اہلسنت و الجماعت (أهل السنة والجماعة) کو عام الفاظ میں سنی بھی کہا جاتا ہے جو مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ اہل سنت وہ لوگ ہیں جو الله اوررسول اللہ ﷺ کی اطاعت پر ایمان رکھتے ہیں۔ تمام صحابہ کرام کو احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک سب صحابی بالخصوص خلفائے راشدین برحق ہیں۔ اور ان کا زمانہ ملت اسلامیہ کا بہترین اور درخشاں دور ہے۔ ان کے نزدیک خلافت پر ہر مومن فائز ہو سکتا ہے بشرطیکہ وہ اس کا اہل ہو۔ ان کے نزدیک خلیفہ جمہور کی رائے سے منتخب ہونا چاہئے۔ وہ الله کی طرف سے مامور نہیں ہوتا، وہ خلافت کے موروثی نظریئے کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک ابوبکر صدیق صحابہ میں فضیلت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اور پھر خلافت کی ترتیب سے حضرت عمر فاروق حضرت عثمان اور حضرت علی بن ابی طالب ۔ خاندان اہل بیت کو بھی سنی بڑی احترام و عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سنی عقیدہ کے مطابق سوائے پیغمبروں کے کوئی انسان معصوم نہیں۔ یہ اسلامی فرقہ مذہب میں اعتدال اور میانہ روی پر زور دیتا ہے۔ سنی چار فقہوں میں بٹے ہوئے ہیں جیسے؛ شافعی ، مالکی ، حنفی اور حنبلی۔ مزید پڑھیں >>>
عرباض بن ساریہ ؓ کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسی نصیحت فرمائی جس سے ہماری آنکھیں ڈبدبا گئیں، اور دل لرز گئے، ہم نے کہا: اللہ کے رسول! یہ تو رخصت ہونے والے کی نصیحت معلوم ہوتی ہے، تو آپ ہمیں کیا نصیحت کرتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
(1) میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستہ سے میرے بعد صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا،
(2) امیر کی اطاعت کرنا، چاہے وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ مومن نکیل لگے ہوئے اونٹ کی طرح ہے، جدھر اسے لے جایا جائے ادھر ہی چل پڑتا ہے-
(3) تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سارے اختلافات دیکھے گا، لہٰذا میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا، تم اس سے چمٹ جانا، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا،
(4) اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے (خلاصہ احادیث: ابن ماجہ 43 و ابی داوود 4607)
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/السنة ٦ (٤٦٠٧)، سنن الترمذی/العلم ١٦ (٢٦٧٦)، (تحفة الأشراف: ٩٨٩٠)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٤/١٢٦، ١٢٧)، سنن الدارمی/المقدمة ١٦ (٩٦) (صحیح )
اہل سنت کے چاروں ائمہ حضرت امام ابو حنیفہ، حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل ؛بلکہ حضرت امام داؤد ظاہری کی فقہ ودرایت سے بھی امت مسلمہ نے ہر دور میں استفادہ کیا ہے، ان کے مقلدین ومتبعین لاکھوں کی تعداد میں ہمیشہ موجود رہے ہیں اور آج بھی کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں؛ مگر ان میں سب سے زیادہ امتیاز فقہ حنفی کو حاصل ہوا جس کا اعتراف واحترام اہل علم وفضل نے ہمیشہ کیا ہے اور یہ تعداد میں اکثریت میں ہیں. مزید پڑھیں >>>>
(سعودی علماء نے دہشت گردی کے خلاف فتوے جاری کیے)۔
اہل السنۃ والجماعۃ اعتقادی یعنی کلامی مسائل میں اَشاعِرہ (جو امام ابوالحسن الاشعری کی طرف منسوب ہیں)،ماتُریدیہ (جو امام ابومنصور ماتریدی کی طرف منسوب ہیں)اور ”اَھْلُ الْحَدِیْثِ الْمُفَوِّضَہ‘‘شامل ہیں (یعنی وہ اہلِ حدیث جو اعتقادی مسائل میں صفاتِ الٰہی سے متعلق آیاتِ متشابہات پر ایمان لاتے ہیں اور اُن کے مرادی یا حقیقی معنی کو اللہ تعالیٰ کے علم کی طرف تفویض کردیتے ہیں،یعنی وہ ان الفاظ کے ظاہری معنی مراد نہیں لیتے ۔ان آیاتِ متشابہات میں اللہ تعالیٰ کے لیے ”یَدْ،وَجْہ،ساق، نفس، عَین اور جہت وغیرہا‘‘ کلمات آئے ہیں ۔پس جن اہلِ حدیث نے اِن کلمات کو اعضاء وجوارح (Organs)کے معنی میں لیا ہے، اس کانفرنس کی قرارداد کی رُو سے انہیں ”اہلُ السُّنَّۃ والجماعۃ‘‘ سے خارج قرار دیا گیا ہے، اس فکر کے حاملین کو علمائے علم الکلام نے ”مُجَسِّمین‘‘ سے تعبیر کیا ہے)۔ ان میں چار فقہی مذاہب کے ماننے والے حنفیہ ،مالکیہ، شافعیہ اور حنابلَہ شامل ہیںاور ان کے علاوہ سید الطائفہ امام جُنید اورعلم ،اَخلاق اور تزکیہ میں اُن کے طریقِ اصلاح کے حامل ائمّہ ھُدیٰ شامل ہیں۔یہ علمی مَنہَج اُن علوم کا احترام کرتا ہے جو، وحیِ ربّانی کو سمجھنے کے لیے خادم کا درجہ رکھتے ہیں اور نفس وفکر کی اصلاح ،دین کو تحریف اور بے مقصد باتوں سے محفوظ رکھنے اور اموال اور آبرو کی حفاظت اور نظامِ اخلاق کی حفاظت کرنے میں ،اس دین کی اَقدار اور مقاصد کو واضح کرتے ہیں- اس کوسعودی، سلافی، وھابی، اہل حدیث نے سخت ناپسند کیا اور ملت اسلامیہ کو تقسیم کرنے کی سازش قرار دیا-
معزز اہل حدیث بھائیوں نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا جو کہ ان کا حق ہے- اس سلسلے میں مناسب ہے کہ دوسرا نقطہ نظر پیش کیا جائے تاکہ حق کے متلاشی دوستوں کے لیے تقابل میں آسانی ہو- اہل حدیث ساتھی امید ہے صبرو تحمل سے مطالعہ کریں گے – بحث مباحثہ کی ضرورت نہیں دونوں طرف کے نقطہ نظر آخر میں لنک موجود ہیں جن سے مزید استفادہ کیا جا سکتا ہے-
سیاسی معاملہ Political Aspect:
الہیات ، الله کی ذات کے متعلق اہل حدیث کے نقطہ نظر کے مطابق اہل اہل سنت و الجماعت کا نظریہ باطل اور غلط ہے- ضرورت ہے کہ اہل سنت و الجماعتکا نقطہ نظر پیش کیا جایے-
آراءمیں اختلاف ایک انسانی خصوصیت ہےعیب نہیں جس سے صحابہ اکرام بھی مستثنیٰ نہ تھے:
شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں:“صحابہ اکرامؓ کے مذاہب مختلف ہو گئے،پھر یہی اختلاف وراثتا تابعین تک پہنچے پھر تابعی کو جو کچھ مل سکا ،اسی کو اس نے اپنا لیا اور آئحضرت ﷺ کی جو حدیثیں اور صحابہ کے جو مذاہب اس نے سنے ان کو محفوظ اور ذہن نشین کر لیا،نیز صحابہ کے جو مختلف اقوال اس کے سامنے آئے ان میں اپنی فہم کی حد تک مطابقت پیدا کی”(اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ،ص:۲۸) پھر عہد تابعین کے بارے میں فرماتے ہیں کہعہد تابعین کے ختم ہونے پر اللہ تعالی نے علم دین کے خادموں کا ایک گروہ پیدا کر دیا تاکہ وہ وعدہ پورا ہو،جو اللہ کے رسول ﷺ کی زبان سے اس علم کے متعلق نکلا تھا کہ آنے ولی نسلوں میں سے ہر نسل کے عادل لوگ اس علم کے امانت دار ہونگے،(اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ:ص:۳۲)یہ بات بالکل واضح ہےکہ ہراختلاف مذموم نہیں؛ بلکہ اختلاف محمود بھی ہوتا ہے ۔ امام عبدالقادر بن طاہر البغدادیؒ نے فرمایا كه اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقہاء کے اختلاف کو مذموم نہیں کہا؛ کیونکہ یہ اصولِ دین میں متفق ہیں۔ (الفرق بین الفرق،ص:۶)بلکہ علامہ شاطبی رحمہ اللہ نے ’الاعتصام ‘‘میں لکھا ہے کہ فَاِخْتِلَافُهُمْ فِي الْفُرُوْعِ كَاِتِّفَاقِهِمْ فِيْهَا، ان کا اختلاف ان کے اتفاق کے مثل ہے ۔(الاعتصام،ج:۲،ص:۱۶۹)امام ابو حنیفہ،امام مالک،امام شافعی اور امام احمد بن حنبل اور ائمہ حدیثکے بعض فقہی اختلافات کا ذکر کر کےانہیں کتاب و سنت کے مخالف قرار دیتے ہوئے اسلام ہی سے خارج قرار دیا جا رہا ہے انہیں فرقہ پرست اور شرک فی الرسالت کا مرتکب گردانا جا رہا ہے حالانکہ کے ان ائمہ کرام کے وہی عقائد ہیں جو کتاب و سنت نے بیان کئے اور جس پر صحابہ اور تابعین تھے۔الحمدللہ ان ائمہ اربعہ اور ان جیسے اہل علم کے درمیان اصولِ دین میں کوئی نزاع نہیں ہے۔بلکہ یہ اختلافات ان امور میں ہوتے ہیں جو کہ اجتہادی ہیں۔فروعات کے فہم کا اختلاف صحابہ تک میں ہوا ہے۔امت کے بڑے بڑے محدثین،مفسرین اورفقہاء خود حنفی،شافعی،مالکی و حنبلی اور اہل حدیث کا مذہب رکھتے تھے۔ان امور میں ان کے درمیان کوئی تعصب نہیں تھا۔مقصد ان واقعات کا مکمل احصا ءنہیں؛ بلکہ ایسے چند نظائر کو سامنے لانا تھا، جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ یہ اختلاف عہدِ نبوی سے موجود ہے؛ بلکہ اس اختلاف پر عہدِ نبوی ہی سے ماجور ہونے کا سہرا سجا ہوا ہے؛ اس لیے فقہاء کرام امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ ،امام مالک رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا باہم دلائل کی بنیاد پر کسی بھی جزوی اور فروعی مسئلے میں مختلف رائے رکھنا ہر گز فرقہ واریت نہیں؛ بلکہ انہی ائمہ اربعہ میں منحصر رہنے سےہی فتنوں سے بچا جا سکتا ہے ۔(عقدالجید، از: شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ )مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیںایک عالم سے جو کہ فارسی میں استاد ہیں۔ایک عیسائی نے ان سے اعتراض کیا کہ اہل اسلام میں سینی تحقیق کی کمی کی ایک بڑی دلیل ہی یہ ہے کہ ان کے اکثر مسائل میں اختلاف ہے۔اگر کافی تحقیق ہوتی تو اختلاف نہ ہوتا تو انھوں نے جواب دیا کہ یہی تو دلیل ہے ان کی تحقیق کرنے کی،کوئی چھوٹے سے چھوٹا جزو بھی نہیں چھوڑا۔گویا اجتہادی امور میں فقہائے اکرام کا اختلاف رائے فطری بھی ہے اور منطقی بھی،کیونکہ فقہاء میں سے ہر ایک نے اجتہادی مسائل کا اپنے نقطء نظر سے جائزہ لیا ہے،جس سے ہر مسئلے کے مختلف پہلو آشکار ہو کر حقیقت زیادہ واضح ہو گئی،اور اسلامی فقہ میں میں ایسا توسع پیدا ہو گیا اور اس میں ہر طرح کے حالات کے مطابق منطبق ہونے کی صلاحیت پیدا ہوگئی۔امام ابوحنیفہ اور ان کے جلیل القدر شاگردوں کا عمل ایک روشن مثال ہے۔شرف تلمذ سے مشرف ہونے کے باوجود شاگردوں نے مسائل کے استنباط میں استاد کی آراء سے بے تکلف اختلاف کیا،جبکہ ان کا استاد وہ شخص تھا۔جس کی دوستی اور نکتہ شناسی کی مثال صحابہ اکرامؓ کے بعد آج تک تاریخ دکھانے سے قاصر ہے۔
فقہی اختلافات کی بنیاد پر افتراق کرنا درست نہیں:مسائل کے ان اختلافات کی بنیاد پر آپس میں دشمنی اور افتراق کرنا درست نہیں۔کیونکہ فقہی اور اجتہادی امور میں صحابہ کرام کا بھی اختلاف ہوا۔کسی مسئلہ میں قرآن و حدیث کی صریح نص نہ ہونے کی وجہ سے ان کے اجتہادات مختلف ہوئے اور بعض اوقات اللہ اور اس کے رسول کی بات کا مفہوم سمجھنے میں اختلاف ہوا مگر ان میں وحدت اوراخوت برقرار رہی سلف کے مابین باہمی محبت و ہمدردی اور آپس کے تعلقات کی گرمجوشی میں کوئی کمی نہیں آئی۔افسوس کے آج فقہی امور پر بحث و مناظرہ کرتے ہوئے علماء کرام کی عزت و آبروکی بھی پرواہ نہیں کی جاتی۔ایک مسلمان عالم کی ذمہ داری ہے کہ فقہی امور میں تنقید کرتے وقت احسن انداز اختیار کرے۔ان فقہی امور میں اختلاف کرنے والوں سے وہ رویہ نہ رکھے جو کہ ایک ملحد،کافرومشرک یا کلمہ پڑھنے کے بعد اسلام کے منافی امور کےمرتکب شخص سے رکھنا واجب ہے۔امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اجتہادی مسائل میں اختلاف صحابہ کے دور سے لے کر آج تک واقع ہوتا آیا ہے۔سب سے پہلے جو اختلاف ہوا وہ خلفائے راشدین مہدیین کے زمانے میں ہوا پھر صحابہ کے سب ادوار میں رہا۔پھر تابعین میں ہوا۔ان میں سے کسی نے بھی اس پر کسی کو معیوب نہ جانا۔صحابہ کے بعد والوں میں بھی اسی طرز پر اختلاف ہوا اور اس میں توسیع بھی ہوئی’’(الاعتصام از امام ابو اسحاق الشاطبی۸۰۹)امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:‘‘وامالاختلاف فی (الاحکام)فاکثر من ان ینضبط ولو کان کل ما اختلف مسلمان فی شئی تھاجرا۔لم یبق بین المسلمین عصمۃ ولا اخوۃ’’(فتاوی ابن تیمیہ۲۴/۱۷۳)مسائل احکام میں تو اس قدر اختلاف ہوا ہے کہ اس کا ضبط میں آنا ممکن نہیں،اگر کہیں ایسا ہوتا کہ جب بھی کبھی دو مسلمانوں میں کسی مسئلے کی بابت اختلاف ہو تو ایک دوسرے سے قطع تعلقی اختیار کرلی جاتی تو مسلمانوں میں کسی عصمت یا اخوت کا نام تک باقی نہ رہتا’’رسول اللہﷺکی وفات کے بعد صحابہ کرام مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔مدینہ میں ام المومنین عائشہ صدیقہ،زید بن ثابت اور عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ لوگوں کو دین سکھلانے لگے،تابعین کے دور میں سعید بن مسیب،عروہ بن زبیر،پھر امام زہری اور یحییٰ بن سعد آئے۔پھر امام مالک رحمہ اللہ ان سب کا علم مدون کردیا۔مکہ مکرمہ میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے دینی حلقہ قائم کیا۔ان سے عکرمہ،مجاہد اور عطارحمہ اللہ نے دین سیکھ کر پھیلایا۔پھر سفیان بن عیینہ اور مسلم بن خالد آئے اور آخر کار محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ نے ان سے منقول شدہ احادیث اور فتاوی جمع کر دئیے۔عراق اور کوفہ میں سیدنا علی بن ابی طالب اور سیدنا عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے اللہ کے دین کا روشن کیا۔ان کے شاگرد علقمہ بن قیس اور قاضی شریح نے یہ دین ابراہیم نخعی اور پھر حماد بن سلیمان سے ہوتے ہوئے امام ابو حنیفہ نعمان رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد امام ابو یوسف اور امام محمدوغیرہ تک وہ فتاوی آئے۔جب خلیفہ منصور نے امام مالک رحمہ اللہ سے مشورہ کیا کہ مؤطا مالک کو سب مسلم خطوں میں نافذ کر دیا جائے تو امام مالک رحمہ اللہ نے جوجواب دیاوہ ہمارے لیے قابل غور ہے۔امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ کے الفاظ یو ں نقل کرتے ہیں:اصحاب رسولﷺملکوں کے اندر بکھر گئے تھے۔