World without Muslims دنیا مسلمانوں کے بغیر

Here’s what the world would look like without Muslims》》》

تعصب زدہ ذہن، نفرت کا پرچار کرتی زبانیں، نائن الیون کی برسی کے ہنگام مسلمانوں کے خلاف نئی لہر اٹھائی گئی ہے۔ زہر کا تریاق ہے لیکن تعصب کا بھی کوئی تریاق ہوا کرتا ہے؟ وہ تعصب جو جسموں میں نہیں، ذہنوں میں سرایت کر جاتا ہے۔
مغرب کے تنگ نظر اور تنگ دل، ایک بار پھر سرگرم ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی پھر سے ایک مہم برپا ہے۔ نفرتوں کے بیج بوتی اس مہم کا عنوان ہے: ”Imagine a world without Muslims‘‘ یعنی ”تصورکریں مسلمانوں کے بغیر دنیا کیسی ہوتی‘‘۔ اس عنوان کے تحت، مسلمانوں کے خلاف زہر آلود پیغامات پھیلائے گئے‘ ان پر طنز کے تیر برسائے گئے اور انہیں تحقیر کا نشانہ بنایا گیا۔ اس مہم میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ مسلمان نہ ہوتے تو دنیا کتنی پُرامن ہوتی، کبھی کوئی دنگا فساد ہوتا نہ قتل و غارت، دھماکے ہوتے نہ خون کی ہولی کھیلی جاتی، یعنی مسلمانوں نے دنیا میں فساد پھیلانے کے سوا کوئی کام نہیں کیا۔ یہ تاثر دیا گیا کہ اسلام امن و سلامتی، علم و حکمت اور انسانیت کا نہیں، جنگ و جدل اور خونریزی کا دین ہے۔ اس نفرت انگیز مہم کے مدلل اور دلچسپ جواب مسلمان دانشوروں، خود مغربی مصنفوں، تاریخ دانوں اور میڈیا نے دیے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ اگر مسلمان نہ ہوتے تو دنیا میں ہسپتالوں کا تصور نہ ہوتا۔ پہلا ہسپتال 872ء میں احمد ابن طولون کی سلطنت میں قاہرہ میں قائم کیا گیا۔ اس ہسپتال میں نرسنگ کی تربیت گاہ بھی تھی۔ یہاں مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا۔ اسی ہسپتال کو ماڈل بنا کر دنیا میں جدید ہسپتالوں کی بنیاد رکھی گئی۔ اگر مسلمان نہ ہوتے تو ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کے شعبے کہاں ہوتے؟ یہ الخوارزمی ہی تھے جنہوں نے الجبرا متعارف کرایا۔ آج ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کے شعبے الجبرا کی بنیاد پر ہی کھڑے ہیں۔ دنیا بھر کی ترقی انہی شعبوں کی مرہون منت ہے۔ ابن الہیثم وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے یونانی ماہرین کے اس نظریے کو مسترد کیا کہ آنکھوں سے مخصوص شعاعیں خارج ہوتی ہیں‘ جن کی مدد سے انسان دیکھتا ہے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ دراصل یہ روشنی ہے جو خود ہماری آنکھوں میں داخل ہوتی ہے اور ہم دیکھ پاتے ہیں۔ اسی نظریے کی بنیاد پر کیمرہ ایجاد ہوا۔ انہیں جدید عدسوں کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ جدید جیومیٹری بھی انہی کے نظریات اور تجربات پر کھڑی ہے۔ جابر بن حیان ہی وہ مسلمان کیمیادان تھے جنہیں بابائے کیمسٹری کہا جاتا ہے۔ انہوں نے جدید کیمسٹری کی بنیاد رکھی۔ انہی کے فارمولوں پر ہزاروں ادویات بنائی گئیں۔ اسماعیل الجزری وہ مسلمان سائنسدان تھے جنہیں روبوٹ سائنس کا بانی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے سو سے زیادہ تکنیکی آلات ایجاد کیے۔ ان میں زمین سے پانی نکالنے والی مشینیں، خودکار دروازے، فراہمی آب کا نظام، خودکار فوارے اور میوزیکل روبوٹ بینڈز بھی شامل ہیں۔ جدید دور کے غسل خانوں میں لگے آلات بھی پہلی بار انہوں نے ہی بنائے۔ دسویں صدی میں پیدا ہونے والے ابوالقاسم کو بابائے سرجری کہا جاتا ہے۔ انہوں نے نہ صرف سب سے پہلے سرجری کے آلات بنائے بلکہ سرجری کے طریقہ ہائے کار بھی متعارف کرائے۔ ابوالقاسم نے ہی زخم میں ٹانکے لگانے کا طریقہ دریافت کیا۔ انہیں عالمی سطح پر چیف آف سرجنز یعنی تمام سرجنز کا سربراہ مانا جاتا ہے۔ ان کی کتابوں کا یورپ میں ترجمہ کیا گیا‘ جو آج بھی پڑھایا جاتا ہے۔ موجودہ سپین میں ان کے گھر کو تاریخی ورثے کے طور پر محفوظ کیا گیا ہے۔
دنیا میں یونیورسٹی کا تصور بھی مسلمانوں نے ہی دیا۔ زمین پر پہلی یونیورسٹی مسلمان تاجر کی صاحبزادی فاطمۃ الفھریہ نے سن 859ء میں مراکش کے شہر فاس میں قائم کی۔ اس یونیورسٹی سے پہلی بار ڈگریوں کا اجرا شروع کیا گیا۔ یہ یونیورسٹی آج بھی ” University of Al Quaraouiyine‘‘ کے 
نام سے موجود ہے۔ اسی یونیورسٹی میں دنیا کی قدیم ترین لائبریری بھی قائم ہے۔ فضا میں اڑنے کا پہلا تجربہ نویں صدی میں پیدا ہونے والے مسلمان موجد اور انجینئر عباس ابن فرناس نے کیا۔ انہوں نے اڑان بھرنے کے لیے پر اور دیگر آلات تخلیق کیے اور کچھ فاصلے تک پرواز بھی کی۔ ان کے پیش کئے گئے تصور پر ہی بعد میں ہوائی جہاز بنے۔ انہیں اڑنے والی مشین کا موجد قرار دیا جاتا ہے۔ دنیا میں ٹوتھ برش یعنی دانت صاف کرنے والے برش کا تصور بھی مسلمانوں نے دیا۔ نبی اکرمﷺ نے مسواک کا باقاعدگی سے استعمال کیا اور صحابہ کرام کو بھی اس کا استعمال کرنے کی تعلیم دی۔ انہی کے ادوار میں مسواک کا تصور دنیا بھر میں پھیلا اور بعد میں ٹوتھ برش بنائے گئے۔ دنیا بھر کا پسندیدہ مشروب کافی بھی مسلمانوں نے ہی سب سے پہلے بنایا۔ کافی پہلی بار نویں صدی میں یمن میں کشید کی گئی۔ تیرہویں صدی میں کافی ترکی پہنچی اور سولہویں صدی میں یورپ میں اس کا استعمال شروع کیا گیا۔ آج یہ مشروب پورے مغرب کی زندگی کا جزو بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ نظام الاعداد، پن چکی، وِنڈِ مل، کاسمیٹکس، فاونٹین پین، پنڈولم، پلاسٹک سرجری اور ٹِرگنومیٹری کے تصورات بھی سب سے پہلے مسلمانوں نے ہی پیش کیے۔ ان پر تجربات کے لیے 
آلات بنائے اور انہیں کامیابی سے استعمال کیا۔ مصنفین نے مسلمانوں کے ان تاریخی کارناموں کا ذکر کرکے مغرب کو یہ سمجھانے کی کوشش کہ اسلام اور مسلمانوں نے دنیا اور انسانیت کی کتنی خدمت کی۔ علم و حکمت، فلسفہ اور دانشوری ان کی میراث رہی اور اب بھی ہے۔ آج مٹھی بھر دہشت گردوں کو تمام مسلمانوں اور دین اسلام سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ امریکی شہر اوکلاہاما میں 1995ء میں بم حملوں میں 168 افراد ہلاک اور 680 زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے میں 324 عمارتیں تباہ اور بری طرح متاثر ہوئی تھیں۔ یہ حملے کسی مسلمان نے نہیں بلکہ دو امریکیوں ٹموتھی اور ٹیری نکولس نے کیے تھے۔نائن الیون سے پہلے اسے امریکی تاریخ کی بدترین دہشت گردی قرار دیا جاتا ہے۔ 22 جولائی 2011ء کو ناروے میں سفید فام ”Anders Behring‘‘ نے بم حملے اور فائرنگ کرکے 77 افراد کو قتل کر ڈالا۔ جس طرح اوکلاہاما اور ناروے میں ہونے والے حملوں اور اس طر ح کے درجنوں واقعات کو تمام سفید فاموں اور کسی مذہب سے نہیں جوڑا جا سکتا، اسی طرح امریکا، فرانس، بیلجیئم اور دیگر ممالک میں ہونے والی دہشت گردی کا ذمہ دار ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں مسلمانوں کی نمائندہ نہیں، ان کی کارروائیوں سے سب سے زیادہ متاثر کوئی اور نہیں خود مسلمان ہیں۔ تعصب زدہ ذہنوں میں اگرچہ یہ باتیں کم ہی آتی ہیں۔ سوچنے، سمجھنے اور غور کرنے کی زحمت یہ کم ہی کرتے ہیں
– See more at: http://m.dunya.com.pk/index.php/author/ibrahim-raja/2016-09-18/16863/94347273#sthash.vc3kW70r.dpuf
…………………
Would without Muslims…. EDUCATION, SCIENTIFIC LEARNING 
Islam is the complete way of life, (Din), encompassing spiritual, as well as social, political, economic and all other aspects of human life. Early Muslims excelled in knowledge in all the fields. They not only translated the Greek, Indian and other sources of knowledge but made significant additions and transferred to Europe through Muslim Spain. The main reason of decline of Muslim civilization is their lack on interest in learning and scholarship. Muslims are  now found to be mostly illiterate and ignorant. They are backward despite possessing treasures of rich culture, history, energy and other natural resources in abundance. 
 
This book is aimed to highlight the importance, which Islam attaches to attainment of knowledge so that Muslims may endeavour to regain their place among community of nations. 》》》http://justonegod.blogspot.com/2015/05/education-scientific-learning-in-islam.html
~~~~~~~~~~~~~~~~~
مزید پڑھیں:

 

Also Related:

~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~