“مسلک” بہت بعد کی ایجاد ہے ، اللہ نے اہل ایمان کو “مسلم” نام عطا فرمایا۔ اس کے علاوہ کوئی اور نام کیوں پسند کریں۔ فروعی اختلافات اللہ کی عبادت میں رکاوٹ نہیں ہونا چاہیئے۔ نماز اللہ کی عبادت ہے ، امام تو اتحاد کی علامت ہے۔
قرآن پر سب مسلمانوں کا ایمان ہے، جس کو سب مسلمان مکمل طور پر کلام اللہ تسلیم کرتے ہیں، یہی الله کی مظبوط رسی ہے جس کو الله تعالی مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیتا ہےاور یہی تفرقہ کے خلاف موثر ترین ڈھال ہے-
تفصیلی مطالعہ اور تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس خطرہ کو اگر ختم نہیں تو کم کرنا ممکن ہے۔
تمام مسلمان اپنے آپ کو صرف اور صرف “مسلمان” کے نام سے پکاریں، کسی اور نام کی جازت نہ دیں،جو نام الله نے دیا وہ مکمل ہے، کسی اکسٹرالیبل (extra label) کی ضرورت نہیں-
ہم کواللہ کے بیان میں کوئی کمی کیوں محسوس ہوتی ہے، حیلے، بہانوں سے ہم اللہ کے دیئے ہوئے نام “مسلم” کی بجا ئے, مسلک ،فقہ ، منہج کا لیبل لگانے کی کیا ضرورت ہے؟
هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَـٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ ( سورة الحج22:78)
بدعت کی دو اقسام ہیں:
1. بدعت ُمکفِّرہ
2. بدعت غیر ُمکفِّرہ/ مُفسِّقہ
بدعت مُکَفِّرہ:
اس سے مراد ایسا کام ہے جس کے ارتکاب سے مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے۔ کسی کفریہ کام کے بارے میں یہ تو کہا جاسکتا ہےکہ یہ کفریہ کام ہے، لیکن اگر کوئی اس کام کا ارتکاب کرے تو اس پر کفر کا حکم لگانے سے پہلے ان امور کا خیال کرنا بہت ضروری ہے۔ أولا دیکھا جائے کہ کفریہ کام کے ارتکاب کے پیچھے کیا اسباب ہیں۔ اور پھر ان اسباب کا سد باب کیا جائے۔ کفریہ کام بسا اوقات صحیح نص نہ پہنچنے کی وجہ سے ہوتا ہے، اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ وہ نص اس کے نزدیک ثابت نہیں ہوتی، یا یہ بھی ہوتا کہ اس کو اس میں فہم کی استطاعت نہ ہو یا ممکن ہے کہ اسے کچھ شبہات درپیش ہوں جو اس نص کو ماننے میں رکاوٹ ہوں۔ اس لیے پہلے ان اسباب کو ختم کیا جائے گا۔ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ زیر بحث کام کا تعلق ایسے امور سے نہ ہو جس میں سلف و خلف میں اختلاف ہو ۔
کچھ علماء کا خیال ہے کہ اتمام حجت اور کفریہ کام کے اسباب کو ختم کرنے کے بعد بھی اس پر کفر کا حکم عام شخص نہیں لگا سکتا بلکہ یہ کام حکومت کے ذمہ داری میں شامل ہے کیونکہ عامی کے ہاتھ اس کا اختیار دینے میں بہت مفاسد ہیں۔
کچھ علماء کا خیال ہے کہ اس کام کا تعلق اصول سے ہو نہ کہ فروع سے۔ اگر اس نے کوئی ایسا کام کیا جس کا تعلق فروع یعنی عملی کاموں سے ہو تو تب اس کو کافر نہیں قرار دیا جائے گا۔ اس کو کافر قرار دینے کے لیے اس بات کا تعلق عقائد سے ہونا ضروری ہے۔ جبکہ دیگر علماء اس پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کام کا تعلق خواہ عمل سے ہو یا عقیدہ سے اس کی تکفیر دیگر شرائط کو ملحوظ رکھ کر ہی کی جاسکتی ہے۔ بدعت مکفرہ کے مرتکب شخص کے پیچھے بھی بالاتفاق نماز نہیں پڑھی جائے گی۔ مگر اس کے لیے مذکورہ بالا شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے۔
بدعت غیر مکفرہ/ مفسِّقہ:
یعنی جس کے کرنے سے انسان گناہ گار ہوجاتا ہے مگر اسے کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کو فسق و فجور اور نافرمانی میں شمار کیا جاتا ہے۔ ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنے کے مکروہ اور ناپسندیدہ ہونے پر اتفاق ہے۔ پھر یہ دو اقسام پر منقسم ہوگا۔ ایک وہ بھی فسق و فجور کی دعوت دیتا ہے اور دوسرا جو صرف اس کام کو اپنے تک محدود رکھتا ہے۔ مؤخر الذکر صورت میں اس شخص کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ (والله اعلم )
source: https://aqilkhans.wordpress.com/
http://salaamone.com/%D8%A8%D8%AF%D8%B9%D8%AA-%D8%8C-%D8%A8%D8%AF%D8%A7%D8%8C-bidaah-1/