فکری غذا
پاکستان میں رہنے والے اہل علم و فکر کے سامنے کئی ایسے پہلو ہیں جن پر غورکرنے اور بحث و تمحیص کے بعد کوئی لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔
دینی فکر رکھنے والے دائیں بازو کے لوگ ہوں یا لبرل و سیکولر سوچ رکھنے والے حلقے، ان سب کے لیے ریاست کو درپیش چیلنجز بنیادی ترجیح ہے۔
شدت پسندی، اس کے محرکات، اسے قوت فراہم کرنے والا بیانیہ اور ریاست کی ہیٔت کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات سب کے لیے اہم ہیں۔
دینی حلقے اپنے انداز سے اس ایشو کا سامنا کر رہے ہیں اور سیکولر سوچ کا اپنا لائحہ عمل ہے۔ ایک بڑا ایشو البتہ بنیادی طور پر دینی سوچ رکھنے والے معتدل طبقات اور روایتی دینی حلقوں کی دلچسپی اور توجہ کا مرکز ہے۔
چند بنیادی سوالات ہیں۔
(1) مغربی تہذیب کے غلبے سے مسلم تہذیب کو کس طرح بچایا جائے؟
(2) مسلم تہذیب کو دنیا کے سامنے کس طرح مستحکم بنیادوں پر استوار کر کے پیش کیا جا سکتا ہے؟
(3) مغرب کے ساتھ تعلق کی نوعیت کیا ہو؟
(4) مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کا رویہ، مسلم امہ کی بقا، مسلم تہذیب، اسلامی بینکاری، بلاسود مائیکرو کریڈٹ فنانس (اخوت ماڈل) اور اس طرح کے دیگر ملتے جلتے موضوعات ہمارے رائٹ ونگ، سنٹر آف دی رائٹ یا زیادہ واضح اصطلاح میں دینی سوچ رکھنے والے لوگوں کا مسئلہ ہیں۔
یہ لبرلز یا سیکولر دوستوں کا ایشو نہیں کہ وہ تو سر ے سے مسلم تہذیب، مسلم امہ وغیرہ کی اصطلاحات ہی سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔
جو لوگ البتہ اللہ کے دین کے لیے جدوجہد کرنا چاہتے ہیں، اسے سرفراز دیکھنا اوررب کی خوشنودی پانے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو مکمل طور پر یا کم از کم ان کا ایک حصہ اس جانب کھپانا چاہتے ہیں، ان کے لیے یہ محض اصطلاحات نہیں، بلکہ مقصد حیات ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ جہاں مجموعی طور پر ایک خوفناک قسم کے جمود کا شکار ہو چکا ہے، فکری حوالے سے یہ صورت حال زیادہ گمبھیر ہے۔ لگتا ہے جیسے ہم کسی جوہڑ میں رہ رہے ہوں۔
ادیب، صوفی اور دانشور احمد جاوید کے تازہ انٹرویو نے اس جمود کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کئی موضوعات پرایک شاندار بیانیہ تشکیل دیا ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ اس بیانیہ پر بات کریں، اس کے مختلف پہلوئوں کاجائزہ لیں اور ایک سنجیدہ فکری مکالمے کی بنیاد ڈالیں۔
اب اس انٹرویو کے چند مزید اقتباسات جو مختلف موضوعات کا عمدگی سے احاطہ کرتے ہیں۔
”سیکولرازم اور لبرل ازم دونوں جڑواں بہنیں ہیں۔ لبرل ازم ایک رویہ ہے، سیکولرازم ایک نظام ہے۔
سیکولرازم کا مطلب ہے کہ دنیا کے معاملات انسان چلائے گا، اس کے لیے کسی خدائی ہدایت نامے کی ضرورت نہیں۔
لبرل ازم کا مطلب ہے کہ کفر بھی ٹھیک ہے، ایمان بھی ٹھیک ہے، آدمی کو کافر ہونے کا بھی کھلا موقع ملنا چاہیے، مومن ہونے کا راستہ بھی صاف رہے۔ یہ رویہ ہے کہ کافر سے اس کے کفر کی بنیاد پر دوری نہ محسوس کرنا اورمومن سے اس کے ایمان کی بنیاد پرخصوصی محبت محسوس نہ کرنا، یہ لبرل ازم ہے۔
کوئی مذہبی آدمی سیکولر نہیں ہوسکتا۔
سیکولر ہونے کا مطلب ہے دنیا میں خدا کے اختیارات سلب کر لینا، خدا کو غیر متعلق کر دینا۔۔۔۔ تو سیکولر ازم مذہب، خاص کر اسلام کی نفی ہے۔ عیسائیت نے تو اس پوزیشن کو قبول کر لیا کہ چلو دین انفرادی معاملہ ہے، لیکن اسلام کا تو دعویٰ ہی اس بات پر ہے کہ انسان، اس کی انفرادیت، اجتماعیت سب کی سب اسلام کے دائرے میں ہونی چاہیے، یعنی اسلام کو انسان کی انفرادی، اجتماعی سرگرمیوں کا مرکز ہونا چاہیے۔ سیکولرازم اس کو مانتا ہی نہیں، کہتا ہے مرکز انسان خود ہے‘‘۔