Salafi and Extremism سلافی نظریات اور شدت پسندی


”سلف“ کا لغوی معنی آباواجداد ہیں۔ لفظ سلفی میں آخری یائے نسبتی ہے جیسے بریلوی، دیو بندی، پاکستانی اور ہندوستانی وغیرہ میں ہے۔ اس لفظ کی جمع اسلاف ہے اور اس کے معانی بھی وہی آباواجداد کے ہیں۔ اُردو شعراءنے ان دونوں الفاظ کو انہی معانی میں استعمال کیا ہے…. مثلاً مولانا حالی کہتے ہیں:

سلف کی دیکھ رکھو راستی اور راست اخلاقی
کہ اس کے دیکھنے والے ابھی کچھ لوگ ہیں باقی
اور حضرت اقبال فرماتے ہیں:
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
سلفی یا سلافی تحریک سے وہ تحریک مراد لی جاتی ہے جو20ویں صدی عیسوی کے آخری عشروں میں ایک نظری اسلامی تحریک سے اُٹھ کر ایک عملی جارحانہ تحریک بنی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اسلامی اُفق پر چھانے لگی۔ بعض محققین کے نزدیک یہ اس تحریک کا جدید جنم ہے۔ کئی سو برسوں سے یہ مسلم اُمہ کے جسد میں داخل تھی، کسی آتش فشاں کی طرح کبھی سو جاتی اور کبھی جاگ کر طوفان اُٹھا دیتی۔ اس کے جدید عہد کاآغاز افغان جہاد سے ہوا۔ 1980ءکا عشرہ نہ صرف افغان جہاد کا عشرہ تھا بلکہ نئے اسلامی جمہوری ایران میں بھی ایک نئی اسلامی روح کے احیاءکا عشرہ بھی تھا۔ اسلام کے دو بڑے فرقے شیعہ اور سُنی اپنے اپنے مقاصد میں کامیاب ہو رہے تھے۔ ایران میں رضا شاہ پہلوی جو مغرب کا آلہ ¿ کار تھا، امریکی ایجنڈے کو پروان چڑھانے اور خلیجی ممالک کو ایک نئے اسرائیل میں ڈھالنے میں کوشاں تھا۔ اس کو حضرت آیت اللہ خمینی نے بروقت آ کر ملک بدر کیا اور افغانستان میں کمیونزم کی یلغار کو ان مجاہدین نے روکا جن کی مالی اور اسلحی امداد تو امریکہ نے فراہم کی، لیکن اصل تشویقی (Motivational) امداد اسی سلفی تحریک نے مہیا کی۔
سلفی اسلام کی اہمیت اور صلاحیت کا اندازہ لگانے کے لئے یہی کہنا کافی ہو گا کہ اس سے پاکستان کی بقا کو ایک عشرہ پہلے جو تصوراتی خطرہ لاحق تھا، اگر پاکستان کی افواجِ بالخصوص پاکستان آرمی اور پاک فضائیہ درمیان میں حائل نہ ہو جاتیں تو وہ حقیقت بن جاتا اور آج اسلام آباد میں سلفی خلافت کے نام سے پہلا سلفی خلیفہ سریر آرائے حکومت ہوتا۔….
اس مسئلے کی دوسری اہمیت یہ ہے کہ ہم پاکستانیوں کی اکثریت کو اس خطرے کے کیف و کم، اس کی نوعیت، اس کی تخلیق و پرورش اور اس کے بیکراں محیط کا کچھ اندازہ ہی نہ تھا۔ ہماری آبادی کا ایک طبقہ تو یہ استدلال کیا کرتا تھا کہ پاکستان آرمی نے خود ہی پہلے سلفی تحریک کی نگہداشت و پرداخت کی، اسے مقبوضہ کشمیر میں استعمال کیا اور آج اپنے ہی کاشت کئے ہوئے پودے کی اس گھنی چھاﺅں میں ”آرام“ کر اور کروا رہی ہے جو ایک تناور درخت بن چکا ہے۔…. اگرچہ اس سے زیادہ بڑا جھوٹ ، اس سے زیادہ بڑی بے حسی اور بے خبری اور اس سے زیادہ بڑی سادہ لوحی پاکستانی قوم کی اور نہیں ہو سکتی، تاہم اس سلفی ”پراجیکٹ“ کی کچھ تفصیلات جو اب آہستہ آہستہ منظر عام پر آ رہی ہیں وہ نہ صرف پاکستان بلکہ ”عرب سپرنگ“ کے پس منظر میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں اور حد درجہ چشم کشا ہیں۔
اس سلفی تحریک کی نشوونما میں بہت سے عوامل کا ہاتھ ہے۔ مثلاً ایک تو مسلمان حکمرانوں کی سیاسی بے حسی، دوسرے مسلم اُمہ کا جدید وار ٹیکنالوجی سے بچھڑ جانا، تیسرے مغربی قوتوں کا اسلام کی تحقیر کو شعار بنانا اور چوتھے اسلام اور عیسائیت میں تہذیبوں کے تصادم کا معاملہ وغیرہ، ایسے تہہ در تہہ عوامل تھے جو ایک سادہ لوح مسلمان کی سمجھ میں نہیں آ سکتے تھے۔ مغربی تہذیب کی چکا چوند اور اس کی ہمہ گیر تاثیر نے ملت ِ اسلامیہ میں ایک طرح کی مایوسی پھیلا دی تھی اور مسلم اُمہ کو یہ سمجھنے میں دشواری پیش آنے لگی تھی کہ مغرب کی اس اسلام دشمن اور اخلاق سوز یلغار کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔ لیکن بجائے اس کے کہ مسلمان، ٹیکنالوجی کی اس انیٹ کا جواب ٹیکنالوجی کے پتھر سے دیتے انہوں نے اینٹ کی ٹیکنالوجی کے بنانے والوں اور اس کے حامیوں کو ہی نیست و نابود کرنے کی ٹھان لی۔ بارود تو صدیوں سے موجود تھا، صرف خود کش بمباروں کی کمی تھی جس کو پورا کرنے کے لئے قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی شوکت و سطوت کا واسطہ دیا گیا۔ کہا گیا کہ اگر اس شوکت و سطوت کو پھر سے واپس لانا ہے تو وہی ماحول، وہی نصاب، و ہی مدرسے، وہی شریعت اور وہی طرزِ زندگی اپنانا پڑے گا۔ ایسا کرنے میں کوئی قباحت بھی نہ تھی۔ مسلم اُمہ کی پہلی صدی ساری دُنیا کے لئے حیران کن بھی تھی اور مشعل ِ راہ بھی۔
آنحضورﷺ کا وصال632ءمیں ہوا اور732ءکے آتے آتے صرف ایک صدی میں اسلام چار دانگ عالم میں پھیل گیا۔ ہندستان سے مراکش تک، سپین سے جنوبی فرانس تک اور افغانستان سے قازقستان تک مسلمانوں کی حکومتیں قائم ہو گئیں اور صرف یہی نہیں بلکہ مسلمانوں نے ہر شعبہ ¿ زندگی میں حیرت انگیز ترقیاں کیں اور آج کی ماڈرن مغربی دُنیا میں ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کا جو دور دورہ دیکھ رہے ہیں، اس کی بنیاد بھی اسلام کی اسی پہلی صدی(632ءتک732ئ) ہی میں رکھی گئی۔…. چنانچہ جب20ویں صدی کے وسط میں جنگ عظیم دوم کے خاتمے پر مسلم ممالک نے اپنی گزشتہ 1300برس کے نفع و نقصان کی سٹاک ٹیکنگ کی تو معلوم ہوا کہ قرون اولیٰ میں ہمارے پاس سب کچھ تھا اور آج کچھ بھی نہیں۔ ماضی کے اس”سب کچھ“ کو پھر سے پانے کے لئے بعض مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ اسلام کی پہلی صدی کو ”واپس“ لایا جائے، اسلاف کی راہ اختیار کی جائے، انہی کا طریقہ ¿ زندگی اپنایا جائے، انہی کے نقوش قدم پر چلا جائے اور اس سے سرِ مُو انحراف نہ کیا جائے …. زور ”سر ِ مُو“ پر تھا…. اور اسی نسبت سے اس جدوجہد، کوشش و کاوش اور سلسلہ ¿ عمل نے ”سلفی تحریک“ کا نام پایا۔
 اول اول تو اس تحریک میں تشدد نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ بس تبلیغ ہی سب کچھ تھی اور وہ بھی پُرامن…. ان لوگوں کا نعرہ تھا کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاﺅ اور وہی طرز زندگی اپناﺅ جو ہمارے اسلاف نے اپنائی تھی۔ یہی فلاح کی راہ ہے۔ ہمارے آباواجداد نے اسی راہ پر چل کر پورے نظامِ عالم کو بدل ڈالا تھا۔ آج اگر ہم بھی ان کی روش کی پیروی کریں گے تو کسی تشدد، جنگ و جدل، زدو خورد اور لڑائی جھگڑے کی ضرورت نہیں ر ہے گی۔ کہا گیا کہ اخلاق، تواضع، بردباری، حلم، خوش خلقی اور نرماہٹ سے کام لو اور منزلِ مقصود تک رسائی حاصل کرو۔ ایک سادہ مسلمان کے لئے اس پیغام میں کچھ برائی نہ تھی، بلکہ بھلائی ہی بھلائی تھی، نیکی ہی نیکی تھی اور فلاح ہی فلاح تھی۔ لیکن اس سکے کا ایک دوسرا رُخ بھی تھا جو پہلے رُخ سے بالکل مختلف بلکہ متضاد تھا اور جس کا اظہار حضرت اقبال ؒ نے یہ کہہ کر ایک صدی پہلے کر دیا تھا:
کر سکتی ہے بے معرکہ جینے کی تلافی؟
اے پیرِ حرم! تیری مناجاتِ سحر کیا؟
لیکن پیرِ حرم کو کون سمجھاتا کہ مسلم اُمہ کے مرض کا علاج مناجاتِ سحر اور زبانی کلامی تبلیغ میں نہیں، بلکہ جُہد و عمل میں ہے۔ اس کے لئے مسلمان یا کافر ہونا شرط نہیں۔
ہست ایں میکدہ و دعوتِ عام است اینجا
قسمتِ بادہ با اندازہ¿ جام است اینجا
(یہ دُنیا تو ایک شراب خانہ ہے جہاںہر کسی کو دعوت عام ہے۔ جس کے ہاتھ میں جتنا بڑا یا چھوٹا جام ہو گا، اس کو اتنی ہی زیادہ یا کم شراب مل سکے گی)
لیکن سلفی تحریک نے یہ راستہ اختیار نہ کیا۔…. اُس نے اپنے جام کو ”بڑا“ کرنے کی بجائے اس شراب خانے میں جن لوگوں کے ہاتھوں میں بڑے بڑے ساغر دیکھے انہیں چھیننے کی کوشش کی، ان پر اچانک جا پڑے، بعضوں کے جام چور چور کر دیئے اور میناوں اور صراحیوں کو توڑ ڈالا۔ خود اپنے ہاتھ چونکہ خالی تھے اس لئے دوسرے جام بدست مے خواروں کے پیالے توڑ کر اُن کو بھی خالی ہاتھ کرنے کی کوشش کی اور میکدہ کا سارا نظام درہم برہم کر ڈالا۔ لیکن دُنیا میں اور بھی تو میکدے تھے۔ سب میں ہلڑی بازی مچانا ممکن نہ تھا۔ پھر یہ بھی ہوا کہ اکثر شراب خانوں کے پیر ِ مغاں چوکنے ہو گئے۔ انہوں نے اپنے اپنے میخانوں کے باہر باقاعدہ اسلحہ بدست گارڈز بٹھا دیئے اور جہاں ضرورت محسوس ہوئی اپنے سیکیورٹی رِنگ (Ring) کو مزید سخت اور چوکس کر دیا۔  (جاری ہے) 

