فتنه انکار حدیث - سنت کی آئینی حیثیت Legal position of Sunnah
فتنه انکار حدیث - سنت کی آئینی حیثیت Legal position of Sunnah
انکارِ حدیث کا فتنہ اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں اٹھا تھا۔ اور اس کے اٹھانے والے خوارج اور معتزلہ تھے۔ خوارج کو اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی تھی کہ مسلم معاشرے میں جو انارکی وہ پھیلانا چاہتے تھے، اس کی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وہ سنت حائل تھی جس نے اس معاشرے کو ایک نظم و ضبط پر قائم کیا تھا۔ اور اس کی راہ میں حضورؐ کے وہ ارشادات حائل تھے جن کی موجودگی میں خوارج کے انتہا پسندانہ نظریات نہ چل سکتے تھے۔ اس بنا پر انہوں نے احادیث کی صحت میں شک اور سنت کے واجب الاتباع ہونے سے انکار کی دوگونہ پالیسی اختیار کی۔ معتزلہ کو اس کی ضرورت اس لیے لاحق ہوئی کہ عجمی اور یونانی فلسفوں سے پہلا سابقہ پیش آتے ہی اسلامی عقائد او ر اصول و احکام کے بارے میں جو شکوک و شبہات ذہنوں میں پیدا ہونے لگے تھے انہیں پوری طرح سمجھنے سے پہلے وہ کسی نہ کسی طرح انہیں حل کر دینا چاہتے تھے۔ خود ان فلسفوں میں ان کو وہ بصیرت حاصل نہ ہوئی تھی کہ ان کا تنقیدی جائزہ لے کر ان کی صحت و قوت جانچ سکتے۔ انہوں نے ہر اس بات کو جو فلسفے کے نام سے آئی، سراسر عقل کا تقاضا سمجھا اور یہ چاہا کہ اسلام کی عقائد اور اصولوں کی ایسی تعبیر کی جائے جس سے وہ ان نام نہاد عقلی تقاضوں کے مطابق ہو جائیں۔ اس راہ میں پھر وہی حدیث و سنت مانع ہوئی۔ اس لیے انہوں نے بھی خوارج کی طرح حدیث کو مشکوک ٹھیرایا اور سنت کو حجت ماننے سے انکار کیا۔
ان دونوں فتنوں کی غرض اور ان کی تکنیک مشترک تھی۔ ان کی غرض یہ تھی کہ قرآن کو اس کے لانے والے کی قولی و عملی تشریح و توضیح سے، اور اس نظامِ فکر و عمل سے جو خدا کے پیغمبر نے اپنی راہنمائی میں قائم کر دیا تھا، الگ کر کے مجرد ایک کتاب کی حیثیت سے لے لیا جائے، اور پھر اس کی من مانی تاویلات کر کے ایک دوسرا نظام بنا ڈالا جائے جس پر اسلام کا لیبل چسپاں ہو۔ اس غرض کے لیے جو تکنیک انہوں نے اختیار کی اس کے دو حربے تھے۔ ایک یہ کہ احادیث کے بارے میں یہ شک دلوں میں ڈالا جائے کہ وہ فی الواقع حضورؐ کی ہیں بھی یا نہیں۔ دوسرے، یہ اصولی سوال اٹھایا جائے کہ کوئی قول یا فعل حضورؐ کا ہو بھی تو ہم اس کی اطاعت و اتباع کے پابند کب ہیں۔ ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم تک قرآن پہنچانے کے لیے مامور کیے گئے تھے، سو انہوں نے وہ پہنچا دیا۔ اس کے بعد محمدؐ بن عبد اللہ ویسے ہی ایک انسان تھے جیسے ہم ہیں۔ انہوں نے جو کہا اور کیا وہ ہمارے لیے حجت کیسے ہو سکتا ہے۔
یہ دونوں فتنے تھوڑی مدت چل کر اپنی موت آپ مر گئے اور تیسری صدی کے بعد پھر صدیوں تک اسلامی دنیا میں ان کا نام و نشان باقی نہ رہا۔ جن بڑے بڑے اسباب نے اس وقت ان فتنوں کا قلع قمع کر ڈالا، وہ حسب ذیل تھے:
۱۔ محدثین کا زبردست تحقیقی کام، جس نے مسلمانوں کے تمام سوچنے سمجھنے والے لوگوں کو مطمئن کر دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت جن روایات سے ثابت ہوتی ہے، وہ ہرگز مشتبہ نہیں ہیں بلکہ نہایت معتبر ذرائع سے امت کو پہنچی ہیں، اور ان کو مشتبہ روایات سے الگ کرنے کے لیے بہترین علمی ذرائع موجود ہیں۔
۲۔ قرآن کی تصریحات، جن سے اس زمانے کے اہل علم نے عام لوگوں کے سامنے یہ بات ثابت کر دی کہ دین کے نظام میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ حیثیت ہر گز نہیں ہے جو منکرین حدیث حضورؐ کو دینا چاہتے ہیں، بلکہ آپ کو خدا نے معلم، رہنما، مفسر قرآن، شارع، قانون، اور قاضی و حاکم بھی مقرر کیا تھا۔ لہٰذا خود قرآن ہی کی رو سے آپ کی اطاعت و پیروی ہم پر فرض ہے اور اس سے آزاد ہو کر جو شخص قرآن کی پیروی کا دعوٰی کرتا ہے وہ دراصل قرآن کا پیرو بھی نہیں ہے۔
۳۔ منکرین سنت کی اپنی تاویلات، جن کا کھلونا قرآن کو بنا کر انہوں نےعام مسلمانوں کے سامنے یہ حقیقت بالکل برہنہ کر دی کہ سنت رسول اللہؐ سے جب کتاب اللہ کا تعلق توڑ دیا جائے تو دین کا حلیہ کس بری طرح بگڑتا ہے، خدا کی کتاب کے ساتھ کیسے کیسے کھیل کھیلے جاتے ہیں، اور اس کی معنوی تحریف کے کیسے مضحکہ انگیز نمونے سامنے آتے ہیں۔
۴۔ امت کا اجتماعی ضمیر، جو کسی طرح یہ بات قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھا کہ مسلمان کبھی رسولؐ کی اطاعت و پیروی سے آزاد بھی ہو سکتا ہے۔ چند سرپھرے انسان تو ہر زمانے میں اور ہر قوم میں ایسے نکلتے ہیں جو بے تکی باتوں ہی میں وزن محسوس کرتے ہوں۔ مگر پوری امت کا سرپھرا ہو جانا بہت مشکل ہے۔ عام مسلمانوں کے ذہنی سانچے میں یہ غیر معقول بات کبھی ٹھیک نہ بیٹھ سکی کہ آدمی رسولؐ کی رسالت پر ایمان بھی لائے اور پھر اس کی اطاعت کا قلاوہ اپنی گردن سے اتار بھی پھینکے۔ ایک سیدھا سادھا مسلمان جس کےدماغ میں ٹیڑھ نہ ہو، عملًا نافرمانی کا مرتکب تو ہو سکتا ہے، لیکن یہ عقیدہ اختیار کبھی نہیں کر سکتا کہ جس رسول پر وہ ایمان لایا ہے اس کی اطاعت کا وہ سرے سے پابند ہی نہیں ہے۔ یہ سب سے بڑی بنیادی چیز تھی جس نے آخرکار منکرین سنت کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ اس پر مزید یہ کہ مسلمان قوم کا مزاج اتنی بڑی بدعت کو ہضم کرنے کے لیے کسی طرح تیار نہ ہو سکا کہ اس پورے نظامِ زندگی کو، اس کے تمام قاعدون اور ضابطوں اور اداروں سمیت، رد کر دیا جائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے شروع ہو کر خلفائے راشدین، صحابہ کرام، تابعین، ائمہ مجتہدین اور فقہائے امت کی رہنمائی میں مسلسل ایک ہموار طریقے سے ارتقاء کرتا چلا آ رہا تھا، اور اسے چھوڑ کر آئے دن ایک نیا نطام ایسے لوگوں کے ہاتھوں بنوایا جائے جو دنیا کے ہر فلسفے اور ہر تخیل سے متاثر ہو کر اسلام کا ایک جدید ایڈیشن نکالنا چاہتے ہوں۔
اس طرح فنا کے گھاٹ اتر کر یہ انکار سنت کا فتنہ کئی صدیوں تک اپنی شمشان بھومی میں پڑا رہا، یہاں تک کہ تیرھویں صدی ہجری (انیسویں صدی عیسوی) میں وہ پھر جی اٹھا۔ اس نے پہلا جنم عراق میں لیا تھا۔ اب یہ دوسرا جنم اس نے ہندوستان میں لیا۔ یہاں اس کی ابتداء کرنے والے سرسید احمد خاں اور مولوی چراغ علی تھے۔ پھر مولوی عبد اللہ چکڑالوی اس کے علمبردار بنے۔ اسے کے بعد مولوی احمد الدین امرتسری نے اس کا بیڑا اٹھایا۔ پھر مولانا اسلم جیراج پوری اسے لے کر آگے بڑھے اور آخرکار اس کی ریاست چودھری غلام احمد پرویز کے حصے میں آئی جنہوں نے اس کو ضلالت کی انتہا تک پہنچا دیا ہے۔
اس کی دوسری پیدائش کا سبب بھی وہی تھا جو دوسری صدی میں پہلی مرتبہ اس کی پیدائش کا سبب بنا تھا، یعنی بیرونی فلسفوں اور غیر اسلامی تہذیبوں سے سابقہ پیش آنے پر ذہنی شکست خوردگی میں مبتلا ہو جانا، اور تنقید کیے بغیر باہر کی ان ساری چیزوں کو سراسر تقاضائے عقل مان کر اسلام کو ان کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنا۔ لیکن دوسری صدی کی بہ نسبت تیرھویں صدی کے حالات بہت مختلف تھے۔ اس وقت مسلمان فاتح تھے، ان کو فوجی و سیاسی غلبہ حاصل تھا، اور جن فلسفوں سے انہیں سابقہ پیش آیا تھا، وہ مفتوح و مغلوب قوموں کے فلسفے تھے۔اس وجہ سے ان کے ذہن پر ان فلسفوں کا حملہ بہت ہلکا ثابت ہوا اور بہت جلدی رد کر دیا گیا۔اس کے برعکس تیرھویں صدی میں یہ حملہ ایسے وقت ہوا جبکہ مسلمان ہر میدان میں پٹ چکے تھے۔ ان کے اقتدار کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا چکی تھی۔ ان کے ملک پر دشمنوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ ان کو معاشی حیثیت سے بری طرح کچل ڈالا گیا تھا، ان کا نطام تعلیم درہم برہم کر دیا گیا تھا، اور ان پر فاتح قوم نے اپنی تعلیم، اپنی تہذیب، اپنی زبان، اپنے قوانین، اور اپنے اجتماعی و سیاسی اور معاشی اداروں کو پوری طرح مسلط کر دیا تھا۔ ان حالات میں جب مسلمانوں کو فاتحوں کے فلسفے اور سائنس سے اور ان کے قوانین اور تہذیبی اصولوں سے سابقہ پیش آیا تو قدیم زمانے کے معتزلہ کی بہ نسبت ہزار درجہ زیادہ سخت مرعوب ذہن رکھنے والے معتزلہ ان کے اندر پیدا ہونے لگے۔ انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ مغرب سے جو نطریات، جو افکار و تخیلات، جو اصول تہذیب و تمدن اور جو قوانینِ حیات آ رہے ہیں، وہ سراسر معقول ہیں، ان پر اسلام کے نقطہ نظر سے تنقید کر کے حق و باطل کا فیصلہ کرنا محض تاریک خیالی ہے۔ زمانے کے ساتھ چلنے کی صورت بس یہ ہے کہ اسلام کو کسی نہ کسی طرح ان کے مطابق ڈھال دیا جائے۔
اس غرض سے جب انہوں نے اسلام کی مرمت کرنی چاہی تو انہیں بھی وہی مشکل پیش آئی جو قدیم زمانے کے معتزلہ کو پیش آئی تھی۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اسلام کے نظام حیات کو جس چیز نے تفصیلی اور عملی صورت میں قائم کیا ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ اسی سنت نے قرآن کی ہدایات کا مقصد و منشا متعین کر کے مسلمانوں کے تہذیبی تصورات کی تشکیل کی ہے۔ اور اسی نے ہر شعبہ زندگی میں اسلام کے عملی ادارے مضبوط بنیادوں پر تعمیر کر دیے ہیں۔ لہٰذا اسلام کی کوئی مرمت اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ اس سنت سے پیچھا چھڑا لیا جائے۔ اس کے بعد صرف قرآن کے الفاظ رہ جاتے ہیں۔ جن کےپیچھے نہ کوئی عملی نمونہ ہو گا، نہ کوئی مستند تعبیر و تشریح ہو گی اور نہ کسی قسم کی روایات اور نظیریں ہوں گی۔ ان کو تاویلات کا تختہ مشق بنانا آسان ہو گا اور اس طرح اسلام بالکل ایک موم کا گولہ بن کر رہ جائے گا جسے دنیا کے ہر چلتے ہوئے فلسفے کے مطابق ہر روز ایک نئی صورت دی جا سکے گی۔
اِس مقصد کےلیے انہوں نے پھر وہی تکنیک، انہی دو حربوں کے ساتھ اختیار کیا جو قدیم زمانے میں اختیار کیا گیا، یعنی ایک طرف ان روایات کی صحت میں شک ڈالا جائے جن سے سنت ثابت ہوتی ہے، اور دوسری طرف سنت کو بجائے خود حجت و سند ہونے سے انکار کر دیا جائے۔ لیکن یہاں پھر حالات کے فرق نے اس ٹیکنیک اور اس کے حربوں کی تفصیلی صورت میں بڑا فرق پیدا کر دیا ہے۔ قدیم زمانے میں جو لوگ اس فتنے کا عَلم لے کر اٹھے تھے وہ ذی علم لوگ تھے۔ عربی زبان و ادب میں بڑا پایہ رکھتے تھے۔ قرآن، حدیث اور فقہ کے علوم میں کافی درک رکھتے تھے۔ اور ان کو سابقہ بھی اس مسلمان پبلک سے تھا جس کی علمی زبان عربی تھی، جس میں عام لوگوں کا تعلیمی معیار بہت بلند تھا، جس میں علوم دینی کے ماہرین بہت بری تعداد میں ہر طرف پھیلے ہوئے تھے اور ایسی پبلک کے سامنے کوئی کچی پکی بات لا کر ڈال دینے سے خود اس شخص کی ہوا خیزی ہو جانے کا خطرہ تھا جو ایسی بات لے کر آئے۔ اسی وجہ سے قدیم زمانے کے معتزلہ بہت سنبھل کر بات کرتے تھے۔ اس کے برعکس ہمارے دور میں جو لوگ اس فتنے کو ہوا دینے کے لیے اٹھے ہیں ان کا اپنا علمی پایہ بھی سرسید کے زمانہ سے لے کر آج تک درجہ بدرجہ ایک دوسرے سے فروتر ہوتا چلا گیا ہے، اور ان کو سابقہ بھی ایسی پبلک سے پیش آیا ہے جس میں عربی زبان اور دینی علوم جاننے والے کا نام “تعلیم یافتہ” نہیں ہے اور “تعلیم یافتہ” اس شخص کا نام ہے جو دنیا میں اور چاہے سب کچھ جانتا ہو، مگر قرآن پر بہت مہربانی کرے تو کبھی اس کو ترجموں ۔ ۔ ۔ اور وہ بھی انگریزی ترجموں ۔ ۔ ۔ کی مدد سے پڑھ لے، حدیث اور فقہ کے متعلق حد سے حد کچھ سنی سنائی معلومات ۔ ۔ ۔ اور وہ بھی مشتشرقین کی پہنچائی ہوئی معلومات ۔ ۔ ۔ پر اکتفا کرے، اسلامی روایات پر زیادہ سے زیادہ ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈال لے اور وہ بھی اس حیثیت سے کہ یہ کچھ بوسیدہ ہڈیوں کا مجموعہ ہے جسے ٹھکرا کر زمانہ بہت آگے نکل چکا ہے، پھر اس ذخیرہ علم دین کے بل بوتے پر وہ اس زعم میں مبتلا ہو کہ اسلام کے بارے میں آخری اور فیصلہ کن رائیں قائم کرنے کہ وہ پوری اہلیت اپنے اندر رکھتا ہے۔ ایسے حالات میں پرانے اعتزال کی بہ نسبت نئے اعتزال کا معیار جیسا کچھ گھٹیا ہو سکتا ہے ظاہر ہے۔ یہاں علم کم اور بے علمی کی جسارت بہت زیادہ ہے۔
اب جو ٹیکنیک اس فتنے کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، اس کے اہم اجزاء ہیں:
۱۔ حدیث کو مشتبہ ثابت کرنے کےلیے مغربی مستشرقین نے جتنے حربے استعمال کیے ہیں ان پر ایمان لانا اور اپنی طرف سے حواشی کا اضافہ کر کےانہیں عام مسلمانوں میں پھیلا دینا تا کہ ناواقف لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا جائیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے قرآن کے سوا کوئی چیز بھی امت کو قابلِ اعتماد ذرائع سے نہیں ملی ہے۔
۲۔ احادیث کے مجموعوں کو عیب چینی کی غرض سے کھنگالنا، ٹھیک اسی طرح جیسے آریہ سماجیوں اور عیسائی مشنریوں نے کبھی قرآن کو کھنگالا تھا، اور ایسی چیزیں نکال نکال کر، بلکہ بنا بنا کر عوام کے سامنے پیش کرنا، جن سے یہ تاثر دیا جا سکے کہ حدیث کی کتابیں نہایت شرمناک یا مضحکہ خیز مواد سے لبریز ہیں، پھر آنکھوں میں آنسو بھر کر یہ اپیل کرنا کہ اسلام کو رسوائی سے بچانا ہے تو اس سارے دفتر بے معنی کو غرق کر دو۔
۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے منصب رسالت کو محض ایک ڈاکیے کا منصب قرار دینا جس کا کام بس اس قدر تھا کہ لوگوں کو قرآن پہنچا دے۔
۴۔ صرف قرآن کو اسلامی قانون کا ماخذ قرار دینا اور سنتِ رسولؐ کو اسلام کے قانونی نظام سے خارج کر دینا۔
۵۔ امت کے تمام فقہاء، محدثین، مفسرین اور ائمہ لغت کو ساقط الاعتبار قرار دینا تا کہ مسلمان قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے ان کی طرف رجوع نہ کریں بلکہ ان کے متعلق اس غلط فہمی میں پڑ جائیں کہ ان سب نے قرآن کی حقیقی تعلیمات پر پردے ڈالنے کے لیے ایک سازش کر رکھی تھی۔
۶۔ خود ایک نئی لغت تصنیف کر کے قرآن کی تمام اصطلاحات کے معنی بدل ڈالنا اور آیاتِ قرآنی کو وہ معانی پہنانا جن کی کوئی گنجائش دنیا کے کسی عربی دان آدمی کو قرآن میں نظر نہ آئے۔ (لطف یہ ہے کہ جو صاحب یہ کام کر رہے ہیں ان کے سامنے اگر قرآن کی چند آیتیں اعراب کے بغیر لکھ دی جائیں تو وہ انہیں صحیح پڑھ بھی نہیں سکتے۔ لیکن ان کا دعوٰی یہ ہےکہ اب خود عرب بھی عربی نہیں جانتے اس لیے اگر ان کے بیان کردہ معنوں کی گنجائش کسی عرب کو قرآن کے الفاظ میں نظر نہ آئے تو قصور اس عرب ہی کا ہے)۔
اس تخریبی کام کے ساتھ ساتھ ایک نئے اسلام کی تعبیر بھی ہو رہی ہے جس کے بنیادی اصول تعداد میں صرف تین ہیں، مگر دیکھیے کہ کیسے بے نظیر اصول ہیں:
اس کا پہلا اصول یہ ہے کہ تمام شخصی املاک کو ختم کر کے ایک مرکزی حکومت کے تصرف میں دے دیا جائے اور وہی حکومت افراد کے درمیان تقسیمِ رزق کی مختارِ کُل ہو۔ اس کا نام ہے “نظامِ ربوبیت” اور کہا جاتا ہے کہ قرآن کا اصل مقصود یہی نظام قائم کرنا تھا۔ مگر پچھلے تیرہ سو سال میں کسی کو اسے سمجھنے کی توفیق میسر نہ ہوئی، صرف حضرت مارکس اور ان کے خلیفہ خاص حضرت اینجلز قرآن کے اس مقصدِ اصل کو پا سکے۔
اس کا دوسرا اصول یہ ہے کہ تمام پارٹیاں اور جماعتیں توڑ دی جائیں اور مسلمانوں کو قطعًا کوئی جماعت بنانے کی اجازت نہ دی جائے، تا کہ وہ معاشی حیثیت سے بے بس ہو جانےکے باوجود اگر مرکزی حکومت کے کسی فیصلے کی مزاحمت کرنا چاہیں تو غیر منظم ہونے کی وجہ سے نہ کر سکیں۔
اس کا تیسرا اصول یہ ہے کہ قرآن میں جس “اللہ اور رسول” پر ایمان لانے، اور جس کی اطاعت بجا لانے، اور جسے آخری سند تسلیم رنے کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد ہے “مرکزِ ملت”۔ یہ مرکزِ ملت چونکہ خود “اللہ اور رسولؐ” ہے۔ اس لیے قرآن کو جو معنی وہ پہنائے وہی اس کے اصل معنی ہیں۔ اس کے حکم یا قانوں کے متعلق یہ سوال سرے سے اٹھایا ہی نہیں جا سکتا کہ و ہ قرآن کے خلاف ہے۔ جو کچھ وہ حرام کرے وہ حرام اور جو کچھ وہ حلال کرے وہ حلال۔ اس کا فرمان شریعت ہے اور عبادات سے لے کر معاملات تک جس چیز کی جو شکل بھی وہ تجویز کر ے اس کا ماننا فرض بلکہ شرطِ اسلام ہے۔ جس طرح “بادشاہ” غلطی نہیں کر سکتا۔ اسی طرح “مرکز ملت” بھی سبوح قدوس ہے۔ لوگوں کا کام اس کے سامنے بس سر جھکا دینا ہے۔ “اللہ اور رسول” نہ تنقید کے ہدف بن سکتے ہیں، نہ ان کے خطاکار ہونے کا کوئی سوال پیدا ہوتا ہے، اور نہ ان کو بدلا ہی جا سکتا ہے۔
اس نئے اسلام کے “نظام ربوبیت” پر ایمان لانے والے تو ابھی بہت کم ہیں لیکن اس کے باقی تمام تعمیری اور تخریبی اجزاء چند مخصوص حلقوں میں بڑے مقبول ہو رہے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے لیے اس کا تصور “مرکز ملت” بہت اپیل کرنے والا ہے۔ اس لازمی شرط کے ساتھ کہ مرکز ملت وہ خود ہوں اور یہ خیال بھی انہیں بہت پسند آتا ہے کہ تمام ذرائع ان کے تصرف میں ہوں اور قوم پوری طرح غیر منظم ہو کر ان کی مٹھی میں آ جائے۔ ہمارے ججوں اور قانون پیشہ لوگوں کا ایک عنصر اسے اس لیے پسند کرتا ہے کہ انگریزی حکومت کے دور میں جس قانونی نظام کی تعلیم و تربیت انہوں نے پائی ہے، اس کے اصولوں اور بنیادی تصورات و نظریات اور جزئی و فروعی احکام سے اسلام کا معروف قانونی نظام قدم قدم پر ٹکراتا ہے۔ اور اس کے ماخذ تک بھی ان کی دسترس نہیں ہے، اس بنا پر وہ اس خیال کو بہت پسند کرتے ہیں کہ سنت اور فقہ کے جھنجھٹ سے انہیں نجات مل جائے اور صرف قرآن باقی رہ جائے جس کی تاویل کرنا جدید لغت کی مدد سے اب اور بھی زیادہ آسان ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ تمام مغربیت زدہ لوگوں کو یہ مسلک اپنی طر کھینچ رہا ہے کیوں کہ اسلام سے نکل کر مسلمان رہنے کا اس سے زیادہ اچھا نسخہ ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا ہے۔ آخر اس سے زیادہ مزے کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ جو کچھ مغرب میں حلال اور “ملا کے اسلام” میں آج تک حرام ہے وہ حلال بھی ہو جائے اور قرآن کی سند ان حلال کرنے والوں کے ہاتھ میں ہو۔
میں پچھلے پچیس چھبیس سال میں اس فتنے کی تردید کےلیے بہت سے مضامین لکھ چکا ہوں جو میری متعدد کتابوں میں درج ہیں۔ اس وقت جن مضامین کا مجموعہ شائع کیا جا رہا ہے، وہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصہ میں وہ پوری مراسلت یکجا درج کر دی گئی ہے جو سنت کی آئینی حیثیت کے بارے میں میرے اور ڈاکٹر عبدالودود صاحب کے درمیان ہوئی تھی۔ دوسرے حصے میں مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے ۲۱ جولائی ۱۹۶۰ کے مقدمہ رشیدہ بیگم بنام شہاب الدین وغیرہ میں صادر فرمایا ہے، اور میں نے اس پر مفصل تنقید کی ہے۔ ان دونوں حصوں میں ناظرین ایک طرف منکرین سنت کے تمام مسائل اور دلائل ان کی اپنی زبان میں ملاحظہ فرما لیں گے اور دوسری طرف انہیں یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ دین کے نظام میں سنت کی اصل حیثیت کیا ہے۔ اس کے بعد یہ رائے قائم کرنا ہر شخص کا اپنا کام ہے کہ وہ کس مسلک کو قبول کرتا ہے۔
جن حضرا ت تک یہ مجموعہ پہنچے ان سے میں ایک خاص گزارش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ بحث دین کے ایک نہایت اہم بنیادی مسئلے سے تعلق رکھتی ہے۔ جس میں کسی ایک پہلو کو ترک اور دوسرے کو اختیار کرنے کے نتائج بڑے دور رس ہیں۔ بد قسمتی سے دین کی اساس کے متعلق ی بحث ہمارے ملک میں نہ صرف چھڑ چکی ہے بلکہ ایک نازک صورت اختیار کر چکی ہے۔ ہمارے اربابِ اقتدار کا ایک معتد بہ عنصر انکارِ سنت کے مسلک سے متاثر ہو رہا ہے۔ ہماری اعلیٰ عدالتوں کے جج اس کا اثر قبول کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ہائی کورٹ سے ایک فیصلہ کلیتہ انکارِ سنت کی بنیاد پر صادر ہو چکا ہے جو آگے نہ معلوم اور کن کن مقدمات میں نظیر کا کام دے۔ ہمارے تعلیم یافتہ لوگوں میں، اور خصوصًا سرکاری دفتروں میں یہ تحریک منظم طریقے سے چل رہی ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جن حضرات تک بھی یہ مجموعہ پہنچے وہ نہ صرف خود گہری نظر سے اس کا مطالعہ فرمائیں، بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس کے مطالعہ کی طرف توجہ دلائیں۔ قطع نظر اس سے کہ وہ سنت کے قائل ہوں یا منکر۔ رائے جو شخص جیسی بھی چاہے قائم کرے، مگر کسی پڑھے لکھے آدمی کےلیے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ محض یک رخے مطالعہ پر اپنا ایک ذہن بنا لے اور دوسرا رخ دیکھنے سے انکار کر دے۔ اس مجموعہ میں چونکہ دونوں رخ پوری وضاحت کے ساتھ آ گئے ہیں اس لیے امید ہے کہ یہ قائلینِ سنت اور منکرینِ سنت، دونوں کو ایک متوازن رائے قائم کرنے میں مدد دے گا۔
خاکسار ابوالاعلیٰ
لاہور، ۳۰ جولائی ۱۹۶۱
سنت کی آئینی حیثیت
ایک اہم مراسلت
ذیل میں وہ مراسلت درج کی جا رہی ہے جو “بزم طلوع اسلام” کے ایک نمایاں فرد جناب ڈاکٹر عبدالودود صاحب اور مصنف کے درمیان سنت کو اسلام کے آئین کی بنیاد ماننے کے مسئلے پر ہوئی تھے۔
ڈاکٹر صاحب کا پہلا خط
مخدوم محترم مولانا! دام ظلکم
السلام علیکم۔ دستوری تدوین کے اس فیصلہ کن مرحلے پر ہر سچے مسلمان کی دینی امنگوں کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ پاکستان کا آئین اسلام کی مستقل اقدار کی اساس پر ترتیب و تکمیل پائے۔ اس سلسلے مین آئین کمیشن کی سوالنامہ کے جواب میں آپ اور دیگر حضرات کا یہ متفقہ مطالبہ بھی سامنے آیا ہے کہ آئینِ پاکستان کی بنیاد “کتاب و سنت” پر ہونی چاہیے۔ مجھے نہ تو “سنت” کی حقیقی اہمیت سے مجالِ انکار ہے اور نہ اس کی اس اہمیت کو ختم کرنا مقصود لیکن جب اسلامی آئین کی اساس کے طور پر سنت کا ذکرکیا جاتا ہے تو ایک اشکال ذہن میں لازمًا پیدا ہوتا ہے اور اس سے جو سوال ابھرتے ہیں، میں انہیں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ اولین فرصت میں اس اشکال کا حل تحریر فرمائیں گے۔ سوالات حسبِ ذیل ہیں:
۱۔ آپ کے نزدیک “سنت” سے کیا مراد ہے؟ یعنی جس طرح “کتاب” سے مراد قرآن مجید ہے اسی طرح سنت (یعنی سنت رسول اللہؐ ) سے کیا مرا د ہے؟
۲۔ کیا (قرآن کی طرح) ہمارے ہاں ایسی کوئی کتاب موجود ہے جس میں سنتِ رسول اللہؐ مرتب شکل میں موجود ہو؟ یعنی قرآن کی طرح اس کی کوئی جامع و مانع کتاب ہے؟
۳۔ کیا سنت رسول اللہ کی اس کتاب کا متن تمام مسلمانوں کے نزدیک اسی طرح متفق علیہ ہے اور شک و تنقید سے بالا تر ہے جس طرح قرآن کا متن؟
۴۔ اگر کوئی ایسی کتاب موجود نہیں تو پھر جس طرح یہ بآسانی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ فلاں فقرہ قرآنِ مجید کی آیت ہے اسی طرح یہ کیونکر معلوم کیا جائے گا کہ فلاں بات سنت رسول اللہؐ ہے یا نہیں؟
۵۔میں آپ کو یقین دلا دوں کی جہاں تک اسلامی آئین کی ضرورت کا تعلق ہے میں قلب و نظر کی پوری ہم آہنگی سے اسے ایک مسلمان کی زندگی کا نصب العین قرار دیتا ہوں۔ میری ان مخلصانہ گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ اسلامی آئین کا مطالبہ کرتے ہوئے اسلام پسند ذہنوں میں اس کا ایک واضح متفق علیہ اور ممکن العمل تصور موجود ہو، تاکہ ملک کا لادینی ذہن جو پوری شدت سے اسلامی آئین کے خلاف مصروفِ کار ہے، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلام پسند عناصر میں انتشار کی صورت پیدا نہ کر سکے۔ چونکہ آئین کے سلسلے میں عام لوگوں کے ذہن میں ایک پریشانی سے پائی جاتی ہے۔ اس لیے اگر عوام کی آگاہی کے لیے آپ کے موصولہ جواب کو شائع کر دیا جائے تو مجھے امید ہے کہ آپ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
نیاز آگیں
عبد الودود
جواب مکرمی، السلام علیکم و رحمۃ اللہ
عنایت نامہ مورخہ ۲۱ مئی ۱۹۶۰ وصول ہوا۔ آپ نے جو سوالات کیے ہیں۔ وہ آج پہلی مرتبہ آپ نے پیش نہیں کیے ہیں۔ اس سے پہلے یہی سوالات دوسرے گوشوں سے آ چکے ہیں اور ان کا جواب بھی واضح طور پر میں دے چکا ہوں۔ ایک ہی طرح کے سوالات کا مختلف گوشوں سے بار بار دہرایا جانا اور پہلے کے دیے ہوئے جوابات کو ہمیشہ نظر انداز کر دینا کوئی صحیح بات نہیں ہے۔ اگر بالفرض آپ کے علم میں میرے وہ جوابات نہیں ہیں جو میں اب سے بہت پہلے دے چکا ہوں۔ تو میں اب آپ کو ان کا حوالہ دیئے دیتا ہوں (ملاحظہ ہو، ترجمان القرآن، جنوری ۵۸ ء، صفحہ ۲۰۹ تا ۲۲۰، دسمبر ۵۸ ء، صفحہ ۱۶۰ تا ۱۷۰ )۔ آپ انہیں پڑھ کر مجھے تفصیل کے ساتھ بتائیں کہ آپ کے سوالات میں سے کس سوال کا جواب ان میں نہیں ہے۔ اور جن سوالات کا جواب موجود ہے، اس پر آپ کو کیا اعتراض ہے۔
اگر آپ اپنے اس عنایت نامے کے ساتھ میرے اس جواب کو شائع کرنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہوں تو براہِ کرم میرے مذکورہ بالا دونوں مضامین بھی بجنسہٖ شائع فرما دیں۔ کیونکہ دراصل وہی میری طرف سے آپ کے ان سوالات کا جواب ہیں۔ اس لیے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں نے آپ کو جواب دینے میں پہلو تہی کی ہے۔
خاکسار
ابوالاعلیٰ
(کتاب کے ص 10 سے ص 27 تک مکمل ہوا)
میں میرے وہ جوابات نہیں ہیں جو میں اب سے پہلے دے چکا ہوں۔ تو میں اب آپ کو ان کا حوالہ دیے دیتا ہوں (ملاحظہ ہو، ترجمان القرآن، جنوری 58ء، صفحہ 209 تا 220، دسمبر 58ء، صفحہ 160 تا 170)۔ آپ انہیں پڑھ کر مجھے تفصیل کے ساتھ بتائیں کہ آپ کے سوالات میں سے کس سوال کا جواب ان میں نہیں ہے۔ اور جن سوالات کا جواب موجود ہے، اس پر آپ کو کیا اعتراض ہے۔
اگر آپ اپنے اس عنایت نامے کے ساتھ میرے اس جواب کو شائع کرنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہوں تو براہ کرم میرے مذکورۂ بالا دونوں مضامین بھی بجنسہ شائع فرما دیں۔ کیونکہ دراصل وہی میری طرف سے آپ کے ان سوالات کا جواب ہیں۔ اس لیے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں نے آپ کو جواب دینے سے پہلو تہی کی ہے۔
خاکسار
ابو الاعلٰی
ڈاکٹر صاحب کا دوسرا خط
مولانائے محترم! زید مجدکم
السلام علیکم۔ گرامی نامہ ملا۔ جس کے لیے میں آپ کا شکر گذار ہوں۔ مجھے اس کا علم ہے کہ اس قسم کے سوالات اس سے پہلے بھی کئی گوشوں سے کیے گئے ہیں لیکن مجھے خاص طور پر استفسار کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ میری نظر سے ان سوالات کے ایسے جوابات آج تک نہیں گذرے جو متعین اور واضح ہوں۔
آپ نے اپنے جن مضامین کی نشاندہی فرمائی ہے، میں نے انہیں دیکھا ہے لیکن مجھے بڑے افسوس سے یہ عرض کرنے دیجئے کہ ان سے بھی میرے سوالات کا متعین جواب نہیں مل سکا بلکہ ان سے میری الجھن بڑھ گئی ہے۔
اس لیے کہ ان میں کئی باتیں ایسی ہیں جو آپ کی دوسری تحریروں سے مختلف ہیں۔ بہرحال چونکہ میرا مقصد مناظرہ بازی نہیں (اور نہ آپ کے احترام کے پیش نظر میں ایسی جرات کر سکتا ہوں) بلکہ محض بات کا سمجھنا ہے اس لیے جو کچھ میں آپ کے مضامین سے سمجھ سکا ہوں، اسے نیچے لکھتا ہوں۔ اگر میں نے مفہوم کو صحیح سمجھتا ہے تو توثیق فرما دیجئے اور اگر غلط سمجھا ہے تو براہ کرم اس کی تصریح کر دیجئے۔ اس کے لیے میں آپ کا شکر گذار ہوں گا۔
1. آپ نے فرمایا ہے کہ نبی اکرم (صلعم) نے 23 برس کی پیغمبرانہ زندگی میں قرآن مجید کی تشریح کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا یا عملاً کیا اسے سنت رسول اللہ کہتے ہیں۔ اس سے دو نتیجے نکلتے ہیں:
(الف) رسول اللہ (صلعم) نے اس 23 سالہ زندگی میں جو باتیں اپنی شخصی حیثيت سے ارشاد فرمائیں یا عملاً کیں وہ سنت میں داخل ہیں۔
(ب) سنت، قرآنی احکام و اصول کی تشریح ہے۔ قرآن کے علاوہ دین کے اصول یا احکام تجویز نہیں کرتی۔ اور نہ ہی سنت قرآن کے کسی حکم کو منسوخ کرتی ہے۔
2. آپ نے فرمایا ہے کہ کوئی کتاب ایسی نہیں کہ جس میں سنت رسول اللہ بہ تمام و کمال درج ہو اور جس کا متن قرآن کے متن کی طرح تمام مسلمانوں کے نزدیک متفق علیہ ہو۔
3. آپ نے فرمایا ہے کہ احادیث کے موجودہ مجموعوں سے صحیح احادیث کو الگ کیا جائے گا اس کے لیے روایات کو جانچنے کے جو اصول پہلے سے مقرر ہیں وہ حرف آخر نہیں۔ اصول روایات کے علاوہ درایت سے بھی کام لیا جائے گا اور درایت انہی لوگوں کی معتبر ہوگی جن میں علوم اسلامی کے مطالعہ سے ایک تجربہ کار جوہری کی بصیرت پیدا ہو چکی ہو۔
4. احادیث کے اس طرح پرکھنے کے بعد بھی یہ نہیں کہا جا سکے گا کہ یہ اسی طرح کلام رسول (ص) ہیں جس طرح قرآن کی آیات اللہ کا کلام۔
مجھے آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔ والسلام
نیاز آگیں
عبد الودود
جواب
محترمی و مکرمی، السلام علیکم و رحمۃ اللہ
آپ کا عنایت نامہ مورخہ 24 مئی 60ء ڈاک سے مل چکا تھا۔ اس کے بعد آپ نے دوبارہ 28 مئی کو دستی بھی اس کی ایک نقل مجھے ارسال فرما دی لیکن میں مسلسل مصروفیت کے باعث اب تک جواب نہ دے سکا جس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
مجھے مسرت ہے کہ آپ نے اس عنایت نامہ میں یقین دلایا ہے کہ آپ کا مقصد اس مراسلت سے کوئی مناظرہ بازی نہیں ہے بلکہ آپ بات سمجھنا چاہتے ہیں۔ میں آپ جیسے شخص سے اسی چیز کا متوقع بھی تھا لیکن جو طریقہ آپ نے اپنی مراسلت میں بات سمجھنے کے لیے اختیار فرمایا ہے وہ اس یقین دہانی کے ساتھ کچھ مطابقت رکھتا ہوا کم از کم مجھے تو محسوس نہیں ہوتا۔ آپ ذرا اپنا 21 مئی کا خط نکال کر ملاحظہ فرمائیں۔ اس میں آپ نے 4 متعین سوالات میرے سامنے پیش کر کے ان کا جواب مانگا تھا۔ میں نے اسی تاریخ کو اس حط کے جواب میں آپ کو لکھا کہ آپ جنوری 58ء اور دسمبر 58ء کے ترجمان القرآن میں میرے فلاں فلاں مضامین ملاحظہ فرما کر “مجھے تفصیل کے ساتھ کہ آپ کے سوالات میں سے کس سوال کا جواب ان میں نہیں ہے اور جن سوالات کا جواب موجود ہے اس پر آپ کو کیا اعتراض ہے”۔ لیکن آپ نے ان مضامین کو ملاحظہ فرما کر اپنے ابتدائی سوالات کی روشنی میں ان پر کوئی کلام کرنے کے بجائے کچھ اور سوالات ان پر قائم کر دیے اور اب آپ چاہتے ہیں کہ میں ان کا جواب دوں۔ کیا واقعی یہی کسی بات کو سمجھنے کا طریقہ ہے کہ ایک بحث کو طے کرنے سے پہلے دوسری بحث چھیڑ دی جائے اور بلا نہایت اسی طرح بات میں سے بات نکالنے کا سلسلہ چلتا رہے؟
آپ کے نئے سوالات پر گفتگو کرنے سے پہلے میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ اپنے ابتدائی سوالات کی طرف پلٹیں اور خود دیکھیں کہ ان میں سے ایک ایک کا میرے ان مضامین میں کیا جواب آپ کو ملا تھا اور آپ نے اس سے کس طرح گریز کیا ہے۔
سنت کیا چیز ہے؟
آپ نے چار سوالات اس بناء پر اٹھائے تھے کہ ہم نے آئین کمیشن کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے “اسلامی آئین کی اساس کے طور پر سنت کا ذکر کیا ہے”۔ دوسرے الفاظ میں آپ کے یہ سوالات سنت کی قانونی حیثیت سے متعلق تھے۔ اس سلسلے میں آپ کا پہلا سوال یہ تھا:
“آپ کے نزدیک سنت سے کیا مراد ہے؟ یعنی جس طرح “کتاب” سے مراد قرآن ہے اسی طرح سنت (یعنی سنت رسول اللہ) سے کیا مراد ہے؟”
اس کے جو جوابات میرے مذکورۂ بالا مضامین میں آپ کے سامنے آئے وہ یہ ہیں:
یہی محمد تعلیم وہ بالاتر قانون (Supreme Law) ہے جو حاکم اعلیئے (یعنی اللہ تعالٰی) کی مرضی کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ قانون محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم کو دو شکلوں میں ملا ہے۔ ایک قرآن، جو لفظ بلفظ خداوند عالم کے احکام و ہدایات پر مشتمل ہے۔ دوسرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ، یا آپ کی سنت، جو قرآن کے منشا کی توضیح و تشریح کرتی ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے محض نامہ بر نہیں تھے کہ اس کی کتاب پہنچا دینے کے سوا ان کا کوئی کام نہ ہوتا۔ وہ اس کے مقرر کیے ہوئے رہنما، حاکم اور معلم بھی تھے۔ ان کا کام یہ تھا کہ اپنے قول اور عمل سے قانون الٰہی کی تشریح کریں،اس کا صحیح منشا سمجھائیں، اس کے منشا کے مطابق افراد کی تربیت کریں، پھر تربیت یافتہ افراد کو ایک منظم جماعت کی شکل دے کر معاشرے کی اصلاح کی جدوجہد کریں، پھر اصلاح شدہ معاشرے کو ایک صالح و مصلح ریاست کی صورت دے کر یہ دکھا دیں کہ اسلام کے اصولوں پر ایک مکمل تہذیب کا نظام کس طرح قائم ہوتا ہے۔ آنحضرت کا یہ پورا کام، جو 23 سالہ پیغمبرانہ زندگی میں آپ نے انجام دیا، وہ سنت ہے جو قرآن کے ساتھ مل کر حاکم اعلٰی کے قانون برتر کی تشکیل و تکمیل کرتی ہے اور اسی قانون برتر کا نام اسلامی اصطلاح میں شریعت ہے”۔ (ترجمان القرآن، جنوری 58ء، صفحہ 210-211)
“یہ ایک ناقابل انکار تاریخی حقیقت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت پر سرفراز ہونے کے بعد اللہ تعالٰی کی طرف سے صرف قرآن پہنچا دینے پر اکتفا نہیں کیا تھا بلکہ ایک ہمہ گیر تحریک کی رہنمائی بھی کی تھی جس کے نتیجے میں ایک مسلم سوسائٹی پیدا ہوئی، ایک نیا نظام تہذیب و تمدن وجود میں آیا اور ایک ریاست قائم ہوئی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن پہنچانے کے سوا یہ دوسرے کام جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کیے یہ آخر کس حیثیت سے تھے؟ آیا یہ نبی کی حیثیت سے تھے جس میں آپ اسی طرح خدا کی مرضی کی نمائندگی کرتے تھے جس طرح کہ قرآن؟ یا آپ کی پیغمبرانہ حیثیت قرآن سنا دینے کے بعد ختم ہو جاتی تھی اور اس کے بعد آپ عام مسلمانوں کی طرح ایک مسلمان رہ جاتے تھے۔ جس کا قول و فعل اپنے اندر بجائے خود کوئی قانون سند و حجت نہیں رکھتا؟ پہلی بات تسلیم کی جائے تو سنت کو قرآن کے ساتھ قانونی سند و حجت ملنے کے سوا چارہ نہیں رہتا۔ البتہ دوسری صورت اسے قانون قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔
جہاں تک قرآن کا تعلق ہے وہ اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف نامہ بر نہیں تھے بلکہ خدا کی طرف سے مقرر کیے ہوئے رہبر، حاکم اور معلم بھی تھے جن کی پیروی و اطاعت مسلمانوں پر لازم تھی اور جن کی زندگی کو تمام اہل ایمان کے لیے نمونہ قرار دیا گیا تھا، جہاں تک عقل کا تعلق ہے وہ یہ ماننے سے انکار کرتی ہے کہ ایک نبی صرف خدا کا کلام پڑھ کر سنا دینے کی حد تک تو نبی ہو اور اس کے بعد وہ محض ایک عام آدمی رہ جائے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے وہ آغاز اسلام سے آج تک بالاتفاق ہر زمانے میں اور تمام دنیا میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نمونہ واجب الاتباع اور ان کے امر و نہی کو واجب الاطاعت مانتے رہے ہیں۔ حتٰی کہ کوئی غیر مسلم عالم بھی اس امر واقعی سے انکار نہیں کر سکتا کہ مسلمانوں نے ہمیشہ آنحضرت کی یہی حیثیت مانی ہے اور اسی بنا پر اسلام کے قانون نظام میں سنت کو قرآن کے ساتھ دوسرا ماخذ قانون تسلیم کیا گیا ہے۔ اب میں نہیں جانتا کہ کوئی شخص سنت کی اس قانونی حیثیت کو کیسے چیلنج کر سکتا ہے جب تک وہ صاف صاف یہ نہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف تلاوت قرآن کی حد تک نبی تھے اور یہ کام کر دینے کے ساتھ ہی ان کی حیثیت نبوی ختم ہو جاتی تھی۔ پھر اگر وہ ایسا دعویٰ کرے بھی تو اسے بتانا ہوگا کہ یہ مرتبہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور خود دے رہا ہے یا قرآن نے حضور کو یہی مرتبہ دیا ہے؟ پہلی صورت میں اس کے قول کو اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ دوسری صورت میں اسے قرآن سے اپنے دعوے کا ثبوت پیش کرنا ہوگا”۔ (ترجمان القرآن، جنوری 58ء، صفحہ 216۔ 217)
اب آپ فرمائیں کہ آپ کو اپنے اس سوال کا جواب ملا یا نہیں کہ “سنت سے کیا مراد ہے؟” اور آپ کو یہ معلوم ہوا یا نہیں کہ اسلامی آئین کی اساس کے طور پر جس سنت کا ذکر کیا جاتا ہے وہ کیا چیز ہے؟ دوسرے سوالات چھیڑنے سے پہلے آپ کو یہ بات صاف کرنی چاہیے تھی کہ آیا آپ کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پڑھ کر سنا دینے کے سوا دنیا میں اور کوئی کام کیا ہے یا نہیں؟ اگر کیا ہے تو وہ کس حیثیت میں تھا؟ اگر آپ کی رائے میں یہ کام کر دینے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک مسلمان تھے عام مسلمانوں کی طرح، اور ان زائد از تلاوت قرآن اقوال و افعال میں آنحضرت کی حیثیت ایک نبی کی نہ تھی۔ تو صاف صاف یہ بات کہیے اور یہ بھی بتائیے کہ آپ کی اس رائے کا ماخذ کیا ہے؟ یہ آپ کے اپنے ذن کی پیداوار ہے یا قرآن سے اس کا ثبوت ملتا ہے؟ اور اگر آپ یہ بات مانتے ہیں کہ خدا کے مقرر کردہ ہادی، حاکم، قاضی، معلم، مربی کی حیثیت سے آنحضور نے ایک مسلم معاشرہ تیار کرنے اور ایک ریاست کا نظام بنا کر اور چلا کر دکھانے کا جو کارنامہ انجام دیا اس میں آپ کی حیثیت ایک نبی کی تھی۔ یہ تو وہی سنت ہے یا نہیں جسے اسلام میں آئین کی اساس کا مرتبہ حاصل ہونا چاہیے؟ یہ بحث بعد کی ہے کہ اس سنت کا اطلاق کن چیزوں پر ہوتا ہے اور کن پر نہیں ہوتا۔ پہلے تو آپ یہ بات صاف کریں کہ قرآن کے علاوہ سنت رسول خود کوئی چیز ہے یا نہیں؟ اور اس کو آپ قرآن کے ساتھ ماخذ قانون مانتے ہیں یا نہیں؟ اور نہیں مانتے تو اس کی دلیل کیا ہے؟ یہ بنیادی بات جب تک صاف نہ ہو لے، ان ضمنی سوالات پر جو آپ نے اپنے دوسرے عنایت نامے میں چھیڑے ہیں، بحث کرنے کا آخر فائدہ کیا ہے؟
سنت کس شکل میں موجود ہے؟
آپ کا دوسرا سوال یہ تھا:
“کیا قرآن کی طرح ہمارے ہاں ایسی کوئی کتاب موجود ہے جس میں سنت رسول اللہ مرتب شکل میں موجود ہو، یعنی قرآن کی طرح اس کی کوئی جامع و مانع کتاب ہے؟”
اس سوال کا جو جواب میرے محولہ بالا مضامین میں موجود ہے، اور اگر آپ نے ان کو بغور پڑھا ہے تو آپ کے سامنے بھی وہ آیا ہوگا، اسے میں پھر یہاں نقل کیے دیتا ہوں تاکہ جب نہیں تو اب آپ اسے ملاحظہ فرما لیں:
“سنت کو بجائے خود ماخذ قانون تسلیم کرنے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے معلوم کرنے کا ذریعہ کیا ہے۔ میں اس کے جواب میں عرض کروں گا کہ آج پونے چودہ سو سال گذر جانے کے بعد پہلی مرتبہ ہم کو اس سوال کا سابقہ پیش نہیں آ گیا ہے کہ ڈیڑھ ہزار سال قبل جو نبوت مبعوث ہوئی تھی اس نے کیا سنت چھوڑی ہے۔ دو تاریخی حقیقتیں ناقابل انکار ہیں:
ایک یہ کہ قرآن کی تعلیم اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر جو معاشرہ اسلام کے آغاز میں پہلے دن قائم ہوا تھا وہ اس وقت سے آج تک مسلسل زندہ ہے، اس کی زندگی میں ایک دن کا انقطاع بھی واقع نہیں ہوا ہے اور اس کے تمام ادارے اس ساری مدت میں پیہم کام کرتے رہے ہیں۔ آج تمام دنیا کے مسلمانوں میں عقائد اور طرز فکر، اخلاق اور اقدار (Values)، عبادات اور معاملات، نظریہ حیات اور طریق حیات کے اعتبار سے جو گہری مماثلت پائی جاتی ہے، جس میں اختلاف کی بہ نسبت ہم آہنگی کا عنصر بہت زیادہ موجود ہے، جو ان کو تمام روئے زمین پر منتشر ہونے کے باوجود ایک امت بنائے رکھنے کی سب سے بڑی بنیادی وجہ ہے، یہی امر اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ اس معاشرے کو کسی ایک ہی سنت پر قائم کیا گیا تھا اور وہ سنت ان طویل صدیوں کے دوران میں مسلسل جاری ہے۔ یہ کوئی گم شدہ چیز نہیں ہے جسے تلاش کرنے کے لیے ہمیں اندھیرے میں ٹٹولنا پڑ رہا ہو۔
دوسری تاریخی حقیقت، جو اتنی ہی روشن ہے، یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سے ہر زمانے میں مسلمان یہ معلوم کرنے کی پیہم کوشش کرتے رہے ہیں کہ سنت ثابتہ کیا ہے اور کیا نئی چیز ان کے نظام حیات میں کسی جعلی طریقہ سے داخل ہو رہی ہے۔ چونکہ سنت ان کے لیے قانون کی حیثیت رکھتی تھی، اسی پر ان کی عدالتوں میں فیصلے ہوئے تھے اور ان کے گھروں سے لے کر حکومتوں تک کے معاملات چلنے تھے،اس لیے وہ اس کی تحقیق میں بے پروا اور لا ابالی نہیں ہو سکتے تھے۔ اس تحقیق کے ذرائع بھی اور اس کے نتائج بھی ہم کو اسلام کی پہلی خلافت کے زمانے سے لے کر آج تک نسلاٰ میراث میں ملے ہیں اور بلا انقطاع ہر نسل کا کیا ہوا کام محفوظ ہے۔
ان دو حقیقتوں کو اگر کوئی اچھی طرح سمجھ لے اور سنت کو معلوم کرنے کے ذرائع کا باقاعدہ علمی مطالعہ کرے تو اسے کبھی یہ شبہ لاحق نہیں ہو سکتا کہ یہ کوئی لا ینحل معمہ ہے جس سے وہ آج یکایک دوچار ہو گیا ہے۔ (ترجمان القرآن، جنوری 58ء، صفحہ 218 )
اس مسئلے پر دوبارہ روشنی ڈالتے ہوئے میں نے اپنے دوسرے مضمون میں، جس کا حوالہ بھی میں پہلے آپ کو دے چکا ہوں، یہ لکھا تھا کہ:
“نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عہد نبوت میں مسلمانوں کے لیے محض ایک پیر و مرشد اور واعظ نہیں تھے بلکہ عملاً ان کی جماعت کے قائد، رہنما، حاکم، قاضی، شارع، مربی، معلم سب کچھ تھے اور عقائد و تصورات سے لے کر عملی زندگی کے تمام گوشوں تک مسلم سوسائٹی کی پوری تشکیل آپ ہی کے بتائے، سکھائے اور مقرر کیے ہوئے طریقوں پر ہوئي تھی۔ اس لیے کبھی یہ نہیں ہوا کہ آپ نے نماز، روزے اور مناسک حج کی جو تعلیم دی ہو، بس وہی مسلمانوں میں رواج پا گئی ہو اور باقی باتیں محض وعظ و ارشاد میں مسلمان سن کر رہ جاتے ہوں بلکہ فی الواقع جو کچھ ہوا وہ یہ تھا کہ جس طرح آپ کی سکھائی ہوئی نماز فوراً مسجدوں میں رائج ہوئی اور اسی وقت جماعتیں اس پر قائم ہونے لگیں، اسی طرح شادی بیاہ اور طلاق و وراثت کے متعلق جو قوانین آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیے انہی پر مسلم خاندانوں میں عمل شروع ہو گیا، لین دین کے جو ضابطے آپ نے مقرر کیے انہی کا بازاروں میں چلن ہونے لگا، مقدمات کے جو فیصلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیے وہی ملک کا قانون قرار پائے، لڑائیوں میں جو معاملات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کے ساتھ، اور فتح پاکر مفتوح علاقوں کی آبادی کے ساتھ کیے وہی مسلم مملکت کے ضابطے بن گئے، اور فی الجملہ اسلامی معاشرہ اور اس کا نظام حیات اپنے تمام پہلوؤں کےساتھ انہی سنتوں پر قائم ہوا جو آپ نے خود رائج کیں یا جنہیں پہلے کے طروج طریقوں میں سے بعض کو برقرار رکھ کر آپ نے سنت اسلام کا جز بنا لیا۔
یہ وہ معلوم و متعارف سنتیں تھی جن پر مسجد سے لے کر خاندان، منڈی، عدالت، ایوان حکومت اور بین الاقوامی سیاست تک مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے تمام ادارات نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں عملدرآمد شروع کر دیا تھا اور بعد میں خلفائے راشدین کے عہد سے لے کر دور حاضر تک ہمارے اجتماعی ادارات کے تسلسل میں ایک دن کا انقطاع بھی واقع نہیں ہوا تھا۔ اس کے بعد اگر کوئی انقطاع رونما ہوا ہے تو صرف حکومت و عدالت اور پبلک لا کے ادارات عملاً درہم برہم ہو جانے سے ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔ ان (سنتوں) کے معاملے میں ایک طرف حدیث کی مستند روایات اور دوسری طرف امت کا متواتر عمل، دونوں ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں”۔ (ترجمان القرآن، دسمبر 58ء، صفحہ 167)
پھر اسی سلسلے میں آگے چل کر مزید تشریح کرتے ہوئے میں نے یہ بھی لکھا تھا:
“ان معلوم و متعارف سنتوں کے علاوہ ایک قسم سنتوں کی وہ تھی جنہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں شہرت اور رواج عام حاصل نہ ہوا تھا، جو مختلف اوقات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فیصلے، ارشاد، امر و نہی، تقریر ، اجازت، یا عمل کو یکھ کر یا سن کر خاص خاص اشخاص کے علم میں آئی تھی اور عام لوگ ان سے واقف نہ ہو سکے تھے۔
ان سنتوں کا علم جو متفرق افراد کے پاس بکھرا ہوا تھا، امت نے اس کو جمع کرنے کا سلسلہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد فوراً ہی شروع کر دیا۔ کیونکہ خلفا، حکام، قاضي، مفتی اور عوام سب اپنے اپنے دائرہ کار میں پیش آنے والے مسائل کے متعلق کوئي فیصلہ یا عمل اپنی رائے اور استنباط کی بنا پر کرنے سے پہلے یہ معلوم کر لینا ضروری سمجھتے تھے کہ اس معاملہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ہدایت تو موجود نہیں ہے۔ اسی ضرورت کی خاطر ہر اس شخص کی تلاش شروع ہوئی جس کے پاس سنت کا کوئی علم تھا، اور ہر اس شخص نے جس کے پاس ایسا کوئی علم تھا،خود بھی اس کو دوسروں تک پہنچانا اپنا فرض سمجھا۔ یہی روایت حدیث کا نقطہ آغاز ہے اور 11ھ سے تیسری چوتھی صدی تک ان متفرق سنتوں کو فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ موضوعات گھڑنے والوں نے ان کے اندر آمیزش کی جتنی کوششیں بھی کیں وہ قریب قریب سب ناکام بنا دی گئیں کیونکہ جن سنتوں سے کوئی حل ثابت یا ساقط ہوتا تھا،جن کی بنا پر کوئی چیز حرام یا حلال ہوتی تھی، جس نے کوئی شخص سزا پا سکتا تھا یا کوئی ملزم بری ہو سکتا تھا، غرض یہ کہ جن سنتوں پر احکام اور قوانین کا مدار تھا، ان کے بارے میں حکومتیں اور عدالتیں اور افتاء کی مسندیں اتنی بے پرواہ نہیں ہو سکتی تھیں کہ یونہی اٹھ کر کوئی شخص قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیتا۔ اسی لیے جو سنتیں احکام سے متعلق تھیں ان کے بارے میں پوری چھان بین کی گئی، سخت تنقید کی چھلنیوں سے ان کو چھانا گیا۔ روایت کے اصولوں پر بھی انہیں پرکھا گیا اور درایت کے اصولوں پر بھی، اور وہ سارا مواد جمع کر دیا گیا، جس کی بنا پر کوئی روایت مانی گئی ہے یا رد کر دی گئی ہے،تاکہ بعد میں بھی ہر شخص اس کے رد و قبول کے متعلق تحقیقی رائے قائم کر سکے”۔ (ترجمان القرآن، دسمبر 58ء، صفحہ 168۔169)
اس جواب کو بغور ملاحظہ فرما لینے کے بعد اب آپ فرمائیے کہ آپ کو اپنے دوسرے سوال کا جواب ملا یا نہیں۔ ممکن ہے کہ آپ اس پر یہ کہیں کہ تم نے “قرآن کی طرح ایک جامع و مانع کتاب” کا نام تو لیا ہی نہیں جس میں “سنت رسول اللہ مرتب شکل میں موجود ہو”۔ مگر میں عرض کروں گا کہ میرے اس جواب پر یہ اعتراض ایک کج بحثی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ آپ ایک پڑھے لکھے ذی ہوش آدمی ہیں۔ کیا آپ اتنی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتے کہ ایک معاشرے اور ریاست کا پورا نظام صرف ایک مدون کتاب آئین (Code) ہی پر نہیں چلا کرتا ہے،بلکہ اس کتاب کے ساتھ رواجات (Conventions)، روایات (Traditions)، نظائر (Precedents)، عدالتی فیصلوں، انتظامی احکام، اخلاقی روایات وغیرہ کا ایک وسیع سلسلہ بھی ہوتا ہے جو کتاب آئین پر عملاً ایک نظام زندگی چلنے کا لازمی نتیجہ ہے۔ یہ چیز ایک قوم کے نظام حیات کی جان ہوتی ہے جس سے الگ کر کے محض اس کی کتاب آئین نہ تو اس کے نظام حیات کی پوری تصویر ہی پیش کرتی ہے، نہ وہ ٹھیک طور پر سمجھی ہی جا سکتی ہے اور یہ چیز دنیا میں کہیں بھی کسی “ایک جامع و مانع کتاب” کی شکل میں مرتب نہیں ہوتی، نہ ہو سکتی ہے، نہ ایسی کسی “ایک کتاب” کا فقدان یہ معنی رکھتا ہے کہ اس قوم کے پاس اس کی کتاب آئين کے سوا کوئی ضابطہ و قانون موجود نہیں ہے۔ آپ انگلستان،امریکہ، یا دنیا کی کسی اور قوم کے سامنے یہ بات ذرا کہہ کر دیکھیں کہ تمہارے پاس تمہارے مدون قانون (Conified Law) کے سوا جو کچھ بھی ہے سب ساقط الاعتبار ہے، اور تمہاری تمام روایات وغیرہ کو یا تو “ایک کتاب” کی شکل میں مرتب ہونا چاہیے، ورنہ انہیں آئینی حیثيت سے بالکل ناقابل لحاظ قرار دیا جانا چاہیے، پھر آپ کو خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ آپ کا یہ ارشاد کتنے وزن کا مستحق قرار پاتا ہے۔
کسی کا کہنا کہ عہد نبوی کے رواجات، روایات، نظائر، فیصلوں، احکام اور ہدایات کا پورا ریکارڈ ہم کو “ایک کتاب” کی شکل میں مرتب شدہ ملنا چاہیے تھا، درحقیقت ایک خالص غیر عملی طرز فکر ہے اور وہی شخص یہ بات کہہ سکتا ہے جو خیالی دنیا میں رہتا ہو۔ آپ قدیم زمانے کے عرب کی حالت کو چھوڑ کر تھوڑی دیر کے لیے آج اس زمانے کی حالت کو لے لیجیے جب کہ احوال و وقائع کو ریکارڈ کرنے کے ذرائع بے حد ترقی کر چکے ہیں۔ فرض کر لیجیے کہ اس زمانے میں کوئی لیڈر ایسا موجود ہے جو 23 سال تک شب و روز کی مصروف زندگی میں ایک عظیم الشان تحریک برپا کرتا ہے۔ ہزاروں افراد کو اپنی تعلیم و تربیت سے تیار کرتا ہے۔ ان سے کام لے کر ایک پورے ملک کی فکری، اخلاقی، تمدنی اور معاشی زندگی میں انقلاب پیدا کرتا ہے۔ اپنی قیادت و رہنمائی میں ایک نیا معاشرہ اور ایک نئی ریاست وجود میں لاتا ہے۔ اس معاشرے میں اس کی ذات ہر وقت ایک مستقل نمونہ ہدایت بنی رہتی ہے۔ ہر حالت میں لوگ اس کو دیکھ دیکھ کر یہ سبق لیتے ہیں کہ کیا کرنا چاہیے اور کیا نہ کرنا چاہیے۔ ہر طرح کے لوگ شب و روز اس سے ملتے رہتے ہیں اور وہ ان کو عقائد و افکار، سیرت و اخلاق، عبادات و معاملات، غرض ہر شعبہ زندگی کے متعلق اصولی ہدایات بھی دیتا ہے اور جزئی احکام بھی۔ پھر اپنی قائم کردہ ریاست کا فرمانروا، قاضی، شارع، مدبر اور سپہ سالار بھی تنہا وہی ہے اور دس سال تک اس مملکت کے تمام شعبوں کو وہ خود اپنے اصولوں پر قائم کرتا اور اپنی رہنمائی میں چلاتا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آج اس زمانے میں بھی یہ سارا کام کسی ایک ملک میں ہو تو اس کا ریکارڈ “ایک کتاب” کی شکل میں مرتب ہو سکتا ہے؟ کیا ہر وقت اس لیڈر کے ساتھ ٹیپ ریکارڈ لگا رہ سکتا ہے؟ کیا ہر آن فلم کی مشین اس کی شبانہ روز نقل و حرکت ثبت کرنے میں لگی رہ سکتی ہے؟ اور اگر یہ نہ ہو سکے تو کیا آپ کہیں گے کہ وہ ٹھپا جو اس لیڈر نے ہزاروں لاکھوں افراد کی زندگی پر پورے معاشرے کی ہئیات اور پوری ریاست کے نظام پر چھوڑا ہے، سرے سے کوئی شہادت ہی نہیں ہے۔ جس کا اعتبار کیا جا سکے؟ کیا آپ یہ دعویٰ کریں گے کہ اس لیڈر کی تقریریں سننے والے، اس کی زندگی دیکھنے والے، اس سے ربط و تعلق رکھنے اولے بے شمار اشخاص کی رپورٹیں سب کی سب ناقابل اعتماد ہیں کیونکہ خود اس لیڈر کے سامنے وہ “ایک کتاب” کی شکل میں مرتب نہیں کی گئیں اور لیڈر نے ان پر اپنے ہاتھ سے مہر تصدیق ثبت نہیں کی؟ کیا آپ فرمائیں گے کہ اس کے عدالتی فیصلے، اس کے انتظامی احکام، اس کے قانونی فرامین، اس کے صلح و جنگ کے معاملات کے متعلق جتنا مواد بھی بہت سی مختلف صورتوں میں موجود ہے اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے، کیونکہ وہ “ایک جامع و مانع کتاب” کی شکل میں تو ہے ہی نہیں؟
ان امور پر اگر بحث کی نیت سے نہیں بلکہ بات سمجھنے کی نیت سے غور کیا جائے تو ایک ذی فہم آدمی خود محسوس کر لے گا کہ یہ “ایک کتاب” کا مطالبہ کتنا مہمل ہے۔ اس طرح کی باتیں ایک کمرے میں بیٹھ کر چند نیم خواندہ اور فریب خوردہ عقیدت مندوں کے سامنے کر لی جائیں تو مضائقہ نہیں، مگر کھلے میدان میں پڑھے لکھے لوگوں کے سامنے ان کو چیلنج کے انداز میں پیش کرنا بڑی جسارت ہے۔
کیا سنت متفق علیہ ہے؟ اور اس کی تحقیق کا ذریعہ کیا ہے؟
آپ کا تیسرا سوال یہ تھا: “کیا سنت رسول اللہ کی اس کتاب کا متن تمام مسلمانوں کے نزدیک اسی طرح متفق علیہ اور شک و تنقید سے بالاتر ہے جس طرح قرآن کا متن؟”
اور چوتھا سوال یہ کہ:
“اگر کوئی ایسی کتاب موجود نہیں تو پھر جس طرح یہ باآسانی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ فلاں فقرہ قرآن مجید کی آیت ہے اسی طرح یہ کیونکر معلوم کیا جائے گا کہ فلاں بات سنت رسول اللہ ہے یا نہیں؟
ان سوالات کے جواب اپنے جن مضامین کی طرف میں نے آپ کو توجہ دلائی تھی ان کو اگر آپ نے پڑھا ہے تو ان کے اندر یہ عبارتیں ضرور آپ کی نظر سے گذری ہوں گی:
“بلاشبہ سنت کی تحقیق اور اس کے تعین میں بہت سے اختلافات ہوئے ہیں اور آئندہ بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن ایسے ہی اختلافات قرآن کے بہت سے احکام و اشارات کے معنی متعین کرنے میں بھی ہوئے ہیں اور ہو سکتے ہیں۔ ایسے اختلافات اگر قرآن کو چھوڑ دینے کے لیے دلیل نہیں بن سکتے تو سنت کو چھوڑ دینے کے لیے انہیں کیسے دلیل بنایا جا سکتا ہے؟ یہ اصول پہلے بھی مانا گیا ہے اور آج بھی اسے ماننے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ جو شخص بھی کسی چیز کے حکم قرآن یا حکم سنت ہونے کا دعویٰ کرے وہ اپنے قول کی دلیل دے۔ اس کا قول اگر وزنی ہوگا تو امت کے اہل علم سے، یا کم از کم ان کے کسی بڑے گروہ سے اپنا سکہ منوا لے گا اورجو بات دلیل کے اعتبار سے بے وزن ہوگی وہ بہرحال نہ چل سکے گی۔ یہی اصول ہے جس کی بنا پر دنیا کے مختلف حصوں میں کروڑوں مسلمان کسی ایک مذہب فقہی پر مجتمع ہوئے ہیں اور ان کی بڑی بڑی آبادیوں نے احکام قرآنی کی کسی تفسیر و تعبیر اور سنن ثابتہ کے کسی مجموعہ پر اپنی اجتماعی زندگی کے نظام کو قائم کیا ہے۔ (ترجمان القرآن، جنوری 58ء، صفحہ 219)
“اگر مختلف فیہ، سنت کا بجائے خود مرجع و سند (Authority) ہونا نہیں ہے بلکہ اختلاف جو کچھ بھی واقع ہوتا ہے اور ہوا ہے وہ اس امر میں ہے کہ کسی خاص مسئلے میں جس چیز کے سنت ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہو وہ فی الوقت سنت ثابتہ ہے یا نہیں، تو ایسا ہی اختلاف قرآن کی آیات کا مفہوم و منشا متعین کرنے میں بھی واقع ہوتا ہے۔ ہر صاحب علم یہ بحث اٹھا سکتا ہے کہ جو حکم کسی مسئلے میں قرآن سے نکالا جا رہا ہے وہ در حقیقت اس سے نکلتا ہے یا نہیں۔ فاضل مکتوب نگار (جسٹس ایس اے رحمٰن) نے خود قرآن مجید میں اختلاف تفسیر و تعبیر کا ذکر کیا ہے اور اس اختلاف کی گنجائش ہونے کے باوجود وہ بجائے خود قرآن کو مرجع و سند مانتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسی طرح الگ الگ مسائل کے متعلق سنتوں کے ثبوت و تحقیق میں اختلاف کی گنجائش ہنے کے باوجود فی نفسہ “سنت” کو مرجع و سند تسلیم کرنے میں انہیں کیوں تامل ہے۔
یہ بات ایک ایسے فاضل قانون دان سے جیسے کہ محترم مکتوب نگار ہیں، مخفی نہیں رہ سکتی کہ قرآن کے کسی حکم کی مختلف ممکن تعبیرات میں سے جس شخص، ادارے یا عدالت نے تفسیر و تعبیر کے معروف علمی طریقے استعمال کرنے کے بعد بالآخر جس تعبیر کو حکم کا اصل منشا قرار دیا ہو،اس کے علم اور دائرۂ کار کی حد تک وہی حکم خدا ہے۔ اگرچہ یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ حقیقت میں بھی وہی حکم خدا ہے۔ بالکل اسی طرح سنت کی تحقیق کے علمی ذرائع استعمال کر لے۔ کسی مسئلے میں جو سنت بھی ایک فقیہ، یا لیجسلیچر، یا عدالت کے نزدیک ثابت ہو جائے وہی اس کے لیے حکم رسول ہے۔ اگرچہ قطعی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حقیقت میں رسول کا حکم وہی ہے۔ ان دونوں صورتوں میں یہ امر تو ضرور مختلف فیہ رہتا ہے کہ میرے نزدیک خدا یا رسول کا حکم کیا ہے اور آپ کے نزدیک کیا، لیکن جب تک میں اور آپ خدا اور رسول کو آخری سند (Final Authority) مان رہے ہیں، ہمارے درمیان یہ امر مختلف فیہ نہیں ہو سکتا کہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بجائے خود ہمارے لیے قانون واجب الاتباع ہے”۔ (ترجمان القرآن، دسمبر 58ء، صفحہ 162)
“سنتوں کا معتدبہ حصہ فقہاء اور محدثین کے درمیان متفق علیہ ہے، اور ایک حصے میں اختلافات ہیں، بعض لوگوں نے کسی چیز کو سنت مانا ہے اور بعض نے اسے نہیں مانا۔ مگر اس طرح کے تمام اختلافات میں صدیوں اہل علم کے درمیان بحثیں جاری رہی ہیں اور نہایت تفصیل کے ساتھ ہر نقطہ نظر کا استدلال اور وہ بنیادی مواد جس پر یہ استدلال مبنی ہے، فقہ اور حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ آج کسی صاحب علم کے لیے بھی یہ مشکل نہیں ہے کہ کسی چیز کے سنت ہونے یا نہ ہونے کے متعلق خود تحقیق سے رائے قائم کر سکے۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ سنت کے نام سے متوحش ہونے کی کسی کے لیے بھی کوئی معقول وجہ ہو سکتی ہے۔ البتہ ان لوگوں کا معاملہ مختلف ہے جو اس شعبہ علم سے واقف نہیں ہے۔ اور جنہیں بس دور ہی سے حدیثوں میں اختلافات کا ذکر سن کر گھبراہٹ لاحق ہو گئی ہے”۔ (ترجمان القرآن، دسمبر 58ء، صفحہ 169)
میں نے آپ کے مذکورۂ بالا دونوں سوالوں کے جواب میں ان عبارات کے مطالعہ کا مشورہ اس امید پر دیا تھا کہ ایک تعلیم یافتہ ذی ہوش آدمی جو بات کو سمجھنے کی خواہش رکھتا ہو، انہیں پڑھ کر اپنی اس بنیادی غلطی کو خود سمجھ لے گا جو اس کے سوالات میں موجود ہے، اور اس کی سمجھ میں آپ سے آپ یہ بات آ جائے گی کہ سنت کی تحقیق میں اختلاف، اس کو آئین کی بنیاد بنانے میں اسی طرح مانع نہیں ہو سکتا جس طرح قرآن کی تعبیر میں اختلاف رائے آئین کی بنیاد قرار دینے میں مانع نہیں ہے لیکن آپ نے نہ اس غلطی کو محسوس کیا نہ بات سمجھنے کی کوشش فرمائی اور الٹے مزید کچھ سوالات چھیڑ دیئے۔ میں آپ کے چھیڑے ہوئے ان سوالات سے تو بعد میں تعرض کروں گا۔ پہلے آپ یہ بات صاف کریں کہ اگر آپ کے نزدیک صرف وہی چیز آئین کی بنیاد بن سکتی ہے جس میں اختلاف کی گنجائش نہ ہو تو اس آسمان کے نیچے دنیا میں وہ کیا چیز ایسی ہے جو انسانی زندگی کے معاملات و مسائل سے بحث کرتی ہو اور اس میں انسانی ذہن اختلاف کی گنجائش نہ پا سکیں؟ آپ قرآن کے متعلق اس سے زیادہ کوئی دعویٰ نہیں کر سکتے کہ اس کا متن متفق علیہ ہے اور اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ فلاں فقرہ قرآن کی آیت ہے۔ لیکن کیا آپ قرآن کے متعلق اس سے زیادہ کوئی دعویٰ نہیں کر سکتے کہ اس کا متن متفق علیہ ہے اور اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ فلاں فقرہ قرآن کی آیت ہے۔ لیکن کیا آپ اس بات سے انکار کرسکتے ہیں کہ آیات قرآنی کا منشا سمجھنے، اور ان سے احکام اخذ کرنے میں بے شمار اختلافات ہوسکتے ہیں اور ہوئے ہیں؟ اگر ایک آئین کی اصل غرض الفاظ بیان کرنا نہیں بلکہ احکام بیان کرنا ہے تو اس غرض کے لحاظ سے الفاظ میں اتفاق کا کیا فائدہ ہوا جبکہ احکام اخذ کرنے میں اختلاف ہے، رہا ہے اور ہمیشہ ہوسکتا ہے؟ اس لیے یا تو آپ کو اپنے اس نقطہ نظر میں تبدیلی کرنی ہوگی کہ “آئین کی بنیاد صرف وہی چیز بن سکتی ہے جس میں اختلاف نہ ہوسکے”۔ یا پھر قرآن کو بھی اساس آئین ماننے سے انکار کرنا ہوگا۔ درَحقیقت اس شرط کے ساتھ تو دنیا میں سرے سے کوئی آئین ہوہی نہیں سکتا۔ جن سلطنتوں کا کوئی مکتوب آئین سرے سے ہے ہی نہیں (مثلاً برطانیہ) ان کے نظام کا تو خیر خدا ہی حافظ ہے، مگر جن کے ہاں ایک مکتوب آئین موجود ہے، ان کے ہاں بھی صرف آئین کی عبارات ہ ی متفق علیہ ہیں۔ تعبیرات ان میں سے کسی کی متفق علیہ ہوں تو براہِ کرم اس کی نشاندہی فرمائیں۔
چار بنیادی حقیقتیں
اس کے علاوہ میری مذکورۂ بالا عبارات میں چند امور اور بھی ہیں جن سے آپ نے صرف نظر کرکے اصل مسائل سے پیچھا چھڑانے کے لیے دوسرے سوالات چھیڑدیئے ہیں۔ لیکن میں اس راہ گریز کی طرف آپ کو نہ جانے دوں گا جب تک ان امور کے متعلق آپ کوئی متعین بات صاف صاف نہ کہیں۔ یا تو آپ ان کو سیدھی طرح تسلیم کیجئے اور اپنا موقف بدلیے۔ یا پھر محض دعووں سے نہیں بلکہ علمی دلیل سے ان کا انکار کیجئے وہ امور یہ ہیں:
1) “سنتوں کا بہت بڑا حصہ امت میں متفق علیہ ہے”۔اسلامی نظام حیات کا بنیادی ڈھانچہ جن سنتوں سے بنتا ہے وہ تو قریب قریب سب ہی متفق علیہ ہیں۔ ان کے علاوہ اصول اور کلیات شریعت جن سنتوں پر مبنی ہیں، ان میں بھی زیادہ تر اتفاق ہے۔ اختلاف اکثر و بیشتر ان سنتوں میں ہے جن سے جزئی احکام نکلتے ہیں اور وہ بھی سب مختلف فیہ نہیں ہیں، بلکہ ان کا بھی ایک اچھا خاصہ حصہ ایسا ہے جن پر علمائے امت کے درمیان اتفاق پایا جاتا ہے۔ صرف یہ بات کہ ان اختلافی مسائل کو بحثوں اور مناظروں میں زیادہ اچھالا گیا ہے، یہ فیصلہ کردینے کے لیے کافی نہین ہے کہ “سنت” پوری کی پوری مختلف فیہ ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی سنتوں کے بڑے حصے کو متفق علیہ قرار دینے میں مانع نہیں ہے کہ چند چھوٹے چھوٹے خبطی اور زیادہ تر بے علم گروہوں نے کبھی کہیں اور کبھی کہیں اٹھ کر متفق علیہ چیزوں کو بھی اختلافی بنانے کی کوشش کی ہے۔ ایسے گروہوں نے ایک سنت ہی پر ہاتھ صاف نہیں کیا ہے بلکہ ان میں سے بعض تحریف قرآن تک کے مدعی ہوئے ہیں۔ مگر اس قسم کے چند سرپھرے اور کم سواد لوگوں کا وجود امت مسلمہ کے بحیثیت مجموعی اتفاق کو باطل نہیں کرسکتا۔ ایسے دو چار سو یا دو چار ہزار آدمیوں کو آخر یہ اجازت کیوں دی جائے کہ پورے ملک کے لیے جو آئین بن رہا ہو اس میں سے ایک ایسی چیز کو خارج کردینے کے لیے کھڑے ہوجائیں جسے قرآن کے بعد ساری امت اسلامی قانون کی دوسری بنیاد مانتی ہے اور ہمیشہ سے مانتی رہی ہے۔
2) جزئی احکام سے متعلق جن سنتوں میں اختلاف ہے ان کی نوعیت بھی یہ نہیں ہے کہ فرد فرد ان میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتا ہو، بلکہ “دنیا کے مختلف حصوں میں کروڑوں مسلمان کسی ایک مذہب فقہی پر مجتمع ہوگئے ہیں اور ان کی بڑی بڑی آبادیوں نے احکام قرآنی کی کسی ایک تعبیروتفسیر اور سنن ثابتہ کے کسی ایک مجموعہ پر اپنی اجتماعی زندگی کے نظام کو قائم کرلیا ہے”۔ مثال کے طور پر اپنے اسی ملک، پاکستان کو لے لیجیے جس کے آئین کا مسئلہ زیرِ بحث ہے۔ قانون کے معاملہ میں اس ملک کی پوری مسلم آبادی صرف تین بڑے بڑے گروہوں پر مشتمل ہے۔ ایک حنفی، دوسرے شیعہ، تیسرے اہلِ حدیث۔ ان میں سے ہر ایک گروہ احکام قرآن کی ایک تعبیر اور سنن ثابتہ کے ایک مجموعہ کو مانتا ہے۔ کیا جمہوری اصول پر ہم آئین کے مسئلے کو اس طرح با آسانی حل نہیں کرسکتے کہ شخصی قانون (پرسنل لاء) کی حد تک ہر ایک گروہ کے لیے احکام قرآن کی وہی تعبیر اور سنن ثابتہ کا وہی مجموعہ متعبر ہو، جسے وہ مانتا ہے اور ملکی قانون (پبلک لاء) اس تعبیر قرآن اور ان سنن ثابتہ کے مطابق ہو جس پر اکثریت اتفاق کرے؟
3) بجائے خود بھی یہ سوال کہ “یہ کیونکر معلوم کیا جائے گا کہ فلاں سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے یا نہیں”۔ درِ حقیقت کوئی لاینحل سوال نہیں ہے۔ جن سنتوں کے بارے میں یہ اختلاف پیدا ہوا ہے کہ وہ ثابت ہیں یا نہیں، ان پر “صدیوں اہلِ علم کے درمیان بحثیں جاری رہی ہیں اور نہایت تفصیل کے ساتھ ہر نقطہ نظر کا استدلال اور وہ بنیادی مواد جس پر ی استدلال مبنی ہے، فقہ اور حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ آج کسی صاحب علم کے لیے بھی یہ مشکل نہیں ہے کہ کسی چیز کے نست ہونے یا نہ ہونے کے متعلق خود تحقیق سے کوئی رائے قائم کرسکے”۔
4) پھر آئین اور قانون کی اغراض کے لیے اس مسئلے کا آخری حل یہ ہے کہ “قرآن کی مختلف ممکن تعبیرات میں سے جس شخص، ادارے یا عدالت نے تفسیر و تعبیر کے معروف علمی طریقے استمال کرنے کے بعد بالاخر جس تعبیر کو حکم کا اصل منشا قرار دیا ہو، اس کے علم اور دائرۂ کار کی حد تک وہی حکمِ خدا ہے، اگرچہ یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ حقیقت می بھی وہی حکمِ خدا ہے۔ بالکل اسی طرح سنت کی تحقیق کے علمی ذرائع استعمال کرکے کسی مسئلے میں جو سنت بھی ایک فقیہ، لیجسیلچر یا عدالت کےنزدیک ثابت ہوجائے وہی اس کے لیے حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے، اگرچہ قطعی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حقیقت میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم وہی ہے۔
اب آپ خود ایمانداری کے ساتھ اپنے ضمیر سے پوچھیں کہ یہ امور جو میری محولہ بالاہ عبارات میں آپ کے سامنے آئے تھے، ان میں آپ کو اپنے تیسرے اور چوتھے سوال کا جواب مل گیا تھا یا نہیں؟ اور ان کا سامنا کر کے ان کے متعلق ایک واضح بات کہنے کے بجائے آپ نےدوسرے سوالات چھیڑنے کی جو کوشش فرمائی ہے، اس کی معقول وجہ، جس پر آپ کا ضمیر مطمئن ہو، کیا ہے؟
دوسرے خط کا جواب
اس کے بعد آپ کے دوسرے عنایت نامے کو لیتا ہوں۔ اس میں آپ شکایت فرماتے ہیں کہ آپ کے پہلے خط کے جواب میں جن مضامین کی نشاندہی میں نے کی تھی ان سے آپ کو اپنے سواالت کا متعین جواب نہیں مل سکا، بلکہ آپ کی الجھن اور بڑھ گئی۔ لیکن اب آپ کے ان سوالات کے متعلق جو تفصیلی گزارشات میں نے پیش کی ہیں انہیں پڑھ کر آپ خود فیصلہ کریں کہ ان میں آپ کو ہر سوال کا ایک متعین جواب ملا ہے یا نہیں۔ اور ان سے آپ کی الجھن بڑھنے کا اصل سبب آیا ان مضامین میں ہے یا آپ کے اپنے ذہن میں۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ ان میں کئی باتیں ایسی ہیں جو تمہاری دوسری تحریروں سے مختلف ہیں۔ اس کے جواب میں اگر میں یہ عرض کروں کہ براہِ کرم میری ان تحریروں کا حوالہ دیجیے اور یہ بتایئے کہ ان میں کیا چیزیں ان مضامین سے مختلف ہیں، تو مجھے اندیشہ ہے کہ آپ کو گریز کا ایک اور میدان مل جائے گا۔ اس لیے بحث کے دائرے کو زیرِ بحث مسائل پر مرکوز رکھنے کی خاطر، یہ جواب دینے کے بجائے میں آپ سے عرض کروں گا کہ میری دوسری تحریروں کو چھوڑیے اب جو باتیں میں آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں ان کے متعلق فرمایئے کہ انہیں آپ قبول کرتے ہیں یا رد، اور اگر رد کرتے ہیں تو اس کے لیے دلیلِ معقول کیا ہے؟
چار نکات
اس کے بعد آپ مجھے یہ یقین دلاکر کہ اس مراسلت سے آپ کا مقصد مناظر بازی نہیں بلکہ بات کا سمجھنا ہے، میرے ان مضامین کا عطر چار نکات کی صورت میں نکال کر میرے سامنے پیش فرماتے ہیں اور مجھ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ یا تو میں اس بات کی توثیق کردوں کہ میرے ان مضامین ک اعطر یہی کچھ ہے، یا یہ تصریح کردوں کہ آپ نے ان مضامین کا مطلب غلط سمجھا ہے۔
وہ نکات جو آپ نے عطر کے طور پر ان مضامین سے کشید کیے ہیں، ان پر تو میں ابھی ابھی نمبردار بحث کرتا ہوں، لیکن اس بحث سے پہلے میں آپ سے گزارش کروں گا کہ اپنے مضامین سے جو نکات میں نے اوپر نکال کر پیش کیے ہیں ان کے مقابلہ میں اپنے اخذ کردہ ان نکات کو رکھ کر آپ خود دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ جو ذہن ان نکات کے بجائے ان نکات کی طرف ملتضت ہوا ہے وہ بات سمجھنے کا خواہش مند ہے یا مناظرہ بازی کا مریض۔
نکتہ اولیٰ
آپ کا اخذ کردہ پہلا نکتہ یہ ہے:
“آپ نے یہ فرمایا ہے کہ نبی اکرم صلعم نے 23 برس کی پیغمبرانہ زندگی میں قرآن مجید کی تشریح کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا یا عملاً کیا اسے سنتِ رسول اللہ صلعم کہتے ہیں۔ اس سے دو نتیجے نکلتے ہیں:
(الف) رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تئیس سالہ زندگی میں جو باتیں اپنی شخصی حیثیت سے ارشاد فرمائیں یا عملاً کیں وہ سنت میں داخل نہیں ہیں۔
(ب)سنت، قرآنی احکام و اصول کی تشریح ہے۔ قرآن کے علاوہ دین کے اصول یا احکام تجویز نہیں کرتی اور نہ ہی سنت قرآن کے کسی حکم کو منسوخ کر سکتی ہے”۔
یہ خلاصہ جو آپ نے میرے کلام سے نکالا ہے اس کا پہلا جز ہی غلط ہے۔ میرے ان مضامین میں، جن سے آپ یہ خلاصہ نکال رہے ہیں، یہ بات کہاں لکھی ہے کہ ” نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تئیس برس کی پیغمبرانہ زندگی میں قرآن کی تشریح کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا یا عملاً کیا، اسے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں”۔ میں نے تو اس کے برعکس یہ کہا ہے کہ حضور کی پیغمبرانہ زندگی کا وہ پورا کام جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تئیس سال میں انجام دیا، قرآن کے منشا کی توضیح و تشریح ہے، اور یہ سنت قرآن کے ساتھ مل کر حاکم اعلیٰ (یعنی اللہ تعالیٰ) کے قانون برتر کی تشکیل و تکمیل کرتی ہے، اور یہ سارا کام چونکہ آنحضور صلعم نے نبی کی حیثیت سے کیا تھا لہٰذا اس میں آپ اسی طرح خدا کی مرضی کی نمائندگی کرتے تھے جس طرح کہ قرآن۔ اگر آپ دوسروں کی عبارتوں میں خود اپنے خیالات پڑھنے کے عادی نہیں ہیں تو آپ کے سوال نمبر ایک کے جواب میں جو کچھ میں نے لکھ اہے اسے پڑھ کر خود دیکھ لیں کہ میں نے کیا کہا تھا اور آپ نے اسے کیا بنادیا۔
پھر اس سے جو دونتیجے آپ نے نکالے ہیں، وہ دونوں اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ آپ نے میری ان عبارتوں میں اپنے سوال کا جواب ڈھونڈنے کے بجائے ایک نئی بحث کا راستہ تلاش کیا ہے، کیونکہ نہ آپ کا پہلا سوال ان مسائل سے متعلق تھا، نہ میں نے اپنے ان مخصوص مضامین کا حوالہ آپ کو اس لیے دیا تھا کہ آپ ان مسائل کا جواب ان میں تلاش کریں۔ تاہم میں آپ کو یہ کہنے کا موقع نہیں دینا چاہتا کہ آپ کے چھیڑے ہوئے سوالات کا جواب دینے سے میں نے گریز کیا ہے، اس لیے ان دونوں نتیجوں کے متعلق مختصرا عرض کرتا ہوں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصی حیثیت اور پیغمبرانہ حیثیت کا فرق
(الف) یہ بات مسلماتِ شریعت میں ہے کہ سنت واجب الاتباع صرف وہی اقوال و افعال رسول ہیں جو حضور صلعم نے رسول کی حیثیت سے کے ہیں۔ شخصی حیثیت سے جو کچھ آپ نے فرمایا یا عملاً کیا ہے وہ واجب الاحترام تو ضرور ہے مگر واجب الاتباع نہیں ہے۔ شاہ ولی اللہ نے حجتہ اللہ البالغہ میں باب بیان اقسام علوم النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان سے ااس پر مختصر مگر بڑی جامع بحث کی ہے۔ صحیح مسلم میں امام مسلم نے ایک پورا باب ہی اس اصول کی وضاحت میں مرتب کیا ہے اور اس کا عنوان یہ رکھا ہے: باب وجوب امتثال مااقالہ شرغادون ماذکر صلی اللہ علیہ وسلم من معاش الدنیا علیٰ سبیل الرای (یعنی باب اس بیان میں کہ واجب صرف ان ارشادات کی پیروی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرعی حیثیت سے فرمائے ہیں نہ کہ ان باتوں کی جو دنیا کے معاملات میں آنحضور نے اپنی رائے کے طور پر بیان فرمائی ہیں) لیکن سوال یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصی حیثیت اور پیغمبرانہ حیثیت میں فرق کرکے یہ فیصلہ آخر کون کرے گا اور کیسے کرے گا کہ آپ کے افعال و اقوال میں سے سنت واجب التباع کیا چیز ہے اور محض ذاتی و شخصی کیا چیز؟ ظاہر ہے کہ ہم بطور خود یہ تفریق و تحدید کرلینے کے مجاز نہیں ہیں۔ یہ فرق دو ہی طریقوں سے ہوسکتا ہے۔ یا تو حضور نے اپنے کسی قول و فعل کے متعلق خود تصریح فرمادی ہو کہ وہ ذاتی و شخصی حیثیت میں ہے یا پھر جو اصولِ شریعت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تعلیمات سے مستنبط ہوتے ہیں ان کی روشنی میں محتاط اہلِ علم یہ تحقیق کریں کہ آپ کے افعال و اقوال میں سے کس نوعیت کے افعال و اقوال آپ کی پیغمبرانہ حیثیت سے تعلق رکھتے ہیں اور کس نوعیت کی باتوں اور کاموں کو شخصی و ذاتی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس مسئلے پر زیادہ تفصیلی بحث میں اپنے ایک مضمون میں کرچکا ہوں جس کا عنوان ہے “رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیتِ شخصی اور حیثیتِ نبوی”۔ (ترجمان القرآن، دسمبر 1959)
قرآن سے زائد ہونا اور قرآن کے خلاف ہونا ہم معنی نہیں ہے
(ب) یہ نتیجہ آپ نے بالکل غلط نکالا ہے کہ سنت قرآنی احکام و اصول کی شارح اس معنی میں ہے کہ “وہ قرآن کے علاوہ دین کے اصول یا احکام تجویز نہیں کرتی”۔ اگر آپ اس کے بجائے “قرآن کے خلاف” لفظ استعمال کرتے تو نہ صرف میں آپ سے اتفاق کرتا بلکہ تمام تقہاء و محدثین اس سے متفق ہوتے ہیں۔ لیکن آپ “قرآن کے علاوہ” کا لفظ استعمال کررہے ہیں جس کے معنی قرآن سے زائد ہی کے ہوسکتے ہیں اور ظاہر ہے کہ “زائد” ہونے اور “خلاف” ہونے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ سنت اگر قرآن سے زائد کوئی چیز نہ بتائے تو آپ خود سوچیں کہ اس کی ضرورت کیا ہے؟ اس کی ضرورت تو اسی لیے ہے کہ وہ قرآن کا وہ منشا واضح کرتی ہے جو خود قرآن میں صراحتاً مذکور نہیں ہوتا۔ مثلاً قرآن “اقامت صلوٰۃ کا حکم دے کر رہ جاتا ہے۔ یہ بات قرآن نہیں بتاتا بلکہ سنت بتاتی ہے کہ صلوٰۃ سے کیا مراد ہے اور اس کی اقامت کا مطلب کیا ہے۔ اس غرض کے لیے سنت ہی نے مساجد کی تعمیر، پنج وقتہ اذان اور نماز باجماعت کا طریقہ، نماز کے اوقات، نماز ی ہئیت، اس کی کعتیں اور جمعہ و عیدین کی مخصوص نمازیں اور ان کی عملی صورت اور دوسری بہت سی تفصیلات ہم کوبتائی ہیں۔ یہ سب کچھ قرآن سے زائد ہے۔ مگر اس کے خلاف نہیں ہے۔ اسی طرح تمام شعبہ ہائے زندگی میں سنت نے قرآن کے منشا کے مطابق انسانی سیرت و کردار اور اسلامی تہذیب و تمدن و ریاست کی جو صورت گری کی ہے وہ قرآن سے اس قدر زائدہے کہ قرآنی احکام کے دائرے سے سنت کی ہدایات کا دائرہ بدرجہا زیادہ وسیع ہوگیا ہے۔ لیکن اس میں کوئی چیز قرآن کے خلاف نہیں ہے، اور جو چیز بھی واقعی قرآن کے خلاف ہو، اسے فقہاء و محدثین میں سے کوئی بھی سنتِ رسول الہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں مانتا۔
کیا سنت قرآن کے کسی حکم کو منسوخ کرسکتی ہے؟
اسی سلسلے میں آپ نے ایک اور نتیجہ یہ نکالا ہے کہ “نہ سنت قرآن کے کسی حکم کو منسوخ کرسکتی ہے”۔ یہ بات آپ نے ایک غلط فہمی کے تحت لکھی ہے جسے صاف کرنا ضروری ہے۔ فقہائے حنفیہ جس چیز کو “نسخ الکتاب بالسنۃ” کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں اس سے مراد دراصل قرآن کے کسی حکم عام کو مخصوص کرنا اور اس کے کسی ایسے مدعا کو بیان کرنا ہے جو اس کے الفظ سے ظاہر نہ ہوتا ہو۔ مثلاً سورۂ بقرہ میں والدین اور اقربین کے لیے وصیت کا حکم دیا گیا تھا (آیت 180)۔ پھر سورۂ نساء میں تقسیمِ میراث کے احکام نازل ہوئے اور فرمایا گیا کہ یہ حصے متوفی کی وصیت پوری کرنے کے بعد نکالے جائیں (آیات12-11) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت یہ فرمادی کہ لاوصیۃ لوارث، یعنی اب وصیت کے ذریعے سے کسی وارث کے حصے میں کمی بیشی نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے وارثوں کے حصے خود مقرر فرمادئے ہیں۔ ان حصوں میں اگر کوئی شخص وصیت کے ذریعہ سے کمی بیشی کرے گا تو قرآن کی خلاف ورزی کرگے گا۔ اس طرح اس سنت نے وصیت کی اجازت عام کو، جو بظاہر قرآن کی ان آیتوں سے مترشح ہوتی تھی، غیر وارث مستحقین کے لیے خاص کردیا اور یہ بتادیا کہ شرعاً جو حصے وارثوں کے لیے مقرر کردیئے گئے ہیں ان میں کمی بیشی کرنے کے لیے وصیت کی اس اجازت عام سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ اسی طح قرآن کی آیت وضو (المائدہ2) میں پاؤں دھونے کا حکم دیا گیا تھا جس میں کسی حالت کی تخصیص نہ تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسح علی الخفین پر عمل کرکے اور اس کی اجازت دے کر واضح فرمادیا کہ یہ حکم اس ھالت کے لیے ہے جبکہ آدمی موزے پہنے ہوئے نہ ہو، اور موزے پہننے کی صورت میں پاؤں دھونے کے بجائے مسح کرنے سے حکم کا منشا پورا ہوجاتا ہے۔ اس چیز کو خواہ نسخ کہا جائے، یا تخصیص، یا بیان۔ اس سے مراد یہی ہے، اور یہ اپنی جگہ بالکل صحیح اور معقول چیز ہے۔ اس پر اعتراض کرنے کا آخر ان لوگوں کا کیا حق پہنچتا ہے جو غیر نبی ہونے کے باوجود قرآن کے بعض صریح احکام کو محض اپنے ذاتی نظریات کی بنیاد پر “عبوری دور کے احکام” قرار دیتےہیں، جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ عبوری دور جب ان کی رائے مبارک میں گزر جائے گا تو قرآن کے وہ احکام منسوخ ہوجائیں گے۔
نکتہ دوم
دوسرا نکتہ جو آپ نے میرے ان مضامین سے اخذ کیا ہے وہ یہ ہے : “آپ نے فرمایا ہے کہ کوئی کتاب ایسی نہیں کہ جس میں سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہ تمام و کمال درج ہو اور جس کا متن قرآن کے متن کی طرح تمام مسلمانوں کے نزدیک متفق علیہ ہو”۔
یہ خلاصہ جو آپ نے میرے مضامین سے نکالا ہے، اس کے متعلق میں بس اتنا ہی عرض کروں گا کہ اپنے خیالات میں مگن رہنے والے اور معقول بات سمجھنے سے انکار کرنے والے لوگ دوسروں کے کلام سے ایسے ہی خلاصے نکالا کرتے ہیں۔ ابھی ابھی آپ کے پہلے عنایت نامہ پر بحث کرتے ہوئے سوال نمبر 2 پر جو کچھ میں لکھ چکا ہوں اسے پلٹ کر پھر پڑھ لیجیے۔ آپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ میں نے کیا کہا ہے اور آپ نے اس کا کیا خلاصہ نکالا ہے۔
نکتہ سوم
آپ کا اخذ کردہ تیسرا نکتہ یہ ہے:
“آپ نے فرمایا ہے کہ احادیث کے موجودہ مجموعوں سے صحیح احادیث کو الگ کیا جائے گا۔ اس کے لیے روایات جو جانچنے کے جو اصول پہلے سے مقرر ہیں وہ حرفِ آخر نہیں۔ اصول روایات کے علاوہ درایت سے بھی کام لیا جائے گا اور درایت انہی لوگوں کی معتبر ہوگی جن میں علوم اسلامی کے مطالعہ سے ایک تجربہ کار جوہری کی بصیرت پیدا ہوچکی ہو۔
احادیث کو پرکھنے میں روایت و درایت کا استعمال
یہ جن عبارتوں کا عجیب اور انتہائی مسخ شدہ خلاصہ آپ نے نکالا ہے انہیں میں لفظ بہ لفظ یہاں نقل کیے دیتا ہوں تاکہ جو کچھ میں نے کہا ہے، وہی اصل صورت میں سامنے آجائے اور اس کے من مانے خلاصوں کی حاجت نہ رہے۔
“فن حدیث اسی تنقید (یعنی تاریخی تنقید) ہی کا دوسرا نام ہے۔ پہلی صدی سے آج تک اس فن میں یہی تنقید ہوتی رہی ہے اور کوئی فقیہ یا محدث اس بات کا قائل نہیں رہا ہے کہ عبادات ہوں یا معاملات، کسی مسئلے کے متعلق بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت دی جانے والی کسی روایت کو تاریخی تنقید کے بغیر حجت کے طورپر تسلیم کرلیا جائے۔ یہ فن حقیقت میں اس تنقید کا بہترین نمونہ ہے اور جدید زمانے کی بہتر سے بہتر تاریخی تنقید کو بھی مشکل ہی سے اس پر اضافہ و ترقی کہا جاسکتا ہے۔ بلکہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ محدثین کے اصول تنقید اپنے اندر ایسی نزاکتیں اور باریکیاں رکھتے ہوں جن تک موجودہ دور کے ناقدین تاریخ کا ذہن بھی ابھی تک نہیں پہنچا ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ بڑھ کر میں بلا خوف تردید یہ کہوں گا کہ دنیا میں صرف محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت اور ان کے دور کی تاریخ کا ریکارڈ ہی ایسا ہے جو اس کڑی تنقید کے معیاروں پر کسا جانا برداشت کرسکتا تھا جو محدثین نے اختیار کی ہے۔ ورنہ آج تک دنیا کے کسی انسان اور کسی دور کی تارخ بھی ایسے ذرائع سے محفوظ نہیں رہی ہے کہ ان سخت معیاروں کے آگے ٹھہر سکے اور اس کو قابل تسلیم تاریخی ریکارڈ مانا جاسکے۔ تاہم میں یہ کہوں گا کہ مزید اصلاح و ترقی کا دروازہ بند نہیں ہے۔ کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ روایات کو پرکھنے اور جانچنے کے جو اصول محدثین نے اختیار کیے ہیں وہ حرف آخر ہیں۔ آج اگر کوئی ان کے اصولوں سے اچھی طرح واقفیت پیدا کرنے کے بعد ان میں کسی خامی یا کمی کی نشاندہی کرے اور زیادہ اطمینان بخش تنقید کے لیے کچھ اصول معقول دلائل کے ساتھ سامنے لائے تو یقیناً اس کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ ہم میں سے آخر کون نہ چاہے گا کہ کسی چیز کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قرار دینے سے پہلے اس کے نستِ ثابتہ ہونے کا یقین حاصل کرلیا جائے اور کوئی کچی پکی بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ ہونے پائے۔
احادیث کے پرکھنے میں روایت کے ساتھ درایت کا استعمال بھی، جس کا ذکر فاضل مکتوب نگار (جسٹس ایس اے رحمٰن) نے کیا ہے، ایک متفق علیہ چیز ہے۔ البتہ اس سلسلے میں جو بات پیشِ نظر رہنی چاہیئے، اور مجھے امید ہے کہ فاضل مکتوب نگار کو بھی اس سے اختلاف نہ ہوگا، وہ یہ ہے کہ درایت صرف انہی لوگوں کی معتبر ہوسکتی ہے جو قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کے مطالعہ و تحقیق میں اپنی عمر کا کافی حصہ صرف کرچکے ہوں، جن میں ایک مدت کی ممارست نے ایک تجربہ کار جوہری کی سی بصیرت پیدا کردی ہو، اور خاص طور پر جن کی عقل اسلامی نظام فکرو عمل کے حدود اربعہ سے باہر کے نظریات، اصول اور اقدار لے کر اسلامی روایات کو ان کے معیار پر پرکھنے کا رجحان نہ رکھتی ہو۔ بلاشبہ عقل کے استعمال پر ہم کوئی پابندی نہیں لگا سکتے، نہ کسی کہنے والے کی زبان پکڑ سکتے ہیں۔ لیکن بہر حال یہ امر یقینی ہے کہ اسلامی علوم سے کورے لوگ اناڑی پن کے ساتھ کسی حدیث کو خوش آئیند پاکر قبول اور کسی کو اپنی مرضی کے خلاف پاکر رد کرنے لگیں، یا اسلام، سے مختلف کسی دوسرے نظام فکرو عمل میں پرورش پائے ہوئے حضرات یکایک اٹھ کر اجنبی معیاروں کے لحاظ سے احادیث کے ردو قبول کا کاروبار پھیلادیں، تو مسلم ملت میں نہ ان کی درایت مقبول ہوسکتی ہے اور نہ اس ملت کا اجتماعی ضمیر ایسے بے تکے عقلی فیصلوں پر کبھی مطمئن ہو سکتا ہے۔ اسلامی حدود میں تو اسلام ہی کی تربیت پائی ہوئی عقل اور اسلام کے مزاج سے ہم آہنگی رکھنے والی عقل ہی ٹھیک کام کرسکتی ہے۔ اجنبی رنگ و مزاج کی عقل، یا غیر تربیت یافتہ عقل بجز اس کے کہ انتشار پھیلائے، کوئی تعمیری خدمت اس دائرے میں انجام نہیں دے سکتی۔ (ترجمان القرآن، دسمبر 85ء، صفحہ 166-164)
ان عبارات سے آپ خود ہی اپنے نکالے ہوئے خلاصے کا تقابل فرمالیں۔ آپ پر واضح ہوجائے گا کہ بات سمجھنے کی خواہش کا کتنا اچھا نمونہ آپ نے پیش فرمایا ہے۔
نکتہ چہارم
چوتھا نکتہ جو آپ نے خلاصے کے طور پر میرے مضامین سے نکالا ہے، یہ ہے: “احادیث کے اس طرح پرکھنے کے بعد بھی یہ نہیں کہا جاسکے گا کہ یہ اسی طرح کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جس طرح قرآن کی آیات اللہ کا کلام”۔
یہ ایک اور بے نظیر نمونہ ہے جو مناظرہ بازی کے بجائے بات سمجھنے کی خواہش کا آپ نے پیش فرمایا ہے۔ جس عبارت کا یہ خلاصہ آپ نے نکالا ہے، اس کے اصل الفاظ یہ ہیں:
“قرآن کے کسی حکم کی مختلف ممکن تعبیرات میں سے جس شخص یا ادارے یا عدالت نے تفسیر و تعبیر کے معروف علمی طریقے استعمال کرنے کے بعد بالاخر جس تعبیر کو حکم کا اصل منشا قرار دیا ہو، اس کے علم اور دائرۂ کار کی حد تک وہی حکمِ خدا ہے، اگر چہ یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ حقیقت میں بھی وہی حکمِ خدا ہے۔ بالکل اسی طرح سنت کی تحقیق کے علمی ذرائع استعمال کرکے کسی مسئلے میں جو سنت بھی ایک فقیہ، یا لیجسیلچر،یا عدالت کے نزدیک ثابت ہوجائے، وہی اس کے لئے حکم رسول ہے، اگرچہ قطعی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حقیقت میں رسول کا حکم وہی ہے”۔
یہ عبارت اگرچہ میں پہلے نقل کرچکا ہوں، لیکن تکرار کی قباحت کے باوجود میں نے اسے پھر نقل کیا ہے تاکہ آپ خود بھی اپنے جوہر نکالنے کے فن کی داد دے سکیں اور اس اخلاقی جسارت کی داد میں اپنی طرف سے آپ کو دیتا ہوں کہ میری عبارت کو میرے ہی سامنے توڑ مروڑ کر پیش کرکے آپ نے واقعی کمال کردکھایا ہے۔ میں شخصی طور پر آپ کی بڑی قدر کرتا ہوں، اور ایسی باتوں کی آپ جیسے معقول انسان سے توقع نہ رکھتا تھا، مگر شاید یہ بزم طلوع اسلام کا فیض ہے کہ اس نے آپ کو بھی یہاں تک پہنچا دیا۔
اشاعت کا مطالبہ
آخری بات مجھے یہ عرض کرنی ہے کہ اپنے پہلے عنایت نامے کو آپ نے اس فقرے پر ختم فرمایا تھا:
“چونکہ آئین کے سلسلے میں عام لوگوں کے ذہن میں ایک پریشانی سی پائی جاتی ہے اس لیے اگر عوام کی آگاہی کے لیے آپ کے موصولہ جواب کو شائع کردیا جائے تو مجھے امید ہے کہ آپ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا”۔
میں اس کے متعلق یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اعتراض ہونا تو درکنار میری دلی خواہش یہ ہے کہ آپ اس مراسلت کو جوں کا توں شائع فرمادیں۔ میں خود اسے “ترجمان القرآن” میں شائع کررہا ہوں۔ آپ بھی اس کو “طلوع اسلام” کی کسی قریبی اشاعت میں درج کرنے کا انتظام فرمائیں تاکہ دونوں طرف کے عوام اس سے آگاہ ہوکر پریشانی سے نجات پاسکیں۔
خاکسار۔ ابوالاعلیٰ
(ترجمان القرآن۔ جولائی 1960 ء)
کر چکے تھے، اسے بدل دینے کا وہ اپنے آپ کو مجاز نہ سمجھتے تھے۔ صحابہ کرام نے جب ان خطرات کی طرف توجہ دلائی جن کا طوفان عرب میں اٹھتا نظر آ رہا تھا اور اس حالت میں شام کی طرف فوج بھیج دینے کو نامناسب قرار دیا، تو حضرت ابوبکرؓ کا جواب یہ تھا کہ
لو خطفنی الکلاب و الذئاب لم ارد قضاء بہ رسول اللہ
“اگر کتے اور بھیڑئیے بھی مجھے اچک لے جائیں تو میں اس فیصلہ کو نہ بدلوں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کر دیا تھا”۔ حضرت عمرؓ نے خواہش ظاہر کی کہ کَم از کم اسامہؓ ہی کو اس لشکر کی قیادت سے ہٹا دیں کیونکہ بڑے بڑے صحابہ اس نوجوان لڑکے کی ماتحتی میں رہنے سے خوش نہیں ہیں۔ تو حضرت ابوبکرؓ نے ان کی داڑھی پکڑ کر فرمایا:
ثکلتک امک و عدمتک یاابن الخطاب، استعملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و تامرنی ان انزعہ
“خطاب کے بیٹے، تیری ماں تجھے روئے اور تجھے کھو دے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مقرر کیا اور تو مجھ سے کہتا ہے کہ میں اسے ہٹا دوں”۔ اس موقع پر لشکر کو روانہ کرتے ہوئے جو تقریر انہوں نے کی اس میں فرمایا:
انما انا متبع لست بمبتدع
“میں تو پیروی کرنے والا ہوں۔ نیا راستہ نکالنے والا نہیں ہوں”۔
پھر کس سے یہ واقعہ پوشیدہ ہے کہ حضرت فاطمہؓ اور حضرت عباس کے مطالبہ میراث کو ابوبکر صدیقؓ نے حدیث رسول اللہ ہی کی بنیاد پر قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔ اور اس “قصور” پر وہ آج تک گالیاں کھا رہے ہیں۔ مانعین زکٰوۃ کے خلاف جب وہ جہاد کا فیصلہ کر رہے تھے تو حضرت عمرؓ جیسے شخص کو اس کی صحت میں اس لیے تامل تھا کہ جو لوگ کلمہ لا الٰہ الا اللہ کے قائل ہیں ان کے خلاف تلوار کیسے اٹھائی جا سکتی ہے۔ مگر اس کا جو جواب انہوں نے دیا، وہ یہ تھا کہ
واللہ لو منعونی عقالا کانوا یودونہ الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لقاتلھم علی منعہ
“خدا کی قسم، اگر وہ اونٹ باندھنے کی ایک رسی بھی اس زکٰوۃ میں سے روکیں گے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دیتے تھے تو میں اس پر ان سے لڑوں گا”۔ یہ قول اور یہ عمل تھا اس شخص کا جس نے حضورؐ کے بعد سب سے پہلے زمام کار سنبھالی تھی، اور آپ کہتے ہیں کہ خلفائے راشدین اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے بدلنے کا مجاز سمجھتے تھے۔
حضرت ابوبکرؓ کے بعد حضرت عمر کا مسلک اس معاملے میں جو کچھ تھا، اسے وہ خود قاضی شریح کے نام اپنے خط میں اس طرح بیان فرماتے ہیں:
“اگر تم کوئی حکم کتاب اللہ میں پاؤ تو اس کے مطابق فیصلہ کر دو اور اس کی موجودگی میں کسی دوسری چیز کی طرف توجہ نہ کرو اور اگر کوئی ایسا معاملہ آئے جس کا حکم کتاب اللہ میں نہ ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت میں جو حکم ملے اس پر فیصلہ کرو۔ اور اگر معاملہ ایسا ہو جس کا حکم نہ کتاب اللہ میں ہو اور نہ سنت رسول اللہ میں تو اس کا فیصلہ اس قانون کے مطابق کرو جس پر اجماع ہو چکا ہو لیکن اگر کسی معاملہ میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ دونوں خاموش ہوں اور تم سے پہلے اس کے متعلق کوئی اجماعی فیصلہ بھی نہ ہوا ہو تو تمہیں اختیار ہے کہ یا تو پیش قدمی کر کے اپنی اجتہادی رائے سے فیصلہ کر دو، یا پھر ٹھہر کر انتظار کرو اور میرے نزدیک تمہارا انتظار کرنا زیادہ بہتر ہے”۔ (اعلام المعوقین، جلد۱، ص ۶۱۔ ۶۲)
یہ حضرت عمرؓ کا اپنا لکھا ہوا سرکاری ہدایت نامہ ہے، جو انہوں نے خلیفہ وقت کی حیثیت سے ضابطہ عدالت کے متعلق ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو بھیجا تھا۔ اس کے بعد کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ ان کے مسلک کی کوئی دوسری ترجمانی کرے۔
حضرت عمرؓ کے بعد تیسرے خلیفہ حضرت عثمانؓ ہیں۔ بیعت کے بعد اولین خطبہ جو انہوں نے دیا، اس میں علی الاعلان تمام مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
“خبردار رہو، میں پیروی کرنے والا ہوں، نئی راہ نکالنے والا نہیں ہوں۔ میرے اوپر کتاب اللہ اور سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پابندی کے بعد تمہارے تین حق ہیں جن کی میں ذمہ داری لیتا ہوں۔ ایک یہ کہ میرے پیش رو خلیفہ کے زمانے میں تمہارے اتفاق و اجتماع سے جو فیصلے اور طریقے طے ہو چکے ہیں، ان کی پیروی کروں گا۔ دوسرے یہ کہ جو امور اب اہل خیر کے اجتماع و اتفاق سے طے ہوں گے ان پر عمل درآمد کروں گا۔ تیسرے یہ کہ تمہارے اوپر دست درازی کرنے سے باز رہوں گا۔ جب تک تم ازروئے قانون مواخذہ کے مستوجب نہ ہو جاؤ”۔ (تاریخ طبری، جلد ۳، ص ۴۴۶)
چوتھے خلیفہ حضرت علیؓ ہیں۔ انہوں نے خلیفہ ہونے کے بعد اہل مصر سے بیعت لینے کے لیے اپنے گورنر حضرت قیس بن سعدہ بن عبادہ کے ہاتھ جو سرکاری فرمان بھیجا تھا اس میں وہ فرماتے ہیں:
“خبردار رہو، ہمارے اوپر تمہارا یہ حق ہے کہ ہم اللہ عز و جل کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کے مطابق عمل کریں اور تم پر وہ حق قائم کریں جو کتاب و سنت کی رو سے حق ہو، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو جاری کریں اور تمہاری بے خبری میں بھی تمہارے ساتھ خیر خواہی کرتے رہیں”۔ (تاریخ طبری، جلد۳، ص ۵۵۰)
یہ چاروں خلفائے راشدین کے اپنے بیانات ہیں۔ آپ کن “حضرات خلفاء کرام” کا ذکر فرما رہے ہیں جو اپنے آپ کو سنتِ رسولؐ اللہ کی پابندی سے آزاد سمجھتے تھے؟ اور ان کا یہ مسلک آپ کو کن ذرائع سے معلوم ہوا ہے؟
آپ کا یہ خیال بھی محض ایک دعوٰی بلا ثبوت ہے کہ خلفائے راشدین قرآن مجید کے احکام کو تو قطعی واجب الاطاعت فرماتے تھے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلوں میں جن کو وہ باقی رکھنا مناسب سمجھتے تھے، انہیں باقی رکھتے تھے اور جنہیں بدلنے کی ضرورت سمجھتے تھے انہیں بدل کر باہمی مشاورت سے نئے فیصلے کر لیتے تھے۔ آپ اس کی کوئی نظیر پیش فرمائیں کہ خلافت راشدہ کے پورے دور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فیصلہ بدلا گیا ہو، یا کسی خلیفہ یا صحابی نے یہ خیال ظاہر کیا ہو کہ ہم حضورؐ کے فیصلے حسب ضرورت بدل لینے کے مجاز ہیں۔
۱۰۔ کیا حضور پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی؟
اب صرف آپ کا آخری نکتہ باقی ہے جسے آپ ان الفاظ میں پیش فرماتے ہیں:
“اگر فرض کر لیا جائے، جیسا کہ آپ فرماتے ہیں کہ حضورؐ جو کچھ کرتے تھے، وحی کی رو سے کرتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ خدا کو اپنی طرف سے بھیجی ہوئی ایک قسم کی وحی پر (نعوذ باللہ) تسلی نہ ہوئی، چنانچہ دوسری قسم کی وحی کا نزول شروع ہو گیا۔ یہ دورنگی آخر کیوں؟ پہلے آنے والے نبیوں پر جب وحی نازل ہوئی تو اس میں نزول قرآن کی طرف اشارہ تھا۔ تو کیا اس اللہ کے لیے جو ہر چیز پر قادر ہے، یہ بڑا مشکل تھا کہ دوسری قسم کی وحی، جس کا آپ ذکر کرتے ہیں، اس کا قرآن میں اشارہ کر دیتا۔ مجھے تو قرآن میں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی۔ اگر آپ کسی آیت کی طرف اشارہ فرما سکیں تو مشکور ہوں گا”۔
یہ تسلی کی بات بھی خوب ہے۔ گویا آپ کی رائے میں اللہ میاں بندوں کی ہدایت کے لیے نہیں بلکہ اپنی تسلی کے وحی نازل فرماتے تھے، اور ان کی تسلی کے لیے بس ایک قسم کی وحی کافی ہونی چاہیے تھی۔
آپ تو “دو رنگی وحی” پر ہی حیران ہیں، مگر آنکھیں کھول کر آپ نے قرآن پڑھا ہوتا تو آپ کو معلوم ہوتا کہ یہ کتاب “سہ رنگی” کا ذکر کرتی ہے جن میں سے صرف ایک “رنگ” کی وحی قرآن میں جمع کی گئی ہے۔
“کسی بشر کے لیے یہ نہیں ہے کہ اللہ اس سے گفتگو کرے، مگر وحی کے طریقہ پر، یا پردے کے پیچھے سے، یا اس طرح کہ ایک پیغام بر بھیجے، اور وہ اللہ کے اذن سے وحی کرے جو کچھ اللہ چاہتا ہو۔ وہ برتر اور حکیم ہے”
یہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی بشر پر احکام و ہدایات نازل ہونے کی تین صورتیں بتائی گئی ہیں۔ ایک براہِ راست وحی (یعنی القاء و الہام) دوسرے پردے کے پیچھے سے کلام، تیسرے اللہ کے پیغام بر (فرشتے) کے ذریعہ سے وحی۔ قرآن مجید میں جو وحیاں جمع کی گئی ہیں وہ ان میں سے صرف تیسری قسم کی ہیں۔ اس کی تصریح اللہ تعالیٰ نے خود ہی فرما دی ہے۔
“اے نبیؐ) کہو جو کوئی دشمن ہو جبریل کا اس بنا پر کہ اس نے یہ قرآن نازل کیا ہے تیرے قلب پر اللہ کے اذن سے، تصدیق کرتا ہوا ان کتابوں کی جو اس کے آگے آئی ہوئی ہیں اور ہدایت و بشارت دیتا ہوا اہلِ ایمان کو۔ ۔ ۔ تو اللہ دشمن ہے ایسے کافروں کا”
“اور یہ رب العالمین کی نازل کردہ کتاب ہے۔ اسے لے کر روح الامین اترا ہے۔ تیرے قلب پر تا کہ تو متنبہ کرنے والوں میں سے ہو”
اس سے معلوم ہو گیا کہ قرآن صرف ایک قسم کی وحیوں پر مشتمل ہے۔ رسول کو ہدایات ملنے کی باقی دو صورتیں جن کا ذکر سورۃ الشورٰی والی آیت میں کیا گیا ہے وہ ان کے علاوہ ہیں۔ اب خود قرآن ہی ہمیں بتاتا ہے کہ ان صورتوں سے بھی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہدایات ملتی تھیں۔
(۱) جیسا کہ میں آپ کے چوتھے نکتے پر بحث کرتے ہوئے بتا چکا ہوں، سورہ بقرۃ کی آیات ۱۴۳۔۱۴۴ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسجد حرام کے قبلہ بنائے جانے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان کسی اور قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تحویل قبلہ کا حکم دیتے ہوئے اس بات کی توثیق فرمائی کہ وہ پہلا قبلہ جس کی طرف رخ کیا جاتا تھا، وہ بھی ہمارا ہی مقرر کیا ہوا تھا لیکن قرآن میں وہ آیت کہیں نہیں ملتی جس میں اس قبلے کی طرف رخ کرنے کا ابتدائی حکم ارشاد فرمایا گیا ہو۔ سوال یہ ہے کہ اگر حضورؐ پر قرآن کے علاوہ اور کوئی وحی نہیں آتی تھی تو وہ حکم حضورؐ کو کس ذریعہ سے ملا؟ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ حضورؐ کو ایسے احکام بھی ملتے تھے جو قرآن میں درج نہیں ہیں؟
(۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں خواب دیکھتے ہیں کہ آپؐ مکہ معظمہ میں داخل ہوئے ہیں اور بیت اللہ کا طواف کیا ہے۔ آپ اس کی خبر صحابہ کرام کو دیتے ہیں اور ۱۴۰۰ صحابیوں کو لے کر عمرہ ادا کرنے کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔ کفار مکہ آپ کو حدیبیہ کے مقام پر روک لیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں صلح حدیبیہ واقع ہوتی ہے۔ بعض صحابی اس پر خلجان میں پڑ جاتے ہیں اور حضرت عمرؓ ان کی ترجمانی کرتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ یا رسول اللہ، کیا آپ نے ہمیں خبر نہ دی تھی کہ ہم مکہ میں داخل ہوں گے اور طواف کریں گے؟ آپؐ نے فرمایا “کیا میں نے یہ کہا تھا کہ اسی سفر میں ایسا ہو گا؟” اس پر اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
“اللہ نے اپنے رسول کو یقینًا سچا خواب دکھایا تھا۔ تم ضرور مسجد حرام میں ان شاء اللہ داخل ہو گے۔ امن کے ساتھ سر مونڈتے ہوئے اور بال تراشتے ہوئے، بغیر اس کے کہ تمہیں کسی قسم کا خوف ہو۔ اللہ کو علم تھا اس بات کا جسے تم نہ جانتے تھے۔ اس لیے اس سے پہلے اس نے یہ قریب کی فتح (یعنی صلح حدیبیہ) عطا کر دی”
اس سے معلوم ہوا کہ حضورؐ کو خواب کے ذریعہ سے مکہ میں داخل ہونے کا یہ طریقہ بتایا گیا تھا کہ آپ اپنے ساتھیوں کو لے کر مکہ کی طرف جائیں، کفار روکیں گے، آخرکار صلح ہو گی جس کے ذریعہ سے دوسرے سال عمرہ کا موقع بھی ملے گا اور آئندہ کی فتوحات کا راستہ بھی کھل جائے گا۔ کیا یہ قرآن کے علاوہ دوسرے طریقوں سے ہدایات ملنے کا کھلا ثبوت نہیں ہے؟
(۳) نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی بیویوں میں سے ایک بیوی کو راز میں ایک بات بتاتے ہیں۔ وہ اس کا ذکر دوسروں سے کر دیتی ہیں۔ حضورؐ اس پر باز پرس کرتے ہیں تو وہ پوچھتی ہیں کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ میں نے یہ بات دوسروں سے کہہ دی ہے۔ حضورؐ جواب دیتے ہیں کہ مجھے علیم و خبیر نے خبر دی ہے۔
“اور جب کہ نبیؐ نے اپنی ایک بیوی سے راز میں ایک بات کہی اور اس بیوی نے اس کی (دوسروں کو) خبر دے دی، اور اللہ نے نبی کو اس پر مطلع کر دیا تو نبی نے اس بیوی کو اس کے قصور کا ایک حصہ تو جتا دیا اور دوسرے حصہ سے درگزر کیا۔ پس جب نبی نے اس بیوی کو اس کا قصور جتا دیا تو اس نے پوچھا” آپ کو کس نے اس کی خبر دی؟” نبیؐ نے کہا “مجھے علیم و خبیر خدا نے بتایا”۔”
فرمائیے کہ قرآن میں وہ آیت کہاں ہے جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع دی تھی کہ تمہاری بیوی نے تمہاری راز کی بات دوسروں سے کہہ دی ہے؟ اگر نہیں ہے تو ثابت ہوا یا نہیں کہ اللہ تعالیٰ قرآن کے علاوہ بھی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس پیغامات بھیجتا تھا؟
(۴) نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے منہ بولے بیٹے زید بن حارثہ اپنی بیوی کو طلاق دیتے ہیں اور اس کے بعد حضورؐ ان کی مطلقہ بیوی سے نکاح کر لیتے ہیں اس پر منافقین اور مخالفین حضورؐ کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک شدید طوفان کھڑا کرتے ہیں اور اعتراضات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔ ان اعتراضات کا جواب اللہ تعالیٰ سورۃ احزاب کے پورے ایک رکوع میں دیتا ہے اور اس سلسلے میں لوگوں کو بتاتا ہے کہ ہمارے نبی نے یہ نکاح خود نہیں کیا ہے بلکہ ہمارے حکم سے کیا ہے۔
“پھر جب زید کا اس سے جی بھر گیا تو ہم نے اس (خاتون) کا نکاح تم سے کر دیا تاکہ اہل ایمان کے لیے اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہ رہے جبکہ وہ ان سے جی بھر چکے ہوں (یعنی انہیں طلاق دے چکے ہوں)”
یہ ّیت تو گزرے ہوئے واقعہ کا بیان ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس واقعہ سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو جو حکم دیا گیا تھا کہ تم زید کی مطلقہ بیوی سے نکاح کر لو وہ قرآن میں کس جگہ ہے؟
(۵) نبی صلی اللہ علیہ و سلم بنی نضیر کی مسلسل بد عہدیوں سے تنگ آ کر مدینہ سے متصل ان کے بستیوں پر چڑھائی کر دیتے ہیں اور دورانِ محاصرہ میں اسلامی فوج گردوپیش کے باغات کے بہت سے درخت کاٹ ڈالتی ہے تاکہ حملہ کرنے کے لیے راستہ صاف ہو۔ اس پر مخالفین شور مچاتے ہیں کہ باغوں کو اجاڑ کر اور ہرے بھرے ثمردار درختوں کو کاٹ کر مسلمانوں نے فساد فی الارض برپا کیا ہے۔ جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
“کھجوروں کے درخت تم نے کاٹے اور جو کھڑے رہنے دیئے، یہ دونوں کام اللہ کی اجازت سے تھے”
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ اجازت قرآن مجید کی کس آیت میں نازل ہوئی تھی؟
(۶) جنگِ بدر کے خاتمے پر جب مال غنیمت کی تقسیم کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ اس وقت سورۃ انفال نازل ہوتی ہے اور پوری جنگ پر تبصرہ کیا جاتا ہے۔ اس تبصرے کا آغاز اللہ تعالیٰ اس وقت سے کرتا ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے لیے گھر سے نکلے تھے، اور اس سلسلے میں مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے:
“اور جبکہ اللہ تعالیٰ تم سے وعدہ فرما رہا تھا کہ دو گروہوں (یعنی تجارتی قافلے اور قریش کے لشکر ) میں سے ایک تمہارے ہاتھ آئے گا، اور تم چاہتے تھے کہ بے زور گروہ (یعنی تجارتی قافلہ) تمہیں ملے حالانکہ اللہ چاہتا تھا کہ اپنے کلمات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی کمر توڑ دے”
اب کیا آپ پورے قرآن میں کسی آیت کی نشاندہی فرما سکتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ نازل ہوا ہو کہ اے لوگو، جو مدینہ سے بدر کی طرف جا رہے ہو، ہم دو گروہوں میں سے ایک پر تمہیں قابو عطا فرما دیں گے؟
(۷) اسی جنگ بدر پر تبصرے کے سلسلے میں آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے:
“جبکہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے، تو اس نے تمہاری فریاد کے جواب میں فرمایا میں تمہاری مدد کے لیے لگاتار ایک ہزار فرشتے بھیجنے والا ہوں”
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کی فریاد کا یہ جواب قرآن مجید کی کس آیت میں نازل ہوا تھا؟
آپ صرف ایک مثال چاہتے تھے۔ میں نے آپ کے سامنے قرآن مجید سے سات مثالیں پیش کر دی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضورؐ کے پاس قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی۔ اس کے بعد آگے کسی بحث کا سلسلہ چلنے سے پہلے میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ حق کے آگے جھکنے کے لیے تیار بھی ہیں یا نہیں۔
خاکسار۔ ۔ ۔ ابوالاعلیٰ
(ترجمان القرآن، اکتوبر و نومبر ۱۹۶۰)
سنت کے متعلق چند مزید سوالات
(صفحات گذشتہ میں ڈاکٹر عبد الودود صاحب اور مصنف کی جو مراسلت ناظرین کے سامنے آ چکی ہے، اس کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کا ایک اور خط وصول ہوا جسے مصنف کے جواب سمیت ذیل میں درج کیا جا رہا ہے)۔
ڈاکٹر صاحب کا خط
محترم مولانا السلام علیکم!
میرے خط مورخہ ۱۷ اگست کا جواب آپ کی طرف سے ترجمان القرآن ماہ اکتوبر و نومبر کی اشاعتوں میں آ چکا ہے۔ اکتوبر کے ترجمان میں شائع شدہ جواب کا بقیہ حصہ بھی بذریعہ ڈاک موصول ہو گیا تھا۔ اس جواب کے آخر میں آپ نے فرمایا ہے کہ آگے کسی بحث کا سلسلہ چلنے سے پہلے آپ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آیا میں حق کے آگے جھکنے کےلیے تیار بھی ہوں یا نہیں۔
محترم! ایک سچے مسلمان کی طرح میں ہر وقت حق کے آگے جھکنے پر تیار ہوں۔لیکن جہاں حق موجود ہی نہ ہو بلکہ کسی بت کے آگے جھکنا مقصود ہو تو کم از کم میں ایسا نہیں کر سکتا۔ کیونکہ شخصیت پرستی میرا مسلک نہیں۔ میں بارہا آپ کو تکلیف اس لیے دیتا ہوں کہ مسئلہ زیر بحث صاف ہو جائے اور ایک ہی ملک میں بسنے والاے اور ایک ہی منزل مقصود کی طرف بڑھنے والے الگ الگ راستے اختیار نہ کریں۔ اور آپ ہیں کہ لفاظی اور جذبات کا مرکب پیش کرنے میں سارا زورِ قلم اس لیے صرف کر رہے ہیں کہ میں جھک جاؤں۔ آپ نے اتنا طویل جواب لکھنے میں یقینًا بڑی زحمت اٹھائی۔ لیکن میری بد نصیبی ملاحظہ فرمائیے کہ اس سےا ور الجھنیں پیدا ہو گئیں۔
آپ نے یہ درست فرمایا کہ میرے لیے قرآن کا مطالعہ میرے بہت سے مشاغل میں سے ایک ہے اور آپ نے اپنی عمر اس کے ایک ایک لفظ پر غور کرنے اور اس کے مضمرات کو سمجھنے میں صرف کی ہے لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ آپ کی یہ عمر بھر کی محبت اپنی ذات کے لیے ہو تو ہو لیکن عام مسلمانوں کے لیے کچھ مفید ثابت نہیں ہو سکی۔ آپ کے خط میں بہت سے ابہامات ہیں۔ کئی باتیں قرآن کے خلاف ہیں۔ کئی باتیں ایسی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ قرآن کا مطلب صحیح طور پر نہیں سمجھتے۔ ان کے لیے بڑا تفصیلی جواب درکار ہے جسے میں انشاء اللہ العزیز اولین فراغت میں مکمل کر سکوں گا۔ لیکن اس سلسلے میں دو ایک باتیں ایسی ہیں جب کی وضاحت نہایت ضروری ہے۔ اس وقت میں صرف انہیں کو پیش کرنا چاہتا ہوں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ساری بحث سمٹ سمٹا کر یہاں آ جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی خدا کی طرف سے نازل ہوئی وہ سب کچھ قرآن کے اندر ہے یا باہر کہیں اور بھی۔ آپ کا دعوٰی ہے کہ وحی کا ایک حصہ قرآن کے علاوہ اور بھی ہے۔ اس ضمن میں حسب ذیل امور وضاحت طلب ہیںؓ:
(۱) جہاں تک ایمان لانے اور اطاعت کرنے کا تعلق ہے کیا وحی کے دونوں حصے یکساں حیثیت رکھتے ہیں؟
(۲) قرآن نے جہاں ما انزل الیک کہا ہے کیا اس سے مراد صرف قرآن ہے یا وحی کا مذکورہ صدر حصہ بھی؟
(۳) وحی کا یہ دوسرا حصہ کہاں ہے؟ کیا قرآن کی طرح اس کی حفاظت کے ذمہ داری بھی خدا نے لے ہوئی ہے؟
(۴) قرآن کے ایک لفظ کی جگہ عربی کا دوسرا لفظ جو اس کے مترادف المعنی ہو، رکھ دیا جائے تو کیا اس لفظ کو “وحی منزل من اللہ” سمجھ لیا جائے گا؟ کیا وحی کے مذکورہ بالا دوسرے حصے کی بھی یہی کیفیت ہے؟
(۵) بعض لوگ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت پانے کے بعد اپنی زندگی کے آخری سانس تک جو کچھ کیا وہ خدا کی طرف سے وحی تھا۔ کیا آپ ان کے ہمنوا ہیں؟ اگر نہیں تو اس باب میں آپ کا عقیدہ کیا ہے؟
(۶)اگر آپ سمجھتے ہیں کہ حضورؐ کے بعض ارشادات وحی الٰہی تھے اور بعض وحی نہیں تھے تو کیا آپ فرمائیں گے کہ حضورؐ کے جو ارشادات وحی تھے، ان کا مجموعہ کہاں ہے؟ نیز آپ کے جو ارشادات وحی نہیں تھے، مسلمانوں کے لیے ایمان و اطاعت کے اعتبار سے ان کی حیثیت کیا ہے؟
(۷) اگر کوئی شخص قرآن کریم کی کسی آیت کے متعلق یہ کہہ دے کہ وہ “منزل من اللہ” نہیں ہے تو آپ اس سے متفق ہوں گے کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص احادیث کے موجودہ مجموعوں میں سے کسی حدیث کے متعلق یہ کہے کہ وہ خدا کی وحی نہیں تو کیا وہ بھی اسی طرح دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا؟
(۸) رسول اللہ (صلعم) نے دین کے احکام کی بجاآوری کے لیے جو صورتیں تجویز فرمائی ہیں کیا کسی زمانے کی مصلحتوں کے لحاظ سے ان کی جزئیات میں ردو بدل کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ کیا اس قسم کا ردو بدل قرآن کے احکام کی جزئیات میں بھی کیا جا سکتا ہے؟
والسلام۔ ۔ ۔ مخلص: عبد الودود
جواب
محترمی و مکرمی، السلام علیکم و رحمۃ اللہ،
عنایت نامہ مورخہ ۵ نومبر ۱۹۶۰ کو ملا۔ کچھ خرابی صحت اور کچھ مصروفیات کے باعث جواب ذرا تاخیر سے دے رہا ہوں اور اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
آپ نے حسب سابق پھر وہی طریقہ اختیار کیا ہے کہ ایک بحث کو صاف کرنے سے پہلو بچا کر آگے کچھ نئے سوالات چھیڑ دیئے۔ حالانکہ آپ کو نئے مسائل سامنے لانے سے پہلے یہ بتانا چاہیے تھا کہ پچھلے خط میں آپ کے دس نکات پر جو بحث میں نے کی تھی اس میں سے کیا چیز آپ مانتے ہیں اور کیا نہیں مانتے، اور جس چیز کو نہیں مانتے اسے رد کرنے میں آپ کے پاس کیا دلیل ہے۔ اسی طرح آپ کو میرے ان واضح اور متعین سوالات کا بھی کوئی جواب دینا چاہیے تھا جو میں نے اس خط میں آپ سے کیے تھے۔ لیکن ان سوالات کا سامنا کرنے سے گریز کر کے اب آپ کچھ اور سوالات لے آئے ہیں اور مجھ سے چاہتے ہیں کہ میں ان کا جواب دونِ یہ آخر کیا طرزِ بحث ہے؟
میرے پچھلے خط پر آپ کا تبصرہ کچھ عجیب ہی سا ہے۔ تمام اہم نکات جو اس میں زیرِ بحث آئے تھے، اور بنیادی سوالات جن پر اس میں روشنی ڈالی گئی تھی، ان سب کو چھوڑ کر سب سے پہلے آپ کی نظر میرے آخری فقرے پر پڑتی ہے اور اس کے جواب میں آپ فرماتے ہیں کہ “ میں حق کے آگے تو جھکنے پر تیار ہوں لیکن بت کے آگے میں نہیں جھک سکتا اور شخصیت پرستی میرا مسلک نہیں ہے”۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سا “بت” ہے جس کے آگے جھکنے کے لیے آپ سے کہا گیا تھا؟ اور کس “شخصیت پرستی” کی آپ کو دعوت دی گئی تھی؟ میں نے تو صریح آیاتِ قرآنی سے یہ ثابت کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حاکم، شارع، قاضی اور معلم و رہنما ہیں اور اللہ ہی کے حکم کی بنا پر آپ کی اطاعت اور آپ کا اتباع ایک مومن پر واجب ہے۔ اسی حق کے مقابلہ میں جھکنے کے لیے میں نے آپ سے عرض کیا تھا۔ اس پر آپ کا مذکورہ بالا ارشاد یہ شبہ پیدا کرتا ہے کہ شاید محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور پیروی ہی وہ “بت” ہے جس کے آگے جھکنے سے آپ کو انکار ہے، اور یہی وہ “شخصیت پرستی” ہے جس سے آپ گریزاں ہیں۔ اگر میرا یہ شبہ صحیح ہے تو میں عرض کروں گا کہ دراصل آپ شخصیت پرستی سے نہیں خدا پرستی سے انکار کر رہے ہیں،ا ور ایک بہت بڑا بت آپ کے اپنے نفس میں چھپا ہوا ہے جس کے آگے آپ سجدہ ریز ہیں، جہاں سر اطاعت خم کرنے کا خدا نے حکم دیا ہو، وہاں جھک جانا بت کے آگے جھکنا نہیں، خدا کے آگے جھکنا ہے،ا ور یہ شخصیت پرستی نہیں بلکہ خدا پرستی ہے۔ البتہ اس سے جو شخص انکار کرتا ہے وہ دراصل حکمِ خدا کے آگے جھکنے کی بجائے اپنے بتِ نفس کے آگے جھکتا ہے۔
(4) جن کی سند میں کسی نوعیت کی کمزوری ہے مگر معنی میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔
(5) جن کی سند میں بھی کلام کی گنجائش ہے اور معنی میں بھی۔
اب اگر کوئی بحث ان دوسری قسم کی روایات میں پیدا ہو تو اسے یہ دعویٰ کرنے کے لیے دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ پہلی قسم کے ذرائع سے جو کچھ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہنچا ہے وہ بھی مشکوک ہے۔
مزید برآں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ دین میں جو چیزیں اہمیت رکھتی ہیں وہ سب ہمیں پہلی قسم کے ذرائع سے ملی ہیں اور دوسرے ذرائع سے آنے والی روایات اکثر و بیشتر محض جزوی و فروعی معاملات سے متعلق ہیں جن میں ایک مسلک یا دوسرا مسلک اختیار کر لینے سے درحقیقت کوئی بڑا فرق واقع نہیں ہوتا۔ ایک شخص اگر تحقیق کر کے ان میں سے کسی روایت کو سنت کی حثیت سے تسلیم کرئے، اور دوسرا تحقیق کر کے اسے سنت نہ مانے تو دونوں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو مانے جائیں گے۔ البتہ ان لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیرو نہیں مانا جا سکتا جو کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و فعل اگر ثابت بھی ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا قول و فعل ہے تب بھی وہ ہمارے لیے آئین و قانون نہیں ہے۔
10 – ایک اور فریب
اعتراض : ” احادیث کے ” طریق حفاظت ” کی کمزوری کے تو آپ خود بھی قائل ہیں جب آپ لکھتے ہیں :
” بادی النظر میں یہ بات بالکل صحیح معلوم ہوتی ہے کہ ایسی فعلی اور قولی احادیث کو تواتر کا درجہ حاصل ہونا چاہیے جن کے دیکھنے اور سننے والے بکثرت ہوں۔ ان میں اختلاف نہ پایا جانا چاہیے۔ لیکن ہر شخص بادنیٰ تامل یہ سمجھ سکتا ہے کہ جس واقعہ کو بکثرت لوگوں نے دیکھا ہو یا جس تقریر کو بکثرت لوگوں نے سنا ہو اس کو نقل کرنے یا اس کے مطابق عمل کرنے میں سب لوگ اس قدر متفق نہیں ہو سکتے کہ ان کے درمیان یک سرمو فرق نہ پایا جائے۔ مثال کے طور پر آج میں ایک تقریر کرتا ہوں اور کئی ہزار آدمی اس کو سنتے ہیں۔ جلسہ ختم ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی (مہینوں اور برسوں بعد نہیں بلکہ چند ہی گھنٹوں بعد) لوگوں سے پوچھ لیجیئے کہ مقرر نے کیا کہا؟ آپ دیکھیں گے کہ تقریر کا مضمون نقل کرنے میں سب کا بیان یکساں نہ ہو گا۔ کوئی کسی ٹکڑے کو بیان کرئے گا، کوئی کسی ٹکڑے کو۔ کوئی کسی جملے کو لفظ بلفظ نقل کرئے گا، کوئی اس مفہوم کو جو اس کی سمجھ میں آیا ہے اپنے الفاظ میں بیان کر دے گا۔ کوئی زیادہ فہیم آدمی ہو گا اور تقریر کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اس کا صحیح ملحض بیان کرئے گا۔ کسی کی سمجھ زیادہ اچھی نہ ہو گی اور وہ مطلب کو اپنے الفاظ میں اچھی طرح ادا نہ کر سکے گا۔ کسی کا حافظہ اچھا ہو گا اور تقریر کے اکثر حصے لفظ بلفظ نقل کر دے گا۔ کسی کی یاد اچھی نہ ہو گی اور وہ نقل و روایت میں غلطیاں کرئے گا۔” (تنہیمات، جلد اول، ص 330)
جواب : اول تو اس اقتباس کے عین وسط میں لکیر لگا کر ایک فقرہ چھوڑ دیا گیا ہے اور ہر شخص اس کو پڑھ کر خود دیکھ سکتا ہے کہ کتنی نیک نیتی کے ساتھ اسے چھوڑا گیا ہے۔ وہ فقرہ یہ ہے :
“اس واقعہ یا اس تقریر کے اہم اجزاٌ میں تو سب کے درمیان ضرور اتفاق ہو گا مگر فروعی امور میں بہت کچھ اختلاف بھی پایا جائے گا اور یہ اختلاف ہر گز اس بات کی دلیل نہ ہو گا کہ وہ واقعہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا۔”
پھر اس اقتباس کے بعد کی پوری بحث چونکہ ڈاکٹر صاحب کے شبہات کا جواب تھی اور ان سے الجھن رفع ہو سکتی تھی اس لیے ڈاکٹر صاحب نے اسے چھوڑ دیا، کیونکہ انہیں تو الجھن ہی کی تلاش ہے۔ ایک مضمون میں سے جتنے فقرے الجھنے اور الجھانے کے لیے مل سکتے ہیں انہیں لے لیتے ہیں، اور جہاں سے بات سلجھنے کا خطرہ ہوتا ہے، صاف کترا کر نکل جاتے ہیں اور لطف یہ ہے کہ یہ دھوکا ایک مصنف کی کتاب سے خود مصنف کو دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ میں ناظرین سے گزارش کروں گا کہ اگر تنہیمات حصہ اول انہیں بہم پہنچ جائے تو اس میں ” حدیث کے متعلق چند سوالات ” کے زیر عنوان وہ پورا مضمون نکال کر ملاحظہ فرمائیں جس سے یہ عبارت نقل کی گئی ہے۔ تاہم مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس عبارت کے فورا بعد جو فقرے میں نے لکھے تھے وہ یہاں بھی نقل کر دیئے جائیں تاکہ جنہیں اصل کتاب نہ مل سکے وہ بھی ڈاکٹر صاحب کے کرتب کی داد دے سکیں۔ وہ فقرے یہ ہیں :
“اب اگر کوئی شخص اس اختلاف کو دیکھ کر یہ کہہ دے کہ میں نے سرے سے کوئی تقریر ہی نہیں کی، یا جو تقریر کی وہ از سرتاپا غلط نقل کی گئی تو یہ صحیح نہ ہو گا بخلاف اس کے اگر تقریر کے متعلق تمام اخبار آحاد کو جمع کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس امر میں سب کے درمیان اتفاق ہے کہ میں نے تقریر کی، فلاں جگہ کی، فلاں وقت کی۔ بہت سے آدمی موجود تھے اور تقریر کا موضوع یہ تھا۔ پھر تقریر کے جن جن حصوں کے متعلق زیادہ سے زیادہ اتفاق لفظا یا معنی پایا جائے گا، وہ زیادہ مستند سمجھے جائیں گے اور ان سب کو ملا کر تقریر کا ایک مستند مجموعہ تیار کر لیا جائے گا اور جن حصوں کے بیان میں ہر راوی منفرد ہو گا وہ نسبتا کم معتبر ہوں گے مگر ان موضوع اور غلط کہنا صحیح نہ ہو گا۔ تاوقتیکہ وہ تقریر کی پوری اسپرٹ کے خلاف نہ ہوں، یا کوئی اور بات ان میں ایسی نہ ہو جس کی وجہ سے ان کی صھت مشتبہ ہو جائے، مثلا تقریر کے معتبر حصوں سے مختلف ہونا، یا مقرر کے خیالات اور انداز بیان اور افتاد مزاج کے متعلق جو صحیح معلومات لوگوں کے پاس پہلے سے موجود ہیں ان کے خلاف ہونا۔”
11 – کیا امت میں کوئی چیز بھی متفق علیہ نہیں ہے؟
اعتراض : آپ فرماتے ہیں کہ سنت کے محفوظ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وضو، پنج وقتہ نماز، اذان، عیدین کی نمازیں، نکاح و طلاق و وراثت کے قاعدے وغیرہ مسلم معاشرے میں ٹھیک اسی طرح رائج ہیں جس طرح قرآن کی آیتیں زبانوں پر چڑھی ہوں۔ کیا آپ فرمائیں گے کہ نماز اور اذان، نکاح اور طلاق اور وراثت وغیرہ میں تمام امت ایک ہی طریقے پر عمل کر رہی ہے؟”
جواب : نماز اور اذان اور نکاح و طلاق اور وراثت وغیرہ امور کے متعلق جتنی چیزوں پر امت میں اتفاق ہے ان کو ایک طرف جمع کر لیجیئے، اور دوسری طرف وہ چیزیں نوٹ کر لیجیئے جن میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ اتفاق کس قدر زیادہ ہے اور اختلاف کس قدر کم۔ بنیادی امور قریب قریب سب متفق علیہ ہیں اور اختلاف زیادہ تر جزئیات میں ہے لیکن چونکہ بحث اتفاقی امور میں نہیں بلکہ ہمیشہ اختلافی امور میں ہوتی ہے، اس لیے بحثوں نے اختلافات کو نمایاں کر دیا ہے جس کی وجہ سے کم علم لوگوں کو یہ غلط فہمی لاحق ہوتی ہے کہ امت میں کوئی چیز بھی متفق علیہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر نماز ہی کو لے لیجیئے۔ تمام دنیا کے مسلمان ان امور پر پوری طرح متفق ہیں کہ پانچ وقت کی نماز فرض ہے۔ اس کے اوقات یہ ہیں۔ اس کے لیے جسم اور لباس پاک ہونا چاہیے۔ اس کے لیے باوضو ہونا چاہیے۔ اس کو قبلہ رُخ پڑھنا چاہیے۔ اس میں قیام اور رکوع اور سجدہ اور قعود اس ترتیب سے ہونا چاہیے۔ ہر وقت کی اتنی اتنی رکعتیں فرض ہیں۔ نماز کی ابتداٗ تکبیر تحریمہ سے ہونی چاہیے۔ نماز میں بحالت قیام فلاں چیزیں بحالت رکوع فلاں، بحالت سجود فلاں اور بحالتِ قعود فلاں چیزیں پڑھنی چاہیں۔ غرض یہ کہ بحثیت مجموعی نماز کا پورا بنیادی ڈھانچہ متفق علیہ ہے۔ اختلاف صرف اس طرح کے معاملات میں ہے کہ ہاتھ باندھا جائے یا چھوڑا جائے، باندھا جائے تو سینے پر یا ناف پر، امام کے پیچھے سورۃ فاتح پڑھی جائے یا نہیں، سورۃ فاتحہ کے بعد آمین زور سے کہی جائے یا آہستہ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان چھوٹے چھوٹے اختلافات کو بنیاد بنا کر یہ دعویٰ کرنا صحیح ہو گا کہ نماز کے معاملہ میں امت سرے سے کسی متفق علیہ طریقہ پر ہے ہی نہیں؟ اذان میں اس کے سوا کوئی اختلاف نہیں کہ شیعہ حی علٰی خیر العمل کہتے ہیں اور سُنی نہیں کہتے۔ باقی اذان کے تمام کلمات اور متعلقہ مسائیل بالکل متفق علیہ ہیں۔ کیا اس ذرا سے اختلاف کو اس بات کی دلیل بنایا جا سکتا ہے کہ اذان بجائے خود مختلف فیہ ہے؟
12 – سنت نے اختلافات کم کیئے ہیں یا بڑھائے ہیں؟
اعتراض : ” اگر آپ یہ کہیں کہ حدیث پر مبنی اختلافات جزئیات کے معمولی اختلافات ہیں، ان سے دین پر کوئی اثر نہیں پڑتا تو میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ جن جزئیات کو (بقول آپ کے) خدا کی وحی نے متعین کیا ہو کیا ان میں ذرا سا اختلاف بھی معصیت کا موجب نہیں ہو جاتا۔ مثلا اللہ تعالٰی نے قرآن میں مندرج وحی کے ذریعہ حکم دیا کہ وضو میں اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھویا کرو۔ اگر کوئی شخص یا فرقہ اپنے ہاتھ صرف پنجوں تک دھوئے تو کیا آپ کے نزدیک یہ بھی اسی طرح حکم خداوندی کی تعمیل ہو گی جس طرح اس شخص یا فرقہ کا عمل جو کہنیوں تک ہاتھ دھوئے، ارشاد باری تعالٰی کی تعمیل کہلائے گا؟”
جواب : یہ محض ایک سطحی مغالطہ ہے۔ نص کی کھلی کھلی خلاف ورزی کا نام اختلاف نہیں ہے۔ بلکہ اختلاف اس چیز کا نام ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان یہ بات مختلف فیہ ہو کہ حکم شرعی کیا ہے۔ اس کی صحیح مثال خود قرآن ہی سے حاضر ہے۔ قرآن کی آیت تیمم میں یہ فرمایا گیا ہے کہ فامسحوا بوجوھکم و ایدیکم منہ (المائدہ:7) ” اس مٹی سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کر لو۔”
اب دیکھیئے۔ ایک شخص “ہاتھ ” سے مراد پہنچے تک لیتا ہے اور اسی پر مسح کرتا ہے۔ دوسرا کہنی تک لیتا ہے اور وہاں تک ہاتھ پھیرتا ہے اور تیسرا خیال کرتا ہے کہ لفظ ہاتھ کا اطلاق تو شانے تک پورے ہاتھ پر ہوتا ہے اس لیے وہ مسح میں اس بھی شامل کر لیتا ہے۔ تائیے اس اختلاف کی گنجائش قرآن کے الفاظ میں ہے یا نہیں؟ پھر کیا یہ اختلاف معصیت کا موجب ہو جاتا؟
منکرین حدیث کچھ عقل سے کام لیتے تو وہ خود دیکھ سکتے تھے کہ سنت نے اختلافات کے دائرے کو بہت محدود کر دیا ہے۔ ورنہ اگر سنت نہ ہوتی تو قرآن مجید سے احکام اخذ کرنے میں اتنے اختلافات ہوتے کہ دو مسلمان بھی مل کر کوئی اجتماعی عمل نہ کر سکتے۔ مثلا قرآن بار بار صلوٰۃ کا حکم دیتا ہے۔ اگر سنت اس کی شکل اور طریقہ مقرر نہ کر دیتی تو لوگ ہر گز یہ طے نہ کر سکتے کہ اس حکم کی تعمیل کیسے کریں۔ قرآن زکوٰۃ کا حکم دیتا ہے۔ اگر سنت نے اس کی تشریح نہ کر دی ہوتی تو کبھی اس امر میں اتفاق نہ ہو سکتا کہ یہ فریضہ کس طرح بجا لایا جائے۔ ایسا ہی معاملہ قرآن کی اکثر و بیشتر ہدایات و احکام کا ہے کہ خدا کی طرف سے ایک بااختیار معلم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان پر عمل درآمد کی شکل بتا کر اور عملا دکھا کر اختلافات کا سد باب کر دیا ہے۔ اگر یہ چیز نہ ہوتی اور امت صرف قرآن کو لے کر لغت کی مدد سے کوئی نظام زندگی بنانا چاہتی تو بنیادی امور میں بھی اس حد تک اتفاق رائے حاصل نہ ہو سکتا کہ کوئی مشترک تمدن بن جاتا۔ یہ سنت ہی کا طفیل ہے کہ تمام امکانی اختلافات سمٹ کر دنیائے اسلام میں آج صرف آٹھ فرقے پائے جاتے ہیں۔ اور ان میں بھی بڑے فرقے صرف پانچ ہیں (اس وقت دنیائے اسلام میں صرف حسبِ ذیل فرقے پائے جاتے ہیں :
حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، اہلحدیث، اثنا عشری، زیدی اور خارجیوں کا فرقہ اباضیہ – ان میں سے زیدی، اہل حدیث اور اباضیہ بہت کم تعداد میں ہیں۔ لوگوں نے خواہ مخواہ 73 فرقوں کا افسانہ مشہور کر رکھا ہے حالانکہ یہ تعداد صرف کتابوں میں پائی جاتی ہے، زمین پر اس کا وجود نہیں ہے۔) جن کے اندر کروڑوں مسلمان ایک ایک فقہ پر مجتمع ہو گئے ہیں۔ اسی اجتماع کی بدولت ان کا ایک نظام زندگی بن اور چل رہا ہے لیکن منکرین حدیث سنت کے خلاف جو کھیل کھیل رہے ہیں اس میں اگر وہ کامیاب ہو جائیں تو اس کا نتیجہ یہ نہیں ہو گا کہ قرآن کی تفسیر و تعبیر پر سب متفق ہو جائیں گے۔ بلکہ یہ ہو گا کہ جن امور میں آج اتفاق ہے وہ سب بھی اختلافی بن کر رہ جائیں گے۔
13 – منکرین سنت اور منکرین ختم نبوت میں مماثلت کے وجوہ
اعتراض : ” آپ فرماتے ہیں کہ “اگر سنت کے متن میں اس قدر اختلافات ہیں تو قرآن کی تعبیر میں بھی تو بے شمار اختلافات ہو سکتے ہیں اور ہوئے ہیں۔ اگر قرآن کی تعبیر میں اختلافات اسے آئین کی بنیاد قرار دینے میں مانع نہیں تو سنت کے متن کا اختلاف اس امر میں کیسے مانع ہو سکتا ہے۔” آپ کی یہ دلیل بعینہ اس طرح کی ہے جس طرح جب مرزائی حضرات سے کہا جائے کہ مرزا صاحب کے کردار میں فلاں نقص پایا جاتا ہے۔ تو وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ معاذ اللہ معاذ اللہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فلاں بات بھی ایسی نہیں تھی؟”
جواب : یہ تشبیہ بنیادی طور پر غلط ہے اس لیے کہ جھوٹے نبی اور سچے نبی میں در حقیقت کوئی مشابہت نہیں ہے۔ سچے نبی اور اس کی لائی ہوئی کتاب کے درمیان جو ربط و تعلق ہوتا ہے وہ نہ جھوٹے نبی اور سچے نبی کے درمیان ہو سکتا ہے اور نہ اس کے اور کتاب اللہ کے درمیان۔
ڈاکٹر صاحب کی یہ تشبیہ در اصل خود ان پر اور ان کے گروہ پر صادق آتی ہے جس طرح مرزائی حضرات ایک جعلی نبی کی نبوت ثابت کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو درمیان میں لاتے ہیں، اسی طرح منکرین حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور کتاب اللہ کا تعلق کاٹ پھینکنے کے لیے کتاب اللہ کو استعمال کرتے ہیں۔ جس طرح مرزائیوں نے تمام امت کے متفقہ عقیدہ نبوت کے خلاف ایک نئی نبوت کا فتنہ کھڑا کیا، اسی طرح منکرین حدیث نے سنت کی آئینی حیثیت کو چیلنج کر کے ایک دوسرا فتنہ کھڑا کر دیا۔ حالانکہ خلافائے راشدین کے عہد سے آج تک تمام دنیا کے مسلمان ہر زمانے میں اس بات پر متفق رہے ہیں کہ قرآن کے بعد سنت دوسرا ماخذ قانون ہے، حتیٰ کہ غیر مسلم ماہرین قانون بھی بالاتفاق اس کو تسلیم کرتے ہیں، جس طرح مرزائی ختم نبوت کی غلط تاویل کر کے ایک نیا نبی سامنے لے آتے ہیں، اسی طرح منکرین حدیث اتباع سنت کی غلط تعبیر کر کے یہ راستہ نکالتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری ہدایات و تعلیمات کا دفتر لپیٹ کر رکھ دیا جائے اور کسی ” مرکز ملت ” کو ہر زمانے میں امت کے درمیان وہی حیثیت حاصل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھی۔ مرزائی اپنے نبی کی نبوت کا راستہ صاف کرنے کے لیے ذات رسول اللہ میں نقص نکالتے ہیں اور منکرین حدیث اپنے مرکز ملت کے لیے راستہ بنانے کی خاطر سنت رسول کی عیب چینی کرتے ہیں۔
رہا وہ اعتراض جو میرے استدلال پر ڈاکٹر صاحب نے کیا ہے، تو وہ درحقیقت بالکل بے بنیاد ہے۔ میرا استدلال یہ نہیں ہے کہ آپ سنت میں جو عیب نکال رہے ہیں وہ قرآن میں بھی موجود ہے بلکہ اس کے برعکس میرا استدلال یہ ہے کہ تعبیر و تحقیق کے اختلافات کی گنجائش ہونا سرے سے کسی آئین و قانون کے لیے عیب و نقص ہی نہیں ہے۔ لہٰذا اس گنجائش کی بنا پر قرآن کو اساس قانون بنانے سے انکار کیا جا سکتا ہے نہ سنت کو۔
14 – کیا آئین کی بنیاد وہی چیز ہو سکتی ہے جس میں اختلاف ممکن نہ ہو؟
اعتراض : ” متن اور اس کی تعبیرات دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ قرآن کریم کے متن میں کسی ایک حرف کے متعلق بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ باقی رہیں اس کی تعبیرات، سو وہ انسانی فعل ہے جو کسی دوسرے کے لیے دین کی سند اور حجت نہیں ہو سکتا۔ اس کے برعکس احادیث کی تعبیرات میں نہیں۔ ان کے متن میں ہی اختلاف ہے۔ اس اختلاف کی موجودگی میں سنت کو آئین اسلامی کا ماخذ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟”
جواب : اصل قابل غور سوال تو یہی ہے کہ اگر کتاب کے الفاظ متفق علیہ ہوں لیکن تعبیرات میں اختلاف ہو تو وہ آئین کی بنیاد کیسے بنے گی؟ ڈاکٹر صاحب خود فرما رہے ہیں کہ “تعبیر ایک انسانی فعل ہے جو کسی دوسرے کے لیے حجت اور سند نہیں ہو سکتا۔” اس صورت میں تو لامحالہ صرف الفاظ حجت اور سند رہ جاتے ہیں، اور معنی میں اختلاف ہو جانے کے بعد ان کا حجت و سند ہونا لاحاصل ہوتا ہے، کیونکہ عملا جو چیز نافذ ہوتی ہے وہ کتاب کے الفاظ نہیں بلکہ اس کے وہ معنی ہوتے ہیں جنہیں کسی شخص نے الفاظ سے سمجھا ہو۔ اسی لیے میں نے اپنے دوسرے خط میں ان سے عرض کیا تھا کہ پہلے آپ اپنے اس نقطہ نظر کو بدلیں کہ “آئین کی بنیاد صرف وہی چیز بن سکتی ہے جس میں اختلاف نہ ہو سکے۔” اس کے بعد جس طرح یہ بات طے ہو سکتی ہے کہ قرآن مجید بجائے خود اساس آئین ہو اور اس کی مختلف تعبیرات میں سے وہ تعبیر نافذ ہو جو کسی بااختیار ادارے کے نزدیک اقرب الی الصواب قرار پائے، اسی طرح یہ بات بھی طے ہو سکتی ہے کہ سنت کو بجائے خود اساس آئین مان لیا جائے اور معاملات میں عملا وہ سنت نافذ ہو جو کسی بااختیار ادارے کی تحقیق میں سنت ثابتہ قرار پائے۔ قرآن کے الفاظ کو اساس آئین ماننے کا فائدہ یہ ہو گا کہ تعبیر کے اختلافات کا سارا چکر صرف الفاظ قرآن کے حدود میں گھوم سکے گا، ان کے دائرے سے باہر نہ جا سکے گا۔ اسی طرح ” سنت ” کو اساس آئین ماننے کا فائدہ یہ ہو گا کہ ہمیں اپنے عمل کے لیے انہی ہدایات و تعلیمات کی آزادانہ قانون سازی اس وقت تک نہ کر سکیں گے جب تک تحقیق سے ہمیں یہ معلوم نہ ہو جائے گا کہ فلاں مسئلے میں کوئی سنت ثابت نہیں ہے۔ یہ سیدھی سی بات سمجھنے میں آخر کیا دقت ہے۔
(جاری ہے ۔۔۔۔)
15 – قرآن اور سنت دونوں کے معاملہ میں رفع اختلاف کی صورت ایک ہی ہے۔
اعتراض : “قرآن کے متن سے احکام اخذ کرنے میں اختلاف اس وقت پیدا ہوا جب دین ایک اجتماعی نظام کی جگہ انفرادی چیز بن گیا۔ جب تک دین ا اجتماعی نظام قائم رہا، اس وقت تک اس باب میں امت میں کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوا۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ یا حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں امت کے افراد قرآن کے کسی حکم پر مختلف طریقوں سے عمل پیرا تھے؟ پھر اس قسم کا نظام قائم ہو گا تو پھر تعبیرات کے یہ اختلافات باقی نہیں رہیں گے۔ یہ اسی صورت میں ممکن تھا کہ قرآن کے الفاظ محفوظ رہتے، اگر قرآن کے الفاظ محفوظ نہ ہوتے اور مختلف فرقوں کے پاس احادیث کی طرح قرآن کے بھی الگ الگ مجموعے ہوتے تو امت میں وحدت عملی کا امکان ہی باقی نہ رہتا۔ تاوقتیکہ کوئی دوسرا رسول آ کر وحی کے الفاظ کو مخفوظ طور پر انسانوں تک پہنچا دیتا۔”
جوات : کسی معاملے کو سمجھے بغیر اس پر تقریر جھاڑنے کی یہ دلچسپ مثال ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں بھی لوگ قرآن مجید کی آیات میں غور و خوض کرتے تھے اور ان کے درمیان فہم و تعبیر کا اختلاف ہوتا تھا مگر اس وقت خلیفہ راشد اور مجلسِ شوریٰ کا بااختیار ادارہ ایسا موجود تھا جسے اقتدار بھی حاصل تھا اور امت کو اس کے علم و تقویٰ پر اعتماد بھی تھا۔ اس ادارے میں بحث و تمحیص کے بعد قرآن کے کسی حکم کی جس تعبیر کے حق میں جمہوری طریقے پر فیصلہ ہو جاتا تھا وہی قانون کی حیثیت سے نافذ ہو جاتی تھی۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سنتوں کے بارے میں بھی اس وقت باقاعدہ تحقیق کی جاتی تھی اور جب یہ اطمینان ہو جاتا تھا کہ کسی مسئلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ دیا تھا یا اس طرح عمل کیا تھا، تو اسی کے مطابق فیصلہ کر دیا جاتا تھا۔ آج بھی اگر ایسا کوئی ادارہ موجود ہو تو وہ جس طرح قرآن کی تعبیرات میں سے وہ تعبیر اختیار کرنے کی کوشش کرئے گا جو زیادہ سے زیادہ اقرب الی الصواب ہو، اسی طرح وہ احادیث کے مجموعوں میں سے ان سنتوں کو تلاش کر لے گا، جن کس زیادہ سے زیادہ اطمینان بخش ثبوت مل سکے۔
16 – ایک دلچسپ مغالطہ
اعتراض : “آپ فرماتے ہیں کہ برطانیہ کا آئین تحریری شکل میں موجود نہیں۔ پھر بھی ان کا کام کیسے چل رہا ہے۔ کیا آپ کو اس کا بھی کچھ علم ہے کہ برطانیہ کے آئین میں نت ئے دن کتنی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ ان کے ہاں پارلیمانی اکثریت جو تبدیلی چاہے، کر سکتی ہے۔ کیا دین کی بھی آپ کے نزدیک یہی حیثیت ہے؟ اگر دین کے آئین کے تحریری نہ ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا تھا تو قرآن کریم کو کیوں تحریر میں لایا گیا اور اس تحریر کی حفاظت کا ذمہ خدا نے کیوں لیا؟”
جواب : یہ ایک اور دلچسپ مغالطہ ہے۔ اللہ تعالٰی نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا تھا نہ کہ اس تحریر کی حفاظت کا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں کاتبان وحی سے لکھوائی تھی۔ قرآن تو یقینا خدا کے وعدے کے مطابق محفوظ ہے مگر کیا وہ اصل تحریر بھی محفوظ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوائی تھی؟ اگر وہ منکرین حدیث کے علم میں کہیں ہے تو ضرور اس کی نشاندہی فرمائیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ تمام منکرین حدیث بار بار قرآن کے لکھے جانے اور حدیث کے نہ لکھے جانے پر اپنے دلائل کا دارومدار رکھتے ہیں، لیکن یہ بات کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانہ میں کاتبان وحی سے ہر نازل شدہ وحی لکھوا لیتے تھے، اور اس تحریر سے نقل کر کے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قرآن کو ایک مصحف کی شکل میں لکھا گیا اور بعد میں اسی کی نقلیں حضرت عثمان نے شائع کیں۔ یہ سب کچھ محض حدیث کی روایات ہی سے دنیا کو معلوم ہوا ہے۔ قرآن میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے، نہ حدیث کی روایات کے سوا اس کی کوئی دوسرے شہادت دنیا میں کہیں موجود ہے۔ اب اگر حدیث کی روایات سرے سے قابل اعتماد ہی نہیں ہیں تو پھر کس دلیل سے آپ دنیا کو یہ یقین دلائیں گے کہ فی الواقع قرآن حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زمانے میں لکھا گیا تھا؟
17 – شخصی قانون اور ملکی قانون میں تفریق کیوں؟
اعتراض : “آپ فرماتے ہیں کہ سنن ثابتہ کے اختلاف کو برقرار رکھتے ہوئے (پاکستان میں صحیح اسلامی آئین کے مطابق) قانون سازی کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ :
” شخصی قانون (پرسنل لا ) کی حد تک ہر ایک گروہ کے لیے احکام قرآن کی وہی تعبیر اور سنن ثابتہ کا وہی مجموعہ معتبر ہو، جسے وہ مانتا ہے اور ملکی قانون (پبلک لا ) کی تعبیر قرآن اور ان سنن ثابتہ کے مطابق ہو، جس پر اکثریت اتفاق کرئے۔”
کیا میں یہ پوچھنے کی جرات کر سکتا ہوں کہ شخصی قانون اور ملکی قانون کا یہ فرق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی تھا؟ اور کیا قرآن کریم سے اس تفریق کی کوئی سند مل سکتی ہے؟
جواب : یہ سوالات صرف اس بنا پر پیدا ہوئے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نہ تو شخصی قانون اور ملکی قانون کے معنی اور حدود کو سمجھے ہیں اور نہ اس عملی مسئلے پر انہوں نے کچھ غور کیا ہے جو پاکستان میں ہمیں درپیش ہے۔ شخصی قانون سے مراد وہ قوانین ہیں جو لوگوں کی خانگی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں، جیسے نکاح و طلاق اور وراثت۔ اور ملکی قانون سے مراد وہ قوانین ہیں جو ملک کے عام نظم و ضبط کے لیے درکار ہیں، مثلا فوجداری اور دیوانی قانون۔ پہلی قسم کے بارے میں یہ ممکن ہے کہ ایک مملکت میں اگر مختلف گروہ موجود ہوں تو ان میں سے ہر ایک کے حق میں اس قانون کو نافذ کیا جائے جس کا وہ خود قائل ہو، تاکہ اسے اپنی خانگی زندگی کے محفوظ ہونے کا اطمینان حاصل ہو جائے۔ لیکن دوسری قسم کے قوانین میں الگ الگ گروہوں کا لحاظ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ لامحالہ سب کے سب یکساں ہی ہونے چاہئیں۔ قرآن مجید کے عہد میں مسلمان تو ایک ہی گروہ تھے لیکن مملکت اسلامیہ میں یہودی، عیسائی اور مجوسی بھی شامل تھے جن کے شخصی قوانین مسلمانوں سے مختلف تھے۔ قرآن نے ان کے لیے جزیہ دے کر مملکتِ اسلامیہ میں رہنے کی جو گنجائش نکالی تھی اس کے معنی یہی تھے کہ ان کے مذہب اور ان کے شخصی قانون میں مداخلت نہ کی جائے، البتہ اسلام کا ملکی قانون ان پر بھی اسی طرح نافذ ہو گا جس طرح مسلمانوں پر ہو گا۔ چنانچہ اسی قاعدے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کی حکومت نے عمل کیا۔
اب پاکستان میں ہم جس زمانے میں سانس لے رہے ہیں وہ نزول قرآن کا زمانہ نہیں ہے، بلکہ اس سے ۱۴ سو سال بعد کا زمانہ ہے۔ ان پچھلی صدیوں میں مسلمانوں کے اندر متعدد فرقے بن چکے ہیں اور ان کو بنے اور جمے ہوئے صدیاں گزر چکی ہیں۔ ان کے درمیان قرآن کی تعبیر میں بھی اختلافات ہیں اور سنتوں کی تحقیق میں بھی۔ اگر ہم ان مختلف فرقوں کو یہ اطمینان دلا دیں کہ ان کے مذہبی اور خانگی معاملات انہی کی مسلمہ فقہ پر قائم رہیں گے اور صرف ملکی معاملات میں ان کو اکثریت کا فیصلہ ماننا ہو گا تو وہ بے کھٹکے ایک مشترک ملکی نظام اسلامی بنانے کے لیے تیار ہو جائیں گے لیکن اگر کوئی ” مرکز ملت ” صاحب قرآن کا نام لے کر ان کے مذہبی عقائد و عبادات اور ان کے خانگی معاملات میں زبردستی مداخلت کرنے پر اتر آئیں اور ان سارے فرقوں کو توڑ ڈالنا چاہیں، تو یہ ایک سخت خونریزی کے بغیر ممکن نہ ہو گا۔ بلا شبہ یہ ایک مثالی حالت ہو گی کہ مسلمان پھر ایک ہی جماعت کی حیثیت اختیار کر لیں جس میں امت مسلمہ کے لیے تمام قوانین کھلے اور آزادانہ بحث و مباحثے سے طے ہو سکیں۔ لیکن یہ مثالی حالت نہ پہلے ڈنڈے کے زور سے پیدا ہوئی تھی نہ آج اسے ڈنڈے کے زور سے پیدا کیا جا سکتا ہے۔
18 – حیثیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فیصلہ کن بات سے گریز
اعتراض : ” آپ نے ترجمان القرآن کے متعدد اوراق اس بحث میں ضائع کر دیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلامی ریاست کا صدر یا مسلمانوں کا لیڈر یا قاضی اور جج کس نے بنایا تھا۔ خدا نے یا مسلمانوں نے انتخاب کے ذریعے؟ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس بحث سے بالاخر آپ کا مقصد کیا تھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریمکی ہدایات کے مطابق ایک اسلامی مملکت قائم کی۔ ایک بچہ بھی اس بات کو سمجھ لے گا کہ اس مملکت کا اولین سربراہ اور مسلمانوں کا رہنما اور تمام معاملات کے فیصلے کرنے کی آخری اتھارٹی جس کے فیصلوں کی کہیں اپیل نہ ہو سے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کون ہو سکتا تھا؟”
جواب : جس سوال کو ایک فضول اور لایعنی سوال قرار دے کر اس کا سامنا کرنے سے اس طرح گریز کیا جا رہا ہے وہ دراصل اس بحث کا ایک فیصلہ کن سوال ہے۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالٰی کے مقرر کردہ فرمانروا، قاضی اور رہنما تھے تو یہ ماننے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے اور آپ کی تعلیمات و ہدایات اور آپ کے احکام من جانب اللہ تھے اور اس بنا پر لازما وہ اسلام میں مشد و حجت ہیں۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ان چیزوں کو سند و حجت نہیں مانتا تو اسے دو باتوں میں سے ایک بات لامحالہ کہنی پڑے گی۔ یا تو وہ یہ کہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود فرمانروا اور قاضی اور رہنما بن بیٹھے تھے یا پھر یہ کہے کہ مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان مناصب کے لیے اپنی مرضی سے منتخب کیا تھا اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے کسی اور کو بھی منتخب کر لینے کے مجاز تھے اور ان کو یہ بھی حق تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معزول کر دیتے۔ منکرین حدیث پہلی بات ماننا نہیں چاہتے، کیونکہ اس کو مان لیں تو ان کے مسلک کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ لیکن دوسری دونوں باتوں میں سے کسی بات کو بھی صاف صاف کہہ دینے کی ان میں ہمت نہیں ہے، کیونکہ اس کے بعد اس دام فریب کا تار تار الگ ہو جائے گا جس میں وہ مسلمانوں کو پھانسنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے یہ حضرات اس سوال سے بچ کر بھاگ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ناظرین براہ کرم اس کتاب کے صفحات 95 تا 98 پر “مرکز ملت” کی بحث ملاحظہ فرما لیں اور پھر دیکھیں کہ میرے اٹھائے ہوئے سوالات سے بچ کر کس طرح راہ گریز اختیار کی جا رہی ہے۔
19 – کیا کسی غیر نبی کو نبی کی تمام حیثیات حاصل ہو سکتی ہیں؟
اعتراض : نزول قرآن کے وقت دنیا میں مذہب اور سیاست دو الگ الگ شعبے بن گئے تھے۔ مذہبی امور میں مذہبی پیشواؤں کی اطاعت ہوتی تھی اور سیاسی یا دنیاوی امور میں حکومت کی۔ قرآن نے اس ثنویت کو مٹایا اور مسلمانوں سے کہا کہ رسول اللہ تمہارے مذہبی رہنما ہی نہیں، سیاسی اور تمدنی امور میں تمہارے سربراہ بھی ہیں اس لیے ان تمام امور میں آپ ہی کی اطاعت کی جائے گی۔ رسول اللہ کے بعد یہ تمام مناصب (یعنی خدا سے وحی پانے کے علاوہ دیگر مناصب) حضور کے سچے جانشین (خلیفۃ الرسول) کی طرف منتقل ہو گئے اور اب خدا اور رسول کی اطاعت کے معنی اس نظام کی اطاعت ہو گئے جسے عام طور خلافت علیٰ منہاج نبوت کی اصطلاح سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی کو میں نے ” مرکز ملت ” کی اصطلاح سے تعبیر کیا تھا جس کا آپ مذاق اڑا رہے ہیں۔”
جواب : اس دعوے کی دلیل کیا ہے کہ حامل وحی ہونے کے سوا باقی جتنی حیثیات بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلامی نظام میں حاصل تھیں وہ سب آپ کے بعد خلیفہ یا “مرکز ملت” کو منتقل ہو گئیں؟ کیا قرآن میں یہ بات کہی گئی ہے؟ یا رسول اللہ نے اس کی تصریح کی ہے؟ یا خلفائے راشدین نے کبھی یہ دعویٰ کیا کہ ہم کو یہ حیثیت حاصل ہے؟ یا عہد رسالت سے لے کر آج تک علمائے امت میں سے کسی قابل ذکر آدمی کا مسلک یہ رہا ہے؟ قرآن مجید جو کچھ کہتا ہے وہ اس کتاب کے صفحات 74 تا 83 پر میں پیش کر چکا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد کو یہ لوگ مانتے ہیں، ورنہ میں بکثرت مستند و معتبر احادیث پیش کرتا جن سے اس دعوے کی تردید ہو جاتی ہے۔ خلفائے راشدین کے متعلق منکرین حدیث کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس حیثیت پر فائز سمجھتے تھے۔ مگر میں نے اسی کتاب کے صفحات 113 تا 118 پر حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم کے اپنے اقوال لفظ بلفظ پیش کر دیئے ہیں جن سے یہ جھوٹا الزام ان پر ثابت نہیں ہوتا۔ اب یہ اصحاب کم از کم یہی بتا دیں کہ پچھلی چودہ صدیوں میں کب کس عالم دین نے یہ بات کہی ہے۔
20 – اسلامی نظام کے امیر اور منکرین حدیث کے مرکز ملت میں عظیم فرق
اعتراض : “یہ جو میں نے کہا ہے کہ “خدا اور رسول” سے مراد اسلامی نظام ہے تو یہ میری اختراع نہیں۔ اس کے مجرم آپ بھی ہیں۔ آپ نے اپنی تفسیر تفہیم القرآن میں سورۃ مائدہ کی آیت انما جزاو الذین یحاربون اللہ (33:5) کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے :
“خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے کا مطلب اس نظام صالح کے خلاف جنگ کرنا ہے جو اسلام کی حکومت نے ملک میں قائم کر رکھا ہو۔ ایسا نظام جب کسی سرزمین میں قائم ہو جاتا ہے تو اس کو خراب کرنے کی سعی کرنا دراصل خدا اور اس کے رسول کے خلاف جنگ ہے۔” (جلد اول، صفحہ 365)۔
جواب : یہاں پھر میرے سامنے میری ہی عبارت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی جسارت کی گئی ہے۔ اصل عبارت یہ ہے :
” ایسا نظام جب کسی سرزمین میں قائم ہو جائے تو اس کو خراب کرنے کی سعی کرنا ، قطع نظر اس سے کہ وہ چھوٹے پیمانے پر قتل و غارت اور رہزنی و ڈکیتی کی حد تک ہو یا بڑے پیمانے پر اس نظام صالح کو الٹنے اور اس کی جگہ کوئی فاسد نظام قائم کر دینے کے لیے ہو، دراصل خدا اور رسول کے خلاف جنگ ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے تعزیرات ہند میں ہو اس شخص کو جو ہندوستان کی برطانوی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرئے، بادشاہ کے خلاف لڑائی (Waging War against the King) کا مجرم قرار دیا گیا۔ چاہے اس کی کاروائی ملک کے کسی دور دراز گوشے میں ایک معمولی سپاہی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اور بادشاہ اس کی دسترس سے کتنا ہی دور ہو۔”
اب ایک معمولی سمجھ بوجھ کا آدمی بھی خود دیکھ سکتا ہے کہ بادشاہ کی نمائندگی کرنے والے سپاہی کے خلاف جنگ کو بادشاہ کے خلاف جنگ قرار دینے، اور سپاہی کو خود بادشاہ قرار دے دینے میں کتنا بڑا فرق ہے۔ ایسا ہی عظیم فرق ان دو باتوں میں ہے کہ ایک شخص اللہ اور رسول کے نطام مطلوب کو چلانے والی حکومت کے خلاف کاروائی کو اللہ اور رسول کے خلاف کاروائی قرار دے اور دوسرا شخص دعویٰ کرئے کہ یہ حکومت خود اللہ اور رسول ہے۔
اس فرق کی نزاکت پوری طرح سمجھ میں نہیں آ سکتی جب تک آپ ان دونوں کے نتائج پر تھوڑا سا غور نہ کر ہیں۔ فرض کیجیئے کہ اسلامی حکومت کسی وقت ایک غلط حکم دے بیٹھتی ہے جو قرآن اور سنت کے خلاف پڑتا ہے۔ اس صورت حال میں میری تعبیر کے مطابق تو عام مسلمانوں کو اٹھ کر یہ کہنے کا حق پہنچتا ہے کہ “آپ اپنا حکم واپس لیجیئے کیونکہ آپ نے اللہ اور رسول کے فرمان کی خلاف ورزی کی ہے، اللہ نے قرآن میں یہ فرمایا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے یہ ثابت ہے، اور آپ اس سے ہٹ کر یہ حکم دے رہے ہیں، لہٰذا آپ اس معاملے میں اللہ اور رسول کی صحیح نمائندگی نہیں کرتے۔” مگر منکرین حدیث کی تعبیر کے مطابق اسلامی حکومت خود ہی اللہ اور رسول ہے۔ لہٰذا مسلمان اس کے کسی حکم کے خلاف بھی یہ استدلال لانے کا حق نہیں رکھتے۔ جس وقت وہ یہ استدلال کریں گے اسی وقت حکومت یہ کہہ کر ان کا منہ بند کر دے گی کہ اللہ اور رسول تو ہم خود ہیں، جو کچھ ہم کہیں اور کریں، وہی قرآن بھی ہے اور سنت بھی۔
منکرین حدیث دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن میں جہاں جہاں ” اللہ اور رسول ” کا لفظ آیا ہے، وہاں اس سے مراد اسلامی حکومت ہے۔ میں ناظرین سے عرض کروں گا کہ ذرا قرآن کھول کر وہ آیتیں نکال لیجیئے جن میں اللہ اور رسول کے الفاظ ساتھ ساتھ آئے ہیں اور خود دیکھ لیجیئے کہ یہاں ان سے حکومت مراد لینے کے نتائج کیا نکلتے ہیں۔ مثال کے طور پر حسب ذیل آیات ملاحظہ ہوں :
قل اطیعو اللہ والرسول فان تولوا فان اللہ لا یحب الکٰفرین (آل عمران:32)۔
اے نبی ان سے کہو کہ اطاعت کرو اللہ اور رسول کی۔ پھر اگر وہ اس سے منہ موڑیں تو اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔
یایھا الذین امنوا امنوا باللہ و رسولہ (انسا : 136)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، (سچے دل سے) ایمان لاؤ اللہ اور رسول پر۔
انما المومنون الذین امنوا باللہ و رسولہ ثم لم یرقابوا (الحجرات:15)
مومن تو اصل میں وہ ہیں جو ایمان لائے اللہ اور اس کے رسول پر، پھر شک میں نہ پرے۔
ومن لم یومن باللہ و رسولہ فانا اعتدنا للکٰفرین سعیرا (الفتح:13)
اور جو ایمان نہ لائے اللہ اور اس کے رسول پر، تو ایسے کافروں کے لیے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے۔
ان اللہ لعن الکفرین واعد لھم سعیرا خالدین فیھا ابدا لا یجدون الیا ولا نصیرا یوم تقلب وجوھھم فی النار یقولون یالیتنا اطعنا اللہ و اطعنا الرسولا (الاحزاب: 64، 65، 66)
یقینا اللہ نے لعنت کی کافروں پر اور ان کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر دی جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہ اس روز کوئی حامی و مددگار نہ پائیں گے۔ جب ان کے چہرے آگ پر پلٹائے جائیں گے۔ اس وقت وہ کہیں گے کہ کاش ہم نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی اور رسول کی اطاعت کی ہوتی۔
وما منعھم ان تقبل منھم نفقتھم الا انھم کفروا باللہ وبرسولہ (التوبہ:54)
ان کے نفاق کو قبول ہونے سے کسی چیز نے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ انہوں نے کفر کیا، اللہ اور اس کے رسول سے۔
ان تستغفر لھم سبعین مرۃ فلن یغفر اللہ لھم ذالک بانھم کفروا باللہ و رسولہ (التوبہ:80)
اے نبی اگر تم ان کے لیے ستر بار مغفرت کی دعا کرو تو اللہ انہیں نہ بخشنے گا۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے۔
ولا تصل علیٰ احد منھم مات ابدا ولا تقم علیٰ قبرہ انھم کفروا باللہ و رسولہ وما توارھم فاسقون (التوبہ:84)
اور ان میں سے جو کوئی مر جائے، اس کی نماز جنازہ ہر گز نہ پڑھو اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہو۔ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے اور وہ فاسق مرے ہیں۔
یا ایھا الذین امنوا اطیعوھ اللہ و اطیعوھ الرسول ولا تبطلوھ اعمالکم (محمد:33)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو باطل نہ کر لو۔
ومن یعص اللہ و رسولہ فان لہ نار جھنم خالدین فیھا ابدا (الجن:23)
اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اس کے لیے جہنم کی آگ ہے۔ ایسے لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
الم یعلموا انہ من یحادد اللہ و رسول فان لم نار جھنم خالدا فیھا (التوبہ:63)
کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرئے اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔
واللہ و رسولہ احق ان یرضوہ ان کانوا مومنین (التوبہ:62)
اللہ اور اس کا رسول اس کا زیادہ حق دار ہے کہ وہ اس کو راضی کریں اگر وہ مومن ہیں۔
ان آیات کو جو شخص بھی بغور پڑھے گا اسے معلوم ہو جائے گا کہ اگر اللہ اور رسول کے معنی کہیں حکومت کے ہو جائیں تو دین اسلام کا حلیہ بگڑ کر رہ جاتا ہے اور ایک ایسی بدترین ڈکٹیٹرشپ قائم ہو جاتی ہے جس کے سامنے فرعون اور چنگیز اور ہٹلر اور مسولینی اور اسٹالین کی آمریتیں ہیچ ہو کر رہ جائیں۔ اس کے معنی تو یہ ہیں کہ حکومت ہی مسلمانوں کا دین و ایمان ہو۔ اس کو ماننے والا مسلمان رہے اور اس سے روگردانی کرنے والا کافر ہو جائے۔ اس کی نافرمانی کرنے والا دنیا ہی میں جیل نہ جائے بلکہ آخرت میں بھی دائمی جہنم کی سزا بھگتے۔ اس سے اختلاف کر کے آدمی ابدی عذاب میں مبتلا ہو۔ اس کو راضی کرنا شرط ایمان قرار پائے اور جو شخص اس کی اطاعت سے منہ موڑے، اس کی نماز، روزہ، زکوٰۃ اور ساری نیکیاں برباد ہو جائیں، بلکہ مسلمانوں کے لیے اس کی نماز جنازہ بھی جائز نہ ہو اور اس کے لیے دعائے مغفرت تک نہ کی جا سکے۔ ایسی حکومت سے آخر دنیا کی کسی آمریت کو کیا نسبت ہو سکتی ہے۔
پھر ذرا اس پہلو پر غور کیجیئے کہ بنی امیہ کے بعد سے آج تک ساری دنیائے اسلام کبھی ایک دن کے لیے بھی ایک حکومت میں جمع نہیں ہوئی ہے اور آج بھی مسلم ممالک میں بہت سی حکومتیں قائم ہیں۔ اب کیا انڈونیشیا، ملایا، پاکستان، ایران، ترکی، عرب، مصر، لیبیا، تونس اور مراکش میں سے ہر ایک کے ” اللہ اور رسول” الگ الگ ہوں گے؟ یا کسی ایک ملک کے ” اللہ اور رسول” زبردستی اپنی آمریت دوسرے ملکوں پر مسلط کریں گے؟ یا اسلام میں اس وقت تک پورا کا پورا معطل رہے گا جب تک پوری دنیائے اسلام متفق ہو کر ایک “اللہ اور رسول” کا انتخاب نہ کر لے؟
21 – عہد رسالت میں مشاورت کے حدود کیا تھے؟
اعتراض : “اگر بحیثیت صدر ریاست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم وحی پر مبنی ہوتا تھا تو پھر آپ کو مشورے کا حکم کیوں دیا گیا تھا؟ آپ نے زیر نظر خط و کتابت میں اس سلسلے میں یہ لکھا ہے کہ حضور نے اپنی 23 سالہ نبوت کی زندگی میں جو کچھ کہا، یا کیا وہ سب وحی کی بنا پر تھا اور اب آپ ” تدابیر ” کو اس سے خارج کر رہے ہیں۔”
جواب : جن معاملات میں بھی اللہ تعالٰی وحی متلو یا غیر متلو کے ذریعہ سے حضور کی رہنمائی نہ کرتا تھا ان میں اللہ تعالٰی ہی کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق حضور یہ سمجھتے تھے کہ اسے انسانی رائے پر چھوڑ دیا گیا ہے، اور ایسے معاملات میں آپ اپنے اصحاب سے مشورہ کر کے فیصلے فرماتے تھے۔ اس سے مقصود یہ تھا کہ حضور کے ذریعہ سے لوگوں کو اسلامی طریق مشاورت کی تربیت دے دی جائے۔ مسلمانوں کو اس طرح کی تربیت دینا خود فرائض رسالت ہی کا ایک حصہ تھا۔
22 – اذان کا طریقہ مشورے سے طے ہوا تھا یا الہام سے؟
اعتراض : آپ نے لکھا ہے کہ “کیا آپ کوئی ایسی مثال پیش کر سکتے ہیں کہ عہد رسالت میں قرآن کے کسی حصے کی تعبیر مشورے سے کی گئی ہو یا کوئی قانون مشورے سے بنایا گیا ہو؟ بہت سی نہیں صرف ایک مثال ہی آپ پیش فرما دیں۔” اس کی ایک مثال تو ہمیں مشکوۃ شریف میں ملتی ہے۔ اللہ تعالٰی نے قرآن میں نماز کے لیے آواز دینے کا حکم دیا۔ لیکن خود اس دعوت کے طریق کو متعین نہیں کیا۔ اس کا تعین حضور نے صحابہ کے مشورے سے کیا اور اپنی رائے کے خلاف کیا۔ کیونکہ آپ نے پہلے ناقوس بجانے کا حکم دیا تھا۔ فرمائیے اذان دین کے احکام میں داخل ہے یا نہیں؟”
جواب : کیا قرآن کی کسی آیت کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جس میں نماز کے لیے آواز دینے کا حکم دیا گیا ہو؟ قرآن مجید میں تو نماز کی منادی کا ذکر صرف دو آیتوں میں آیا ہے۔ سورۃ مائدہ آیت 58 میں فرمایا گیا ہے کہ “جب تم نماز کے لیے منادی کرتے ہو تو یہ اہل کتاب اور کفار اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔” اور سورۃ جمہ آیت 9 میں ارشاد ہوا ہے “جب جمہ کے روز نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو۔” ان دونوں آیتوں میں نماز کی منادی کا ذکر ایک رائج شدہ نظام کی حیثیت سے کیا گیا ہے۔ ہم کو قرآن میں وہ آیت کہیں نہیں ملتی جس میں حکم دیا گیا ہو کہ نماز کی منادی کرو۔
جہاں تک مشکوۃ کے حوالے کا تعلق ہے، معلوم ہوتا ہے وہ مشکوۃ پڑھ ۔۔۔۔۔۔ نہیں دیا گیا بلکہ صرف سنی سنائی بات یہاں نقل کر دی گئی ہے۔ مشکوۃ کی کتاب الصلوۃ میں باب الاذان نکال کر دیکھئے۔ اس میں جو احادیث جمع کی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ طیبہ میں جب جماز باجماعت کا باقاعدہ نظام قائم کیا گیا تو اول اول اللہ تعالٰی کی طرف سے کوئی ہدایت اس بارے میں نہیں آئی تھی کہ نماز کے لیے لوگوں کو کس طرح جمع کیا جائے۔ حضور نے صحابہ کرام کو جمع کر کے مشورہ کیا۔ بعض لوگوں نے رائے دی کہ آگ جلائی جائے تا کہ اس کا دھواں بلند ہوتے دیکھ کر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ نماز کھڑی ہو رہی ہے۔ بعض دوسرے لوگوں نے ناقوس بجانے کی رائے دی لیکن کچھ اور لوگوں نے کہا کہ پہلا طریقہ یہود کا اور دوسرا نصاریٰ کا ہے۔ ابھی اس معاملہ میں کوئی آخری فیصلہ نہ ہوا تھا اور اسے سوچا جا رہا تھا کہ حضرت عبداللہ بن زید انصاری نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص ناقوس لیے جا رہا ہے۔ انہوں نے اس سے کہا، اے بندہ خدا، یہ ناقوس بیچتا ہے؟ اس نے پوچھا اس کا کیا کرو گے؟ انہوں نے کہا نماز کے لیے لوگوں کو بلائیں گے۔ اس نے کہا میں اس سے اچھا طریقہ تمہیں بتاتا ہوں۔ چنانچہ اس نے اذان کے الفاظ انہیں بتائے۔ صبح ہوئی تو حضرت عبداللہ نے آ کر حضور کو اپنا خواب سنایا۔ حضور نے فرمایا کہ یہ سچا خواب ہے، اٹھو اور بلال کو ایک ایک لفظ بتاتے جاؤ، یہ بلند آواز سے پکارتے جائیں گے۔ جب اذان کی آواز بلند ہوئی تو حضرت عمر دوڑتے ہوئے آئے اور عرض کیا کہ خدا کی قسم آج میں نے بھی یہی خواب دیکھا ہے۔ حضور نے فرمایا فللہ الحمد۔ یہ ہے مشکوۃ کی احادیث اور باب اذان کا خلاصہ۔ اس سے جو کچھ ظاہر ہوتا ہے وہ یہ کہ الہام سے ہوا ہے، اور یہ الہام بصورت خواب حضرت عبد اللہ بن زید اور حضرت عمر پر ہوا تھا لیکن مشکوۃ کے علاوہ دوسرے کتب حدیث میں جو روایات آئی ہیں ان سب کو اگر جمع کیا جائے تو ان سے ثابت ہوتا ہے کہ جس روز ان صحابیوں کو خواب میں اذان کی ہدایت ملی اسی روز خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی بذریعہ وحی یہ حکم آ گیا تھا۔ فتح الباری میں علامہ ابن حجر نے ان روایات کو جمع کر دیا ہے۔
23 – حضور کے عدالتی فیصلے سند و حجت ہیں یا نہیں؟
اعتراض : “آپ کے دعوے کے مطابق حضور کے ہر فیصلہ وحی پر مبنی ہونا چاہیے۔ لیکن آپ کو خود اس کا اعتراف ہے کہ آپ کے یہ فیصلے وحی پر مبنی نہیں ہوتے تھے۔ چنانچہ آپ نے تفہیم القرآن، جلد اول، صفحہ 148 پر یہ حدیث نقل کی ہے کہ حضور نے فرمایا :
“میں بہرحال ایک انسان ہی تو ہوں، ہو سکتا ہے کہ تم ایک مقدمہ میرے پاس لاؤ اور تم میں سے ایک فریق دوسرے کی نسبت زیادہ چرب زبان ہو اور اس کے دلائل سن کر میں اس کے حق میں فیصلہ کر دوں۔ مگر یہ سمجھ لو کہ اگر اس طرح اپنے کسی بھائی کے حق میں سے کوئی چیز تم نے میرے فیصلے کے ذریعے سے حاصل کی تو دراصل تم دوزخ کا ایک ٹکڑا حاصل کرو گے۔”
حضور کے فیصلوں کی یہی امکانی غلطیاں تھیں جن کے متعلق قرآن کریم نے حضور کی زبان مبارک سے کہلوایا تھا کہ “اگر میں غلطی کرتا ہوں تو وہ میری اپنی وجہ سے ہوتی ہے، اگر میں سیدھے راستے پر ہوں تو وہ وحی کی بنا پر ہوتا ہے۔”
جواب : یہ سخن فہمی کے فقدان کی ایک اور دلچسپ مثال ہے۔ جو شخص قانونی مسائل سے سرسری واقفیت ہی رکھتا ہو، وہ بھی اس بات کو جانتا ہے کہ ہر مقدمے کے فیصلے میں دو چیزیں الگ الگ ہوتی ہیں۔ ایک واقعات مقدمہ (Facts of the case) جو شہادتوں اور قرائن سے متحقق ہوتے ہیں۔ دوسرے، ان واقعات پر قانون کا انطباق، یعنی یہ طے کرنا کہ جو واقعات روداد مقدمہ سے معلوم ہوئے ہیں ان کے لحاظ سے اس مقدمے میں قانونی حکم کیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں جو کچھ فرمایا ہے، وہ یہ نہیں ہے کہ میں قانون کو واقعات مقدمہ پر منطبق کرنے میں غلطی کر سکتا ہوں، بلکہ آپ کے ارشاد کا صاف مطلب یہ ہے کہ تم غلط روداد پیش کر کے حقیقت کے خلاف واقعات مقدمہ ثابت کر دو گے تو میں انہی پر قانون کو منطبق کر دوں گا اور خدا کے ہاں اس کی ذمہ داری تم پر ہو گی۔ اس لیے کہ جج کا کام اسی روداد پر فیصلہ کرنا ہے جو فریقین کے بیانات اور شہادتوں سے اس کے سامنے آئے۔ کسی دوسرے خارجی ذریعہ سے اس کو حقیقت حال معلوم بھی ہو تو وہ اپنی ذاتی معلومات پر فیصلے کی بنا نہیں رکھ سکتا بلکہ اصول انصاف کی رو سے اس کو روداد مقدمہ ہی پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا غلط رودار پر جو فیصلہ ہو گا وہ جج کی غلطی نہیں ہے بلکہ اس فریق کی غلطی ہے جس نے خلاف حقیقت واقعات ثابت کر کے اپنے حق میں فیصلہ کرایا۔ اس سے اللہ تعالٰی ہر مقدمے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی واقعات مقدمہ بتایا کرتا تھا؟ اصل دعویٰ تو یہ ہے کہ حضور قانون کی تعبیر اور حقائق پر ان کے انطباق میں غلطی نہیں کر سکتے تھے کیونکہ آپ مامور میں اللہ قاضی تھے، اللہ کی دی ہوئی روشنی اس کام میں آپ کی رہنمائی کرتی تھی، اور اس بنا پر آپ کے فیصلے سند اور حجت ہیں۔ اس دعوے کے خلاف کسی کے پاس کوئی دلیل ہو تو وہ سامنے لائے۔
اوپر جس حدیث سے ڈاکٹر صاحب نے استدلال فرمایا ہے اس میں کہیں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ “میں فیصلے میں غلطی کر سکتا ہوں۔” علم قانون میں بھی یہ بات پوری طرح مسلم ہے کہ اگر عدالت کے سامنے کوئی شخص شہادتوں سے خلاف واقعہ بات کو واقعی ثابت کر دے اور جج ان کو تسلیم کر کے ٹھیک ٹھیک قانون کے مطابق فیصلہ دے دے تو وہ فیصلہ بجائے خود غلط نہیں ہو گا لیکن ڈاکٹر صاحب اسے فیصلے کی غلطی قرار دے رہے ہیں۔
————————————————
سورۃ سبا کی اس آیت سے ڈاکٹر صاھب نے پھر غلط استدلال کیا ہے، حالانکہ اس سے پہلے ان کو اس غلطی پر متنبہ کیا جا چکا ہے۔ (ملاحظہ ہو اس کتاب کا صفحہ ———-)
24 – کج بحثی کا ایک عجیب نمونہ
اعتراض : آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ حضور سے صرف چند لغزشیں ہوئی تھیں۔ یعنی اپ کا خیال یہ ہے کہ اگر حضور سے زیادہ لغزشیں ہوتیں تو یہ بات قابل اعتراض تھی لیکن چند لغزشیں قابل اعتراض نہیں۔
جواب : کس قدر نفیس خلاصہ ہے جو میری تحریر سے نکال کر خود میرے ہی سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ جس عبارت کا یہ خلاصہ نکالا گیا ہے وہ لفظ بلفظ یہ ہے :
” دوسری آیات جو آپ نے پیش فرمائی ہیں ان سے آپ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فیصلوں میں بہت سی غلطیاں کی تھیں جن میں سے اللہ میاں نے بطور نمونہ یہ دو چار غلطیاں پکڑ کر بتا دیں تاکہ لوگ ہوشیار ہو جائیں۔ حالانکہ دراصل ان سے نتیجہ بالکل برعکس نکلتا ہے۔ ان سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضور سے اپنی پوری پیغمبرانہ زندگی میں بس وہی چند لغزشیں ہوئی ہیں جن کی اللہ تعالٰی نے فورا اصلاح فرما دی، اور اب ہم پورے اطمینان کے ساتھ اس پوری سنت کی پیروی کر سکتے ہیں جو آپ سے ثابت ہے، کیونکہ اگر اس میں کوئی اور لغزش ہوتی تو اللہ تعالٰی اس کو بھی برقرار نہ رہنے دیتا جس طرح ان لغزشوں کو اس نے برقرار نہیں رہنے دیا۔”
اس کا خلاصہ یہ نکالا گیا ہے کہ “حضور سے زیادہ لغزشیں ہوتیں تو یہ بات قابل اعتراض تھی، لیکن چند لغزشیں قابل اعتراض نہیں ہیں۔” یہ طرز بحث جن لوگوں کا ہے ان کے بارے میں کس طرح آدمی یہ حسن ظن رکھ سکتا ہے کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ بات سمجھنے کے لیے گفتگو کرتے ہیں۔
اعتراض : “اگر حضور کی ہر بات وحی پر مبنی ہوتی تھی تو حضور کی ایک لغزش بھی دین کے سارے نظام کو درہم برہم کرنے کے لیے کافی تھی۔ ال لیے کہ وہ غلطی کسی انسان کی غلطی نہیں تھی بلکہ (معاذ اللہ) وحی کی غلطی تھی۔ خود خدا کی غلطی تھی اور اگر (معاذ اللہ) خدا بھی غلطی کر سکتا ہے تو ایسے خدا پر ایمان کے کیا معنی ہو سکتے ہیں؟”
جواب : یہ ایک مغالطے کے سوا اور کیا ہے۔ آخر یہ کس نے کہا کہ وحی کے ذریعہ سے اللہ تعالٰی نے پہلے غلط رہنمائی کی تھی۔ اس بنا پر حضور سے لغزش ہوئی۔ اصل بات جس کو ہٹ دھرمی کے بغیر باآسانی سمجھا جا سکتا ہے، یہ ہے کہ حضور کی ایک لغزش تھی چونکہ دین کے سارے نظام کو درہم برہم کر دینے کے لیے کافی تھی، اسلیے اللہ تعالٰی نے یہ کام اپنے ذمہ لیا تھا کہ نبوت کے فرائض کی بجاآوری میں وہ خود آپ کی رہنمائی و نگرانی کرے گا، اور اگر کسی وقت بتقاضائے بشریت آپ سے کوئی لغزش ہو جائے تو فورا اس کی اصلاح فرما دے گا تاکہ دین کے نظام میں کوئی خامی باقی نہ رہ سکے۔
25 – حضور کے ذاتی خیال اور بربنائے وحی کہی ہوئی بات میں واضح امتیاز تھا۔
اعتراض : آپ فرماتے ہیں کہ حضور نے اپنی نبوت کی پوری زندگی میں جو کچھ کیا یا فرمایا وہ وحی کی بنا پر تھا لیکن دجال سے متعلق احادیث کے سلسلے میں آپ کا ارشاد یہ ہے :
“ان امور کے متعلق جو مختلف باتیں حضور سے احادیث میں منقول ہیں، وہ دراصل آپ کے قیاسات ہیں جن کے بارے میں آپ خود شک میں تھے۔” (رسائل و مسائل، ص 55)
اور اس کے بعد آپ خود ہی اس کا اعتراف کر لیتے ہیں کہ :
“حضور کا یہ تردد تو خود ظاہر کرتا ہے کہ یہ باتیں آپ نے علم وحی کی بنا پر نہیں فرمائی تھیں بلکہ اپنے گمان کی بنا پر فرمائی تھیں۔” (رسائل و مسائل، ص 56)
جواب : میری جن عبارات کا یہاں سہارا لیا جا رہا ہے ان کو نقل کرنے میں پھر وہی کرتب دکھایا گیا ہے کہ سیاق و سباق سے الگ کر کے ایک فقرہ کہیں سے اور ایک کہیں سے نکال کر اپنا مطلب برآمد کر لیا گیا ہے۔ دراصل جو بات ایک مقام پر میں نے کہی ہے وہ یہ ہے کہ دجال کے متعلق حضور کو وحی کے ذریعہ سے جو علم دیا گیا تھا وہ صرف اس حد تک تھا کہ وہ آئے گا اور ان ان صفات کا حامل ہو گا۔ انہی باتوں کو حضور نے خبر کے طور پر بیان فرمایا ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ وہ کب اور کہاں آئے گا تو اس کے متعلق جو کچھ آپ نے بیان فرمایا ہے وہ خبر کے انداز میں نہیں بلکہ قیاس و گمان کے انداز میں فرمایا ہے۔ مثال کے طور پر ابن صیاد کے متعلق اپ نے شبہ ظاہر فرمایا کہ شاید یہ دجال ہو۔ لیکن جب حضرت عمر نے اسے قتل کرنا چاہا تو حضور نے فرمایا کہ اگر یہ دجال ہے تو اس کے قتل کرنے والے تم نہیں ہو، اور اگر یہ دجال نہیں ہے تو تمہیں ایک ذمی کو قتل کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ “اگر دجال میری زندگی میں آ گیا تو میں حجت سے اس کا مقابلہ کروں گا، ورنہ میرے بعد میرا رب تو ہر مومن کا حامی و ناصر ہے ہی۔” اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضور وحی کے ذریعہ سے ملے ہوئے علم کو ایک انداز میں بیان فرماتے تھے اور جن باتوں کا علم آپ کو وحی کے ذریعہ سے نہیں دیا جاتا تھا ان کا ذکر بالکل مختلف انداز میں کرتے تھے۔ آپ کو طرز بیان ہی اس فرق کو واضح کر دیتا تھا، لیکن جہاں صحابہ کو اس فرق کے سمجھنے میں کوئی مشکل پیش آتی تھی وہاں وہ خود آپ سے پوچھ لیتے تھے کہ یہ بات آپ اپنی رائے سے فرما رہے ہیں یا اللہ تعالٰی کے حکم سے۔ اس کی متعدد مثالیں میں نے تنہیمات حصہ اول کے مضمون ” آزادی کا اسلامی تصور” میں پیش کی ہیں۔
26 – کیا صحابہ اس بات کے قائل تھے کہ حضور کے فیصلے بدلے جا سکتے ہیں؟
اعتراض : ” میں نے لکھا تھا کہ کئی ایسے فیصلے جو رسول اللہ کے زمانے میں ہوئے لیکن حضور کے بعد جب تغیرات حالات کا تقاضا ہوا تو خلفائے راشدین نے ان فیصلوں کو بدل دیا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ ان بزرگوں پر سخت بہتان ہے جس کے ثبوت میں آپ نہ ان کا کوئی قول پیش کر سکتے ہیں، نہ عمل۔ آپ یہ معلوم کر کے متعجب ہوں گے کہ اس باب میں خود آپ نے ایک ہی صفحہ آگے چل کر اس امر کا بین ثبوت پیش کر دیا ہے کہ صحابہ کبار حضور کے فیسلے کو تغیر حالات کے مطابق قابل ترمیم سمجھتے تھے۔ سنئے کہ اپ نے کیا لکھا ہے :
“کس کو معلوم نہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق نے حضور کی وفات کے بعد جیش اسامہ کو بھیجنے پر صرف اس لیے اصرار کیا کہ جس کام کا فیصلہ حضور اپنی زندگی میں کر چکے تھے، اسے بدل دینے کا وہ اپنے آپ کو مجاز نہ سمجھتے تھے۔ صحابہ کرام نے جب ان خطرات کی طرف توجہ دلائی جن کا طوفان عرب میں اٹھتا ہوا نظر آ رہا تھا اور اس حالت میں شام کر طرف فوج بھیج دینے کو نامناسب قرا ر دیا تو حضرت ابوبکر کا جواب یہ تھا کہ اگر کتے اور بھیڑیئے بھی مجھے اچک لے جائیں تو میں اس فیصلے کو نہ بدلوں گا جو رسول اللہ نے کر دیا تھا۔” (ترجمان، نومبر 60 عیسوی، ص 113)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر کے سوا باقی تمام صحابہ اس بات کو جائز سمجھتے تھے کہ حالات کے تغیر کے ساتھ، رسول اللہ کے فیصلے کو بدلا جا سکتا ہے۔
پھر آپ نے لکھا ہے :
“حضرت عمر نے خواہش ظاہر کی کہ کم از کم اسامہ کو ہی اس لشکر کی قیادت سے ہٹا دیں، کیونکہ بڑے بڑے صحابہ اس نوجوان لڑکے کی ماتحتی میں رہنے سے خوش نہیں ہیں تو حضرت ابوبکر نے ان کی داڑھی پکڑ کر فرمایا کہ خطاب کے بیٹے! تیری ماں مجھے روئے اور تجھے کھو دے، رسول اللہ نے اس کو مقرر کیا اور تو کہتا ہے کہ میں اسے ہٹا دوں۔” (ایضا)
اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر اس کے قائل تھے کہ تغیر حالات سے حضور کے فیصلے بدلے جا سکتے ہیں بلکہ اس واقعہ میں تغیر حالات کا بھی سوال نہیں تھا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ (ایک حضرت ابوبکر کے سوا) صحابہ میں سے کوئی بھی اس بات کو نہیں سمجھتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کسی حالت میں بھی بدلے نہیں جا سکتے؟
جواب : یہ ایک اور مثال ہے اس بات کی کہ منکرین حدیث ہر عبارت میں صرف اپنا مطلب تلاش کرتے ہیں۔ اوپر حضرت ابوبکر کے جو دو واقعات نقل کیے گئے ہیں ان کو پھر پڑھ کر دیکھ لیجئے۔ کیا ان میں یہ بات بھی کہیں مذکور ہے کہ حضرت ابوبکر نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو بدلنے سے انکار کیا تو حضرت عمر نے، یا صحابہ کرام میں سے کسی نے یہ کہا ہو کہ “اے حضور مرکز ملت، اب ازروئے شرع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں کے پابند نہیں ہیں بلکہ انہیں بدل دینے کا پورا اختیار رکھتے ہیں۔ اگر آپ کی اپنی رائے یہی ہے کہ اس وقت جیش اسامہ کو جانا چاہیے اور اسامہ ہی اس کے قائد ہوں تو بات دوسری ہے۔ آپ اس پر عمل فرمائیں کیونکہ آپ “اللہ اور رسول” ہیں، لیکن یہ استدلال نہ فرمایئے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے اس لیے اسے نہیں بدلا جا سکتا۔ حضور اپنے زمانے کے مرکز ملت تھے اور آپ اپنے زمانے کے مرکز ملت ہیں۔ آج آپ کے اختیارات وہی ہیں جو کل حضور کو حاصل تھے۔” یہ بات اگر حضرت عمر یا دوسرے صحابہ نے کہی ہوتی تو بلاشبہ منکرین حدیث کی بات بن جاتی۔ لیکن اس کے برعکس وہاں معاملہ یہ پیش آیا کہ جس وقت حضرت ابوبکر نے حضور کے فیصلے کا حوالہ دیا اسی وقت حضرت عمر نے بھی اور صحابہ نے بھی سر اطاعت جھکا دیا۔ جیش اسامہ روانہ ہوا، اسامہ ہی اس کے قائد رہے اور بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ ان کی قیادت میں راضی خوشی چلے گئے۔ اس سے زیادہ سے زیادہ جو کچھ ثابت ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ حضور کے بعد بعض حضرات کو یہ غلط فہمی لاحق ہوئی تھی کہ آپ کے انتظامی فیصلوں میں حسب ضرورت رد و بدل کیا جا سکتا ہے، لیکن اس وقت دین کے فہم میں جو شخص سب سے بڑھا ہوا تھا اس کے متنبہ کرنے پر سب نے اپنی غلطی محسوس کر لی اور سر تسلیم خم کر دیا۔ یہ طرز عمل بہت افسوسناک ہے کہ محض اپنی بات بنانے کی خاطر صحابہ کرام کے ان تاثرات کا تو سہارا لے لیا جائے جن کا اظہار فقط بحث کے دوران ہوا۔ لیکن اس اجتماعی فیصلے سے آنکھیں بند کر لی جائیں جس پر بحث کے بعد آخر کار سب کا اتفاق ہو گیا ہو۔ دنیا بھر کا مسلم قاعدہ تو یہ ہے کہ ایک بحث کے بعد جو بات متفق علیہ طور پر طے ہو، وہی طے شدہ فیصلہ قابل حجت ہے نہ کہ وہ آراء جو اثنائے بحث سامنے آئی ہوں۔
27 – مسئلہ طلاق ثلاثہ میں حضرت عمر کے فیصلے کی اصل نوعیت
اعتراض : آپ فرماتے ہیں کہ میں کوئی مثال پیش کروں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے کسی فیصلے کو خلفائے راشدین نے بدلا ہو۔ اس سے تو آپ بھی انکار نہیں کریں گے کہ نبی اکرم کے زمانے میں ایک مجلس میں دی ہوئی تین طلاقوں کو ایک شمار کر کے طلاق رجعی قرار دیا جاتا تھا۔ حضرت عمر نے اپنے زمانے میں اسے تین شمار کر کے طلاق مغلظہ قرار دے دیا اور فقہ کی رو سے امت آج تک اسی پر عمل کر رہی ہے۔
جواب : اس معاملہ میں پوزیشن یہ ہے کہ حضور کے زمانے میں بھی تین طلاق تین ہی سمجھی جاتی تھیں اور متعدد مقامات میں حضور نے ان کو تین ہی شمار کر کے فیصلہ دیا ہے لیکن جو شخص تین مرتبہ طلاق کا الگ الگ تلفظ کرتا تھا اس کی طرف سے اگر یہ عذر پیش کیا جاتا کہ اس کی نیت ایک ہی طلاق کی تھی اور باقی دو مرتبہ ان نے یہ لفظ محض تاکیداً استعمال کیا تھا۔ اس کے عذر کو حضور قبول فرما لیتے تھے۔ حضرت عمر نے اپنے عہد میں جو کچھ کیا، وہ صرف یہ ہے کہ جب لوگ کثرت سے تین طلاقیں دے کر ایک طلاق کی نیت کا عذر پیش کرنے لگے تو انہوں نے فرمایا کہ اب یہ طلاق کا معاملہ کھیل بنتا جا رہا ہے اس لیے ہم اس عذر کو قبول نہیں کریں گے اور تین طلاقوں کو تین ہی کی حیثیت سے نافذ کر دیں گے۔ اس کو تمام صحابہ نے بالاتفاق قبول کیا اور بعد میں تابعین و ائمہ مجتہدین بھی اس پر متفق رہے۔ ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ حضرت عمر نے عہد رسالت کے قانون میں یہ کوئی ترمیم کی ہے۔ اس لیے کہ نیت کے عذر کو قبول کرنا قانون نہیں بلکہ اس کا انحصار قاضی کی اس رائے پر ہے کہ جو شخص اپنی نیت بیان کر رہا ہے، وہ صادق القول ہے۔ حضور کے زمانے میں اس طرح کا عذر مدینہ طیبہ کے اکا دکا جانے پہچانے آدمیوں نے کیا تھا۔ اس لیے حضور نے ان کو راست باز آدمی سمجھ کر ان کی بات قبول کر لی۔ حضرت عمر کے زمانے میں ایران سے مصر تک اور یمن سے شام تک پھیلی ہوئی سلطنت کے ہر شخص کا یہ عذر عدالتوں میں لازما قابل تسلیم نہیں ہو سکتا تھا، خصوصا جبکہ بکثرت لوگوں نے تین طلاق دے کر ایک طلاق کی نیت کا دعویٰ کرنا شروع کر دیا ہو۔
28 – مولفۃ القلوب کے بارے میں حضرت عمر کے استدلال کی نوعیت
اعتراض : “حضور کے زمانے میں مولفۃ القلوب کو صدقات کی مد سے امداد دی جاتی تھی۔ حضرت عمر نے اپنے زمانے میں اسے ختم کر دیا۔۔”
جواب : اسے اگر کوئی شخص فیصلوں میں رد و بدل کی مثال سمجھتا ہے تو اسے دعویٰ یہ کرنا چاہیے کہ حضور کے نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کے فیصلوں میں بھی مرکز ملت صاحب رد و بدل کر سکتے ہیں۔ اس لیے کہ صدقات میں مولفۃ القلوب کا حصہ حضور نے کسی حدیث میں نہیں بلکہ اللہ تعالٰی نے خود قرآن میں مقرر فرمایا ہے۔ (ملاحظہ ہو سورۃ توبہ آیت : 6)۔ ڈوبتے وقت تنکے کا سہارا لینے کی کیفیت اگر منکرین حدیث پر طاری نہ ہو اور وہ اس معاملہ کی حقیقت سمجھنا چاہیں تو خود لفظ “مولفتہ القلوب” پر تھوڑا سا غور کر کے اسے خود سمجھ سکتے ہیں۔ یہ لفظ آپ ہی اپنا یہ مفہوم ظاہر کر رہا ہے کہ صدقات میں سے ان لوگوں کو بھی روپیہ دیا جا سکتا ہے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو۔ حضرت عمر کا استدلال یہ تھا کہ حضور کے زمانے میں اسلامی حکومت کو تالیف قلب کے لیے مال دینے کی ضرورت تھی اس لیے حضور اس مد سے لوگوں کو دیا کرتے تھے۔ اب ہماری حکومت اتنی طاقتور ہو گئی ہے کہ ہمیں اس غرض کے لیے کسی کو روپیہ دینے کی حاجت نہیں ہے لہٰذا ہم اس مد میں کوئی روپیہ صرف نہیں کریں گے۔ کیا اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت عمر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کا کوئی فیصلہ بدل ڈالا؟ کیا واقعی حضور کا فیصلہ یہی تھا کہ تالیف قلب کی حاجت ہو یا نہ ہو، بہرحال کچھ لوگوں کو ضرور مولفتہ القلوب قرار دیا جائے اور صدقات میں سے ہمیشہ ہمیشہ ان کا حصہ نکالا جاتا رہے؟ کیا خود قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے بھی یہ لازم قرار دیا ہے کہ صدقات کا ایک حصہ تالیف قلب کی مد پر ہر حال میں ضرور ہی خرچ کیا جائے؟
29 – کیا مفتوحہ اراضی کے بارے میں حضرت عمر کے فیصلہ حکم رسول کے خلاف تھا؟
اعتراض : “نبی اکرم کے زمانے میں مفتوحہ زمینیں مجاہدین میں تقسیم کر دی گئی تھیں۔ لیکن حضرت عمر نے اپنے عہد میں اس سسٹم کو ختم کر دیا۔”
جواب : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ کبھی نہیں فرمایا تھا کہ مفتوحہ زمینیں ہمیشہ مجاہدین میں تقسیم کی جاتی رہیں۔ اگر ایسا کوئی حکم حضور نے دیا ہوتا اور حضرت عمر نے اس کے خلاف عمل کیا ہوتا تو آپ کہہ سکتے تھے کہ انہوں نے حضور کا فیصلہ بدل دیا یا پھر یہ دعویٰ اس صورت میں کیا جا سکتا تھا جبکہ حضرت عمر نے انہی زمینوں کو مجاہدین سے واپس لے لیا ہوتا جنہیں حضور نے اپنے عہد میں تقسیم کیا تھا لیکن ان دونوں میں سے کوئی بات بھی پیش نہیں آئی۔ اصل صورت معاملہ یہ ہے کہ مفتوحہ زمینوں کو لازما مجاہدین ہی میں تقسیم کر دینا سرے سے کوئی اسلامی قانون تھا ہی نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مفتوحہ اراضی کے معاملے میں حسب موقع و ضرورت مختلف مواقع پر مختلف فیصلے فرمائے تھے۔ بنی نضیر، بنی قر۔۔۔، خیبر، فدک، وادی القریٰ، مکہ اور طائف کی مفتوحہ اراضی میں سے ہر ایک کا بندوبست عہد رسالت میں الگ الگ طریقوں سے کیا گیا تھا اور ایسا کوئی ضابطہ نہیں بنایا گیا تھا کہ آئیند ایسی اراضی کا بندوبست لازماً فلاں طریقے یا طریقوں ہی پر کیا جائے۔ اس لیے حضرت عمر نے اپنے عہد میں صحابہ کے مشورہ سے اراضی مفتوحہ کا جو بندوبست کیا، اسے حضور کے فیصلوں میں رو و بدل کی مثال نہیں قرار دیا جا سکتا۔
30 – وظائف کی تقسیم کے معاملہ میں حضرت عمر کا فیصلہ
اعتراض : ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی وظائف مساوی مقرر فرمائے تھے لیکن حضرت عمر نے انہیں خدمات کی نسبت سے بدل دیا۔ یہ اور اس قسم کی کئی مثالیں ملتی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اکرم کے فیصلے تغیر حالات کے مطابق خلافت راشدہ میں بدلے گئے تھے۔”
جواب : اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ حضور نے مساوی وظائف مقرر فرمائے تھے؟ تاریخ کی رو سے تو یہ حضرت ابوبکر کا فعل تھا۔ اس لیے اسے اگر کسی چیز کی مثال قرار دیا جا سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ ایک خلیفہ اپنے سے پہلے خلیفہ کے فیصلوں میں رد و بدل کرنے کا مجاز ہے۔
میں عرض کرتا ہوں کہ تمام منکرین حدیث مل کر اس طرح کی مثالوں کی ایک مکمل فہرست پیش فرما دیں۔ میں انشا اللہ ثابت کر دوں گا کہ ان میں سے ایک بھی اس امر کی مثال نہیں ہے کہ خلافت راشدہ کے دور میں حضور کے فیصلے بدلے گئے تھے۔
31 – کیا قرآن کے معاشی احکام عبوری دور کے لیے ہیں؟
اعتراض : “آپ نے میری اس بات کا بھی مذاق اڑایا ہے کہ قرآن کے جو احکام بعض شرائط سے مشروط ہوں جب وہ شرائط باقی نہ رہیں تو وہ احکام اس وقت تک ملتوی ہو جاتے ہیں جب تک ویسے ہی حالات پیدا نہ ہو جائیں۔ انہیں “عبوری دور” کے احکام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ صدقات کی مد سے مولفتہ القلوب کو امداد دینے کا حکم قرآن کریم میں موجود ہے۔ حضرت عمر اس مد کو یہ کہہ کر ختم کر دیتے ہیں کہ یہ حکم اس عبوری دور تک تھا، جب تک نظام کو اس قسم کی تالیف قلوب کی ضرورت تھی۔ اب وہ ضرورت باقی نہیں رہتی اس لیے اس حکم پر عمل کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ یہی منشا ہوتا ہے ان لوگوں کا جو قرآن کے اس قسم کے احکام کو “عبوری دور کے احکام” کہتے ہیں۔”
جواب :اس سخن سازی سے درحقیقت بات نہیں بنتی۔ منکرین حدیث شخصی ملکیت کے بارے میں پورا پورا کیمونسٹ نقطہ نظر اختیار کرتے ہیں اور اس کا نام انہوں نے “قرآنی نظام ربوبیت” رکھا ہے۔ اس کے متعلق جب ان سے کہا جاتا ہے کہ قرآن مجید میں معاشی نظام کے متعلق جتنے بھی احکام صراحتا یا اشارۃ و کنایتۃ آئے ہیں وہ سب شخسی ملکیت کا اثبات کرتے ہیں اور کوئی ایک حکم بھی ہمیں ایسا نہیں ملتا جو شخصی ملکیت کی نفی پر مبنی ہو یا اسے ختم کرنے کا منشا ظاہر کرتا ہو، تو وہ جواب دیتے ہیں کہ وہ سب احکام عبوری دور کے لیے ہیں۔ بالفاظ دیگر جب یہ عبوری دور ختم ہو جائے گا اور ان حضرات کا تصنیف کردہ نظام ربوبیت قائم ہو جائے گا تو یہ سب احکام منسوخ ہو جائیں گے۔ جناب پرویز صاحب صاف الفاظ میں فرماتے ہیں :
“(سوال کیا جاتا ہے) کہ اگر قرآن کا نظام معاشی اسی قسم کا ہے تو پھر اس نے صدقہ، خیرات، وراثت وغیرہ سے متعلق احکام کیوں دیئے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن ان نظام کو یک لخت نہیں لے آنا چاہتا۔ بتدریج قائم کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا صدقہ، خیرات، وراثت وغیرہ کے احکام ان عبوری دور سے متعلق ہیں جس میں ہنوز نظام اپنی آخری شکل میں قائم نہ ہوا۔” (ملاحظہ ہو بین الاقوامی مجلس مذاکرہ میں پیش کردہ مقالہ “اسلامی نظام میں معشیات۔”
لیکن یہ حضرات قرآن میں کہیں یہ نہیں دکھا سکتے کہ ان کے بیان کردہ نظام ربوبیت کا کوئی نقشہ اللہ تعالٰی نے پیش کیا ہو اور اس کے متعلق احکام دیئے ہوں اور یہ ارشاد فرمایا ہو کہ ہمارا اصل مقصد تو یہی نظام ربوبیت قائم کرنا ہے، البتہ صدقہ و خیرات اور وراثت وغیرہ کے احکام ہم اس وقت تک کے لیے دے رہے ہیں، جب تک یہ نظام قائم نہ ہو جائے۔ یہ سب کچھ ان حضرات نے خود گھڑ لیا ہے اور اس کے مقابلے میں قرآن کے واضح اور قطعی احکام کو یہ عبوری دور کے احکام قرار دے کر صاف اڑا دینا چاہتے ہیں۔ اس معاملہ کو آخر کیا نسبت ہے اس بات سے جو حضرت عمر نے مولفتہ القلوب کے بارے میں فرمائی تھی۔ اس کا منشا تو صرف یہ تھا کہ جب تک ہمیں تالیف قلب کے لیے ان لوگوں کو روپیہ دینے کی ضرورت تھی، ہم دیتے تھے، اب اس کی حاجت نہیں ہے، اس لیے اب ہم انہیں نہیں دیں گے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے قرآن میں فقرا و مساکین کو صدقہ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس حکم کے مطابق ہم ایک شخص کو اسی وقت تک زکوٰۃ دین گے جب تک وہ فقیر و مسکین رہے۔ جب اس کی یہ حالت نہ رہے گی تو ہم اسے دینا بند کر دیں گے۔ اس بات میں اور پرویز صاحب کے نظریہ “عبوری دور” میں کوئی دور کی مناسبت بھی نہیں ہے۔
32 – “عبوری دور” کا غلط مفہوم
اعتراض : “اس کے تو آپ خود بھی قائل ہیں کہ شریعت کا ایک حتمی فیصلہ بھی حالات کے ساز گار ہونے تک ملتوی رکھا جا سکتا ہے۔ مثلا آئین پاکستان کے سلسلے میں آپ نے کہا تھا کہ “ایک اسلامی ریاست کے نظم کو چلانے میں غیر مسلموں کی شرکت شرعا اور عقلا دونوں طور پر صحیح نہیں لیکن سردست ایک عارضی بندوبست کی حیثیت سے ہم اس کو جائز اور مناسب سمجھتے ہیں کہ ان کو ملک کی پارلیمنٹ میں نمائندگی دی جائے۔” (ترجمان القرآن، ستمبر 1952، ص 430-431)
جواب : یہ معاملہ بھی منکرین حدیث کے نظریہ سے بالکل مختلف ہے۔ غیر مسلموں کے متعلق تو ہمیں مثبت طور پر معلوم ہے کہ اسلام اپنا نظام حکومت چلانے کی ذمہ داری میں انہیں شریک نہیں کرتا۔ اس لیے ہمارا یہ فرض ہے کہ اس پالیسی کو نافذ کریں، اور جب تک ہم اسے نافذ کرنے پر قادر نہیں ہوتے اس وقت تک مجبورا جو کچھ بھی کریں ایک عارضی انتظام کی حیثیت سے کریں بخلاف اس کے منکرین حدیث ایک نظام ربوبیت خود تصنیف کرتے ہیں جس کے متعلق قرآن کا کوئی ایک مثبت حکم بھی وہ نہیں دکھا سکتے، اور شخصی ملکیت کے اثبات پر جو واضح اور قطعی احکام قرآن میں ہیں ان کو وہ عبوری دور کے احکام قرار دیتے ہیں۔ ان دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ہمارے نزدیک “عبوری دور” کی تعریف یہ ہے کہ قرآن کے ایک حکم یا اس کے دیئے ہوئے کسی قاعدے اور اصول پر عمل کرنے میں اگر کچھ موانع موجود ہیں تو ان کو دور کرنے تک عارضی طور پر جو کچھ بھی ہم مجبورا کریں گے وہ عبوری دور کا انتظام ہو گا۔ اس کے برعکس منکرین حدیث کے نزدیک ان کے اپنے تصنیف کردہ اصولوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے جب تک فضا سازگار نہ ہو، اس وقت تک وہ قرآن کے دیئے ہوئے احکام اور اس کے مقرر کیئے ہوئے اصولوں پر محض ایک عارضی انتظام کی حیثیت سے عمل کریں گے۔
33 – حضور کیا صرف شارح قرآن ہی ہیں یا شارع تھی؟
اعتراض : “ایک سوال یہ بھی سامنے آیا تھا کہ سنت قرآنی احکام و اصول کی تشریح ہے یا وہ قرآنی احکام کی فہرست میں اضافہ بھی کرتی ہے؟ صحیح بات یہ ہے کہ قرآن نے جن باتوں کو اصولی طور حکم دیا، سنت نے ان کی جزئیات متعین کر دیں۔ یہ نہیں کہ کچھ احکام قرآن نے دیئے اور اس فہرست میں سنت نے مزید احکام کا اضافہ کر دیا۔ اگر ایسی صورت ہوتی تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ قرآنی احکام نے جو فہرست دی وہ ناتمام تھی، سنت نے مزید اضافہ سے اس فہرست کی تکمیل کر دی۔ لیکن آپ نے جہاں ایک جگہ پہلی صورت بیان کی ہے دوسرے مقام پر دوسری شکل بھی بیان کر دی ہے حالانکہ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔
آپ تھوڑی سی سوجھ بوجھ رکھنے والے انسان سے بھی پوچھئے کہ (بقول آپ کے) رسول اللہ صلعم کا یہ ارشاد کہ پھوپھی بھتیجی اور خالہ بھانجی کو جمع کرنا بھی حرام ہے، قرآن کے حکم (یعنی دو بہنوں کو جمع کرنا حرام ہے) کی توضیح و تشریح ہے یا محرمات کی قرآنی فہرست میں اضافہ ہے۔ ہر سمجھ دار شخص (بشرطیکہ وہ آپ کی طرح ضدی نہ ہو یا تجاہل عارفانہ نہ کرتا ہو) یہ کہہ دے گا کہ یہ فہرست میں اضافہ ہے۔ اس سے یہ اہم سوال سامنے آتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے جہاں قرآنی فہرست میں پھوپھیوں، خالاؤں، بھانجیوں، رضاعی ماؤں اور بہنوں، بیویوں کی ماؤں اور بیٹوں کی بیویوں حتیٰ کہ پالی ہوئی لڑکیوں تک کا ذکر کر دیا ہے، اور یہ بھی کہہ دیا کہ دو بہنوں کو اکٹھا نہیں کرنا چاہیے، وہا کیا اللہ میاں کو (معاذ اللہ) یہ کہنا نہیں آتا تھا کہ پھوپھی، بھتیجی اور خالہ بھانجی کو بھی اکٹھا نہیں کیا جا سکتا۔”
جواب : اس ساری تقریر کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شارح قرآن بھی تھے اور خدا کے مقرر کردہ شارع بھی۔ ان کا منصب یہ بھی تھا کہ لنبین للناس ما نزل الیھم (لوگوں کے لیے خدا کے نازل کردہ احکام کی تشریح کریں) اور یہ کہ یحل لھم الطیبات و یحرم علیھم الخبائث (پاک چیزیں لوگوں کے لیے حلال کریں اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام کر دیں)۔ اس لیے حضور جس طرح قرآن کے قانون کی تشریح کے مجاز تھے اور آپ کی تشریح سند و حجت تھی، اسی طرح آپ تشریع کے بھی مجاز تھے اور آپ کی تشریع سند و حجت تھی۔ ان دونوں باتوں میں قطعا کوئی تضاد نہیں ہے۔
رہا پھوپھی اور خالہ کا معاملہ، تو منکرین حدیث اگر کج بحثی کی بیماری میں مبتلا نہ ہوتے تو ان کی سمجھ میں یہ بات آسانی سے آ سکتی تھی کہ قرآن نے جب ایک عورت کو اس کی بہن کے ساتھ نکاح میں جمع کرنے سے منع فرمایا تو اس سے مقصود محبت کے اس تعلق کی حفاظت کرنا تھا جو بہن اور بہن کے درمیان فطرتا ہوتا ہے اور عملا ہونا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ یہی علت باپ کی بہن اور ماں کی بہن کے معاملے میں بھی پائی جاتی ہے۔ لہٰذا پھوپھی اور بھتیجی کو، اور خالہ اور بھانجی کو بھی نکاح میں جمع کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ یہ خواہ تشریح تعبیر ہو، یا استنباط یا تشریع، بہرحال خدا کے رسول کا حکم ہے اور آغاز اسلام سے آج تک تمام امت نے بالاتفاق اسے قانون تسلیم کیاہے۔ خوارج کے ایک فرقے کے سوا کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا اور اس فرقے کا استدلال بعینہ وہی تھا جو منکرین حدیث کا ہے کہ یہ حکم چونکہ قرآن میں نہیں ہے، لہٰذا ہم اسے نہیں مانتے۔
دوسرے بحثیں جو ڈاکٹر صاحب نے اس سلسلے میں اٹھائی ہیں، وہ سب قلت علم اور قلت فہم کا نتیجہ ہیں۔ شریعت کے اہم اصولوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک معاملہ میں جو چیز علت حکم ہو رہی ہو وہی اگر کسی دوسرے معاملہ میں پائی جائے تو اس پر بھی وہی حکم جاری ہو گا مثلا قرآن میں صرف شراب (خمر) کو حرام کیا گیا تھا۔ حضور نے فرمایا کہ اس میں علت حکم اس کا نشہ آور ہونا ہے، اس لیے ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ اب صرف ایک کم علم اور نادان آدمی ہی یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ اللہ تعالٰی کا منشا اگر یہی تھا تو کیا قرآن میں بھنگ، چرس، تاڑی وغیرہ تمام مسکرات کی فہرست نہیں دی جا سکتی تھی؟
34 – بصیرت رسول کے خداداد ہونے کا مفہوم
اعتراض : “ساری بحث کا مدارس اس سوال پر ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی نازل ہوتی تھی وہ ساری کی ساری قرآن کریم میں درج ہو گئی ہے یا قرآن میں صرف وحی کا ایک حصہ داخل ہوا ہے اور دوسرا حصہ درج نہیں ہوا۔ آپ کا جواب یہ ہے کہ وحی کی دو (بلکہ کئی) قسمیں تھیں۔ ان میں سے صرف ایک قسم کی وحی قرآن میں درج ہوئی ہے۔ باقی اقسام کی وحییں قرآن میں درج نہیں ہوئی ہیں۔ میں آپ کو یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ آپ نے تفہیمات جلد اول میں یہ لکھا ہے :
“اس میں شک نہیں کہ اصولی قانون قرآن ہی ہے مگر یہ قانون ہمارے پاس بلاواسطہ نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ رسول خدا کے واسطے سے بھیجا گیا ہے۔ اور رسول کو درمیانی واسطہ اس لیے بنایا گیا ہے کہ وہ اصولی قانون کو اپنی اور اپنی امت کی عملی زندگی میں نافذ کر کے ایک نمونہ پیش کر دیں اور اپنی خداداد بصیرت سے ہمارے لیے وہ طریقے متعین کر دیں جن کے مطابق ہمیں اس اصولی قانون کو اپنی اجتماعی زندگی اور انفرادی برتاؤ میں نافذ کرنا چاہیے۔” اس کے بعد کا فقرہ جسے ڈاکٹر صاحب نے چھوڑ دیا ہے، یہ ہے :
“پس قرآن کی رو سے صحیح ضابطہ یہ ہے کہ پہلے خدا کی بھیجا ہوا اصولی قانون، پھر خدا کے رسول کا بتایا ہوا طریقہ، پھر ان دونوں کی روشنی میں ہمارے اولی الامر کا اجتہاد و اطیعوا اللہ و اطیعوھ الرسول و اولی المر منکم۔۔۔۔(النسا، رکوع  (صفحہ 237)۔
وحی کی خصوصیت یہ ہے اور اسی خصوصیت کی بنا پر وہ منزل من اللہ کہلاتی ہے کہ اس میں اس فرد کی بصیرت کو کوئی دخل نہیں ہوتا جس پر وہ وحی بھیجی جاتی ہے۔ جس “وحی ” کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے اصولی قانون کی عملی طریقے متعین فرمائے تھے۔ اگر وہ واقعی وحی منزل من اللہ تھی تو اس میں حضور کی بصیرت کو کوئی دخل نہیں ہو سکتا تھا اور اگر حضور نے اپنی بصیرت سے تجویز فرمایا تھا تو وہ وحی نہیں تھی۔ رسول کی اپنی بصیرت کتنی ہی بلند کیوں نہ ہو وہ خدا کی وحی نہیں ہو سکتی۔ ممکن ہے آپ یہ کہہ دیں کہ میں نے “خداداد بصیرت” کہا ہے اور انسانی بصیرت اور خداداد بصیرت میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ اگر آپ کا یہ جواب ہے تو میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کو جو بصیرت ملی ہے، وہ خداداد ہے یا کسی اور کی عطا کردہ؟ ہر انسانی بصیرت خداداد ہی ہوتی ہے۔
جواب : یہاں ڈاکٹر صاحب نے لفظ وحی کے معنی سمجھے میں پھر وہی غلطی کی ہے جس پر میں نے اپنے آخری خط میں ان کو متنبہ کر دیا تھا (ملاحظہ ہو کتابِ ہذا، ص 42-43) یہ منکرین حدیث کے لیے نظیر اوصاف میں سے ایک نمایاں وصف ہے کہ آپ ان کی ایک غلطی کو دس مرتبہ بھی مدلل طریقے سے غلط ثابت کر دیں، پھر بھی وہ اپنی بات دہراتے چلے جائیں گے اور آپ کی بات کا قطعا کوئی نوٹس نہ لیں گے۔
“خداداد بصیرت” سے میری مراد کوئی پیدائشی وصف نہیں ہے۔ جس طرح ہر شخص کو کوئی نہ کوئی پیدائشی وصف ملا کرتا ہے بلکہ اس سے مراد وہی بصیرت ہے جو نبوت کے ساتھ اللہ تعالٰی نے فرائض نبوت ادا کرنے کے لیے حضور کو عطا فرمائی تھی، جس کی بنا پر حضور قرآن کے مقاصد کی ان گہرائیوں تک پہنچتے تھے جن تک کوئی غیر نبی نہیں پہنچ سکتا، جس کی روشنی میں آپ اسلام کی راہ راست پر خود چلتے تھے اور دوسرں کے لیے نشانات راہ واضح کر دیتے تھے۔ یہ بصیرت لازمہ نبوت تھی جو کتاب کے ساتھ ساتھ حضور کو عطا کی گئی تھی تاکہ آپ کتاب کا اصل منشا بھی بتائیں اور معاملات زندگی میں لوگوں کی رہنمائی بھی کریں۔ اس بصیرت سے غیر انبیا کی بصیرت کو آخر کیا نسبت ہے؟ غیر نبی کو جو بصیرت بھی اللہ سے ملتی ہے، خواہ وہ قانونی بصیرت ہو یا طبی بصیرت یا کاریگری و صناعی اور دوسرے علوم و فنون کی بصیرت، وہ اپنی نوعیت میں اس نور علم و حکمت اور اس کمال فہم و ادراک سے بالکل مختلف ہے جو نبی کو کار نبوت انجام دینے کے لیے عطا کیا جاتا ہے۔ پہلی چیز خواہ کتنی ہی اونچے درجے کی ہو، بہرحال کوئی یقینی ذریعہ علم نہیں ہے کیونکہ اس بصیرت کے ذریعہ سے ایک غیر نبی جن نتائج پر بھی پہنچتا ہے ان کے متعلق علم نہیں ہے کیونکہ اس بصیرت کے زریعہ سے ایک غیر نبی جن نتائج پر بھی پہنچتا ہے ان کے متعلق وہ قطعا نہیں جانتا کہ یہ نتائج وہ خدا کی رہنمائی سے اخذ کر رہا ہے یا اپنی ذاتی فکر سے۔ اس کے برعکس دوسرے چیز اسی طرح یقینی ذریعہ علم ہے جس طرح نبی پر نازل ہونے والی کتاب یقینی ذریعہ علم ہے۔ اس لیے کہ نبی کو پورے شعور کے ساتھ یہ علم ہوتا ہے کہ یہ رہنمائی خدا کی طرف سے ہو رہی ہے لیکن منکرین حدیث کو نبی کی ذات سے جو سخت عناد ہے، اس کی وجہ سے نبی کے ہر فضل و شرف کا ذکر انہیں سیخ پا کر دیتا ہے اور وہ یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ نبی میں اور عام دانشمند انسانوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اسے اگر کوئی امتیاز حاصل ہے تو وہ صرف یہ کہ اللہ میاں نے اپنی ڈاک بندوں تک پہنچانے کے لیے اس کو نامہ بر مقرر کر دیا تھا۔
35 – وحی کی اقسام از روئے قرآن
اعتراض : ” آپ نے وحی خداوندی کی مختلف اقسام کے ثبوت میں سورۃ الشوریٰ کی آیت 51 پیش فرمائی ہے اس کا ترجمہ آپ نے یہ کیا ہے :
” کسی بشر کے لیے یہ نہیں ہے کہ اللہ اس سے گفتگو کرئے مگر وحی کے طریقے پر یا پردے کے پیچھے سے یا اس طرح کہ ایک پیغام بر بھیجے اور وہ اللہ کے اذن سے وحی کرے جو کچھ اللہ چاہتا ہو، وہ برتر اور حکیم ہے۔”
اول تو آپ نے (میری قرآنی بصیرت کے مطابق) اس آیت کے آخری حصے کے معنی ہی نہیں سمجھے۔ میں اس آیت سے یہ سمجھتا ہوں کہ اس میں اللہ تعالٰی صرف انبیائے کرام سے ہمکلام ہونے کے طریقوں کے متعلق بیان نہیں کر رہا بلکہ اس میں بتایا یہ گیا ہے کہ اس کا ہر بشر کے ساتھ بات کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ انسانوں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک حضرات انبیائے کرام اور دوسرے غیر نبی انسان۔ اس آیت کے پہلے دو حصوں میں حضرات انبیائے کرام سے کلام کرنے کے دو طریقوں کا ذکر ہے۔ ایک طریقے کو وحی سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے مطلب ہے قلب نبوی پر وحی کا نزول جو حضرت جبریل کی وساطت سے ہوتا تھا اور دوسرا طریقہ تھا براہ راست خدا کی آواز جو پردے کے پیچھے سے سنائی دیتی تھی۔ اور اس کا خصوصی ذکر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تذکرہ میں ملتا ہے۔ اس کے متعلق قرآن کریم میں وضاحت سے ہے کہ کلم اللہ موسیٰ تکلیما (164:4 ) اور دوسرے مقام پر ہے کہ حضرت موسیٰ نے اس کی خواہش ظاہر کی کہ جو ذات مجھ سے یوں پس پردہ کلام کرتی ہے میں اسے بے نقاب دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس حصے کا یہ مفہوم لینا کہ انبیائے کرام کو خوابوں خوابوں کے ذریعے وحی ملا کرتی تھی۔ کسی طرح بھی ثابت نہیں ہو سکتا۔ آیت کے تیسرے حصے میں یہ بتایا گیا ہے کہ عام انسانوں سے خدا کا بات کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ان کی طرف رسول بھیجتا ہے۔ اس رسول کی طرف خدا وحی کرتا ہے اور رسول اس وحی کو عام انسانوں تک پہنچاتا ہے۔ بالفاظ دیگر ہم جب قرآن کریم پڑھتے ہیں تو خدا ہم سے باتیں کر رہا ہوتا ہے۔”
جواب : “قرآنی بصیرت” کا جو نمونہ یہاں پیش فرمایا گیا ہے اس کا طول و عرض معلوم کرنے کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ قرآن مجید میں سورۃ شوریٰ کا پانچواں رکوع نکال کر دیکھ لیجیئے۔ جس آیت کے یہ معنی ڈاکٹر صاھب بیان فرما رہے ہیں، ٹھیک اس کے بعد والی آیت میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے :
و کذلک او حینا الیک روحا من امرنا ماکنت تدری ما الکتب ولا الایمان ولکن جعلنہ نورا نھدی بہ من نشآ من عبادنا وانک لتھدی الٰی صراط مستقیم (آیت 52 )۔
اور اس طرح (اے نبی) ہم نے وحی کی تمہاری طرف اپنے فرمان کی روح، تم کو پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے، مگر ہم نے اس کو ایک نور بنا دیا جس کے ذریعہ سے ہم رہنمائی کرتے ہیں جس کی چاہتے ہیں اپنے بندوں سے، اور یقینا تم رہنمائی کرتے ہو راہ راست کی طرف۔”
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سابقہ آیت کا کوئی حصہ بھی عام انسانوں تک کدا کی باتیں پہنچنے کی صورت بیان نہیں کر رہا ہے بلکہ اس میں صرف وہ طریقے بتائے گئے ہیں جن سے اللہ تعالٰی اپنے نبی تک اپنی بات پہنچاتا ہے۔ فرمان خداوندی پہنچنے کے جن تین طریقوں کا اس میں ذکر کیا گیا ہے انہی کی طرف اس آیت میں وکذالک (اور اسی طرح) کا لفظ اشارہ کر رہا ہے یعنی اللہ تعالٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ انہی تین طریقوں سے ہم نے اپنے فرمان کی روح تمہاری طرف وحی کی ہے۔ روحا من امرنا سے مراد جبریل امین نہیں لیے جا سکتے، کیونکہ اگر وہ مراد ہوتے تو اوحینا الیک کہنے کے بجائے ارسلنا الیک فرمایا جاتا۔ اس لیے “فرمان کی روح” سے مراد وہ تمام ہدایات ہیں جو مذکورہ تین طریقوں سے حضورﷺ پر وحی کی گئیں۔ پھر آخری دو فقروں میں واقعات کی ترییب یہ بتائی گئی ہےکہ اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں میں سے ایک بندے کی رہنمائی اس نور سے کر دی جو “روح فرمان” کی شکل میں اس کے پاس بھیجا گیا، اور اب وہ بندہ صراط مستقیم کی طرف لوگوں کی رہنمائی کر رہا ہے۔ تاہم اگر سیاق و سباق کو نظر انداز کر کے صرف اسی ایک آیت پر نگاہ مرکوز کر لی جائے جس کی تفسیر ڈاکٹر صاحب فرما رہے ہیں تب بھی اس کا وہ مطلب نہیں نکلتا جو انہوں نے اس سے نکالنے کی کوشش کی ہے، وہ آیت کے تیسرے حصے کا مطلب یہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی عام انسانوں کی طرف رسول بھیجتا ہے، رسول کی طرف خدا وحی کرتا ہے اور رسول اس وحی کو عام انسانوں تک پہنچاتا ہے۔ حالانکہ آیت کے الفاظ یہ ہیں : او یرسل رسولا فیوحی باذنہ ما یشآ (یا بھیجے ایک پیغام بر پھر وہ وحی کرے اس کے حکم سے جو وہ چاہے)۔ اس فقرے میں اگر “رسول” سے مراد فرشتے کے بجائےبشر رسول لیا جائے تو اس کے معنی یہ بن جائیں گے کہ رسول عام انسانوں پر وحی کرتا ہے۔ کیا واقعی عام انسانوں پر انبیا علیہم السلام وحی کیا کرتے تھے؟ وحی کے تو معنی ہی اشارہ لطیف اور کلام خفی کے ہیں۔ یہ لفظ نہ تو ازروئے لغت اس تبلیغ کے لیے استعمال ہو سکتا ہے جو انبیا علیہم السلام خلق خدا کے درمیان علانیہ کرتے تھے اور نہ قرآن ہی میں کہیں اسے اس معنی میں استعمال کیا گیا ہے یہاں تو رسول کا لفظ صاف طور پر اس فرشتے کے لیے استعمال ہوا ہے جو انبیا کے پاس وحی لاتا تھا۔ اسی کی پیغام بری کو وحی کرنے کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور کیا جا سکتا ہے۔
36 – وحی غیر متلو پر ایمان، ایمان بالرسول کا جز ہے۔
اعتراض : ” جو وحی انبیائے کرام کو ملتی تھی اس کی مختلف قسموں کا ذکر قرآن میں کہیں نہیں آیا۔ نہ ہی قرآن میں کہیں یہ ذکر آیا ہے کہ قرآن صرف ایک قسم کی وحی کا مجموعہ ہے اور باقی اقسام کی وحییں جو رسول اللہ کو دی گئی تھیں وہ کہیں اور درج ہیں۔ اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے خود قرآن کریم میں یہ کہلوایا گیا ہے کہ اوحی الی ھذا القرآن (سورۃ انعام:19 ) “میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا۔” کیا قرآن میں کسی ایک جگہ بھی درج ہے کہ میری طرف قرآن وحی کیا گیا اور اس کے علاوہ اور وحی بھی ملی ہے جو اس میں درج نہیں۔ اصل یہ ہے کہ آپ وحی کی اہمیت کو سمجھے ہی نہیں۔ وحی پر ایمان لانے سے ایک شخص مومن ہو سکتا ہے اور یہ ایمان تمام و کمال وحی پر ایمان لانا ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ وحی کے ایک حصے پر ایمان لایا جائے اور دوسرے حصے پر ایمان نہ لایا جائے۔”
جواب : اس بات کا ثبوت اس سے پہلے اسی مراسلت کے سلسلے میں دیا جا چکا ہے کہ قرآن کے علاوہ بھی حضور پر وحی کے ذریعہ سے احکام نازل ہوتے تھے (ملاحظہ ہو، کتاب ہذا صفحہ ( 118 تا 125 )۔ رہا یہ سوال کہ اس دوسری قسم کی وحی پر ایمان لانے کا حکم کہاں دیا گیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس پر ایمان لانا دراصل ایمان بالرسالت کا ایک لازمی جزو ہے۔ اللہ تعالٰی نے اپنی کتاب کے علاوہ اپنے رسول پر ایمان لانے کا جو حکم دیا ہے وہ خود اس بات کا متقضی ہے کہ رسول جو ہدایت و تعلیم بھی دیں اس پر ایمان لایا جائے، کیونکہ وہ منجانب اللہ ہے۔ ومن یطع الرسول فقد اطاع اللہ (النسا:80 ) “جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔” وان تتطیوہ تھتدوا (النور:84 ) اگر تم اس کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے۔” اولک الذین ھدی اللہ فیھدئھم افتدہ (الانعام:91 ) ” یہ انبیا وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی ہے، پس تم ان کی ہدایت کی پیروی کرو۔”
شاید ڈاکٹر صاحب کو معلوم نہیں ہے کہ متعدد انبیا ایسے گزرے ہیں جن پر کوئی کتاب نازل نہیں کی گئی۔ کتاب تو کبھی نبی کے بغیر نہیں آئی ہے لیکن نبی کتاب کے بغیر بھی آئے ہیں اور لوگ ان کی تعلیم و ہدایت پر ایمان لانے اور اس کا اتباع کرنے پر اسی طرح مامور تھے جس طرح کتاب اللہ پر ایمان لانے اور اس کا اتباع کرنے کا انہیں حکم دیا گیا تھا۔ خود کتاب لانے والے انبیا پر بھی اول روز ہی سے وحی متلو نازل ہونا کچھ ضروری نہیں ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات کا نزول اس وقت شروع ہوا جب وہ فرعون کے غرق ہو جانے کے بعد بنی اسرائیل کو لے کر طور کے دامن میں پہنچے (ملاحظہ ہو سورۃ اعراف رکوع 16 – 17، سورۃ قصص آیات 40 – 43 )۔
زمانہ قیام مصر میں ان پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود فرعون اور مصر کا ہر باشندہ ان باتوں پر ایمان لانے کے لیے مامور تھا جنہیں وہ اللہ کی طرف سے پیش کرتے تھے، حتیٰ کہ انہی پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے وہ اپنے لشکروں سمیت مستحق عذاب ہوا۔
منکرین حدیث کو اگر اس چیز کے ماننے سے انکار ہے تو میں ان سے پوچھتا ہوں کہ قرآن کی موجودہ ترتیب کے من جانب اللہ ہونے پر آپ ایمان رکھتے ہیں یا نہیں؟ قرآن میں خود اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ یہ کتاب پاک بہ یک وقت ایک مرتب کتاب کی شکل میں نازل نہیں ہوئی ہے بلکہ اسے مختلف اوقات میں بتدریج تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا گیا ہے (بنی اسرائیل : 106، الفرقان : 32 )۔ دوسرے طرف قرآن ہی میں یہ صراحت بھی ہے کہ اللہ تعالٰی نے اسے مرتب کر کے پڑھوا دینے کا ذمہ خود لیا تھا۔ ان علینا جمعہ و قرانہ فاتبع قرانہ (القیامہ: 17، 18 )۔ اس سے قطع طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کی موجودہ ترتیب براہ راست اللہ تعالٰی کی ہدایت کے تحت ہوئی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی مرضی سے خود مرتب نہیں کر لیا ہے۔ اب کیا کسی شخص کو قرآن میں کہیں یہ حکم ملتا ہے کہ اس کی سورتوں کو اس ترتیب کے ساتھ پڑھا جائے اور اس کی متفرق آیتوں کو کہاں کس سیاق و سباق میں رکھا جائے؟ اگر قرآن میں اس طرح کی کوئی ہدایت نہیں ہے، اور ظاہر ہے کہ نہیں ہے، تو لا محالہ کچھ خارج از قرآن ہدایات ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالٰی سے ملی ہوں گی جن کے تحت آپ نے یہ کتاب پاک اس ترتیب سے خود پڑھی اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی کو پڑھوائی۔ مزید برآں اسی سورۃ قیامہ میں اللہ تعالٰی یہ بھی فرماتا ہے کہ ثم ان علینا بیانہ ” پھر اس کا مطلب سمجھانا بھی ہمارے ذمہ ہے” (آیت : 19 )۔ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کے احکام و تعلیمات کی جو تشریح و تعبیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قول و عمل سے کرتے تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے ذہن کی پیداوار نہ تھی بلکہ جو ذات پاک آپ پر قرآن نازل کرتی تھی وہی آپ کو اس کا مطلب بھی سمجھاتی تھی اور اس کی وضاحت طلب امور کی وضاحت بھی کرتی تھی۔ اسے ماننے سے کوئی ایسا شخص انکار کیسے کر سکتا ہے جو قرآن پر ایمان رکھتا ہو۔
37 – کیا وحی غیر متلو بھی جبریل ہی لاتے تھے؟
اعتراض : ” آپ نے لکھا ہے کہ قرآن کریم میں صرف وہی وحی درج ہے جو حضرت جبریل کی وساطت سے حضور پر نازل ہوئی تھی۔ پہلے تو یہ فرمایئے کہ آپ کو یہ کہاں سے معلوم ہو گیا کہ رسول اللہ کی طرف کوئی وحی حضرت جبریل کی وساطت کے بغیر بھی آتی تھی؟ دوسرے غالبا آپ کو اس کا علم نہیں کہ جس وحی کو آپ جبریل کی وساطت کے بغیر وحی کہتے ہیں (یعنی حدیث) اس کے متعلق حدیث کو وحی ماننے والوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اسے بھی جبریل لے کر اسی طرح نازل ہوتے تھے جس طرح قرآن کو لے کر ہوتے تھے (ملاحظہ فرمایئے جامع بیان العلم) اس لیے آپ کا یہ بیان خود آپ کے گروہ کے نزدیک بھی قابل قبول نہیں۔ْ”
جواب : یہ عجیب مرض ہے کہ جس بات کا ماخذ بار بار بتایا جا چکا ہے اسی کے متعلق پوچھا جاتا ہے کہ اس کا ماخذ کیا ہے۔ سورۃ شوریٰ کی آیت 51 جس پر ابھی ڈاکٹر صاحب خود بحث کر آئے ہیں اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ انبیا پر وحی جبریل کی وساطت کے بغیر بھی نازل ہوتی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے جامع بیان العلم کی شکل بھی نہیں دیکھی ہے اور یونہی کہیں سے اس کا حوالہ نقل کر دیا ہے۔ اس کتاب میں تو حسان بن عطیہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ کان الوحی ینزل علیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و یحضرہ جبریل بالسنہ التی تفسر ذالک۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تھی اور جبریل آ کر اس کی توضیح کرتے اور اس پر عمل کا طریقہ بتاتے تھے۔ اس سے یہ مطلب کہاں نکلا کہ ہر وحی جبریل ہی لاتے تھے؟ اس سے تو صرف یہ بات نکلتی ہے کہ جبریل قرآن کے سوا دوسری وحیاں بھی لاتے تھے۔ “جبریل بھی لاتے، اور جبریل ہی لاتے” کا فرق سمجھنا کوئی بڑا مشکل کام نہیں ہے۔
38 – کتاب اور حکمت ایک ہی چیز ہیں یا الگ الگ
اعتراض : ” آپ نے یہ دلیل دی ہے کہ خدا نے ” کتاب و حکمت ” دونوں کو منزل من اللہ کہا ہے۔ کتاب سے مراد قرآن ہے اور حکمت سے مراد سنت یا حدیث۔ آپ کی اس قرآن دانی پر جس قدر بھی ماتم کیا جائے، کم ہے۔ بندہ نواز، کتاب و حکمت میں واو عطف کی نہیں (جس کے معنی ” اور ” ہوتے ہیں، یہ واؤ تغیری ہوتی ہے۔ اس کا ثبوت خود قرآن میں موجود ہے۔ اللہ تعالٰی نے قرآن کو خود حکیم (حکمت والا) کہا ہے۔ یٰسین والقرآن الحکیم دوسری جگہ الکتب کی جگہ الحکیم کہا ہے۔ تلک الحکیم (2:31)۔
جواب : منکرین حدیث اس غلط فہمی میں ہیں کہ حرف واؤ کے معنی لینے میں آدمی کو پوری آزادی ہے، جہاں چاہے اسے عاطفہ قرار دے لے اور جہاں چاہے تفسیری کہہ دے۔ لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ عربی زبان ہی میں نہیں، کسی زبان کے ادب میں بھی الفاظ کے معنی متعین کرنے کا معاملہ اس طرح الل ٹپ نہیں ہے۔ واؤ کو تفسیری صرف اسی صورت میں قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ دو لفظ جن کے درمیان یہ حرف آیا ہو، باہم مترادف المعنی ہوں، یا قرینے سے یہ معلوم ہو رہا ہو کہ قائل انہیں مترادف قرار دینا چاہتا ہے۔ یہی اردو زبان میں لفظ ” اور ” کے استعمال کا طریقہ ہے کہ اسے تفسیری صرف اسی وقت قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ وہ ہم معنی الفاظ کے درمیان آئے۔ جیسے کوئی شخص کہے ” یہ جھوٹ اور افترا ہے۔” لیکن جہاں یہ صورت نہ ہو وہاں واؤ کا استعمال یا تو دو الگ الگ چیزوں کا جمع کرنے کے لیے ہو گا، یا عام کو خاص پر، یا خاص کو عام پر عطف کرنے کے لیے ہو گا۔ ایسے مقامات پر واؤ کے تفسیری ہونے کا دعویٰ بالکل مہمل ہے۔
اب دیکھئے، جہاں تک عربی زبان کا تعلق ہے اس کی رو سے تو ظاہر ہی ہے کہ کتاب اور حکمت مترادف الفاظ نہیں بلکہ دونوں الگ معنوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ رہا قرآن، تو اس کے استعمالات سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حکمت کو وہ کتاب کا ہم معنی قرار دیتا ہے۔ سورۃ نحل میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے ادع الٰی سبیل ربک بالحکمۃ ” اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ دعوت دو۔” کیا اس کا مطلب یہ ہے قرآن کے ساتھ دعوت دو؟
حضرت عیسیٰ کے متعلق سورۃ زخرف میں فرمایا قال قد جئنکم بالحکمۃ ” اس نے کہا میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں۔” کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کتاب لے کر آیا ہوں؟ سورۃ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے ومن یوت الحکمۃ فقد لوتی خیرا کثیرا ” جسے حکمت دی گئی اسے بڑی دولت دے دی گئی۔” کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے کتاب دی گئی؟ سورۃ لقمان میں حکیم لقمان کے متعلق فرمایا ولقد انینا لقمن الحکمۃ “ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی۔” کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ کتاب عطا کی تھی؟ دراصل قرآن میں کہیں بھی کتاب بول کر حکمت مراد نہیں لی گئی ہے اور نہ حکمت بول کر کتاب مراد لی گئی ہے۔ کتاب کا لفظ جہاں بھی آیا ہے، آیات الہٰی کے مجموعہ کے لیے ایا ہے اور حکمت کا لفظ جہاں بھی آیا ہے، اس دانائی کے معنی میں آیا ہے جس سے انسان حقائق کے سمجھنے اور فکر و عمل میں صحیح رویہ اختیار کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ یہ چیز کتاب میں بھی ہو سکتی ہے۔ کتاب کے باہر بھی ہو سکتی ہے، اور کتاب کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے۔ کتاب کے لیے جہاں “حکیم” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، اس کے معنی تو یہ ضرور ہیں کہ کتاب کے اندر حکمت ہے، مگر یہ معنی نہیں ہیں کہ کتاب خود حکمت ہے یا حکمت صرف کتاب میں ہے اور اس کے باہر کوئی حکمت نہیں ہے۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب اور حکمت نازل ہونے کا یہ مطلب لینا درست نہیں ہو گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسل پر صرف کتاب نازل کی گئی، بلکہ اس کے صحیح معنی یہ ہوں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب کے ساتھ وہ دانائی بھی نازل کی گئی جس سے آپ اس کتاب کا منشا ٹھیک ٹھیک سمجھیں اور انسانی زندگی میں اس کو بہترین طریقے سے نافذ کر کے دکھا دیں۔ اسی طرح یعلمھم الکتبِ والحکمۃ کے معنی یہ ہر گز نہیں ہیں کہ آپ صرف کتاب کے الفاظ پڑھوا دیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ لوگوں کو کتاب کا مطلب سمجھائیں اور انہیں اس دانش مندی کی تعلیم و تربیت دیں جس سے لوگ دنیا کے نظام زندگی کو کتاب اللہ کے منشا کے مطابق ڈھالنے کے قابل ہو جائیں۔
لفظ “تلاوت ” کے معنی
اعتراض : ” قرآن ہی کے حکمت ہونے کے تمام دلائل سے بڑھ کر وہ دلیل ہے جو سورۃ احزاب کی اس آیت میں موجود ہے جسے آپ نے خود درج کیا ہے اور جس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا بھی نہیں سوچا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرما رہے ہیں۔ وہ آیت ہے واذکرن ما یتلٰی فی بیوتکن من آیات اللہ والحکمۃ (25:33) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس وحی کو جو قرآن میں درج ہے آپ وحی متلو اور خارج از قرآن وحی کو وحی غیر متلو قرار دیا کرتے ہیں۔ اس آیت میں حکمت کو بھی ” ما یتلٰی ” کہا گیا ہے۔ لہٰذا حکمت سے مراد وحی متلو ہے۔ وحی غیر متلو نہیں۔ دوسرے مقامات میں قرآن کو متلو کہا گیا ہے۔ مثلا سورۃ کہف میں ہے واتل ما او حی الیک من کتاب ربک ( 27:18 )۔ دوسری جگہ ہے وامرت اِن اَکون ۔۔۔۔۔ ان اتلوا القرآن (27:92) علاوہ ازیں قرآن کے متعدد مقامات میں یتلو علیھم ایانہ کے الفاظ آئے ہیں۔ احادیث کی تلاوت کا ذکر کہیں نہیں آیا۔ اس لیے سورۃ احزاب میں جس حکمت کی تلاوت کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آیت کی طرف اشارہ فرماسکیں، مشکور ہوں گا۔ والسلام
مخلص۔۔۔ عبدالودود
جواب
محترمی و مکرمی، السلام علیکم و رحمتہ اللہ! عنایت نامہ مورخہ 17 اگست 1960ء ملا۔ اس تازہ عنایت نامے میں آپ نے اپنے پیش کردہ ابتدائی چار سوالات میں سے پہلے سوال پر بحث رکھتے ہوئے نبوت اور سنت کے متعلق اپنے جن خیالات کا اظہار فرمایا ہے، ان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ کا تصور نبوت ہی بنیادی طور پر غلط ہے۔ ظاہر ہے کہ جب بنیاد ہی میں غلطی موجود ہوتو بعد کے ان سوالات پر جو اسی بنیاد سے اٹھتے ہیں، بحث کرکے ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے تھے۔ اسی لیے میں نے عرض کیا تھا کہ آپ میرے جواب پر مزید سوالات اٹھانے کے بجائے ان اصل مسائل پر گفتگو فرمائیں جو میں نے اپنے جواب میں بیان کیے ہیں۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری اس گزارش کو قبول کرکے اولین بنیادی سوال پر اپنے خیالات ظاہر فرمائے ہیں۔ اب میں آپ کی، اور ان دوسرے لوگوں کی جو اس غلط فہمی میں گرفتار ہیں، کچھ خدمت انجام دے سکوں گا۔
نبوت اور سنت کا جو تصور آپ نے بیان کیا ہے وہ قرآن مجید کے نہایت ناقص مطالعہ کا نتیجہ ہے اور غضب یہ ہے کہ آپ نے اس ناقص مطالعہ پر اتنا اعتمادکرلیا کہ پہلی صدی سے آج تک اس بارے میں ساری امت کے علماء اور عوام کا بالاتفاق جو عقیدہ اور عمل رہا ہے اسے آپ غلط سمجھ بیٹھے ہیں اور اپنے نزدیک یہ خیال کرلیا ہے کہ پونے چودہ سو سال کی طویل مدت میں تمام مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کو سمجھنے میں ٹھوکر کھا گئے ہیں، ان کے تمام علمائے قانون نے سنت کو ماخذ قانون مانے میں غلطی کی ہے، اور ان کی تمام سلطنتیں اپنا قانونی نظام اس بنیاد پر قائم کرنے میں غلطی فہمی کا شکار ہوگئی ہیں۔ آپ کے ان خیالات پر تفصیلی گفتگو تو میں آگے کی سطور میں کروں گا، لیکن اس گفتگو کا آغاز کرنے سے پہلے میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ ٹھنڈے دل سے اپنے دینی علم کی مقدار کا خود جائزہ لیں اور خود ہی سوچیں کہ وہ علم جو آپ نے اس بارے میں حاصل کیا ہے کیا وہ اتنے بڑے زعم کے لیے کافی ہے؟ قرآن تنہا آپ ہی نے تو نہیں پڑھا ہے، کروڑوں مسلمان ہر زمانے میں اور دنیا کے ہر حصے میں اس کو پڑھتے رہے ہیں۔ اور بے شمار ایسے لوگ بھی اسلامی تاریخ میں گزرے ہیں اور آج بھی پائے جاتے ہیں جن کے لیے قرآن کا مطالعہ ان کے بہت سے مشاغل میں سے ایک ضمنی مشغلہ نہیں رہا ہے بلکہ انہوں نے اپنی عمریں اس کے ایک ایک لفظ پر غور کرنے اور اس کے مضمرات سمجھنے اور ان سے نتائج اخذ کرنے میں صرف کردی ہیں۔ آخر آپ کو یہ غلط فہمی کیسے لاحق ہوگئی کہ نبوت جیسے بنیادی مسئلے میں یہ سب لوگ قرآن کا منشا بالکل الٹا سمجھ بیٹھے ہیں اور صحیح منشا صرف آپ پر اور آپ جیسے چند اصحاب پر اب منکشف ہوا ہے۔ پوری تاریخ اسلام میں آپ کسی ایک قابل ذکر عالم کا بھی نام نہیں لے سکتے جس نے قرآن سے منصب نبوت کا وہ تصور اخذ کیا ہو جو آپ بیان کررہے ہیں اور سنت کی وہ حیثیت قرار دی ہو جو آپ قرار دے رہے ہیں۔ اگر ایسے کسی عالم کا حوالہ آپ دے سکتے ہیں تو براہ کرم اس کا نام لیجیے۔
1۔ منصب نبوت اور اس کے فرائض
آپ کی عقل و ضمیر سے یہ مخلصانہ اپیل کرنے کے بعد اب میں آپ کے پیش کردہ خیالات کے متعلق کچھ عرض کروں گا۔ آپ کی ساری بحث دس نکات پر مشتمل ہے۔ ان میں سے پہلا نکتہ خود آپ کے الفاظ میں یہ ہے:
“مجھے آپ سے سو فیصدی اتفاق ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم معلم بھی تھے، حاکم بھی تھے، قاضی بھی تھے، سپہ سالار بھی۔ آپ نے افراد کی تربیت کی اور تربیت یافتہ افراد کو ایک منظم جماعت کی شکل دی اور پھر ایک ریاست قائم کی”۔
یہ سو فیصدی اتفاق جس کا آپ ذک فرمارہے ہیں، دراصل ایک فی صدی، بلکہ 1/1000 فی صدی بھی نہیں ہے، اس لیے کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو محض معلم، حاکم، قاضی وغیرہ مانا ہے، مامور من اللہ کی لازمی صفت کے ساتھ نہیں مانا ہے۔ حالانکہ سارا فرق اسی صفت کے ماننے اور نہ ماننے سے واقع ہوتا ہے۔ آگے چل کر آپ نے خود یہ بات واضح کردی ہے کہ آپ کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ سارے کام رسول کی حیثیت میں نہیں بلکہ ایک عام انسان کی حیثیت میں تھے اور اسی وجہ سے اس حیثیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کام کیا ہے اسے آپ وہ سنت نہیں مانتے جو ماخذ قانون ہو۔ دوسرے الفاظ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے نزدیک ایک معلم تھے مگر خدا کے مقرر کردہ نہیں بلکہ جیسے دنیا میں اور استاد ہوتے ہیں ویسے ہی ایک حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم قاضی تھے مگر خدا نے آپ کو اپنی طرف سے قاضی مقرر نہیں کیا تھا بلکہ دنیا کے عام ججوں اور میجسٹریٹوں کی طرح ایک جج یا میجسٹریٹ آپ (صلعم) بھی تھے۔ یہی پوزیشن حاکم اور مزکی اور قائد ورہنما کے معاملے میں بھی آپ نے اختیار کی ہے کہ ان میں سے کوئی منصب بھی آپ کے خیال میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مامور من اللہ ہونے کی حیثیت سے حاصل نہ تھا۔
پہلا سوال یہ ہے کہ پھر یہ مناصب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے حاصل ہوئے۔ کیا مکہ میں اسلام قبول کرنے والوں نے باختیار خود آپ کو اپنا لیڈر منتخب کیا تھا اور اس قیادت کے منصب سے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہٹادینے کے بھی مجاز تھے؟ کیا مدینہ پہنچ کر جب اسلامی ریاست کی بنا ڈالی گئی۔ اس وقت انصار و مہاجرین نے کوئی مجلس مشاورت منعقد کرکے یہ طے کیا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہماری اس ریاست کے صدر اور قاضی اور افواج کے قائد اعلیٰ ہوں گے؟ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موجود گی میں کوئی دوسرا مسلمان بھی ان مناصب کے لیے منتخب ہوسکتا تھا؟ اور کیا مسلمان اس کے مجاز تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سب مناصب، یا ان میں سےکوئی منصب واپس لے کر باہمی مشورے سے کسی اور کو سونپ دیتے؟ پھر کیا یہ بھی واقعہ ہے کہ مدینے کی اس ریاست کے لیے قرآن کے تحت تفصیلی قوانین اور ضابطے بنانے کی غرض سے کوئی لیجسلیچر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قائم کی گئی تھی جس میں آپ (صلعم) صحابہ کے مشورے سے قرآن کا منشا معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہوں اور اس مجلس کی رائے سے قرآن کا جو مفہوم متعین ہوتا ہو، اس کے مطابق ملکی قوانین بنائے جاتے ہوں؟ اگر ان سوالات کا جواب اثبات میں ہے تو براہِ کرم اس کا کوئی تاریخی ثبوت ارشاد فرمائیں۔ اور اگر نفی میں ہے اور یقیناً نفی میں ہے تو کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود رہنما، فرمانروا، قاضی، شارع اور قائد اعلیٰ بن بیٹھے تھے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حیثیت آپ قراردے رہے ہیں کیا قرآن بھی آپ کی وہ حیثیت قرار دیتا ہے؟ اس سلسلہ میں ذرا قرآن کھول کر دیکھیے کہ وہ کیا کہتا ہے۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم و مربی
اس کتاب پاک میں چار مقامات پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب رسالت کی یہ تفصیل بیان کی گئی ہے:
“اور یاد کرو جبکہ ابراہیم اور اسماعیل اس گھر (کعبہ) کی بنیادیں اٹھا رہے تھے (انہوں نے دعا کی) ۔۔ اے ہمارے پروردگار، ان لوگوں میں خود انہی کے اندر سے ایک رسول معبوث فرما، جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے (البقرہ:129)”۔
“جس طرح ہم نے تمہارے اندر خود تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تم کو ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور تمہارا تزکیہ کرتا ہے اور تم کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم تنہیں جانتے تھے (البقرہ:151)”۔
“اللہ نے ایمان لانے والوں پر احسان فرمایا جبکہ ان کے اندر خود انہی میں سے ایک رسول مبعوث کیا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے (آل عمران:164)”۔
“وہی ہے جس نے امیوں کے درمیان خود انہی میں سے ایک رسول مبعوث کیا جو ان کو اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے (الجمعہ:2)”۔
ان آیات میں بار بار جس بات کو بتاکید دہرایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے رسول کو صرف آیات قرآن سنادینے کے لیے نہیں بھیجا تھا بلکہ اس کے ساتھ بعثت کے تین مقصد اور بھی تھے۔
ایک یہ کہ آپ لوگوں کو کتاب کی تعلیم دیں۔
دوسرے یہ کہ اس کتاب کے منشا کے مطابق کام کرنے کی حکمت سکھائیں۔
اور تیسرے یہ کہ آپ افراد کابھی اور ان کی اجتماعی ہئیت کا بھی تزکیہ کریں، یعنی اپنی تربیت سے ان کی انفرادی اور اجتماعی خرابیوں کو دور کریں اور ان کے اندر اچھے اوصاف اور بہتر نظام اجتماعی کو نشوونمادیں۔
ظاہر ہے کہ کتاب اور حکمت کی تعلیم صرف قرآن کے الفاظ سنادینے سے زائد ہی کوئی چیز تھی ورنہ اس کا الگ ذکر کرنا بے معنی تھا۔ اسی طرح افراد اور معاشرے کی تربیت کے لیے آپ جو تدابیر بھی اختیار فرماتے تھے، وہ بھی قرآن کے الفاظ پڑھ کر سنادینے سے زائد ہی کچھ تھیں، ورنہ تربیت کی اس الگ خدمت کا ذکر کرنے کے کوئی معنی نہ تھے۔ اب فرمایئے کہ قرآن پہنچانے کے علاوہ یہ معلم اور مربی کے مناصب جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھے، ان پرآپ خود فائز ہوبیٹھے تھے یا اللہ تعالٰی نے آپ کو ان پر مامور فرمایا تھا؟ کیا قرآن کی ان صاف اور مکرر تصریحات کے بعد اسی کتاب پر ایمان رکھنے والا کوئی شخص یہ کہنے کی جرات کرسکتا ہے کہ یہ دونوں مناصب رسالت کے اجزاء نہ تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان مناسب کے فرائض اور خدمات بحیثیت رسول نہیں بلکہ اپنی پرائیویٹ حیثیت میں انجام دیتے تھے؟ اگر نہیں کہہ سکتا تو بتایئے کہ قرآن کے الفاظ سنانے سے زائد جو باتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم کتاب و حکمت کے سلسلے میں فرمائیں اور اپنے قول و عمل سے افراد اور معاشرہ کی جو تربیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کی اسے من جانب اللہ ماننے اور سند تسلیم سے انکار خود رسالت کا انکار نہیں تو اور کیا ہے؟
رسول صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت شارح کتاب اللہ
سورۂ النحل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
“اور (اے نبی) یہ ذکر ہم نے تمہاری طرف اس لیے نازل کیا ہے کہ تم لوگوں کے لیے واضح کردو اس تعلیم کو جو ان کی طرف اتاری گئی ہے”۔
اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد یہ خدمت کی گئی تھی کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ جو احکام و ہدایات دے، ان کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم توضیح و تشریح فرمائیں۔ ایک موٹی سی عقل کا آدمی بھی کم از کم اتنی بات تو سمجھ سکتا ہے کہ کسی کتاب کی توضیح و تشریح محض اس کتاب کے الفاظ پڑھ کر سنادینے سے نہیں ہوجاتی، بلکہ تشریح کرنے والا اس کے الفاظ سے زائد کچھ کہتا ہے تاکہ سننے والا کتاب کا مطلب پوری طرح سمجھ جائے، اور اگر کتاب کی کوئی بات کسی عملی مسئلے سے متعلق ہو تو شارح عملی مظاہرہ کرکے بتاتا ہے کہ مصنف کا منشا اس طرح عمل کرنا ہے۔ یہ نہ ہوتو کتاب کے الفاظ کا مطلب و مدعا پوچھنے والے کو پھر کتاب کے الفاظ ہی سنادینا کسی طفل مکتب کے نزدیک بھی تشریح و توضیح قرار نہیں پا سکتا۔ اب فرمایئے کہ اس آیت کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے شارح اپنی ذاتی حیثیت میں تھے یا خدا نے آپ کو شارح مقرر کیا تھا؟ یہاں تو اللہ تعالیٰ اپنے رسول پر کتاب نازل کرنے کا مقصد ہی یہ بیان کررہا ہے کہ رسول اپنے قول اور عمل سے اس کا مطلب واضح کرے۔ پھر کس طرح یہ ممکن ہے کہ شارح قرآن کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کو رسالت کے منصب سے الگ قرار دیا جائے اور آپ کے پہنچائے ہوئے الفاظ قرآن کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرح و تفسیر قبول کرنے سے انکار کردیا جائے؟ کیا یہ انکار خود رسالت کا انکار نہ ہوگا۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت پیشوا و نمونہ تقلید
سورۂ آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
“(اے نبی) کہو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محب کرے گا۔ کہو کہ اطاعت کرو اللہ اور رسول کی، پھر اگر وہ منہ موڑتے ہیں تو اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا”۔
اور سورۂ احزاب میں فرماتا ہے:
“تمہارے لیے اللہ کے رسول میں ایک تقلید ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو”۔
ان دونوں آیتوں میں خود اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پیشوا مقرر کررہا ہے، ان کی پیروی کا حکم دے رہا ہے، ان کی زندگی کو نمونہ تقلید قرار دے رہا ہے، اور صاف فرمارہا ہے کہ یہ روش اختیار کرو گے تو مجھ سے کوئی امید نہ رکھو، میری محبت اس کے بغیر تمہیں حاصل نہیں ہوسکتی، بلکہ اس سے منہ موڑنا کفر ہے۔ اب فرمایئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رہنما اور لیڈر خود بن بیٹھے تھے؟ یا مسلمانوں نے آپ کو منتخب کیا تھا؟ یا اللہ تعالیٰ نے اس منصب پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مامور کیا تھا؟ اگر قرآن کے یہ الفاظ بالکل غیر مشتبہ طریقے سے آنحضور کو مامور من اللہ رہنما و پیشوا قرار دے رہے ہیں۔ تو پھر آپ کی پیروی اور آپ کے نمونہ زندگی کی تقلید سے انکار کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اس کے جواب میں یہ کہنا سراسر لغو ہے کہ اس سے مراد قرآن کی پیروی ہے۔ اگر یہ مراد ہوتی تو فاتبعو القرآن فرمایا جاتا نہ کہ فاتبعونی۔ اور اس صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اسوۂ حسنہ کہنے کے تو کوئی معنی ہی نہ تھے۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت شارع
سورۂ اعراف میں اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
“وہ ان کو معروف کا حکم دیتا ہے اور منکر سے ان کو روکتا ہے اور ان کے لیے پاک چیزوں کو حلال کرتا ہے اور ان پر ناپاک چیزوں کو حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اور بندھن اتاردیتا ہے، جو ان پر چڑھے ہوئے تھے۔
اس آیت کے الفاظ اس امر میں بالکل صریح ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلعم کو تشریعی اختیارات عطا کیے ہیں۔ اللہ کی طرف سے امر و نہی اور تحلیل و تحریم صرف وہی نہیں ہے جو قرآن میں بیان ہوئی ہے، بلکہ جو کچھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام یا حلال قرار دیا ہے اور جس چیز کا حضور نے حکم دیا ہے یا جس سے منع کیا ہے، وہ بھی اللہ کے دیئے ہوئے اختیارات سے ہے، اس لیے وہ بھی قانون خداوندی کا ایک حصہ ہے۔ یہی بات سورۂ حشر میں اسی صراحت کے ساتھ ارشاد ہوئی ہے:
“جو کچھ رسول تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے منع کردے، اس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے”۔
ان دونوں آیتوں میں سے کسی کی یہ تاویل نہیں کی جاسکتی کہ ان میں قرآن کے امرونہی اور قرآن کی تحلیل و تحریم کا ذکر ہے۔ یہ تاویل نہیں بلکہ اللہ کے کلام میں ترمیم ہوگی۔ اللہ نے تو یہاں امر ونہی اور تحلیل و تحریم کو رسول کا فعل قرار دیا ہے نہ کہ قرآن کا۔ پھر کیا کوئی شخص اللہ میاں سے یہ کہنا چاہتا ہے کہ آپ سے بیان میں غلطی ہوگئی۔ آپ بھولے سے قرآن کے بجائے رسول کا نام لے گئے۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت قاضی
قرآن میں ایک جگہ نہیں، بکثرت مقامات پر اللہ تعالیٰ اس امر کی تصریح فرماتا ہے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قاضی مقرر کیا ہے، مثال کے طور پر چند آیات ملاحظہ ہوں:
“(اے نبی) ہم نے تمہاری طرف حق کے ساتھ کتاب نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان اللہ کی دکھائی ہوئی روشنی میں فیصلہ کرو (النساء:105)”۔
“اور (اے نبی) کہو کہ میں ایمان لایا ہوں اس کتاب پر جو اللہ نے نازل کی ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان عدل کروں (الشوریٰ: 15)”۔
“ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ بلائے جائیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف تاکہ رسول ان کے درمیان فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا (النور:51)
“اور جب ان کو کہا جاتا ہے کہ آؤ اللہ کی نازل کردہ کتاب کی طرف تو تم دیکھتے ہو منافقوں کو کہ وہ تم سے کنی کتراتے ہیں (النساء:61)
“پس (اے نبی) تیرے رب کی قسم وہ ہرگز مومن نہ ہوں گے جب تک کہ وہ اپنے جھگڑوں میں تجھے فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو فیصلہ تو کرے اس کی طرف سے اپنے دل میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ اسے بسرو چشم قبول کرلیں (النساء:65)
یہ تمام آیتیں اس امر میں بالکل صریح ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود ساختہ یا مسلمانوں کے مقرر کیے ہوئے جج نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے جج تھے۔ تیسری آیت یہ بتارہی ہے کہ آپ کی جج ہونے کی حیثیت رسالت کی حیثیت سے الگ نہیں تھی بلکہ رسول ہی کی حیثیت میں آپ جج بھی تھے اور ایک مومن کا ایمان بالرسالت اس وقت تک صحیح نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ آپ کی اس حیثیت کے آگے بھی سمع و طاعت کا رویہ نہ اختیار کرلے۔ چوتھی آیت میں ماانزل اللہ (قرآن) اور رسول دونوں کا الگ الگ ذکر کیا گیا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فیصلہ حاصل کرنے کے لیے دو مستقل مرجع ہیں، ایک قرآن قانون کی حیثیت سے، دوسرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جج کی حیثیت سے، اور ان دونوں سے منہ موڑنا منافق کا کام ہے، نہ کہ مومن کا۔ آخری آیت میں بالکل بے لاگ طریقے سے کہہ دیا گیا ہے کہ رسول صلعم کو جو شخص جج کی حیثیت سے تسلیم نہیں کرتا وہ مومن ہی نہیں ہے، حتیٰ کہ اگر رسول صلعم کے دیے ہوئے فیصلے پر کوئی شخص اپنے دل میں بھی تنگی محسوس کرے تو اس کا ایمان ختم ہوجاتا ہے۔ کیا قرآن کی ان تصریحات کے بعد بھی آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آنحضور صلعم رسول کی حیثیت سے قاضی نہ تھے بلکہ دنیا کے عام ججوں اور میجسٹریٹوں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک جج یا میجسٹریٹ تھے، اس لیے ان کے فیصلوں کی طرح حضور صلعم کے فیصلے بھی ماخذ قانون نہیں بن سکتے؟ کیا دنیا کے کسی جج کی یہ حیثیت ہوسکتی ہے کہ اس کا فیصلہ اگر کوئی نہ مانے یا اس پر تنقید کرے یا اپنے دل میں بھی اسے غلط سمجھے تو اس کا ایمان سلب ہوجائے گا؟
رسول صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت حاکم و فرمانروا
قرآن مجید اسی صراحت اور تکرار کے ساتھ بکثرت مقامات پر یہ بات بھی کہتا ہے کہ نبی صلعم، اللہ کی طرف سے مقرر کیے ہوئے حاکم و فرمانروا تھے، اور آپ کو یہ منصب بھی رسول ہی کی حیثیت سے عطا ہوا تھا:
“ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا، مگر اس لیے کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے اذن سے۔ (النساء 64)”۔
جو رسول کی اطاعت کرے اس نے اللہ کی اطاعت کی (النساء 80)”۔
“(اے نبی) یقیناً جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ در حقیقت اللہ سے بیعت کرتے ہیں (الفتح 10)”۔
“اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اپنے اعمال کو باطل نہ کرلو (محمد 33)”۔
“اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب کسی معاملہ کا فیصلہ اللہ اور اس کا رسول کردے تو پھر ان کے لیے اپنے اس معاملہ میں خود کوئی فیصلہ کرلینے کا اختیار باقی رہ جائے اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ کھلی گمراہی میں پڑگیا (الاحزاب 36)”۔
اے لوگو، جو ایمان لائے ہو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے اولی الامر ہوں، پھر اگر تمہارے درمیان نزاع ہوجائے تو اس کو پھیر دو اللہ اور رسول کی طرف اگر تم ایمان رکھتے ہو، اللہ اور روز آخر پر (النساء 59)
یہ آیت صاف بتارہی ہے کہ رسول کوئی ایسا حاکم نہیں ہے جو خود اپنی قائم کردہ ریاست کا سربراہ بن بیٹھا ہو، یا جسے لوگوں نے منتخب کرکے سربراہ بنایا ہو، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور کیا ہوا فرمانروا ہے۔ اس کی فرمانروائی اس کے منصب رسالت سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا رسول ہونا ہی اللہ کی طرف سے اس کا حاکم مطاع ہونا ہے۔ اس کی اطاعت عین اللہ کی اطاعت ہے۔ اس سے بیعت دراصل اللہ سے بیعت ہے۔ اس کی اطاعت نہ کرنے کے معنی اللہ کی نافرمانی کے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آدمی کا کوئی عمل بھی اللہ کے ہاں مقبول نہ ہو۔ اس کے مقابلے میں اہل ایمان کو (جن میں ظاہر ہے کہ پوری امت اور اس کے حکمراں اور اس کے “مرکز ملت” سب شامل ہیں) قطعاً یہ حق حاصل نہیں ہے کہ جس معاملہ کا فیصلہ وہ کرچکا ہو، اس میں وہ خود کوئی فیصلہ کریں۔
ان تمام تصریحات سے بڑھ کر صاف اور قطعی تصریح آخری آیت کرتی ہے جس میں یکے بعد دیگرے تین اطاعتوں کا حکم دیا گیا ہے:
سب سے پہلے اللہ کی اطاعت۔
اس کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت۔
پھر تیسرے درجے میں اولی الامر (یعنی آپ کے”مرکزِ ملت”) کی اطاعت۔
اس سے پہلی بات تو یہ معلوم ہوئی کہ رسول اولی الامر میں شامل نہیں ہے بلکہ ان سے الگ اور بالاتر ہے۔ اور اس کا درجہ خدا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ دوسری بات جو اس آیت سے معلوم ہوئی وہ یہ کہ اولی الامر سے نزاع ہوسکتی ہے مگر رسول سے نزاع نہیں ہوسکتی۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ نزاعات میں فیصلے کے لیے مرجع صرف اللہ ہوتا تو صراحت کے ساتھ رسول کا الگ ذکر محض بے معنی ہوجاتا۔ پھر جبکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے سے مراد کتاب اللہ کی طرف رجوع کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے تو رسول کی طرف رجوع کرنے کا مطلب بھی اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کہ عہد رسالت میں خود ذات رسول کی طرف اور اس عہد کے بعد سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا جائے۔
سنت کے ماخذ قانون ہونے پر امت کا اجماع
آپ اگر واقعی قرآن کو مانتے ہیں، اور اس کتاب مقدس کا نام لے کر خود اپنے من گھڑت نظریات کے معتقد بنے ہوئے نہیں ہیں تو دیکھ لیجیے کہ قرآن مجید صاف و صریح اور قطعاً غیر مشتبہ الفاظ میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کی طرف سے مقر کیا ہوا معلم، مربی، پیشوا، رہنما، شارح کلام اللہ، شارع، قاضی اور حاکم و فرمانروا قرار دے رہا ہے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ تمام مناصب اس کتاب پاک کی رو سے منصب رسالت کے اجزائے لاینفک ہیں۔ کلام الٰہی کی یہی تصریحات ہیں جن کی بنا پر صحابہ کرام کے دور سے لیکر آج تک تمام مسلمانوں نے بالاتفاق یہ مانا ہے کہ مذکورۂ بالا تمام حیثیات میں حضور صلعم نے جو کام کیا ہے وہ قرآن کے بعد دوسرا ماخذ قانون ہے جب تک کوئی شخص انتہائی برخود غلط نہ ہو، وہ اس پندار میں مبتلا نہیں ہوسکتا کہ تمام دنیا کے مسلمان اور ہر زمانے کے سارے مسلمان قرآن پاک کی ان آیات کو سمجھنے میں غلطی کر گئے ہیں اور ٹھیک مطلب بس اس نے سمجھا ہے کہ حضور صلعم صرف قرآن پڑھ کر سنادینے کی حد تک رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ اور اس کے بعد آپ کی حیثیت ایک عام مسلمان کی تھی۔ آخر اس کے ہاتھ وہ کون سی نرالی لغت آگئی ہے جس کی مدد سے قرآن کے الفاظ کا وہ مطلب اس نے سمجھا جو پوری امت کی سمجھ میں کبھی نہ آیا؟
٨ – موہوم خطرات
آٹھویں نکتے میں آپ فرماتے ہیں کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سارا کام بشر (یعنی ایک عام غیر معصوم بشر) کی حیثیت سے نہیں بلکہ نبی کی حیثیت سے کیا ہوتا تو اس سے لاذماً دو نتائج پیدا ہوتے۔ ایک یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اس کام کو جاری رکھنا غیر ممکم تصور کیا جاتا اور لوگ سمجھتے کہ جو نظام زندگی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قائم کر کے چلا دیا اسے قائم کرنا اور چلانا عام انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ دوسرا نتیجہ اس کا یہ ہوتا کہ اس کام کو چلانے کے لیے لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی نبیوں کے آنے کی ضرورت محسوس کرتے۔ ان دونوں خطرات سے بچنے کی واحد صورت آپ کے نزدیک یہ ہے۔ کہ تبلیغ قرآن کے ماسوا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باقی پورے کارنامہ زندگی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نہیں بلکہ ایک غیر نبی انسان کا کارنامہ مانا جائے۔ اسی سلسلے میں آپ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ اسے رسول کا کارنامہ سمجھنا ختم نبوت کے عقیدے کی بھی نفی کرتا ہے۔ کیونکہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سارا کام وحی کی رہنمائی میں کیا تو پھر ویسا ہی کام کرنے کے لیے ہمیشہ وحی آنے کی ضرورت رہے گی۔ ورنہ دین قائم نہ ہو گا۔
یہ آپ نے جو کچھ فرمایا ہے، قرآن اور اس کے نزول کی تاریخ سے آنکھیں بند کر کے اپنے ہی مفروضات کی دنیا میں گھوم پھر کر سوچا اور فرما دیا ہے۔ آپ کی ان باتوں سے مجھے شبہ ہوتا ہے کہ آپ کی نگاہ سے قرآن کی بس وہی آیتیں گزری ہیں جو مخالفین سنت نے اپنے لٹریچر میں ایک مخصوص نظریہ ثابت کرنے کے لیے نقل کی ہیں اور انہی کو ایک خاص ترتیب سےے جوڑ جاڑ کر ان لوگوں نے جو نتائج نکال لیے ہیں، ان پر آپ ایمان لے آئے ہیں۔ اگر یہ بات نہ ہوتی اور آپ نے ایک مرتبہ بھی پورا قرآن سمجھ کر پڑھا ہوتا تو آپ کو معلوم ہو جاتا کہ جو خطرات آپ کے نزدیک سیرت پاک کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماننے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، وہی سب خطرات قرآن کو وحی الٰہی ماننے سے بھی پیدا ہوتے ہیں۔ قرآن خود اس بات پر شاہد ہے کہ یہ پوری کتاب ایک ہی وقت میں بطور ایک کتاب آئین کے نازل نہیں ہو گئی تھی بلکہ یہ ان وحیوں کا مجموعہ ہے جو ایک تحریک کی رہنمائی کے لیے ٢٣ سال تک تحریک کے ہر مرحلے میں ہر اہم موقع پر اللہ تعالٰی کی طرف سے نازل ہوتی رہی ہیں۔ اس کو پڑھتے ہوئے صاف محسوس ہوتا ہے کہ خدا کی طرف سے ایک برگزیدہ انسان اسلامی تحریک کی قیادت کے لیے مبعوث ہوا ہے اور قدم قدم پر خدا کی وحی اس کی رہنمائی کر رہی ہے۔ مخالفین اس پر اعترضات کی بوچھاڑ کرتے ہیں اور جواب اس کا آسمان سے آتا ہے۔ طرح طرح کی مزاحمتیں راستے میں حائل ہوتی ہیں اور تدبیر اوپر سے بتائی جاتی ہے کہ یہ مزاحمت اس طرح سے دور کرو اور اس مخالفت کا یوں مقابلہ کرو۔ پیرووں کو طرح طرح کی مشکلات سے سابقہ پیش آتا ہے اور ان کا حل اوپر سے بتایا جاتا ہے کہ تمھاری فلاں مشکل یوں دور ہو سکتی ہے اور فلاں مشکل یوں رفع ہو سکتی ہے۔ پھر یہ تحریک جب ترقی کرتے ہوئے ایک ریاست کے مرحلے میں داخلے ہوتی ہے تو جدید معاشرے کی تشکیل اور ریاست کی تعمیر کے مسائل سے کے کر منافقین اور یہود اور کفار عرب سے کشمکش تک جتنے معاملات بھی دس سال کی مدت میں پیش آتے ہیں، ان سب میں وحی اس معاشرے کے معمار اور اس ریاست کے فرمانروا اور اس فوج کے سپہ سالار کی رہنمائی کرتی ہے۔ نہ صرف یہ کہ اس تعمیر اور کشمکش کے ہر مرحلے میں جو مسائل پیش آتے ہیں ان کو حل کرنے کے لیے آسمان سے ہدایات آتی ہیں بلکہ کوئی جنگ پیش آتی ہے تو اس پر لوگوں کو ابھارنے کے لیے سپہ سالار کو خطبہ آسمان سے ملتا ہے۔ تحریک کے کارکن کہیں کمزوری دکھاتے ہیں تو ان کی فہمائش کے لیے تقریر آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ نبی کی بیوی پر دشمن تہمت رکھتے ہیں تو اس کی صفائی آسمان سے آتی ہے۔ منافقین مسجد ضرار بناتے ہیں تو اس کے توڑنے کا حکم وحی کے ذریعہ سے دیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ جنگ پر جانے سے جی چراتے ہیں تو ان کے معاملہ کا فیصلہ براہ راست اللہ تعالٰی کر کے بھیجتا ہے۔ کوئی شخص دشمن کو جاسوسی کا خط لکھ کر بھیجتا ہے۔ تو اس سے نمٹنے کے لیے بھی اللہ میاں خود توجہ فرماتا ہے۔ اگر واقعی آپ کے نزدیک یہ بات مایوس کن ہے کہ دین کو قائم کرنے کے لیے جو اولین تحریک اٹھے اس کی رہنمائی وحی کے ذریعہ سے ہو تو یہ مایوسی کا سبب تو خود قرآن میں موجود ہے۔ ایک شخص آپ کا نقطہ نظر اختیار کرنے کے بعد تو کہہ سکتا ہے کہ جس دین کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کے پہلے قدم سے لے کر کامیابی کی آخری منزل تک ہر ضرورت اور ہر نازک موقع پر قائد تحریک کی رہنمائی کے لیے خدا کی آیات اترتی رہی ہوں اسے اب کیسے قائم کیا جا سکتا ہے۔ جب تک کہ اسی طرح نظام دین کے قیام کے لیے سعی و جہد کرنے والے “مرکز ملت” کی مدد کے لیے بھی آیات الہٰی نازل ہونے کا سلسلہ نہ شروع ہو۔ اس نقطہ نظر سے تو اللہ میاں کے لیے صحیح طریق کار یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تقرر کی پہلی تاریخ کو ایک مکمل کتاب آئین آپ کے ہاتھ میں دے دی جاتی ہیں جس میں اللہ تعالٰی انسانی زندگی کے مسائل کے متعلق اپنی تمام ہدایات بیک وقت آپ کو دے دیات۔ پھر ختم نبوت کا اعلان کر کے فورا ہی حضور کی اپنی نبوت بھی ختم کر دی جاتی۔ اس کے بعد یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں بلکہ محمد بن عبد اللہ کا کام تھا کہ غیر نبی ہونے کی حیثیت سے اس کتاب آئین کو لے کر جد و جہد کرتے اور ماانزل اللہ کے مطابق ایک معاشرہ اور ریاست قائم کر دکھاتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ میاں کو بروقت صحیح مشورہ نہ مل سکا اور وہ اپنا نامناسب طریقہ اختیار کر گئے جو مستقبل میں قیام دین کے امکان سے ہمیشہ کے لیے مایوس کر دینے والا تھا! غضب تو یہ ہے کہ وہ اس مصلحت کو اس وقت بھی نہ سمجھے جب انہوں نے ختم نبوت کا اعلان فرمایا۔ یہ اعلان سورۃ احزاب میں کیا گیا ہے جو اس زمانہ سے متصل نازل ہوئی ہے جبکہ حضرت زید نے اپنی بیوی کو طلاق دی تھی اور پھر ان کی مطلقہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بحکم الہٰی نکاح کیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد کئی سال تک حضور “مرکز ملت” رہے اور ختم نبوت کا اعلان ہو جانے کے باوجود نہ حضور کی نبوت ختم کی گئی اور نہ وحی کے ذریعہ سے آپ کی رہنمائی کرنے کا سلسلہ بند کیا گیا!
آپ کو اللہ میاں کی اسکیم سے اتفاق ہو یا اختلاف، بہرحال قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ ان کی اسکیم ابتدا ہی سے یہ نہیں تھی کہ نوع انسانی کے ہاتھ میں ایک کتاب تھما دی جائے اور اس سے کہا جائے کہ اس کو دیکھ دیکھ کر اسلامی نطام زندگی خود بنا لے۔ اگر یہی ان کی اسکیم ہوتی تو ایک بشر کا انتخاب کر کے چپکے سے کتاب اس کے حوالہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس کے لیے تو اچھا طریقہ یہ ہوتا کہ ایک کتاب چھاپ کر اللہ میاں تمام انسانوں تک براہ راست بھیج دیتے اور دیباچہ میں یہ ہدایت لکھ دیتے کہ میری اس کتاب کو پڑھو اور نظام حق برپا کر لو لیکن انہوں نے یہ طریقہ پسند نہیں کیا۔ اس کے بجائے جو طریقہ انہوں نے اختیار کیا وہ یہ تھا کہ ایک بشر کو رسول بنا کر اٹھایا اور اس کے ذریعہ سے اصلاح و انقلاب کی ایک تحریک اٹھوائی۔
اس تحریک میں اصل عامل کتاب نہ تھی بلکہ وہ زندہ انسان تھا جسے تحریک کی قیادت پر مامور کیا گیا تھا۔ اس انسان کے ہاتھوں سے اللہ تعالٰی نے اپنی نگرانی و ہدایت میں ایک مکمل نظام فکر و اخلاق، نظام تہذیب و تمدن، نظام عدل و قانون اور نظام معیشت و سیاست بنوا کر اور چلوا کر ہمیشہ کے لیے ایک روشن نمونہ (اسوہ حسنہ) دنیا کے سامنے قائم کر دیا تاکہ جو انسان بھی اپنی فلاح چاہتے ہوں وہ اس نمونے کو دیکھ کر اس کے مطابق اپنا نظام زندگی بنانے کی کوشش کریں۔ نمونے کا ناقص رہ جانا لازما ہدایت کے نقص کو مستلزم ہوتا۔ اس لیے اللہ تعالٰی نے یہ نمونے کی چیز براہ راست اپنی ہدایات کے تحت بنوائی۔ اس کے معمار کو نقشہ تعمیر بھی دیا اور اس کا مطلب بھی خود سمجھایا۔ اس کی تعمیر کی حکمت بھی سکھائی اور عمارت کا ایک ایک گوشہ بناتے وقت اس کی نگرانی بھی کی۔ تعمیر کے دوران میں وحی جلی کے ذریعہ سے بھی اس کو رہنمائی دی اور وحی خفی کے ذریعہ سے بھی۔ کہیں کوئی اینٹ رکھنے میں اس سے ذرا سی چوک بھی ہو گئی تو فورا ٹوک کر اس کی اصلاح کر دی تا کہ جس عمارت کو ہمیشہ کے لیے نمونہ بننا ہے اس میں کوئی ادنی سی خامی بھی نہ رہ جائے۔ پھر جب اس معمار نے اپنے آقا کی ٹھیک ٹھیک مرضی کے مطابق یہ کار تعمیر پورا کر دیا تب دنیا میں اعلان کیا گیا کہ الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم تعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا۔
تاریخ اسلام گواہ ہے کہ اس طریق کار نے حقیقتا امت میں کوئی مایوسی پیدا نہیں کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب وحی الہٰی کا دروازہ بند ہو گیا تو کیا خلفائے راشدین نے پے در پے اٹھ کر وحی کے بغیر اس نمونے کی عمارت کر قائم رکھنے اور آگے اسی نمونے پر وسعت دینے کی کوشش نہیں کی؟ کیا عمر بن عبد العزیز نے اسے انہی بنیادوں پر ازسر نو تازہ کرنے کی کوشش نہیں کی؟ کیا وقتا فوقتا صالح فرماں روا اور مصلحین امت بھی اس نمونے کی پیروی کرنے کے لیے دنیا کے مختلف گوشوں میں نہیں اٹھتے رہے؟ ان میں سے آخر کس نے یہ کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو وحی کی رہنمائی میں یہ کام کر گئے، اب یہ ہمارے بس کا روگ نہیں ہے؟ حقیقت میں تو اللہ تعالٰی کا یہ احسان ہے کہ اس نے تاریخ انسانی میں اپنے رسول کے عملی کارنامے سے روشنی کا ایک مینار کھڑا کر دیا ہے، جو صدیوں سے انسان کو صحیح نظام زندگی کا نقشہ دکھا رہا ہے اور قیامت تک دکھاتا رہے گا۔ آپ کا جی چاہے تو اس کے شکر گزار ہوں، اور جی چاہے تو اس کی روشنی سے آنکھیں بند کر لیں۔
9 – خلفائے راشدین پر بہتان
آپ کا نکتہ نمبر یہ ہے :
“حضرات خلفائے کرام اچھی طرح سمجھتے تھے کہ وحی الکتاب کے اندر محفوظ ہے اور اس کے بعد حضور جو کچھ کرتے تھے، باہمی مشاورت سے کرتے تھے۔ اس لیے حضور کی وفات کے بعد نظام میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ سلطنت کی وسعت کے ساتھ تقاضے بڑھتے گئے اس لیے آئے دن نئے نئے امور سامنے آتے تھے جن کے تصفیہ کے لیے اگر کوئی پہلا فیصلہ مل جاتا جس میں تبدیلی کی ضرورت نہ ہوتی تو اسے علی حالہ قائم رکھتے تھے۔ اگر اس میں تبدیلی کی ضرورت ہوتی تو باہمی مشاورت سے تبدیلی کر لیتے اور اگر نئے فیصلہ کی ضرورت تو باہمی مشاورت سے نیا فیصلہ کر لیتے۔ یہ سب کچھ قرآن کی روشنی میں ہوتا تھا۔ یہی طریقہ رسول اللہ کا تھا اور اسی کو حضور کے جانشینوں نے قائم رکھا۔ اسی کا نام اتباع رسول تھا”۔
اس عبارت میں آپ نے پے در پے متعدد غلط باتیں فرمائی ہیں۔ آپ کی پہلی غلط بیانی یہ ہے کہ رسول اللہ جو کچھ کرتے تھے، باہمی مشاورت سے کرتے تھے، حالانکہ مشاورت حضور نے صرف تدابیر کے معاملے میں کی ہے اور وہ بھی ان تدابیر کے معاملے میں جن کے اختیار کرنے کا حکم آپ کو وحی سے نہیں ملا ہے۔ قرآن کی تعبیر و تفسیر، اور اس کے کسی لفظ یا فقرے کا منشا شخص کرنے میں حضور نے کبھی کسی سے مشورہ نہیں لیا۔ اس معاملہ میں آپ کی اپنی ہی شرح قطعی ناطق تھی۔ اس طرح آپ کے پورے عہد رسالت میں کبھی یہ طے کرنے کے لیے کوئی مشاورت نہیں ہوئی کہ لوگوں کے لیے کس چیز کر فرض و واجب کس چیز کو حلال و جائز اور کس چیز کو ممنوع و حرام ٹھہرایا جائے، اور معاشرے میں کیا قاعدے اور ضابطے مقرر کیئے جائیں۔ حضور کی حیات طیبہ میں تنہا آپ کی زبان اور آپ کی عملی زندگی ہی لیجسلیچر تھی۔ کوئی مومن یہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ ان معاملات میں وہ حضور کے سامنے زبان کھولنے کا مجاز ہے۔ کیا آپ کوئی مثال ایسی پیش کر سکتے ہیں کہ عہد رسالت میں قرآن کے کسی حکم کی تعبیر مشورے سے کی گئی ہو، یا کوئی قانون مشورے سے بنایا گیا ہو؟ بہت سی نہیں صرف ایک مثال ہی آپ پیش فرما دیں۔
دوسرے خلاف واقعہ بات آپ یہ فرما رہے ہیں کہ خلفائے راشدین صرف قرآن کو منبع ہدایت سمجھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل کو واجب الاتباع ماخذ قانون نہیں سمجھتے تھے۔ یہ ان بزرگوں پر آپ کا سخت بہتان ہے جس کے ثبوت میں نہ آپ ان کا کوئی قول پیش کر سکتے ہیں نہ عمل، اگر اس کا کوئی ثبوت آپ کے پاس ہے تو وہ سامنے لائیے۔ ان کے طرز عمل کی جو شہادتیں ان کے زمانے سے متصل لوگوں نے دی ہیں وہ تو یہ ہیں :
ابن سیرین (33ھ – 110ھ) کہتے ہیں کہ “ابوبکر کے سامنے جب کوئی معاملہ پیش ہوتا اور وہ نہ کتاب اللہ میں سے اس کے لیے کوئی حکم پاتے، نہ سنت میں اس کی کوئی نظیر ملتی تب وہ اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرتے اور فرماتے یہ میری رائے ہے، اگر صحیح ہے تو اللہ کا فضل ہے۔” (ابن القیم، اعلام الموقعین، جلد 1، ص 54)۔
میمون بن مہران (27ھ – 71ھ) کہتے ہیں : “ابوبکر صدیق کا طریقہ یہ تھا کہ اگر کسی معاملہ کا فیصلہ انہیں کرنا ہوتا تو پہلے کتاب اللہ میں دیکھتے، اگر وہاں اس کا حکم نہ ملتا تو سنت رسول اللہ میں تلاش کرتے۔ اگر وہاں حکم مل جاتا تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے۔ اور اگر انہیں اس مسئلے میں سنت کا علم نہ ہوتا تو لوگوں سے پوچھتے تھے کہ کیا تم میں سے کسی کو معلوم ہے کہ اس طرح کے کسی معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی فیصلہ فرمایا ہے۔” (کتاب مذکور، صفحہ 62)۔
علامہ ابن قیم نے پوری تحقیق کے بعد اپنا نتیجہ تحقیق یہ بیان کیا ہے کہ لا یحفظ للصدیق خلاف نص واحد ابدا۔ ابوبکر صدیق کی زندگی میں نص کی خلاف ورزی کی ایک مثال بھی نہیں ملتی۔” (کتاب مذکور، ج4، ص 120)۔
مشہور واقع ہے کہ ایک دادی اپنے پوتے کی میراث کا مطالبہ لے کر آئی جس کی ماں مر چکی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق نے کہا میں کتاب اللہ میں کوئی حکم نہیں پاتا جس کی رو سے تجھ کو ماںکا حصہ پہنچتا ہو۔ پھر انہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس معاملہ میں کوئی حکم نہیں دیا ہے۔ اس پر مغیرہ بن شعبہ اور محمد بن مسلمہ نے اٹھ کر شہادت دی کہ حضور نے دادی کو چھٹا حصہ (یعنی حصہ مادری) دلوایا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر نے اسی کے مطابق فیصلہ کر دیا۔ (بخاری و مسلم)
موطا میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ حضرت ابوبکر نے اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ کو اپنی زندگی میں کچھ مال دینے کے لیے کہا تھا، مگر انہیں یہ یاد نیہں تھا کہ یہ مال ان کے حوالہ کر دیا گیا تھا یا نہیں۔ وفات کے وقت اپ نے اس سے فرمایا کہ اگر وہ مال تم لے چکی ہو، تب تو وہ تمہارے پاس رہے گا (کیونکہ وہ ہبہ ہو گیا)، لیکن اگر ابھی تک تم نے اسے قبضہ میں نہیں لیا ہے تو اب وہ میرے سب وارثوں میں تقسیم ہو گا (کیونکہ اس کی حیثیت ہبہ کی نہیں بلکہ وصیت کی ہے اور حدیث لا وصیۃ لوارث کو رو سے وارث کے حق میں کوئی وصیت میت کے ترکے میں نافذ نہیں ہو سکتی تھی) اس طرح کی بکثرت مثالیں خلیفہ اول کی زندگی میں ملتی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے بال برابر ہٹنا بھی جائز نہ رکھتے تھے۔
کون نہیں جانتا کہ خلیفہ ہونے کے بعد حضرت ابوبکر کا اولین اعلان یہ تھا کہ اطیعونی ما اطعت اللہ و رسولہ فان عصیت اللہ و رسولہ فلا طاعۃ لی علیکم ” میری اطاعت کرو جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا رہوں۔ (منکرین حدیث کہتے ہیں کہ قرآن میں جہاں بھی اللہ اور رسول کے الفاظ آئے ہیں ان سے مراد “مرکز ملت” ہے۔ لیکن یہ نقطہ حضرت ابوبکر کی سمجھ میں نہ آیا۔ وہ بیچارے یہی سمجھتے رہے کہ میں ” مرکز ملت ” ہونے کی حیثیت سے اللہ اور اس کے رسول کا تابع فرمان ہوں۔ اگر کہیں خلفہ اول کی بیعت کے وقت “طلوع اسلام” رونما ہو چکا ہوتا تو وہ ان سے کہتا کہ اے مرکز ملت “اللہ اور رسول تو تم خود ہو” تم کس اللہ اور رسول کی اطاعت کرنے چلے ہو۔) لیکن اگر میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو میری کوئی اطاعت تم پر نہیں ہے۔” کس کو معلوم نہیں کہ انہوں نے حضور کی وفات کے بعد جیش اسامہ کو صرف اس لیے بھیجنے پر اصرار کیا کہ جس کام کا فیصلہ حضور اپنی زندگی ۔۔۔۔۔ سید ابو اعلی مودودی
——————————
خلفاء راشدین اور صحابہ اکرام رسول الله ﷺ سے محبت کرتے تھے اور ان کی ہر بات پر عمل کرتے – مگر شاید وہ اس بات سے لاعلم تھے کہ احادیث “وحی غیر متلو” ، وحی خفی” تھیں، ورنہ وہ ضرور ان کی تدوین اور حفاظت کا کسی انداز میں بندوبست کرتے-
خلفاء راشدین نے بھی احادیث کی تدوین کا اہتمام نہ کیا جبکہ قرآن سرکاری طور پر تحریر کرکہ اسلامی دنیا میں تقسیم کر دیا گیا- حضرت عمر رضی الله نے کافی غور و فکر کے بعد احادیث کو تحریر میں لانے سے انکار کیا کیونکہ پہلی امتیں کلام الله سے غفلت اور دوسری کتابوں کو ترجیح دے کر گمراہ ہو گییں- حضرت موسی علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی مگر تلمود ہودیوں کی مقدس کتاب بن چکی ہے جو کہ توریت کی تفسیر ہے اور یہودیوں کی من پسند بہت ساری بحثیں اس میں موجود ہیں جو توریت میں نہیں ہیں یہودیوں کے نزدیک ایک خاص اہمیت کی حامل ہے حتیٰ کہ یہودی تلمود کے مطالعہ کو توریت کی تلاوت پر ترجیح دیتے ہیں اور اس پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’حسبنا کتاب اللہ‘ یعنی ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے ۔
( بحوالہ : صحیح بخاری ، کتاب المرضی ، باب قول المريض قوموا عني ، حدیث : 5731 )
امام مالک بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حدیثیں یا ان کی کتابیں لکھنے کا ارادہ کیا، پھر فرمایا کتاب اللہ کے ساتھ کوئی کتاب تحریر نہیں ہوسکتی۔
“Abu-Dhahabi reports: The Caliph Abu-Bakr compiled a work, in which there were 500 traditions of the Prophet, and handed it over to his daughter ‘Aishah. The next morning, he took it back from her and destroyed it, saying: “I wrote what I understood; it is possible however that there should be certain things in it which did not correspond textually with what the Prophet had uttered.”
As to Umar, we learn on the authority of Ma’mar ibn Rashid, that during his caliphate, Umar once consulted the companions of the Prophet on the subject of codifying the Hadith. Everybody seconded the idea. Yet Umar continued to hesitate and pray to God for a whole month for guidance and enlightenment. Ultimately, he decided not to undertake the task, and said: “Former peoples neglected the Divine Books and concentrated only on the conduct of the prophets; I do not want to set up the possibility of confusion between the Divine Qur’an and the Prophet’s Hadith
Muhammad Husayn Haykal
“Umar ibn al-Khattab once tried to deal with the problem of committing the Hadith to writing. The companions of the Prophet whom he consulted, encouraged him, but he was not quite sure whether he should proceed. One day, moved by God’s inspiration, he made up his mind and announced: “I wanted to have the traditions of the Prophet written down, but I fear that the Book of God might be encroached upon. Hence I shall not permit this to happen.” He, therefore, changed his mind and instructed the Muslims throughout the provinces: “Whoever has a document bearing a prophetic tradition, shall destroy it.” The Hadith, therefore, continued to be transmitted orally and was not collected and written down until the period of al-Mamun.”
حضرت ابو بکر، عمر بن خطاب (رضی الله) رسول الله کے قریب ترین صحابہ اور رشتہ دار تھے- ان کی فضیلت تمام صحابہ سے بہت زیادہ تھی، چند اقوال درج ذیل ہیں جو اس کو واضح کرتے ہیں-
رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر کے بعد حضرت عمر( رضی الله) کی جانب رجوع کرنے کا حکم دیا۔ نام لے کر صرف یہ دو صحابی ہی ہیں جن کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے-(صحیح ابن ماجہ#٩٧،و انظر الحدیث ٤٠٦٩ ، صحیح ااصحیحہ ١٢٣٣، و تراجیع البانی ٣٧٧، صحیح الضعیف سنن ترمزی #٣٨٠٥)
………………………..
نصِ قرآنی کے مطابق ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اللہ اور اس کے رسول کی معیت میں داخل ہو چکے تھے۔
اتباع کی قسمیں اللہ کا اتباع اتبعوا ما انزل اليكم من ربكم ولا تتبعوا من دونه اولياء (اعراف: 3) (لوگو) جو (کتاب) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو چلو اسی پر جو اترا تم پر تمہارے رب کی طرف سے اور نہ چلو اس کے سو رفیقوں کے پیچھے تم بہت کم دھیان کرتے ہو۔ رسول کا اتباع قل ان كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله ويغفر لكم ذنوبكم والله غفور رحيم (آل عمران: 31) تو کہہ اگر تم محبت رکھتے ہو اللہ سے تو میری راہ چلو تاکہ محبت کرے تم سے اللہ اور بخشے تمہارے گناہ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ جماعت کا اتباع ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى ونصله جهنم وساءت مصيرا (النساء: 115) اور جو کوئی مخالفت کرے رسول کی جب کہ کھل چکی اس پر سیدھی راہ اور چلے سب مسلمانوں کے رستے کے خلاف تو ہم حوالہ کریں گے اس اسی کی طرف جو اس نے اختیار کی اور ڈالیں گے اس کو دوزخ میں اور وہ بہت بری جگہ پہنچا۔ یہ آیت اجماع امت پر عمل کرنے کی دلیل ہے۔ مجتہد کا اتباع واتبع سبيل من اناب الي (لقمان: 15) راہ چل اس کی جو رجوع ہوا میری طرف سنت رسول ﷺ، سنت صحابہؓ حضرت عرباضؓ سے ایک روایت ہےجس میں آپ ﷺ کی وصیت ہے کہ میرے بعد بہت سے اختلافات پیدا ہوں گے اس کے بعد ارشاد فرمایا: عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالنواجذ (سنن ابن ماجہ کتاب المقدمات، صحیح) تم پر لاز م ہے میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت جو ہدایت یافتہ ہیں ان (یعنی میری اور ان کی سنت) کو اپنی داڑھوں مضبوط پکڑنا۔ حضرت علیؓ کی ایک روایت ہے: جلد النبي صلى الله عليه وسلم اربعين وابو بكر اربعين وعمر ثمانين وكل سنة وهذا احب الي (الحدیث)(صحیح مسلم کتاب الحدود) رسول اللہ ﷺ نے (شرابی کو) چالیس (کوڑے) لگوائے اور ابوبکرؓ نے بھی چالیس (کوڑے لگوائے) اور عمرؓ نے اسی (کوڑے لگوائے) اور ان میں سے ہر ایک سنت ہے اور مجھے یہ (یعنی اسی کوڑے) زیادہ پسند ہیں۔ فائدہ: حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ دونوں کے فیصلے سنت کا درجہ رکھتے ہیں۔ حدیث 1 عن ابي وائل قال جلست مع شيبة على الكرسي في الكعبة فقال لقد جلس هذا المجلس عمر رضي الله عنه فقال لقد هممت ان لا ادع فيها صفراء ولا بيضاء الا قسمته قلت ان صاحبيك لم يفعلا قال هما المرءان اقتدي بهما۔(صحیح البخاری، کتاب الاعتصام بالسنۃ) ابووائل نے بیان کیا کہ میں شیبہ کے ساتھ کعبہ میں کرسی پر بیٹھا ہوا تھا تو شیبہ نے فرمایا کہ اسی جگہ بیٹھ کر عمر رضی اللہ عنہ نے (ایک مرتبہ) فرمایا کہ میرا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ کعبہ کے اندر جتنا سونا چاندی ہے اسے نہ چھوڑوں (جسے زمانہ جاہلیت میں کفار نے جمع کیا تھا) بلکہ سب کو نکال کر (مسلمانوں میں) تقسیم کر دوں۔ میں نے عرض کی کہ آپ کے ساتھیوں (رسول اللہ ﷺاور ابوبکرؓ) نے تو ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں بھی انہیں کی پیروی کر رہا ہوں (اسی لیے میں اس کے ہاتھ نہیں لگاتا)۔ · سیدنا عمرؓ نے اپنے عمل کی بنیاد رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابوبکرؓ کے عمل پر رکھی یعنی ابوبکرؓ کا فیصلہ بھی رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کی طرح نافذ ہوسکتا ہے۔ سنت اور حدیث میں فرق · سنت دائمی عمل کو کہتے ہیں۔ ثبوت سنت کے لئے غیرلازم چیز پر مواظبت (ہمیشگی) ضروری ہے۔ سنت دین کا وہ پسندیدہ معمول و مروج طریق ہے جو خواہ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہو یا آپ ﷺ کے صحابہ کرام سے ثابت ہو۔ اس کی دلیل آپ ﷺ کا یہ ارشاد ہے: تم پر لازم ہے میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت اور سے دانتوں سے (یعنی مضبوطی سے) تھام لو۔ · علیکم بسنتی (صحیح البخاری) علیکم بحدیثی نہیں آیا۔ · صرف فعل سے دوام اور عمل کا سنت ہونا ثابت نہیں ہوتا۔مثلا ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھڑے ہوکر پیشاپ فرمانے کا ذکر ہے۔ فبال قائما (صحیح البخاری) لیکن یہ سنت نہیں۔سنت بیٹھ کر پیشاپ کرنا ہے۔ قبلہ رخ ہوکر رفع حاجت کرنا ثابت لیکن یہ سنت نہیں۔ بچی کو اٹھا کر نماز پڑھنا ثابت لیکن یہ سنت نہیں۔ یا مثلا یہ روایت ہے کہ ابوبکرؓ جماعت کروا رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ابوبکرؓ کے پہلو میں تشریف فرما ہوگئے اب ابوبکرؓ رسول اللہ ﷺ کی اقتدا کررہے تھے اور لوگ ابوبکرؓ کی۔ یہ حدیث تو ہے لیکن سنت نہیں۔ سنت وہی ہے کہ ایک جماعت کا ایک ہی امام ہوگا۔ اس لیے کہ امت نے کبھی اس پر عمل نہیں کیا کہ ایک جماعت کے دو امام ہوں۔ · یا مثلا رسول اللہ ﷺ سے صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ جوتا پہن کر نماز پڑھتے تھے۔ کان یصلی فی نعلیہ (صحیح البخاری) جب کہ ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ بغیر جوتوں کے نماز پڑھتے تھے۔ لیکن امت کا عملی تواتر پہلی حدیث کے بجائے دوسری حدیث پر ہے۔ ساری امت کا اتفاق ہے کہ جوتے پہن کر نماز پڑھنا آپ ﷺ کا نادر عمل ہے۔
آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین...[Continue reading…].3.سنت اور حدیث کی اہمیت اور فرق : اسلام ؛ قرآن اور سنت پر عمل کرنے کا نام ہے۔اسلام کی بنیاد صرف رسول اللہﷺ سے نقل وسماع ہے، قرآن کریم بھی رسول اللہﷺ ہی کے ذریعہ ملا ہے؛ انھوں نے ہی بتلایا… [Continue reading…]4..حدیث میں تحریف اور اہمیتحدیث کی شرعی حیثیت: کتاب اللہ کے بعد رسول اللہؐ کی سنت شریعت کا دوسرا سرچشمہ اور اصل واساس ہے، یہ قرآن کریم کی تشریح اور اس کے اصول کی توضیح اور اجمال کی تفصیل ہے، ان دونوں کے…[Continue reading…].5.حدیث کی کتابت قران کی طرح خلفاء راشدین نے کیوں نہ کی ؟حادیث کے وحی ہونے یا نہ ہونے کی جہت سے بعض علماءِ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے دو حصے مقرر کر دیئے اور کہا کہ آپؐ کا ہر قول و فعل تو وحی نہیں البتہ آپؐ...[Continue reading…]6.فرقہ واریت, 73 فرقوں والی حدیث:’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے کہ: بنی اسرائیل میں سے لوگ بہتر(72) فرقوں میں تقسیم ہوئے اور امت مسلمہ تہتر(73)فرقوں میں تقسیم ہو گی اِن میں سے بہتر فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک فرقہ جنّت…[Continue reading…]7.مقلدین اورغیر مقلدین: مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ﴿30:32﴾ (اور نہ) اُن لوگوں میں (ہونا) جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور (خود) فرقے فرقے ہو گئے۔ سب فرقے اسی سے خوش...[Continue reading…]
8.اسلام میں فرقہ واریت – تاویلیں، دلائل اور تجزیہهُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَـٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ ( سورة الحج22:78) اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام “مسلم” رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم... [Continue reading…].9.انسداد فرقہ واریتانسداد فرقہ واریت مختصر تاریخ اورعملی اقدامات: وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ ’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘( آل عمران،3 :103) وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا...[Continue reading…]10.فرقہ وارانہ مذہبی بیانیوں پر مختصر تبصرہ :آپ کا مسلک کیا ہے؟” جواب .. “کچھ نہیں”۔ کہنے لگے “پھر بھی”۔ کہا “الحمدللہ میں مسلمان ہوں اور یہ نام الله کا دیا ہوا ہے۔ طنزیہ فرمانے لگے کہ “کہیں بھی جانا ہو، بندے کا کوئی ایک راستہ…[Continue reading…]11. بدعت، بدا :کسی شے کے عدم سے وجود میں آنے کو بدعت کہتے ہیں۔ اس طرح بدعت کرنے والے فاعل کو مبتدع یا بدعتی اور عربی میں “بَدِيع” کہا جاتا ہے۔ لغوی اصطلاح میں بدعت کسی مفعول کے عدم سے وجود میں آنے اور مبتدع اُسے وجود میں لانے والے فاعل کیلئے استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ (قرآن ٢:١١٧). ترجمہ: (وہی اللہ) موجد (نیا پیدا کرنے والا) ہے آسمانوں اور زمین کا [Continue reading…]12..فرقہ واریت کا خاتمہ : پہلا قدم:آج کے دور میں مسلمان کئی فرقوں میں بٹ چکے ہیں اگرچہ ان کی اکثریت اسلام کے بنیادی عقائد اور عبادات پر متفق ہے مگر فروعی اختلافات کی شدت نے نفاق کے بیج اس طرح بو دیئےہیں کہ انتشار…[Continue reading…]13: وحی متلو (قرآن ) اور غیر متلو (حدیث ) – تحقیقی جائزہ Revelations – Quran and Hadith
انسداد فرقہ واریت مختصر تاریخ اورعملی اقدامات وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ ’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘( آل عمران،3 :103) وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ… [Continue reading…]