اب ہر قوم ان کے علم سے وہ چیز لے چکی ہے جوان کو صحابہ سےپہنچی تھی۔(مجموع الفتاوی)امام ذہبی رحمہ اللہ یوں نقل کرتے ہیں:‘‘اے امیر المومنین ایسا مت کیجیے کیونکہ اس سے قبل لوگوں کے ہاں اقوال پہنچے ہوئے ہیں۔ان کو احادیث اور روایات ملی ہوئی ہیں۔اصحاب رسول اور دیگر اہل علم کے اختلاف سے ہر قوم کو جو چیز پہنچی وہ اس کو لے چکی اور اس کو معمول بنا کر بطور دین اختیار کر چکی ہے۔اب لوگ جس بات کے قائل ہو چکے اس سے ان کو ہٹانا شدید بات ہے۔لہٰذا لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے۔ہر ملک کے لوگوں نے جو کچھ اختیار کیا ہے ان کو اسی پر رہنا دیجئے’’(سیر اعلام النبلاء)اجتہادی مسائل کا اختلاف کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہوکبھی صحابہ نے ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کی۔دیکھیے عائشہ،معاویہ اور علیکے مابین اختلاف نے کتنی شدت اختیار کی مگر اس کے باوجود انہوں نے ایک دوسرے کو مسلمان ہی سمجھا ۔ملاحظہ فرماہیں:عن رباع بن ھارث قال:انا لبواد،وان رکبتی لتکادتمس رکبۃ عمار بن یاسر اذ أقبل رجل فقال:کفر واللہ أھل الشام۔فقال عمار:لا تقل ذلک،فقبلتنا و احدۃ،ونبینا واحد،ولکنھم قوم مفتونون،فحق علینا قتالھم حتی یر جعواالی الحقرباح بن حارث کہتے ہیں ہم عمار بن یاسررضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک وادی میں تھے(عمار بن یاسرسیدنا علیرضی اللہ عنہ کے ساتھی تھےاورآپ کے بارے میں نبی کریمﷺنے یہ خبر دی تھی کہ آپ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔چنانچہ آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ کے ہاتھوں شہید ہوئے)ایک آدمی آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا اللہ کی قسم!اہل شام(معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھی)کافر ہوگئے۔عماررضی اللہ عنہ نے کہا:ایسا مت کہو،ہمارا قبلہ ایک ہے،نبی ایک ہے۔صحیح بات یہ ہے کہ وہ فتنہ زدہ لوگ ہیں جن سے قتال کرنا ہم پر واجب ہےیہاں تک کے وہ حق کی طرف لوٹ آئیں۔ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا:لا تقولوا:کفر أھل الشام۔قولوا:فسقوا،قولوا:ظلموا‘‘یہ نہ کہو کہ اہل شام نے کفر کیا،کہو انہوں نے فسق کیا،ظلم کیا’’(منھاج السنہ۵/۲۴۶)یاد رہے کہ جنگ جمل و صفین میں گنتی کے چند صحابہ نے شرکت کی تھی۔ان کا مقصد بھی جنگ کرنا نہیں تھا بلکہ ان دو گروہوں میں اصلاح کروانا تھا۔ان جنگوں کو بھڑکانے میں اصل کردار منافقین اور سبائی پارٹی کا تھا۔قال عبداللہ بن الامام احمد:حدثنا أبی،حدثنا اسماعیل یعنی ابن علیۃ،حدثنا ایوب السختیانی،عن محمد بن سیرین،قال:ھاجت الفتنۃ و أصحاب رسول اللہﷺ عشرۃآلاف،فما حضرھا منھم مائۃ،بل یبلغوا ثلاثین(السنۃ للخلال۴۴۶/۱)امام ابن تیمیہ اس روایت کی سند کے بارے میں فرماتے ہیں:و ھذاالاسناد من اصح اسناد علی وجہ الارض(منھاج السنہ۲۳۶/۶)جب کسی فقہی معاملہ میں ایک سے زیادہ آراء ہوں توایک دوسرے پر طعن و تشنیع کی بجایے فقہ میں (١) قرآن (٢) سنت کے بعد (٣)اجماع کا اصول اپنایا جاتا ہے اور اس کا احترام کیا جاتا ہے کیوں کہ رسول اللہﷺ کا (صلى الله عليہ وسلم) کا ارشاد ہے: “عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ لَايَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْقَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ”۔ (ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الْجَمَاعَةِ، كِتَاب الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حدیث نمبر:۲۰۹۳)ترجمہ:حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ:اللہ تعالٰیٰ میری امت کو یا (راوی نے کہا) کہ محمد صلى الله عليه وسلم کی اُمت کو ضلالت وگمراہی پر مجتمع نہیں کریگا۔نیز آپ (صلى الله عليه وسلم) کا فرمان ہے: “فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَهُوَعِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ وَمَارَأَوْا سَيِّئًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ”۔(مسندِاحمد، حدیث نمبر۳۶۰۰)ترجمہ:جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے اور جس چیز کو مسلمان بُرا سمجھیں وہ اللہ تعالٰیٰ کے نزدیک بھی بری ہے۔ایک اور موقع سے آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: “مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْراً فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ”(مشکوٰۃ:۳۱)ترجمہ:جوشخص جماعت سے بالشت برابر جدا ہوا تواس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے الگ کردی۔اگر ہر شخص کو اختیار ہو کہ مسائلِ غیر منصوصہ میں جو چاہےاپنی رائے قائم کر لے تو بتلائیےیہ دینِ متین کھلونا بنے گا یا نہیں؟ ہر فردِ بشر اپنی عقلِ نارسا کو حرفِ آخر گرداننے لگے گا اور اسی کے مطابق عمل کرے گا، اس مضحکہ خیز صورتِ حال پر سوائے ہنگامہ آرائی کے اور کیا ہوگا ؟“اجماع”، فقہ اسلام کی ایک اصطلاح اور اسلامی شریعت کا تیسرا اہم مآخد ہنے.اجماع سے مراد علمائے امت کا یا ان کی بڑی اکثریت کا، ہر زمانے میں کسی مسئلہ پر متفق ہوجانا ہنے. کسی ایسے فقہی معاملہ جس پرعلماء اور جمہور کا اجماع ہو اس پر ضرورت سے زیادہ اصرار کرنا امت میں فکری کنفیوژن، تفرقہ، فتنہ و فساد کا باعث ہو سکتا ہے. متنازعہ فقہی مسائل پر علمی بحث کے لیے مناسب فورم اعلی مدارس، تعلیمی تحقیقی ادارہ جات اور یونیورسٹیاں ہیں نہ کہ عوام الناس-
لہٰذاہ کسی ایک کو مکمل طور پر غلط یا مکمل طور پر درست قرار دینا اپنی تحقیق اور علم پرover confidence ہے- امام شافی کا ایک قول ہے :
اللَّـهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے(النور 24:35)
محکمات اور متشابہات آیات:
هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّـهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ ﴿٧﴾
اگر کوئی شخص سوال کرے’’ اَیْنَ اللّٰہُ ؟‘‘ ( اللہ کہاں ہے ؟) تو اس کا جواب یہ دینا چاہیے :’’ھُوَ مَوْجُوْدٌ بِلَا مَکَانٍ‘‘
جواب : اللہ تعالیٰ جہاتِ ستہ سے اگرچہ پاک ہیں‘ لیکن تمام جہات کو محیط بھی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شّیْئٍ مُّحِیْطًا (سورہ نساء ؛126)اللہ تعالیٰ ہر چیز کو محیط ہے‘ اور جہاتِ ستہ میں سے جہت ِعلو کو باقی جہات پر عقلاً فوقیت حاصل ہے ۔ اس لئے علوِ مرتبہ اور تعظیم کا خیال کرتے ہوئے اشارہ اوپر کیا جاتا ہے۔ جیسے استاد کی آواز دورانِ سبق تمام جہات کی طرف منتقل ہوتی ہے لیکن استاد کے سامنے بیٹھ کر آواز کو سننا ادب ہے اور پیچھے بیٹھ کر سننا بے ادبی ہے ۔
مسائل احکام میں تو اس قدر اختلاف ہوا ہے کہ اس کا ضبط میں آنا ممکن نہیں،اگر کہیں ایسا ہوتا کہ جب بھی کبھی دو مسلمانوں میں کسی مسئلے کی بابت اختلاف ہو تو ایک دوسرے سے قطع تعلقی اختیار کرلی جاتی تو مسلمانوں میں کسی عصمت یا اخوت کا نام تک باقی نہ رہتا’ اجتہادی مسائل کا اختلاف کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہوکبھی صحابہ نے ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کی۔دیکھیے عائشہ،معاویہ اور علیکے مابین اختلاف نے کتنی شدت اختیار کی مگر اس کے باوجود انہوں نے ایک دوسرے کو مسلمان ہی سمجھا- اگر ہر شخص کو اختیار ہو کہ مسائلِ غیر منصوصہ میں جو چاہےاپنی رائے قائم کر لے تو کیا یہ دینِ متین کھلونا بنے گا یا نہیں؟
ہر فردِ بشر اپنی عقلِ نارسا کو حرفِ آخر گرداننے لگے گا اور اسی کے مطابق عمل کرے گا، اس مضحکہ خیز صورتِ حال پر سوائے ہنگامہ آرائی کے اور کیا ہوگا ؟
“اجماع”، فقہ اسلام کی ایک اصطلاح اور اسلامی شریعت کا تیسرا اہم مآخد ہنے.اجماع سے مراد علمائے امت کا یا ان کی بڑی اکثریت کا، ہر زمانے میں کسی مسئلہ پر متفق ہوجانا ہنے. کسی ایسے فقہی معاملہ جس پرعلماء اور جمہور کا اجماع ہو اس پر ضرورت سے زیادہ اصرار کرنا امت میں فکری کنفیوژن، تفرقہ، فتنہ و فساد کا باعث ہو سکتا ہے.
متنازعہ فقہی مسائل پر علمی بحث کے لیے مناسب فورم اعلی مدارس، تعلیمی تحقیقی ادارہ جات اور یونیورسٹیاں ہیں نہ کہ عوام الناس-
لہٰذاہ کسی ایک کو مکمل طور پر غلط یا مکمل طور پر درست قرار دینا اپنی تحقیق اور علم پرover confidence ہے- امام شافی کا ایک قول ہے :
ہم کو چاہیے کہ فضول بحث برا یے بحث ، اختلاف ، توہین ، دشنام ترازی ، فتویٰ بازیسے پرہیز کریں- دین کا علم حاصل کرنے کی کوشس کریں-
اللہ ہم کو کریم دین کا صحیح فہم عطا فرمائے۔
هْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾
ہمیں سیدھا راستہ دکھا (6) اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں (1:7)
لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ﴿٢٨٦﴾
اللہ کسی متنفس پر اُس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے، اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے، اس کا وبال اسی پر ہے (ایمان لانے والو! تم یوں دعا کیا کرو) اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں، ان پر گرفت نہ کر مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے پروردگار! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ، ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے در گزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر(٢:٢٨٦ )
http://raahedaleel.blogspot.com/2012/12/allah-kahan-he.html
http://ahnafmedia.com/question-a-answers/item/4457-allah-pak-kahan-hy-where-is-allah http://alwaght.com/ur/News/66912/
http://dailypakistan.com.pk/columns/09-Oct-2016/458524
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=21897
http://ahnafmedia.com/question-a-answers/item/4457-allah-pak-kahan-hy-where-is-allah
http://salafiexpose.blogspot.com/2015/06/allah-ki-zaat-kay-mutaliq-ulma-e.html
اہل حدیث کا عقیده: http://forum.mohaddis.com/threads/34033
ختلاف کے اسباب و محرکات پر بحث کرنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے۔کہ اسلام میں اختلاف کی حقیقت کیا ہے؟ایک طرف تو قرآن ان لوگوں کے انتہاٰ ئی مذمت کرتا ہے۔جو کتاب اللہ کے آجانے بعد تفرقے اور اختلاف میں پڑ جاتے ہیں اور اپنے دین کے ٹکٹرے ٹکڑے کر ڈالتے ہیں اور دوسری طرف قرآن کے احکام کی تعبیروتفسیر میں صرف متاخرین ہی نہیں آئمہ اور تابعین اور خود صحابہؓ تک کے درمیان اختلاف پائے جاتے ہیں کہ شاید کوئی ایک بھی احکامی آیت ایسی نہ ملے گی جس کی تفسیر بالکل متفق علیہ ہوتو پھر ایک سوال ذ ہن میں ابھرتا ہے کہ کیا یہ بھی کوئی اس مذمت کے مصداق ہیں جو قرآن میں وارد ہوئی ہے اور اگر ایسا نہیں تو پھر کونسا اختلاف ہے جس سے قرآن نے منع فرمایا ہے اور انہی دو اختلاف میں فرق واضح کرنا مقصود ہے …. مزید پڑھیں <<اختلاف فقه اور اتحاد مسلم>>
- مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی اپنے فتاویٰ نذیریہ جلد1 صفحہ 141 میں فرماتے ہیں: کہ رفع یدین میں جھگڑاکرنا تعصب اور جہالت کی بات ہے ، کیونکہ آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دونوں ثابت ہیں ، دلایل دونوں طرف ہیں۔
- نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپالی جماعتِ غیر مقلدین کے بڑے اونچے عالم اور مجدد وقت تھے ، ان کی کتاب روضہ الندیہ غیر مقلدین کے یہاں بڑی معتبر کتاب ہے، نواب صاحب اس کتاب میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب سے نقل کرتے ہوے فرماتے ہیں۔
- ۔”رفع یدین و عدم رفع یدین نماز کے ان افعال میں سے ہے جن کو آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے ، اور سب سنت ہے ، دونوں بات کی دلیل ہے ، حق میرے نزدیک یہ ہے کہ دونوں سنت ہیں۔۔۔(صفحہ 148)”۔
- اور اسی کتاب میں حضرت شاہ اسماعیل شہید کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں ولا یلام تارکہ و ان ترکہ مد عمرہ (صفحہ 150)۔ یعنی رفع یدین کے چھوڑنے والے کو ملامت نہیں کی جاے گی اگرچہ پوری زندگی وہ رفع یدین نہ کرے۔
- غیر مقلدین کے بڑے اکابر بزرگوں کی ان باتوں سے پتا چلا کہ ان لوگوں کے نزدیک رفع یدین کرنا اور نہ کرنا دونوں آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور دونوں سنت ہیں،
روایات و آثار چونکہ دونوں طرف وارد ہیں تو ائمہ مجتہدین نے ان پر نظر کرنے اور غور و فکر کرنے کے بعد اپنا اپنا نظریہ بیان کیا اور یوں ان کی رائے میں اختلاف ہوا جو سراسر فرعی ہے۔ چنانچہ جو مجتہدین اپنی رائے میں صواب کو پہنچے تو ان کے لئے دوہرا اجر، اور اگر اس سلسلے میں کسی سے خطا ہوئی تو ایک اجر کا استحقاق تو اس کے لیے بھی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان دونوں میں سے عمل کس حکم پر کیا جائے؟
جواب ظاہر ہے کہ جو شخص شریعت کے ان فروعی اختلافی معاملات میں کسی مسلمہ شخصیت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اس کی پیروی کرے وہ اسی کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرے گا اور کسی دوسرے امام کے طریقے پر عمل کرنے والے پر طعن و تشنیع نہیں کرے گا۔ جو لوگ ان معاملات کی حقیقت کو سمجھتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ: