”سلف“ کا لغوی معنی آباواجداد ہیں۔ لفظ سلفی میں آخری یائے نسبتی ہے جیسے بریلوی، دیو بندی، پاکستانی اور ہندوستانی وغیرہ میں ہے۔ اس لفظ کی جمع اسلاف ہے اور اس کے معانی بھی وہی آباواجداد کے ہیں۔ اُردو شعراءنے ان دونوں الفاظ کو انہی معانی میں استعمال کیا ہے…. مثلاً مولانا حالی کہتے ہیں:
سلف کی دیکھ رکھو راستی اور راست اخلاقی
کہ اس کے دیکھنے والے ابھی کچھ لوگ ہیں باقی
اور حضرت اقبال فرماتے ہیں:
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
سلفی یا سلافی تحریک سے وہ تحریک مراد لی جاتی ہے جو20ویں صدی عیسوی کے آخری عشروں میں ایک نظری اسلامی تحریک سے اُٹھ کر ایک عملی جارحانہ تحریک بنی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اسلامی اُفق پر چھانے لگی۔ بعض محققین کے نزدیک یہ اس تحریک کا جدید جنم ہے۔ کئی سو برسوں سے یہ مسلم اُمہ کے جسد میں داخل تھی، کسی آتش فشاں کی طرح کبھی سو جاتی اور کبھی جاگ کر طوفان اُٹھا دیتی۔ اس کے جدید عہد کاآغاز افغان جہاد سے ہوا۔ 1980ءکا عشرہ نہ صرف افغان جہاد کا عشرہ تھا بلکہ نئے اسلامی جمہوری ایران میں بھی ایک نئی اسلامی روح کے احیاءکا عشرہ بھی تھا۔ اسلام کے دو بڑے فرقے شیعہ اور سُنی اپنے اپنے مقاصد میں کامیاب ہو رہے تھے۔ ایران میں رضا شاہ پہلوی جو مغرب کا آلہ ¿ کار تھا، امریکی ایجنڈے کو پروان چڑھانے اور خلیجی ممالک کو ایک نئے اسرائیل میں ڈھالنے میں کوشاں تھا۔ اس کو حضرت آیت اللہ خمینی نے بروقت آ کر ملک بدر کیا اور افغانستان میں کمیونزم کی یلغار کو ان مجاہدین نے روکا جن کی مالی اور اسلحی امداد تو امریکہ نے فراہم کی، لیکن اصل تشویقی (Motivational) امداد اسی سلفی تحریک نے مہیا کی۔
سلفی اسلام کی اہمیت اور صلاحیت کا اندازہ لگانے کے لئے یہی کہنا کافی ہو گا کہ اس سے پاکستان کی بقا کو ایک عشرہ پہلے جو تصوراتی خطرہ لاحق تھا، اگر پاکستان کی افواجِ بالخصوص پاکستان آرمی اور پاک فضائیہ درمیان میں حائل نہ ہو جاتیں تو وہ حقیقت بن جاتا اور آج اسلام آباد میں سلفی خلافت کے نام سے پہلا سلفی خلیفہ سریر آرائے حکومت ہوتا۔….