انٹر نیٹ پر جا کر دیکھیں گے تو آپ کو سلفی تحریک، عقائد کے لحاظ سے، اسلام کے دوسرے فرقوں سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آئے گی۔ اہل حدیث، دیوبندی اور وہابی اگرچہ ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں، لیکن اس کے باوجود ان میں رنگ و بو کا کچھ نہ کچھ اختلاف ضرور پایا جاتا ہے اور یہ اختلاف، ہر دین اور ہر مذہب میںموجود ہے۔ اسلام کو اہلِ مغرب کی تنقید کا ہدف اس لئے بنایا جاتا ہے کہ ان کی نگاہ میں اگر کوئی مذہبی تحریک، عقیدہ یا لائحہ عمل ایساہے جو مستقبل قریب یا بعید میں ان سے آگے نکلنے کے امکانات رکھتا تو وہ اسلام ہے۔ ان کے سامنے دورِ ماضی کی صد ہا برسوں پر پھیلی ہوئی مسلم تہذیب و تمدن کی وہ روایات پھیلی پڑی ہیں، جن کا جواب ان کی اپنی روایات سے آج تک نہیں بن پڑا۔ دراصل اہلِ مغرب کا یہی زعم تھا جس نے سلفی تحریک اور اس جیسی دوسری تحاریک کو جنم دیا۔ سلفی تحریک کو سعودی عرب کی وہابی تحریک کی سپورٹ اور اعانت میسر ہے۔ کئی فروعی عقائد بھی ان دونوں تحریکوں کے ایک ہیں۔ اگرچہ تمام سعودی، وہابی نہیں ہیں، لیکن تمام وہابی بنیادی لحاظ سے سلافی ہیں۔
 آج سعودی عرب سے باہر دوسرے عرب ممالک میں یہ خوف پایا جاتاہے کہ کہیں یہ سلفی تحریک بھی ان کے داخلی نظام معاشرت وحکومت کو اسی طرح اپنی گرفت میں نہ لے لے جس طرح آج سے 30، 35 برس پہلے اس نے پاکستان کے مساجد و مدارس کو اپنی گرفت میں لے کر ”زیر نگیں“ کر لیا تھا۔ آج کے مصر، تیونس اور مراکش وغیرہ میں جدید اسلام کا جو رنگ و روپ پایا جاتا ہے، وہ سلفی تحریک کے عقائد سے زیادہ میل نہیں کھاتا۔ مثلاً سلفی تحریک کے پیروکار عورتوں کی تعلیم، ان کی مردوں سے برابری اور طاو¿س ورباب کے ان مظاہر سے بالکل لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں جو ان عرب ممالک میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سعودی عرب میں عورتوں پر پردے کی جو پابندیاں ہیں، مرد و زن کی مخلوط تعلیم پر جو قدغنیں ہیں اور رقص و موسیقی کی جو سخت روایات و رسوم ہیں، وہ سعودی عرب سے باہر کے ان عرب ممالک میں آپ کو کہیں نظر نہیں آئیں گی، جہاں ”عرب سپرنگ“ کے حالیہ مظاہرے ہوئے ہیں اور حکومتیں اور حکمران خاندان تبدیل ہوئے ہیں۔

 سلفی تحریک، جدید جمہوری تقاضوں کی بھی شدید ناقد ہے، مثلاً زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ سوات کے صوفی اور ملا حضرات کے وہ بیانات ہم پاکستانیوں کو یاد ہوں گے جو انہوں نے پاکستان کی طرز حکومت کے بارے میں دئیے تھے۔ کیاانہوں نے بَرملا نہیں کہا تھا کہ وہ پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے، جمہوری نظام کو تسلیم نہیں کرتے اور پاکستان کے عدالتی نظام کے مخالف ہیں؟ سلافی حضرات سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کی موجودگی میں کسی بھی مسلم ملک کو کسی اور آئین کی ضرورت نہیں۔ اللہ اللہ خیر سلا!
 سنت نبوی پر عمل پیرا ہونے سے ان کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق نہیں دئیے جاسکتے۔ اسلام میں سزاو جزاکا جو نظام اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اس پر بھی سلافی تحریک کے مقلد من و عن بلکہ لغوی طور پر عمل کرنا چاہتے ہیں…. ان کے یہی وہ ”انکشافات و ارشادات“ تھے، جن کو سن اور جان کر پاکستان کی سویلین حکومت نے سوات، مالا کنڈ اور دیر میں آرمی ایکشن کی منظوری دی تھی۔ آپریشن راہ راست اور راہ نجات کا فیصلہ فوج نے نہیں، سویلین حکومت نے کیا تھا…. اور انہی ایام میں اسلام آباد تک کو جو خطرات لاحق ہوگئے تھے ان کی صدائے بازگشت تو آج بھی پاکستان کے سوادِ اعظم کے لئے باعث نفرت ہے۔ پاکستان کے انہی تجربات کو دیکھتے ہوئے بیشتر عرب ممالک نے جو سبق حاصل کیا، وہ یہی تھا کہ اسلاف کو آواز نہ دو۔
 حقیقت یہ ہے کہ اس تحریک نے پاکستان کے طول و عرض میں لوگوں کے مذہبی عقائد کو شدید متاثر کیا۔ آج کے پاکستان کا ایک عام لکھا پڑھا نوجوان ایک عجیب کنفیوژن میں گرفتار ہے۔ ایک طرف تو وہ تحریک ہے جس نے برصغیر ہند و پاک میں مسلمانوں کو عددی اکثریت عطا کی اور جس کے طفیل اگست1947ءمیں پاکستان کی ریاست وجود میں آئی۔ جن بزرگانِ دین نے جنوبی ایشیاءمیں اسلام کی ترویج و اشاعت کی تھی، انہوں نے کبھی بھی اپنی زندگی میں یہ نہیں کہا تھا کہ ہمارے مقابر تعمیر کرو، ان کو مرجعِ خاص و عام بناو¿ اور وہاں آکر ہم سے من کی مرادیں مانگو…. ایسا ہرگز نہیں تھا۔ وہ سب خدائے واحد کے ماننے والے تھے اور ان کے ہاں شرک کے معانی وہی تھے، جن کو آج سلافی تحریک والوں نے بنیاد بنا کر ان بزرگانِ دین کے مزاروں کو منہدم کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ ماضی قریب میں حضرت داتاگنج بخشؒ، حضرت بابا فرید الدین شکر گنج ؒ، حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ ، رحمان باباؒ اور پیر باباؒ (بونیر والے) کے مزارات کو جس طرح نشانہ بنایا گیا اور ان کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کی گئیں، وہ انتہائی افسوسناک اور قابلِ مذمت تھیں (اور ہیں) اور جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، سلفی اسلام کے نام لیواو¿ں نے ساتویں صدی عیسوی کے اسلام کے احیاءکا جو بیڑا اٹھایا وہ پاکستان کو نجانے کتنے عشرے پیچھے کی طرف لے گیا، کتنی ہزار جانوں کو موت کے گھاٹ اتار گیا اور کتنے لاکھ خاندانوں کو زندگی بھر کے ماتم دے گیا! 
اور دوسری طرف عصر حاضر کے روشن خیال مسلم ممالک کی جیتی جاگتی ترقی اور خوش حالی ہے۔ آج کا مسلم نوجوان ان دونوں کے درمیان بھٹک رہا ہے۔
دبستانِ سلفیہ کے اساتذہ اور طلباءکو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اگر وہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے شاندار ماضی کا احیاءچاہتے تو تاریخ کا پہیہ پیچھے کی طرف نہیں گھوم سکتا۔ گردشِ ایام ہمیشہ آگے کی طرف دوڑتی ہے، پیچھے کی طرف نہیں، ساتویں، آٹھویں اور نویں صدی عیسوی میں مسلمانوں نے جو جو کامیابیاں حاصل کیں وہ اپنے ان دشمنوں کے خلاف کیں جو انہی تین صدیوں میں ان کے مقابل تھے۔ اگر آج ہم مسلمان اس دور کو واپس لانے کی کوشش کریں گے تو دشمن کا وہ دورِ ماضی بھی واپس لانا ہوگا جو اس وقت ہمارے سامنے صف آرا ہوا تھا۔ آج کا ہمارا دشمن قرون اولیٰ کا دشمن نہیں، اکیسویں صدی کا دشمن ہے۔ ہم اس دشمن کا مقابلہ آٹھویں یا ساتویں صدی کی اسلامی تاریخ کو واپس لا کر نہیں کر سکتے۔
قرون اولیٰ کی صدیوں کو مسلمانوں کی سنہری اور یورپ کی تاریک صدیاں بھی کہا جاتا ہے۔ آج اگر کوئی اسلامی تحریک، سلفی ہو یا کوئی اور، اس دور کا احیا چاہتی ہے تو اسے یورپ کا وہ براعظم بھی واپس لانا ہوگا جو تاریک تھا۔ امریکہ کا تو کہیں نام و نشان تک نہ تھا اور آسٹریلیا بھی بہت عرصہ بعد دریافت ہوا۔ مشرقِ وسطیٰ میں بھی جو بازنطینی سلطنت تھی یا جو رومن، ایمپائر تھی یا فارس میں جو ساسانی شہنشاہیت تھی، ان کا بیشتر حصہ، ایشاءمیں تھا اور بہت کم یورپ میں تھا۔ مسلمانوں نے اس وقت باز نطینی اور ساسانی حکومتوں کو شکست سے دوچار کیا تو آج نہ وہ ساسانی حکومت ہے نہ کہیں باز نطینی سلطنت نظر آتی ہے۔ اب وہ سلطنتیں زمانے کی گردش کے طفیل تاریکی سے نکل کر روشنی میں آچکی ہیں۔ اپنی قدامت کو جدت میں بدل چکی ہیں اور اپنی کمزوریوں کو توانائیوں کی شکل دے چکی ہیں۔ ان کے مقابلے میں ماضی قریب کا مسلمان اسی تیزی اور اسی تندی سے تبدیل نہیں ہوا جس تندی و تیزی سے ماضیءقریب کا عیسائی، بدھ اور یہودی تبدیل ہوا ہے۔ ایسے میں یہ سلفی تحریک یا بنیاد پرست مسلمانوں کی دوسری تحریکیں، اسلاف کو از سر نو زندہ کر کے کیا کریں گی؟ بطنِ گیتی تو آسمانِ تازہ پیدا کر چکا، جس پر نئے ستارے جلوہ گر ہو چکے، ہمیں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم نہیں کرنا چاہئے ، بلکہ نئے آفتاب و ماہتاب اور نئی کہکشائیں دریافت کرنی چاہئیں…. صد افسوس کہ مغرب تو یہ سب کچھ کر رہا ہے اور ہم ماضی کے ناسٹلجیا میں گرفتار پھرتے ہیں۔

ہاں البتہ آج کا مسلمان اپنے اسلاف کی روح ضرور تازہ کر سکتا ہے، ان کی سپرٹ کا احیاءضرور کر سکتا ہے۔ لیکن ہمارے ”سلفی بھائیوں“ کو سوچنا چاہئے کہ کیا قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے ایران کے کسریٰ اور روم کے قیصر کو شکست دینے کی دھن میں اپنی قوم کو، اپنے ملک اور اپنے ہی معاشرے کو روند ڈالا تھا یا خون خرابہ مچا کر اپنے اسلاف کی یاد تازہ کی تھی؟…. 
آج کے مسلمان نے اگر آج کی غیر مسلم دنیا کو شکست دینی ہے یا اس کے مقابل آنا ہے یا اس سے آگے نکلنا ہے تو اس کا علاج اپنے اسلاف کی ان روایات کی اندھی پیروی میں نہیں جو اس جدید دور میں قصہءپارینہ بن چکی ہیں۔ ان پرانی روایات کی تقلید کا مطلب دورِ جدید کو کنڈم کرنا بھی نہیں بلکہ موجودہ عہد میں سانس لینا، زندہ رہنا اور اس کو اپنے اسلاف کی سپرٹ پر از سر نو تعمیر کرنا ہے…. سلافی تحریک کو تعمیر پر زور دینا چاہئے، تخریب پر نہیں…. قرونِ اولیٰ کی مسلمانی کو قرنِ جدید میں لانے کے لئے ریورس انجینئرنگ کے بغیر چارہ نہیں۔(ختم شد)  ٭
تحریر : غلام جیلانی خان : ڈیلی پاکستان 

Image result for ‫سلافی اسلام‬‎
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
  • What is Wahhabism? The reactionary branch of Islam said to be ‘the main source of global terrorism:


آج دنیا کے ہر خطّے میں اسلام کے اصلی چہرے “اسلام ناب محمدی” کو مسخ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ دہشت گردی، قتل غارت، بھرے گھروں کا ویراں ہوجانا، ڈر، خوف و وحشت جیسے تمام مفاہیم کو اسلام کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں جاری ہیں۔ دنیا میں بہت سارے سادہ لوح انسان دشمن کے اس بے بنیاد پروپیگنڈے کا شکار ہوچکے ہیں۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تمام چیزیں اسلام کا لازمہ ہیں جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اسلام تو حقیقت میں امن، قربانی، ایثار اور پیار و محبت کی ایک روحانی دنیا ہے کہ جس کے حقیقی مفاہیم سے ابھی تک زمانہ ناآشنا ہے۔ اسلام امن و آشتی کا گہوارہ اور بہترین احساسات و اصول و ضوابط کا ایک مضبوط قلعہ ہے کہ جس کے اندر ڈر، خوف، بدامنی و قتل و غارت جیسی کسی چیز کا وجود نہیں۔ اگر آج بھی کوئی اسلام کے ان تمام احساسات کو قریب سے درک کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ اربعین حسینی ؑ کے موقعے پر کربلا کی طرف نگاہ کرے۔ یہاں اسے حقیقی اسلام و تعلیمات اسلام مجسّم صورت میں نظر آئیں گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ کون سے عناصر ہیں کہ جنہوں نے اسلام کو یہاں لاکر کھڑا کر دیا کہ آج لوگوں کے ذہنوں میں دہشت گردی و اسلام ایک ہی سکّے کے دو رخ محسوس ہوتے ہیں؟ کیوں آج دہشتگردی کے مفہوم کے ساتھ ہی اسلام کا مفہوم ذہن میں آتا ہے؟ کیا یہ نقصان اسلام کو صرف خارجی دشمن نے پہنچایا؟ یا پھر اسلام ہی کے اندر رہ کر اس کے داخلی و اندرونی دشمن نے؟ کہ جس کو آج تک امت مسلمہ پہچان ہی نہ پائی ہو۔
 
تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے افراد اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ طولِ تاریخ میں اسلام کا سامنا ہمیشہ اِن دونوں دشمنوں سے رہا ہے، بلکہ اگر اس طرح کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اسلام کے نشیمن پہ غیروں سے زیادہ اپنوں نے بجلیاں گرائیں۔ ہمیشہ سے جو غفلت امت مسلمہ سے ہوئی وہ یہی ہے کہ مسلمانوں نے اپنے خارجی و بیرونی دشمن پر تو نظر رکھی مگر اندرونی دشمن کی طرف اصلاً توجہ نہ دی، جس کا نتیجہ آج ہمیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح اگر آج بھی مسلمانوں نے اپنے اندرونی دشمن کو نہ پہچانا اور اسے اسلام کی صفوں سے باہر لا کھڑا نہ کیا تو کل شائد اس سے بھی زیادہ بدتر حالات کا سامنا کرنا پڑے۔ اس وقت مسلمانوں پر واجب ہے کہ تلاش کریں کہ ہماری صفوں میں موجود وہ کون لوگ ہیں کہ جنہوں نے اسلام کے سیاسی، نظریاتی، سماجی، معاشرتی و تعلیمی اصولوں پر کاری ضربیں لگائیں ہیں اور اسلام ِخالص کو تبدیل کرنے کی کوششیں کیں اور کر رہے ہیں۔ آج اسلام کے اندر جو فتنے جنم لے رہے ہیں، ان کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ تمام علماء اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان آٹھویں صدی ہجری تک انبیاء(ع)، اولیاء و صالحین امت کے بارے میں کلمہ وحدت کے قائل تھے۔ پیغمبراکرم (ص) کی زیارت کو مستحب و ان سے توسل کو حکم قرآن و اسلام سمجھتے تھے۔ بعد ازاں اسی آٹھویں صدی ہجری میں اسلام کے اندر ایک فتنہءِ عظیم نے جنم لیا کہ جس کے افکار و پیروکار آج بھی کثرت سے دنیا میں موجود ہیں۔ اس فتنے کو دنیا نے سلف و سلفیت کے نام سے جانا۔ ابتداء اسلام ابھی تک اسلام کو جسقدر اخلاقی، سماجی و نظریاتی نقصان اس فتنہءِ سلفیت نے پہنچایا، تاریخ میں اس جیسی کوئی مثال نہیں ملتی۔
 
سلف لغت میں گذشتہ کو کہا جاتا ہے جیسے القوم السّلاف یعنی گذشتگان[1] اسی طرح سلفی سلف کی طرف منسوب ہے۔ ایک قول کی بناء پر سلفی و سلفیت سے مراد دین، عقیدہ و شریعت کو سمجھنے کے لئے گذشتگان[یعنی صحابہ و صلحاء امت] کی طرف رجوع کرنا ہے [2]، جبکہ ایک دوسرے قول کی بناء پر سلفی و وہابی میں کوئی فرق نہیں، دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ان کے عقائد و نظریات باطل ہیں۔ یہ جزیرۃ العرب میں وہابی جبکہ باہر سلفی کہلائے[3]۔ آٹھویں صدی ہجری میں ابن تیمیہ نامی شخص نے اس فتنے کو جنم دیا۔ اس کا اصل نام ابوالعباس احمد بن عبدالحکیم ہے۔ یہ 661ھ میں شام کے شہر حرّان میں پیدا ہوا۔ یہی وہ پہلا شخص ہے کہ جس نے پہلی دفعہ سلف صالح یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہوئے زیارت پیغمبر (ص) کو حرام قرار دے کر مسلمانوں کے درمیان پرچم بغاوت بلند کیا، جبکہ حقیقت میں اس کا صحابہ کرام و تابعین عظام کے نظریات سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ اسی کو سلفیت کا بانی بھی کہا جاتا ہے، لیکن اگر تاریخ کا دقت سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس فکر نے ابن تیمیہ سے پہلے ہی جنم لے لیا تھا۔ جیسا کہ حاکم نیشاپوری کی روایت کے مطابق سب سے پہلا شخص کہ جس نے تبّرک، توسل و زیارت پیغمبر اکرم (ص) کو حرام قرار دیا اور قبر رسول خدا (ص) کو پتھر سے تعبیر کیا، وہ مروان بن حکم اموی ہے[4]۔
 
اسی طرح حجاج بن یوسف کا شمار بھی انھیں افراد میں ہوتا ہے۔ مبرد [5] کی روایت کے مطابق حجاج کوفہ میں خطبہ دیتے ہوئے رسول اکرم (ص) کی قبر کی زیارت کرنیوالوں کے متعلق یوں کہتا ہے “افسوس ہے ان لوگوں پر جو بوسیدہ ہڈیوں کا طواف کرتے ہیں۔ انہیں کیا ہوگیا ہے، یہ امیر کے قصر کا طواف کیوں نہیں کرتے، کیا نہیں جانتے کہ کسی بھی شخص کا خلیفہ اس کے رسول سے افضل ہوتا ہے [6]”۔ ذہبی {748ھ} [7] حجاج کے بارے یوں لکھتے ہیں “وہ ظالم، جبار، ناصبی، خبیث و سفّاک تھا۔ ہم اس پر سب و شتم کرتے ہیں اور اسے نہیں مانتے [8]”، جبکہ مروان کے بارے ذہبی یوں رقم کرتے ہیں “مروان کے اعمال بہت قبیح تھے، ہم خدا سے سلامتی کے طلبگار ہیں ۔۔۔۔الی الآخر[9]”۔ یہی وہ فکرِ باطلہ تھی کہ جو چلتی چلتی ابن تیمیہ و اسکے پیروکاروں تک پہنچی اور ان لوگوں نے اس فکر کو دل و جان سے قبول کیا۔ خود ابن تیمیہ اور اس کے باطل نظریات کے رد میں علماء اسلام میں سے بہت سارے جید علماء نے قلم اٹھایا ہے۔ جیسا کہ تقی الدین سبکی کی ایک کتاب کہ جسکا نام ہی “الدرۃ المضیئۃ فی الرد علی ابن تیمیہ” ہے۔[10] ذہبی اس بارے میں کہتے ہیں کہ “یقیناً ابن تیمیہ نے عالم اسلام کے نیک افراد کو ذلیل کیا اور اس کے اکثر پیروکار کم عقل، دروغ گو، کند ذہن و مکار ہیں۔” [11] حصنی دمشقی {829ھ} یوں لکھتے ہیں “ابن تیمیہ کافر و زندیق ہے ۔۔۔الی الآخر[12]۔ اسی طرح ابن حجر ہیثمی {973ھ} یوں بیان کرتے ہیں “ابن تیمیہ ایسا شخص ہے کہ جسے خداوند متعال نے اسکے اعمال کی وجہ سے اپنی رحمت سے دور رکھا، اسے گمراہ، اندھا و بہرہ بنا دیا اور اسے ذلیل و رسوا کیا۔” [13] اسی طرح بہت سارے علماء نے اس کے افکارِ باطلہ کو اپنی کتب یا فتاویٰ کے ذریعے رد ّکیا ہے۔ جن میں سرفہرست تاج الدین، تقی الدین سبکی، ابن حجر عسقلانی {852ھ}، ابن شاکر {764ھ}، ملا علی قاری حنفی {1016ھ}، اور شیخ محمود کوثری مصری {1371ھ} ہیں۔ [14]
 
ابن تیمیہ کے افکار ہی تھے کہ جن کی بنا پر امت اسلامیہ کو نظریاتی و عملی طور پر دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ جو ان کے نظریئے کا حامل ہو وہ مسلمان، باقی تمام انسانیت کفر و گمراہی کے اندھیروں میں ہے۔ مگر اس پر مسلسل علماء اہل سنت و دیگر مکاتب فکر کے علماء کی شدید مخالفت کی وجہ سے ابن تیمیہ کے منحرف عقائد و نظریات ایک بڑی تباہی کی بنیاد ڈال کر بتدریج پس پردہ ہوتے چلے گئے۔ ایسا محسوس ہونے لگا کہ گویا ان نظریات کا وجود اب نہیں رہا۔ جیسے ہی امت مسلمہ نے اس سے غفلت برتی اور اس پہلو سے صرفِ نظر کیا، تو یہ سستی و غفلت سبب بنی کہ اس فتنے نے 12ویں صدی ہجری میں ایک دفعہ پھر جنم لیا اور ساتھ ہی مسلمانوں کی وحدت پر ایک دفعہ پھر کاری ضرب لگائی۔ 12ویں صدی ہجری میں محمد بن عبدالوھاب نجدی نے ایک دفعہ پھر ابن تیمیہ کی فکر کو نہ صرف یہ کہ زندہ کیا بلکہ آل سعود کے زیر سایہ اسے عملی جامہ بھی پہنایا۔ محمد بن عبدالوھاب کی ولادت فتنوں کی سرزمیں نجد میں ہوئی۔ محمد بن عبدالوھاب نے جس تحریک کا آغاز کیا کہ جو حقیقت میں تحریک ابن تیمیہ کا ہی تسلسل ہے، اسے وھابیت کے نام سے شہرت ملی۔[15] یہ وہی تحریک ہے کہ جس کے متعلق صاحب ِکتاب “السلفیۃ و الوھابیۃ” نے کہا ہے کہ “سلفی و وہابی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں۔” [16] جبکہ دوسری طرف شیخ نجدی [17] کے والد، دادا، چچا و بھائی محمد بن سلیمان کا شمار اہل سنت کے صحیح العقیدہ حنبلی علماء میں ہوتا ہے۔ یہ تمام شیخ نجدی کے عقائد و نظریات کے سخت مخالف و اسکی تحریک سے بیزار تھے۔
 
محمد بن عبدالوھاب کی تعلیمی سرگرمیوں پر اگر دقیق نگاہ ڈالی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ شیخ نجدی کے تمام استاد انتہائی متعّصب و غیر مقلد تھے۔ ابن تیمیہ کی کتابوں و افکار سے مکمل طور پر متاثر تھے اور یہی تعلیم شیخ نجدی کو بھی دی۔ چنانچہ علامہ علی طنطاوی اس بارے میں یوں لکھتے ہیں کہ “مدینہ میں شیخ نجدی کی ملاقات دو ایسے اشخاص سے ہوئی کہ جو اس کی زندگی کا رخ بدلنے میں بہت موثّر ثابت ہوئے، ان میں سے ایک کا نام عبداللہ بن ابراہیم بن سیف تھا کہ جس کا اوڑھنا، بچھونا ابن تیمیہ و اسکے پیروکاروں کی کتابیں تھیں۔[18] اسی طرح ایک اور جگہ یوں بیان کرتے ہیں کہ”شیخ نجدی کہتا ہے کہ ایک دن ابن سیف نے مجھے کہا کہ کیا میں تمھیں وہ ہتھیار دکھاوں کہ جو میں نے مجمع والوں کے لئے تیار کیا ہے؟ شیخ نجدی نے کہا؛ ہاں، ابن سیف اسے ایک کمرے میں لے گیا کہ جو ابن تیمیہ کی کتابوں سے بھرا ہوا تھا۔ اسی طرح شیخ نجدی کا ایک اور استاد محمد حیات سندھی تھا کہ جو حضور (ص) و بزرگان ِ دین کی تعظیم و شفاعت کا سخت منکر تھا۔ جو آیات کافرین کے بارے میں ہوتیں، انھیں مسلمانوں پر چسپاں کرتا۔ علامہ علی طنطاوی مزید لکھتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ شیخ نجدی نے جو تمام لوگوں کو کافر قرار دیا ہے، یہ ہندوستان کے اسی غیر مقّلد عالم کی تعلیم کا اثر ہے۔”[19] اسی تعلیم و نظریاتِ باطلہ کو بنیاد بنا کر شیخ نجدی نے جزیرہ العرب میں نہتے مسلمانوں کا قتل ِ عام کیا۔ مسلمانوں کی تکفیر، ان کے قتلِ عام اور انکے اموال لوٹنے کی اباحت میں شیخ نجدی خود لکھتے ہیں “اور تم کو معلوم ہوچکا ہے کہ ان لوگوں {مسلمانوں} کا توحید کو مان لینا، انہیں اسلام میں داخل نہیں کرتا۔ ان لوگوں کا انبیاء (ع) و فرشتوں سے شفاعت طلب کرنا اور ان کی تعظیم سے اللہ کا قرب چاہنا، ہی وہ سبب ہے کہ جس نے ان کے ان کے قتل و اموال لوٹنے کو جائز کر دیا ہے۔[20]
 
جن نظریات و افکار کو شیخ نجدی نے بیان کیا اور ان کی ترویج کی، وہ بعین ہی ابن تیمیہ کے نظریات ہیں۔ شیخ نجدی نے بھی ابن تیمیہ کی طرح توسّل سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ “انبیاء (ع) کی عزّت و جاہ کے وسیلے سے دعا مانگنا کفّار سے مماثلت کی وجہ سے کفر ہے۔”[21] مزید یہ کہ شیخ نجدی نے نہ صرف یہ کہ شفاعت سے انکار کیا ہے بلکہ شیخ نجدی کے نزدیک حضور (ص) سے شفاعت طلب کرنا ایسا کفر ہے کہ جس کے بعد شفاعت طلب کرنیوالے کا قتل کرنا اور اسکا مال و اسباب لوٹنا مباح ہوجاتا ہے [22] جبکہ اس کے برعکس علماء اسلام اور بالخصوص امام اہل سنت محمد بن اسماعیل البخاری نے رسول خدا (ص) کے لئے شفاعت مطلقہ کا نظریہ اختیار کیا ہے[23] اور یہی مفہوم آیات قرآنی سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا (ص) کو نہ صرف یہ کہ شفاعت کا اختیار ہے بلکہ شفاعت کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے “اور اللہ تعالٰی سے ان لوگوں کی شفاعت کیجیئے، بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔[24] مزید یہ کہ شیخ نجدی نے تمام علماء اسلام کے اتفاق کے خلاف انبیاء (ع) و صلحاء ِامت سے استمداد و استغاثہ {یعنی مدد طلب کرنے کو} یدعون من دون اللہ کا جامہ پہنا کر عبادت غیر خدا قرار دیا[25] جبکہ اس کے برعکس امام بخاری، قاضی عیاض و دیگر محدثین یوں تحریر کرتے ہیں کہ “ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عمر کا پیر سْن ہوگیا، اس سے کسی نے کہا کہ جو تم میں سب زیادہ محبوب ہو، اس کا نام لو۔ عبداللہ نے بلند آواز سے کہا؛ یامحمد (ص)، تو ان کا پاوں اسی وقت ٹھیک ہوگیا۔[26]
 
شیخ نجدی اپنے باطل افکار کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتا رہا۔ یہاں تک کہ اس نے عوامِ اہل سنت و علماء اہلسنت کے قتل کو جائز قرار دیا۔ اس بارے میں علامہ ابن عابدین شامی متوفی {1252ھ} کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ “محمد بن عبدالوھاب کی مثال خوارج جیسی ہے کہ جنہوں نے حضرت علی (ع) کے خلاف خروج کیا تھا۔ اس کا اعتقاد یہ تھا کہ مسلمان صرف وہ ہیں کہ جو اسکے موافق ہیں اور جو ان کے مخالف ہیں، وہ مسلمان نہیں بلکہ مشرک ہیں۔ اسی بنا پر اس نے اہل سنت اور علماء اہل سنت کے قتل کو جائز رکھا۔[27] شیخ نجدی کے افکار کو باطل ثابت کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ شیخ نجدی کے منابع مدّاعی نبوت، مسلیمہ کذّاب، سجاح، اسود عسنی، طلیحہ اسدی و ابن تیمیہ جیسے گمراہ کن لوگوں کی کتابیں ہیں کہ جن کا شیخ نجدی بڑے شوق سے مطالعہ کیا کرتا تھا۔[28] لہذا یہی منابع و شخصیات سبب بنیں کہ شیخ نجدی گمراہی کے گھپ اندھیروں کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ اب خود رسول گرامی (ص) کی ذات بھی اس کے لئے قابل احترام نہ رہی۔ شیخ نجدی کے نزدیک رسول خدا (ص) پر تنقید کرنا ہی توحید کو محفوظ رکھنے کا واحد ذریعہ تھا۔” کبھی رسول خدا (ص) کو طارش یعنی چھِٹی رساں یا ایلچی کہتا، تو کبھی کہتا کہ واقعہ حدیبیہ میں بہت جھوٹ بولے گے تھے۔ اسکا اپنے حلقہ احباب کے اندر توہین رسالت کرنا اسقدر عام ہوگیا کہ ایک دفعہ اس کے سامنے اس کے ایک شخص نے کہا کہ “میری لاٹھی محمد (ص) سے بہتر ہے، کیونکہ یہ سانپ وغیرہ مارنے کے کام آتی ہے اور محمد (ص) فوت ہوچکے ہیں، اب ان میں کوئی نفع باقی نہیں رہا۔ وہ محض ایک ایلچی تھے، جو اس دنیا سے جا چکے۔”[29] شیخ نجدی ان باتوں سے خوش ہوتا۔ اگر غور و فکر کے دامن کو پکڑا جائے تو یہ افکار کوئی نیا مکتب نہیں، بلکہ اْسی حجاج بن یوسف و ابن تیمیہ کے مکتب کا تسلسل ہے۔
 
شیخ نجدی کی نحوست و بدبختی اسقدر بڑھ گی تھی کہ اب اس کو رسول خدا (ص) پر درود پڑھنا سخت ناپسند تھا اور درود سننے سے اس کو سخت تکلیف ہوتی تھی۔ صرف یہاں تک ہی نہیں بلکہ کہا کرتا تھا کہ کسی فاحشہ عورت کے کوٹھے میں ستار بجانے میں اسقدر گناہ نہیں ہے کہ جسقدر مسجد کے میناروں سے حضور (ص) پر درود پڑھنے کا ہے۔[30] یہ ہیں وہ نظریات کہ جن کو شیخ نجدی نے عالم اسلام کے کونے کونے تک پہنچایا۔ دوسری طرف دنیا کے ہر خطّے میں موجود حق پرست علماء نے اس کے خلاف بھرپور قلم اٹھایا اور حتی الامکان اس کے نظریات ِ فاسدہ کا قلع قمع کرنے کی کوشش کی۔ شیخ ابی حامد مرزوق نے اپنی کتاب [31] میں تقریباً 42 ان علماء کی فہرست مہیا کی ہے کہ جنہوں نے محمد بن عبدالوھاب کے عقائد باطلہ کے رد ّمیں بڑی بڑی کتب تحریر کیں ہیں، تاکہ اس منحوس فتنے کے اثرات سے امت اسلامیہ محفوظ رہ سکے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فتنہ وھابیت، علماء اسلام کی شدید مخالفت کے باوجود، فتنہ ابن تیمیہ کی طرح ختم کیوں نہ ہوا؟ یہ آئے روز بڑھتا کیوں چلا گیا؟ اس کے پیچھے کیا محرکات و اسباب کارفرما تھے اور ہیں؟ آخر کیوں یہ اسلام و مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن، ابھی تک ہماری صفوں میں کھڑا ہے؟ تاریخ اس بات کا ایک ہی جواب دیتی ہے کہ فتنہ وہابیت بھی دوسرے فتنوں کی دب جاتا اور بلآخر ختم ہو جاتا، مگر جیسے ہی یہ فتنہ اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا کہ عین اسی وقت اقتدار میں موجود خاندان آل سعود نے اسلام کے اس دشمن کو سہارا دیا اور اپنی آغوش میں پال کر بڑا کیا۔
 
اس بارے میں مفتی محمد عبدالقیوم یوں بیان کرتے ہیں کہ “محمد بن عبدالوھاب کا ظہور 1143ھ میں ہوا۔ اسکی تحریک 1150ھ میں مشہور ہوئی۔ اس نے پہلے اپنے عقیدے کا اظہار نجد میں کیا اور مسلیمہ کذّاب کے شہر درعیہ کے امیر محمد بن سعود کو اپنا ہمنوا بنا لیا۔ پھر ابن سعود نے اپنی رعایا پر زور ڈالا کہ وہ شیخ نجدی کی دعوت کو قبول کریں۔ پس اہل درعیہ نے مجبوراً دعوت قبول کرلی۔ شیخ نجدی کی دعوت پھیلتی گی، حتی کہ عرب کے قبائل یکے بعد دیگرے دعوت پر لبیک کہتے گئے۔”[32] ایک اور جگہ مفتی عبدالقیوم یوں لکھتے ہیں کہ “شیخ نجدی نے اپنے دین کو پھیلانے کا کام محمد بن سعود کے ذمے سونپ دیا۔ وہ شرق و غرب میں اس کی دعوت پھیلاتا اور سرعام کہتا کہ تم سب لوگ مشرک ہو، تمہارا قتل کرنا، مال و اسباب لوٹنا جائز ہے۔ محمد بن سعود کے نزدیک مسلمان ہونے کا معیار فقط شیخ نجدی کی بیعت تھی۔ محمد بن سعود علی الاعلان کہا کرتا تھا کہ آئمہ اربعہ {امام شافعی، امام مالک، امام احمد اور امام ابو حنیفہ} کے اقوال غیر معتبر ہیں اور جنہوں نے مذاہب اربعہ میں کتابیں لکھیں ہیں، وہ لوگ خود بھی گمراہ تھے اور دوسرں کو بھی گمراہ کیا۔”[33] محمد بن سعود نے اس ذمہ داری کو اتنے خلوص سے ادا کیا کہ شیخ نجدی نے محمد بن سعود کی خاطر “کشف الشبہات” نامی ایک رسالہ تحریر کیا کہ جس میں کھل کر اپنے عقائد فاسدہ کا اظہار کیا۔ اس میں اس نے تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیا، اور کہتا تھا کہ پچھلے 6 سو سالوں سے تمام لوگ کافر و مشرک ہیں۔ ابن سعود نے اس رسالے کو اپنی مملکت کی حدود میں نافذ کیا اور لوگوں کو اس کی طرف دعوت دیتا اور شیخ نجدی کے ہر حکم کی تکمیل کرتا۔
 
پس محمد بن عبدالوھاب “نجدی” قوم میں ایک نبی کی شان سے رہتا تھا۔[34] اسی طرح پھر محمد بن سعود کے بعد عبدالعزیز بن سعود اور پھر سعود بن عبدالعزیز، یہ تمام خاندانِ آل سعود کے وہ ظالم و سفّاک افراد ہیں کہ جنہوں نے وہابیت کی بنیادوں کو مضبوط بنایا اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے۔ لہذا آج 12 ربیع الاول 1437ھ۔ق میں سعودی حکومت کا لاکھوں عاشقانِ رسول (ص) کو رسول خدا (ص) کی ذات گرامی پر درود پڑھنے کے جرم میں مسجد نبوی، صحن جبرائیل سے باہر نکال دینا کوئی نئی بات نہیں [35] کیونکہ یہ آج بھی وہی خاندانِ آلسعود ہے کہ جس نے کل وھابیت کی آبیاری کی تھی۔ یہ آج بھی اسی شیخ نجدی کے پیروکار ہیں کہ جس نے امت کو دو حصوں میں تقسیم کیا تھا۔ آج دنیا میں جہاں کہیں بھی دہشتگردی، قتل و غارت کا بازار گرم ہے تو یہ سب سلف و سلفیت اور وہابیت جیسے افکار کے مرہونِ منت ہے۔ القاعدہ ہو، لشکرجھنگوی، طالبان ہوں یا پھر داعش یہ سب انھیں افکار کے سائے میں پلے بڑھے ہیں۔ ان کے نزدیک دنیا کا ہر انسان کافر و مشرک ہے۔ لہذا کل کی طرح آج بھی یہ اسلام کے حقیقی چہرے کو تبدیل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ مقام فکر تو یہ ہے کہ وہ خاندانِ آل سعود کہ جس کا عقائد اہل سنت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں، وہ پوری اہل سنت کمیونٹی کی سرپرستی کا دعویٰ کس منہ سے کرسکتا ہے۔ الغرض یہ کہ آج دنیا کے کسی خطے میں بھی اگر اسلام کو مشکلات و دشواری کا سامنا ہے، تو اس کی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ آج امت مسلمہ اپنے اندرونی دشمن کو نہیں پہچانا اور اسے اپنی صفوں سے باہر نہیں نکالا، یا پھر پوری امت مسلمہ، نہ جانے کن مصلحتوں کا شکار ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج مسلمانوں کو اپنے خارجی دشمن کے ساتھ ساتھ، اپنے اندرونی دشمن پر بھی نظر رکھنی ہوگی۔ آخر میں آل سعود کے بارے میں بس اتنا کہوں گا کہ اسلام نے ان کے مزاج، فطرت اور عادات کا کچھ نہیں بگاڑا، یہ ظہورِ اسلام سے پہلے جیسے تھے، آج بھی ویسے ہی ہیں، بقولِ اقبال
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
 
منابع
[1] معجم مقاییس اللغۃ [مادہ سلف] ج ۲ ص ۳۹۰
[2] الصعوۃ الاسلامیہ ص ۲۵ قرضاوی
[3] حسن بن سقاف ص ۱۹ طبع دارالامام النووی اردن ،عمان
[4] مسند احمد بن حنبل ج ۵ ص ۴۲۲[مروان وجناب ابو ایوب انصاری والی روایت]
[5] مبرد کا شمار نحو کے مشہور علماء میں ہوتا ہے
[6] الکامل ج ۱ ص ۱۸۵ ، شرح ابن ابی الحدید ج ۱۵ ص ۲۴۲
[7] اس کا اہل سنت کے معتبر و بزرگ علماء میں شمار ہوتا ہے
[8] سیر اعلام النبلاء ج ۴ ص ۳۴۳
[9] میزان الاعتدال ج ۴ ص ۸۹
[10] تاریخ نجد و حجاز ص
[11] تکملۃ السیف الصیقل ص ۹ ، الاعلان بالتوبیح ص ۷۷
[12] النفی و التغریب {طبسی }۱۰۹ ، بحوث فی الملل و النحل ج ۴ ص ۵۰
[13] الدررالکامنۃ ج ۱ ص ۸۸ تا ۹۶
[14] طبقات الشافیعہ الکبریْ ج ۱۰ ص ۳۰۸
[15] تاریخ نجد و حجاز ص ۲۳ اما محمد ،فھو صاحب الدعوۃ التی عرفت باالوھابیۃ
[16] رجوع سابقہ حولہ نمبر ۳ حسن بن سقاف
[17] محمد بن عبدالوھاب کا مشہور لقب ہے ۔ جہاں بھی شیخ نجدی آئے اس سے مراد محمد بن عبدالوھاب ہی ہے
[18] علی طنطاوی جوہری مصری متوفی ۱۳۵۳ھ محمد بن عبدالوھاب ص ۱۵
[19] محمد بن عبدالوھاب ص ۱۶ ، ۱۷
[20] کشف الشّبہات ص ۲۰ ،۲۱ عربی “و عرفت ان اقرارھم بتوحید الربوبیۃ لم یدخلھم فی الاسلام و ان قصدھم الملائکۃ الانبیاء والالیاء یریدون شفاعتھم والتقرب الی اللہ بذلک ھو الذی احّل دماءھم و اموالھم”
[21] تاریخ نجد و حجاز ص ۶۸
[22] تاریخ نجد و حجاز ص ۸۲
[23] مفہوم حدیث ، صحیح بخاری ج ۱ ص ۴۷
[24] واستغفرلھم اللہ ان اللہ غفور رحیم {آیت قرآنی}
[25] محمد بن عبدالوھاب ص ۲۳
[26] الادب الفرد ص ۱۴۲ ، شفاج ج ۲ ص ۱۸
[27] ابن عابدین شامی رد المحتار ج ۳ ص ۴۲۷ ،۴۲۸
[28] تاریخ نجد و حجاز ص ۱۴۰
[29] تاریخ نجد و جحاز ص ۱۴۱ ، ۱۴۲
[30] ایضاً
[31] التّوسل بالنبی و جہلۃ الوہابیین ص ۴۴۹ تا ۲۵۳
[32] تاریخ نجد و جحاز ص ۱۳۲
[33] ایضاً ص۱۴۴
[34] ایضاً ص ۱۵۹ تا ۱۶۰
[35] ۹۲ نیوز جینل {۱۲ ربیع الاول }
آل سعود ۔۔۔ یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
islamtimes.org 
January 2, 2016
تحریر: ساجد علی گوندل
Sajidaligondal88@gmail.com