اَصْحَابِہٖ کُنَّا نَحْنُ اَحَقُّ بِھٰذَا مِنْ ھٰؤُلَائِ قَالَ فَبَلَغَ ذٰلکَ النبِِّیَّ  صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ :اَلَا تَاْمَنُوْنِیْ وَاَنَا اَمِیْنُ مَنْ فِی السَّمَائِ یَاْتِیْنِیْ خَبَرُ السَّمَائِ صَبَا حًا وَمَسَاء ً الحدیث
(صحیح بخاری ج2ص624باب بعث علی بن ابی طالب الخ ، صحیح مسلم ج1ص341باب اعطاء المؤلفۃ و من یخاف الخ)
 
ترجمہ:  حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ  نے یمن سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رنگے ہوئے چمڑے کے تھیلے میں تھوڑا سا سونا بھیجا‘ جس کی مٹی اس سونے سے جدا نہیں کی گئی تھی (کہ تازہ کان سے نکلاتھا)آپ  صلی اللہ علیہ وسلمنے اسے چار آدمیوں عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید بن خیل اور چوتھے علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان تقسیم کردیا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک آدمی نے کہا کہ ہم اس سونے کے ان لوگوں سے زیادہ مستحق ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا:کیا تمہیں مجھ پر اطمینان نہیں ہے؟ حالانکہ میں اس ذات کا امین ہوں جو آسمان میں ہے۔ میرے پاس صبح وشام آسمان کی خبریں آتی ہیں۔
 
فائدہ: اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کا آسمان میں ہونا بتلایا گیاہے غیرمقلدین کا عقیدہ کہ اللہ عرش پر ہے اس سے باطل ہوگیا۔
 
3: عَنِ ابْنِ عُمَر رضی اللہ عنہ  اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ اِذَا اسْتَوَیٰ عَلٰی بَعِیْرِہٖ خَارِجًا اِلٰی سَفَرٍ کَبَّرَ ثَلَاثًا قَالَ: سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ وَاِنَّا اِلیٰ رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ‘ اَللّٰھُمَّ نَسْئَلُکَ فِیْ سَفَرِنَا ہٰذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَیٰ وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰی ‘ اَللّٰھُمَّ ھَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرَنَاہٰذَا وَاطْوِعَنَّا بَعْدَہٗ ‘اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِیْفَۃُ فِی الْاَہْلِ الحدیث
(صحیح مسلم ج۱ص۴۳۴ باب استجاب الذکر اذارکب دابۃ)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم جب کہیں سفر پرجانے کے لیے اپنے اونٹ پر سوار ہوتے تو تین بار اللہ اکبر فرماتے پھر یہ دعا پڑھتے :پاک ہے وہ پروردگار جس نے اس جانور(سواری )کو ہمارے تابع کردیا اور ہم اس کو دبا نہ سکتے تھے اور ہم اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جانے والے ہیں۔ یااللہ!  ہم اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی‘ پرہیز گاری اور ایسے کام جسے تو پسند کرے، کا سوال کرتے ہیں۔ اے اللہ !  اس سفر کو ہم پر آسان کردے اور اس کی لمبان کو ہم پر تھوڑا کردے۔ یا اللہ! تو رفیق ہے سفر میںاور خلیفہ ہے گھرمیں۔
 
4: حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ‘لوگ زور کی آواز سے تکبیریں کہنے لگے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اِرْبَعُوْاعَلٰی اَنْفُسِکُمْ‘اِنَّکُمْ لَیْسَ تَدْعُوْنَ اَصَمَّ وَلَا غَائِبًا، اِنَّکُمْ تَدْعُوْنَہٗ سَمِیْعاً قَرِیْباً وَھُوَ مَعَکُمْ۔‘‘
(صحیح مسلم؛ ج2ص 346باب استحباب خفض الصوت بالذکر )
 
ترجمہ: ’’اپنی جانوں پر نرمی کرو! تم بہرے و غائب کو نہیں پکار رہے ، تم جسے پکار رہے ہو وہ سننے والا، قریب اور تمہارے ساتھ ہے‘‘ ۔
 
5: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے
’’ارْحَمُوْا مَنْ فِی الْاَرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَنْ فِی السَّمَائِ۔‘‘
(جامع الترمذی ج 2 ص 14 باب ما جاء فی رحمۃ  الناس )
 
ترجمہ: ’’تم زمین والوں پر رحم کرو، جو آسمان میں ہے وہ تم پر رحم کرے گا۔ ‘‘
 
فائدہ:  اس حدیث میں اللہ تعالی کا آسمان میں ہونابتلایا گیا ہے ، غیر مقلدین کا عقیدہ کہ اللہ عرش پر ہے ،اس سے باطل ہوگیا۔
 
6۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
’’لَوْاَنَّکُمْ دَلَّیْتُمْ بِحَبْلٍ اِلَی الْاَرْضِ السُّفْلیٰ لَھَبَطَ عَلَی اللّٰہِ۔‘‘
(جامع الترمذی ج 2 ص 165تفسیر سورۃ حدید )
 
ترجمہ: اگر تم ایک رسی زمین کے نیچے ڈالو تو وہ اللہ تعالی پر اترے گی ۔
فائدہ :  رسی کا زمین کے نیچے اللہ تعالی پر اترنا دلیل ہے کہ ذات باری تعالی صرف عرش پر نہیں جیسا کہ غیر مقلدین کا عقیدہ ہے بلکہ ہر کسی کے ساتھ موجود ہے ۔
 
7: عَنْ اَبِی الدَّرْدَائ رضی اللہ عنہ  قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ: مَنِ اشْتَکٰی مِنْکُمْ شَیْئًا اَوِ اشْتَکَاہُ اَخٌ لَّہٗ فَلْیَقُلْ :رَبُّنَا اللہّٰ ُ اَّلذِیْ فیْ السَّمَائِ، تَقَدَّسَ اسْمُکَ ‘اَمْرُکَ فِی السَّمَائِ وَالْاَرْضِ کَمَارَحْمَتُکَ فِی السَّمَائِ فَاجْعَلْ رَحْمَتَکَ فِی الْاَرْضِ‘ اِغْفِرْلَنَا حُوْبَنَا وَخَطَایَا نَا‘اَنْتَ رَبُّ الطَّیِّبِیْنَ ‘اَنْزِلْ رَحْمَۃً مِّنْ رَحْمَتِکَ وَ شِفَائً مِنْ شِفَائِکَ عَٰلی ہٰذَا الْوَجْعِ فَیَبْرَاُ۔
(سنن ابی داؤد ج2ص187باب کیف الرقی)
 
ترجمہ: حضرت ابوالدرداء  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے : تم میں سے جو شخص بیمار ہویا کوئی دوسرابھائی اس سے اپنی بیماری بیان کرے تو یہ کہے کہ رب ہمارا وہ اللہ ہے جو آسمان میں ہے ۔اے اللہ! تیرا نام پاک ہے اورتیرا اختیار زمین وآسمان میں ہے‘ جیسے تیری رحمت آسمان میں ہے ویسے ہی زمین میں رحمت کر۔ ہمارے گناہوں اور خطاؤں کو بخش دے۔ تو پاک لوگوں کا رب ہے ۔اپنی رحمتوں میں سے ایک رحمت اور اپنی شفاؤں میں سے ایک شفاء اس درد کے لیے نازل فرما کہ یہ درد جاتارہے۔
 
8: حضرت عبداللہ بن معاویہ رضی اللہ عنہ   فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیا:
’’فَمَا تَزْکِیَۃُ الْمَرْئِ نَفْسَہٗ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!‘‘ قَالَ: اَنْ یَعْلَمَ اَنَّ اللّٰہَ مَعَہٗ حَیْثُمَا کَانَ۔
(السنن الکبری للبیھقی ج4ص95،96 باب لایاخذالساعی‘شعب الایمان للبیھقی ج3ص187باب فی الزکوۃ)
ترجمہ: آدمی کے اپنے نفس کا’’تزکیہ‘‘ کرنے سے کیا مرادہے ؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ انسان یہ نظریہ بنا لے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہو اللہ اس کے ساتھ ہے۔
 
9: عَنْ عُبَادَ ۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم :اِنَّ اَفْضَلَ الْاِیْمَانِ اَنْ تَعْلَمَ اَنَّ اللّٰہَ مَعَکَ حَیْثُمَا کُنْتَ۔
(المعجم الاوسط للطبرانی ج6ص287رقم الحدیث8796)
 
ترجمہ: حضرت عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ افضل ایمان یہ ہے کہ تو یہ نظریہ بنا لے کہ اللہ تیرے ساتھ ہے تو جہاں کہیں بھی ہو۔
 
10: عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ   رضی اللہ عنہ  قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم :اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَقُوْلُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ :یَاابْنَ آدَمَ !مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِیْ ‘قَالَ یَارَبِّ کَیْفَ اَعُوْدُکَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ؟ قَالَ :اَمَاعَلِمْتَ اَنَّ عَبْدِیْ فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْہٗ؟ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْعُدْتَّہٗ لَوَجَدْتَّنِیْ عِنْدَہٗ؟
(صحیح مسلم ج 2ص318باب فضل عیادۃ المریض،صحیح ابن حبان ص189،رقم الحدیث269)
 
ترجمہ:  حضرت ابوہریرۃ  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ عزوجل ارشاد فرمائیں گے :اے ابن آدم! میں بیمار تھا تو نے میری بیمار پرسی نہیں کی۔ بندہ کہے گا میں آپ کی بیمار پرسی عیادت کیسے کرتا؟ آپ تو رب العالمین ہیں۔ تو اللہ فرمائیں گے کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا‘ تو نے اس کی بیمار پرسی نہیں کی۔ تجھے پتا ہے کہ اگر تو اس کی بیمار پرسی کرتا تو مجھے وہاں پاتا۔
 
عقلی دلائل :
1: اللہ تعالیٰ خالق ہے اور عرش مخلوق ہے ، خالق ازل سے ہے ۔اگر اللہ تعالی کو عرش پر مانا جائے تو سوال پیدا ہوگا کہ جب عرش نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ کہاں تھے؟
 
2: حقیقتاً مستوی علی العرش ہونے کی تین صورتیں ہیں:
 
الف: اللہ تعالیٰ عرش کے محاذات میں ہوں گے ۔
ب: عرش سے متجاوز ہوں گے ۔
ج: عرش سے کم ہوں گے ۔
 
اگر عرش کے محاذات میں مانیں تو عرش چونکہ محدود ہے لہذا اللہ تعالیٰ کا محدود ہونا لازم آئے گا ‘اور متجاوز مانیں تو اللہ تعالیٰ کی تجزی لازم آئے گی اور اگر عرش سے کم مانیں تو عرش  یعنی مخلوق کا اللہ تعالیٰ یعنی خالق سے بڑا ہونا لازم آئے گا ‘جبکہ یہ تینوں صورتیں محال اور ناممکن ہیں۔
 
3: اللہ تعالیٰ خالق ہیں جوکہ غیر محدود ہیں ، عرش مخلوق ہے جو کہ محدود ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کو عرش پر مانا جائے تو سوال پیدا ہوگا ’’ کیا غیر محدود ، محدود میں سما سکتا ہے ؟‘‘
 
4: اگر اللہ تعالیٰ کو عرش پر حقیقتاً مانیں تو حقیقی وجود کے ساتھ کسی چیز پر ہونا یہ خاصیت جسم کی ہے اور اللہ تعالی جسم سے پاک ہیں کیونکہ ہر جسم مرکب ہوتا ہے اور ہر مرکب حادث ہوتا ہے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ قدیم ہیں ۔
 
5: اگر اللہ تعالی کو عرش پر مانیں تو عرش اللہ تعالیٰ کے لئے مکان ہوگا اور اللہ تعالیٰ مکین ہوں گے اور ضابطہ ہے کہ مکان مکین سے بڑا ہوتا ہے ، اس عقیدہ سے ’’ اللہ اکبر‘‘ والا  عقیدہ ٹوٹ جائے گا۔
 
6: اگر اللہ تعالیٰ کا فوق العرش ہونا مانیں تو جہتِ فوق لازم آئے گی اور جہت کو حد بندی لازم ہے اور حد بندی کو جسم لازم ہے جبکہ اللہ تعالیٰ جسم سے پاک ہے ۔
7: اگر اللہ تعالیٰ کو فوق العرش مانیں تو عرش اس کے لئے مکان ہوگا اور مکان مکین کو محیط ہوتا ہے‘ جبکہ قرآن کریم میں ہے :’’وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ مُّحِیْطًا۔‘‘کہ اللہ تعالیٰ  ہر چیز کو محیط ہے۔
 
چند شبہات اور ان کا ازالہ:
 
شبہ-1 :اگر اللہ تعالیٰ کو ہر جگہ مانا جائے تو کیا اللہ تعالیٰ بیت الخلاء میں بھی موجود ہے ؟ اگر کہیں کہ ’’ نہیں‘‘ تو ہر جگہ ہونے کا دعویٰ ٹوٹ گیا اور اگر کہیں ’’ ہے‘‘  تو اللہ تعالیٰ کی بے ادبی ہے ۔
جواب:
1: بعض چیزوں کو اجمالاً بیان کریں تو مناسب اور ادب ہے،اگر تفصیلات بیان کریں تو خلافِ ادب ہے۔ مثلاً سسر اپنے داماد کو کہے: ’’میری بیٹی کے حقوق کا خیال رکھنا ‘‘،تو اجمالاً قول ہونے کی وجہ سے یہ ادب ہے لیکن اگر وہ تمام حقوق ایک ایک کرکے گنوانا شروع کردے تو یہ خلافِ ادب ہے۔’’سر سے لے کر پاؤں تک تمام جسم کا خالق اللہ ہے‘‘ یہ کہنا ادب ہے لیکن تفصیلاً ایک ایک عضو کا نام لے کر یہی بات کہی جائے تو یہ خلافِ ادب ہے۔’’اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے‘‘یہ اجمالاً کہنا تو مذکورہ قاعدہ کی رو سے درست اور ادب ہے لیکن تفصیلاً ایک ایک جگہ کا جس میں ناپسندیدہ جگہیں بھی شامل ہوں، نام لے کر کہا جائے تو یہ بے ادبی ہونے کی وجہ سے غلط ہوگا۔لہذا ایسا سوال کرنا ہی غلط، نامناسب اور ناجائز ہے۔
 
2: یہ اعتراض تب پیدا ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کو وجود بمعنی ’’جسم‘‘ کے ساتھ مانیں جیسے قرآن کریم کو بیت الخلاء میں لے کر جانا قرآن کی توہین اور بے ادبی ہے حالانکہ ہر حافظ جب بیت الخلاء جاتا ہے تو قرآن اس کے سینے میں موجود ہوتا ہے لیکن بے ادبی نہیں ، کیونکہ قرآن جسم سے پاک ہے ایسے ہی ہم اللہ تعالیٰ کا جسم ہی ثابت نہیں کرتے تو بے ادبی لازم نہیں آتی ۔
 
3: رمضان المبارک کا مہینہ ہر جگہ مبارک ہے ۔اگر کوئی شخص پوچھے کہ بیت الخلاء میں رمضان ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو ہر جگہ رمضان نہیں، اگر ہے تو بیت الخلاء میں بابرکت کیسے ؟ تو اس کا یہ سوال لغو ہوگا کیونکہ جب رمضان کا جسم نہیں ہے تو ہر جگہ ماننے میں کوئی بے ادبی نہ ہو گی اور یہ ہر جگہ با برکت ہوگا۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کا جسم ہی نہیں تو ہر جگہ ماننے میں بے ادبی بھی نہیں۔
 
شبہ-2 : اگر اللہ تعالیٰ کو ہر جگہ مانیں تو اس سے حلول اور اتحاد لازم آئے گا ۔
جواب : حلول اور اتحاد تب لازم آئے گا جب اللہ تعالی کے لئے جسم مانا جائے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ جسم سے پاک ہیں۔
 
فائدہ : دو چیزوں کا اس طرح ایک ہونا کہ ہر ایک کا وجود باقی رہے’’ اتحاد‘‘ کہلاتا ہے جیسے آملیٹ اور دو چیزوں کااس طرح ایک ہونا کہ ایک چیز کا وجود ختم ہو جائے’’ حلول‘‘ کہلاتا ہے  جیسے شربت۔
 
شبہ-3:  جب اللہ تعالیٰ عرش پر نہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم کلام ہونے کے لئے عرش پر کیوں بلایا؟
 
جواب:   ہم کلام ہونے کے لئے عرش پر بلانا اگر عرش پر ہونے کی دلیل ہے تو یہودی کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کوہ طور پر ہیں‘ کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وہاں بلایا  تھا۔ کلامِ الہیٰ تجلی ٔالہی کا نام ہے ‘چاہے اس کے ظہور کے لئے انتخاب عرش کا ہو یا کوہ طور کا ہو یا منصور حلاج ؒکی زبان کا ہو۔
 
شبہ4: اگر اللہ تعالیٰ عرش پر نہیں تو بوقت دعا ہاتھ اوپر کیوں اٹھائے جاتے ہیں?
 
جواب:  اللہ تعالیٰ جہت سے پاک ہیں‘ لیکن بندے کے قلبی استحضار کے لئے بعض اعمال کے لئے بعض جہات کا تعین فرما دیتے ہیں۔ جیسے نماز کے لئے جہتِ کعبہ کو قبلہ قرار دیا ، دعا کے لئے جہتِ فوق کو قبلہ قرار دیا اور نہایت اعلیٰ درجہ کے قرب ِالہی کے حصول کے لئے جہتِ ارض کو قبلہ قرار دیا اور قرآن مجید میں حکم دیا:’’وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ‘‘(اور سجدہ کرو اور ہم سے قریب ہو جاؤ)
 
فائدہ: ہمارا نظریہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر سے لگنے والی مٹی کے ذرات کعبہ سے بھی اعلیٰ ہیں۔اس پر غیر مقلد یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر یہ  ذرات کعبہ سے بھی اعلیٰ ہیں تو سجدہ کعبہ کی طرف نہ کرو بلکہ روضہ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منہ کر کے کرو۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ افضل ہی کو قبلہ بنایا جائے۔ اگر آپ کا یہی اصول ہے تو آپ کے ہاں عرش کعبۃ اللہ سے افضل ہے تو آپ نماز میں اپنا منہ عرش کی طرف کیوں نہیں کر لیتے؟؟
 
فائدہ:  کعبہ مرکزِ عبادت ہے  اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم مرکزِعقیدت ہے۔
 
شبہ5:  اگر اللہ تعالیٰ اوپر عرش پر نہیں تو عموماً اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرنے کے لئے اوپر کی طرف اشارہ کیوں کیا جاتا ہے ؟
 

جواب :  اللہ تعالیٰ جہاتِ ستہ سے اگرچہ پاک ہیں‘ لیکن تمام جہات کو محیط بھی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شّیْئٍ مُّحِیْطًا (سورہ نساء ؛126)اللہ تعالیٰ ہر چیز کو محیط ہے‘ اور جہاتِ ستہ میں سے جہت ِعلو کو باقی جہات پر عقلاً فوقیت حاصل ہے ۔ اس لئے علوِ مرتبہ اور تعظیم کا خیال کرتے ہوئے اشارہ اوپر کیا جاتا ہے۔ جیسے استاد کی آواز دورانِ سبق تمام جہات کی طرف منتقل ہوتی ہے لیکن استاد کے سامنے بیٹھ کر آواز کو سننا ادب ہے اور پیچھے بیٹھ کر سننا بے ادبی ہے ۔

……………………………
خلاصہ کلام :
اختلاف را یے ، اجتہادی ، تفسیری اختلاف قرآن و سنت سے دلیل مگر ، تکفیر، تفرقہ بازی سے پرہیز ضروری: اسلامی عقائد کی جو تفصیلات وضاحت طلب ہیں وہ علماء کرام، ائمہ نےقرآن و سنت و احادیث سے تحقیق کے بعد اخذ کی ہیں- تحقیق interpretation ایک انسانی عمل ہے جس کی وجہ سے ایک سے زیادہ opinions ممکن ہیں جس سے صحابہ اکرام بھی مبرا نہیں- شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں:”صحابہ اکرامؓ کے مذاہب مختلف ہو گئے،پھر یہی اختلاف وراثتا تابعین تک پہنچے پھر تابعی کو جو کچھ مل سکا ،اسی کو اس نے اپنا لیا اور آئحضرت ﷺ کی جو حدیثیں اور صحابہ کے جو مذاہب اس نے سنے ان کو محفوظ اور ذہن نشین کر لیا،نیز صحابہ کے جو مختلف اقوال اس کے سامنے آئے ان میں اپنی فہم کی حد تک مطابقت پیدا کی”(اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ،ص:۲۸) پھر عہد تابعین کے بارے میں فرماتے ہیں کہعہد تابعین کے ختم ہونے پر اللہ تعالی نے علم دین کے خادموں کا ایک گروہ پیدا کر دیا تاکہ وہ وعدہ پورا ہو،جو اللہ کے رسول ﷺ کی زبان سے اس علم کے متعلق نکلا تھا کہ آنے ولی نسلوں میں سے ہر نسل کے عادل لوگ اس علم کے امانت دار ہونگے،(اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ:ص:۳۲)یہ بات بالکل واضح ہےکہ ہراختلاف مذموم نہیں؛ بلکہ اختلاف محمود بھی ہوتا ہے ۔ امام عبدالقادر بن طاہر البغدادیؒ نے فرمایا كه اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقہاء کے اختلاف کو مذموم نہیں کہا؛ کیونکہ یہ اصولِ دین میں متفق ہیں۔ (الفرق بین الفرق،ص:۶)بلکہ علامہ شاطبی رحمہ اللہ نے ’الاعتصام ‘‘میں لکھا ہے کہ فَاِخْتِلَافُهُمْ فِي الْفُرُوْعِ كَاِتِّفَاقِهِمْ فِيْهَا، ان کا اختلاف ان کے اتفاق کے مثل ہے ۔(الاعتصام،ج:۲،ص:۱۶۹)
امام ابو حنیفہ،امام مالک،امام شافعی اور امام احمد بن حنبل اور ائمہ حدیث کے بعض فقہی اختلافات کا ذکر کر کےانہیں کتاب و سنت کے مخالف قرار دیتے ہوئے اسلام ہی سے خارج قرار دیا جا رہا ہے انہیں فرقہ پرست اور شرک فی الرسالت کا مرتکب گردانا جا رہا ہے حالانکہ کے ان ائمہ کرام کے وہی عقائد ہیں جو کتاب و سنت نے بیان کئے اور جس پر صحابہ اور تابعین تھے۔الحمدللہ ان ائمہ اربعہ اور ان جیسے اہل علم کے درمیان اصولِ دین میں کوئی نزاع نہیں ہے۔بلکہ یہ اختلافات ان امور میں ہوتے ہیں جو کہ اجتہادی ہیں۔فروعات کے فہم کا اختلاف صحابہ تک میں ہوا ہے۔
امت کے بڑے بڑے محدثین،مفسرین اورفقہاء خود حنفی،شافعی،مالکی و حنبلی اور اہل حدیث کا مذہب رکھتے تھے۔ان امور میں ان کے درمیان کوئی تعصب نہیں تھا۔مقصد ان واقعات کا مکمل احصا ءنہیں؛ بلکہ ایسے چند نظائر کو سامنے لانا تھا، جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ یہ اختلاف عہدِ نبوی سے موجود ہے؛ بلکہ اس اختلاف پر عہدِ نبوی ہی سے ماجور ہونے کا سہرا سجا ہوا ہے؛ اس لیے فقہاء کرام امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ ،امام مالک رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا باہم دلائل کی بنیاد پر کسی بھی جزوی اور فروعی مسئلے میں مختلف رائے رکھنا ہر گز فرقہ واریت نہیں؛ بلکہ انہی ائمہ اربعہ میں منحصر رہنے سےہی فتنوں سے بچا جا سکتا ہے ۔(عقدالجید، از: شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ ) مسائل کے ان اختلافات کی بنیاد پر آپس میں دشمنی اور افتراق کرنا درست نہیں۔کیونکہ فقہی اور اجتہادی امور میں صحابہ کرام کا بھی اختلاف ہوا۔کسی مسئلہ میں قرآن و حدیث کی صریح نص نہ ہونے کی وجہ سے ان کے اجتہادات مختلف ہوئے اور بعض اوقات اللہ اور اس کے رسول کی بات کا مفہوم سمجھنے میں اختلاف ہوا مگر ان میں وحدت اوراخوت برقرار رہی سلف کے مابین باہمی محبت و ہمدردی اور آپس کے تعلقات کی گرمجوشی میں کوئی کمی نہیں آئی۔
افسوس کے آج فقہی امور پر بحث و مناظرہ کرتے ہوئے علماء کرام کی عزت و آبروکی بھی پرواہ نہیں کی جاتی۔
ایک مسلمان عالم کی ذمہ داری ہے کہ فقہی امور میں تنقید کرتے وقت احسن انداز اختیار کرے۔ان فقہی امور میں اختلاف کرنے والوں سے وہ رویہ نہ رکھے جو کہ ایک ملحد،کافرومشرک یا کلمہ پڑھنے کے بعد اسلام کے منافی امور کےمرتکب شخص سے رکھنا واجب ہے۔
امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:‘‘وامالاختلاف فی (الاحکام)فاکثر من ان ینضبط ولو کان کل ما اختلف مسلمان فی شئی تھاجرا۔لم یبق بین المسلمین عصمۃ ولا اخوۃ’’(فتاوی ابن تیمیہ۲۴/۱۷۳)

مسائل احکام میں تو اس قدر اختلاف ہوا ہے کہ اس کا ضبط میں آنا ممکن نہیں،اگر کہیں ایسا ہوتا کہ جب بھی کبھی دو مسلمانوں میں کسی مسئلے کی بابت اختلاف ہو تو ایک دوسرے سے قطع تعلقی اختیار کرلی جاتی تو مسلمانوں میں کسی عصمت یا اخوت کا نام تک باقی نہ رہتا’ اجتہادی مسائل کا اختلاف کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہوکبھی صحابہ نے ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کی۔دیکھیے عائشہ،معاویہ اور علیکے مابین اختلاف نے کتنی شدت اختیار کی مگر اس کے باوجود انہوں نے ایک دوسرے کو مسلمان ہی سمجھا- اگر ہر شخص کو اختیار ہو کہ مسائلِ غیر منصوصہ میں جو چاہےاپنی رائے قائم کر لے تو کیا یہ دینِ متین کھلونا بنے گا یا نہیں؟
ہر فردِ بشر اپنی عقلِ نارسا کو حرفِ آخر گرداننے لگے گا اور اسی کے مطابق عمل کرے گا، اس مضحکہ خیز صورتِ حال پر سوائے ہنگامہ آرائی کے اور کیا ہوگا ؟
“اجماع”، فقہ اسلام کی ایک اصطلاح اور اسلامی شریعت کا تیسرا اہم مآخد ہنے.اجماع سے مراد علمائے امت کا یا ان کی بڑی اکثریت کا، ہر زمانے میں کسی مسئلہ پر متفق ہوجانا ہنے. کسی ایسے فقہی معاملہ جس پرعلماء اور جمہور کا اجماع ہو اس پر ضرورت سے زیادہ اصرار کرنا امت میں فکری کنفیوژن، تفرقہ، فتنہ و فساد کا باعث ہو سکتا ہے.
متنازعہ فقہی مسائل پر علمی بحث کے لیے مناسب فورم اعلی مدارس، تعلیمی تحقیقی ادارہ جات اور یونیورسٹیاں ہیں نہ کہ عوام الناس-
لہٰذاہ کسی ایک کو مکمل طور پر غلط یا مکمل طور پر درست قرار دینا اپنی تحقیق اور علم پرover confidence ہے- امام شافی کا ایک قول ہے :

“I am convinced about the veracity of my opinions, but I do consider it likely that they may turn out to be incorrect. Likewise, I am convinced about the incorrectness of the views different from mine, but I do concede the possibility that they may turn out to be correct.” — Imam Shafi

ہم کو چاہیے کہ فضول بحث برا یے بحث ، اختلاف ، توہین ، دشنام ترازی ، فتویٰ بازیسے پرہیز کریں- دین کا علم حاصل کرنے کی کوشس کریں-

اللہ ہم کو کریم دین کا صحیح فہم عطا فرمائے۔

…………………………………………..

هْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾

ہمیں سیدھا راستہ دکھا (6) اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں (1:7)

لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ﴿٢٨٦﴾

اللہ کسی متنفس پر اُس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے، اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے، اس کا وبال اسی پر ہے (ایمان لانے والو! تم یوں دعا کیا کرو) اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں، ان پر گرفت نہ کر مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے پروردگار! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ، ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے در گزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر(٢:٢٨٦ )

http://raahedaleel.blogspot.com/2012/12/allah-kahan-he.html

http://ahnafmedia.com/question-a-answers/item/4457-allah-pak-kahan-hy-where-is-allah http://alwaght.com/ur/News/66912/

http://dailypakistan.com.pk/columns/09-Oct-2016/458524

https://goo.gl/pBTm9J

http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=21897

http://ahnafmedia.com/question-a-answers/item/4457-allah-pak-kahan-hy-where-is-allah

http://salafiexpose.blogspot.com/2015/06/allah-ki-zaat-kay-mutaliq-ulma-e.html

اہل حدیث کا عقیده: http://forum.mohaddis.com/threads/34033

……………………………………………..
 
