اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام “مسلم” رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ
کیا ھر وہ شخص جو اسلامی مذاھب یعنی اھل سنت کے چاروں مذاھب کے علاوہ مذھب ظاھری، مذھب جعفری، مذھب زیدی یا مذھب اباضی میں سے کسی ایک کی پیروی کرے اور اس کے احکام پر عمل کرے ، مسلمان ہے ؟
یا کہ وہ مذاھب جو کہ سنی اسلام میں سے نہیں ہیں ،کیا حقیقی اسلام کا جزو شمار ہوتے ہیں؟
اسلام ایک ایسا دین ہے جسے خدا نے پسند کیا ہے خاتم الانبیاء حضرت محمد (ص) اسے دنیا والوں کے لئے لائے ہیں تا کہ اس کے پیروکار قیامت کے دن تک دنیا و آخرت کی سعادت اور خوش بختی حاصل کر سکیں اور جو بھی اس سے منہ موڑ لے گا اور اس کو چھوڑ دیےگا ، گمراہی میں گرفتار ھو جائے گا اللہ تعالی کا ارشاد ھے :
اور جو بھی اسلام کے علاوہ کوئی دین اپنائے ھرگز اس سے قبول نھیں کیا جائے گا اور وہ شخص آخرت میں خاسرین گھاٹے میں رہنے والوں) میں سے ہے ۔ (۱)
اور یہ بھی ارشاد فرمایا : إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الإِسْلاَمُ بیشک خدا کے نزدیک دین ، اسلام ہی ہے ۔ (۲)
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پراستوار ہے ، عبداللہ بن عمر رض سے روایت ھے کہ پیغمبر خدا (ص) نے فرمایا : بني الاسلام علي خمس، شهادة ان لااله الاالله و ان محمداً رسول الله و اقام الصلاة و ايتاء الزکاة و الحج و صوم رمضان: ۔ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم ھے ۔ لا الہ الا اللہ اور محمداً رسول اللہ کی گواھی دینا ، نماز قائم کرنا ، زکات دینا ، حج اور رمضان کے روزوں پر ۔
لا الہ الا اللہ کی گوای، توحید کا اثبات اور محمد رسول اللہ کی گواھی ، رسالت اور نبوت اور پیغمبر (ص) سے سنی ہوئی تمام چیزوں کا اثبات ہے جیسے : ملائکہ الٰھی ، کتابیں ، انبیاء ، قیامت کا دن اور مقدرات الٰھی چاہے خیر ہو یا شر ۔ عمر بن خطاب سے نقل ہوا ہے : ایک دن ھم نبی اکرم (ص) کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک مرد ہمارے پاس آیا جس کے کپڑے بہت سفید اور بال بہت کالے تھے ۔ سفر کا کوئی اثر اس کے ظاھر میں نہیں تھا اور ہم میں سے کوئی اس کو نہیں پہنچانتا تھا ۔ پیغمبر (ص) کے پاس بیٹھ گیا ۔ اس کے زانو رسول (ص) کے زانو سے ملے ہوئے تھے اور اس نے اپنا ہاتھ آپ (ص) کی ران پر رکھا اور عرض کیا : اے محمد ! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے ، نبی اکرم (ص) نے فرمایا :
الاسلام ان تشهد ان لااله الاالله و ان محمداً رسول الله و تقيم الصلاة و تؤتي الزکاة وتصوم رمضان و تحج البيت ان استطعت اليه سبيلاً، قال: صدقت. قال فعجبنا له يسأله و يصدقه. قال: فاخبرني عن الايمان. قال: ان تؤمن بالله و ملائکته و کتبه و رسله و اليوم الاخر وتؤمن بالقدر خيره و شره. قال: صدقت۔ ثم انطلق فلبثت مليا قال لي: يا عمراتدري من السائل؟ قلت: الله و رسوله اعلم. قال: فانه جبرئيل اتاکم يعلمکم دينکم.
اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اللہ وحدہ لا شریک کے علاوہ کوئی خدا نھیں ہے اور محمد(ص) اس کے رسول ہیں اور نماز کو قائم کرو، زکات دو، رمضان میں روزہ رکھو اور اگر استطاعت ہو تو خانۂ کعبہ کا حج کرو ۔ اس مرد نے کہا: آپ نے سچ کہا ۔ ہم نے تعجب کیا کہ وہ کیسے سوال بھی کرتا ہے اور تصدیق بھی کرتا ہے ۔ اس مرد نے کہا: مجھے ایمان کے بارے میں بتاؤ؟ آپ(ص) نے فرمایا: یہ کہ خدا اور اس کے ملائکہ، کتابیں، رسولوں اور قیامت کے دن پر ایمان لے آؤ اور قدر پر ایمان رکھو چاہے خیر ہو چاہے شر۔ اس نے کہا: صحیح ہے، پھر چلا گیا ۔ میں سوچ میں پڑ گیا، آپ(ص) نے مجھ سے فرمایا: اے عمر! کیا جانتے ہو کہ سوال کرنے والا کون تھا؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا: وہ جبرئیل تھے جو آئے تھے تاکہ تمھارا دین تم کو سکھائیں ۔
نبی اکرم(ص) نے مسلمان ہونے کی حدود کو بیان فرمایا ہے۔ اس کے بعد کہ اسلام کی علامتوں کو واضح فرما دیا ہے۔ انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) نے نبی اکرم(ص) سے روایت کی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا: من شهد ان لااله الاالله و استقبل قبلتنا و صلي صلاتنا و اکل ذبيحتنا فهو المسلم، له ما للمسلم و عليه ما علي المسلم : جو بھی یہ گواہی دے کہ خدائے وحدہ لا شریک کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور ہمارے قبلے کی طرف رخ کرے اور ہماری طرح نماز پڑھے اور ہمارے ذبیحہ(ذبح کئے گئے جانور) کو کھائے، تو وہ مسلمان ہے،ایک مسلمان کے جملہ حقوق اس کے لئے ہیں اور مسلمان کے تمام فرائض اس پر واجب ہیں ۔
” اھل سنت و جماعت ” کی اصطلاح عباسی حکمرانوں کے دور کی ابتدا سے رائج ہوئی ہے ۔ اسلام اس سے زیادہ سابق اور جامع ہے اور کسی خاص مذھب تک محدود نہیں ہوتا ۔ بلکہ تمام سنی، ظاھری، جعفری و زیدی مذاھب، اسلام کے پرچم کے نیچے اور اس کے احکام کے تابع ہیں اور سارے وہ بزرگ پیشوا کہ جن سے یہ مذاھب منسوب ہیں، اسلام کے آستانے پر سر جھکاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک، ایسے مجتھدین مطلق ہیں کہ جن کے علمی مراتب کو اھل سنت قبول کرتے ہیں۔ منجملہ ائمہ اھل بیت اطھار میں سے امام زید بن علی (رضی اللہ عنہ)، کہ جن کی طرف مذھب زیدیہ کی نسبت دی جاتی ہے اور ان کے بھائی امام ابو جعفر محمد بن علی الباقر (رضی اللہ عنہ) اور آپ(ع) کے فرزند امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) کہ جن سے امام مالک (رضی اللہ عنہ) نے درس حاصل کیا ھے اور امام ابو حنیفہ (رضی اللہ عنہ) نے آپ سے روایت نقل کی ہے اور مذھب جعفری آپ(ع) کی طرف منتسب ہے ۔ ان پیشواؤں میں سے ہر ایک اجتھاد میں ایک خاص طریقہ رکھتے تھے ۔
صحابہ اور تابعین کے بعد، زید بن علی، امام محمد باقر(ع)، امام جعفر صادق(ع) کا (اھل سنت کے) پیشوا ابو حنیفہ، اوزاعی اور لیث بن سعد کے ساتھ اختلاف ہو گیا، اور ان کے بعد بھی شافعی کا اصحاب مالک و ابو حفینہ کے ساتھ اختلاف ہو گیا؛ لیکن یہ نظریوں کا اختلاف، دین خدا میں خصومت اور یقینی مسائل میں اختلاف کی صورت میں نہیں تھا، بلکہ فکری نظریہ کا اختلاف، دینی متون کی تفسیر اور اسلام کے حقیقی معانی کے ادراک میں تھا ۔ اسی لئے عمر بن عبد العزیز کہتے ھیں: رسول اللہ(ص) کے اصحاب کا اختلاف، سرخ اونٹوں کی طرح مجھے خوش کرتا ہے اس لئے کہ اگر ان کی رائے ایک ہوتی تو لوگ مشکل میں پڑ جاتے ۔
ہر مجتھد کو اس کا اپنا نصیب ملے گا چاہے وہ غلطی پر ہو ۔ اس لئے کہ نبی اکرم (ص) نے فرمایا ھے : اذا اجتھد الحاکم فاخطأ فلہ اجرو ان اجتھد فاصاب فلہ اجران ؛ اگر حاکم اپنے اجتھاد میں خطا کرے تو اس کو ایک اجر ملے گا اور اگر اس کا اجتھاد حق سے جاکر ملے تو اس کا دو اجر ہوگا ۔
ابن عباس، عطا، مجاھد اور مالک بن انس (رضی اللہ عنہ) سے نقل ھوا ھے: کہ ” رسول خدا(ص) کے علاوہ لوگوں میں سے کوئی بھی ایسا نھیں ھے مگر یہ کہ ان کی بعض باتوں کو قبول کیا جاتا ھے اور بعض کو رد کر دیا جاتا ھے ” ۔
ابو حنیفہ (رضی اللہ عنہ) کا بھی اس طرح کا قول ھے: ” یہ میری رائے ھے اور یہ سب سے بھترین رائے ہے جسے میں نے چنا ہے، جو بھی اس سے بھتر رائے دے گا، میں اسے قبول کرلوں گا ” ۔
امام مالک (رضی اللہ عنہ) نے کہا ہے: ” میں ایک انسان ہوں میں کبھی صحیح راستہ پر چلتا ہوں اور کبھی مجھ سے غلطی بھی ہو جاتی ہے۔ میری رائے کو کتاب اور سنت کی کسوٹی پرپرکھو “۔
شافعی (رضی اللہ عنہ) بھی کہتے ہیں: ” اگر کوئی صحیح حدیث تم کو ملے جو میرے نظریہ کے خلاف ھو، تو میرے نظریہ کو دیوار پر ماردو اور اگر کوئی حجت(کتاب و سنت) چاہے راستہ میں ھی تم کو ملے، تو میری رائے وہی ہے۔ میرا نظریہ صحیح ہے لیکن اس کے غلط ہونے کا احتمال بھی ہے اور دوسروں کی رائے غلط ہے لیکن اس کے صحیح ہونے کا احتمال بھی پایا جاتا ہے “!
ائمہ اھل بیت(علیھم السلام ) اصول سے تمسک کیلئے بھت اھتمام کرتے تھے اور دوسرے پیشواؤں کے ساتھ ” گفتگو ” فرماتے تھے، جیسا کہ امام باقر (رضی اللہ عنہ) کی گفتگو ابو حنیفہ (رضی اللہ عنہ) کے ساتھ ۔ زیدی مذھب پر عقیدہ رکھنے والے بھی اھل بیت کے گزرے ھوئے لوگوں کا احترام کرتے تھے اور مختلف شھروں کے مذاھب کو بھی نظراندازنہیں کرتے تھے، اپنے آپ کو مذاھب اربعہ سے علاحدہ نھیں کیا اور ان پر جفا نھیں کی، بلکہ صحاح ستہ کو معتبر سمجھا اور اپنی کتابوں میں بغیر کسی تعصب کے دوسرے مذاھب کے علماء و مجتھدین کے نظریوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔
مذھب جعفری کے پیروکار بھی ارکان ایمان پر عقیدہ رکھتے ہیں اور ارکان اسلام کیلئے حرمت کے قائل ہیں اور اکثر فروع میں دوسرے مذاھب کے ساتھ ھم عقیدہ ہیں۔ اھل سنت کے ائمہ نے علم، ائمۂ شیعہ سے حاصل کیا ھے جیسا کہ بعض شیعہ علماءنے بھی اھل سنت کے علماء سے درس حاصل کیا ہے ۔ (۳)
یہ ایک تاکید ہے اس بات پر کہ وہ لوگ، اسلامی امت واحدہ کا ایک جزو ہیں ۔
اگر کوئی اختلاف ہے بھی تو تاریخی امور سے متعلق ہے کہ بعض لوگ اسے گہرا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کتنا بھتر ھوگا کہ ھم اس زمانہ میں، ان اختلافات سے عبور کریں(گزر جائیں) تاکہ امت کی وحدت کو حقیقت میں تبدیل کر سکیں اور سامنے آنے والے امتحانوں کے مقابلہ میں اپنے اتحادو یکجہتی کو تقویت پہنچائیں ۔
ہم کیوں اپنی مصلحتوں کے بارے میں نہیں سوچتے اور ماضی کےراستوں پر رک گئے ہیں اورگڑے مردرےاکھاڑنے میں لگے ھیں تاکہ ایک دوسرے سے گستاخی اور اختلاف کرسکیں؟! کیوں اپنے سلف صالح کا احترام نہیں کرتے ھیں؟ الله فرماتا ھے:
تلکَ اُمّۃٌ قَد خَلَت لَھا ما کَسَبَت و لکم ما کَسَبتُم ولا تُسئَلونَ عَمّا کانوا یَعمَلونَ۔
یہ وہ قوم تھی جو گزر گئی، انھیں وہ ملے گا جو انھوں نے کمایا اور تمھیں وہ ملے گا جو تم کماؤگےاور تم سے ان کے اعمال کے بارے میں سوال نھیں ھوگا ۔ (۴)
خدایا! ھمیں معاف کردے اور ھمارے ان بھائیوں کو بھی جنھوں نے ایمان میں ھم پر سبقت کی ہے اور ہمارے دلوں میں صاحبان ایمان کے لئے کسی طرح کا کینہ قرار نہ دینا کہ تو بڑا مھربان اور رحم کرنے والا ھے ۔ (۵)
اور اباضیہ، عبداللہ بن اباض کے پیروکار ہیں اور خوارج میں سے سب سے معتدل گروہ اور جماعت مسلمین سے سب سے نزدیک ترین ہیں۔ اپنے مخالفین کو نعمت کا کافر سمجھتے ھیں عقیدہ کا کافر نھیں۔ اس لئے کہ وہ خدا کا انکار نھیں کرتے بلکہ خدا کے حضور میں کوتاھی کرتے ھیں ۔
اباضیہ، اپنے مخالفین کا خون محترم سمجھتے ھیں، ان کی سرزمین کو بادشاھوں کی جنگی چھاؤنی کے علاوہ، توحید اور اسلام کی سرزمین (دار الاسلام) سمجھتے ھیں، ، لیکن اس بات کو علنی طور پر نھیں کہتے ۔
ان کی باطنی رائے یہ ھے کہ ان کے مخالفین کی سرزمین اور خون حرام ہے، اگر کچھ مسلمان ان سے جنگ کریں تو گھوڑا اور اسلحہ اور جنگی آلات کے علاوہ، ان کی غنیمتیں حلال نہیں ہیں، لیکن سونا اور چاندی کو لوٹا دیتے ھیں ۔ ان کا فقہ بھی اسلامی مذاھب کے فقہ سے نزدیک ھے اور ایسا ھے کہ کوئی بھی مسلمان، شھادتیں پڑھنے والوں کو تکفیر نھیں کر سکتا جو قبلہ کی طرف رخ کرتے ھیں اور اھل سنت کے چاروں مذاھب، مذھب ظاھری، جعفری، زیدی اور اباضی کے پیروکار ان میں سے ھر ایک مسلمان ھے اور سب ظاھری طور پر شریعت پاک محمدی(ص) کے تابع ھیں، ان کے باطن کا بھی اللہ تعالیٰ ذمہ دار ہے ۔
ابن عباس (رضی اللہ عنہ) نقل کرتے ھیں: نبی اکرم(ص) نے ایک گروہ کو ایک قوم کے ساتھ جنگ کرنے کیلئے بھیجا کہ جس میں مقداد بھی تھے ۔ لشکر اس وقت پھنچا جب سارے دشمن بھاگ چکے تھے، صرف ایک مالدار آدمی ان میں سے بچا تھا جس نے اسلام کے لشکر کو دیکھ کر کہا: اشھد ان لا الہ الا اللہ مقداد نے اسے قتل کر دیا، نبی اکرم(ص) نے ان سے فرمایا: کل لا الہ الا اللہ کے ساتھ کیا کروگے؟ اس کے بعد یہ آیت شریفہ نازل ھوئی:
اے ایمان لانے والو! جب تم راہ خدا میں جھاد کیلئے سفر کرو تو پہلے تحقیق کر لو اور خبردار جو اسلام کی پیش کش کرے اس سے یہ نہ کہنا کہ تم مؤمن نھیں ہو ۔
دوسرا سوال: ھمارے زمانہ میں تکفیر کی حدیں کیا ھیں؟ کیا ایک مسلمان ان لوگوں کی تکفیر کر سکتا ھے جوروایتی اسلامی مذاھب میں سے کسی ایک کے یا اشعری مذھب کے پابند ھیں؟ اس کے علاوہ کیا حقیقی طریقت صوفیہ کے پیروکاروں کی تکفیر کی جا سکتی ھے؟
جواب: الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسولہ الامین محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعین و بعد؛ آج کل بعض افراد کے نزدیک، غرور، تکبر اور تنگ نظری کی وجہ سے تکفیر کی کوئی حدود نہیں رہ گئي ہیں ؟ جبکہ یہ حق کے خلاف ہے ۔ امام ابو حنیفہ (رضی اللہ عنہ) کہتے ھیں: لوگوں میں سب سے زیادہ عالم شخص وہ ہے جو لوگوں کے فکری اختلافات کے بارے میں سب سے زیادہ عالم ہو ۔ کبھی کبھی تکفیر ھوا پرستی، فکری ونظری تعصب یا رد عمل کی صورت میں ھوتی ہے اور باعث ھوتی اے کہ اختلاف جو کہ صحت اور خیر کی علامت ھے، ایسی مخالفتوں میں تبدیل ھو جائے جو کہ شر اور برائی کا بیج ڈالتی ھیں اور دشمنی، خصومت، گالی گلوچ اور تھمت لگانے کا باعث ھو جاتی ھیں، یھاں تک کہ تکفیر تک پہنچ جاتی ھے ۔ اللہ سبحانہ فرماتا ھے:
بیشک جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا اور ٹکڑے ٹکڑے ھو گئے ان سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے ، ان کا معاملہ خدا کے حوالے ہے ، پھر وہ انہیں ان کے اعمال کے بارے میں با خبر کرے گا ۔ (۷)
ابو ھریرہ سے نقل ہوا ہے: کہ نبی اکرم(ص) نے اس آیت ان الذین فرقوا دینھم کے بارے میں فرمایا:
وہ لوگ جنھوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا، اھل بدعت اور شبھات اور اس امت کے راستے سے گمراہ ہوگئے ۔
اور عمر بن خطاب سے نقل ھوا ہے کہ پیغمبر اعظم (ص) نے عائشہ سے فرمایا:
(ان الذین فرقوا دینھم و کانوا شیعاً)، اِنَّما ھُم اصحابُ البِدَعِ و اصحابُ الاھواءِ و اصحابُ الضلالَۃِ من ھٰذہِ الاُمَّۃِ یا عائشہ! اِنَّ لِکُلِ صاحِبِ ذَنبٍ بَراءٌ غَیرَ اَصحابِ البِدَعِ وَ اصحابُ الاھواءِ لَیسَ لَھم توبۃٌ و اَنا بَریءٌ منھم وھُم مِنّی بَراء ۔
جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا اور ٹکڑے ٹکڑے ھو گئے، بیشک وہ اس امت کے اھل بدعت اور ھوس پرست اور گمراہ لوگ ھیں اے عائشہ! بیشک ھر گنھگار کیلئے [دوزخ کی آگ سے] برائت [نجات] ھے، اصحاب بدعت اور ھوس پرستوں کے علاوہ کہ جن کیلئے توبہ نھیں ھے اور میں ان سے بری [دور] ھوں اور وہ مجھ سے بری [دور] ھیں ۔
یہ آیت شریفہ نبی اکرم(ص)کی طرف اشارہ کرتی ھے کہ ان کا عذاب کرنا آپ (ص) کے ذمہ پر نھیں ھے آپ (ص) صرف انذار کرنے والے اور ڈرانے والے ھیں ۔
حضرت علی (رضی اللہ عنہ) فرماتے تھے: و اللہ ما فرقوہ و لکنھم فارقوہ: خدا کی قسم انھوں نے دین میں تفرقہ پیدا نھیں کیا بلکہ وہ دین سے جدا ھو گئے ۔
ابو ھریرہ، عائشہ اور ابو امامہ نے اس آیت کی تاویل میں کھا ھے: ” یہ لوگ اس امت کے بدعت گزار اور منحرف لوگ ھیں ” ۔
تکفیر ایک نہایت خطرناک امر ھے، اس لئے کہ اس کا نتیجہ مسلمانوں کے خون اور مال کو حلال سمجھنا اور اس کی کرامت کو پامال کرنا ھے اور اس کے عواقب قیامت کے دن تک باقی رھنے والے ھیں ۔ اس لئے کہ جھنم کی آگ میں ھمیشہ ھمیشہ رھنے کا سبب ھے ۔ تو تکفیر سے دوری کرنا جھاں تک ممکن ھو واجب ھے اور ان لوگوں کے خون اور مال کو مباح سمجھنا ایک بھت بڑی خطا ھے جو لوگ قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ھیں اور لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کھتے ھیں اور ھزار کافر کو زندہ رکھنے میں غلطی کرنا کسی مسلمان کے خون کا ایک قطرہ گرانے سے زیادہ آسان[اس سے کم اھمیت رکھنے والا] ھے ۔ پیغمبر اعظم(ص) نے فرمایا ھے:
مجھے حکم ملا ھے کہ لوگوں کے ساتھ جنگ کروں یھاں تک کہ وہ کھیں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ، جب ایسا کھہ لیں تو انھوں نے اپنے خون اور اموال کو میرے تعرض سے محفوظ کر لیا ھے،اس کے علاوہ کہ اس کاحق ھو ۔
یہ سب شرعی اور فقھی احکام کے مطابق ھے نہ کہ عقلی قواعد کے ۔
امام طحاوی(رحمۃ اللہ) نے کھا ھے: ” ھم اھل قبلہ میں سے کسی ایک کو بھی گناہ کرنے کی وجہ سے تکفیر نھیں کرتے، الا یہ کہ گناہ کے حلال ھونے پر اعتقاد رکھتا ھو، ھم نھیں کھتے: گناہ، گنھگار کے ایمان کو نقصان نھیں پھنچاتا ھے” ۔
یہ اھل سنت کے عقیدہ کی توضیح اور خوارج کے عقائد کی تردید ھے جو کہ ھر گناہ کو کفر کا باعث سمجھتے تھے اور طحاوی نے ” مالم یستحلہ ” کی عبارت کے ذریعہ اسے مقید کردیا ھے ۔ یعنی گناہ اس وقت کفر کا باعث ھوگا کہ اس کے حلال ھونے کے عقیدہ کے ساتھ ھو ۔
اور(ھم نھیں کہتے کہ گناہ، گنھگار شخص کے ایمان کو نقصان نھیں پھنچاتا) کی عبارت مرجئہ کے عقائد کا رد ھے جو کھتے ھیں: ” گناہ، ایمان کو نقصان پھنچاتا ھے جیسا کہ کافر کی اطاعت اسے کوئی فائدہ نھیں پھنچاتی ھے ” ۔
علامہ صدر الدین علی بن علی بن محمد بن ابی العز حنفی، ” شرح طحاویہ ” میں مرجئہ کے شبھہ کے بارے میں کھتے ھیں: صحابہ کے زمانے میں ایک ماجرا واقع ھوا کہ جس کے عاملین کے قتل پر، توبہ نہ کرنے کی صورت میں، اصحاب نے اجماع [ایک ھونا] کیا اور وہ ماجرا یہ تھا: قدامہ بن مطعون اور ایک دوسرے گروہ نے شراب کے حرام ھونے پر علم حاصل کرنے کے بعد، شراب پی لی اور آس آیت شریفہ کو تأویل کیا:
لَیسَ عَلی الذینَ آمَنوا وَ عَمِلوا الصالِحاتِ جُناحٌ فیما طَعِموا اِذا ما اتَُقَوا و آمَنوا و عَمِلو الصّالِحاتِ ۔
ان لوگوں پر جو ایمان لائے اور عمل صالح انجام دیا کوئی حرج نھیں ھے ان چیزوں میں جسے [پھلے] کھا چکے ھیں اگر تقوا اختیار کریں اور ایمان لے آئیں اور عمل صالح انجام دیں ۔ (۸)
جب یہ خبر عمر بن خطاب تک پھنچی، تو وہ اور علی بن ابی طالب اور دوسرے اصحاب (رضی اللہ عنھم) نے ارادہ کیا کہ اگر وہ لوگ شراب کے حلال ھونے پر اصرار کریں، تو انھیں قتل کر دینا چاھئے عمر بن خطاب نے قدامہ سے کھا: تم نے غلطی کی ھے اور اپنے ھاتھوں اپنی قبر کھودلی ھے تم اگر پرھیزگار اور با ایمان ھوتے اور عمل صالح انجام دیتے تو شراب نھیں پیتے اس لئے کہ اس آیت کا نزول اس لئے تھا کہ جس وقت جنگ احد کے بعد خدا نے شراب کو حرام قرار دیا تو اس وقت بعض صحابہ (رضی اللہ عنھم) نے کھا: پھر ھمارے دوستوں کا کیا ھوگا؟ وہ تو شراب پیتے تھے اور مرچکے ھیں؟ خدا نے اس آیت کو نازل کیا تا کہ بتائے کہ تحریم شراب سے پھلے جن لوگوں نے شراب پی تھی، اگر وہ صالح اور پرھیزگار مؤمنین میں سے تھے تو ان پر کوئی گناہ نھیں ھے بالکل اس طرح کہ اس سے پھلے مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے۔
اس کے بعد یہ گروہ[قدامہ اور اس کے دوست] پشیمان ھوئے لیکن توبہ سے نا امید اور مایوس تھے ۔عمر نے قدامہ کو لکھا:
حم، اس کتاب کا نازل کرنا عزیز و علیم خدا کی طرف سے ھے،[جو کہ] گناہ بخشنے والا، توبہ قبول کرنے والا اور سخت سزا دینے والا ھے ۔ ھم نھیں جانتے کہ تمھاری کون سی گناہ زیادہ بڑی ھے؟ حرام الٰھی کا حلال سمجھنا یا پروردگار کی رحمت سے نا امید اور مأیوس ھونا؟
وہ چیز جس پر اصحاب اتفاق رکھتے ھیں، اس پر سارے مسلمان اتفاق رکھتے ھیں ۔
امام طحاوی (رح) کھتے ھیں: ” کوئی بھی بندہ اھل ایمان کے دائرے سے خارج نھیں ھوتا، مگر اس چیز کے انکار سے جس نے اسے مسلمانوں کے گروہ میں شامل کیا ھے ” اور یہ انھیں کے جملہ کی ایک دوسری تعبیر ھے کہ ” ھم اھل قبلہ میں سے کسی کو بھی گناہ کی خاطر تکفیر نھیں کرتے مگر یہ کہ اس گناہ کو حلال سمجھے ” ۔
امام علی (رضی اللہ عنہ) نے خوارج کی بیعت توڑنے کو ان کی بے ایمانی کا باعث نھیں سمجھا اور ان کی تکفیر نھیں کیا فرمایا: “کلمۃ حق یراد بھا الباطل” اور ان سے خطاب فرمایا:
لَکُم عَلَینا ثَلاثٌ، لا نَمنَعکُم مَساجِدَ اللہِ اَن تَذکُروا فیھا اسمَ اللہِ وَ لا نَبدَؤُکُم بِقِتالٍ و لا نَمنَعکُم الفَیء ما دامَت اَیدیکُم مَعَنا ۔
تم لوگوں کے ھم پر تین حق ھیں: ھم تمھیں خدا کی مساجد میں خدا کے نام کو یاد کرنے کیلئے حاضر ھونے سے منع نہ کریں اور تمھارے ساتھ جنگ شروع نہ کریں اور جب تک تمھارا ھاتھ ھمارے ساتھ ھے، ھم بیت المال کو تم سے نہ روکیں ۔
خوارج کے ساتھ آپ(ع) کا سلوک، آپ کا اھل اسلام جیسا سلوک تھا ۔
امام ابو الحسن اشعری (رح) کھتے ھیں: پیغمبر اکرم(ص) کے بعد مسلمانوں نے کچھ امور میں اختلاف کیا، ایک دوسرے کو گمراہ کیا، ایک دوسرے سے بیزاری کا اعلان کیا اور فرقوں میں تبدیل ھو گئے، لیکن اس سب کے باوجود اسلام ان کے بیچ جمع کرتا ھے(یعنی سب کے سب مسلمان ھیں)۔
بھت سے بزرگ علماء جھاں تک ھو سکتا ھے مسلمانوں کی تکفیر سے بچتے ھیں ۔
ابن نجیم نے، جو کہ حنفی مذھب کے بزرگ فقھاء میں سے ھیں، اپنے بھت سے تکفیری فتوؤں کو واپس لے لیا اور کھا: اگر کسی مسئلہ میں ننانوے وجھیں ھوں کہ جن کی وجہ سے تکفیر لازم ھو اور ایک وجہ ایسی ھو جس میں تکفیر لازم نہ ھو تو یہ ایک وجہ وہ ساری ننانوے وجھوں پر بھاری ھے اور رجحان رکھتی ھے اس کے بعد کس کی جرأت ھو سکتی ھے کہ بغیر شرعی حجت و دلیل کے کسی مسلمان کی تکفیر کرے؟ ۔
لیکن اشعری عقیدہ کے پیروکار اور حقیقی تصوف کی طریقت پر چلنے والے: امام محمد عبدہ رحمہ اللہ تعالی علیہ ان کے بارے میں لکھتے ھیں: وہ لوگ نبی اکرم(ص) اور ان کے اصحاب (رضی اللہ عنھم) کے احکام پر نھایت سختی سے عمل کرتے ھیں ۔
مذھب اشاعرہ، اھل سنت و جماعت کے مذاھب میں سے ایک ھے اور امام سفارینی حنبلی، کتاب لوامع الانوار میں کھتے ھیں: اھل سنت و جماعت تین فرقہ ھیں : اثریہ ، کہ جن کے امام احمد بن حنبل (رضی اللہ عنہ) ھیں، اشعریہ، کہ جن کے امام ابو الحسن اشعری (رحمہ اللہ) اور ما تردیدیہ، کہ جن کے امام ابو منصور ماتریدی (رح) ھیں ۔
اس بنا پر، مذاھب اھل سنت و جماعت، نقلی رجحان کے علاوہ عقلی رجحان کو بھی اپنے اندر شامل کرتے ھیں ۔ نقلی رجحان، ” اثریہ ” ،احمد بن حنبل کے پیروکاروں میں دیکھی جاتی ھے اور عقلی رجحان کی نمائندگی، متکلمین، اشعری مذھب کے علماء اور ما تریدیہ کرتے ھیں ۔ وھی لوگ جنھوں نے عقلی ادلہ کو وضع کرنے کیلئے اور اعتقادی شبھات کے مقابلے میں دفاع کرنے کیلئے قیام کیا اور ایسے گمراہ فرقوں کے ساتھ بحث اور مناقشہ کر کے ان کی مکرو فریب کو انھیں کو واپس لوٹا دیا جو کہ چاھتے تھے کہ مسلمانوں کی زندگی میں زھر گھول کر اپنے باطل عقائد کو منتشر کریں ۔
اس بناپر اھل سنت و جماعت، تین شاخوں کے ساتھ ایک متکامل مذھب ھے کہ جس نے عقلی و نقلی ادلہ کو ایک ساتھ اکٹھا کیا اور دینی عقائد پر یقین کو مسلمانوں کیلئے تحفہ کے طور پر لائے ۔ یہ سب کلیات میں، متفق القول ھیں اور بعض جزئیات میں ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ھیں ان فرقوں میں کوئی بھی صرف اپنے لئے صواب کا مدعی ھوکر دوسروں کی تکفیر نھیں کر سکتا اس لئے کہ اس اعتقاد پر مسلمانوں کے دل ایک دوسرے سے جڑے ھیں، بھت سی کتابیں قرآن کی تفسیر، سنت کی شرح، لغت اور ادب کے موضوعات میں لکھی گئی ھیں اور کروڑوں مسلمان، دنیا کے مشرق و مغرب میں اس پر عقیدہ رکھتے ھیں اور ھزاروں علماء نے، مختلف مکاتب و مذاھب اور مختلف شھروں میں سے، ان عقائد کی خدمت کیلئے کمر باندھ لی ھے ۔
اور صوفیہ: امام عبدالحلیم محمود رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے فتاوا میں ان کے بارے میں فرماتے ھیں: صافی صوفی جو کہ گفتار اور کردار میں، اخلاص کے ساتھ خدا کی کتاب اور رسول(ص) کی سنت پر پابند ھوں، اس اسلام کے سائے میں ھیں کہ جسے خدا نے اپنے بندوں کیلئے پسند کیا ھے اور اس کی بنیاد، خالص توحید اور ظاھر و باطن میں الٰھی مراقبت، خدا ترسی پر مبنی خود سازی، اور لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک اور حسن خلق پر ھے ۔ خدا نے ان کا قبلہ سب چیز میں قرار دیا ھے، دنیا ان کے لئے آخرت کی کھیتی ھے اور ان کے ھاتھ میں مال، لوگوں کو فائدہ پھنچانے کیلئے ھے اور ھرگز اس کی طرف دل نھیں لگایا ھے ۔
ظاھر سے پھلے صوفی لوگ، باطن کو پاک کرتے ھیں اور ان کاموں کو اولیت دیتے ھیں جن کا ربط دل سے ھے ۔ روحی اور اخلاقی تربیت کا اھتمام کرتے ھیں اور حقیقی و صافی صوفی، احکام شرع حنیف پر پابند اور رفتار و کردار میں بدعتوں اور انحرافات سے دور ھیں ۔
تیسرا سوال: اسلامی شریعت میں کس شخص کو حقیقی مفتی سمجھا جا سکتا ھے؟ امر افتاء کو اپنے ذمہ لینے کیلئے اور دین کو سمجھنے کیلئے اور شریعت اسلامی کی پیروی میں لوگوں کی ھدایت کیلئے اسلامی صلاحیتیں کیا ھیں؟
جواب: الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسولہ الامین محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعین و بعد؛ مفتی کےلئے شرط ھے کہ:
۱۔ منابع و مصادر شرع پر احاطہ رکھتا ھو تاکہ اس کی صحیح تقدیم و تاخیر کوسمجھ کراسکی تحقیق کر کے اس حکم کا انتخاب کر سکے کہ جس کی صحت پر ظن قوی موجود ھے۔
۲۔ عادل ھو اور ان گناھوں سے اجتناب کرے جو کہ عدالت میں مانع ھیں۔ یہ شرط اس لئے ھے کہ اس کے فتوا پر اعتبار کیا جا سکے ۔ جو شخص عادل نہ ھو، اس کا فتوا قبول نھیں ھے، ھر چند کہ عدالت، فتوا دینے کی شرط نھیں ھے ۔ دوسرے لفظوں میں، عدالت فتوا کے قبول ھونے کی شرط ھے، صحت اجتھاد کی شرط نھیں ھے ۔ ابن قیم رحمہ اللہ کھتے ھیں: چونکہ الٰھی احکام کو پھنچانا، احکام پر علم اور کلام میں سچائی پر مبنی ھے، اس لئے روایت و فتوا کے مرتبۂ ابلاغ کو حاصل کرنا، علم اور سچائی رکھنے والے لوگوں کے علاوہ کسی اور کے لئے موزوں نھیں ھے ۔ مفتی جس چیز کی تبلیغ کرتا ھے اسے اس کا علم ھونا چاھئے اور اسے چاھئے کہ اپنے کلام میں سچا ھو اور نیک طریقہ اور پسندیدہ سیرت پر پرقائم رہے ؛ اپنے گفتار و کردار میں عادل اور اس کا ظاھر و باطن اور مدخل و مخرج یکساں ھو ۔
نووی (رح) کھتے ھیں: مفتی کی شرط یہ ھے: کہ بالغ، مسلمان، قابل اعتبار، امین اور اسباب گناہ اور خلف مروت سے پاک ھو، اور آگاہ دل، سالم ذھن، محکم فکر اور صحیح کردار بھی رکھتا ھو ۔ اسے چالاک ھونا چاھئے ۔ غلام اور آزاد، مرد اور عورت، اندھا اور بہرا اس کے نزدیک ایک جیسے ھوں ۔
شیخ ابو عمرو ابن صلاح (رح) کھتے ھیں: اسے چاھئے کہ ایک راوی کی طرح، رشتہ داری، دشمنی، منفعت طلبی اور دفع ضرر کے اثر کے تحت واقع نہ ھو، اس لئے کہ مفتی اپنے کام میں، حکم شرع کی خبر دیتا ھے، ایک ایسا حکم جو کسی خاص شخص سے مخصوص نھیں ھے ۔ اس کی مثال راوی کی طرح ھے نہ شاھد، اس کا فتواء حکم قاضی کے برخلاف الزام نھیں لاتا ۔ افتاء، اجتھاد سے اخص ھے ۔ اجتھاد، احکام کا استنباط ھے، چاھے کسی موضوع میں سوال کیا گیا ھو یا نھیں، بالکل اسی طرح کہ ابو حنیفہ اپنے درس میں عمل کرتے تھے اور مختلف فروع اور متنوع فروض کو ابھارتے تھے یا پھر مناسب قیاس کا انتخاب کرتے تھے تا کہ اس استنباط کی بنیاد پر، حکم دیں اور ان قیاسوں کی موزونیت اور اس کے اسباب کو پھچان لیں ۔
لیکن افتاء اس جگہ پر ھے کہ جھاں ایک ایسا امر واقع ھوا ھو کہ جس کا حکم فقیہ جانتا ھے ۔ سابق الذکر شرائط کے علاوہ مجتھد کے صحیح فتوا کے اور بھی شرائط ھیں اور وہ یہ ھیں: جس امر کے بارے میں پوچھا گیا ھے اس کی شناخت، سوال کرنے والے کی ذھنیات کی تحقیق اور اس معاشرہ کی شناخت کہ جس میں وہ رہ رھا ھے تاکہ اپنے فتوے کے منفی اور مثبت آثار کو جان لے اور اس کے فتوے کی وجہ سے، لوگ خدا کے دین کو کھیل تماشہ نہ بنالیں ۔
ابن قیم (رح) نے ابن عبداللہ بن بطہ (رح) سے اپنی کتاب میں خلع کے بارے میں امام احمد بن حنبل (رح) سے نقل کیا ھے کہ منصب افتاء کو سنبھالنا کسی کے لئے مناسب نھیں ھے، مگر یہ کہ اس کے اندر یہ پانچ صفات موجود ھوں:
۱۔ پاک نیت، جو کہ اگر اس میں نہ ھو، تو وہ خود اور اس کا کلام نورانیت سے خالی ھے ۔
۲۔ علم، حلم، وقار اور سکون ۔
۳۔ علمی طاقت اور کافی شناخت ۔
۴۔ زندگی میں کفایت شعاری، ورنہ لوگ اسے چبا جائیں گے ۔
۵۔ لوگوں کی شناخت ۔
توضیح: نیت، کام کی بنیاد اور اس کا ستون ھے ۔ ایک ایسی بنیاد اور جڑ ھے کہ جس پر کام مستحکم اور مضبوط ھوتا ھے ۔ نیت، عمل کی روح اور اس کا رھبر ھے، عمل، نیت کا تابع ھے ۔ اگر نیت صحیح ھو، تو عمل بھی صحیح ھے اور اگر فاسد ھو، تو عمل بھی فاسد ھے ۔ الٰھی توفیق، پاک نیت کا نتیجہ ھے ۔ حلم، وقار اور سکون، مفتی کے علم کا لباس اور اس کی خوبصورتی ھے ۔ اگر مفتی میں حلم اور وقار نہ ھو تو اس کی مثال اس بدن کی طرح ھے جو لباس نہ رکھتا ھو بعض گذشتہ لوگوں نے کھا ھے: کوئی چیز کسی دوسری چیز کے ھمراہ نھیں ھوئی ھے جو کہ بھتر ھو اس علم سے جو حلم کے ساتھ ھو اور لوگ اس اعتبار سے چار گروہ میں تقسیم ھوتے ھیں، ان میں سے بھترین وہ شخص ھے جو کہ علم کو حلم کے ساتھ رکھتا ھو اور بد ترین وہ شخص ھے جو کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی اس کے پاس نہ ھو ۔ تیسرا گروہ، وہ لوگ ھیں جو علم کے زیور سے آراستہ ھیں، لیکن بردباری کی صفت سے بے بھرہ ھیں اور چوتھا گروہ، تیسرے گروہ کے بر عکس ھے ۔
تو بردباری، علم کا زیور اور اس کی نورانیت اور جمال ھے اور اس کے مقابلے میں بیوقوفی، جلد بازی، غصہ اور ناپائیداری ھے ۔
وقار اور سکون، علم کا پھل اور اس کا نتیجہ ھے اور مفتی اس کا بھت محتاج ھے، اس لئے کہ اس کے قلب کے اطمینان اور اس کے سکون کا باعث ھے ۔ وقار کی جڑ دل میں اور اس کے آثار اعضاء و جوارح میں ھے ۔ وقار اور سکون دو قسم کا ھے: عام اور خاص، جیسے انبیاء کا سکون اور مومنین کا جو کہ انبیاء کے پیروکار ھیں ۔ اس فضیلت تک پھنچنے کیلئے، بندے کو چاھئے کہ ھمیشہ پروردگار کے حضور کو مد نظر رکھے، اس طرح سے کہ گویا اسے دیکھ رھا ھے، جتنا یہ خیال زیادہ ھوگا حیاء، سکون، محبت، خضوع، اور اس کی خوف رجاء زیادہ ھو جائے گی اور ھوشیاری کے بغیر ان میں سے کوئی ایک بھی حاصل نھیں ھوگا ۔
لیکن علمی توانائی؛ مفتی، علمی و عملی توانائی کا محتاج ھے ۔ حق کے کلام میں جب تک کلام کا نفوذ نہ ھو، تو وہ فائدہ مند نھیں ھو سکتا ۔
مادی بے نیازی اس لئے شرط ھے کہ مفتی، لوگوں کا محتاج نہ ھو اور ان کادست نگرنہ ھو ۔ بے نیاز عالم دین، اپنے عمل کو انجام دینے میں زیادہ طاقت رکھتا ھے اور جب لوگوں کا محتاج ھو جائے، تو اس کا عمل مرجاتا ھے اور وہ صرف نظارہ کرنے والا ھے ۔
لوگوں کی شناخت، ایک اھم اصل ھے کہ جس کا مفتی اور حاکم محتاج ھے ۔ اگر فقیہ، مردم شناس نہ ھو، تو ظالم اس کے نزدیک مظلوم اور مظلوم اس کی نظر میں ظالم کی طرح جلوہ کرے گا اور لوگوں کے مکرو فریب اس میں اثر کر جائیں گے ۔ وہ زندیق کو صدیق اور کاذب کو صادق دیکھے گا ۔ اسے چاھیئے کہ وہ لوگوں کی چال بازی کو سمجھنے میں بھی فقیہ ھو تاکہ ان کے مکر و فریب اور نیرنگ و سازش کو پھچان سکے ۔ اس لئے کہ فتوا، زمان و مکان اور مفادات و حالات بدلنے کے ساتھ ساتھ بدلتا ھے اور یہ سب دین خدا کی تعالیم میں سے ھے ۔
وہ چیز جو فتوے میں مطلوب ھے، حق، اعتدال اور میانہ روی ھے ۔ حدیث میں آیا ھے:
سددوا و قاربوا و اغدوا و روحوا، شیء من الدلجۃ، القصد، القصد تبلغوا ۔
مستحکم اور مضبوط رھو اور ایک دوسرے سے نزدیک ھو جاؤ اور میانہ روی اختیار کرو، میانہ روی اختیار کرو تاکہ اپنے مقصد تک پھنچ جاؤ ۔
شاطبی (رح) کھتے ھیں: وہ مفتی جو کہ کمال کے سب سے اونچے درجے پر پھنچ چکا ھے، لوگوں کو بیچ کے راستے کی طرف لے جائے گا جو کہ لوگوں کےلئے موزوں ھے، نہ انھیں انتھاپسندی اور افراط کی طرف لے جائے گا اورنہ ھی لا ابالی پن اور لا پرواھی کی طرف ۔
اس طریقہ کے صحیح ھونے کی دلیل یہ ھے کہ شریعت نے اس کا حکم دیا ھے جیسا کہ پھلے بیان ھو چکا، مقدس شارع نے مکلفین سے، میانہ روی اور افراط و تفریط سے پرھیزکرنے کاحکم دیا ھے ۔ اگر مفتی اس طریقہ سے خارج ھو جائیں، تو وہ شارع کے مقصد سے باھر ھو گئے ھیں ۔ اسی لئے بیچ کے راستے سے نکل جانے والے، علم میں راسخین کے نزدیک مذموم ھیں ۔ اور یہ شیوہ بھی وھی ھے جو کہ رسول اللہ(ص) اور ان کے اصحاب کی سیرت سے استنباط کیا جاتا ھے، وھی کہ جس میں شرط ھے کہ تمام نیک صفات کو اپنے اندر رکھتا ھو، استاد نے، اس جگہ پر چالیس خصلت کو بیان کیا ھے منجملہ:
شرط ھے کہ مفتی بالغ ھو، اس لئے کہ بچہ اگر اجتھاد کے درجہ پر پھنچ بھی جائے اور احکام کو درک کر لیا ھو، اس کے رائے پر اعتماد نھیں کیا جاسکتا، لیکن بالغ کی رائے پر اعتماد ھے اور مناسب ھے کہ مفتی عربی زبان، قرآن، علم اصول، تاریخ(ناسخ و منسوخ)، علم حدیث، علم فقہ اور نفسیات کے علم کو جانتا ھے اور عدالت کی فضیلت بھی رکھتا ھو ۔ بعض علماء نے دوسری شخصی صفات کی طرف بھی اشارہ کیا ھے جو کہ اسلام، عقل، ذکاوت اور ذھانت ھے ۔
اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام “مسلم” رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ . (سورة الحج22:78)
مسلمانوں میں فرقہ واریت کی لعنت کو اگرفوری طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا ، توابتدا میں قرآن کے حکم کے مطابق صرف ایک درست عمل کی شروعات سے شدت اور منفی رجحانات کو کم کرکہ فرقہ واریت کے خاتمہ کے سفر کا آغاز کے آجاسکتا ہے, کچھ اہم اقدام :
1.ہرایک فقہ اور فرقہ کا دعوی ہے کہ وہ قرآن و سنت پر پر عمل پیرا ہیں، جس کو دوسرے قبول نہیں کرتے اور وہ خود دعوی دار ہیں کہ وہ حق پرہیں- ہم سب کو معلوم ہے کہ مسلمان کے علاوہ تمام لیبل اور مذہبی القاب و نام بعد کے زمانہ کی ایجادات ہیں- تو ایک متفقہ نام “مسلمان” پر جو قرآن و سنت و حدیث اور تاریخ سے مسلسل پر ثابت ہے اور اور اب بھی ہماری اصل پہچان ہے، اس نام “مسلمان” کو مکمل اصل حالت میں بحال کر دیں-
2. تمام مسلمان اپنے اپنے موجودہ فقہ و نظریات پر کاربند رہتے ہوۓ، الله تعالی کے عطا کردہ ایک نام پر متفق ہو کر اپنے آپ کو صرف اور صرف “مسلمان” کے نام سے پکاریں، کسی اور نام کی جازت نہ دیں،جو نام الله نے دیا وہ ہر طرح سے مکمل ہے،تعارف، شناخت یا کسی اور حجت کی وجہ سےفرقہ پرستی کو رد کریں- یہ پہلا قدم ہے- مسلمان کو کسی اکسٹرالیبل (extra label) کی ضرورت نہیں- جب کوئی آپ سے قریبی تعلقات یا رشتہ داری قائم کرنا چاہتا ہو تو تفصیلات معلوم کی جاسکتی ہیں- اپنی مساجد، مدارس، گھروں اور اپنے ناموں کے ساتھ فرقہ وارانہ القاب لگانے سے مکمل اجتناب کریں- نفس کہتا ہے مشکل ہے، مگر اللہ کا حکم بھی ہے، فرمانبردار (مسلم) بن کر اس آزمائش سے گزریں، الله پرتوکل کریں-
3. یہ اقدام اسلام کے ابتدائی دور ، رسول الله ﷺ اور صحابہ اکرام کے زمانہ کے مطابق ہو گا، جس کی خواہش ہر مسلمان دل میں رکھتا ہے- الله اور رسولﷺ یقینی طور پر آپ سے بہت خوش ہوں گے- اس احسن روایت، سنت کے دوبارہ اجرا پر الله ہم پر رحمتوں اور برکات کی بارش فرمایے گا- اس نیک عمل سے آپ دین و دنیا میں کامیابی کے راستے پر چل پڑیں گے- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ (ماآنا علیہ واصحابی) یعنی وہ لوگ جو میرے اور میرے اصحاب کے طریقے پر ہوں گے وہی جنتی ہیں۔ فیصلہ صرف الله کا اختیار ہے- تہتر فرقوں والی حدیث مبارکہ میں امت مسلمہ کے اندر تفریق و گروہ بندی کی جو پیشن گوئی تھی وہ خبر،محض بطور تنبیہ و نصیحت کے تھی- بدقسمتی سے مسلمانوں کے مختلف فرقوں نے اس حدیث کو اپنے لئے ڈھال بنا لیا ہے اور (ماآنا علیہ واصحابی) کی کسوٹی سے صرف نظر کرتے ہیں اور ہر ایک گروہ اپنے آپ کو ناجی فرقہ کہتا ہے اور اپنے علاوہ دیگر تمام مکاتب فکر کو ضال و مضل اور بہتر (٧٢) فرقوں میں شمار کرتا ہے- حدیث سے یہ بھی پتا چلا کہ ان تمام گمراہ فرقوں کا شمار بھی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت میں کیا ہے وہ جہنم میں تو جائیں گے، مگر ہمیشہ کے لئے نہیں، سزا کاٹ کر اس سے نجات پا جائیں گے (٧٣) واں فرقہ ہی اول وہلہ میں ناجی ہوگا کیونکہ یہی سنت پر ہے، یہی باب سے مناسبت ہے۔
4.کسی صورت میں کوئی گروہ دوسرے مسلمانوں کی تکفیر نہ کریں،یہ پلٹ کر تکفیر کرنے والے پر پڑتی ہے(مفھوم) [ابی داوود ٤٦٨٧] ہر حال میں اس شدت پسندی سے بچنا ہے- جنت ، جہنم کا فیصلہ صرف الله کا اختیار ہے- ہم کو اچھے اعمال میں ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرناہے-
5. تمام فقہ اور فرقوں کے علماء پر مشتمل ایک فورم تشکیل دیا جا ئے جہاں مسقل بنیاد پر پرکم از کم مشترکہ متفقہ اسلامی نظریات کو یکجا کے جا سکے[ Minimum Common Points of Agreement]. غیر اسلامی رسوم و رواج کو بتدریج معاشرہ سے پاک کیا جائے- علماء کی جدید طریقه تعلیم اور ٹیکنولوجی سے مناسب تعلیم و تربیت اور معاشی سٹرکچر سرکاری طور پر نافذ کیا جاے- یہ تمام کام حکومت اور علماء کے تعاون سے سرانجام پا سکتے ہیں-
ایک کتاب یا ڈسکشن سیشن سےصدیوں پر محیط مائینڈ سیٹ کو تبدیل تو نہیں کیا جاسکتا مگر اہل عقل کے لیے غور فکر کےدروازے کھل سکتے ہیں ….
یقیناً اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والی مخلوق میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق کو ماننے سے انکار کر دیا پھر کسی طرح وہ اسے قبول کرنے پر تیار نہیں(9:55)
“اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں واقعی اللہ تعالیٰ زبردست بڑا بخشنے واﻻ ہے” (35:28)
“ملسمون” یا “مسلمین” کا اردو، ترجمہ “مسلمان” ہے. اس کے علاوہ اور نام جو اللہ تعالیٰ نے قران کریم میں مسلمانوں لیئے جو نام پسند فرمائے ہیں ان میں”یٰایھا الذین اٰمنوا” یعنی اے ایمان والو. واحد کے لیئے “مؤمن” جمع کے لیئے مؤمنون یا مؤمنین اور صفاتی القاب- موجودہ مشہورمسلمان گروہوں اور فرقوں کے نام جو منہج کے نام پر بزرگ فقیہ وامام ، شہر ، یا کتاب سے منسوب ہیں قرآن و سنت سے ثابت نہیں، بلکہ قرآن کی روح کے خلاف ہیں- اس کا قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیقی جائزہ لیا جا رہا ہے-
دین و مذھب کے نام کی اہمیت:
کچھ کوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نام سے کیا فرق پڑتا ہے اصل دین تو ایمان اور عمل کا نام ہے- بظاھر تو بات معقول لگتی ہے، آینے اس کا جائزہ لیتے ہیں- اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ اسلام کو علم الاسماء سکھایا ، یعنی ناموں کا علم ۔۔۔۔ نام انسان کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتا ہے اور اسی وجہ سے حضورکرام صلّی اللہ علیہ وسلم نے ایام جاہلیت کے مہمل نام تبدیل کروائے ۔ ترمذی میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم برے ناموں کو بدل کر ان کے عوض اچھے نام رکھ دیا کرتے تھے ۔ (ترمذی111/2)- نام کسی انسان کی زندگی کا وظیفہ ہوتا ہے کیونکہ وہ بار بار پکارا جاتا ہے ۔ اگر آپ اپنے نام کی نسبت سے کام کرینگے تو آپ کئی گُنا اضافی ملے گا اور اگر آپ کے مخالف چلیں گے توآپ ایک ناکام زندگی گزار کر جائینگے- اگر دنیا میں مختلف مذاھب کے ناموں پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اکثر مذاھب اپنی بانی شخصیت کے نام سے منسوب ہیں- بدھ مت، گوتم بدھ کے نام پر، مسیحیت ، عیسایت، حضرت عیسی علیہ السلام، یہودی، یہودا(حضرت یعقوب علیہ السلام کے ایک فرزند) بنی اسرایئل کی نسل کی شاخ،اسی طرح زرتشت ،بہائی مت، تاؤ مت، کنفیوشس مت وغیرہ- ہندو مت اور جین مت کا بانی کوئی ایک شخص نہیں، ہندومت کے پیروکار اِس کو”سناتن دھرم” (‘لازوال قانون) کہتے ہیں -قدیم ہندومذھب کتاب “ویدا” سے بھی منسوب ہے- لفظ “جین مت” سنسکرت کے ایک لفظ “جِن” سے لیا گیا ہے، جس کے معنی ہے(جذبات،نفس کا) فاتح – بانی مذہبی شخصیات کے نام پر رواج کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنے والوں کو “محمدی” کہلوانا چاہیئے مگر ایسا نہیں ہوا اگرچہ مغربی مسیحی مستشقرین نے کوسش کی کہ Muhamddans کا نام تقویت پکڑے مگر کامیاب نہ ہو سکے- حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اگر خود کسی مذھب کے موجد ہوتے تو کسی انسان کے لیے اپنے نام سے بہتر اور کیا نام ہو سکتا ہے، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ قرآن الله کی طرف سے نازل وحی ہے جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام صرف پانچ مرتبہ آیا- اللہ کا دین اور اس کو قبول کرنے والوں کا نام بھی الله کی طرف سے رکھا گیا- “اسلام” اور “مسلمان” (عربی : الْمُسْلِمِينَ) کی نسبت اس دین کے خالق سے ہے جس کا ایک صفاتی نام “السلام” ہے-
الله کے نزدیک صرف دین اسلام هے :
” ان الدین عندالله الاسلام ” اس لئے تمام ایسے لوگ جنہوں نے اللہ کے دین کو اپنے اپنے زمانه میں قبول کیا اور احکام الہی کے پابند تھے وه مسلمان تھے- پہلے کے تمام الہامی ادیان ” اسلام” پر تھے، فرق صرف شریعت میں رکھتے هیں- قرآن مجید کی اصطلاح ( الْمُسْلِمِينَ) میں، “مسلمان” ہونے کا مطلب ہے کہ الله تعالی کے فر مان ، اور هر قسم کے شرک سے پاک مکمل توحید کے سامنے مکمل طور پرسر تسلیم خم کرنا هے اور یهی وجه هے که قرآن مجید حضرت ابراھیم علیه السلام کو مسلمان کے نام سے متعارف کر تا هے- قرآن مجید کے مطابق الہامی ادیان کے تمام پیرو کار اپنے زمانه میں مسلمان تھے اور اس طرح عیسائی اور یهودی وغیره نئ وحی کے آنے سے پہلےان کا دین منسوخ نه هو نے تک مسلمان تھے ، کیونکه وه پرور دگار عالم کے حضور تسلیم هوئے تھے- بائبل کی موجودہ کتب میں اب بھی خدا کے احکامات کے آگے سر تسلیم کرنے کی آیات کثیر تعداد میں موجود ہیں:
“اور خدا ہمیں اپنی را ہیں بتا ئے گا،اور ہم اس کے راستو ں پر چلیں گے۔”(یسعیاہ 2:2)، ”اَے میرے خدا! میری خوشی تیری مرضی پوری کرنے میں ہے بلکہ تیری شریعت میرے دل میں ہے۔“ (زبور ۴۰:۸)، ”میرا کھانا یہ ہے کہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی کے موافق عمل کروں اور اُس کا کام پورا کروں۔“ (یوح ۴:۳۴؛ ۶:۳۸)
[“Surrender and obedience to the Will of God” in Bible: Psalm 40:8، 112:1, 148:8,103:20, Jeremiah 31:33, 1 John 2:1-29، 2:17، Matthew 12:50، 26:42، 6:10، John 5:30، 4:34 ، Acts 21:14، Romans 12:2، Hebrews 10:7]
انھیں جو یهودی یا عیسائی کہا جاتا ہے، وه ان کے پیغمبروں کے ناموں سے لوگوں میں مشہور ہوا وہ نام الله کے عطا کردہ نہیں، مگر قرآن میں ان کا انہی مشھور ناموں سے تذکرہ کیا گیا تاکہ پڑھنے والے کو سمجھنے میں آسانی ہو- آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کے بعد وہ “اسلام ” اور”مسلمان” کے اعزاز سے محروم ہو گیے-
اس دور میں”اسلام” کا اطلاق آخری رسول و نبی ، محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی کی آخري الہامي کتاب (قرآن مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے- اب “مسلمان” کا نام(عربی:الْمُسْلِمِينَ) ،خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم جو قرآن کا عملی نمونہ تھے، کی پیروی کرنے والوں پر لاگو هوتا هے- مسلمان، قرآن اور سنت رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر عمل کرنے والے کو کہا جاتا ہے- ، کیونکه انهوں نے دین اسلام کو قبول کر کے اور تمام انبیاء اور آسمانی شریعتوں پر اعتقاد رکھ کر اللہ کے حضور سر تسلیم خم هو نے کا اعلان کیا هے- حقیقی مسلمان وه هے جو احکام و دستورات الهی کو قول و فعل سے تسلیم کرتا ہو، یعنی زبان سے بھی اللہ کی وحدا نیت اور انبیاء علیهم السلام اور خاتم الانبیاء صلی الله علیه وآله وسلم کی رسالت کا اقرار کر ے اور عمل سے بھی دینی احکام اور دستورات ، من جمله دوسروں کے حقوق کی رعایت کرے جیسے اجتماعی قو انین اورشہادہ، نماز، روزه، زکات، حج وغیره جیسے انفرادی احکام کا پابند هو- قرآن مجید میں حقیقی مسلمان کو مومن کے نام سے بھی یاد کیاگیا هے اور بہت صفاتی ناموں سے بھی مگر “مسلمان” ہونے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے، کیوں؟ اسلام میں اتحاد پر بہت زور دیا جاتا ہے، جس طرح نماز میں ایک اللہ کی عبادت ایک سمت (قبلہ) کی طرف منہ کرکہ ادا کی جاتی ہے اسی طرح ایک نام “مسلمان” (عربی:الْمُسْلِمِينَ) بھی اتحاد مسلمین کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے- نام سے فرق پڑتا ہے خاص طور پر جو نام الله تعالی نے خود عطا فرمایا ہو…. مکمل تفصیلات اس برقی کتاب پر پڑہیں… یا وزٹ کریں ………… http://salaamone.com/muslim
SalaamOne, سلامisa nonprofit e-Forum to promote peace among humanity, through understanding and tolerance of religions, cultures & other human values. The collection is available in the form of e-Books. articles, magazines, videos, posts at social media, blogs & video channels. .Explore the site English and Urdu sections at Index
علم اور افہام و تفہیم کے لئے ایک غیر منافع بخش ای فورم ہے. علم،انسانیت، مذہب، سائنس، سماج، ثقافت، اخلاقیات اورروحانیت امن کے لئے.اس فورم کو آفتاب خان، آزاد محقق اور مصنف نے منظم کیا ہے. تحقیقی کام بلاگز، ویب سائٹ، سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیو چننل اور برقی کتابوں کی صورت میں دستیاب ہے.اس نیٹ ورک کو اب تک لاکھوں افراد وزٹ کر چکے ہیں, مزید تفصیلات>>> Page Index – Salaam One