دوسری طرف قرآن کے مطابق صَلَاة کے تین وسیع اوقات ملتے ہیں اور سنت رسول اللہ ﷺ میں بھی پانچ اوقات کے علاوہ ٹین اوقات میں صَلَاة پڑھنے کی سنت بھی ملتی ہے، دین ابرہیمی کی سنت اور روایات کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے- ان سب کو نظرانداز یا ترک نہیں کیا جاسکتا- یہ بہت اہم تحقیق طلب مسائل میں سے ایک ہے-
مردہ سنت کو زندہ کرنے والے کا ثواب
عوف مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس شخص نے میری سنتوں میں سے کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جو میرے بعد مردہ ہو چکی تھی تو اسے اتنا ثواب ملے گا جتنا اس پر عمل کرنے والوں کو ملے گا، اور ان کے ثوابوں میں کچھ کمی نہ ہو گی، اور جس نے کوئی ایسی بدعت ایجاد کی جسے اللہ اور اس کے رسول پسند نہیں کرتے ہیں تو اسے اتنا گناہ ہو گا جتنا اس پر عمل کرنے والوں کو ہو گا، اس سے ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہ ہو گی“
(سنن ابن ماجه 210, مشكوة المصابيح, ترمزی ) (تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»)
……………..
جمع بین الصلاتین:
قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ہر نماز کو اس کے وقت پر ہی ادا کرناچاہیے۔ نماز کی وقت پر ادائیگی سے متعلق آیات قرآنیہ اور متواتر احادیث کی روشنی میں مفسرین، محدثین، فقہاء وعلماء کرام کا اتفاق ہے کہ فرض نماز کو اس کے متعین اور مقرر وقت پر پڑھنا فرض ہے اور بلا عذر شرعی مقرر وقت سے مقدم وموٴخر کرنا گناہ کبیرہ ہے۔
نماز کو وقت پر پڑھنے سے متعلق چند آیات:
اِنَّ الصَّلَاةَ کَانَتْ عَلَی الْمُوٴمِنِیْنَ کِتَاباً مَّوْقُوْتاً (سورة النساء ۱۰۳)بے شک نماز اہلِ ایمان پرمقررہ وقتوں میں فرض ہے۔
حَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ (سورة البقرة ۲۳۸) نمازوں کی حفاظت کرو۔ مفسر قرآن علامہ ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ وقت پر نمازوں کو ادا کرنے کی حفاظت کا حکم فرماتے ہیں۔
وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلَی صَلَوَاتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ (سورة المعارج۳۴) اور وہ لوگ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ مفسر قرآن ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ وہ لوگ نماز کے اوقات، ارکان، واجبات اور مستحبات کی حفاظت کرتے ہیں۔
فَوَیلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَ (سورة الماعون۴ و ۵)سو ان نمازیوں کے لیے بڑی خرابی ہے جو اپنی نماز میں کاہلی کرتے ہیں۔ مفسرین نے تحریرکیا ہے کہ وقت پر نماز کی ادائیگی نہ کرنا اس آیت کی وعید میں داخل ہے۔
ہر نماز کو اس کے وقت پر ہی ادا کرناچاہیے یہی شریعت اسلامیہ میں مطلوب ہے، پوری زندگی اسی پر عمل کرنا چاہیے اور اسی کی دعوت دوسروں کو دینی چاہیے؛ لیکن اگر کوئی شخص سفر یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے دو نمازوں کو اکٹھا کرنا چاہے تو اس سلسلہ میں فقہاء وعلماء کرام کا اختلاف ہے۔ فقہاء وعلماء کرام کی ایک جماعت نے سفر یا موسلادھار بارش کی وجہ سے ظہر وعصر میں جمع تقدیم وجمع تاخیر اسی طرح مغرب وعشاء میں جمع تقدیم وجمع تاخیر کی اجازت دی ہے؛ لیکن فقہاء وعلماء کرام کی دوسری جماعت نے احادیث نبویہ کی روشنی میں حقیقی جمع کی اجازت نہیں دی ہے۔ ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے مشہور تابعی وفقیہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کی بھی یہی رائے ہے۔ ہندوپاک کے علماء کا بھی یہی موقف ہے۔
فقہاء وعلماء کی یہ جماعت، اُن احادیث کو جن میں جمع بین الصلاتین کا ذکر آیا ہے، ظاہری جمع پر محمول کرتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ظہر کی نماز آخری وقت میں اور عصر کی نماز اوّلِ وقت میں ادا کی جائے، مثلاً ظہر کا وقت ایک بجے سے چار بجے تک ہے اور عصر کا وقت چار بجے سے غروب آفتاب تک تو ظہر کو چار بجے سے کچھ قبل اور عصر کو چار بجے پڑھا جائے۔ اس صورت میں ہر نماز اپنے اپنے وقت کے اندر ادا ہوگی؛ لیکن صورت وعمل کے لحاظ سے دونوں نمازیں اکٹھی ادا ہوں گی، اسی طرح مغرب کی نماز آخری وقت میں اور عشاء کی نماز اوّلِ وقت میں پڑھی جائے، اس کو جمع ظاہری یا جمع صوری یا جمع عملی کہا جاتا ہے۔ اس طرح تمام احادیث پر عمل بھی ہوجائے گا اور قرآن وحدیث کا اصل مطلوب ومقصود (یعنی نمازکی وقت پر ادائیگی) بھی ادا ہوجائے گا۔
بعض آثار صحابہ و تابعین سے بھی بعض لوگوں نے جمع مطلق پر استدلال کیا ہے۔ لیکن ان آثار سے حجت نہیں پکڑنی چاہیے اس لیے کہ اس مسئلہ میں اجتہاد کی گنجائش نہیں ہے۔
بعض لوگ اس جمع کو صوری کہتے ہیں۔ اس کا ثبوت حدیث میں ہے۔ نسائی کی روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے صراحۃً فرمایا:
صَلّیْتُ مَعَ رَسُوْلَ اللّٰہ ﷺ بِالْمَدِیْنَۃِ ثَمَانِیًا جَمْعًا وَّسَبْعًا جَمْعًا اَخّرَا لظَّھَر وَعَجَّلَ الْعَصْرَ وَاَخّرَ الْمَغْرِبَ وَعَجّلَ الْعِشَائَ۔
یعنی آپ کے ساتھ میں نے آٹھ رکعت بھی اکٹھی پڑھیں اور سات بھی وہ یوں کہ ظہر کو مؤخر کیا اور عصر کو مقدم اسی طرح مغرب کو ذرا دیر سے اور عشاء کو جلدی پڑھا۔
الغرض تمام دلائل کو سامنے رکھ کر یہ واضح ہوا کہ حضر میں بلا عذر جمع بین الصلوتین جائز نہیں اور آپﷺ نے جو جمع کی وہ صوری تھی جو اس جمع کا قائل ہے وہ بھی اسے عادت بنا لینے کو جائز نہیں کہتا۔ ثابت ہوا کہ جمہور کے مذہب پر عمل ہونا چاہیے۔ واللہ اعلم بالصواب
یہ تاویل سنت رسول اللہ ﷺ سے مطابقت نہیں رکھتی ، اگر ایک صَلَاة کو اپنے ہی وقت میں آخری وقت اور دوسرسی صَلَاة کو شروع کے وقت پڑھا جایے تو اس میں سہولت والی کون سی بات ہے؟ یہ تو صَلَاة اپنے اپنے اوقات میں ہی پڑھی گیئی ، یہ غور طلب ہے
دونمازوں کو ایک کے بعد ایک ملا کر پڑھتے والوں کے دلائل-1
جو لوگ (دو)نمازوں کو ایک کے بعد ایک ملا کر پڑھتے ہیں اور وہ بھی قرآن و سنت سے دلائل دیتے ہیں- یہ ایک علمی تحقیق ہے لہٰذا ان کا پوانٹ آف ویو بھی معلوم کرنے میں کوئی حرج نہیں- ان کے دو مضامین پیش ہیں-
سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر78 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ وَ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ١ؕ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا(قرآن الحکیم 17:78 )
” آپ سورج ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک (ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی) نماز قائم فرمایا کریں اور نمازِ فجر کا قرآن پڑھنا بھی (لازم کر لیں)، بیشک نمازِ فجر کے قرآن میں (فرشتوں کی) حاضری ہوتی ہے (اور حضوری بھی نصیب ہوتی ہے)“(قرآن الحکیم 17:78 )
شیعہ حضرات روزانہ کی پنجگانہ نمازیں واجب مانتے اور جانتے ہیں۔ اگرچہ وہ اکثر ظہر اور عصر کی نماز میں اکٹھا ملا کر ظہر کی نماز کے اول وقت سے نماز عصر کے آخری وقت تک پڑھتے ہیں۔ وہ مغرب اور عشاء کی نمازوں کو بھی اسی طرح ملا کر پڑھتا ایک بعد دیگرے پڑھنا جائز سمجھتے ہیں۔
یہ عمل قرآن کریم اور مستند احادیث کے عین مطابق ہے۔
حنفی فقہ کو چھوڑ کر، سنّی فقہ اس کی اجازت دیتا ہے کہ واجب نمازوں کو ملا کر پڑھا جاسکتا ہے۔ (انعام، بیان السلاطین)۔ اگر حالات موافق نہ ہوں جیسے۔ بارش، سفر،خوف اور دوسرے ہنگامی حالات میں۔ حنفی فقہ واجب نمازوں کو ملا کر پڑھنے کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔ سوائے دوران حج المذدلفہ میں۔
مالکی شافعی اور حنبلی فقہ اس بات پر متفق ہے کہ سفر میں واجب نمازوں کو ملاکر پڑھا جاسکتا ہے۔ لیکن اور دوسرے وجوبات پر آپس میں اختلاف ہے۔
شیعہ کا جعفری فقہ اس بات کی قطعی اجازت دیتا ہے کہ واجب نمازوں کو کسی خاص وجہ کے بغیر ایک ساتھ پڑھا جاسکتا ہے۔
اوقات نماز بروئے قرآن مجید
قرآن کریم کے مشہور مفسّر امام فخر الدین رازی نے سورہ نمبر ۷۱، آیت ۸۷ کے بارے میں لکھا۔ اور ہم یہ مانتے ہیں کہ اندھیرا (غسق) اس وقت کو مراد یعنی جب اندھیرا پہلے پہل ظاہر ہوتا ہے پھرغسق سے مراد مغرب کی ابتداء سے اس بنیاد پر تین اوقات :
۱۔ دوپہر کا وقت ،
۲ مغرب کی ابتداء کا وقت اور
۳۔ فجر کا وقت۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ دوپہر کا وقت ظہر اور عصر کا ہے۔ اور یہ وقت ان دونوں نمازوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ابتدائے مغرب کا وقت مغرب اور عشاء کے اوقات ہیں۔ اسی طرح یہ وقت بھی ان دونوں نماز میں مشترک ہوجاتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ظہر اور عصر اور مغرب و عشاء کا ملانا ہر جگہ اور ہر موسم میں جائز ہے۔اگرچہ یہ ثابت ہے کہ ان نمازوں کو ایک ساتھ ملا کر پڑھنا جب کہ انسان اپنے گھر پر ہوں بغیر کسی خاص وجہ کے جائز نہیں مانا جاسکتا ہے۔ لہٰذا یہ ماننا پڑے گا کہ یہ نظریہ قائم ہوسکتا ہے۔ بشرط یہ کہ حالت سفر یا بارش میں ہو۔
(فخر الدین رازی، التفسیر الکبیر، جلد ۵، صفحہ ۸۳۴)
ہم آگے چل کر یہ ثابت کردیں گے کہ بغیر کسی خاص وجہ کے بھی نمازوں کو ایک ساتھ پڑھا جاسکتا ہے یہ تو ظاہر ہوگیا ہے کہ واجب نمازوں کے اوقات صرف تین ہی ہیں۔
۱۔ دو فرض نمازوں کے اوقات:
دوپہر میں ظہر اور عصر نمازوں کے لئے جو ان دونوں میں مشترک ہے۔
۲۔ اور دو فرض نماز مغرب اور عشاء کے لئے لہٰذا غروب آفتاب شام اور رات میں جو کہ ان دونوں میں مشترک ہے۔
۳۔ اور نماز فجر کا وقت صبح ہے۔ جواس کے لئے مخصوص ہے۔
کیا پیغمبر (وں) نے ملا کر نماز میں پڑھیں۔
ابن عبّاس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) مدینہ منوّرہ میں سات رکعتی اور آٹھ رکعتیں یعنی دوپہر اور سہ پہر کی ظہر اورعصر کی نمازیں (آٹھ رکعت) اور شام اور رات کی نمازیں یعنی مغرب اور عشاء (سات رکعت کو) ایک ساتھ پڑھیں۔
(صحیح بخاری (انگریزی ترجمہ) جلد ۱، کتاب، ۰۱، نمبر ۷۳۵، صحیح مسلم (انگریزی ترجمہ) کتاب الصلوةٰ، کتاب ۴ باب ۰۰۱، نمازوں کا ملانا، جب وہ شخص وطن میں ہو۔ حدیث نمبر ۲۲۵۱)
عبداللہ بن شقیق نے بتایا کہ ابن عباس ہم لوگوں سے دوپہر میں ایک دن مخاطب ہوئے (دوپہر کی نماز کے بعد) حتّٰی کہ سورج ڈوب گیا اور تارے نکل آئے اور لوگ کہنے لگے نماز، نماز ، بنی تمیم کا ایک شخص آیا اور نہ وہ ڈھیلا پڑا اور نہ ہی واپس ہوا لیکن وہ نماز نماز پکارتا رہا۔
ابن عباس نے کہا تم اپنی ماں سے محروم ہوجاؤ۔ کیا تم ہم کو سنّت سکھا رہے ہو میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو نمازوں کو ایک ساتھ ملا تے ہوئے دیکھا ہے دوپہر کی نماز (ظہر) اور سہ پہر کی نماز (عصر) کو اور شام کی نماز مغرب اور رات کی نماز عشاء کو۔
عبداللہ ابن شقیق نے کہا کہ میرے دل میں کچھ شک ہوا۔ چنانچہ ابوہریرہ کے پاس آیا اور اس بارے میں دریافت کیا۔ اور انھوں نے اس کی تصدیق کردی۔
(صحیح مسلم (انگریزی ترجمہ) کتاب الصلوة، جلد ۴، باب ۰۰۱، نمازوں کو ملانا جب نمازی ٹھہرا ہوا ہو (وطن میں ہو) حدیث نمبر ۳۲۵۱، ۴۲۵۱)
مگر کیا یہ سفر،خوف یا بارش کی وجہ سے تھا؟
رسول خدا (ص) کی کئی حدیثیں اس بات کی مظہر ہیں کہ آپ نمازوں کو ملا کر اکٹھا پڑھا کرتے تھے بغیر کسی خاص وجہ کے۔
رسول اللہ(ص) نے مدینہ کے قیام کے دوران، نہ کہ سفر میں، سات اور آٹھ رکعتیں ملا کر پڑھیں (یہ ظاہر کرتا ہے کہ ۷ رکعت مغرب اور عشاء کی ملاکر اور رکعت ظہر عصر کی ملا کر پڑھیں۔)
(احمد بن حنبل ، المسند، جلد ۱، صفحہ ۱۲۲)
رسول خدا (ص) نے ظہر اور عصر کی نمازوں کو ملاکر اور مغرب اور عشاء کی نمازوں کو ملا کر ہی پڑھا بغیر کسی خاص وجہ کے نہ تو خوف کا موقع تھااور نہ ہی سفر میں تھے۔
(ملک ابن انس، الموطّہ، جلد ۱، صفحہ ۱۶۱)
بے شک بعض احادیث میں ہمیں بتا گیا ہے کہ نبی اللہ کا یہ عمل خاص کر اپنی امت کی سہولت اور آسانی کے لئے تھا۔
ابن عباس نے ہمیں بتایا ہے کہ رسول اللہ کا ظہر اور عصر کی نمازوں کا ملانا اور غروب آفتاب کی نماز کو رات کی نماز کا ملا کر پڑھنا مدینہ منوّرہ میں کسی خاص وجہ جیسے خوف و ڈر یا خطرہ اور بارش کے تھا۔
اور ولی# کے ذریعے بیان کی گئی حدیث ان الفاظ میں ہے ”میں نے ابن عباس سے پوچھا کہ کس چیز نے رسول اللہ کو ایسا کرنے کے لئے اکسایا۔ انھوں نے بتایا تاکہ ”رسول اللہ کی امّت کوغیر ضروری تکلیف اور سختی نہ محسوس ہو۔“
(صحیح مسلم (انگریزی ترجمہ) کتاب الصّلوٰة ، جلد ۴،باب ۰۰۱، نمازوں کا ملا کر پڑھنا جبکہ متوکن ہوں۔ حدیث نمبر ۰۲۵۱، سنن الترمذی جلد ۱، صفحہ ۶۲)
اللہ کے پیغمبر (ص) نے دو پہر اور سہ پہر (ظہر اور عصر) کی نمازوں کو ایک ساتھ ملا کر مدینہ منوّرہ میں پڑھیں جب کہ خطرہ یا خوف کا کوئی محل نہیں تھا اور نہ ہی بارش کا وقت تھا۔ ابو زبیر نے کہا کہ میں نے سعید سے دریافت کیا (جو کہ ایک محدّث تھے) کہ آپ نے ایسا کیوں کیا۔ انھوں نے بتایا کہ میں نے ابن عباس سے پوچھا اورانھوں نے بنایا کہ رسول اللہ چاہتے تھے کہ ان کی امت میں کسی کو غیر ضروری تکلیف نہ ہو۔
(صحیح مسلم، انگریزی ترجمہ) کتاب الصلوٰة، جلد ۴، باب ۳، نمازوں کو ملا کر پڑھنا، جب کہ وہ ساکن ہو، حدیث نمبر ۶۱۵۱)
اگرچہ اس کی اجازت ہو پھر بھی کیوں عمل کریں۔
کوئی یہ نہیں کہتا کہ ظہر اور عصر کی نمازیں یا مغرب اور عشاء کی نماز میں الگ الگ نہیں پڑہی جاسکتی ۔ یہ نمازیں الگ یا ملا کر ایک ساتھ پڑھی جاسکتی ہیں۔
لیکن یہ سوچنے کی بات ہے کہ اللہ کے رسول کا یہ عمل کہ ان نمازوں کو ملا کر پڑھتے اس میں نہ صرف رسول کا اپنا عمل بلکہ پروردگار عالم کی بھی ایما اس میں شامل ہے۔ تاکہ امت مسلّمہ کو آسانی اور سہولت حاصل ہو۔
﴿ان ہی اچھی وجوہات کی بنا پر شیعوں میں ملاکر نماز پڑھنے کا چلن ہوگیا۔﴾
عوام اکثر اپنے کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں اور ان کی اپنی ضرورتیں رہتی ہیں خاص کر ایسے ملک میں جہاں امّت مُسلمہ کے نماز پڑھنے اور عبادت کرنا مناسب اور صحیح وقت پر ممکن نہیں اور نہ ہی ایسی کوئی آسانی ہے۔ بہت ساری ذمّہ داریاں اور کام ایسے ہوتے ہیں لگاتار اور مسلسل ڈیوٹی کرنا پڑتا ہے۔ ایسے مواقع کے لئے ان کی آسانی غیر ضروری شدّت کو ہٹانے اور دونوں وقتوں کی نماز پڑھ سکنے کی آسانی کے لئے ایک ساتھ نماز ادا کرنے میں کتنی سہولت ہوتی ہے۔ یہ اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔
جب لوگ دور اور نزدیک سے ایک وقت نماز کے لئے نکال سکتے ہیں تو اسی وقت دونوں نمازیں ادا کی جاسکتی ہیں۔ اس لئے کہ اس کی اجازت ہے۔
اور وہ وقت جماعت کا ہوتو دونوں نماز یں باجماعت مل جاتی ہیں۔ جس کی اپنی اہمیت اور بے انتہا ثواب ہے۔
اس لئے شیعہ حضرات دو نمازوں کو ایک وقفہ میں پڑھتے ہیں جس کی میعاد محدود نہیں بلکہ نسبتاً نہیں ہے۔ (مقررہ اوقات کے درمیان)
یہ اکثر دیکھا گیا ہے۔ اہل سنّی حضرات جو جمعہ کی جماعت میں بڑی پابندی سے اکٹھا ہوتے ہیں۔ لیکن عصر کی نماز باجماعت اکثر نہیں پڑھ پاتے ہیں۔ مختلف وجوہات کی بنا پر۔
لیکن شیعہ حضرات جمعہ کی جماعت میں شامل رہتے ہیں اور چونکہ عصر کا وقت بھی ہوجاتا ہے اس لئے باجماعت اس نماز کو بھی پڑھ کر ثواب کمالیتے ہیں۔
اس حقیقت کو بھی مدّ نظر رکھنا چاہیئے کہ عام طور پر سنّی حضرات اس عمل پر قائم نہیں ہیں۔ شیعہ حضرات یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس پر قائم رہیں۔ اور سنّت رسول کو زندہ رکھیں۔
ہمیں اپنے بچوں اور دوسرے مسلم حضرات پہ زور دے کر کہنا ہے کہ ظہر، عصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کو ملا کر نہ صرف جائز ہی ہے۔بلکہ عین سنّت رسول ہے۔
حاصل کلام
ظہر ، عصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کو ملاکر ایک ساتھ پڑھنا نہ صرف قرآن حکیم کے عین مطابق ہے۔ بلکہ سنت رسول اور احادیث کی روشنی میں جائز اور حکم کے مطابق ہے۔ اس کے علاوہ یہ اللہ اور رسول کی طرف سے امت کی سہولت کے لئے ہے۔
اہل سنّت کے ان حدیثوں اور اللہ کے نہ ماننے سے ہماری عبادت اور زندگیوں پر کچھ اثر نہیں پڑتا ہے۔
جیسا کہ مشہور سنّی عالم اور صحیح مسلم کے مفسر النوائی لکھتے ہیں۔
”اگر کوئی سنّت کو مُسلّم الثبوت مان لیتے ہیں۔ اس کو اس لئے نہیں چھوڑ سکتے کہ کچھ لوگ یا سبھی لوگ اس حدیث کو نہیں مانتے ۔“
(انوائی: شرح صحیح مسلم (بیروت ۲۹۳۱، ہجری) جلد صفحہ ۶۵)
~~~~~~~~~~~
دونمازوں کو ایک کے بعد ایک ملا کر پڑھتے والوں کے دلائل-2
قرآن مجید کی ظاھری آیات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ نماز پڑھنے کا وقت محدود و مقرر ہے:اللہ کا ارشاد ہے:
اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ وَ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ١ؕ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا(قرآن الحکیم 17:78 )(۱)
”(اے رسول)سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک نماز (ظھر، عصر، مغرب، عشاء) پڑھا کرو اور نماز صبح (بھی)کیونکہ صبح کی نماز پر (دن اور رات کے فرشتوں کی) گواھی ھوتی ہے۔ “(قرآن الحکیم 17:78 )
آیت کریمہ میں نماز کے تین اوقات بیان کئے گئے ہیں اوروہ تین اوقات نمازیہ ہیں:
۱۔ ” دلوک الشمس”( سورج ڈھلنے کا وقت)یہ نماز ظھروعصرکا مشترک اورمخصوص وقت ہے۔
۲۔ “الیٰ غسق الیل”(رات کے اندھیرے تک)یہ نماز مغرب و عشاء کامشترک و مخصوص وقت ہے۔
۳۔ “قرآن الفجران قرآن الفجرکان مشھودا”، اس سے نماز فجرکا وقت مراد ہے۔ پس اس آ یت شریفہ میں وقت کی تعیین کے سلسلہ میں واضح طور پرحکم بیان کر دیا گیا ہے کہ نماز کے لئے یہ تین اوقات مقرر ہیں۔
یہ ایک کلی اور عام حکم ہے جس کا آیت مذکورہ سے استفادہ ھوتا ہے۔
دوسری دلیل: سنت رسول(ص)
پیغمبر اکرم(ص) سے بھت زیادہ ایسی روایات وارد ھوئی ہیں جو واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ ظھر و عصر، مغرب و عشاء کو ایک ساتھ جمع کرنا جائز ہے۔چاھے وہ جمع تقدیمی ھوجیسے ظھر وعصر کے درمیان اس طرح جمع کرناکہ نماز ظھر کو بجا لانے کے فوراََ بعد نماز عصر کو ادا کیا جائے،یا جمع تاخیری ھو،جیسے نماز ظھر کو تاخیر اور دیر سے نماز عصر کے مخصوص وقت سے پھلے ادا کرنا اور پھر نماز عصرکو بجا لانا۔
اھلسنت کی معتبر احادیث کی کتابوں میں رسول اکرم(ص) سے نقل شدہ روایات سے ان دونوں قسم کی جمع (تقدیمی وتاخیری)کا استفادہ ھوتا ہے۔بطور نمونہ کچھ روایات درج ذیل ہیں:
النووی کی صحیح مسلم جلد۵ ص۲۱۳،باب الجمع بین الصلاتین، میں درج ذیل احادیث ذکر ھوئی ہیں:
۱۔ یحیٰ بن یحیٰ نے ھمیں بتایا کہ میں نے مالک کے سامنے اُس حدیث کی قراٴت کی جسے زبیر نے سعید ابن جبیرسے،اور انھوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ابن عباس کھتے ہیں :رسول خدا(ص) نے نماز ظھروعصر،اور مغرب و عشاء بغیر کسی خوف اور سفر کے اکٹھا ادا کی ہے۔
۲۔احمد بن یونس اور عون بن سلام، دونوں نے زھیر سے نقل کیا ہے اور ابن یونس یہ کھتے ہیں کہ زھیر ابو الزبیر نے سعید ابن جبیر سے اور انھوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے ابن عباس کھتے ہیں کہ : پیغمبر اکرم(ص) نے مدینہ میں بغیر کسی خوف و سفر کے نماز ظھرو عصر کو ایک ساتھ انجام دیا۔ابو الزبیر نے کھا کہ میں نے سعید ابن جبیر سے سوال کیا کہ : پیغمبر اکرم(ص) نے ایساکیوں کیا؟تو سعید ابن جبیر نے جواب میں کھا :میں نے یھی سوال ابن عباس سے کیا تو انھوں نے جواب دیاکہ: پیغمبر اپنی امت کوسختی اورتنگی میں مبتلا نھیں کرنا چاھتے تھے۔
۳۔ ابو الربیع الزھرانی نے حمابن زید سے،انھوں نے عمر بن دینار سے،اور انھوں نے جابر بن زید سے ،اور انھوں نے ابن عباس سے یہ حدیث نقل کی ہے ابن عباس کھتے ہیں: پیغمبر اکرم(ص) نے مدینہ میں ظھروعصر،کی آٹھ رکعات اور مغرب وعشاء کی سات رکعات ایک وقت میں انجا م دی ہیں۔
۴۔ بخاری نے اپنی صحیح میں باب” العشاء والعتمہ“ میں اپنے قول کو کچھ اس طرح بیان کیا ہےکہ بخاری نے بطور مرسل(با حذف سلسلہ سند)ابن عمیر،ابوا یوب اورابن عباس سے نقل کیا ہے : رسول اکرم(ص) نے مغرب و عشاء کی نماز ایک ساتھ پڑھی ہے۔(۲)
۵۔ جابر بن زید ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے کھا :کہ پیغمبر اکرم(ص) نے مغرب کی سات رکعات اور عشاء کی آٹھ رکعات کو ایک وقت میں انجام دیا ہیں۔(۳)
۶۔ ترمذی نے سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت ذکر کی ہے؛ ابن عباس کھتے ہیں: پیغمبر اکرم(ص) نے مدینہ میں بغیر کسی خوف اوربغیر بارش کے نماز ظھر و عصر،مغرب وعشاء کو ایک ساتھ پڑھا،ا س کا بعد وہ کھتے ہیں کہ جب ابن عباس سے یہ پوچھا گیا کہ پیغمبر(ص) نے ایسا کیوں کیا ؟تو انھوں نے جواب دیا پیغمبر چاھتے تھے کہ ان کی امت کے لئے عسر و حرج لازم نہ آئے۔(۴)
۷۔ نسائی نے اپنی سنن میں سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت کو ذکر کیا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) مدینہ میں بغیر کسی خوف وباران کے ظھر و عصر،مغرب وعشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ ادا کرتے تھے۔جب اُن سے پوچھا گیا؟آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو ابن عباس نے جواب دیا :تاکہ اُن کی اُمت مشقت و سختی میں مبتلا نہ ھو۔(۵)
۸۔ نسائی نے جابر بن زید کی ابن عباس کے واسطہ سے نقل کردہ حدیث بھی ذکر کی ہے؛کہ بصرہ میں پیغمبر اکرم(ص) نے بغیر کسی عذر کے نماز ظھر وعصر،مغرب و عشاء کو بغیر کسی فاصلہ کے ادا کیا،اور ابن عباس کو یہ خیال آیا کہ انھوں نے مدینہ میں پیغمبر(ص)کی اقتداء میں نماز ظھرو عصر کے آٹھ سجدوں کو پے در پے ادا کیا ہے۔(۶)
۹۔ عبدالرزاق نے عمرو بن شعیب، اور انھوں نے عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے عبداللہ بن عمر کھتے ہیں “پیغمبر اکرم (ص) نے ھمارے سامنے بغیرسفر(حالت حضر) کے ظھر و عصر کی نمازوں کو ایک ساتھانجام دیاہے توایک شخص نے ابن عمر سے پوچھا؟ آپ کی نظر میں پیغمبر(ص)نے ایسا کیوں کیا؟تو اُنھوں نے جواب دیا تا کہ امت محمدی(ص) کو حرج و مشقت کا سامنا نہ کرنا پڑے، خواہ اس کی سھولت وآسانی سے کسی ایک فرد ھی کو فائدہ پھونچے”۔(۷)
۱۰۔ البزار نے اپنی مسند میں ابو ھریرہ سے نقل کیا ہے کہ ابو ھریرہ نے کھا: پیغمبر اکرم(ص) نے مدینہ میں بغیر کسی خوف کے دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کیا ہے۔(۸)
۱۱۔ الطبرانی نے اپنی سند سے عبداللہ بن مسعود کی نقل کردہ روایت کا تذکرہ کیا ہے کہ جب پیغمبر(ص) نے مدینہ میں ظھر و عصر ، مغرب و عشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ انجام دیا تو آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟تو اللہ کے رسول (ص)نے جواب دیا: میری اُمت سختی اور مشقت میں مبتلاء نہ ھو۔(۹)
تیسری دلیل: فضیلت کے وقت نماز ادا کرنا مستحب ہے
ھر نماز کا ایک خا ص وقت ہے جس میں نماز ادا کرنا مستحب ہے اور اس وقت کو فضیلت کا وقت کھا جاتا ہے۔مثلاََ نماز ظھر کی فضیلت اور اس کے استحباب کا وقت ” سورج کے زوال کے بعد جب شاخص کا سایہ اُس کے برابر ھو جائے”۔اسی طرح “نماز عصر کی فضیلت کا وقت ،جب شاخص کا سایہ اس کے دو برابر ھو جائے”۔
روایات کے مطابق یہ وہ اوقات ہیں جن میں مومن کے لئے فضیلت کے اوقات میں نماز بجا لانا مستحب ہے لیکن مسلمان کے لئے نماز عصر اور عشاء کوتاخیر و دیر سے پڑھنا جائز ہے یعنی اُن کے فضیلت کے اوقات میں ادا نہ کرے،تو اسکی نماز صحیح ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کھا جا سکتا ہے کہ اس نے ان نمازوں کوفضیلت کے وقت ادا نھیں کیا جو ایک مستحب عمل تھا۔مثلاََ جیسے کوئی شخص نماز عصر کو اس کے فضیلت کے وقت (کہ جب شاخص کا سایہ اس چیز کے دو گنا ھو جائے)بجا نہ لائے۔
لیکن کچھ اسلامی فرقوں نے نماز کو اُن کے متعارف یعنی فضیلت کے اوقات میں نماز بجا لانے کو ضروری سمجھ لیا ہے جبکہ اس سے عسرو حرج اور مشقت لازم آتا ہے جس کی احادیث میں نفی کی گئی ہے۔
جیسا کی سنن ترمذی میں سعید ابن جبیر کی ابن عباس سے نقل کردہ روایت ذکر ھوئی ہے: پیغمبر اکرم(ص) نے مدینہ میں کسی خوف و بارش کے بغیر نماز ظھر و عصر، مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا ۔اور جب ابن عباس سے پوچھا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو انھو ں نے جواب دیا: پیغمبر(ص) چاھتے تھے کہ ان کی امت کے لئے آسانی ھو،اور وہ عسر و حرج کا سامنا نہ کرے۔(۱۰)
دوسری بات یہ ہے کہ وقت کی تقسیم بندی کچھ اس طرح ہے:
الف: نماز ظھرو عصرکا مخصوص وقت
نماز ظھر کا مخصوص وقت، سورج کے زوال کے بعد اتنی مقدار میں ہے کہ جس میں انسان ظھر کی چار رکعت نماز ادا کر سکے اور نماز عصر کا مخصوص وقت ،سورج کے غروب ھونے سے پھلے اتنی مقدار میں ہے کہ جس میں عصر کی چار رکعت ھی بجا لائی جا سکے ۔
نماز ظھر و عصر کا مشترک وقت
زوال کا وقت ھوتے ھی ظھر کی چار رکعات ادا کرنے سے ظھر و عصر کا مشترک وقت شروع ھو جاتا ہے۔ اور مغرب کی نماز کا وقت شروع ھو جانے کے ساتھ ھی تین رکعات ادا کرنے کے بعد مغرب و عشاء کا مشترک وقت شروع ھو جاتا ہے۔ان ھی اوقات سے ھم نمازوں کے درمیان جمع کرنے کے جواز کو سمجھتے ہیں ۔
پس اگرنماز ظھر کو بجا لانے کے فوراََ بعد نماز عصر کو ادا کیا جائے ،اور اسی طرح نماز مغرب کو ادا کرنے کے فوراََ بعد عشاء کو بجا لایا جائے، تو ایسی جمع بین الصلاتین کو جمع تقدیمی کا نام دیا جاتا ہے۔اور اسی طرح نماز ظھر کو کچھ تاخیر سے نماز عصر کے مخصوص وقت سے پھلے ادا کرنا اور پھر نماز عصر کو بجا لانا جائز ہے،البتہ ایسی “جمع بین الصلاتین ” کو جمع تاخیری کا نام دیا جاتا ہے۔اور درجہ ذیل آیت سے اسی جمع کا استفادہ ھوتا ہے:
“اقم الصلاة لدلوک الشمس الی غسق الیل وقرآن الفجر اَن قرآن الفجرکان مشھوداََ”(۱۱)
(اے رسول)سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک نماز (ظھر، عصر، مغرب، عشاء)پڑھا کرو اور نماز صبح (بھی)کیونکہ صبح کی نماز پر (دن اور رات کے فرشتوں کی) گواھی ھوتی ہے۔
چوتھی دلیل:
پیغمبر اکرم (ص)کا فرمان ہے:“صلّوا کما اُصلّی”نماز کو میرے طور طریقے پر بجالاؤ۔ رسول اکرم(ص) کے قول ،فعل،اورتقریر(محضررسول(ص) میں کوئی عمل انجام دیا جائے اور رسول(ص) اس کا مشاھدہ کرنے کے بعد خاموش رھیں) کو سنت رسول(ص) کہا جاتا ہے۔ھر وہ بات جو پیغمبر(ص) کی زبان اقدس سے جاری ھو،اور ھر وہ کام جس کو رسول(ص) انجام دیں اور ھر وہ چیز جو پیغمبر(ص) کی جانب سے مورد تصدیق و تائید ھو(یعنی جب ان کے سامنے کوئی کام انجام دیا جائے اور وہ اس سے منع نہ کرے)سنت رسول(ص) کی حیثیت رکھتا ہے۔
مذکورہ حدیث میں پیغمبر(ص) نے فرمایا : نماز کو ایسے بجا لاؤ جیسے میں بجا لاتا ھوں۔
پیغمبر(ص)کے قول و فعل اور تقریر (تائید) سے دو نمازوں کے ایک ساتھ پڑھنے اور ان کو جدا جدا کر کے پڑھنے کی سیرت ھمیں ملتی ہے۔
لھذٰا دونمازوں کو ایک ساتھ جمع کرنا جائز ہے ،کیونکہ پیغمبر اکرم(ص) سے منقول تیس سے زیادہ روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ پیغمبر(ص)نےاپنی نمازوں کوجمع بین الصلاتین کی صورت میں ادا کیا،جبکہ یہ روایات،عبداللہ بن عباس،عبداللہ بن عمر، عبداللہ ابن مسعود، ابوھریرہ اورجابربن عبداللہ انصاری جیسے بزرگ اصحاب کے واسطہ سے ،اھل سنت کی معتبرکتابوں(صحاح)میں نقل ھوئی ہیں لیکن مختلف مسالک سے متعلق اکثر فقھاء نے ان روایات کے صحیح اورمعتبر ھونے کا اعتراف کرنے کے باوجود ان احادیث کی تاویل،اور ان کے معنیٰ اصلی و حقیقی میں بے جا تصرف اور رد ّوبدل کرنے کی کوشش کی ہے۔ جیسے مثال کے طور پر،صحیح بخاری کی ابن عباس سے منقول روایت ہے :
پیغمبر اکرم (ص) نے مدینہ میں مغرب و عشاء کی سات رکعا ت اور ظھر و عصر کی آٹھ رکعات نماز کو جمع کی صورت میں ادا کیا،تو (اس حدیث کے بارے میں) ایوب نے کھا کہ پیغمبر(ص) نے شاید ایسا بارش ھونے کی وجہ کیا ھو؟جواب میں کھا گیا ممکن ہے ایسا ھی ھو۔(۱۲)
اس منقولہ روایت میں ھم واضح طور پر اس چیز کا مشاھدہ کرتے ہیں کہ جناب ایوب روایت کو اس کے ا صلی معنی ومفاھیم (جو کی جمع بین صلاتین ہے ) سے دور کرنا چاھتے تھے،لھذٰا “لعلہ فی لیلة مطیرة”کے الفاظ کے ساتھ اس کی تاویل کی کہ شاید پیغمبر(ص) نے نمازوں کے درمیان یہ جمع بارش کی رات کی ھو۔جبکہ یہ حدیث اور دوسری بھت سی روایات واضح طور پر دو نمازوں کے جمع کے جواز کو بیان کر رھی ہیں،اَور جناب ایوب یہ چاھتے تھے کہ اُن کے اس جملہ(لعلّہ فی لیلة مطیرة)کے ذریعہ یہ روایت جمع بین الصلاتین پر دلالت نہ کرے۔جبکہ نمازوں کے درمیان جمع کرنے کا جائز ھونا یقینی ہے کیونکہ پیغمبر اکرم(ص)نے ایسا کیا ہے ۔
جیسا کہ مذکورہ احادیث اور دوسری متعدد روایات اس مطلب پر بہت واضح دلیل ہیں اور اس حکم جواز کو سفر اور بیماری کی صورت میں منحصر کرنا ایک مشکوک اور غیر یقینی بات ہے،کیونکہ راوی اپنی طرف سے جمع بین الصلاتین کی علت کو ان الفاظ میں بیان کر رھا ہے(لعلّہ فی سفرِِو مطرِِ)کہ شاید پیغمبر(ص) نے ایسا بارش،سفر یا سردی کی وجہ سے کیا ھو؟ تو جواب دیا: ھاں شاید ایسا ھی ہے جیسا کہ آپ نے بخاری کی ایوب سے نقل کردہ روایت میں اس چیز کا مشاھدہ کیا ۔لیکن ھم تو پیغمبر اعظم(ص) کے واضح و روشن حکم پر عمل کریں گے،اور ان کا واضح و روشن حکم وھی جواز جمع بین الصلاتین ہے جو یقینی حکم ہے اور یم راوی کے قول کو اُس کی تاویل کر کے صحیح معنیٰ کومشکوک و غیر یقینی بناتے ہیں اس سے صرف نظر کر تے ہیں،اور ایک مسلمان کا وظیفہ بھی یقین پر عمل کرنا اور مشکوک کو ترک کرنا ہے ۔
یہ( غلط) تاویل کرنا ایک ایسی بیماری ہے جس میں اکثرعلماء مبتلاء یونے کی وجہ سے یقین کو چھوڑدیتے ہیں اور شک و ظن پر عمل کرتے ہیں،جبکہ اُن کا عمل قرآن کی مندرجہ ذیل آیت کے بالکل مخالف ہے :
“ما اتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا”(۱۳)
جو تم کو رسول(ص) دیں اسے لے لواور جس سے منع کردیں اُس سے باز رھو۔
مثلاََ اھل سنت کے بزرگ عالم دین فخر رازی اس کا اقرار کرتے ہیں کہ احادیث مذکورہ اور آ یة شریفہ، نمازوں کے درمیان جمع کرنے کے جواز پر دلالت کر رھی ہیں ،ان کی عین عبارت آپ کے حاضر خدمت ہے:
اگر ھم لفظ “الغسق”کے ظاھر اولیہ کو مدّنظر رکھتے ھوئے اس کا معنیٰ “الظلمة” رات کی تاریکی اور اندھیرا مراد لیں تو غسق سے مراد مغرب کا اوّل وقت ہے۔تو اس بناء پر آیت مذکورہ میں نماز کے تین اوقات بیان کئے گئے ہیں ۔
۱۔ زوال کا وقت
۲۔ مغرب کا اول وقت
۳۔ فجر کا وقت
اس تقسیم کے اقتضاء کے مطابق زوال ، ظھر اور عصر دونوں کا وقت ہے،لھذٰا زوال کا وقت ان دونوں نمازوں کا مشترک وقت شمار ھو گااوراول مغرب، مغرب و عشاء کا وقت ھوگا اس طرح یہ وقت مغرب و عشاء کا مشترک وقت قرار پاتا ہے۔اس تمام گفتگو کا اقتضاء یہ ہے کہ نماز ظھرو عصر،مغرب و عشاء کو جمع کرنے کی صورت میں ھر حال میں ادا کرنا جائز ہے لیکن چونکہ دلیل موجود ہے جو یہ دلالت کر رھی ہے کہ حالت حضر (کہ جب انسان سفر میں نہ ھو)میں نمازوں کے درمیان جمع کرنا جائز نھیں لھذٰا جمع فقط سفراور بارش وغیرہ جیسے عذر کی بناء پر جائز ہے۔(۱۴)
اس فقیہ و مفسرکا مذکورہ کلام تعجب انگیز ہے کہ اس نے کس طرح آیت “اقم الصلوة لدلوک الشمس الی غسق الیل․․․․”سے مطلقاََ نماز ظھر و عصراور مغرب و عشاء کے مابین جمع کے جوازکا اظھار کیاہے اورپھر اچانک ھی اپنی رائے یہ کھتے ھوئے تبدیل کردی کہ”الاّ انہ دلیل علیٰ الجمع فی الحضر لا یجوز؟”
(لیکن چونکہ دلیل موجود ہے جو یہ دلالت کر رھی ہے کہ حالت حضر (کہ جب انسان سفر میں نہ ھو)میں دو نمازوں کو جمع کرنا جائز نھیں ہے لھذاجمع فقط سفراور بارش وغیرہ جیسے کسی عذر کی بناء پر جائز ہے)۔
ھم جناب فخر رازی سے یہ سوال کرتے ہیں کہ خدا و رسول(ص) کے واضح فرمان کے بعد وہ کون سی دلیل کا سھارا لے رھے ہیں؟حالت حضر میں جمع کرنا کیوں حرام ہے؟اس تحریم و حرمت کو کس دلیل سے اخذکیاگیا ہے؟جبکہ قرآن اور سنت رسول(ص) دونوں واضح طور پر سفر و حضر میں نمازوں کو اکٹھا ادا کرنے کے جواز کو بیان کر رھی ہیں اورکیا خود پیغمبر اکرم(ص) نے عملی طور پرایسا نھیں کیا؟ لھذا فخر رازی کا یہ اجتھاد باطل وغلط ہے کیونکہ ان کا یہ اجتھاد قرآن اورسنت رسول(ص) کے خلاف ہے بلکہ اس کے مقابلے میں ہے ۔دوسرے الفاظ میں یہ اجتھاد در مقابل نصّ ہے۔(واللہ اعلم)
حوالہ جات:
۱۔ سورہ اسراء آیت ۷۸۔
۲۔ صحیح بخاری ج۱ ص۱۱۳۔
۳۔ صحیح بخاری ج۱ص۱۱۳۔
۴۔ سنن ترمذی ج۱ ص۳۵۴،حدیث ۱۸۷ باب ،ما جاء فی الجمع۔
۵۔ سنن نسائی ،ج۱ ص۲۹۰باب الجمع بین الصلاتین۔
۶۔ سنن نسائی ج۱ ص۲۸۶ ،باب الوقت الذی یجمع فیہ المقیم۔
۷۔ مصھف عبد الرزاق ج۲ ص۵۵۲،حدیث ۴۴۳۸۔
۸۔ مسند البزار ج۱ ،ص۲۸۳،حدیث ۴۲۱۔
۹۔ المعجم الکبیر الطبرانی ،ج۱۰ ص۲۶۹،حدیث ۱۰۵۲۵۔
۱۰۔سنن ترمذی ،ج۱ ص۳۵۴،حدیث ۱۸۷باب ما جاء فی الجمع۔
۱۱۔ سورہ اسراء ،آیت ۷۸۔
۱۲۔ صحیح بخاری ج۱ ص۱۱۰،باب تاخیر الظھر الی العصر۔
۱۳۔ سورہ حشر ،آیت ۷۔
۱۴۔ تفسیر رازی ،الکبیر ،ج۲۱،۲۲۔ص۲۷۔
.
?HOW MANY PRAYERS A DAY
Quranists Version- Extract from “QURAN – A Reformist Translation by Edip Yuksel”
Only three Contact Prayers are mentioned by name in the Quran. In other words, the word “Sala” is qualified with descriptive words in three
- (24:58؛ 11:114)۔
- صلاۃ العشاء- شام کی نماز (24:58؛ 17:78؛11:114 )
- صلاۃ الوسطۃ – درمیانی نماز (2:238؛17:78)
instances.These are:
Sala-al Fajr-DAWN PRAYER (24:58; 11:114)
Sala-al Esha-EVENING PRAYER (24:58; 17:78; 11:114)
Sala-al Wusta- MIDDLE PRAYER (2:238; 17:78)
All of the verses that define the times of the prayers are attributable to one of these three prayers. Now let’s see the related verses:
DAWN & EVENING PRAYERS by their names:
“. . . This is to be done in three instances: before the DAWN PRAYER, at noon when you change your clothes to rest, and after the EVENING PRAYER. . .” (24:58).
For other usage of the word “esha” (evening) see: 12:16; 79:46
The times of DAWN & EVENING PRAYERS defined
“You shall observe the contact prayers at both ends of the daylight, that is, during the adjacent hours of the night. . . ” (11:114)
Traditional translators and commentators consider the last clause “zulfan minal layl” of this verse as a separate prayer indicating to the “night” prayer.
However, we consider that clause not as an addition but as an explanation of the previous ambiguous clause; it explains the temporal direction of the ends of the day. The limits of “Nahar” (daylight) is marked by two distinct points: sunrise and sunset. In other words, two prayers should be observed not just after sunrise and before sunset, but before sunrise and after sunset.
Furthermore, the traditional understanding runs into the problem of contradicting the practice of the very tradition it intend to promote. Traditionally, both morning and evening prayers are observed in a time period that Quranically is considered “LaYL” (night) since Layl starts from sunset and ends at sunrise.
The word “Layl” in Arabic is more comprehensive than the word “night” used in English. If the expression “tarafayin nahar” (both ends of the day) refers to morning and evening prayers which are part of “Layl” (night), then, the last clause cannot be describing another prayer time.
The time of NOON and EVENING PRAYER defined.
“You shall observe the contact prayer when the sun goes down until the darkness of the night. You shall also observe the Quran at dawn. Reading the Quran at dawn is witnessed.” (17:78).
The decline of the sun can be understood either its decline from the zenith marking the start of the Noon prayer or its decline behind the horizon marking the start of the Evening prayer. There are two opposing theories regarding the purpose of the usage of “duluk” (rub) in the verse; nevertheless, either understanding will not contradict the idea of 3 times a day since both Noon and Evening prayers are accepted.
MIDDLE PRAYER (Noon)
“You shall consistently observe the contact prayers, especially the MIDDLE PRAYER, and devote yourselves totally to God.” (2:238).
Verse 38:32 implies that the time of the Middle prayer ends with sunset.
We can easily understand the MIDDLE prayer as a prayer between the two other prayers mentioned by name (Dawn and Evening).
The Old Testament has at least three verses referring to Contact Prayers (Sala) and they confirm this understanding. Though we may not trust the Biblical translations verbatim, we may not consider them as errors since both internal and external consistency of the Biblical passages regarding the Contact Prayers are striking.
“And as soon as the lad was gone, David arose out of a place toward the south, and fell on his face to the ground, and bowed himself three times: and they kissed one another, and wept one with another, until David exceeded.” (1 Samuel 20:41)
“As for me, I will call upon God; and the Lord shall save me. Evening, and morning(17-and at noon, will I pray, and cry aloud: and he shall hear my voice.” (Psalms 55:16-17) (PS: crying aloud apparently means praying with passion).
“Now when Daniel knew that the writing was signed, he went into his house; and his windows being open in his chamber toward Jerusalem, he kneeled upon his knees three times a day, and prayed, and gave thanks before his God, as he did aforetime.”(Daniel 6:10)
The followers of Shiite sect observe 5 prayers 3 times: morning, noon and evening. This strange practice perhaps was the result of a historical compromise with the dominant Sunni 5-times-a-day practice.
Source: QURAN – A Reformist Translation by Edip Yuksel, Layth Saleh al-Shaiban & Martha Schulte-Nafeh, Page 508-509
https://www.academia.edu/2523850/Quran_A_Reformist_Translation
~~~~~~~
نوٹ : علمی دینی ، فقہی معاملہ میں علماء کا اجتہادی اختلاف ممکن ہوتا ہے – اپنے فقہ اور جمہور علماء کے مطابق عمل کریں – اللہ ہماری ہدایت فرماتے
…………….
جوتے پہن کر مسجد میں نماز ادا کر سکتے ہیں؟
یہ ایک بہت اہم اور حساس مسئلہ ہے لہٰذا پہلے ہم چند احادیث ملاحظہ کرتے ہیں پھر آخر میں دور حاضر کے تقاضے کی مناسبت سے تطبیق کریں گے تاکہ ہر کوئی اصل مسئلہ کو بآسانی سمجھ سکے۔ احادیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ يَعْلَی بْنِ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ رضی الله عنه عَنْ أَبِيهِ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : خَالِفُوا الْيَهُودَ فَإِنَّهُمْ لَا يُصَلُّونَ فِي نِعَالِهِمْ وَلَا خِفَافِهِمْ.
(هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإسْنَادِ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ)
حضرت یعلی بن شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نے اپنے والد ماجد حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہود کی مخالفت کرو کیونکہ وہ اپنے جوتوں اور موزوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے۔
(امام حاکم کے نزدیک، اس حدیث مبارکہ کی اسناد صحیح ہیں لیکن اس کو بخاری ومسلم نے روایت نہیں کیا)
أبي داود، السنن، 1: 176، رقم: 652، دار الفکر
حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 1: 391، رقم: 956، بيروت: دار الکتب العلمية
ابن حبان، الصحيح، 5: 561، رقم: 2186، بيروت: مؤسسة الرسالة
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نعلین مبارک پہن کر نماز ادا کرتے تھے:
عَنْ أَبِي مَسْلَمَةَ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ رضی الله عنه قَالَ قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَکَانَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يُصَلِّي فِي النَّعْلَيْنِ؟ قَالَ نَعَمْ.
حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا، کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جوتے پہن کر نماز پڑھ لیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔
بخاري، الصحيح، 1: 151، رقم: 379، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة
مسلم، الصحيح، 1: 391، رقم: 555، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي
أحمد بن حنبل، المسند، 3: 100، رقم: 11995، مصر: مؤسسة قرطبة
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نعلین مبارک کے بغیر بھی نماز پڑھی ہے لہٰذا یہ بھی ہمارے لئے سنت ہے:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ بَيْنَمَا رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يُصَلِّي بِأَصْحَابِهِ إِذْ خَلَعَ نَعْلَيْهِ فَوَضَعَهُمَا عَنْ يَسَارِهِ فَلَمَّا رَأَی ذَلِکَ الْقَوْمُ أَلْقَوْا نِعَالَهُمْ فَلَمَّا قَضَی رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم صَلَاتَهُ قَالَ مَا حَمَلَکُمْ عَلَی إِلْقَاءِ نِعَالِکُمْ قَالُوا رَأَيْنَاکَ أَلْقَيْتَ نَعْلَيْکَ فَأَلْقَيْنَا نِعَالَنَا فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِنَّ جِبْرِيلَ عليه السلام أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّ فِيهِمَا قَذَرًا أَوْ قَالَ أَذًی وَقَالَ إِذَا جَاءَ أَحَدُکُمْ إِلَی الْمَسْجِدِ فَلْيَنْظُرْ فَإِنْ رَأَی فِي نَعْلَيْهِ قَذَرًا أَوْ أَذًی فَلْيَمْسَحْهُ وَلْيُصَلِّ فِيهِمَا.
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا جبکہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب کو نماز پڑھا رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے نعلین مبارک اتار دیئے اور انہیں بائیں جانب رکھ دیا۔ جب لوگوں نے یہ بات دیکھی تو انہوں نے بھی اپنے جوتے اتار دیئے جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز مکمل کرلی تو فرمایا کہ تم نے کس وجہ سے اپنے جوتے اتارے؟ عرض گزار ہوئے کہ ہم نے دیکھا کہ آپ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنے نعلین مبارک اتار دیئے لہٰذا ہم نے بھی اپنے جوتے اتار دیئے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ان میں نجاست لگی ہوئی ہے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو اپنے جوتوں میں نجاست لگی ہوئی دیکھے تو اسے رگڑ دے اور ان کے ساتھ نماز پڑھ لے۔
أحمد بن حنبل، المسند، 3: 20، رقم: 11169
أبي داود، السنن، 1: 175، رقم: 650
دارمي، السنن، 1: 370، رقم: 1378، بيروت: دار الکتاب العربي
ابن خزيمة، الصحيح، 1: 384، رقم: 786، بيروت: المکتب الإسلامي
ایک روایت میں ہے:
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ رضی الله عنه عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يُصَلِّي حَافِيًا وَمُنْتَعِلًا.
حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ ان کے والد ماجد ان کے جد امجد نے فرمایا کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ننگے پاؤں اور نعلین مبارک پہنے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا۔
أبي داود، السنن، 1: 176، رقم: 653
ابن ماجه، السنن، 1: 330، رقم: 1038، بيروت: دار الفکر
جب جوتے اتار کر رکھے تو دوسروں کو تکلیف نہ دے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنْ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ إِذَا صَلَّی أَحَدُکُمْ فَخَلَعَ نَعْلَيْهِ فَلَا يُؤْذِ بِهِمَا أَحَدًا لِيَجْعَلْهُمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ أَوْ لِيُصَلِّ فِيهِمَا.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو جوتے اتار کر ان کے ذریعے دوسرے کو تکلیف نہ پہنچائے لہٰذا انہیں اپنے دونوں پاؤں کے درمیان رکھ لے یا انہیں پہن کر نماز پڑھے۔
أبي داود، السنن،1 : 176، رقم: 655
حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 1: 391، رقم: 957، بيروت: دار الکتب العلمية
ابن حبان، الصحيح، 5: 557، رقم: 2182، بيروت: مؤسسة الرسالة
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ جوتے پہن کر مسجد میں نماز ادا کی جا سکتی ہے لیکن آج کل مسجدوں میں چمکدار ٹائلیں اور بہترین قسم کے قالین بچھے ہوئے ہوتے ہیں جن پر جوتے پہن کر چلنے سے صفائی رکھنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ لہٰذا آج کل مسجد میں جوتے پہن کر نماز پڑھنا مناسب نہیں ہے اور یہ وقت کی ضرورت بھی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے گھر کو بھی باقی عمارتوں سے زیادہ صاف اور ستھرا رکھا جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک اتار کر نماز پڑھنے کی شاید حکمت بھی یہی تھی کہ زمانے گزر جانے کے بعد وقت کی ضرورت کے مطابق کوئی تبدیلی بھی آئے تو عاشقان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنت سے محروم نہ رہیں۔
نماز کی اہمیت ، مسائل ، طریقه اور جمع بین الصلاتین – دو نمازوں کو جمع کرنا: https://goo.gl/xAzxQ5
………………………………….