اختلاف فقه اور اتحاد مسلم
ختلاف کے اسباب و محرکات پر بحث کرنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے۔کہ اسلام میں اختلاف کی حقیقت کیا ہے؟ایک طرف تو قرآن ان لوگوں کے انتہاٰ ئی مذمت کرتا ہے۔جو کتاب اللہ کے آجانے بعد تفرقے اور اختلاف میں پڑ جاتے ہیں اور اپنے دین کے ٹکٹرے ٹکڑے کر ڈالتے ہیں اور دوسری طرف قرآن کے احکام کی تعبیروتفسیر میں صرف متاخرین ہی نہیں آئمہ اور تابعین اور خود صحابہؓ تک کے درمیان اختلاف پائے جاتے ہیں کہ شاید کوئی ایک بھی احکامی آیت ایسی نہ ملے گی جس کی تفسیر بالکل متفق علیہ ہوتو پھر ایک سوال ذ ہن میں ابھرتا ہے کہ کیا یہ بھی کوئی اس مذمت کے مصداق ہیں جو قرآن میں وارد ہوئی ہے اور اگر ایسا نہیں تو پھر کونسا اختلاف ہے جس سے قرآن نے منع فرمایا ہے اور انہی دو اختلاف میں فرق واضح کرنا مقصود ہے …. مزید پڑھیں  <<اختلاف فقه اور اتحاد مسلم>>
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
 
 ہلسنّت وجماعت(احناف)اور غیر مقلد حضرات کے مابین بنیادی اختلاف تو ان کے عقائد ونظریات کی وجہ سے ہے۔علاوہ ازیں کچھ فروعی مسائل کا اختلاف بھی ہے۔اس دوسری قسم کے حوالہ سے جن مسائل میں اختلاف جاری ہے ان میں ایک مسئلہ نماز میں’’رفع یدین‘‘ کرنے کا بھی ہے۔جسے اس وقت ایک معرکۃ الآراء مسئلہ بنا دیا گیاہے اورمخالفین کی طرف سے اس پر یوں اودھم مچایا جاتا ہے ،جیسے ’’اسلام اورکفر‘‘ کا فیصلہ ایک اسی مسئلہ پر ہو،حالانکہ وہابی حضرات کے اپنےعلماء وفضلاء نے بھی اس حقیقت کو اب چاروناچار تسلیم کرہی لیا ہے کہ ’’رفع یدین‘‘نہ کرنا بھی سنت ہے،اور اگر کوئی نمازی ساری عمربھی ’’رفع یدین‘‘ نہ کرے تو اس پر کوئی ملامت اور اعتراض نہیں ہے بلکہ انہوں نے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اس مسئلہ میں لڑنا جھگڑنا تعصب اور جہالت سے خالی نہیں ہے۔ <<دلائل>>
 
اہل حدیث (غیر مقلدین ) کے علماء کی رایے:
  •  مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی اپنے فتاویٰ نذیریہ جلد1 صفحہ 141 میں فرماتے ہیں:  کہ رفع یدین میں جھگڑاکرنا تعصب اور جہالت کی بات ہے ، کیونکہ آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دونوں ثابت ہیں ، دلایل دونوں طرف ہیں۔
  • نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپالی جماعتِ غیر مقلدین کے بڑے اونچے عالم اور مجدد وقت تھے ، ان کی کتاب روضہ الندیہ غیر مقلدین کے یہاں بڑی معتبر کتاب ہے، نواب صاحب اس کتاب میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب سے نقل کرتے ہوے فرماتے ہیں۔
  • ۔”رفع یدین و عدم رفع یدین نماز کے ان افعال میں سے ہے جن کو آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے ، اور سب سنت ہے ، دونوں بات کی دلیل ہے ، حق میرے نزدیک یہ ہے کہ دونوں سنت ہیں۔۔۔(صفحہ 148)”۔
  • اور اسی کتاب میں حضرت شاہ اسماعیل شہید کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں ولا یلام تارکہ و ان ترکہ مد عمرہ (صفحہ 150)۔ یعنی رفع یدین کے چھوڑنے والے کو ملامت نہیں کی جاے گی اگرچہ پوری زندگی وہ رفع یدین نہ کرے۔
  • غیر مقلدین کے بڑے اکابر بزرگوں کی ان باتوں سے پتا چلا کہ ان لوگوں کے نزدیک رفع یدین کرنا اور نہ کرنا دونوں آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور دونوں سنت ہیں،

 روایات و آثار چونکہ دونوں طرف وارد ہیں تو ائمہ مجتہدین نے ان پر نظر کرنے اور غور و فکر کرنے کے بعد اپنا اپنا نظریہ بیان کیا اور یوں ان کی رائے میں اختلاف ہوا جو سراسر فرعی ہے۔ چنانچہ جو مجتہدین اپنی رائے میں صواب کو پہنچے تو ان کے لئے دوہرا اجر، اور اگر اس سلسلے میں کسی سے خطا ہوئی تو ایک اجر کا استحقاق تو اس کے لیے بھی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان دونوں میں سے عمل کس حکم پر کیا جائے؟ 

جواب ظاہر ہے کہ جو شخص شریعت کے ان فروعی اختلافی معاملات میں کسی مسلمہ شخصیت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اس کی پیروی کرے وہ اسی کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرے گا اور کسی دوسرے امام کے طریقے پر عمل کرنے والے پر طعن و تشنیع نہیں کرے گا۔ جو لوگ ان معاملات کی حقیقت کو سمجھتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ:

 کسی مجتہد امام کے قول پر عمل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے احکام کا جو معنی اس امام نے بعد از تحقیق مراد لیا، اس پر عمل کرنا۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ قرآن و حدیث کے مقابلے میں کسی امام کے قول کو ترجیح دینا (نعوذ باللہ من ذالک)۔ ایسا تو وہ کرے گا جس نے نعمان ابن ثابت یا محمد ابن ادریس کا کلمہ پڑھا ہو، یا جو خود کو مالک ابن انس یا احمد ابن حنبل کی امت سمجھتا ہو۔ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی کہلانے والا صرف اسی خاتم النبیین اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرے گا۔ البتہ یہ بالکل جائز ہے کہ کوئی شخص نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین تک پہنچنے اور ان کا مطلب سمجھنے کے لیے ان چاروں حضرات میں سے کسی کو اپنا مقتدا و پیشوا مان لے۔ لہذا اگر کسی شخص نے نماز میں رفع یدین کو اس لیے ترک کر دیا کہ اس کے امام کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ترک کر دیا تھا، تو اس کا مطلب شرعی احکام کے مقابل امام کے قول کی پیروی نہیں بلکہ امام کے قول کی روشنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی ہے۔ 
لیکن افسوس کہ بعض خود پسند لوگ ان باتوں کو سمجھ نہیں پاتے اور اپنی جہالت یا محض بغض و عناد کی بناء پر امت مسلمہ کی اکثریت پر زبان طعن دراز کرتے اور ان کے درپے آزار ہوتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ بعض سلیم الطبع حضرات ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جنہیں بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا، لاکھوں احادیث زبانی یاد، سینکڑوں کتابوں کے مصنف، تفقہ فی الدین میں اپنی مثال آپ، زہد و تقوی ایسا کہ لوگ رشک کریں، لیکن اس سب کے باوجود کبھی اجتہاد مطلق کا دعوی نہ کیا اور اپنے سے زیادہ علم والوں کا ادب و احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان کے مقلد کی حیثیت سے زندگی گزار دینے کو سعادت سمجھا۔
جبکہ دوسری طرف بعض مہم جو طبیعتیں ایسی بھی ملیں گی کہ ڈھائی کتابوں کا اردو ترجمہ پڑھ کر آپے ہی سے باہر ہو جائیں اور جھوٹے علمی زعم میں مبتلا ہو کر وہ دھما چوکڑی مچائیں کہ الامان الحفیظ۔ حتی کہ اکابرین بھی ان کی بے لگام زبان کے شر سے محفوظ نہ رہیں۔ ایسوں کے لیے کس قدر آسان ہے کہ عمل بالسنت کی نیت سے رفع یدین ترک کرنے کو “رفع یدین سے دشمنی” (اپنی دانست میں سنت سے دشمنی) قرار دے ڈالیں۔
دوسروں کی فقہ پر اعتراض زیب کس کو دیتا ہے؟
کیا ایسے شخص کو جس کے اپنے مسلک و مشرب کے بارے میں پوچھا جائے تو شرم سے نظریں جھکا لے؟ اور باوجود استفسار، بلکہ پیہم اصرار کے، جواب میں صرف آئیں، بائیں، شائیں۔ عرض یہ ہے کہ اگر وہ مسلک اس قابل نہیں کہ کسی کے سامنے بیان کیا جائے تو اس سے چھٹکارا کیوں نہ حاصل کر لیا جائے اور اسی سے چمٹے رہنے کا آخر کیا مطلب؟ اور اگر بالفرض وہ مسلک ایسا ہی عمدہ اور اعلیٰ ہے تو پھر اتنی پردہ پوشی کیوں اور اظہار میں ایسی گھبراہٹ کس لیے؟
صرف یہ جاننا چاہوں گا کہ آپ کن علما سے رجوع کرتے ہیں آیا وہ مقلد ہیں یا غیر مقلد؟
اور ان کی استنادی حیثیت کیا ہے؟”
جواب ملاحظہ فرمائیں:
“محترم  آپ نے دریافت فرمایا تھا کہ میں کون سے علماء سے پوچھوں گا۔ یہاں آپ کی اطلا‏ع کے لئے عرض کردوں کہ جن علماء سے میں رجوع کرتا ہوں وہ اصل کتاب تک میری رہنمائی کرتے ہیں اور پھر اپنا نقطہ نظر قران اور صحیح احادیث کی رو سے بیان کرتے ہیں۔”
کس قدر قابل رحم حالت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔کیسی بےبسی کا عالم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔چاروں ائمہ اہلسنت سے منسوب ہونا ان کے نزدیک فرقہ واریت،وہابیہ، اہل حدیث اور غیر مقلدین وغیرہ ان کے بقول اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والے، رفض و خروج و اعتزال سے انتساب بھی مذہبی خوسوزی کے مترادف۔ تو پھر جائیں تو کہاں جائیں اور کریں تو کیا کریں؟ چنانچہ ٹال مٹول ہی آخری حربہ ٹھہرا ہے۔ لیکن عرض یہ ہے کہ جب اپنی حالت ایسی دگرگوں ہو تو دوسروں پر اعتراض نہیں کیا کرتے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ شیشے کے گھروں میں بیٹھ کر دوسروں پر سنگ باری نہیں کرنی چاہئے۔

القواعد فی العقائد

 

…………………………………