صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین گناہوں سے معصوم نہیں، صرف اللہ کے پیغمبروں کو یہ اعزاز حاصل ہے- اگرچہ صحابہ کرام رضوان اللہ سے گناہ بھی سر زد ہو سکتے ہیں اور ہوئے بھی ہیں، لیکن اس کے باوجود امت کے لئے یہ جائز نہیں کہ ان کی طرف کسی برائی اور عیب کو منسوب کرے، جب اللہ تعالیٰ اور اس کو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی اتنی بڑی لغزشوں اور خطاؤں کو معاف کر کے ان کے ساتھ لطف و کرم کا معاملہ فرمایا اور ان کو “(رض) و رضوا عنہ” کا مقام عطا فرمایا، تو پھر کسی کو کیا حق ہے کہ ان میں سے کسی کا برائی کے ساتھ تذکرہ کرے-
The Sahabah are the best of the ummah after the Prophet, but they are not infallible. Muslims believe in the good character and virtue of the Sahaba, the pious companions of Prophet Muhammad (peace be upon him). However Sahaba were not infallible, they were human beings like any others. Whatever sins or mistakes any of them may have made maybe overlooked in comparison to the honour of accompanying the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) and they were forgiven and pardoned.… [……..]
اللہ نے ان کی لغزشوں کو معاف فرما کر قرآن میں اعلان فرما دیا تاکہ تا قیامت کسی کو شک نہ رہے ۔۔ بڑے بڑے بزرگ ، ولی اللہ، اور ہمارے جیسے گناہگار ہر وقت اللہ سے بخشش کے طلبگار رہتے ہیں، کہ شائید اللہ ہمیں معاف فرما دے۔۔ مگر صحابہ اکرام کی معافی کا ابدی اعلان ان کی عظمت اور بلند مرتبہ کا مظہر ہے ۔
اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ۔
جو لوگ صحابہ پر تبرہ بازی کرتے ہیں وہ دیکھ لین کہ وہ قرآن کی آیات کے خلاف عمل کرتے ہیں،ان کی کتب سے ائمہ کرام کے ارشادات آخر میں موجود ہیں ۔۔ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ۔۔
الله کا فرمان ہے:
وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّـهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُم بِإِذْنِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَعَصَيْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَاكُم مَّا تُحِبُّونَ ۚ مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ وَلَقَدْ عَفَا عَنكُمْ ۗ وَاللَّـهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ ﴿١٥٢﴾ إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَىٰ أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِّكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴿١٥٣آل عمران ﴾
“اللہ نے (تائید و نصرت کا) جو وعدہ تم سے کیا تھا وہ تو اُس نے پورا کر دیا ابتدا میں اُس کے حکم سے تم ہی اُن کو قتل کر رہے تھے مگر جب تم نے کمزوری دکھائی اور اپنے کام میں باہم اختلاف کیا، اور جونہی کہ وہ چیز اللہ نے تمہیں دکھائی جس کی محبت میں تم گرفتار تھے (یعنی مال غنیمت) تم اپنے سردار کے حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھے اس لیے کہ تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طالب تھے اور کچھ آخرت کی خواہش رکھتے تھے تب اللہ نے تمہیں کافروں کے مقابلہ میں پسپا کر دیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے اور حق یہ ہے کہ اللہ نے پھر بھی تمہیں معاف ہی کر دیا کیونکہ مومنوں پر اللہ بڑی نظر عنایت رکھتا ہے (152) یاد کرو جب تم بھاگے چلے جا رہے تھے، کسی کی طرف پلٹ کر دیکھنے تک کا ہوش تمہیں نہ تھا، اور رسولؐ تمہارے پیچھے تم کو پکار رہا تھا اُس وقت تمہاری اس روش کا بدلہ اللہ نے تمہیں یہ دیا کہ تم کو رنج پر رنج دیے تاکہ آئندہ کے لیے تمہیں یہ سبق ملے کہ جو کچھ تمہارے ہاتھ سے جائے یا جو مصیبت تم پر نازل ہو اس پر ملول نہ ہو اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے” (3:153 قرآن ، ال عمران)
الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا ۖ وَلَقَدْ عَفَا اللَّـهُ عَنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ ﴿١٥٥ آل عمران﴾
“تم میں سے جو لوگ مقابلہ کے دن پیٹھ پھیر گئے تھے اُن کی ا ِس لغزش کا سبب یہ تھا کہ ان کی بعض کمزوریوں کی وجہ سے شیطان نے اُن کے قدم ڈگمگا دیے تھے اللہ نے انہیں معاف کر دیا، اللہ بہت درگزر کرنے والا اور بردبار ہے” ( 3:155قران)
یہ ایک حساس معاملہ ہے اپنی ذاتی رایے کی بجایے مستند تفاسیر سے قاری خود سمجھ سکتا ہے-
تفسیر بیان القران:
آیت ١٥٥ (اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا مِنْکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ لا) – یہ ایسے مخلص حضرات کا تذکرہ ہے جو اچانک حملے کے بعد جنگ کی شدت سے گھبرا کر اپنی جان بچانے کے لیے وقتی طور پر پیٹھ پھیر گئے۔ ان میں سے کچھ لوگ کوہ احد پر چڑھ گئے تھے اور کچھ اس سے ذرا آگے بڑھ کر میدان ہی سے باہر چلے گئے تھے۔ ان میں بعض کبار صحابہ (رض) کا نام بھی آتا ہے۔ دراصل یہ بھگڈر مچ جانے کے بعد ایسی اضطراری کیفیت تھی کہ اس میں کسی سے بھی کسی ضعف اور کمزوری کا اظہار ہوجانا بالکل قرین قیاس بات ہے۔ – (اِنَّمَا اسْتَزَلَّہُمُ الشَّیْطٰنُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُوْا ج) ۔- کسی وقت کوئی تقصیر ہوگئی ہو ‘ کوئی کوتاہی ہوگئی ہو ‘ یا کسی کمزوری کا اظہار ہوگیا ہو ‘ یہ مخلص مسلمانوں سے بھی بعید نہیں۔ ایسا معاملہ ہر ایک سے پیش آسکتا ہے۔ معصوم تو صرف نبی ہوتے ہیں۔ انسانی کمزوریوں کی وجہ سے شیطان کو موقع مل جاتا ہے کہ کسی وقت وہ اڑنگا لگا کر اس شخص کو پھسلا دے ‘ خواہ وہ کتنا ہی نیک اور کتنا ہی صاحب رتبہ ہو۔ – ( وَلَقَدْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہُمْ ط) ۔- یہ الفاظ بہت اہم ہیں۔ بعض گمراہ فرقے اس بات کو بہت اچھالتے ہیں اور بعض صحابہ کرام (رض) کی توہین کرتے ہیں ‘ ان پر تنقید کرتے ہیں کہ یہ میدان جنگ سے پیٹھ دکھا کر بھاگ گئے تھے۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی معافی کا اعلان کرچکا ہے۔ اس کے بعد اب کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ ان پر زبان طعن دراز کرے۔ (تفسیر بیان القران : ڈاکٹر اسرار احمد)
غزوہ احد مین افراتفری میں جو لوگ بھاگ کھڑے ہوئے تھے اور نبیء کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بارہ یا چودہ اصحاب کے سوا کوئی باقی نہ رہا۔
انہیں پہلے مثردہ سنایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی غلطی معاف فرما دی۔ ان کی مزید تسکین خاطر کے لئے اسی خوشخبری کو دہرایا جا رہا ہے۔
ایک دفعہ حضرت عثمان اور حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما میں کسی بات پر تیز کلامی ہو گئی۔ تو حضرت عبد الرحمن نے حضرت عثمان سے کہا کہ تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ مجھے برا بھلا کہو۔ کیونکہ:
١.میں بدر میں شریک تھا اور غیر حاضر تھے۔
٢.میں نے بیعت رضوان کی اور آپ نے نہیں کی۔ اور
٣.میں احد میں ثابت قدم رہا اور تم نہ رہے۔
تو حضرت عثمان نے جواب میں فرمایا کہ:
١.غزوہ بدر میں میری غیر حاضری کی خاص وجہ تھی۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صاحبزادی (ان کی زوجہ محترمہ ) بیمارتھیں اور میں ان کی تیمار داری اور خدمت گزاری میں رہا اور حضور کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھے مجاہدین بدر کے سے اجر کی خوشخبری بھی دی اور مال غنیمت سے مجھے ان کے برابر حصہ بھی دیا۔
٢.بیعت رضوان کے وقت میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا سفیر بن کر کفار مکہ کے پاس گیا ہوا تھا اور جب تم لوگ بیعت کر چکے تو حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھ کر فرمایا ھذہ لعثمان یہ ہاتھ عثمان کی طرف سے ہے فیمین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) وشمالہ خیر لی من یمینی وشمالی ۔ میرے دائیں بائیں ہاتھ سے سرور عالم کا دایاں اور بایاں ہاتھ میرے لئے ہزار درجہ بہتر ہے۔
٣.باقی رہا غزوہ احد کا حادثہ تو اس کے متعلق خود اللہ کریم نے فرما دیا لقد عفا اللہ عنہم کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بخش دیا۔ یہ مسکت جواب سن کر حضرت عبد الرحمن کو خاموش ہونا پڑا۔ (تفسیر ضیا القران )
تفسیر :
“ببعض ماکسبوا” سے معلوم ہوتاہے کہ ایک گناہ سے دوسرا گناہ پیدا ہوتا ہے جیسا کہ ایک طاعت سے دوسری طاعت کی توفیق بڑھتی جاتی ہے۔
بعض معاندین صحابہ نے اس واقعہ سے صحابہ پر خصوصا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر طعن کیا ہے اوراس سے عدم صلاحیت خلافت کی مستنبط کی ہے لیکن یہ محض مہل بات ہے جب اللہ نے معاف کردیا اب دوسروں کومواخذہ کرنے کاحق رہا قصہ خلافت کاسواہل حق کے نزدیک خلافت کے لیے عصمت شرط نہیں ہے۔
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿١٠٠﴾
وہ مہاجر و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوت ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی، نیز وہ جو بعد میں راستبازی کے ساتھ پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، یہی عظیم الشان کامیابی ہے (9:100 قران)
تفسیر معارف القرآن:
احد کے مصائب سزا نہیں بلکہ آزمائش تھے اور جو لغزش بعض صحابہ کرام سے ہوئی وہ معاف کردی گئی “ولیبتلی اللہ ما فی صدور کم آلایتہ” سے معلوم ہوا کہ غزوہ احد میں جو مصائب اور تکالیف صحابہ کرام کو پیش آئیں وہ بطو سزا نہیں بلکہ بطور آزمائش تھیں، اس امتحان کے ذریعہ مؤ منین، مخلصین اور منافقین میں فرق کا اظہار کرنا تھا اور “اثابکم غماً” کے الفاظ سے جو اس کا سزا ہونا معلوم ہوتا ہے اس کی تطبیق یہ ہے کہ صورت تو سزا ہی کی تھی مگر یہ سزا مربیانہ اصلاح کے لئے تھی، جیسے کوئی بات اپنے بیٹے کو، استاذ اپنے شاگرد کو کچھ سزا دیتا ہے تو عرف میں اس کو سزا بھی کہہ سکتے ہیں، مگر درحقیقت یہ تربیت اور اصلاح کی ایک صورت ہوتی ہے، حاکمانہ سزا اس سے مختلف ہے۔
واقعہ احد میں مسلمانوں پر مصائب کے اسباب کیا تھے؟
جملہ مذکور “لیبتلی” سے آخر آیت تک جو ارشاد ہے اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ وقوع مصائب کا سبب یہ ربانی حکمتیں تھیں، لیکن اگلی آیت میں “انما استزلھم الشیطان بعض ماکسبو”ا سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات کی کوئی سابقہ لغزش اس شیطانی اثر کا سبب ہے۔ جواب یہ ہے کہ ظاہری سبب تو وہ لغزش ہی ہوئی کہ اس کی وجہ سے شیطان کو ان سے اور معصیت کرا دینے کی بھی طمع ہوگئی اور اتفاق سے اس کی وہ طلمع پوری بھی ہوگئی، مگر اس لغزش اور اس کے پیچھے آنے والے نتائج میں یہ تکوینی حکمتیں مستر تھیں، جن کو “لیبتلیکم” دلائے جن کو لے کر حق تعالیٰ سے ملنا ان کو اچھا نہ معلوم ہوا، اس لئے جہاں سے ہٹ گئے، تاکہ وہ اپنی حالت کو درست کر کے پھر پسندیدہ حالت پر جہاد کریں اور شہید ہو کر اللہ سے ملیں۔
ایک گناہ دوسرے گناہ کا بھی سبب ہوجاتا ہے۔ آیت مذکورہ سے معلوم ہوا کہ ایک گناہ دوسرے گناہ کو کھینچ لاتا ہے، جیسے ایک نیکی دوسری کو کھینچتی ہعے، بعض اعمال حسنہ اور سیسہ میں تجاذب ہے، جب انسان کوئی ایک نیک کام کرلیتا ہے تو تجربہ شاہد ہے اس کے لئے دوسری نیکیاں بھی آسان ہوا کرتی ہیں، اس کے دل میں نیک اعمال کی رغبت بڑھ جاتی ہے، اسی طرح انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو وہ اس کے دسرے گناہوں کا راستہ ہموار کردیتا ہے، دل میں گناہ کی رغبت بڑھ جاتی ہے، اسی لئے بعض بزرگوں نے فرمایا۔
” یعنی نیک کام کی ایک نقد جزاء وہ دوسری نیکی ہے جس کی توفیق اس کو ہوجاتی ہے اور برے عمل کی ایک سا وہ دوسرا گناہ جس کے لئے پہلے گناہ نے راستہ ہموار کردیا ہے۔ حضرت حکیم الامت نے مسائل السلوک میں فرمایا کہ حدیث کی تصریح کے مطابق گناہ سے قلب میں ایک ظلمت اور تاریکی پیدا ہوجاتی ہے اور جب قلب میں ظلمت آجاتی ہے تو شیطان قابو پا لیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک صحابہ کرام کا مقام بلند اور ان کی خطاؤں پر عفو و درگذر کا بیمثال معاملہ:
واقعہ احد میں جو لغزشیں اور خطائیں بعض اصحاب کرام سے صادر ہوئیں وہ اپنی ذات میں بڑی شدید اور سخت تھیں، جس مورچہ پر پچاس صحابہ کو یہ حکم دے کر بٹھایا تھا کہ ہم پر کچھ بھی حال گذرے تم یہاں سے نہ ہٹنا، ان کی بڑی تعداد یہاں سے ہٹ گی، اگرچہ ہٹنے کا سبب ان کی یہ اجتہادی غلطی سہی کہ اب فتح ہوچکی ہے اس حکم کی تعمیل پوری ہوچکی ہے، یہاں سے نیچے آ کر سب مسلمانوں کے ساتھ مل جانا چاہئے، مگر درحقیت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی واضح ہدایات کے خلاف تھا، اسی خطاء و قصور کے نتیجہ میں میدان جنگ سے بھاگنے کی غلطی سر زد ہونی چاہئے اس میں بھی کسی تاویل ہی کا سہارا لیا گیا ہو، جیسا کہ زجاج سے اوپر نقل کیا جا چکا ہے پھر یہ میدان جنگ سے بھاگنا ایسی حالت میں ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ساتھ ہیں اور پیچھے سے ان کو آواز دے رہے ہیں، یہ چیزیں اگر شخصیات اور گرد و پیش کے حالات سے الگ کر کے دیکھی جائیں تو بلاشبہ سخت ترین اور ایسے سنگین جرم تھے، کہ مشاجرات صحابہ کے سلسلہ میں مختف صحابہ پر جتن الزامات مخالفین کی طرف سے لگائے جاتے ہیں یہ ان سب سے زیادہ شدید جرائم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مگر غور کیجئے کہ حق تعالیٰ نے ان تمام خطاؤں اور لغزشوں کے بعد بھی ان حضرات کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا، وہ مذکورہ آیات میں بڑی وضاحت سے آگیا کہ اول ظاہری انعام اونگھ کا بھیج کر انکی تکلیف اور تکان و پریشانی دور کی گئی، پھر یہ بتلایا گیا کہ جو مصائب اور غم مسلمانوں کو اس وقت پہنچا ہے وہ نری سزا اور عقوبت نہیں بلکہ اس میں کچھ مربیانہ حکمتیں مستور ہیں، پھر صاف لفظوں میں معافی کا اعلان فرمایا، یہ سب چیزیں ایک مرتبہ اس سے پہلے آ چکی ہیں، اس جگہ پھر ان کا اعادہ فرمایا، اس تکرار کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ پہلی مرتبہ تو خود صحابہ کرام کی تسلی کے لئے یہ ارشاد فرمایا گیا اور اس جگہ منافقین کے اس قول کا رد بھی مقصود ہے، جو وہ مسلمانوں سے کہتے تھے کہ تم نے ہماری رائے پر عمل نہ کیا اس لئے مصائب و تکالیف کا سامنا ہوا۔
بہرحال ان تمام آیات میں یہ بات بڑی وضاحت سے سامنے آگئی کہ حق تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے رسول محمد مصطفے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں کو محبوبیت کا وہ مقام حاصل ہے کہ اتنی بڑی عظیم خطاؤں اور لغزشوں کو باوجود ان کے ساتھ معاملہ صرف عفو و درگزر کا ہی نہیں، بلکہ لطف و کرم کار فرمایا گیا، یہ معاملہ تو خود حق تعالیٰ کا اور نصوص قرآنی کا بیان کیا کیا ہوا ہے.
اسی طرح کا ایک معاملہ حضرت حاطب ابن ابی بلتعہ کا حضور کے سامنے پیش ہوا، انہوں نے مشرکین مکہ کو مسلمانوں کے حالات کے متعلق ایک خط لکھ رہا تھا، جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بذریعہ وحی اس کی حقیقت کھلی اور خط پکڑا گیا تو صحابہ کرام میں حاطب ابن ابی بلتعہ کے خلاف سخت غیظ و غضب تھا، فاروق اعظم، نے عرض کیا کہ مجھے اجازت دیجئے کہ اس منافق کی گردن مار دوں، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم تھا کہ وہ منافق نہیں مومن مخلص ہیں مگر یہ غلطی ان سے سرزد ہوگئی۔ اس لئے اس کو معاف فرمایا اور فرمایا کہ یہ اہل بدر میں سے ہیں اور شاید اللہ تعالیٰ نے تمام حاضر بن بدر کے متعلق مغفرت اور معافی کا حکم نافذ کردیا ہے (یہ روایت حدیث کی سب معتبر کتب میں موجود ہے)
صحابہ کرام کے متعلق عام مسلمانوں کے لئے ایک سبق:
یہیں سے اہل سنت والجماعت کے اس عقیدہ اور عمل کی تصدیق ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اگرچہ گناہوں سے معصوم نہیں، ان سے بڑے گناہ بھی ہو سکتے ہیں اور ہوئے بھی ہیں، لیکن اس کے باوجود امت کے لئے یہ جائز نہیں کہ ان کی طرف کسی برائی اور عیب کو منسوب کرے، جب اللہ تعالیٰ اور اس کو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی اتنی بڑی لغزشوں اور خطاؤں کو معاف کر کے ان کے ساتھ لطف و کرم کا معاملہ فرمایا اور ان کو (رض) و رضوا عنہ کا مقام عطا فرمایا، تو پھر کسی کو کیا حق ہے کہ ان میں سے کسی کا برائی کے ساتھ تذکرہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر کے سامنے ایک مرتبہ کسی نے حضرت عثمان غنی اور بعض صحابہ کرام پر غزوہ احد کے اسی واقعہ کا ذکر کر کے طعن کیا کہ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ جس چیز کی معافی کا اللہ تعالیٰ نے اعلان فرما دیا اس پر طعن کرنے کا کسی کو کیا حق ہے۔ (صحیح بخاری)
اس لئے اہل السنت و الجماعتہ کے عقائد کی کتابیں سب اس پر متفق ہیں کہ تمام صحابہ کرام کی تعظیم اور ان پر طعن اعتراض سے پرہیز واجب ہے، عقائد نسفیہ میں ہے:
” یعنی واجب ہے کہ صحابہ کا ذکر بغیر خیر کے اور بھلائی کے نہ کرے۔ “
” یعنی اہل السنتہ و الجماعتہ کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام کو عدول و ثقافت سمجھیں، ان کا ذکر مدح وثناء کے ساتھ کریں۔ “” یعنی تمام صحابہ کی تعظیم واجب ہے، اور ان پر طعن و اعتراض سے باز رہنا واجب ہے۔ “
حافظ ابن تیمیمہ نے عقیدہ واسطیہ میں فرمایا ہے کہ۔ اہل سنت والجماعتہ کا عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کرام کے درمیان جو اختلافات اور قتل و قتال ہوئے ہیں ان میں کسی پر الزام و اعتراض کرنے سے باز رہیں وجہ یہ ہے کہ تاریخ میں جو روایات ان کے عیوب کے متعلق آئی ہیں ان میں بکثرت تو جھوٹی اور غلط ہیں جو (دشمنوں نے اڑائی ہیں اور بعض وہ ہیں جن میں کمی بیشی کر کے اپنی اصلیت کے خلاف کردی گئی ہیں اور جو بات صحیح بھی ہے تو صحابہ کرام اس میں اجتہادی رائے کی بناء پر معذور ہیں اور بالفرض جہاں وہ معذور بھی نہ ہوں تو اللہ کا قانون یہ ہے کہ “ان الحسنات یدھبن السیات” یعنی اعمال صالحت کے مجولے اعمال کا بھی کفارہ ہوجاتا ہے، اور یہ ظاہر ہے کہ صحابہ کرام کے اعمال صالحہ کے برابر کسی دوسرے کے اعمال نہیں ہو سکتے، اور اللہ تعالیٰ کے عفو و کرم کے جتنے وہ مستحق ہیں کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا، اس لئے کیسے ہو سکتے اور اللہ تعالیٰ کے عفو و کرم کے جتنے وہ مستحق ہیں کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا، اس لئے کسی کو یہ حق نہیں کہ ان کے اعمال پر مواخذہ کرے اور ان میں سے کسی پر لعن و اعتراض کی زبان کھولے (عقیدہ واسطیہ ملخصاً )- [تفسیر معارف القرآن ، مفتی محمد شفیع (ابو مفتی تقی عثمانی)]
جو لوگ صحابہ اکرام پر دشنام طرازی اور گستاخی کرتے ہیں وہ اپنے ائمہ کے اقوال بھی دیکھ لیں:
ابن صباء کے پیروکار چونکہ جھوٹی روایات گھڑگھڑ کر آلِ بیت کی طرف منسوب کرتے تھے، اسی وجہ سے ائمۂ اہل بیت نے اس بات پر خاص طورسے لوگوں کو متنبہ کیا کہ جو چیز بھی کتاب اللہ،سنتِ نبوی کے خلاف ہو اس کو ہماری طرف منسوب کرکے مت قبول کرو،چنانچہ شیعوں کی معتبر کتاب”میں حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے:
’’فاتَّقُوا اللهَ وَلَا تَقْبِلُوا عَلَيْنَا مَا خَالفَ قولَ ربِّناتعالى وسَّنةَ نبيِّنا مُحمَّدٍ ـ صلَّى اللهُ عليه وسلم ـ‘‘(تذکرہ مغیرہ بن سعید، ص :۱۴۶)
ترجمہ : اللہ تعالیٰ سے خوف کرو؛ جو چیز کتاب اللہ اور سنت نبوی کے خلاف ہو اس کو ہماری طرف منسوب کرکے مت قبول کرو۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد
’’”امالی شیخ صدوق‘‘”میں حضرت جعفر صادق ومحمدباقر رحمہمااللہ کی سند سے خود حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
’’فَمَا وافَقَ كتَابَ اللهِ فخُذوهُ ومَا خَالفَ كتابَ اللهِ فدَعُوهُ‘‘
(مجلس :الثامن والخمسون ،ص:۲۲۱)
ترجمہ :وہ بات جوکتاب اللہ کےموافق هو اسے قبول کرو اورجو بات کتاب اللہ کے مخالف ہو اسے چھوڑدو۔
’’”احتجاج طبرسی‘‘ “میں حضرت باقررحمۃ اللہ علیہ نےحضور اکرم ﷺسے خطبۂ حجۃ الوداع کے سلسلے میں یہی بات نقل کی ہے :
’’فإذَا أتَاكُم الحديثُ فاعْرِضُوه عَلىٰ كتابِ الله عزَّ وجلَّ و سُنَّتي، فمَا وافَقَ كتابَ اللهِ و سنَّتي فخُذُوا به وما خَالفَ كتابَ الله و سنَّتي فلاتأخُذُوا به‘‘.
(احتجاج ابی جعفر محمد بن علی الثانی علیہما السلام فی انواع شتّٰی ص: ۲۲۹)
ترجمہ :امام محمد باقر فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایاکہ جب تمہارے پاس کوئی حدیث پہنچے تو اس کو کتاب اللہ اور میری سنت پر پیش کرو،جو کتاب اللہ اور میري سنت کے موافق ہو اس کو قبول کرو اور جو کتاب اللہ اور میری سنت کے خلاف ہو اس کو قبول مت کرو۔
علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا قول
علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ “تذکرۃ الحفاظ “میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد گرامی نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’فَقدْ زَجَر الإمامُ عليٌّ ـ رضي الله عنه ـ عَنْ رِوايةِ الـمُنكرِ ، و حَثَّ عَلى التَّحْدِيْثِ بِالْمَشْهُوْرِ، وَهٰذا أصلٌ كبيرٌ في الكفِّ عَنْ بَثِّ الأشْيَاءِ الوَاهِيَةِ و الْمُنكَرَةِ مِنَ الأحاديثِ في الفَضَائلِ و العَقَائدِ و الرِّقائقِ‘‘
(امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، ۱/ ۱۳)
ترجمہ : ہمارے امام ومقتدیٰ علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ہمیں شاذ ومنکر روایات کے بیان کرنے سے سختی سے منع فرمایاہے اور مشہور ومعروف چیزوں کے بیان کرنے میں رغبت دلائی ہے اور بے سروپا روایات کے پھیلانے اور تشہیر کرنے سے روکنے کے ليے یہ شان دار قاعدہ بیان فرمایاہے، یہ روایا ت خواہ عقائد سے تعلق رکھتی ہو ں، یا فضائل اور ترغیبات کے باب سے ہوں، سب کی خاطر یہ قانون قابلِ عظمت ہے ۔
اہل السنه والجماعہ کا مسلمہ قاعدہ
اہل السنہ والجماعہ کے نزديك تو یہ ایک مستقل قاعدہ اور مسلّمہ حقیقت ہے کہ نص قرآن اور سنت مشہورہ کے خلاف جو روایت پائی جائے تووہ مردود ہے وه هرگز قابل التفات نہیں؛ چنانچہ حافظ المشرق علامہ خطیب بغدادی (المتوفیٰ ۴۶۳ھ) “الکفایۃفی معرفۃ أصولِ علمِ الروایۃ “میں لکھتے ہیں :
’’عن أبي هريرة عن النَّبي صلَّى الله عليه وآله وسلم أنَّه قال: سَيَأْتِيْكُمْ عنِّي أحاديثُ مختلفةٌ فَمَا جَاءَكُمْ موافِقًا لِكتابِ الله وَسُنَّتي فهو مِنِّي وَ مَا جَاءَكُمْ مُخَالفًا لكتابِ الله تَعَالٰى وَسُنَّتِيْ فَلَيْسَ مِنِّي‘‘
ترجمہ : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺسے نقل کرتےہیں کہ حضورﷺنے فرمایا کہ میری طرف منسوب شدہ مختلف قسم کی روایات عنقریب تمہارے پاس پہنچیں گی، جو کتا ب اللہ اور میری سنت (مشہورہ )کے مطابق ہوں وہ درست ہوں گی اور جو کتاب اللہ اور میری سنت کے معارض ہوں، وہ صحیح نہ ہوں گی۔ (بابٌ فِیْ وُجُوْبِ إِطْرَاحِ الـمُنْكَرِ وَالمستحيلِ مِنَ الْأَحَادِيْثِ،رقم الحدیث:۱۳۰۹، ۲/ ۵۵۲)۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ابو الطفیل نے نقل کیاہے:
’’حدِّثُوا النَّاسَ بِمَا يَعْرِفُوْنَ وَدَعُوْا مَا يُنكِرُوْنَ أتُحِبُّونَ أنْ يُكذَّبَ اللهُ وَ رَسُوْلُه‘‘
لوگوں سے مشہور ومعروف چیزیں بیان کرو اور غیر معروف یعنی منکر باتیں عوام میں ذکر مت کرو،کیا تم یہ پسندکرتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تکذیب کی جائے ؟۔
صحابۂ كرام رضی اللہ عنہم اور قرآنِ كريم
حضراتِ صحابۂ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ايسي مقدس شخصيات هيں،جنہوں نے حضرت رسول اللہ ﷺ اور آپ کے لائے ہوئے دین پر نہ صرف ایمان لایا؛ بلکہ قرآن کو نازل ہوتے ہوئے دیکھا،رسول اللہ ﷺکی زندگی کے تما م پہلوں کاعملی طور سے مشاہدہ کیا،آپ ﷺسے سب سے پهلے دین کوسیکھااور پھیلايا۔
یہی وہ مبارک اور پاک باز جماعت ہے جسے اللہ رب العزت نے اپنے آخری نبی حضرت محمدﷺکی رفاقت اور مصاحبت کے ليے چنا اور منتخب فرمایا؛ چناں چہ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم دین کی بنیاد اور معیا رِ ایمان ہیں؛ بلکہ حضور اقدس ﷺکی مبارک اور پاکیزہ زندگی کو سمجھنے، اور اس پر عمل کرنے کے ليے اگر کسی کی زندگی معیار ہے تو وہ حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی مبارک ومقدس جماعت ہے ۔
یہی وہ جماعت ہے جس نے برا ہ راست مشکوٰۃِ نبوّت سے استفادہ کیا؛ چناں چہ جو فیض انھوں نے پایا اور ایمان کی جو کیفّیت وحلاوت ان کو حاصل ہوئی، وہ بعد والوں كو میسر نه آئي،اسی وجہ سے اللہ ربّ العزت نے قرآن پاک میں اگر کسی نبی کے ساتھیوں کی سب کے سب کی تعریف بیان کی ہے تو وہ جناب رسول اللہ ﷺکے صحابۂ کرامؓکی جماعت ہے، اللہ ربّ العزت نے صحابۂ کرامؓ کي پوری جماعت كو رضامندي كي سند عنايت فرمادی ۔
عدالتِ صحابہؓ
قرنِ اوّل سے آج تک امّتِ مسلمہ اہلِ السنه والجماعہ کا یہ اتفاقی و اجماعی عقیدہ رہا ہے کہ حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم تمام کے تمام عادل ومعتبرہیں،اور ان کا اجماع امت ِمسلمہ کے لیے حجت ہے۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی پاکیزہ اور مبارک جماعت عادات ِکریمہ، خصائلِ حمیدہ، شمائلِ فاضلہ، اخلاقِ عظیمہ، اور شریعت کے تمام مسائل و دلائل،حقائق و آداب کے بارے میں علماً اور عملاً رسول اللہ ﷺکے کمالاتِ نبوت کی آئینہ دار اور مظہرِ اتم ہے،انہی پاک باز نفوس کی اتباع امت ِمسلمہ کو ضلالت وگمراہی سے بچاسکتی ہے۔
مفکّرِ اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ حضرات صحابہ کرامؓ کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’” یہ ان مردانِ خداکی تاریخ ہے کہ جب ان کے پاس اسلام کی دعوت پہنچی تو انہوں نےاس کو دل وجان سے قبول کیا اور اس کے تقاضوں کےسامنےسرِتسلیم خم کردیا ’’رَبَّنَاإِنَّنَاسَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوابِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا‘‘(سورۃ آل عمران، آیۃ : ۱۹۳) اور اپنا ہاتھ رسول اللہ ﷺکے ہاتھ میں دے دیا ؛چنانچہ ان کے ليے اللہ کے راستے کی مشقتیں معمولی اور جان ومال کی قربانی آسان ہوگئی؛حتیٰ کہ اس پر ان کا یقین اور پختہ ہوگیا اور بالآخر دل ودماغ پر چھاگیا، غیب پر ایمان، اللہ اور اس کے رسول ﷺکی محبت، اہل ایما ن پر شفقت،کفار پرشدت نیز آخرت کو دنیا پر، ادہار کو نقد پر،غیب کو شہود پر اور ہدایت کو جہالت پر ترجیح اورہدایتِ عامہ کے بے پناہ شوق کے عجیب وغریب واقعات رونما ہونے لگے ۔
اللہ کے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں لانے،مذاہب کے ظُلم وجَورسے اسلام کی عدل گُستری میں پہنچانے،دنیا کی تنگیوں سے آخرت کی وسعتوں میں لے جانے اور دنیوی مال ومتاع اور زیب وزینت سے بے پرواہ ہوجانے ،اللہ سے ملنے اور جنت میں داخل ہونے کے شوق کے محّیر العقول واقعات سامنے آنے لگے،انہوں نے اسلام کی نعمت کو ٹھکانے لگانے،اس کی برکتوں کو اقصائے عالم میں عام کرنے اور چپّے چپّے کی خاک چھاننے کے بے پایاں جذبات میں بلند ہمتی ودقیقہ رسی کے باعث، اپنے گھربار کو چھوڑا،راحت وآرام کو خیر باد کہا اور اپنی جان ومال کی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا؛حتیٰ کہ دین کی بنیادیں قائم ہوگئیں، دل اللہ کی طرف مائل ہو گئے او رایمان کے ایسے مبارک، جاں فزااور طاقت ور جھونکے چلے جس سے توحید وایمان اور عبادات وتقویٰ کی سلطنت قائم ہوگئی،جنت کابازار گرم ہوگیا،دنیا میں ہدایت عام ہوگئی اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے “‘‘۔
عظمتِ صحابہؓ اور قرآن
یہاں بطورنمونہ کے چند آیا ت اور ان کا ترجمہ ذکر کرتے ہیں؛ تاکہ ایک عام مسلمان قاری اس کااندازہ لگاسکے کہ حضراتِ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو کیا فضل وکمال حاصل تھا ۔
(۱)’’مُحَمَّدٌرَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِالسُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرعٍ أَخْرَجَ شَطْاَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًاعَظِيمًا”۔(سورۃ الفتح، آیۃ: ۲۹)
ترجمہ : محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں، اور جولوگ اُن کے ساتھ ہیں، وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں،(اور)آپس میں ایک دوسرے کے ليے رحم دل ہیں،تم انھيں دیکھو گے کہ کبھی رکوع میں ہیں، کبھی سجدے میں،اللہ کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں،اُن کی علامتیں سجدے کے اثر سے اُ ن کے چہروں پر نمایاں ہیں،یہ ہیں اُن کے وہ اوصاف جو تورات میں مذکور ہیں،اور انجیل میں اُن کی مثا ل یہ ہے کہ جیسے ایک کھیتی ہوجس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اس کو مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوگئی،پھر اپنے تنے پر ا س طرح سیدھی کھڑی ہوگئی کہ کاشت كار اس سے خوش ہوتے ہیں؛تاکہ اللہ تعالیٰ ان (کی ترقی )سے کافروں کے دل جلائے، یہ لوگ جو ایمان لائے ہیں، اور انہوں نے نیک عمل کئے ہیں،اللہ نے ان سے مغفرت اور زبردست ثواب کا وعدہ کیا ہے۔(آسان ترجمہ ٔ قرآن، ۳/ ۱۵۷۵)
(۲)’’إِنَّ الَّذِين َآمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّه ِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ بَعْضُهُم ْأَوْلِيَاءُ بَعْضٍ”۔(سورۃ الانفال ،آیۃ : ۷۲)
ترجمہ : جولوگ ایمان لائے ہیں، اور انہوں نے ہجرت کی ہے،اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کیا ہے،وہ اور جنہوں نے ان کو (مدینہ میں )آبادکیا ، اور ان کی مدد کی،یہ سب لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ولی (وارث) ہیں۔(آسان ترجمۂ قرآن،۱/۵۵۰)
(۳)’’وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَاتَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّه ِعَلَيْكُمْ إِذْكُنْتُم ْأَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُم ْفَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِه ِإِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِه ِلَعَلَّكُم ْتَهْتَدُونَ‘‘(سورۃ آل عمران ،آیۃ: ۱۰۳)
ترجمہ : اور اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رکھو،اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو،اور اللہ نے جو تم پر انعام کیا ہے اسے یاد رکھو کہ ایک وقت تھاجب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے،پھر اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اللہ کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے اور تم لوگ آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے اللہ نے تمہیں اس سے نجات عطا فرمائی،اسی طرح اللہ تمہارے ليے اپنی نشانیاں کھول کھول کر واضح کرتاہے؛تاکہ تم راہِ راست پر آجاؤ۔(آسان ترجمہ ٔ قرآن ،۱/ ۲۱۲)
(۴)’’هُوَ لَّذِي أَيَّدَكَم بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِين َوَأَلَّفَ بَيْن َقُلُوبِهِمْ لَوْأَنْفَقْتُمْ مافِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَاأَلَّفْت َبَيْن َقُلُوبِهِم ْوَلَكِنّ َاللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ‘‘
(سورۃ الانفال ،آیۃ: ۶۳)
ترجمہ : وہی تو ہے جس نے اپنی مدد کے ذریعے اور مؤمنوں کے ذریعے تمہارے ہاتھ مضبوط كيے،اور اُ ن کے دلوں میں ایک دوسرے کی الفت پیدا کردی ،اگر تم زمین بھر کی ساری دولت بھی خرچ کرلیتے تو ان کےدلوں میں یہ الفت پیدا نہ کرسکتے؛لیکن اللہ نے ان کے دلوں کو جوڑدیا، وہ یقیناً اقتدار کامالک ہے،حکمت کابھی مالک۔(آسان ترجمۂ قرآن ،۱/ ۵۴۶)
مذکورہ بالا آیات کا خلاصہ
قرآن کریم میں اس مضمون کی اور بھی بہت ساری آیا ت موجود ہیں؛لیکن جو آیات ہم نے ذکر کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل ایمان میں اُخوّت وبرادری کاتعلق ہوتا ہے،ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ کی رسی مضبوطی سے تھامے رکھنی چاہيے؛کیونکہ اللہ نے ہی دیرینہ دشمنیوں کو محبت و الفت میں بدل دیا اور اب ایمان والوں کو ایک دوسرے کا بھائی بھائی بنادیا،یہی وہ ایمان والےہیں جن کے ذریعے سے اللہ نے اپنے نبی ﷺکی تائید اور مدد ونصرت فرمائی،ان کے دلوں میں الفت وشفقت ڈال دی ،پھر بتلایا کہ اہل ایمان کی وہ اولین جماعت جومہاجرین اورانصارہیں، مجاہدین فی سبیل اللہ ہیں، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں،مہاجرین کو ٹھکانہ فراہم کرنے والے اور ان کی نصرت وامداد کرنے والے ہیں،ایک دوسرے کے دوست اورامین، معاون ومددگار ہیں،حضور اکرم ﷺکی معیت میں رہنے والے مقدس اور پاک باز لوگوں کی جماعت ہے، کفار کے حق میں سخت ہیں اور آپس میں مہربان، نرم دل اور شیروشکر ہیں ۔
عبادت خدا وندی میں مصروف رہتے ہیں،اپنے رب کی رضا کو چاہنے والے ہیں،ان کی بزرگی اور نیکی کے آثار وانوار ان کے مبارک چہروں سے ظاہر وتاباں ہیں، صحابۂ کرامؓ کی یہ صفات صرف قرآن کریم ہی میں نہیں؛ بلکہ اس سے پہلے کی کتابوں،تورات،انجیل ، میں بھی مذکور چلی آرہی ہیں۔
صحابۂ کرامؓ کی جماعت کو اللہ تعالیٰ نے تدریجاً ارتقاء عطا فرمایا ، اسی طرح تدریجاً دینِ اسلام اور اہلِ ایمان کا غلبہ اورارتقاء ہوگا،ان کی ترقی اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ليے باعث خوشی ہے اورکفار کے ليے باعث عداوت ہے،اللہ نے ان صحابہؓ سے مغفرت اور اجرعظیم کاوعدہ فرمایاہے۔
اللہ رب العزت نے یہ بھی بتلایا کہ صحابہؓ کی جماعت کو معتدل جماعت بنایا ہے، یہ لوگوں پر گواہ ہوں گے اور رسول اللہ ﷺ ان پر گواہ ہوں گے،یہ صحابہؓ وہ لوگ ہیں جو اُس نبی کی اتباع وپیر وی کرتے ہیں جس کی صفات تورات وانجیل میں مذکور ہوئی ہیں،صحابہ رضی اللہ عنہم جنہوں نے آپﷺپر ایمان لایا، آپ کی رفاقت اختیارکی، مددونصرت کی اور آپ پر اترے ہوئے قرآن کریم کی اتباع کی،وہی لوگ(صحابۂ کرام )اپنی مراد کو پہنچنے والے اور فلاح پانے والے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے مہربانی فرمائی نبی ﷺ پر ان کے ساتھی مہاجرین وانصار پر جو ان کے ساتھ مشکل وقت میں ساتھ رہے،وہ ایمان والے جنہوں نے درخت کے نیچے اللہ کے نبی کے ہاتھ پر بیعت کی اللہ ان سے راضی ہوا، ان پر سکینہ نازل فرمایا،اور صحابہؓ میں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے، ان کی مددکرنے والے انصار، ان کے پیروکار،ان سب سے اللہ راضی ہوااور وہ اللہ سے راضی ہوئے ،اللہ نے ان کے ليے جنت تیار کر رکھی ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے،یہی بڑی کامیابی ہے اور یہی صحابہؓ کامیابی کو پانے والے ہیں۔
اللہ نے قرآن پاک کو نازل فرمایا،اس سے خوف خدا رکھنے والے صحابۂ کرامؓ کے بال کھڑے ہوجاتے ہیں،ان کی کھال اور دل اللہ کے ذکر سے نرم ہوجاتے ہیں،اللہ کی آیات پر ایمان لانے والے صحابہؓ جب ان آیات کو سنتے ہیں تو سجدے میں گر پڑتے ہیں، اور اس پاک ذات کو یاد کرتے ہیں،ان کے پہلو اپنے خواب گاہوں سے دور رہتے ہیں،یہ اپنے رب کو خوف اور امید سے پکارتےہیں اور اس کے دیے ہوئے رزق میں سے خرچ کرتے ہیں،لہٰذا ان کی آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے کے ليے جو کچھ اللہ نے چھپا رکھاہے وہ کسی نفس کو معلوم نہیں،اور جوکچھ اللہ کے ہاں ہےوہ بہتر ہے اور باقی رہنے والا بھی۔
اور یہ ان لوگوں کے ليے ہے جو اپنے رب پر توکل کرتےہیں، بڑے گناہوں اور بے حیائی سے اجتناب کرتے ہیں، غصہ آجائے تومعاف کرتے ہیں،اپنے رب کے حکم کو انہوں نے مان لیاہے اور نماز کو قائم کیاہے،ان کے معاملات باہمی مشاورت سے طے پاتے ہیں،ان اہل ایمان صحابہؓ میں سے کتنے ہی وہ مرد ہیں جنہوں نے اللہ کے ساتھ كيے ہوئے وعدے کوسچ کر دکھا یا او ر اپنی ذمہ داری پوری کردی اور کتنے ہی ایسے ہیں جو انتظار میں ہیں،اور ان میں ذرہ برابر بھی تبدیلی نہیں آئی،اللہ تعاليٰ سچوں کوبدلہ دے گا اور منافقین کو چاہےتو عذاب دےاور چاہےتو معاف فرمادے،اللہ تعالیٰ بخشنےوالے اور مہربان ہیں،کیاوہ جو رات کی گھڑیوں میں بندگی میں لگاہو ا ہے سجدے کرتاہے، قیام کرتا ہے، آخرت سےڈرتاہے، اپنے رب کي رحمت کی امید رکھتاہے، تو کیا سمجھ رکھنے والےاور ناسمجھ برابر ہوتے ہیں،ہرگز نہیں ۔
ایمان اور دیگر ایمانی صفات، نماز، روزہ، حج،زکوٰۃ، جہاد فی سبیل اللہ، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، تقویٰ، پرہیزگاری، انفاق فی سبیل اللہ،اور اخلاص نیت وغیرہ پر حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہمیشہ کاربند اور عمل پیرا رہے اور باہمی الفت ومحبت،شفقت ورحمت کی صفت پر بھی ان کاعمل دائمی رہا ؛کیونکہ اللہ نے ان پر پرہیزگاری کی بات کولازم کر ردیاتھا اور وہ اس کے حق دار اور اہل بھی تھے ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ كا فرمان
انھيں اوصافِ کریمہ اور خصالِ حمیدہ کی وجہ سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے:
’’من كان مُستنًّا فليَستنَّ بِمَن ْقد مَاتَ ؛ فإنَّ الحَيَّ لاتُؤمَنُ عليها الفتنة، أولئك أصحابُ محمَّدٍ صَلَّى الله عليه وسلمَ كانوا أفضلَ هذه الأمَّة، أبرَّهَا قلوبًا وأعمقَها علمًا وأقلَّها تكلّفًا، اختارهُمُ اللهُ لصحبةِ نبيهٖ ولإقامةِ دينهٖ فاعرِفُوا لهم فضْلَهمْ و اتبعوهم على آثارهِم وتمَسَّكوا بمااستطعتُم من أخْلاقِهم و ِسيَرِهِم فإنَّهم كانواعلى الهدى المستقيمِ‘‘(جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبدالبر،رقم : ۱۸۱۰، ۲/۱۳۴)
(مشکاۃ المصابیح، باب : الاعتصام بالکتاب والسنّۃ، رقم: ۱۹۳، ۱/۱۱۱)
ترجمہ :حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جسے دین کی راہ اختیا ر کرنی ہے تو اُن کی راہ اختیار کرے جو اس دنیا سے گزرچکے ہیں اور وہ حضرت محمدﷺکے صحابہ ہیں،جو اس امت کا افضل ترین طبقہ ہے، اُن كے قلوب پاک تھے، ان كا علم گہر اتھا، ان ميں تکلف اور تصنع نه تھا،اللہ جلّ شانہ نے انھيں اپنے نبی ﷺکی صحبت اور دین کی اشاعت کے ليے چنا تھا؛اس ليے ان کی فضیلت اور بر گذیدگی کو پہچانو،ا ن کے نقشِ قدم پر چلو اور طاقت بھر ان کے اخلاق اور ان کی سیرتوں کو مضبوط پکڑو؛اس ليے کہ وہی ہدایت کے راستے پر تھے۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام بندوں کے دلوں پر پہلی دفعہ نگاہ ڈالی تو ان میں سے محمدﷺکو پسند فرمایااور انھيں اپنارسول بناکر بھیجااور ان کو اپنا خاص علم عطافرمایا،پھر دوبارہ لوگوں کے دلوں پر نگاہ ڈالی اور آپ کے ليے صحابۂ کرام کو چنا اور ان کو اپنے دین کامددگا ر اور اپنے نبیﷺکی ذمہ داری کا اٹھانے والابنایا،لہٰذا جس چیز کو مؤمن (یعنی صحابۂ کرام )اچھاسمجھیں گے وہ چیز اللہ کے يہاں بھی اچھی ہوگی اور جس چیزکو بُر اسمجھیں گے، وہ چیزاللہ کے يہاں بھی بُری ہوگی (حلیۃ الاولیاء ، رقم الترجمہ :۸۴، الطفاوی الدوسی، ۱/ ۳۷۶)۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد
حضرت ابو اِراکہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی جب آپ نماز سے فارغ ہوئے اور داہنی طرف رخ کرکےبیٹھ گئے تو ایسا لگ رہاتھا کہ آپ بے چین اور غمگین ہیں،حتیٰ کہ جب سورج مسجد کی دیوار سے ایک نیزہ بلند ہوا تو انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی،پھر اپنے ہاتھ کو پلٹ کر فرمایاکہ اللہ کی قسم میں نے حضرت محمدﷺکے صحابہ کو دیکھاہے آج ان جیسا کوئی نظر نہیں آتا ہے، صبح کےوقت ان کی یہ حالت ہوتی تھی کہ رنگ زرد اوربال بکھرے ہوئے اور جسم غبار آلود ہوتاتھا،ان کی پیشانی پر (سجدہ کا)اتنا بڑا نشان نمایا ہوتاتھاجتنا بڑانشان بکری کےگھٹنے پر ہوتا ہے،ساری رات اللہ کے سامنے سجدہ کرتے اور کھڑے ہوکر قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے گزار دیتےتھے اور سجدہ اور قیام ہی میں راحت حاصل کرتے تھے،جب صبح ہوجاتی اور وہ اللہ کاذکر کرتے تو ایسے جھومتے جیسے کہ تیز ہوا کے دن (یاباد صباکے وقت)درخت جھومتا ہےاور اس طرح روتے کہ کپڑے گیلے ہوجاتے، خدا کی قسم (ان کے رونے سے یوں نظر آتا تھا کہ )گویا انہوں نے رات غفلت میں گزاردی ہو،پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور اس کے بعد کبھی آہستہ ہنستے ہوئے بھی نظر نہ آئے، یہاں تک کہ اللہ کےدشمن ابن ملجم فاسق نے آپ کو شہید کردیا۔ (حلیۃ الاولیاء، رقم الترجمہ : ۴، علی ابن ابی طالب،۱/ ۷۶)
صحابہؓ كي صفات
قرآن وحدیث میں مذکور ان تمام صفات میں بے شک تما م کے تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم شریک ہیں، خواہ مہاجرین ہوں یا انصار،مکه کے رہنے والے ہوں یا مدینہ کے، قریشی ہوں یا کسی اور قبیلے کے،عربی ہوں یا عجمی ، وہ تمام کے تما م باہمی خیرخواہی، ہمدردی،غم خواری اور خوش خلقی میں بے نظیر و بے مثال تھے،زمانہ ان کی مثال لانے سے عاجز ہے، پھر ان سب میں خصوصاً خلفائے اربعہ حضور اقدس ﷺکے بعد تمام امت میں بہترین اور افضل ترین لوگ ہیں،یہ لوگ آپس میں شیروشکر تھے،ایک دوسرے کے معاون ومددگا ر تھے،ان میں کسی طرح کا اختلاف وانتشار نہ تھا،یہی وجہ ہے کہ ان میں باہمی رشتے بھی ہوئے،حضرات شیخین حضرت ابو بکر صدیق وعمر فاروق رضی اللہ عنہما کے بابرکت دور میں امت مسلمہ متفق ومتحد تھی، اس مبارک دور میں امت میں دُور دُور تک کہیں بھی کسی طرح کے نظریا تی اختلاف کا وجود نہ تھا،پوری امت یک جان ودل کفر کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند مقابلہ کے ليے سینہ سپر تھی ۔
نظریاتی اختلافات کی ابتدا
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا ابتدائی زمانہ ٔخلافت بھی اختلافات سے محفوظ تھا؛ا لبتہ ان کے خلافت کے آخری زمانہ میں” ابن سبا” نامی ایک یہودی الاصل شخص نے” آلِ رسول ﷺ” کے خوشنما نعرے کی آڑ میں امت میں اختلاف و افتراق اور انتشار کا بیچ بویا ،اسی نقطۂ نظر پر ایک مستقل اور اسلام کے متوازی مذہب کی بنیاد رکھی گئی،ابتدامیں بہت سادہ اور عام الفاظ میں یہ کہا گیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور اکرمﷺکے عزیز وقریب ہیں، لہٰذا وہی جانشینی وخلافت کے زیادہ حقدارو مستحق ہیں؛حالا نکہ قرابت اور آلِ رسول کے لبادہ میں لپٹا ہوا یہ نعرہ جتنا سادہ اور خوشنما ہے، اتناہی یہ تعلیماتِ الٰہی اور حضور اقدسﷺکی ۲۳ سالہ مبارک زندگی اور آپ کے لائے ہوئے دین اور اس کے منشا کے بھی خلاف تھا؛ اس ليے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺنے نسلی امتیاز اور خاندانی فخر وغرور کےتمام بتوں کو نہ صرف پاش پاش کردیا؛ بلکہ عزت وشرافت، بزرگی وبڑائی، سیادت وقیادت کامدار” تقویٰ” کو قراردیا۔
عبداﷲ بن سبا علماء یہود میں سے ایک سربر آوردہ عالم تھا اور جب سے سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے 2 یہودیوں کو مدینہ منورہ سے نکال کر فلسطین کی طرف دھکیل دیا تھا۔ اس وقت سے اس کے دل میں مسلمانوں سے انتقام لینے کی آگ سلگ رہی تھی اور وہ اندر ہی اندر ایسی تراکیب سوچتا رہتا تھا جس کے ذریعے مسلمانوں سے بغض و عداوت کی وجہ سے کوئی نہ کوئی مصیبت کھڑی کرسکے۔ انہی تراکیب میں سے ایک ترکیب اسے یہ سوجھی کہ مسلمان ہوکر پھر ان کے رازونیاز سے واقفیت حاصل کی جائے اور کچھ ساتھی ڈھونڈے جائیں تاکہ مستقل گروہ بن جانے پر اسلام کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ چنانچہ وہ یمن سے مدینہ آیا اور مدینہ آکر اپنا مسلمان ہونا ظاہر کیا۔ اس وقت حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ امیر المومنین تھے۔ آپ رضی اﷲ عنہ کی نرم دلی اور خوش خلقی سے اس نے یہ ناجائز فائدہ اٹھایا کہ مختلف حیلوں بہانوں سے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کا اعتماد حاصل کرلیا اور اس اعتماد سے اب وہ اپنی مخفی دشمنی کے لئے راستہ ہموار کرنے کے درپے رہنے لگا اور اپنے ہم خیال لوگوں کی تلاش میں مصروف ہوا۔ [عبدللہ بن سبا کا تذکرہ “یہودی انسکیکلوپیڈیا ” میں آج بہ فخریہ موجود ہے .. لنک
http://www.jewishencyclopedia.com/view.jsp?artid=189&letter=A
’’”الأتقیٰ‘‘ “کا مقام
قرآن کریم کا واضح اور ببانگ دہل یہ اعلان ہے کہ صفت ِتقویٰ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تمام جماعت صحابۂ کرام میں ممتاز وفائق اور سب کے سرتاج و سرخیل تھے،قرآن نے ’’”الاتقیٰ‘‘”سب سے زیادہ متقی کا تاج انہی کے سر پر سجایا ہے، قرآن کی یہ کوئی من گھڑت اور تراشیدہ تفسیر نہیں؛ بلکہ خود سیدناحضرت علی رضی اللہ عنہ سے جب کوفہ کی جامع مسجدمیں بر سر ِمنبر سوال کیا گیا کہ آپ لوگوں نے آنحضرت ﷺکے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ کیوں بنایا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نےفرمایا:دین کے کاموں میں سب سے اہم تر نماز ہے، حضور اقدسﷺ نے اپنےمرض الوفات میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی کو ہمارا”امام نماز “بنایا تھا؛ حالانکہ میں وہاں موجودتھا،حضور ﷺکو میری وہاں موجودگی کاعلم بھی تھا؛مگر اس کام کے ليے آپ نےمجھے یادنہیں فرمایا؛بلکہ حضرت ابوبکر کو حکم دیا کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں،لہٰذا جس شخص کو حضور اقدس ﷺنے ہمارے دین کی امامت کے ليے منتخب فرمایاہے،ہم نے دنیا کی امامت وقیادت کے ليے بھی اسی کو منتخب کرلیاہے ۔
جھوٹا پروپیگنڈہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ان تعلیمات کے بر عکس ابن سبا ء اور اس کے پیروکاروں نے تب سے آج تک عوام اور جاہل طبقہ میں بڑی شدّ ومد کے ساتھ یہ پرو پیگنڈہ کیاکہ خلافت صرف حضرت علی کاحق تھا،صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے خصوصاً خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم نے العیاذ باللہ ان کے حق کو غصب کیا،ان کے ساتھ نارواسلوک کیا،خاندانِ نبو ت پر بڑے بڑے مظالم ڈھائے، جوزبان وبیان سے بالاترہیں،اسی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کےدرمیان اختلاف تھا، وغیرہ وغیرہ، انہوں نے ان مبارک ہستیوں اور پاک بازنفوس کے درمیان کشیدگی اور رنجیدگی کے نہ جانے کتنی داستانیں گھڑلیں ہیں،اور انھيں حق وباطل کامعیار قرار دے کربڑے زور شور سے بیان کرتے پھرتے ہیں؛ حالاں کہ یہ سب محض جھوٹ اورمن گھڑت ہے،اس کاحقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ۔
صحابہؓ کے آپس میں تعلقات
خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم خاص طور سے اور باقی تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے خاندان نہ صرف باہم شیر وشکر تھے؛ بلکہ ہر ایک دوسرے کا غم خوار، غم گسار،ہمدرد، مہربان اور حقوق کو ادا کرنے والاتھا،خو د حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فریقین کی کتابوں میں سيکڑوں احادیث وروایات مروی ہیں،جن سے صحابۂ کرامؓ کی عمومی اور خلفائے ثلاثہ کی خصوصی فضیلت،منزلت و مرتبت اوربزرگی وتقویٰ کااظہار ہوتاہے،یہ بات صرف اہل سنت کي معتبرکتابوں سے ہی ثابت نہیں؛ بلکہ اہل تشیع کی بنیادی اور معتبر کتابوں میں بھی هيں، خود حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،جن کو وه كبھي نہیں جھٹلا سکتے۔
جوچیزنص قرآنی اور سنت مشہورہ کےخلاف ہو وہ مردود ہے
حضرات صحابۂ کرام اور خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت ومنقبت،بزرگی وتقویٰ، قرآن وسنت سے ثابت ہے؛البتہ روایات اور تاریخی روایات میں ان حضرات کے درمیان مشاجرات کا شائبہ نظر آتا ہے، یہ لوگ ان کےدرمیان تنازعات ورنجیدگی کےجو نقشے کھینچتے ہیں، نصوص قرآنیہ اور سنت مشہورہ کے مقابلہ میں ان کی چنداں حیثیت نہیں اور نہ ہی وہ قرآن وسنت کے معارض بن سکتی ہیں؛ اس ليے کہ اہل سنت اور اہل تشیع کا اس بات پر اتفاق ہے اور یہ فریقین کے يہاں مسلّم ہے کہ جو روایت بھی نصِ قرآنی اور سنتِ مشہورہ مسلّمہ کے خلاف مروی ہو اور اس کی کوئی تاویل ممکن نہ ہو، یاتطبیق وموافقت کی کوئی صورت نہ بن سکتی ہو، تووہ قابلِ تسلیم نہیں۔
از: مولانا ابوعبيدالرحمن عارف محمود، استاذ جامعه فاروقيہ، كراچی http://bit.ly/2XahoI7
Sahaba had good character and virtues but not infallible:
Muslims believe in the good character and virtue of the Sahaba, the pious companions of Prophet Muhammad (peace be upon him) ). That is because Allah has praised them in His Book and they were also praised by the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) as is narrated in the books of Sunnah. These texts clearly indicates that Allah gave them special virtues and noble characteristics, by means of which they attained that great honour and high status with Him. As Allah chose for His message the most pure-hearted of His slaves (i.e., the Prophets), so too He chose as the heirs of the Prophets those who would be grateful for this blessing and who were fit for this honour (of conveying the message).
Sahabah were not infallible:
However it is essential to understand that the Sahaba were not infallible. Rather they were human beings like any others. Whatever sins or mistakes any of them may have made maybe overlooked in comparison to the honour of accompanying the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) and they were forgiven and pardoned. Good deeds take away bad deeds. The support that the Sahaba gave to the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) at any given moment for the sake of this religion cannot be matched.
Shaykh al-Islam Ibn Taymiyah (may Allaah have mercy on him) said: Ahl al-Sunnah speak well of them, and pray for mercy and forgiveness for them, but they do not believe that anyone is infallible or that anyone is protected from making mistakes in their ijtihaad except the Messenger of Allaah; it is possible for anyone else to commit sins or make mistakes, but they are as Allaah says (interpretation of the meaning):
“They are those from whom We shall accept the best of their deeds and overlook their evil deeds. (They shall be) among the dwellers of Paradise ___ a promise of truth, which they have been promised” [al-Ahqaaf 46:16].
When one of the Sahabah sinned by telling Quraysh that the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) was coming with the army during the year of the Conquest, and ‘Umar ibn al-Khattaab wanted to execute him, the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “He was present at Badr, and you do not know, perhaps Allaah looked upon the people of Badr and said: ‘Do what you wish, for I have forgiven you.’” Narrated by al-Bukhaari and Muslim (2494).
And there are other cases in which some of the Sahabah committed sins, then Allah, may He be exalted, pardoned them and forgave them, which is indicative of their virtue and honour and that cannot be undermined by any mistake that they made during the time of the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) or after he died. The verses quoted above, which speak of their virtue and give them the glad tidings of Paradise, cannot been abrogated by anything.
“Those of you, who turned back on that day when the two armies clashed, it was their selfish desires that caused them to backslide. This happened because of some errors they had done. Now God has pardoned them (since their good outweighed their shortcomings). Indeed, God is Absolver of imperfections, Most Clement”. (3:155)