اس مسئلے کی دوسری اہمیت یہ ہے کہ ہم پاکستانیوں کی اکثریت کو اس خطرے کے کیف و کم، اس کی نوعیت، اس کی تخلیق و پرورش اور اس کے بیکراں محیط کا کچھ اندازہ ہی نہ تھا۔ ہماری آبادی کا ایک طبقہ تو یہ استدلال کیا کرتا تھا کہ پاکستان آرمی نے خود ہی پہلے سلفی تحریک کی نگہداشت و پرداخت کی، اسے مقبوضہ کشمیر میں استعمال کیا اور آج اپنے ہی کاشت کئے ہوئے پودے کی اس گھنی چھاﺅں میں ”آرام“ کر اور کروا رہی ہے جو ایک تناور درخت بن چکا ہے۔…. اگرچہ اس سے زیادہ بڑا جھوٹ ، اس سے زیادہ بڑی بے حسی اور بے خبری اور اس سے زیادہ بڑی سادہ لوحی پاکستانی قوم کی اور نہیں ہو سکتی، تاہم اس سلفی ”پراجیکٹ“ کی کچھ تفصیلات جو اب آہستہ آہستہ منظر عام پر آ رہی ہیں وہ نہ صرف پاکستان بلکہ ”عرب سپرنگ“ کے پس منظر میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں اور حد درجہ چشم کشا ہیں۔
اس سلفی تحریک کی نشوونما میں بہت سے عوامل کا ہاتھ ہے۔ مثلاً ایک تو مسلمان حکمرانوں کی سیاسی بے حسی، دوسرے مسلم اُمہ کا جدید وار ٹیکنالوجی سے بچھڑ جانا، تیسرے مغربی قوتوں کا اسلام کی تحقیر کو شعار بنانا اور چوتھے اسلام اور عیسائیت میں تہذیبوں کے تصادم کا معاملہ وغیرہ، ایسے تہہ در تہہ عوامل تھے جو ایک سادہ لوح مسلمان کی سمجھ میں نہیں آ سکتے تھے۔ مغربی تہذیب کی چکا چوند اور اس کی ہمہ گیر تاثیر نے ملت ِ اسلامیہ میں ایک طرح کی مایوسی پھیلا دی تھی اور مسلم اُمہ کو یہ سمجھنے میں دشواری پیش آنے لگی تھی کہ مغرب کی اس اسلام دشمن اور اخلاق سوز یلغار کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔ لیکن بجائے اس کے کہ مسلمان، ٹیکنالوجی کی اس انیٹ کا جواب ٹیکنالوجی کے پتھر سے دیتے انہوں نے اینٹ کی ٹیکنالوجی کے بنانے والوں اور اس کے حامیوں کو ہی نیست و نابود کرنے کی ٹھان لی۔ بارود تو صدیوں سے موجود تھا، صرف خود کش بمباروں کی کمی تھی جس کو پورا کرنے کے لئے قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی شوکت و سطوت کا واسطہ دیا گیا۔ کہا گیا کہ اگر اس شوکت و سطوت کو پھر سے واپس لانا ہے تو وہی ماحول، وہی نصاب، و ہی مدرسے، وہی شریعت اور وہی طرزِ زندگی اپنانا پڑے گا۔ ایسا کرنے میں کوئی قباحت بھی نہ تھی۔ مسلم اُمہ کی پہلی صدی ساری دُنیا کے لئے حیران کن بھی تھی اور مشعل ِ راہ بھی۔
آنحضورﷺ کا وصال632ءمیں ہوا اور732ءکے آتے آتے صرف ایک صدی میں اسلام چار دانگ عالم میں پھیل گیا۔ ہندستان سے مراکش تک، سپین سے جنوبی فرانس تک اور افغانستان سے قازقستان تک مسلمانوں کی حکومتیں قائم ہو گئیں اور صرف یہی نہیں بلکہ مسلمانوں نے ہر شعبہ ¿ زندگی میں حیرت انگیز ترقیاں کیں اور آج کی ماڈرن مغربی دُنیا میں ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کا جو دور دورہ دیکھ رہے ہیں، اس کی بنیاد بھی اسلام کی اسی پہلی صدی(632ءتک732ئ) ہی میں رکھی گئی۔…. چنانچہ جب20ویں صدی کے وسط میں جنگ عظیم دوم کے خاتمے پر مسلم ممالک نے اپنی گزشتہ 1300برس کے نفع و نقصان کی سٹاک ٹیکنگ کی تو معلوم ہوا کہ قرون اولیٰ میں ہمارے پاس سب کچھ تھا اور آج کچھ بھی نہیں۔ ماضی کے اس”سب کچھ“ کو پھر سے پانے کے لئے بعض مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ اسلام کی پہلی صدی کو ”واپس“ لایا جائے، اسلاف کی راہ اختیار کی جائے، انہی کا طریقہ ¿ زندگی اپنایا جائے، انہی کے نقوش قدم پر چلا جائے اور اس سے سرِ مُو انحراف نہ کیا جائے …. زور ”سر ِ مُو“ پر تھا…. اور اسی نسبت سے اس جدوجہد، کوشش و کاوش اور سلسلہ ¿ عمل نے ”سلفی تحریک“ کا نام پایا۔
اول اول تو اس تحریک میں تشدد نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ بس تبلیغ ہی سب کچھ تھی اور وہ بھی پُرامن…. ان لوگوں کا نعرہ تھا کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاﺅ اور وہی طرز زندگی اپناﺅ جو ہمارے اسلاف نے اپنائی تھی۔ یہی فلاح کی راہ ہے۔ ہمارے آباواجداد نے اسی راہ پر چل کر پورے نظامِ عالم کو بدل ڈالا تھا۔ آج اگر ہم بھی ان کی روش کی پیروی کریں گے تو کسی تشدد، جنگ و جدل، زدو خورد اور لڑائی جھگڑے کی ضرورت نہیں ر ہے گی۔ کہا گیا کہ اخلاق، تواضع، بردباری، حلم، خوش خلقی اور نرماہٹ سے کام لو اور منزلِ مقصود تک رسائی حاصل کرو۔ ایک سادہ مسلمان کے لئے اس پیغام میں کچھ برائی نہ تھی، بلکہ بھلائی ہی بھلائی تھی، نیکی ہی نیکی تھی اور فلاح ہی فلاح تھی۔ لیکن اس سکے کا ایک دوسرا رُخ بھی تھا جو پہلے رُخ سے بالکل مختلف بلکہ متضاد تھا اور جس کا اظہار حضرت اقبال ؒ نے یہ کہہ کر ایک صدی پہلے کر دیا تھا:
کر سکتی ہے بے معرکہ جینے کی تلافی؟
اے پیرِ حرم! تیری مناجاتِ سحر کیا؟
لیکن پیرِ حرم کو کون سمجھاتا کہ مسلم اُمہ کے مرض کا علاج مناجاتِ سحر اور زبانی کلامی تبلیغ میں نہیں، بلکہ جُہد و عمل میں ہے۔ اس کے لئے مسلمان یا کافر ہونا شرط نہیں۔
ہست ایں میکدہ و دعوتِ عام است اینجا
قسمتِ بادہ با اندازہ¿ جام است اینجا
(یہ دُنیا تو ایک شراب خانہ ہے جہاںہر کسی کو دعوت عام ہے۔ جس کے ہاتھ میں جتنا بڑا یا چھوٹا جام ہو گا، اس کو اتنی ہی زیادہ یا کم شراب مل سکے گی)
لیکن سلفی تحریک نے یہ راستہ اختیار نہ کیا۔…. اُس نے اپنے جام کو ”بڑا“ کرنے کی بجائے اس شراب خانے میں جن لوگوں کے ہاتھوں میں بڑے بڑے ساغر دیکھے انہیں چھیننے کی کوشش کی، ان پر اچانک جا پڑے، بعضوں کے جام چور چور کر دیئے اور میناوں اور صراحیوں کو توڑ ڈالا۔ خود اپنے ہاتھ چونکہ خالی تھے اس لئے دوسرے جام بدست مے خواروں کے پیالے توڑ کر اُن کو بھی خالی ہاتھ کرنے کی کوشش کی اور میکدہ کا سارا نظام درہم برہم کر ڈالا۔ لیکن دُنیا میں اور بھی تو میکدے تھے۔ سب میں ہلڑی بازی مچانا ممکن نہ تھا۔ پھر یہ بھی ہوا کہ اکثر شراب خانوں کے پیر ِ مغاں چوکنے ہو گئے۔ انہوں نے اپنے اپنے میخانوں کے باہر باقاعدہ اسلحہ بدست گارڈز بٹھا دیئے اور جہاں ضرورت محسوس ہوئی اپنے سیکیورٹی رِنگ (Ring) کو مزید سخت اور چوکس کر دیا۔ (جاری ہے)
انٹر نیٹ پر جا کر دیکھیں گے تو آپ کو سلفی تحریک، عقائد کے لحاظ سے، اسلام کے دوسرے فرقوں سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آئے گی۔ اہل حدیث، دیوبندی اور وہابی اگرچہ ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں، لیکن اس کے باوجود ان میں رنگ و بو کا کچھ نہ کچھ اختلاف ضرور پایا جاتا ہے اور یہ اختلاف، ہر دین اور ہر مذہب میںموجود ہے۔ اسلام کو اہلِ مغرب کی تنقید کا ہدف اس لئے بنایا جاتا ہے کہ ان کی نگاہ میں اگر کوئی مذہبی تحریک، عقیدہ یا لائحہ عمل ایساہے جو مستقبل قریب یا بعید میں ان سے آگے نکلنے کے امکانات رکھتا تو وہ اسلام ہے۔ ان کے سامنے دورِ ماضی کی صد ہا برسوں پر پھیلی ہوئی مسلم تہذیب و تمدن کی وہ روایات پھیلی پڑی ہیں، جن کا جواب ان کی اپنی روایات سے آج تک نہیں بن پڑا۔ دراصل اہلِ مغرب کا یہی زعم تھا جس نے سلفی تحریک اور اس جیسی دوسری تحاریک کو جنم دیا۔ سلفی تحریک کو سعودی عرب کی وہابی تحریک کی سپورٹ اور اعانت میسر ہے۔ کئی فروعی عقائد بھی ان دونوں تحریکوں کے ایک ہیں۔ اگرچہ تمام سعودی، وہابی نہیں ہیں، لیکن تمام وہابی بنیادی لحاظ سے سلافی ہیں۔
آج سعودی عرب سے باہر دوسرے عرب ممالک میں یہ خوف پایا جاتاہے کہ کہیں یہ سلفی تحریک بھی ان کے داخلی نظام معاشرت وحکومت کو اسی طرح اپنی گرفت میں نہ لے لے جس طرح آج سے 30، 35 برس پہلے اس نے پاکستان کے مساجد و مدارس کو اپنی گرفت میں لے کر ”زیر نگیں“ کر لیا تھا۔ آج کے مصر، تیونس اور مراکش وغیرہ میں جدید اسلام کا جو رنگ و روپ پایا جاتا ہے، وہ سلفی تحریک کے عقائد سے زیادہ میل نہیں کھاتا۔ مثلاً سلفی تحریک کے پیروکار عورتوں کی تعلیم، ان کی مردوں سے برابری اور طاو¿س ورباب کے ان مظاہر سے بالکل لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں جو ان عرب ممالک میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سعودی عرب میں عورتوں پر پردے کی جو پابندیاں ہیں، مرد و زن کی مخلوط تعلیم پر جو قدغنیں ہیں اور رقص و موسیقی کی جو سخت روایات و رسوم ہیں، وہ سعودی عرب سے باہر کے ان عرب ممالک میں آپ کو کہیں نظر نہیں آئیں گی، جہاں ”عرب سپرنگ“ کے حالیہ مظاہرے ہوئے ہیں اور حکومتیں اور حکمران خاندان تبدیل ہوئے ہیں۔
سلفی تحریک، جدید جمہوری تقاضوں کی بھی شدید ناقد ہے، مثلاً زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ سوات کے صوفی اور ملا حضرات کے وہ بیانات ہم پاکستانیوں کو یاد ہوں گے جو انہوں نے پاکستان کی طرز حکومت کے بارے میں دئیے تھے۔ کیاانہوں نے بَرملا نہیں کہا تھا کہ وہ پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے، جمہوری نظام کو تسلیم نہیں کرتے اور پاکستان کے عدالتی نظام کے مخالف ہیں؟ سلافی حضرات سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کی موجودگی میں کسی بھی مسلم ملک کو کسی اور آئین کی ضرورت نہیں۔ اللہ اللہ خیر سلا!
سنت نبوی پر عمل پیرا ہونے سے ان کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق نہیں دئیے جاسکتے۔ اسلام میں سزاو جزاکا جو نظام اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اس پر بھی سلافی تحریک کے مقلد من و عن بلکہ لغوی طور پر عمل کرنا چاہتے ہیں…. ان کے یہی وہ ”انکشافات و ارشادات“ تھے، جن کو سن اور جان کر پاکستان کی سویلین حکومت نے سوات، مالا کنڈ اور دیر میں آرمی ایکشن کی منظوری دی تھی۔ آپریشن راہ راست اور راہ نجات کا فیصلہ فوج نے نہیں، سویلین حکومت نے کیا تھا…. اور انہی ایام میں اسلام آباد تک کو جو خطرات لاحق ہوگئے تھے ان کی صدائے بازگشت تو آج بھی پاکستان کے سوادِ اعظم کے لئے باعث نفرت ہے۔ پاکستان کے انہی تجربات کو دیکھتے ہوئے بیشتر عرب ممالک نے جو سبق حاصل کیا، وہ یہی تھا کہ اسلاف کو آواز نہ دو۔
حقیقت یہ ہے کہ اس تحریک نے پاکستان کے طول و عرض میں لوگوں کے مذہبی عقائد کو شدید متاثر کیا۔ آج کے پاکستان کا ایک عام لکھا پڑھا نوجوان ایک عجیب کنفیوژن میں گرفتار ہے۔ ایک طرف تو وہ تحریک ہے جس نے برصغیر ہند و پاک میں مسلمانوں کو عددی اکثریت عطا کی اور جس کے طفیل اگست1947ءمیں پاکستان کی ریاست وجود میں آئی۔ جن بزرگانِ دین نے جنوبی ایشیاءمیں اسلام کی ترویج و اشاعت کی تھی، انہوں نے کبھی بھی اپنی زندگی میں یہ نہیں کہا تھا کہ ہمارے مقابر تعمیر کرو، ان کو مرجعِ خاص و عام بناو¿ اور وہاں آکر ہم سے من کی مرادیں مانگو…. ایسا ہرگز نہیں تھا۔ وہ سب خدائے واحد کے ماننے والے تھے اور ان کے ہاں شرک کے معانی وہی تھے، جن کو آج سلافی تحریک والوں نے بنیاد بنا کر ان بزرگانِ دین کے مزاروں کو منہدم کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ ماضی قریب میں حضرت داتاگنج بخشؒ، حضرت بابا فرید الدین شکر گنج ؒ، حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ ، رحمان باباؒ اور پیر باباؒ (بونیر والے) کے مزارات کو جس طرح نشانہ بنایا گیا اور ان کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کی گئیں، وہ انتہائی افسوسناک اور قابلِ مذمت تھیں (اور ہیں) اور جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، سلفی اسلام کے نام لیواو¿ں نے ساتویں صدی عیسوی کے اسلام کے احیاءکا جو بیڑا اٹھایا وہ پاکستان کو نجانے کتنے عشرے پیچھے کی طرف لے گیا، کتنی ہزار جانوں کو موت کے گھاٹ اتار گیا اور کتنے لاکھ خاندانوں کو زندگی بھر کے ماتم دے گیا!
اور دوسری طرف عصر حاضر کے روشن خیال مسلم ممالک کی جیتی جاگتی ترقی اور خوش حالی ہے۔ آج کا مسلم نوجوان ان دونوں کے درمیان بھٹک رہا ہے۔
دبستانِ سلفیہ کے اساتذہ اور طلباءکو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اگر وہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے شاندار ماضی کا احیاءچاہتے تو تاریخ کا پہیہ پیچھے کی طرف نہیں گھوم سکتا۔ گردشِ ایام ہمیشہ آگے کی طرف دوڑتی ہے، پیچھے کی طرف نہیں، ساتویں، آٹھویں اور نویں صدی عیسوی میں مسلمانوں نے جو جو کامیابیاں حاصل کیں وہ اپنے ان دشمنوں کے خلاف کیں جو انہی تین صدیوں میں ان کے مقابل تھے۔ اگر آج ہم مسلمان اس دور کو واپس لانے کی کوشش کریں گے تو دشمن کا وہ دورِ ماضی بھی واپس لانا ہوگا جو اس وقت ہمارے سامنے صف آرا ہوا تھا۔ آج کا ہمارا دشمن قرون اولیٰ کا دشمن نہیں، اکیسویں صدی کا دشمن ہے۔ ہم اس دشمن کا مقابلہ آٹھویں یا ساتویں صدی کی اسلامی تاریخ کو واپس لا کر نہیں کر سکتے۔
قرون اولیٰ کی صدیوں کو مسلمانوں کی سنہری اور یورپ کی تاریک صدیاں بھی کہا جاتا ہے۔ آج اگر کوئی اسلامی تحریک، سلفی ہو یا کوئی اور، اس دور کا احیا چاہتی ہے تو اسے یورپ کا وہ براعظم بھی واپس لانا ہوگا جو تاریک تھا۔ امریکہ کا تو کہیں نام و نشان تک نہ تھا اور آسٹریلیا بھی بہت عرصہ بعد دریافت ہوا۔ مشرقِ وسطیٰ میں بھی جو بازنطینی سلطنت تھی یا جو رومن، ایمپائر تھی یا فارس میں جو ساسانی شہنشاہیت تھی، ان کا بیشتر حصہ، ایشاءمیں تھا اور بہت کم یورپ میں تھا۔ مسلمانوں نے اس وقت باز نطینی اور ساسانی حکومتوں کو شکست سے دوچار کیا تو آج نہ وہ ساسانی حکومت ہے نہ کہیں باز نطینی سلطنت نظر آتی ہے۔ اب وہ سلطنتیں زمانے کی گردش کے طفیل تاریکی سے نکل کر روشنی میں آچکی ہیں۔ اپنی قدامت کو جدت میں بدل چکی ہیں اور اپنی کمزوریوں کو توانائیوں کی شکل دے چکی ہیں۔ ان کے مقابلے میں ماضی قریب کا مسلمان اسی تیزی اور اسی تندی سے تبدیل نہیں ہوا جس تندی و تیزی سے ماضیءقریب کا عیسائی، بدھ اور یہودی تبدیل ہوا ہے۔ ایسے میں یہ سلفی تحریک یا بنیاد پرست مسلمانوں کی دوسری تحریکیں، اسلاف کو از سر نو زندہ کر کے کیا کریں گی؟ بطنِ گیتی تو آسمانِ تازہ پیدا کر چکا، جس پر نئے ستارے جلوہ گر ہو چکے، ہمیں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم نہیں کرنا چاہئے ، بلکہ نئے آفتاب و ماہتاب اور نئی کہکشائیں دریافت کرنی چاہئیں…. صد افسوس کہ مغرب تو یہ سب کچھ کر رہا ہے اور ہم ماضی کے ناسٹلجیا میں گرفتار پھرتے ہیں۔
ہاں البتہ آج کا مسلمان اپنے اسلاف کی روح ضرور تازہ کر سکتا ہے، ان کی سپرٹ کا احیاءضرور کر سکتا ہے۔ لیکن ہمارے ”سلفی بھائیوں“ کو سوچنا چاہئے کہ کیا قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے ایران کے کسریٰ اور روم کے قیصر کو شکست دینے کی دھن میں اپنی قوم کو، اپنے ملک اور اپنے ہی معاشرے کو روند ڈالا تھا یا خون خرابہ مچا کر اپنے اسلاف کی یاد تازہ کی تھی؟….
آج کے مسلمان نے اگر آج کی غیر مسلم دنیا کو شکست دینی ہے یا اس کے مقابل آنا ہے یا اس سے آگے نکلنا ہے تو اس کا علاج اپنے اسلاف کی ان روایات کی اندھی پیروی میں نہیں جو اس جدید دور میں قصہءپارینہ بن چکی ہیں۔ ان پرانی روایات کی تقلید کا مطلب دورِ جدید کو کنڈم کرنا بھی نہیں بلکہ موجودہ عہد میں سانس لینا، زندہ رہنا اور اس کو اپنے اسلاف کی سپرٹ پر از سر نو تعمیر کرنا ہے…. سلافی تحریک کو تعمیر پر زور دینا چاہئے، تخریب پر نہیں…. قرونِ اولیٰ کی مسلمانی کو قرنِ جدید میں لانے کے لئے ریورس انجینئرنگ کے بغیر چارہ نہیں۔(ختم شد) ٭
تحریر : غلام جیلانی خان : ڈیلی پاکستان
-
What is Wahhabism? The reactionary branch of Islam said to be ‘the main source of global terrorism:
آج دنیا کے ہر خطّے میں اسلام کے اصلی چہرے “اسلام ناب محمدی” کو مسخ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ دہشت گردی، قتل غارت، بھرے گھروں کا ویراں ہوجانا، ڈر، خوف و وحشت جیسے تمام مفاہیم کو اسلام کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں جاری ہیں۔ دنیا میں بہت سارے سادہ لوح انسان دشمن کے اس بے بنیاد پروپیگنڈے کا شکار ہوچکے ہیں۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تمام چیزیں اسلام کا لازمہ ہیں جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اسلام تو حقیقت میں امن، قربانی، ایثار اور پیار و محبت کی ایک روحانی دنیا ہے کہ جس کے حقیقی مفاہیم سے ابھی تک زمانہ ناآشنا ہے۔ اسلام امن و آشتی کا گہوارہ اور بہترین احساسات و اصول و ضوابط کا ایک مضبوط قلعہ ہے کہ جس کے اندر ڈر، خوف، بدامنی و قتل و غارت جیسی کسی چیز کا وجود نہیں۔ اگر آج بھی کوئی اسلام کے ان تمام احساسات کو قریب سے درک کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ اربعین حسینی ؑ کے موقعے پر کربلا کی طرف نگاہ کرے۔ یہاں اسے حقیقی اسلام و تعلیمات اسلام مجسّم صورت میں نظر آئیں گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ کون سے عناصر ہیں کہ جنہوں نے اسلام کو یہاں لاکر کھڑا کر دیا کہ آج لوگوں کے ذہنوں میں دہشت گردی و اسلام ایک ہی سکّے کے دو رخ محسوس ہوتے ہیں؟ کیوں آج دہشتگردی کے مفہوم کے ساتھ ہی اسلام کا مفہوم ذہن میں آتا ہے؟ کیا یہ نقصان اسلام کو صرف خارجی دشمن نے پہنچایا؟ یا پھر اسلام ہی کے اندر رہ کر اس کے داخلی و اندرونی دشمن نے؟ کہ جس کو آج تک امت مسلمہ پہچان ہی نہ پائی ہو۔
http://islamtimes.org/ur/doc/article/509770/
-
سلفیہ، تکفیر اور دہشت گردی
-
What is Wahhabism? The reactionary branch of Islam said to be ‘the main source of global terrorism: