…
خلاصہ فکر:
میں نے مسلم فرقوں اور مسالک کا مطالعہ کیا۔میں نے بلا تعصب ہر بڑے عالم کو سنا اور پڑھا۔ جس سے براہ راست استفادہ کرنا ممکن تھا، استفادہ کیا۔ ان کے دلائل سمجھے۔ قرآن کی کسوٹی پر انہیں پرکھا۔لوگوں کے رویے کو سیرت حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے آئینے میں جانچا۔جو اس کسوٹی پر پورا اترا اسے ہر پسند و خواہش کے برخلاف بھی قبول کیا۔اور جواس کسوٹی پر پورا نہ اترااسے دل و دماغ سے کھرچ کر پھینک دیا۔ا س سفر میں آج تک اللہ تعالیٰ نے جس طرح ہر قدم پر دستگیر ی کی ہے وہ ایک الگ داستان ہے۔مگراس کی تفصیل چونکہ اصل موضوع سے متعلق نہیں اس لیے اسے چھوڑ رہا ہوں ۔
تاہم اس سفر کے نتائج فکر اس طرح بیان کروں گاکہ میں نے یہ جان لیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی سچائی باقی رکھنے کا طریقہ یہ اختیار کیا ہے کہ اصل حفاظت قرآن اور دین کے عملی ڈھانچے یعنی سنت کی ہے۔ ان دونوں کو اس نے مسلمانوں کی اکثریت جو مسلمانوں کا مین اسٹریم بھی ہے اس میں اس طرح جاری کردیاہے کہ اصل دین ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا ہے۔یہ مین اسٹریم کسی ایک خاص مکتب فکر میں نہیں ہے بلکہ ان تمام کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ان کے تمام تر فروعی اختلافات کے باوجود اصل دین اعتقادات اور عمل کی سطح پر الحمدللہ سب جگہ متفقہ طور پر موجود ہے۔اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ سبھی مانتے ہیں کہ اللہ تعالی ایک ہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں اور سبھی آخرت میں اللہ تعالی کے حضور جواب دہی پر یقین رکھتے ہیں۔ سبھی مانتے ہیں کہ تکبر، حسد، تعصب اور بددیانتی بڑے جرم ہیں اور سبھی مانتے ہیں کہ اخلاص، توبہ، انابت، صبر، شکر، عجز و انکسار بڑی نیکیاں ہیں۔ سبھی نماز، روزہ، حج، زکوۃ، نکاح، طلاق، معیشت، سیاست، معاشرت سے متعلق دین کی بنیادی باتوں پر متفق ہیں۔
اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے د وسرا اہتمام یہ کیا ہے کہ وہ مسلسل ایسے اہل علم پیدا کرتارہتا ہے جو اس اصل دین کی شرح و وضاحت بھی کرتے رہتے ہیں اور کوئی گمراہی اور بدعت در آنے کی کوشش کرے تو بڑے سلیقے اور واضح دلائل کے ساتھ اس کی غلطی واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ اصل ماخذ محفوظ ہیں اس لیے وہ اکثر اس کوشش میں کامیاب ہوتے ہیں اور اگر کوئی افراط و تفریط پیدا ہوتو کوئی اور عالم تصحیح کردیتا ہے۔ اس اہتمام کے نتیجے میں عملی انحراف پیدا بھی ہوجائے تو وہ کبھی مسلمانوں کا اجتماعی عمل نہیں بن پاتا۔
مسلمانوں کے تمام اہل علم کا احترام کرنا بھی یہیں سے میں نے سیکھا۔کیونکہ اب میں یہ سمجھ سکتا تھا کہ کسی کو غلطی لگی ہے تو کہاں سے لگی ہے۔ اسی احترام کی بنا پر کم و بیش ہر مسلک اور ہر فکر کے عالم سے بلا تعصب میں نے استفادہ کیا اور کبھی کسی تعصب کو حصول علم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنایا۔ میں اگر ان اہل علم کے نام لکھوں جن سے میں نے استفادہ کیا ہے تو لوگ حیران رہ جائیں گے کہ جس دور میں لوگ صرف ایک عالم اور ایک فرقے کے اسیر ہوتے ہیں کوئی شخص اس قدرمتضاد خیالات کے اہل علم سے بیک وقت کیسے استفادہ کرسکتا ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص مولانا احمد رضا خان بریلوی سے بھی عقیدت و محبت رکھتا ہو اور اس شخصیت یعنی مولانا اشرف علی تھانوی سے بھی کسب فیض کیا ہو جن پرمولانا رضا نے باقاعدہ کفر کا فتویٰ دیا ۔ایک شخص مولانا مودودی سے بھی دین سیکھتا ہو اور ان کے سب سے بڑے ناقد مولانا وحید الدین خان کا بھی معترف ہو۔ڈاکٹر اسرار کی نشستوں میں بھی برسوں بیٹھ کر قرآن کریم سمجھا ہو اور علامہ جاوید احمد غامدی سے بھی استفادہ کیا ہو، اہل تصوف سے وابستگی بھی جس کی اٹھان کا حصہ ہو اور ان کے بدترین ناقد اہل حدیث افکار بھی اس کے علم کا حصہ ہوں، اہل تشیع کے تصورات کو بھی جس نے تحمل سے سمجھا اور اہل سنت کے نقطہ نظرسے بھی واقف ہو،جدید دور کے اہل علم کے کام سے بھی واقف ہو اور اسلاف کی علمی روایت کی بھی جسے خبر ہو۔الحاد کے علمبرداروں کے اعتراضات کو بھی جو براہ راست سمجھتا ہو اور مذہب کے استدلال سے بھی بخوبی واقف ہو۔
یہ ہمہ گیر استفادہ صرف اسی وقت ممکن ہوا جب دل سے نفرت اور تعصب ختم ہوگیا۔نفرت اور تعصب کے ساتھ انسان صرف کنویں کا مینڈک بن جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں لاوا پکتا ہے اور زبان سے زہر اگلتا ہے۔قلم میں سیاہی کی جگہ پوٹاشیم سائنائڈ بھر جاتا ہے اور دل غضب کے شعلوں کا الاؤ بھڑکاتا ہے۔یوں نفرت کا مریض صرف نفرت تقسیم کرتا ہے جبکہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی انسان کو وسعت اور تحمل دیتی ہے۔ دل میں محبت پیدا ہوتی ہے اور یہی محبت انسان دوسروں میں تقسیم کرتا ہے۔یوں محبت کا درد رکھنے والے صرف محبت تقسیم کرتے ہیں جبکہ نفرت اور تعصب کی گود میں پلنے والے صرف نفرت تقسیم کرسکتے ہیں۔
نفرت اور تعصب کا نتیجہ
اس طول بیانی سے میرا اصل مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ مسلمانوں کے باہمی فرقہ وارانہ اختلاف اور تعصبات پرمبنی دینداری کس طرح نوجوانوں میں یا تو نفرت اور انتہا پسندی پیدا کرتی ہے یا پھران کو دین اسلام سے برگشتہ کرنے کا سبب بنتی ہے۔خاص کر انٹرنیٹ اور کیبل کے اس دور میں جب اسلام کے خلاف ہر طرح کا مواد انٹر نیٹ پر بآسانی دستیاب ہے یہ عمل کتنا تیز ہوچکا ہوگا۔ میرے پاس بہت سے نوجوان یہی مسائل اور الجھنیں لے کر آتے ہیں لیکن پروردگارکی عنایت سے میں اب اس قابل ہوں کہ ہر سوال کا جواب دے سکوں۔ لیکن جو لوگ تعصبات پر مبنی دینداری اختیار کرتے ہیں درحقیقت آج بھی وہ جانے انجانے میں باشعورلوگوں کو دین سے دور کرنے کا سبب بن رہے ہیں اور برٹینڈ رسل یا موجودہ دور میں رچرڈ ڈاکنز جیسے ملحدین کی سچائی کا زندہ ثبوت بن کر مذہب کا کفن بُن رہے ہیں۔
(ابو یحیی، www.inzaar.org )
(ابو یحیی، www.inzaar.org )