قرآن پر سب مسلمانوں کا ایمان ہے، جس کو سب مسلمان مکمل طور پر کلام اللہ تسلیم کرتے ہیں، یہی الله کی مظبوط رسی ہے جس کو الله تعالی مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیتا ہےاور یہی تفرقہ کے خلاف موثر ترین ڈھال ہے-تفصیلی مطالعہ اور تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس خطرہ کو اگر ختم نہیں تو کم کرنا ممکن ہے۔
First, be A Muslim:
If we look at the names of different religions of the world, it is found that mostly the religions are named after the founding personalities. Buddhism, after Buddha, Christianity after Jesus Christ, Judaism form Judea (tribal head). Similarly Zoroatism, Bahaism, Confucianism are also named after personalities. There is no founder of Hinduism and Jainism. Hinduism is also sometimes named after sacred book Veda. Keeping in view the personality names, the followers of Prophet Muhammad (pbuh) should have been called Muhamdans, but it did not happen, though the orientilists tried out but failed. If Prophet Muhammad (pbuh) was founder of a new religion, it would have been his pleasure to name the religion after him but he could not do so because it is based upon Quran, the revelations he received from God. Quran carries name Muhammad only four times, once Ahmad. The names of his parents, family, children are not there. Allah Himself named the Deen (religion) as ISLAM, and the believers as Muslims (Arabic:Muslimen, Muslimoon), which have a link with ‘As-Salaam’, one of the the attributive names of Allah. [Keep reading …….]
برقی کتاب پی ڈی ایف ، آن لائن پڑھیں یا ڈونلوڈ ، شئیر کریں
http://bit.ly/2GMq4cb : برقی کتاب – پی ڈی ایف لنک
http://bit.ly/2Jq8CMe : موبائل فرینڈلی – ٹیکسٹ فارمیٹ لنک
فرقہ واریت اورشرک:
مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿٣١﴾ مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ﴿٣٢سورة الروم﴾
(قائم ہو جاؤ اِس بات پر) اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے، اور ڈرو اُس سے، اور نماز قائم کرو، اور نہ ہو جاؤ اُن مشرکین میں سے جنہوں نے اپنا اپنا دین الگ بنا لیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں، ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی میں وہ مگن ہے (سورة الروم 32)
تفسیر:
وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ، پچھلی آیت میں انسان کی فطرت کو قبول حق کے قابل اور مستعد بنانے کا ذکر تھا۔ اس آیت میں اول قبول حق کی صورت یہ بتلائی گئی کہ نماز قائم کریں کہ وہ عملی طور پر ایمان و اسلام اور اطاعت حق کا اظہار ہے اس کے بعد فرمایا وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ، یعنی شرک کرنے والوں میں شامل نہ ہوجاؤ جنہوں نے اپنی فطرت اور قبول حق کی استعداد سے کام لیا، آگے ان کی گمراہی کا ذکر ہے۔
مِنَ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا، یعنی یہ مشرکین وہ لوگ ہیں جنہوں نے دین فطرت اور دین حق میں تفریق پیدا کردی، یا یہ کہ دین فطرت سے مفارق اور الگ ہوگئے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مختلف پارٹیوں میں بٹ گئے۔
شیعاً شیعہ کی جمع ہے، ایسی جماعت جو کسی مقتداء کی پیرو ہو، اس کو شیعہ کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ دین فطرت تو توحید تھا جس کا اثر یہ ہونا چاہئے تھا کہ سب انسان اس کو اختیار کر کے ایک ہی قوم ایک ہی جماعت بنتے مگر انہوں نے اس توحید کو چھوڑا اور مختلف لوگوں کے خیالات کے تابع ہوگئی اور انسانی خیالات اور رایوں میں اختلاف ایک طبعی امر ہے، اس لئے ہر ایک نے اپنا اپنا ایک مذہب بنا لیا، عوام ان کے سبب مختلف پارٹیوں میں بٹ گئے اور شیطان نے ان کو اپنے اپنے خیالات و معتقدات کو حق قرار دینے میں ایسا لگا دیا کہ كُلُّ حِزْبٍۢ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ ، یعنی ان کی ہر پارٹی اپنے اپنے اعتقادات و خیالات پر مگن اور خوش ہے اور دوسروں کو غلطی پر بتاتی ہے حالانکہ یہ سب کے سب گمراہی کے غلط راستوں پر پڑے ہوئے ہیں۔ (معارف القرآن)
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿سورة التوبة٣١﴾
انہوں (اہل کتاب) نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں (سورة التوبة 31)
تفسیر سورۃ نمبر 9 التوبة, آیت نمبر 31
حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عدی بن حاتم، جو پہلے عیسائی تھے، جب نبی ﷺ کے پاس حاضر ہو کر مشرف با اسلام ہوئے تو انہوں نے منجملہ اور سوالات کے ایک یہ سوال بھی کیا تھا کہ اس آیت میں ہم پر اپنے علماء اور درویشوں کو خدا بنا لینے کا جو الزام عائد کیا گیا ہے اس کی اصلیت کیا ہے۔ جواب میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ واقعہ نہیں ہے کہ جو کچھ یہ لوگ حرام قرار دیتے ہیں اسے تم حرام مان لیتے ہو اور جو کچھ یہ حلال قرار دیتے ہیں اسے حلال مان لیتے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ یہ تو ضرور ہم کرتے رہے ہیں۔ فرمایا بس یہی ان کو خدا بنا لینا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کتاب اللہ کی سند کے بغیر جو لوگ انسانی زندگی کے لیے جائز و ناجائز کی حدود مقرر کرتے ہیں وہ دراصل خدائی کے مقام پر بزعم خود متمکن ہوتے ہیں اور جو ان کے اس حق شریعت سازی کو تسلیم کرتے ہیں وہ انہیں خدا بناتے ہیں۔
یہ دونوں الزام، یعنی کسی کو خدا کا بیٹا قرار دینا، اور کسی کو شریعت سازی کا حق دے دینا، اس بات کے ثبوت میں پیش کیے گئے ہیں کہ یہ لوگ ایمان باللہ کے دعوے میں جھوٹے ہیں۔ خدا کی ہستی کو چاہے یہ مانتے ہوں مگر ان کا تصور خدائی اس قدر غلط ہے کہ اس کی وجہ سے ان کا خدا کو ماننا نہ ماننے کے برابر ہوگیا ہے۔ (تفہیم القرآن )
فرقہ واریت میں اگر لوگ اپنے فرقہ کے عالم یا امام کے اقوال جو قرآن و سنت سے ماورا ، یا اختلاف میں ہوں، ان کو شریعت مان لیں تو یہ کفر اور شرک بن جاتا ہے ، جو کہ اہل کتاب کے علماء میں رواج تھا ۔۔
فرقہ بنانا مشرکوں کی خاصیت ہے ، مسیحی اور یہودیوں نے بہت فرقے بنا لیے … مسلمانوں کو مشرکوں کی طرح فرقہ بازی سے منع فرمایا گیا ہے فرقہ واریت کا راستہ شرک اصغر سے شرک اکبر کی طرف جاتا ہے …
ہم دیکھتے ہیں کہ ماسوائے 4 بڑے گروپ, حنفی ، مالکی ، شافعی ، حنبلی اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کو کافر یا گمراہ نہیں کہتے، احترام کرتے ہیں ۔۔۔ مگر باقی گروہ دوسروں کو گمراہ کہتے ہیں ۔۔
یہ نام حنفی ، مالکی ، شافعی ، حنبلی ان بزرگوں نہیں دیے بلکہ لوگوں نے رکھ لیے .. جو مناسب نہیں ہے– فقہی اختلاف ممکن ہے مگر قرآن نے ٤١ مرتبہ “مسلمان ” کا نام اتا فرمایا .. جو کافی ہے –
ایک حدیت کا مفہوم ۔۔ کہ جب مسلمان دوسرے کو کافر کہتا ہے اور اگر وہ کافر نہی۔ تو یہ کفر اسی کہنے والے پر واپس پلٹتا ہے ۔۔ اور وہ کفر کا شکار بن جاتا ہے ۔۔
جو علم کے طالب ہیں مکمل تحقیق پڑھ سکتے ہیں ….
https://salaamone.com/sectarianism-islam/
—————————————————–
فرقہ واریت کا خاتمہ کی طرف پہلا قدم:
1.تمام مسلمان اپنے آپ کو صرف اور صرف “مسلمان” کے نام سے پکاریں، کسی اور نام کی جازت نہ دیں،جو نام الله نے دیا وہ مکمل ہے، کسی اکسٹرالیبل (extra label) کی ضرورت نہیں-
سلام , اسلام ،مسلم…..
ہم کواللہ کے بیان میں کوئی کمی کیوں محسوس ہوتی ہے، حیلے، بہانوں سے ہم اللہ کے دیئے ہوئے نام “مسلم” کی بجا ئے، شیعہ، سنی، وہابی، دیوبندی، سلفی، اہل حدیث یا بریلوی کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ منہج کا لیبل لگانے کی کیا ضرورت ہے؟
هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَـٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ ( سورة الحج22:78)
2. جو مسلمان ایمان کے بنیادی ارکان اور اسلام کے 5 بنیادی ستونوں پر ایمان رکھتے ہیں اوراگر عمل میں کوتاہی بھی کرتے ہیں تو بھی وہ مسلمان ہیں- فروعی اختلافات کو نظر انداز کیا جانا چاھیے- ایک دوسرے پر تکفیر مت کریں-
3.مسلمان ایک دوسرے کومہذب اور پر امن طریقه سے “امر بالمعروف اور نہی عن المنکر” کی دعوت وتبلیغ کریں مگراس کی آڑمیں زبردستی اپنا نقطہ نظر دوسروں پر ٹھونسنے سے احتراز کریں- یاد رکھیں الله منصف اعلی ہے جو اختلافی معاملات کا فیصلہ قیامت کے دن کرے گا- شدت پسندی اور دہشت گردی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں-
4. مسلمان اللہ کے حکم پر عمل پیرا ہو کرفرقہ واریت کی لعنت سے چھٹکارہ حاصل کریں اورحضرت مُحمدﷺ کے خالص پیروکارکی حثیت سے دین اسلام میں مکمل طور پر داخل جائیں، اسی میں بھلائی ہے یہی صراط مستقیم ہے-
اگر متفق ہیں تو اس پیغام کو پھیلائیں، کیونکہ:
اس فرقے سے کیا مراد ہے جس کے بارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جنتی فرقہ ہوگا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کے 73 فرقے ہوں گے کا مطلب ہے 73 مختلف عقائد رکھنے والے لوگ ہوں گے اور جو لوگ عقائد و عمل کے لحاظ سے آقا علیہ السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے طریقے پر رہیں گے ان کے اوپ چاہے کسی بھی پارٹی کسی بھی گروہ کا لیبل لگا ہوگا وہ اسی فرقے کے باشندے شمار ہوں گے جن کو جنتی فرمایا گیا ہے اور اس یہ لوگ بھی فرقہ کس وجہ سے ہیں وہ ایک الگ بحث ہے پھر کبھی اس پہ بات ہوگی مگر جنتی وہی ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے طریقے پر ہیں۔
اسلامی فرقوں میں عقیدوں کے لحاظ سب سے گمراہ فرقہ اہل تشیع کا شمار کیا جاتا ہے لیکن یاد رہے کہ خود کو شیعہ کہلوانے والا اور اسی گروہ سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص بھی اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے طریقے پر ہوگا تو بھی بھی اسی ناجی فرقے کا باشندہ شمار ہوگا۔ اس لیے دیوبندی، بریلوی، اہلسنت،اہل حدیث وغیرہ یہ مختلف پارٹیوں اور مختلف گروپوں اور مختلف تنظیموں کے نام ہین نا کہ ان میں سے ہر ایک الگ الگ انہی 73 میں سے ایک فرقہ ہے ۔ لہذا کسی بھی تنظیم یا گروپ سے تعلق رکھنے والا شخص اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے طریقے پر ہے تو وہ اسی جنتی فرقے کا ہی فرد ہے ان جماعتوں یا تنظیموں کو ہم جیسے کم عقل لوگ ان 73 میں سے ایک فرقہ تسلیم کرتے ہیں اور اسی بنا پہ کچھ لوگوں میں غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ شاید ان میں سے کوئی ایک گروہ پورے کا پورا ہی جنتی ہے باقی سب جہنمی یہ سراسر ان کی غلط فہمی ہے ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث وغیرہ ایک ایک الگ اور مکمل فرقے کے طور پر نہیں ہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے طریقے سے ہٹنے والے 72 مختلف فرقے ہیں ورنہ اگر ایسا ہوتا تو ان میں سے کسی بھی فرقے سے تعلق رکھنے والا بندہ عقائد میں کتنا ہی گمراہ ہوتا وہ جنتی ہوتا اور دوسرے فرقوں سے تعلق رکھنے والا کتنا ہی اپنے عقائد میں درست کیوں نہ ہوتا وہ جہنمی ہوتا اور ایسا سوچنا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم و شعور اور ان کے انصاف پر ایک سوالیہ نشان پیدا کرتا ہے جو کہ سراسر انکی شان کے خلاف ہے اور بدترین گستاخی ہے اس لیے ممکن ہی نہیں کہ ایسے گروہوں اور ان کے نام کے لیبل کی بناء پر ان کا جنتی یا جہنمی ہونا وضع فرمایا گیا ہو بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور صحابہ کے طریقے پر چلنے یا ہٹ جانے کو کسی کی ہدایت یا گمراہی کی وجہ بتایا ہے اور اسی بنیاد پر وہ جنتی یا دوزخی قرار پائے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی بھی ایک مسلک کی طرف سے دوسرے کسی بھی پورے کے پورے مسلک کے خلاف کفر کا فتوی نہیں دیا گیا اگر انفرادی طور پہ کسی نے کفر کا ارتکاب کیا ہو تو اس کا کفر واضع کرنا تو علماء کرام کی ذمہ داری ہے لیکن اس کا مطلب اس سارے مکتبہ فکر کو کافر ماننا یا کہنا یا سمجھنا ہرگز نا ہی اور نا ہی آج تک ایسا ہوا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ” ما انا علیہ و اصحابی” فرما کے دراصل فرقے کی تعریف بیان فرمائی ہے کہ فرقہ کس بنیاد پہ بنے گا اور اس سے کیا مراد ہے یعنی ایسا عقیدہ رکھنے والے لوگ جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے ہٹ کے ہو یا ان سے ٹکراتا ہو ان کے برعکس ہو اور ایسے 72 قسم کے عقائد والے لوگ ہوں گے جن کے عقائد قرآن و حدیث سے ٹکراتے ہوں گے۔ اسی مثال کے حساب سے 73 مختلف عقائد رکھنے والے گروہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہونے ہیں اور ان میں سے وہ والا گروہ جو اپنے عقائد و عمل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے طریقے ہوگا وہی جنتی گروہ ہوگا۔ لیکن اگر کوئی ایسا گروہ جو ضروریات دین کا ہی منکر ہوگا جیسا کہ ختم نبوت کا انکار کرنے والے یا کوئی ایسا جو سابقہ انبیاء میں سے کسی کا منکر ہو یا جنت و دوذخ اور یوم حساب کا منکر ہو یا اللہ پاک کو تو مانتا ہو مگر ساتھ ساتھ کسی اور خدا کا ہونا بھی مانتا ہو تو ایسے لوگ تو اسلام میں شامل ہی نہیں بلکہ کافر و مشرک ہیں اور ایسا کوئی شخص کہہ دے کہ وہ بھی اسلامی فرقہ ہے تو یہ اس کی اپنی خوش فہمی تو ہوسکتی ہے مگر وہ مسلمان نہیں ہوسکتا جبکہ اسلامی فرقوں میں شامل ہونے کے لیے مسلمان ہونا شرط ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے بارے فرمایا کہ اس کے 73 فرقے ہوں گے نہ کہ کسی کافر مذہب کو اس میں شامل کیا ، اب جو باقی کے 72 ہوں گے وہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن رہیں گے یا اپنی سزا کاٹ کے آخر کار جنت میں جگہ پائیں گے یہ بات اللہ و اللہ کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ ہمیں تو اتنا علم ہے کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے طریقے پر ہوگا وہ دوزخ کی ہوا سے بھی محفوظ رہے گا اور سیدھا جنت میں جائے گا۔
http://www.khatmenbuwat.org/threads/6072
مسلمان کے علاوہ کسی گروہ یا جمعیت یا انجمن یا قبیلے کا نام رکھنے کی نہ تو ممانعت ہے اور نہ ہی ممنوع ؟؟؟
بات یہ ہے کہ جب ان ناموں کے بارے حساسیت بڑھ جاتی ہے اور ان ناموں کا اسلام کا مترادف قرار دیے جانے کی سوچ بڑھ جاتی ہے تو پھر یہ چیز شریعت اسلامیہ کی نظر میں مذموم ہے۔
بہر حال یہ دلیل درست نہیں ہے کہ قادیانی یا منکرین حدیث بھی چونکہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لہذا مسلمان کے علاوہ بھی لازما کوئی سابقہ یا لاحقہ ہونا چاہیے۔ کل کلاں، بلکہ کل کیا آج ہی یہ ہو رہا ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے اپنے آپ کو سلفی کہنا شروع کر دیا ہے اور وہ دن دور نہیں ہے کہ جب بریلوی اور دیوبندی بھی اپنے ناموں کے ساتھ اہل حدیث کا اضافہ کر لیں گے تو پھر آپ کو ضرورت پڑے گی کہ آپ اپنے نام کے ساتھ اس سابقہ یا لاحقہ کا اضافہ کریں کہ ‘اصلی اہل حدیث’ جیسا کہ اصلی اہل سنت یا اصلی سلفی کی اصطلاحات تو معروف ہو چکی ہیں کیونکہ مدمقابل فکر رکھنے والوں نے بھی اپنے آپ کو ان ناموں سے معروف کر دیا تھا۔ پھر اصلی اہل حدیث میں بھی کئی ورژن آئیں گے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد میں صحابہ کے پوچھنے پر کہ وہ کون سا جنتی فرقہ ہے یہ بھی فرمایا ہے کہ ” ما انا علیہ و اصحابی” یعنی وہ لوگ جو میرے اور میرے اصحاب کے طریقے پر ہوں گے وہی جنتی ہیں۔
میرے خیال میں کوشش کریں کہ قرون اولی کے مسلمان یعنی صحابہ، تابعین، ائمہ اور محدثین عظام کی فکر و عقیدہ اور منہج و عمل کو اپنانے کی کوشش کریں اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیں-
http://forum.mohaddis.com/threads/2752/
………………………………………………………….
اسلام میں مختلف فرقے بننے کے اسباب
اہل کتاب (یہود و نصارٰی) کے اختلاف کے اسباب و وجود پر قرآن مجید کی بے شمار آیتیں شاہد ہیں جن اسبات سے اہل کتاب میں اختلاف پھوٹے وہ اسبات امت مسلمہ میں بھی مدت دراز سے وجود پذیر ہو چکے ہیں۔ اور اختلافات باہمی کا جو نتیجہ یہود و نصارٰی کے حق میں نکلا تھا، مسلمان بھی صدیوں سے اس کا خمیازہ اٹھا رہے ہیں۔ کتاب الٰہی کو پس پشت ڈالنے اور انبیاء کی سنت و طریقے کو فراموش کر دینے اور اس کی جگہ کم علم اور دنیا ساز علماء اور گمراہ مشائخ کی پیروی اختیار کرنے کا جو وطیرہ اہل کتاب نے اختیار کر رکھا تھا مسلمان بھی عرصہ دراز سے اسی شاہراہ پر گامزن ہیں وضع مسائل اور اختراع بدعات سے دین کو تبدیل کرنے کا جو فتنہ یہود و نصارٰی نے برپا کیا تھا بد قسمتی سے مسلمان بھی اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے دین حنیف کا حُلیہ بگاڑ چکے ہیں۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمت میں اختلاف بے حد ناگوار تھا۔ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم گذشتہ امتوں کی مثال دے کر اپنی امت کو باہمی اختلافات سے ڈرایا کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک دن میں دوپہر کے وقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کی آواز سنی جو کسی آیت کی نسبت آپس میں اختلاف کر رہے تھے پس رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے اور آپ کے چہرہ مبارک پر غصے کے آثار ظاہر تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بات یہی ہے کہ تم سے پہلے لوگ کتاب اللہ میں اختلاف کرنے ہی کے سبب ہلاک ہو گئے۔ (مشکوٰہ باب الاعتصام، صفحہ۔ ٢٠)
قرآن میں اللہ تعالٰی نے مسلمانوں میں اختلاف پیدا کرنے اور مختلف فرقوں میں بٹ جانے سے منع فرمایا ارشاد باری تعاٰلی ہے۔
تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا اور اختلاف کی انہی لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے۔
(ال عمران۔ ١٠٥)
یہ آیت دین میں باہمی اختلاف اور گروہ بندی کی ممانعت میں بالکل واضع اور صریح ہے اللہ تعالٰی نے گذشتہ امتوں کا ذکر کرتے ہوئے امت مسلمہ کو ان کی روش پر چلنے سے منع فرمایا، اس آیت کے ذیل میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ قول ہے۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس آیت میں مومنوں کو آپس میں متحد رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور ان کو اختلاف و فرقہ بندی سے منع کیا گیا ہے اور ان کو خبر دی گئی ہے کہ پہلی امتیں صف آپس کے جھگڑوں اور مذہبی عداوتوں کی وجہ سے ہلاک ہوئیں بعض نے کہا کہ ان سے اس امت کے بدعتی لوگ مراد ہیں اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یہ حروری خارجی ہیں (تفسیر خازن، علامہ علاء الدین ابوالحسن بن ابراہیم بغدادی۔ جلد١ صفحہ ٢٦٨)
صحیح مسلم میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہما سے روایت ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا! اللہ تعالٰی نے زمین کو میرے سامنے اس طرح سمیٹ دیا کہ مشرق و مغرب تک بیک وقت دیکھ رہا تھا اور میری امت کی حدود مملکت وہاں تک پہنچیں گی جہاں تک مجھے زمین کو سمیٹ کر دکھایا گیا ہے اور مجھے دو خزانے عطاء فرمائے گئے ہیں ایک سرخ اور دوسرا سفید آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالٰی سے اپنی امت کے بارے میں عرض کیا تھا کہ اسے ایک ہی قحط سالی میں صفحہ ہستی سے نہ مٹایا جائے اور یہ کہ میری امت پر مسلمانوں کے علاوہ کوئی خارجی دشمن مسلط نہ کیا جائے جو مسلمان کے بلاد و اسبات کو مباح سمجھے۔ چنانچہ اللہ تعالٰی نے جوابا ارشاد فرمایا کہ! اے میرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب میں کسی بات کا فیصلہ کر دیتا ہوں تو اسے ٹالا نہیں جا سکتا۔ میں نے آپ کی اُمت کے بارے میں آپ کو وعدہ دے دیا ہے کہ اسے ایک ہی قحط سالی میں تباہ نہیں کیا جائے گا اور دوسرا یہ کہ ان کے اپنے افراد کے علاوہ کسی دوسرے کو ان پر مسلط نہیں کیا جائے گا جو ان کے مملوکہ مال و اسبات کو مباح سمجھ لے اگرچہ کفر کی ساری طاقتیں اکٹھی ہو کر مسلمانوں کے مقابلے کے لئے جمع کیوں نہ ہو جائیں ہاں! مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک کرتے رہیں گے۔۔
حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں لکھا ہے اور اس میں یہ الفاظ زائد ہیں!
میں اپنی امت کے بارے میں ان گمراہ کن پیشواؤں سے ڈرتا ہوں اور جب میری امت میں آپس میں تلواریں چل پڑیں گی تو قیامت تک نہ رُک سکیں گی اور اس وقت تک قیامت نہ ہو گی جب تک میری امت کی ایک جماعت مشرکوں سے نہ مل جائے اور یہ کہ میری امت کے بہت سے لوگ بُت پرستی نہ کر لیں۔ اور میری اُمت میں تیس جھوٹے دجال پیدا ہوں گے جو سب کے سب نبوت کا دعوٰی کریں گے حالانکہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آئے گا اور میری امت میں ایک گروہ حق پر قائم رہے گا اور فتح یاب ہوگا جن کی مدد چھوڑنے والے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالٰی کا حکم آجائے گا۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا جو فتنہ بنی اسرائیل پر آیا وہی قدم با قدم میری امت پر آنے والا ہے کہ اگر ان میں سے ایک شخص ایسا ہو گا جس نے اعلانیہ اپنی ماں کے ساتھ زنا کیا ہو گا، تو میری اُمت میں بھی ایسا شخص ہو گا یہ حرکت کرے گا بنی اسرائیل میں پھوٹ پڑنے کے بعد بہتر (٧٢) فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے، اور میری امت تہتر (٧٣) فرقوں میں متفرق ہو جائے گی ان میں بہتر (٧٢) دوزخی ہوں گے اور ایک فرقہ باجی یعنی جنتی ہو گا، صحابہ رضوان علیہم اجمعین نے عرض کی یا رسول اللہ ! ناجی فرقہ کون سا ہوگا؟۔ فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہما کے طریقہ پر چلتا ہوگا۔(ترمذی)
وضاحت: ١؎ : اس حدیث میں مذموم فرقوں سے فروعی مسائل میں اختلاف کرنے والے فرقے مراد نہیں ہیں، بلکہ اس سے مراد وہ فرقے ہیں جن کا اختلاف اہل حق سے اصول دین و عقائد اسلام میں ہے، مثلا مسائل توحید، تقدیر، نبوت، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت و موالات وغیرہ میں، کیونکہ انہی مسائل میں اختلاف رکھنے والوں نے باہم اکفار و تکفیر کی ہے، فروعی مسائل میں اختلاف رکھنے والے باہم اکفار و تکفیر نہیں کرتے، (٧٣) واں فرقہ جو ناجی ہے یہ وہ فرقہ ہے جو سنت پر گامزن ہے، بدعت سے مجتنب اور صحابہ کرام سے محبت کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلتا ہے، حدیث سے یہ بھی پتا چلا کہ ان تمام گمراہ فرقوں کا شمار بھی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت میں کیا ہے وہ جہنم میں تو جائیں گے، مگر ہمیشہ کے لئے نہیں، سزا کاٹ کر اس سے نجات پا جائیں گے (٧٣) واں فرقہ ہی اول وہلہ میں ناجی ہوگا کیونکہ یہی سنت پر ہے، یہی باب سے مناسبت ہے۔
اس حدیث مبارکہ میں امت مسلمہ کے اندر تفریق و گروہ بندی کی جو پیشن گوئی تھی وہ محض بطور تنبیہ و نصیحت کے تھی –بد قسمتی سے مسلمانوں کے مختلف فرقوں نے اس حدیث کو اپنے لئے ڈھال بنا لیا ہے اور (ماآنا علیہ واصحابی) کی کسوٹی سے صرف نظر کرتے ہیں ہرگر وہ اپنے آپ کو ناجی فرقہ کہتا ہے اور اپنے علاوہ دیگر تمام مکاتب فکر کو ضال و مضل اور بہتر (٧٢) فرقوں میں شمار کرتا ہے-
۔حالانکہ اگر اس حقیقت پر غور کیا جائے کہ اختلاف مسالک اور فروعات دین مختلف الرائے ہونے کے باوجود تمام مسلمان جو اللہ تعالیٰ پر، اس کے ملائکہ پر، اس کے رسولوں پر، قیامت کے دن پر، اچھی یا بری تقدیر کے منجانب اللہ ہونے پر ،اور موت کے بعد دوبارہ اٹھنے پر ایمان رکھتے ہیں ،حضرت محمد صلعم کو آخری نبی تسلیم کرتے ہیں ،نماز پڑھتے ہیں ،روزہ رکھتے ہیں ، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور صاحب استطاعت ہونے پر حج کرتے ہیں ،معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکرات سے روکتے ہیں تو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک یہ سب مومن ہیں بشرطیکہ وہ اللہ کی ذات یا اس کی صفات میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرتے ہوں –دوسرے الفاظ میں جو شخص دین کی مبادیات پر ایمان رکھتا ہو اور ارکان اسلام پر عمل پیرا ہو وہ دین کے فروعات میں دیگر مسلمانوں سے اختلاف رائے رکھنے کے باوجود مومن و مسلم ہی رہتا ہے۔ ایمان سے خارج نہیں ہوتا ۔دین کا فہم نہ تو سب کو یکساں عطاء کیا گیا ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے ذہن، صلاحیتیں اور طبائع ایک جیسے رکھے ہیں ۔بہر حال یہ طے شدہ بات ہے کہ فروعی اختلافات میں قلت فہم کی بنا پر مختلف مکاتب فکر پیدا ہو جاتے ہیں ۔
72 فرقوں کی تصریح علامہ ابن جوزی نے اس طرح بیان کی ہے کہ ابتداء میں جماعت صحابہ رضوان اللہ علیہم اور سواد اعظم سے علیحدہ ہو کر خوارج اور دیگر فرقے بنے تھے ،پھر انکے ردّ عمل میں مزید چار فرقے اور پیدا ہو گئے یعنی قدریہ، جبریہ، جہمیہ، مرجیہ۔ اس طرح ان گمراہ فرقوں کی کل تعداد چھ ھوگئی۔ علامہ ابن جوزی کا بیان ہے کہ ان چھ فرقوں میں آپس میں مسلسل ٹوٹ پھوٹ اور تفریق ہوتی رہی یہاں تک ان میں سے ہر فرقہ بارہ بارہ فرقوں میں تقسیم ہو گیا۔ اس طرح مجموعی طور پر ان گمراہ فرقوں کی تعداد حدیث نبوی کی تصریح کے مطابق 72 ھوگئی۔ ان 72 فرقوں کے الگ الگ نام کی صراحت اور ان کے عقائد کی تفصیل یہاں بخوف طوالت بیان نہیں کی جا سکتی۔ ان کی تفصیلات”تحفہ اثنا عشریّہ “از حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔
احادیث قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں تمام مومنین کو آپس میں بھائی بھائی کہا گیا ہے۔ اور قرآن مجید میں بھی انہیں جنتیں دینے کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔
بیشک ﷲ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے بہشتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، اور جن لوگوں نے کفر کیا اور (دنیوی) فائدے اٹھا رہے ہیں اور (اس طرح) کھا رہے ہیں جیسے چوپائے (جانور) کھاتے ہیں سو دوزخ ہی ان کا ٹھکانا ہے (محمد۔ ١٢)
یہ اور اس طرح کی بیشمار آیتیں قرآن مجید میں موجود ہیں جن میں مومنین صالحین کی مغفرت اور فوز و فلاح کا وعدہ کیا گیا ہے اور کفار مشرکین کے لئے جہنم کی وعید سنائی گئی ہے جو شخص دین کی مبادیات پر ایمان رکھتا ہو اور ارکان اسلام پر عمل پیرا ہو وہ دین کے فروعات میں دیگر مسلمانوں سے اختلاف رائے رکھنے کے باوجود مومن و مسلم ہی رہتا ہے ایمان سے خارج نہیں ہوتا دین کا فہم نہ تو سب کو یکساں عطا کیا گیا ہے اور نہ ہی اللہ تعالٰی نے تمام انسانوں کے ذہن، صلاحیتیں اور طبائع ایک جیسے رکھے ہیں بہرحال یہ طے شدہ بات ہے کہ فرعی اختلاف میں قلت فہم کی بناء پر دو فریقوں میں سے ایک یقینی طور پر غلطی پر ہو گا اور دوسرے فریق کا نظریہ درست اور شریعت کے مزاج و احکام کے مطابق لہذا ایسی صورت میں جو فریق دانستہ طور پر غلطی پر ہے تو اس کا دینی اور اخلاقی فرض یہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنی انانیت اور کبر و غرور کو پس پشت ڈال کر اس غلطی سے تائب ہو جائے اور اپنی کم فہمی اور جہالت کے لئے اللہ تعالٰٰی سے مغفرت طلب کرے بلاشبہ وہ غفور رحیم ہے اور اگر اس فریق سے غلطی کا ارتکاب نادانستہ طور پر ہو رہا ہے تو اس کا شمار (سیئات) میں ہو گا ایسی صورت میں فریق مخالف یعنی فریق حق کا فرض ہو گا کہ وہ اپنے ان بھائیوں کو نرمی محبت اور دلسوزی سے سمجھائیں اور صحیح راہ عمل واضح کریں۔ اس کے باوجود بھی اگر دوسرا فریق سمجھ کر نہیں دیتا تو اس کے لئے ہدایت کی دُعا کریں۔ آپ اپنی ذمداریوں سے سبکدوش ہو گئے مسلمانوں کی (سیئات) یعنی کوتاہیوں کے بارے میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے۔۔۔
اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کئے اور ان سب چیزوں پر ایمان لائے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئیں وہ چیزیں ان کے رب کے پاس سے امر واقعی ہیں اللہ تعالٰی ان کو تاہیوں کو درگذر فرمائے گا اور ان کی حالت درست کرے گا۔ (محمد۔ ٢)
لہذا معلوم ہوا کہ جب اللہ تعالٰی اپنے بندوں سے ایمان و عمل صالح کے مطالبہ کو پورا کرنے کے بعد ان کے تمام گناہوں اور کوتاہیوں کو معاف کرنے کا اعلان عام کر رہا ہے تو دوسروں کو یہ حق کب پہنچتا ہے کہ وہ اپنے صاحب ایمان بھائیوں کو محض فروعی اختلافات کی بناء پر جہنم رسید کر دیں اور ان کا شمار ان بہتر (٧٢) ناری فرقوں میں کرتے رہے جو خارج ایمان ہونے کی بناء پر زبان وحی و رسالت سے دوزخی قرار پائے؟ کیا ان کی یہ روش اللہ کے کلام کو جھٹلانے کے مترادف نہیں ہے؟
http://forum.mohaddis.com/threads/27022/
مزید :
کتاب و سنت کی روشنی میں امت کا افتراق اور راہِ ہدایت
https://molanajameel.com/kitabo-sunnat-ki-roshni-mein-ummat-ka-iftraq-aur-rah-e-hidiyat/
مفصل تحقیق :
“جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں، ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے-