فرقہ واریت – مختصر تاریخ, عملی اقدامات

انسداد فرقہ واریت

 

مختصر تاریخ اورعملی اقدامات

 

وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ

 

’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘( آل عمران،3 :103)

وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿سورة الفرقان25:30﴾

اور(روز قیامت) رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بےشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ﴿سورة الفرقان25:30﴾

 

 

آج کے دور میں مسلمان کئی فرقوں میں بٹ چکے ہیں اگرچہ ان کی اکثریت اسلام کے بنیادی عقائد اور عبادات پر متفق ہے مگر فروعی اختلافات کی شدت نے نفاق کے بیج اس طرح بو دیئےہیں کہ انتشار دن بدن متشدت اوراضافہ پزیرہے- اس معاملہ میں اسلام دشمن قوتیں بھی ملوث ہیں مگر ان کو جوازوہ مسلمان مہیا کر رہے ہیں جودشمنوں کے ہاتھدانستہ یا نادانستہ طور پرکھلونا بن چکے ہیں-  قرآن پر سب مسلمانوں کا ایمان ہے، جس کو سب مسلمان مکمل طور پر کلام اللہ تسلیم کرتے ہیں، یہی الله کی مظبوط رسی ہے جس کو الله تعالی مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیتا ہےاور یہی تفرقہ کے خلاف موثر ترین ڈھال ہے-
 
 
هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَـٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ  ( سورة الحج22:78)
اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام “مسلم” رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ –
 
 رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ ﴿١٢٦ سورة الأعراف
 اے رب، ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اِس حال میں کہ ہم مسلمان  ہوں” (7:126)
 
 الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ  (سورة المائدة 5:3)
آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کر دیا ہے۔ اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے دین کی حیثیت سے اسلام کو پسند کر لیا ہے (سورة المائدة 5:3)
 
 إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّـهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ( ١٥٩ سورة الأنعام)
 
ترجمہ : “جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں، ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے-
 
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَـٰئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّـهُ ۗ إِنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٧١سورة التوبة﴾ 
 مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار ومعاون اور) دوست ہیں، وه بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نمازوں کو پابندی سے بجا ﻻتے ہیں زکوٰة ادا کرتے ہیں، اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا بیشک اللہ غلبے واﻻ حکمت واﻻ ہے (9:71 سورة التوبة )
 
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا ﴿١١٥﴾ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا ﴿١١٦سورة النساء
 
مگر جو شخص رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے، درآں حالیکہ اس پر راہ راست واضح ہو چکی ہو، تو اُس کو ہم اُسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بد ترین جائے قرار ہے  اللہ کے ہاں بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے، اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہوسکتا ہے جسے وہ معاف کرنا چاہے جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا وہ تو گمراہی میں بہت دور نکل گیا (4:115,116سورة النساء)  
 
وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ (59:10)
 
اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئیں جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان ﻻچکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال، اے ہمارے رب بیشک تو شفقت ومہربانی کرنے واﻻ ہے (59:10)
 
Those who came [into the faith] after them say, “Our Lord, forgive us and our brothers who preceded us in the faith and leave no malice in our hearts towards those who believe. Lord, You are indeed compassionate and merciful.” (59:10)
 
فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّـهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ (5:48)
 
لہذا تم سب نیکیوں کی طرف سبقت کرو کہ تم سب کی بازگشت اللہ ہی کی طرف ہے -وہاں وہ تمہیں ان تمام باتوں سے باخبر کرے گا جن میں تم اختلاف کررہے تھے (5:48)
 
Compete with each other in righteousness. All of you will return to God who will tell you the truth in the matter of your differences. (5:48)
 
خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ (7:199) 
آپ درگزر کو اختیار کریں نیک کام کی تعلیم دیں اور جاہلوں سے ایک کناره ہو جائیں (7:199) 
 Be tolerant; enjoin what is right; and avoid the ignorant. (7:199) 
 
وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ 
ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی (2:285)
We hear and obey (2:285)
………………………………
Sectarianism, extremism, militancy and Intolerance are the main threat to the unity, peaceful coexistence and progress of Muslims. Allah says: “Be not like those who became divided into sects and who started to argue against each other after clear revelations had come to them. Those responsible for division and arguments will be sternly punished” (Qura’n;3:105).“.. Keep reading >>>
………………………………………………………………

تمام مسلمان اپنے اپنے عقائد و نظریات، [جس کو وہ قرآن و سنت کی بنیاد پر دین اسلام سمجھتے ہیں] پر قائم رہتے ہوۓ، موجودہ فرقہ وارانہ ناموں کو ختم کرکہ قرآن میں الله کے عطا کردہ نام مسلم (الۡمُسۡلِمِیۡنَ ،مُّسْلِمَةً ،مُّسْلِمُونَ،مُّسْلِمًا) کہلانے پر متفق ہو جائیں تو یہ فرقہ واریت کے خاتمہ کی طرف پہلا موثر قدم ہو گا !

“مسلم” (الله کا فرمانبردار) کی نسبت الله کے صفاتی نام “السلام ” اور دین اسلام سے بھی ہے ، اس نام کا حکم اور تاکید الله نے قرآن میں 41 آیات میں بار بار دہرایا …

یہ ابتدا ہو گی، پہلا قدم “أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ “دین کامل کی طرف … کسی فرقہ کے نام سے شناخت اور وضاحت کی ضرورت نہیں کیونکہ … ” نظریات خود اپنی شناخت رکھتے ہیں” … فرق عمل سے پڑتا ہے-

 برقی کتاب پی ڈی ایف ، آن لائن پڑھیں یا ڈونلوڈ ، شئیر کریں

http://salaamone.com/muslim/

………………………………..

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ

آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا (قرآن 5:3

دین کامل :

کیوں نہ سب اہل ایمان رسول اللهﷺ اورصحابہ کرام رضی اللہ  کے دور کے مسلمان بن جائیں جو قرآن کو اسلامی علم کا بنیادی ماخذ مانتے تھے جس  کا عملی نمونہ رسول الله ﷺ تھےجن کی سنت متواترمیں موجود تھی اور ہے۔ رسول الله ﷺ اور خلفاء راشدین نے اولین ضرورت کے تحت کلام اللہ، قرآن کو حفظ کے ساتھ ساتھ تحریر کی شکل میں محفوظ کرنے کا اہتمام خاص کیا، سنت رسولﷺ بھی موجود تھی- اسلام کے بنیادی عقائد و عبادات اور ان کی عملی شکل آپ ﷺ کے وصال پر غائب نہیں ہو گیئ تھیں- ایمان اور اسلام کے بنیادی ارکان اور ستون اپنی اصل میں اسی طرح موجود تھےجس طرح آج- کلمہ، نماز (صلاہ)، روزہ، حج ، زکات پرعمل درامد بھی ہو رہا تھا تو اب ایسا کون سا نیا ستون یا ایمان کا نیا جزو پیدا ہو گیا ہے جو تفرقہ کا باعث بن گیا؟ ہم جانتے ہیں کہ اسلام کے بنیادی عقائد اور عبادات میں نہ کوئی تبدیلی ہوئی ہے اور نہ ہی ایسا ہونا ممکن ہے، تو پھر جگھڑا کیوں؟

اللہ کےواضح احکامات کے باوجود اسلام میں فرقہ واریت کا زہر کیسے داخل ہوا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئیے اسلام کی ابتدائی تاریخ کا مختصر جائزہ ضروری ہے >>>https://goo.gl/8ANxZ6

یہاں تاریخی ٹائم لائن (timeline) کو سختی سے فالو (follow) نہیں کیا گیا اس لیے ( overlap) اوورلیپ ناگزیر ہے-

 

پہلی صدی حجری کا ابتدائی دور :

 

حضرت محمد ﷺ نے آخری خطبہ حج میں اللہ کا حکم تلاوت فرمایا:

 

 الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ  (سورة المائدة 5:3)

 

“آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کر دیا ہے۔ اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے دین کی حیثیت سے اسلام کو پسند کر لیا ہے” (سورة المائدة 5:3)

 

حضرت ابن عباس رضی الله  فرماتے ہیں کہ اس دین اسلام کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے کامل کر دیا ہے اور اپنے نبی اور مومنوں کو اس کا کامل ہونا خود اپنے کلام میں فرما چکا ہے اب یہ رہتی دنیا تک کسی زیادتی کا محتاج نہیں ، اسے اللہ نے پورا کیا ہے جو قیامت تک ناقص نہیں ہوگا۔ اس سے اللہ خوش ہے اور کبھی بھی ناخوش نہیں ہونے والا ۔ حج اکبر والے دن جبکہ یہ آیت اتری تو حضرت عمر رونے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سبب دریافت فرمایا تو جواب دیا کہ ہم دین کی تعمیل میں کچھ زیادہ ہی تھے ، اب وہ کامل (perfect) ہو گیا اور دستور یہ ہے کہ کمال کے بعد نقصان شروع ہو جاتا ہے ، آپ نے فرمایا سچ ہے ، اسی معنی کی شہادت اس ثابت شدہ حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ اسلام غربت اور انجان پن سے شروع ہوا اور عنقریب پھر غریب انجان ہو جائیگا ، پس غرباء کیلئے خوشخبری ہے۔

…………………………….

We are Muslims Only- [Video Playlist]

خلفاء راشدین اور قرآن :
حج آلوداع کے بعد ١١ ہجری632ء کو حضرت محمدﷺ کے وصال کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی الله ، خلیفہ بنے، حضرت عمرکے مشورہ سے قرآن کو اکٹھا کیا حضرت ابو بکر صدیق نے پانچ سو احادیث کا ایک مجموعہ تیار کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ حضرت صدیق کے مجموعے سے زیادہ قابل اعتماد اور کون سا مجموعہ ہو سکتا تھا۔ لیکن ایک صبح اٹھ کر اسے جلا دیا (علامہ ذہبی تذکرۃ الحفاظ )- دو سال کے بعد  اپ کی وفات پر حضرت عمر کی خلافت کا دور شروع ہوا-

حضرت عمر بن خطاب رضی الله ، نے احادیث و سنن لکھنے کا ارادہ کیا تو اس بارے میں صحابہ کرام رضی الله انہم سے مشورہ لیا- سب نے کتابت کا مشورہ دیا – لیکن حضرت عمر رض ایک ماہ تک متامل رہے اور الله تعالی سے استخارہ کرتے رہے- پھر ایک صبح فرمایا-جبکہ الله تعالی نے ان کو اس رائے پر جمع دیا کہ: “میں نے چا ہا کہ احادیث و سنن کو لکھ لوں- لیکن پھر پچھلی قوموں کی تاریخ میری نگاہوں کے سامنے پھر گئی کہ انہوں نے کتابیں لکھیں، پھر ان پر منہ کے بل پر گر پڑیں اور کتاب اللہ کو چھوڑ دیا- اور اللہ کی قسم ! میں اللہ کی کتاب میں کبھی بھی کسی چیز کی ملاوٹ نہ ہونے دوں گا “-(“کتابت حدیث” خلاصہ ” نخبة  الفکر” علامہ ابن حجرالعسقلانی)

وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿سورة الفرقان25:30﴾

اور(روز قیامت) رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بےشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ﴿سورة الفرقان25:30﴾

حضرت عبداللہ ؓبن یسار فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت علیؓ نے تمام صحابہ کو جمع کر کے حکم دیا کہ یہاں سے واپس جانے کے بعد ہر شخص پہلا کام یہ کرے کہ جس کے پاس کوئی بھی تحریر ہو اسے مٹا ڈالے۔ کیوں کہ پہلی قومیں اپنے علماء کی احادیث پہ چلنے اور کتاب اللہ کو چھوڑنے کی وجہ سے ہلاک ہو چکیں ہیں۔ (مختصر جامع بیان العلم ص 33)
حضرت عبدللہ بن مسعود کے پاس ایک صحیفہ لیا گیا جس پر حدیث لکھی تھی، آپ نے اس کو دھو دیا اور پھر جلا دیا – پھر انہوں نے کہ جس کسی کے پاس ایسی کتاب ہے لے آیے اگر ہند کے بت خانے میں بھی ایسی کوئی کتاب ملی تو تو اسے حاصل کرلوں- انہوں نے فرمایا کہ “تم سے پہلے اہل کتاب پر تباہی آئ کہ انہوں نے اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈال دیا -اس طرح گویا انہیں اس کا علم ہی نہ تھا “- (“کتابت حدیث” خلاصہ ” نخبة  الفکر” علامہ ابن حجرالعسقلانی)

حضرت علی رضی الله نے خطبہ میں  فرمایا:” جس کے پاس (قرآن کے علاوہ) کوئی تحریر ہو اسے میں قسم دیتا ہوں کہ وہ گھر لوٹ کے جایےتو اسے مٹا ڈالے ، کیونکہ پچھلی قومیں اس وقت ہلاک ہوئیں جب وہ اپنے رب کی کتاب کو چھوڑ کر اپنے علماء کی قیل و قال میں پھنس گیے”-(“کتابت حدیث” خلاصہ ” نخبة  الفکر” علامہ ابن حجرالعسقلانی)

وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿سورة الفرقان25:30﴾
اور(روز قیامت) رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بےشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ﴿سورة الفرقان25:30﴾

اس سے ثابت ہوا کہ خلفا راشدین اور صحابہ اکرام حدیث و سنن کی کتابت کے حق میں نہیں تھے کیوں کہ ان کے نزدیک قرآن اہم تھا اور ہے- حضرت عثمان رضی اللہ کے دور میں قرآن کی مکمل کتابت کرکہ سرکاری نسخہ جات دور دراز خلافت میں تقسیم کر دیے-  حدیث لکھنے کا سرکاری اہتمام خلفائےراشدین اور بعد کے حکمرانوں نےکیوں  نہ کیا؟  حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا‫:‫’حسبنا کتاب اللہ‘ یعنی ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے:

قرآن بنی نوع انسان کے لیے ابدی، مکمل، کتاب ہدایت ہے-

قرآن کیا کہتا ہے قرآن کے متعلق؟

    1. تنزیل القرآن  ٧٠ 
    2. The word(s) “قرآن” appears 131 time(s) in 126 verse(s) in Quran in Urdu (Fateh Jalandhry جالندہری ) translation
    3. https://goo.gl/kBUuGH
    4. http://corpus.quran.com/search.jsp?q=Quran
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿سورة الفرقان25:30﴾
اور(روز قیامت) رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بےشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ﴿سورة الفرقان25:30﴾
 
اسلام قرآن و سنت کے ذریعہ تسلسل اور تواتر سے ایک نسل سے دوسری نسل، ایک جگہ سے دورسی جگہ منتقل ہو رہا تھا-

 

یہ واضح ہے کہ آنحضرت صلعم نے کتابت حدیث سے منع فرما دیا تھا (کچھ دعوی کرتے ہیں کہ بعد میں کچھ  صحابہ کو اجازت دی تھی- واللہ اعلم ) اور جو چیز لکھی نہ جائے وہ لازماً پہلے بگڑتی ہے اور بلا آخر مٹ جاتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورؐ کا مقصد بھی یہی ہو سکتا تھا کہ کہ قرآن کریم کے بغیر کوئی اور کتاب ہدایت باقی نہ رہے۔ اس لئے حضورؐ اور ان کے صحابہؓ قرآن کو ایک مکمل ضابطہ حیات تصور فرماتے تھے۔ اور اس کی موجودگی میں کسی اور کتاب کی قطعاً ضرورت نہیں سمجھتے تھے- ورنہ اگر صحابہ کو مکمل طور پر یقین، اتفاق ہوتا کہ قرآن کی تفصیل، تکمیل، تفسیر یا امت کی رہبری کے لئے حدیث کا زندہ رہنا ضروری ہے تو ان کے لئے حدیث کی تدوین نہایت آسان تھی-

وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿سورة الفرقان25:30﴾
اور(روز قیامت) رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بےشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ﴿سورة الفرقان25:30﴾
 

حضرعمر نے حضرت ابو بکر صدیق کو قرآن اکٹھا کرنے پر قائل کیا-   عثمان رضی اللہ نےقرآن کے نسخے لکھواکر تقسیم کیے- خلفاء راشدین  پانچ چھ ہزا احادیث کا ایک مجموعہ بھی تیار کرا سکتے تھے۔ تمام صحابہ زندہ تھے ان کی بیشتر تعداد مدینہ میں موجود تھی۔ اور بعض روایات کے مطابق حضرت عبداللہ بن عمروؓ حضرت انس بن مالکؓ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے پاس احادیث کی کافی تعداد لکھی ہوئی بھی تھی۔ راویوں کا لمبا چوڑا جھمیلا بھی نہیں تھا۔ ان حالات میں اگر حضرت صدیقؓ یا فاروقؓ چاہتے تو صرف ایک مہینے میں سرور عالمؐ کے تمام اقوال جمع ہو سکتے تھے۔ غور اور تفکر کریں کہ خلفائے راشدین کے زمانے میں شمع نبوت پہ فدا ہونے والے ہزاروں پروانے موجود ہیں۔ اور حضور کے دو سب سے بڑے دوست اور فدائی آپؐ کے اقوال کا ذخیرہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر فنا کر رہے ہیں۔ آخر کیوں ؟

 

کیا انھیں اقوال رسولؓ سے معاندت تھی؟ عیاذاً باللہ! کیا انھیں اسلام سے محبت نہ تھی ؟ استغفراللہ ! ممکن وجوہات میں  (١) اقوال رسول میں ممکنہ تحریف (٢) رسول اکرم صلعم کا حکم کہ احادیث مت لکھو (٣) مزید برآں انھیں اس حقیقت پر بھی محکم ایمان تھا کہ قرآن ہر لحاظ سے مکمل اور رہنما ہے- حضرت عمر ؓ بن خطاب کا قول : “حسبنا کتاب اللہ” ہمارے پاس کتاب الٰہی موجود ہے جس میں انسانی فلاح و نجات کے مکمل گُر درج ہیں ، اور یہ کتاب ہمارے لئے کافی ہے – ان وجوہات کی وجہ سے انھوں نے احادیث کی کتابت کا اہتمام نہ کیا ہو-

 

مقام حیرت ہے کہ جن احادیث کو ناقابل التفات ( یا مشتبہ ) سمجھ کر صدیق و فاروق رضی اللہ عنہم فنا کر رہے تھے، تاکہ اعمال و عقائد میں کوئی فتور پیدا نہ ہونے پائے ، انھی احادیث کو اڑھائی سو سال بعد امام بخاری و مسلم وغیرہ نے جمع کیا اور ہم سب نے مل کر نعرہ لگایا:”ھذا اصح الکتب بعد کتاب اللہ” (قرآن کے بعد صحیح بخاری صحیح ترین کتاب ہے)-

 

اس دوران لاکھوں نئی احادیث وضع کی گئیں۔ جن میں اسلام کا شکل تبدیل کرنے کی کوشش ہوئی۔ اور ایک ایک ورد پر ہزار ہزار جنتیں تقسیم کی گئیں۔ ان مشتبہ گوش بریدہ اور خود تراشیدہ احادیث کا سیلاب عظیم ۔ جب حضرت امام بخاری کے دور میں داخل ہوا تو آپ نے چھ لاکھ احادیث میں سے جو آپ کو یاد تھیں ، صرف 7275 انتخاب کیں اور باقی تمام کو ناقابل اعتماد قرار دے دیا۔
[ملاحظہ کریں: حدیث میں تحریف؟]

 

رسول اللہ ﷺ نے خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم دیا ہے ، اور حضرت عمر رضی اللہ ، عنہ بلا شبہ خلیفہ راشد تھے۔  فرمان رسالت مآب ﷺ ہے :
” فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بعدی فَسَيَرَى اخْتِلافًا كَثِيرًا ، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ، فَتَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ ۔”  (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)
” تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔  پس میری سنت اور خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو ۔ اس سے تمسک کرو اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو۔ خبردار ( دین میں )  نئی باتوں سے بچنا کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے۔”  (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)
کچھ علماء اکرام فرماتے ہیں کہ حدیث “وحی غیرمتلو” ہے:
اس پربھی قرآن کی طرح ایمان لائیے- اس میں اور کسی اور معاملہ کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں اگرایسا مکمل طور پر قرآن و سنت سے ثابت ہو- وحی غیر متلو سے مراد “وحی” کا وہ حصہ ہے جو کتاب اللہ کا جزو نہ ہو اور نہ ہی جس کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اسے آپ سنن نبوی کہہ سکتے ہیں۔ جس کی دلیل یہ آیات ہیں: (وَمَا يَنطِقُ عَنِ ٱلْهَوَىٰٓ) —اور (مَّن يُطِعِ ٱلرَّ‌سُولَ فَقَدْ أَطَاعَ ٱللَّهَ)-

وحی غیرمتلو” کی اصطلاح کیا قرانی ہے یا رسولﷺ یا صحابہ اکرام کی طرف سے ثابت ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر یہ بعد کے علماء اکرام کی طرف سے متعارف ہوئی ہو گی- اس طرح تو علماء، مفسرین کی طرف سے اور بھی بہت سی اجتہادی ، استخراجی (ماخوز ،derivative) اصطلاحات موجود ہیں جن پرعلماء میں اتفاق و اختلافات ہیں-

یہ امر تو ثابت شدہ ہے کہ قرآن‘ وحی خداوندی پر مشتمل ہے جو‘ انسانی ہدایت کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا۔ جائزہ کی ضرورت ہے کہ کیا احادیث بھی قرآن ہی کی طرح وحی خداوندی پر مشتمل ہیں؟
وحی غیرمتلو یا وحی خفی کی حقیقت:اجماع ہے کہ ، نہ تو وجوبِ اطاعت رسولؐ کی بحث بنیادی حیثیت کی حامل ہے اور نہ علمِ روایت و درایت پر تنقید اور جوابِ تنقید۔ اصل مسئلہ‘ جس کو ابھی تک صرف ضمنی حیثیت سے لیا گیا ہے‘ یہ ہے کہ:
آیا احادیث (یا سنت) وحی خداوندی ہیں یا نہیں؟
یہ واضح ہے کہ وحی داخلی نہیں بلکہ ہمیشہ خارجی ہوتی ہے۔ وحی سے نوازے جانے والے اس میں قطعاً بے اختیار ہوتے ہیں۔ یہ وحی نہ تو اُن کی خواہشات کا نتیجہ ہوتی ہے اور نہ اس میں ترمیم و اضافے کا کوئی اختیار ہی ان کو دیا جاتا ہے۔ وحی کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا ہدف صرف وہی عمل کرسکے جو اس سے کروانا مقصود ہے۔ یہ بنیادی اصول ذہن نشین کر لینے کے بعد ہم اصل سوال کی طرف آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا احادیث (یا سنت) وحی ہیں یا نہیں؟ اگر یہ وحی نہیں تو پھر ان کی کیا حیثیت ہے؟ اور اگر یہ وحی ہیں تو کئی اور منطقی سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کو حل کیے بغیر اس دعوے کو قبول کرنا ممکن ہی نہیں۔ وہ سوالات یہ ہیں: ۱۔ اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اقوال و افعال‘ (احادیث) مبنی بر وحی تھے تو آپؐ سے بعض لغزشوں کا صدور کیسے ممکن ہوا؟ (,عبس: ۱۔۱۰ ,سورہ الانفال ,آیت ۶۷ التوبہ:۴۳, ۸۴) ۲۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی طرح احادیث کی حفاظت کا ذمہ بھی کیوں نہیں لیا؟ ۳۔ احادیث قرآن کا حصہ کیوں نہ بن سکیں؟ ۴۔ آپؐ نے قرآن کی طرح احادیث کی کتابت کا حکم کیوں نہ دیا؟ ۵۔ صحابہ کرامؓ نے ہی قرآن کی طرح احادیث کی حفاظت کا اہتمام کیوں نہ کیا؟ ۶۔ قرآن نے قیامت تک آنے والے مسائل کی جزئیات کو خود کیوں نہیں متعین کر دیا؟ ۷۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی یہ ساری جزئیات کیوں نہ متعین کر دیں؟ ۸۔ جب آپؐ کا ہر قول و فعل وحی ہو تو آپؐ اُمت کے لیے نمونہ کس طرح بن سکتے ہیں؟ ان سوالات اور ان کے جوابات پر ایک طائرانہ نظر >>> یہ تصورکہ ؛’’وحی غیرمتلو‘‘ صرف مفہوم اور معنی کی حد تک وحی ہے اور الفاظ کے بغیر نازل ہوا کرتی تھی- نہ صرف یہ کہ یہ تصور درست نہیں بلکہ علمائے کرام نے اس کا کوئی ثبوت بھی پیش نہیں کیا۔ وہ اپنے اس موقف کی تائید میں کوئی دلیل پیش نہیں کرتے کہ ’’وحی غیرمتلو‘ مفہوم و معنی کے لحاظ سے وحی ہے‘ اس کے الفاظ مبنی بروحی نہیں۔ کسی دلیل کی عدم موجودگی میں یہ تصور (عقیدہ) بے بنیاد ٹھہرتا ہے۔ احادیث اگر وحی تھیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی طرح احادیث کی کتابت کا حکم کیوں نہ دیا؟
http://salaamforum.blogspot.com/2017/04/why-hadees-not-compiled-like-quran.html 
اب اس تحقیق کے بارے میں دیگر محققین علمائے اہلِ سنت کے ارشادات قابلِ توجہ ہیں: ڈاکٹر محمد زبیر صدیقی ایم اے‘ پی ایچ ڈی‘ اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’تاریخ تدوین حدیث‘‘ میں لکھتے ہیں: کیا حدیث کی کتابت کا آغاز عہد نبویؐ میں ہوا؟
احادیث کی کتابت کب شروع ہوئی؟
یہ مسئلہ جتنا اہم ہے اتنا ہی مشکل بھی ہے۔ اس کے متعلق عرصۂ دراز سے علمائے اسلام میں اختلاف رائے چلا آ رہا ہے لیکن ان بزرگوں نے اس مسئلہ کا کوئی حتمی اور آخری فیصلہ نہیں کیا۔(ڈاکٹر محمد زبیر صدیقی‘ ایم اے‘ پی ایچ ڈی: تاریخ تدوینِ حدیث‘ ص ۲۳۔۲۴) سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ میں لکھا:اہلِ عرب ہزاروں برس سے اپنے کام کتابت کے بجائے حفظ و روایت اور زبانی کلام سے چلانے کے عادی تھے اور یہی عادت ان کو اسلام کے ابتدائی دور میں بھی برسوں تک رہی۔ ان حالات میں قرآن کو محفوظ کرنے کے لیے تو کتابت ضروری سمجھی گئی کیونکہ اس کا لفظ لفظ آیات اور سورتوں کی ٹھیک اسی ترتیب کے ساتھ جو اللہ نے مقرر فرمائی تھی محفوظ کرنا مطلوب تھا۔ لیکن حدیث کے معاملہ میں اس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کیونکہ اس میں مخصوص الفاظ اور ان کی خاص ترتیب کے وحی ہونے کا نہ دعویٰ تھا نہ تصور۔(مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ : سنت کی آئینی حیثیت‘ ص ۳۵۲۔۳۵۳) مولانا محمد حنیف ندوی ’’مطالعہ حدیث‘‘ میں لکھتے ہیں: یہ سوال یقیناًذہنوں میں پیدا ہوتا ہے کہ احادیث و سنن کو اگر یہ اہمیت حاصل ہے کہ وہ دین کا مآخذ و منبیٰ ہیں (دوسرے الفاظ میں اگر وہ وحی ہیں۔ مولف) تو پھر ضروری تھا کہ قرآن حکیم کی طرح اس کی بھی عصرنبوت میں ہی باقاعدہ تدوین ہو جاتی۔(مولانا محمد حنیف ندوی: مطالعہ قرآن‘ ص ۴۰۔۴۱)

حافظ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: “بعد كتاب الله عزوجل سنن رسول صلي الله عليه وسلم فهي المبنية لمراد الله عزوجل من مجملات كتابه والدالة علي حدوده والمفسرة له….الخ یعنی ” اللہ عزوجل کی کتاب کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن ہیں جو کتاب اللہ کے مجملات سے اللہ عزوجل کی مراد بیان کرتی ہیں، اس کی حدود پر دلالت کرتی اور اس کی تفسیر و توضیح کرتی ہیں” امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: “فكانت السنة بمنزلة التفسير والشرح لمعاني أحكام الكتاب” “سنت کتاب اللہ کے احکام کے معانی کے لیے تفسیر و تشریح کا درجہ رکھتی ہے” “مرقاۃ” میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ آں رحمہ اللہ نے فرمایا: “جن چیزوں کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے وہ سب آپ کے فہم قرآن سے ماخود ہیں جیسا کہ آں صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے واضح ہوتا ہے: “إني لا أحل إلا ماأحل الله في كتابه ولا أحرم إلا ماحرم الله في كتابه” (یعنی میں حلال نہیں کرتا مگر وہ چیز جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال فرمایا ہے اور نہ حرام کرتا ہوں مگر وہ چیز جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام فرمایا ہے) امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں: “جميع ما تقوله الأئمة شرح للسنة وجميع السنة شرح للقرآن” ( یعنی آئمہ جو تمام چیزیں بیان کرتے ہیں وہ سنت کی شرح ہیں اور تمام سنت قرآن کی شرح ہے)” امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک اور قول ہے: “مانزل بأحد من الدين نازلة إلا وهي في كتاب الله تعالى” علامہ خطابی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: “لا خلاف في وجوب أفعاله صلي الله عليه وسلم التي هي لبيان مجمل الكتاب” یعنی “نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال جو کہ مکملات قرآن کے بیان سے عبارت ہیں، کے وجوب کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے”

یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے کہ: “کیا بعد کے لوگ بڑے درجہ کے مسلمان، مجتہد، عالم ہیں یا خلفاء راشدین جن کی ہدایت پر عمل کرنے کا حکم رسول اللہ نے دیا؟
 
کیا حضرت عمرؓ، اللہ اور رسول کی منشا سے وہ زیادہ باخبر تھے یا بعد کے علماء؟
 
اصل حدیث مبارکہ جواقوال رسول اللہ ہیں ،ان سے کوئی مسلمان  انکار کا تصور بھی نہیں کر سکتا، مسئلہ ان انسانی اقوال سے ہے جنھیں یہودیوں ، زندیقوں اور ہمارے فرقہ باز رہنماؤں نے تراش کر مہبط الوحی صلعم کی طرف منسوب کر دیا کہ کلام الله اور اقوال رسول کے وقارکو ٹھیس پہنچے-
 
 
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ

 

ہم نے ہی قرآن اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں
 

مثال کے طور پر چند صحیح احادیث پر مفکرین کی تنقید نقل ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ موجودہ صحیح ترین مجموعے کسی بھی لحاظ سے قرآن کی طرح ’’محفوظ‘‘ قرار نہیں دیئے جاسکتے۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے سورہ الانبیاء کی آیت نمبر۶۳ کی تفسیر میں صحیح بخاری کی اس حدیث پر تنقید کرتے ہوئے جس میں کہا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین مرتبہ جھوٹ بولا تھا‘ لکھتے ہیں: “ایک گروہ روایت پرستی میں غلو کر کے اس حد تک جاتا ہے کہ اسے بخاری و مسلم کے چند راویوں کی صداقت زیادہ عزیز ہے اور اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ اس سے ایک نبی پر جھوٹ کا الزام عائد ہوتا ہے۔ دوسرا گروہ اس ایک روایت کو لے کر پورے ذخیرۂ حدیث پر حملہ آور ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ ساری ہی حدیثوں کو اٹھا کر پھینک دو کیونکہ ان میں ایسی ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں حالانکہ نہ ایک یا چند روایات میں کسی خرابی کے پائے جانے سے یہ لازم آتا ہے کہ ساری ہی روایات ناقابلِ اعتماد ہوں اور نہ فنِ حدیث کے نقطۂ نظر سے کسی روایت کی سند مضبوط ہونا اس بات کو مستلزم ہے کہ اس کا متن خواہ کتنا ہی قابلِ اعتراض ہو مگر اسے ضرور آنکھیں بند کرکے صحیح مان لیا جائے۔(۷۲؂ ۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ : تفھیم القرآن‘ جلد ۳‘ سورہ الانبیاء‘ حاشیہ ۶۰)
صحیح سے صحیح حدیث کے راویوں سے بھی کسی نہ کسی مرحلے پر بے احتیاطی ہوسکتی ہے اور جب یہ امکان پایا جائے تو اس کا صرف ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے کہ احادیث قرآن کی مانند محفوظ نہیں ہیں اور نہ انھیں قرآن کا سا درجہ حاصل ہے۔
حدیث پر تنقید کے جواب میں جب روایت پرست طبقہ نے مولانا مرحوم کو شدید جوابی تنقید کا نشانہ بنایا‘ تو آپ نے لکھا:“آپ کے نزدیک حدیث کا مضمون اس لیے قابلِ قبول ہے کہ وہ قابلِ اعتماد سندوں سے نقل ہوئی ہے اور بخاری‘ مسلم‘ نسائی اور متعدد دوسرے محدثین نے اسے نقل کیا ہے۔ میرے نزدیک وہ اس لیے قابلِ قبول نہیں ہے کہ اس میں ایک نبی کی طرف جھوٹ کی نسبت ہوتی ہے اور یہ کوئی ایسی معمولی بات نہیں ہے کہ چند راویوں کی روایت پر اسے قبول کرلیا جائے۔ اس معاملہ میں مَیں اس حد تک نہیں جاتا جہاں تک امام رازیؒ گئے ہیں۔ وہ تو کہتے ہیں کہ ’’انبیاء کی طرف جھوٹ منسوب کرنے سے بدرجہا بہتر ہے کہ اس روایت کے راویوں کی طرف اسے منسوب کیا جائے (تفسیر کبیر‘ جلد ۶‘ ص ۱۱۳)۔ اور یہ کہ ’’جب نبی اور راوی سے کسی ایک کی طرف جھوٹ کو منسوب کرنا پڑے تو ضروری ہے کہ وہ نبی کے بجائے راوی کی طرف منسوب کیا جائے‘‘ (تفسیرکبیر‘ ج۷‘ ص ۱۴۵)۔ مگر میں اس روایت کے ثقہ راویوں میں سے کسی کے متعلق یہ نہیں کہتا کہ انھوں نے جھوٹی روایت نقل کی ہے‘ بلکہ صرف یہ کہتا ہوں کہ کسی نہ کسی مرحلے پر اس کو نقل کرنے میں کسی راوی سے بے احتیاطی ضرور ہوئی ہے۔ اس لیے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول قرار دینا مناسب نہیں ہے۔ محض سند کے اعتماد پر ایک ایسے مضمون کی آنکھیں بند کر کے ہم کیسے مان لیں جس کی زد انبیاء علیہم السلام کے اعتماد پر پڑتی ہے۔(۷۳؂ ۔ ” : رسائل و مسائل ‘ حصہ سوم‘ ص ۶۱۔۶۲)
مولانا ابوالکلام آزاد ؒ نے اسی حدیث پر تنقید ان الفاظ میں کی ہے: ’’بلاشبہہ روایت صحیحین کی ہے‘ لیکن اس تیرہ سو برس کے اندر کسی مسلمان نے بھی راویانِ حدیث کی عصمت کا دعویٰ نہیں کیا‘نہ امام بخاری و مسلم کو معصوم تسلیم کیا ہے۔ کسی روایت کے لیے بڑی سے بڑی بات جو کہی گئی ہے وہ اس کی ’’صحت‘‘ ہے عصمت نہیں ہے۔ اور ’’صحت‘‘ سے مقصود صحت مصطلحۂ فن ہے نہ کہ صحت قطعی و یقینی مثل قرآن۔ روایات کی قسموں میں سے کتنی ہی بہتر قسم کی کوئی روایت ہو‘ بہرحال ایک غیرمعصوم راوی کی شہادت سے زیادہ کچھ نہیں۔ اور غیرمعصوم کی شہادت ایک لمحہ کے لیے بھی یقینیاتِ دینیہ کے مقابلہ میں تسلیم نہیں کی جاسکتی‘‘۔ (ترجمان القرآن‘ ج۲‘ ص ۴۹۹۔۵۰۰)
یہ ظاہر ہے کہ اس طرح کی روایتوں سے باقی ساری حدیثیں ناقابلِ اعتماد نہیں ہوجاتیں لیکن اتنا تو ضرور ثابت ہوتا ہے کہ یہ کتب احادیث قرآن کی طرح محفوظ نہیں اور نہ قرآن کی طرح یقینی قرار دی جاسکتی ہیں۔
بعض جید علماء اور مفکرین کی آراء نقل کرتے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ اس رائے میں محققین کس بات کے قائل ہیں یعنی کہ اللہ تعالیٰ نے صرف قرآن مجید کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے یا قرآن کے علاوہ کوئی اور کتاب بھی ایسی ہے؟
عصرِحاضر کے ایک عظیم مفسر مولانا امین احسن اصلاحیؒ اپنی کتاب ’’توضیحات‘‘ میں ارشاد فرماتے ہیں:انسانوں کا کیا ہوا کوئی کام اگرچہ وہ بہتر سے بہتر لوگوں نے بہتر سے بہتر طریقہ پر کیا ہو‘ غلطی کے امکانات سے مبرا نہیں ہو سکتا۔ اور اسی بنا پر تنقید سے بالاتر بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہمارے ہاں یہ درجہ صرف قرآن حکیم کا ہے کہ وہ غلطی کے تمام امکانات سے مبرا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا خود بندوبست فرمایا۔ اس عقیدے پر پوری اُمت کا اجماع نقل کرتے ہیں: پوری اُمت کا اس پر اجماع ہے کہ قرآن کے سوا کوئی کتاب بھی مبرا عن الخطا نہیں ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بھی بالکل یہی بات لکھی ہے: یہ حفاظت کا غیر معمولی انتظام آج تک دنیا کی کسی دوسری کتاب کے لیے نہیں ہوسکا ہے۔ یہی مفکر اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں: یہ خیال بالکل صحیح ہے کہ احادیث اس حد تک محفوظ نہیں ہیں جس حد تک قرآن مجید ہے۔ مولانا محمد تقی امینی‘ ناظمِ دینیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ‘ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’حدیث کا درایتی معیار‘‘ میں ارشاد فرماتے ہیں: یہی آخری کتاب ہر دور و زمانہ کے لیے کافی ہوتی ہے۔ صرف اس کی حفاظت کا سوال رہتا ہے جس کی ذمہ داری اللہ نے اپنے ذمہ لی ہے۔:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ
ہم نے ہی قرآن اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ قرآن کی حفاظت کا جو انتظام ہے اور جس طرح وہ محفوظ ہے تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہ قدرتی انتظام و حفاظت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔مندرجہ بالا اقتباسات سے معلوم ہوا کہ علمائے محققین کے نزدیک:۱۔ انسانوں کا کیا ہوا کوئی بھی کام غلطی سے مبرا نہیں ہو سکتا۔ یہ درجہ صرف قرآن حکیم کا ہے کہ وہ غلطی کے تمام امکانات سے مبرا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا خود بندوبست فرمایا ہے۔ ۲۔ پوری اُمت کا اس پر اجماع ہے کہ قرآن کے سوا کوئی کتاب بھی مبرا عن الخطا نہیں ہے۔ ۳۔ یہ حفاظت کا انتظام اور غیرمعمولی انتظام آج تک دنیا کی کسی دوسری کتاب کے لیے نہیں ہو سکا ہے۔ ۴۔ یہ خیال بالکل صحیح ہے کہ احادیث اس حد تک محفوظ نہیں ہیں جس حد تک قرآن مجید ہے۔ دعویٰ کہ احادیث‘ قرآن کی طرح محفوظ نہیں‘ مگر عملی صورت حال بھی یہی ہے یا اس کے برعکس؟
اقتباسات علمائے اہلِ سنت کی کتابوں سے-شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رقمطراز ہیں: صحیح بخاری یا صحیح مسلم کا انتخاب مخصوص شرائط کے ماتحت ہوا ہے۔ اس کا مطلب نہ تو تمام صحیح احادیث کا استیعاب ہے اور نہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے سوا باقی سب احادیث غلط ہیں۔ بلکہ ائمہ حدیث تصنیف و تدوین کتب کے وقت بعض شرائط ذہن میں رکھتے تھے۔ ان شرائط کے تحت جو صحیح احادیث ان کے معیار پر ان کی نظر میں پوری اتریں انھیں جمع کر دیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان شرائط کے مطابق بھی کہیں ذہول ہوگیا ہو۔* ۳۹؂
(ان ’’ذہول شدہ‘‘ شرائط کے مطابق جو ’’وحی‘‘ہم تک پہنچی ہے اس کو اب ہم کیسے معلوم کریں؟ ۳۹۔ شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی: حجیتِ حدیث‘ ص ۸۲، * اگر یہ ساری صحیح احادیث ہم تک نہیں پہنچ سکیں تو نہ معلوم ہم کتنی ’’وحی‘‘ سے محروم رہ چکے ہیں۔)سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ میں لکھتے ہیں: ان کا (امام بخاریؒ ) اپنا قول یہ ہے کہ میں نے اس کتاب میں کوئی ایسی بات داخل نہیں کی ہے جو صحیح نہ ہو مگر بہت سی صحیح حدیثیں میں نے چھوڑ دی ہیں تاکہ طویل نہ ہوجائے (تاریخ بغداد‘ ج۲‘ ص ۸۔۹۔ تہذیب النووی‘ ج ۱‘ ص ۷۴۔ طبقات السبکی‘ ج ۲‘ ص ۷۰)۔ بلکہ ایک اور موقع پر وہ اس کی تصریح بھی کرتے ہیں کہ ’میں نے جو صحیح حدیثیں چھوڑ دی ہیں وہ میری منتخب کردہ حدیثوں سے زیادہ ہیں‘‘۔* اور یہ کہ ’’مجھے ایک لاکھ حدیثیں یاد ہیں‘‘ (شروط الائمہ الخمسہ‘ ص ۴۹)۴۰؂

“مگر بہت سی صحیح حدیثیں میں نے چھوڑ دی ہیں تاکہ طویل نہ ہوجائے” (امام بخاری رحمہ اللہ): اگر احادیث وحی خفی ، یا وحی غیر متلو ہے توامام بخاری رحمہ اللہ نےان کی ایک کثیر تعداد چھوڑ دی، نامکمل ذخیرہ احادیث؟

قرآن کی وحی کی تو ایک ہی قسم ہے۔ اس کی کوئی خاص قسم یا اصطلاحات نہیں۔ لیکن حدیث کی سو سے زائد اقسام گنوائی جاتی ہیں مثلاً صحیح‘ ضعیف‘ شاذ‘ مرسل‘ مرفوع وغیرہ۔ مگر قرآن کی وحی کے بارے میں اس طرح کی کوئی اصطلاح رائج نہیں۔ قرآن کی ہر آیت ایک ہی قسم پر مشتمل ہے۔ وہ صحیح‘ ضعیف اور حسن وغیرہ پر مشتمل نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ یہ بھی نہیں ہے کہ ہر حدیث کے متعلق سب اہلِ فن کی ایک ہی رائے ہو۔ بسااوقات ایک حدیث کو کوئی صاحب صحیح کہتے ہیں‘ کوئی حسن اور کوئی ضعیف۔ پھر قرآن اور حدیث برابر کیسے ہو سکتے ہیں؟(اقسام حدیث)

وصال رسول الله کے وقت مسلمان، ایمان کے بنیادی ارکان یعنی؛ اللہ ،فرشتوں، آسمانی کتب، رسولوں، قیامت، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانا اوراچھی اور بری تقدیر پر ایمان رکھتے تھے- اس وقت قرآن اور سنت  رسول اللہﷺ  تواتر میں  موجود تھی  مثلاً نماز، روزہ ، زکات ، حج اور دوسرے احکام و معاملات  پر لاکھوں مسلمان عمل درآمد کر رہے تھے، قران حفاظ  صحابہ اکرام کے دماغ میں اور مختلف طریقوں پر تحریر کی شکل میں موجود تھا جس کو کتاب کی شکل میں اکٹھا کر دیا گیا، اور پھر حضرت عثمان رضی الله نے تو سرکاری طور پر اس قرآن کوتحقیق کے بعد اہل قریش کی قرات میں  تحریرکروا کرعالم اسلام میں بھجوا دیا اور باقی ذاتی  غیر سرکاری نسخوں کو جلا دیا-  جو سنت متواتر یا تسلسل جس کو لا تعداد مسلمانوں نے سنا ، دیکھا اور عمل کیا- تبھی حضرت  ابوبکرؓ اور  حضرت عُمرؓ نے احادیث کے ذخیروں کو آگ لگوائی تاکہ قُرآن و سُنّت (متواتر) ہی آنے والی نسلوں کے لیے اسلام کا ماخذ ہو۔  نماز میں قران مسلسل  تلاوت کیا جاتا تھا- پوری توجہ قرآن پر تھی- پھر قرآن کی  کتابت کااہتمام سرکاری سرپرستی میں کرکہ اس کےمستند نسخوں کو عالم اسلام میں دور دور تک تقسیم کر دیا- ان میں دو نسخے ابی بھی تاشقند اور ترکی کے میوزیم میں موجود ہیں اور ایک نسخہ انڈیا آفس لائبریری لندن میں بھی ہے-
73 فرقے:
ایک ٧٣ فرقوں والی حدیث بہت مشھور ہے جس کو کچھ لا علم لوگ فرقہ واریت کی دلیل اور جواز میں پیش کرتے ہیں جبکہ قرآن کھلے الفاظ میں متعدد بار فرقہ واریت کی ممانعت کرتا ہے- بغیر کسی تفصیل اور تاویل کے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خلفاء راشدین  نے حدیث کی کتابت سے سختی سے کیوں منع فرمایا تھا کہ لوگ اہل کتاب (یہود و نصاری) کی طرح ،کتاب الله  کو چھوڑ کر دوسری کتابوں میں گم ہو جائیں گے- لیکن یہ  حدیث کسی صورت فرقہ واریت کی دلیل نہیں بنتی ۔ کیونکہ اس میں فرقہ واریت کی پیشین گوئی ہے نہ کہ حکم – دین میں فرقہ واریت کی حرمت تو نص قطعی سے واضح ہے۔ اس حدیث کواور ہر حدیث کو قرآن مجید کی ہی روشنی میں سمجھنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ قرآن میں  بے شمار آیات فرقہ واریت کی مذمت کرتی ہیں۔
اس حدیث کے عربی الفاظ یہ ہیں ۔
افترقت اليهود على إحدى وسبعين فرقة، وافترقت النصارى على اثنتين وسبعين فرقة، وستفترق هذه الأمة على ثلاث وسبعين فرقة كلها في النار إلا واحدة، قيل: من هي يا رسول الله؟ قال: من كان على مثل ما أنا عليه وأصحابي.(ترمزی)
ترجمہ : یعنی یھود 71 اور نصاریٰ 72 فرقوں میں بٹ گئے اور یہ امت مسلمہ عنقریب 73 فرقوں میں بٹ جائے گی ۔ایک کو چھوڑ کر سارے فرقے جہنم رسید ہوں گے۔ ہم نے پوچھا یا رسول اللہ وہ جہنم سے بچنے والا فرقہ کون سا ہو گا ؟آپ نے فرمایا جو اس طور طریقہ پر ہو گا جس پر اس وقت میں اور میرے صحابہ ہیں(ترمزی)
اس حدیث مبارکہ میں امت مسلمہ کے اندر تفریق و گروہ بندی کی جو پیشن گوئی تھی وہ محض بطور تنبیہ و نصیحت کے تھی ۔حالانکہ اگر اس حقیقت پر غور کیا جائے کہ اختلاف مسالک اور فروعات دین مختلف الرائے ہونے کے باوجود تمام مسلمان جو اللہ تعالیٰ پر، اس کے ملائکہ پر، اس کے رسولوں پر، قیامت کے دن پر، اچھی یا بری تقدیر کے منجانب اللہ ہونے پر ،اور موت کے بعد دوبارہ اٹھنے پر ایمان رکھتے ہیں ،حضرت محمد صلعم کو آخری نبی تسلیم کرتے ہیں ،نماز پڑھتے ہیں ،روزہ رکھتے ہیں ، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور صاحب استطاعت ہونے پر حج کرتے ہیں ،معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکرات سے روکتے ہیں تو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک یہ سب مومن ہیں بشرطیکہ وہ اللہ کی ذات یا اس کی صفات میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرتے ہوں –دوسرے الفاظ میں جو شخص دین کی مبادیات پر ایمان رکھتا ہو اور ارکان اسلام پر عمل پیرا ہو وہ دین کے فروعات میں دیگر مسلمانوں سے اختلاف رائے رکھنے کے باوجود مومن و مسلم ہی رہتا ہے۔ ایمان سے خارج نہیں ہوتا ۔دین کا فہم نہ تو سب کو یکساں عطاء کیا گیا ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے ذہن، صلاحیتیں اور طبائع ایک جیسے رکھے ہیں ۔بہر حال یہ طے شدہ بات ہے کہ فروعی اختلافات میں قلت فہم کی بنا پر مختلف مکاتب فکر پیدا ہو جاتے ہیں ۔
اسلام میں فرقوں کی ابتائی تاریخ :
فرقوں کی تصریح علامہ ابن جوزی نے اس طرح بیان کی ہے کہ ابتداء میں جماعت صحابہ رضوان اللہ علیہم اور سواد اعظم سے علیحدہ ہو کر خوارج اور دیگر فرقے بنے تھے ،پھر انکے ردّ عمل میں مزید چار فرقے اور پیدا ہو گئے یعنی قدریہ، جبریہ، جہمیہ، مرجیہ۔ اس طرح ان گمراہ فرقوں کی کل تعداد چھ ھوگئی۔ علامہ ابن جوزی کا بیان ہے کہ ان چھ فرقوں میں آپس میں مسلسل ٹوٹ پھوٹ اور تفریق ہوتی رہی یہاں تک ان میں سے ہر فرقہ بارہ بارہ فرقوں میں تقسیم ہو گیا۔ اس طرح مجموعی طور پر ان گمراہ فرقوں کی تعداد حدیث نبوی کی تصریح کے مطابق 72 ھوگئی۔ ان 72 فرقوں کے الگ الگ نام کی صراحت اور ان کے عقائد کی تفصیل یہاں بخوف طوالت بیان نہیں کی جا سکتی۔ ان کی تفصیلات”تحفہ اثنا عشریّہ “از حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی میں دیکھی جا سکتی ہیں-
یہ بات قبل غور ہے کہ مذکورہ حدیث میں جس جماعت کے جنتی ہونے کی بشارت رسول اللہﷺ نے دی ہے وہ کون ہے؟ خود اس کی وضاحت حدیث میں ہے کہ“ما انا علیہ واصحابہ” یعنی جو میرے اور میرے صحابہ کے راستے پر ہوگا۔ اس حدیث سے جو لوگ فرقہ پرستی کا جواز پیش کرتے ہیں کیا ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا طرزعمل نظرنہیں آتا؟
صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے مابین بہت سے معاملات میں اختلاف تھا، صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے اختلافات تو ایک طرف صرف ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہی تقریباً ۳۰ سے زائد مسائل میں اختلافات گنوایےجا سکتے ہیں- ان سب مسائل پر صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے بیٹھ کر گفتگو کی ، لیکن کیا کہیں سے کفر کے فتوے لگے؟ کیا کسی ایک صحابی نے اپنا علاحدہ فرقہ بنایا؟ کسی ایک صحابی نے (معاذ اللہ) یہ کہا کہ اختلافی مسائل میں میری ہی پیروی کرنا، ورنہ ایمان سے خارج ہوجاؤگے؟ جنت اور نجات صرف یہیں مل سکتی ہے۔
تاریخ سے کسی ایک صحابی کا صحیح قول پیش نہیں کیا جا سکتا جہاں انہوں نے کہا ہو کہ فلاں صحابی کے پیچھے نماز نہ پڑھنا، فلاں کو کافر جاننا، فلاں کو سلام نہ کرنا، جیسا کہ ہم کہتے ہیں۔ صحابہ کرام فاسق و فاجر حکمرانوں کے پیچھے جمعہ اور نمازیں پڑھا کرتے تھے، اور انہیں دوبارہ بھی نہیں پڑھتے تھے، جیسے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے حجاج بن یوسف کے پیچھے ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ نےولید بن عقبہ کے پیچھے نماز پڑھی حالانکہ وہ  شرابی تھا، بلکہ ایک بار ولید نے لوگوں کوصبح کی چار رکعتیں  پڑھا دیں ، اور پھر کہنے لگا: “اور زیادہ پڑھاؤں؟” تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم تو تمہارے ساتھ زیادہ ہی پڑھتے آئے ہیں” پھر لوگوں نے عثمان رضی اللہ عنہ سے اسکی شکایت کی۔
عثمان رضی اللہ عنہ جب گھر میں محصور کر دیے گئے تو ایک شخص نے لوگوں کونماز پڑھائی، جس پر کسی پوچھنے والے نے عثمان رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا اور کہاکہ  [عثمان] آپ اصل امام ہیں، اور جس نے لوگوں کو نماز پڑھائی ہے یہ فتنہ پرور امام ہے، تو عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: “بھتیجے! نماز سب سے بہترین عمل ہے، اگر وہ  درست کام کریں تو تم بھی ان کے ساتھ شامل ہو جاو اور اگر غلطی کریں  تو  تم انکی غلطی سے بچو” سلف سے اس قسم کے بہت سے واقعات ملتےہیں۔(صحیح بخاری)
سارے اختلافات کے باوجود صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین وہ تھے جو باہم محبت و اخوت سے رہتے تھے، آپس میں رشتے طے کرتے تھے، ایک دوسرے سے علمی و روحانی فیض حاصل کرتے تھے۔مگر افسوس کہ مسلمان اورکچھ علماء  اختلافات کرتے ہیں تو لڑتے بھی ہیں، فتوے بھی لگاتے ہیں؛ اور پھر انتہاء تو دیکھیں کہ اپنے ناپاک عمل کی دلیل نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بتاتے ہیں،ان کو خدا کا کوئی خوف نہیں ہے، اگر وہ لوگ جن پر فتوے لگائے ہیں اگر ان میں سے ایک بھی اللہ کا ولی نکلا تو روز محشر ان تکفیری ملاؤں کی رسوائی ہی ہوگی۔
پہلی صدی ہجری کا آخری دور:
اب اُس دور کا تصور کرتے ہیں جب کہ حضرت محمدﷺ کے وصال کو80 سال گزر چکے تھے۔ جید علماء اورمفسرین صحابہ اکرام وفات پا چکے ہیں، شاید ہی کوئی صحابی زندہ ہو،البتہ وہ لوگ موجود تھے جنہوں نے صحابہ کو دیکھا تھا۔ اس وقت نہ ابوحنیفہ پیدا ہوئے تھے نہ امام مالک نہ امام جعفر صادق اور نہ فقہ لکھنے والا کوئی اورامام پیدا ہوا تھا ۔یہ  ایک ایسا دور تھا کہ قرآن کتاب کی شکل میں اور حفاظ کے دل و دماغ میں محفوظ تھا- سنت رسول اللهﷺ (متواتر) جولاکھوں، ہزاروں مسلمانوں کےذریعہ نسل در نسل منتقل ہوتی آ رہی تھی-(کچھ لوگوں نے خلفاء راشدین کی ہدایت کے بر عکس احادیث کو بھی لکھ رکھا تھا)-
علماء مسائل کا حل قرآن و سنت اور اجتہاد سے بغیر کس پرابلم کے کر دیتے ہیں- جلیل القدر علماء صحابہ کرام جن میں کچھ نام، سیدنا عبد اللہ بن عباس ،عبداللہ بن عمر ، عبد اللہ بن عمرو بن العاص، سیدنا عبداللہ بن زبیر،عبد اللہ بن مسعود , ابو ہریرہ ، انس بن مالک ، جابر بن عبد اللہ ، سیدنا ابوسعید خذری اور دوسرے صحابہ اکرام مسلمانوں کی دینی تربیت اور رہنمائی کرتے رہے-اگر کہیں اختلاف  ہوتا تو صرف قرآن و سنت کی اپنی سمجھ اور علم کے مطابق تفسیرپر ہوتا مگر فرقه واریت کی کوئی گنجائش نہ تھی یہ اس مثال سے واضح ہوت ہے : حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےحج میں منی میں (قصر) دو رکعت نماز پڑھی، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ابتدائے خلافت میں تو دو ہی رکعت پڑھی ہے لیکن بعد میں چار رکعت پڑھنے لگے تھے(مکہ میں متاہل)۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب امام (یعنی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ) نماز پڑھتے تھے تو چار رکعتیں پڑھتے تھے اور جب اکیلے (یعنی سفر میں) نماز پڑھتے تو دو رکعتیں ہی پڑھتے تھے- اختلاف میں فرقہ نہ بنایا-
پہلی صدی ہجری میں مکہ اور مدینہ علم کے مراکز تھے- پھرعلم کا دائرۂ دوسرے شہروں کوفہ ،بصرہ ، دمشق ، یمن ، مراکش ، تیونس، مصر، بغداد تک پھیل گیا-
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اور کتاب وسنت میں وارد ہونے والے احکام شرعیہ کی جو تشریح و تحقیق صحابہ کرام  کے سامنے فرمائی اور اس پر عمل کر کے دکھایا۔ صحابہ کرام  نے اس تشریح و تحقیق اور عملی مشاہدہ کے مطابق کتاب وسنت کے علم و عمل کو محفوظ کیا اورسرمواس سے انحراف نہ کیا پھر خدا اور رسول خدا کی اس عظیم، مقدس،معتمد علیہ جماعت اس تشریح امانت کو علم و عمل کی صورت میں تابعین کی طرف منتقل کیا تابعین نے بھی علم و عمل کی اس امانت اور وراثت نبوت کو جوں کا توں محفوظ رکھا اور اسی کی علماً  و عملاً تعلیم جاری رکھی بالآخر تابعین کے دور کے آخیر میں ١٢١ھ سے ١٥٠ ھ کے دورانیہ میں علم و عمل کی اس امانت کو مدون کر دیا گیا بعد میں پورے تواتر وتسلسل کے ساتھ احکام شریعت اور کتاب کی یہی تحقیق و تشریح ملت اسلامیہ میں چلتی رہی اور اسلامی حکومتوں میں بطور قانون نافذ رہی۔
پھر ہر زمانے کے نئے پیش آمدہ مسائل کو ماہرین شریعت یعنی مجتہدین اسلام کے طے کردہ اصولوں اور ان کے مدون کردہ اس تحقیقی و تشریحی علمی ورثہ کی روشنی میں حل کیا جاتا رہا ۔پس جن مدارس اسلامیہ میں کتاب و سنت کی تعلیم اس تحقیق و تشریح کے مطابق دی جاتی ہے جو عہد نبوت،عہد تابعین اور اس کے بعد کے ادوار میں محفوظ رہی ہے اور وہ اسی تحقیق و تشریحی کی بنیاد پر قائم ہیں اس متواتر و متوارث تحقیق سے جڑا ہوا ہے اور جن کے علم و تحقیق کو جدیدیت کی بجائے تواتر و توارث کی سند حاصل ہے وہ مدارس ہرگز ہرگز فرقہ واریت کے مرکز نہیں ہیں اور نہ ہی وہ علماء فرقہ واریت میں ملوث ہیں جو اسلاف کی اسی متواتر و متواثر علمی تحقیق و تشریح کے وارث و امین ہیں-
حدیث کی ایک بھی مستند کتاب جو سرکاری طور پر خلفاء راشدین یا حکمرانوں سے مصدقہ ہو، موجود نہیں ہے- جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ افراد کی ذاتی کاوش (private collection) ہے- قرآن کی موجودگی میں کیا  دین کی “بنیاد” لوگوں کے ذاتی کاوش رسول اللهﷺ سے منسوب ارشادات کے  صحیفوں  پر رکھنا درست ہے یا ان کو “مددگار” سمجھا جایے یہ علماء کرام پر چھوڑتے ہیں-
حدیث کی سرکاری کتابت کا اہتمام پہلے صدی ہجری کے بعد عمر بن عبدالعزیز کے دور میں شروع ہوا- خلیفہ حضرت عمر بن عبد العزیز ( ۶۱ھ-۱۰۱ھ) کے خاص اہتمام سے وقت کے دو جید محدِّث شیخ ابوبکر بن الحزم (متوفی ۱۲۰ھ) اور محمد بن شہاب زُہری (متوفی ۱۲۵ھ) کی زیر نگرانی احادیثِ رسول کو کتابی شکل میں جمع کیا گیا؛ اب تک یہ احادیث منتشر حالتوں میں اور  سینوں میں محفوظ چلی آرہی تھیں۔ اسلامی تاریخ میں ان ہی دونوں محدث کو حدیث کا مدوِّنِ اوَّل کہا جاتا ہے۔
امام بخاری اورامام مسلم سمیت دیگر محدثین پیدا ہونے میں جبکہ سوا سو سال سے زیادہ عرصہ ہو، اس مشکل صورتحال میں:
  1. سُنت کیا علم کیسے ہو سکتا ہے؟
  2. فرائض کیسے پتہ چلیں گے؟
لوگ آخر کیسے مسلمان ہیں کہ ہمارے اماموں میں سے کوئی پیدا ہی نہیں ہواجن کے کئے ہوئے کام کےبعد ہم آج شیعہ اور سُنی، حنبلی اور شافعی وغیرہ بنے۔
دیوبند اور بریلوی مدرسہ تو ابھی سوا ہزار سال بعد بنے گا لہذا آپ دیوبندی بریلوی بھی نہیں بن سکتے، وہابی بھی نہیں ہو سکتے کیونکہ وہابی فرقے کی شروعات میں ابھی سوا ہزار سال کا عرصہ ہے، اہلِ حدیث تو تب بنیں جب حدیث کی کوئی کتاب ہو۔جس دور میں آپ پُہنچ گئے ہیں اُس وقت لوگ حدیث نبویﷺ کو لکھنے کا تصوّر بھی نہیں کرتے تھے کیونکہ حضرت مُحمدﷺ نے صاف صاف کہا تھا کہ اگر کسی نے مجھ سے سُن کر قُرآن کے علاوہ کُچھ لکھ لیا ہے تو وہ مٹا دے۔[ یہ بھی کھا جاتا ہے کہ کچھ کو اجازت بھی دی تھی، تو پھر حضرت عمر رضی الله نے کیوں منع فرمایا؟ کیوں حدیث لکھنے کا اہتمام کرنے سے انکار کیا؟ کیوں ان کے بعد کے خلفاءراشدین اورحکمرانوں نے ان کے حکم پر عمل کیا، جو ایک طرح سے رسول اللهﷺ کے حکم پر ہی عمل تھا،رسول اللهﷺ نے خلفاء راشدین کے راستے پر عمل کی تلقین فرمائی تھی-
لوگوں کو اپنے بزرگوں سے سُنی ہوئی یہ باتیں یاد ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عُمر فاروقؓ اپنے اپنے ادوار میں لوگوں کی اپنے نبیﷺ کی مُحبت میں لکھی جانے والی احادیث کو اکٹھا کر کے آگ لگوا چُکے ہیں۔ اُنھیں جلیلُ القدر صحابہ کی یہ نصیحت یاد ہے کہ نبیﷺ نے قُرآن اور اپنی سُنت کے علاوہ کُچھ نہیں چھوڑا لہٰذا آپ اہل حدیث تو ہو ہی نہیں سکتے۔ صحابہ میں سے کوئی زندہ نہیں ۔ ایک مشکل صورت حال ہے- اتنے میں مسجد میں اذان کی آواز آتی ہے، آپ مسجد پہنچتے ہیں تو کیسے نماز پڑھیں گے، ہاتھ باندھ کر یا ہاتھ چھوڑ کر؟
آپ یقیناً ویسے ہی نماز پڑھیں گےجیسے وہاں کی مسجد میں لوگ پڑھ رہے ہوں گے۔ یعنی سُنت مسلمانوں میں تواتر سے رائج ہے-


مزید وقت گزر گیا، اب 120ہجری یعنی حضرت محمدﷺ کے وصال کے 110سال بعد کے مدینہ میں حالات کا جائزہ لیں۔ مدینہ شہر میں امام مالک موجود ہیں اور مدینے میں ہی امام جعفر صادق بھی ہیں۔ یہ دونوں امام اپنی اپنی فقہ ترتیب دے رہے ہیں تاکہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے نت نئے پیدا ہونے والے مسائل میں رہنمائی ہوسکے ان کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ یہ امت کو فرقوں میں بانٹیں۔ یہ ایک دوسرے کی بے پناہ عزت کرتے ہیں۔ عین اسی وقت عراق کے شہر کوفے میں امام ابو حنیفہ بھی فقہ لکھ رہے ہیں، انٹرنیٹ اور ٹیلیفون کا دور تو ہے نہیں اور نہ ہی اخبارات یا رسالے چھپتے ہی۔ ایک ملک سے دوسرے ملک کے سفر کے لئے مہینوں لگ سکتے ہیں لہذا مختلف امام اپنے اپنے لوگوں کی آسانی کے لئے مخلتف ملکوں میں فقہ لکھ رہے ہیں۔ امام شافعی اب سے کچھ سال بعد غزہ فلسطین میں اپنی فقہ لکھیں گے اور امام احمد بن حنبل بغداد میں یہی کام کریں گے۔

ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کے لیے یہ بات حیران کن ہو کہ باقی سب امام دور دراز ملکوں میں ہیں۔ اور نبیﷺ کے شہر میں پیدا ہونے اور اور مسجدِ نبوی میں اپنی زندگی کی سب نمازیں پڑھنے والے امام دو ہی ہیں یعنی مالک اور جعفر صادق، اور دونوں ہی اپنی اپنی فقہ میں ہاتھ چھوڑ کر نماز پرھنے کا طریقہ بتاتے ہیں۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ حضرت محمدﷺ کی وفات کے سو سال بعد ہی مسجدِ نبوی میں نماز کا طریقہ بدل گیا تھا جو ان دونوں اماموں نے ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کو اسلامی طریقہ بتایا۔ نہ صرف یہ بلکہ طلاق کے لیے بھی یہ الگ الگ مواقع پردی گئی طلاق کو ہی صحیح سمجھتے ہیں ان دونوں کے نزدیک ایک موقع پر بیس دفعہ دی گئی ایک طلاق ہی شُمار ہو گی۔ ایسے ہی مدینہ کے یہ دونوں امام اکثر مُعاملات میں عقلی دلیلں دیتے ہیں کہ عقل کے استعمال کا حُکم قُرآن میں کئی مرتبہ آیا  ہے اور مدینے میں ابھی مُحمدﷺ کے قائم کردہ اثرات باقی تھے۔


ایسے میں اسلام کا ایک عظیم طالب علم کوفے سے علمِ دین سیکھنے مدینہ آتا ہے، جی ہاں یہ نعمان بن ثابت ہے جسے تاریخ ابو حنیفہ کے نام سے جانتی ہے ہیں، آپ امام جعفر صادق کی شاگردی اختیار کرتے ہیں  اور جلد ہی اسن شہرت پورے مکے مدینے میں پھیل جاتی ہے۔ امام مالک جب بھی اسے ملتے ہیں احتراماً اٹھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ امام بھی اپنی فقہ لکھ رہا ہے اور ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے اور رفع یدین نہ کرنے کا طریقہ بیان کرتا ہے جس پر نہ امام مالک اعتراض کرتے ہیں اور نہ امام جعفر صادق بلکہ امام مالک اب بھی جیسے ہی امام ابو حنیفہ کو دیکھتے ہیں احتراماً اٹھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں، ان کے شاگرد پوچھتے ہیں آپ تو کسی کے لئے بھی کھڑے نہیں ہوتے پھر انکے لئے کیوں کھڑے ہوتے ہیں تو امام مالک کہتے ہیں اسلام کے ایسے عالم اور عاشقِ رسول کا احترام مجھ پر واجب ہے،۔ واضح رہے کہ امام مالک نے ایک حج کے علاوہ کبھی مدینے سے باہر کا سفر نہیں کیا کہ کہیں محمد کے شہر سے باہر موت نہ آجائے۔
غزہ سے ایک اور امام یعنی امام شافعی مدینہ آتے ہیں وہ خود ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے کا طریقہ اپنی فقہ میں لکھ چکےہیں اور برملا یہ بھی کہتے ہیں کہ روئے زمین پر امام مالک سے بڑا حدیث اور فقہ کا کوئی عالم موجود نہیں۔
یقیناً آج کا مسلمان حیرت زدہ ہو گا کہ موجودہ دور میں تو رفع یدین، ہاتھ چھوڑ کر یا ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا اور ایسی ہی دیگر باتوں پر بیسیوں فرقے ایک دوسرے کو کافر کہتےہیں اور یہ آئمہ کرام ایک دوسرے کا اتنا احترام کرتےتھے کہ اگر کوئی امام کسی دوسرے امام کے علاقے میں جائے دوسری فقہ کے لوگ انہیں جماعت کروانے کو کہیں تو وہ اپنے طریقے سے نہیں اسی امام کے طریقے سے نماز پڑھاتا ہے جس امام کی وہ مسجد ہے۔
دَخَلَ نَفَر عَلٰی زَیْدٍ بْنِ ثَابِتٍ فَقَالُوْا حَدِّثْنَا بَعْضَ حَدِیْثِ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَقَالَ وَمَا أُحَدِّثُکُمْ؟ کُنْتُ جَارُہ فَکَانَ ِذَا نَزَلَ الْوَحْیُ أَرْسَلَ ِلَیَّ فَکَتَبْتُ الْوَحْیَ وَکَانَ ِذَا ذَکَرْنَا الْآخِرَةَ ذَکَرَھَا مَعَنَا وَذَا ذَکَرْنَا الدُّنْیَا ذَکَرَھَا مَعَنَا وَذَا ذَکَرْنَا الطَّعَامَ ذَکَرَھُ مَعَنَا’ فَکُلُّ ھٰذَا أُحَدِّثُکُمْ عَنْہُ؟ (٢٤)
ایسا معلوم ہتا ہے کہ بعد کےکچھ “علماء” اور ان کے فالوور پہلی اور دوسری صدی ہجری کے اصل جید آئمہ کرام  کے ناموں کو استعمال کرتے ہوے ہم کواسلام کے “صراط مستقیم” سے فرقہ پرست  کے(غیر اسلامی) راستہ کی  طرف لے جا رھے ہیں- “مسلمان”، الله کا دیا ہوا نام ہے جس میں مزید اضافہ کرکہ الله کے حکم کی خلاف درزی کی جا رہی ہے، جس کی قرآن میں سخت واضح الفاظ میں ممانعت ہے:
فرقوں میں بٹ جانا شرک کی طرف ایک قدم ہے، سورہ روم میں اللہ کا فرمان ہے:
جب اسلام آیا تو لوگ قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے آپس میں نفرتیں تھیں لیکن اللہ کی رسی یعنی قرآن نے انہیں بھائی بنا دیا، سُنتِ نبویﷺ نے انکے دِل جوڑ دئیے لیکن مسلمان پھر سے فرقوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے دشمن اور جہنم سے قریب تر ہوگئے۔ اللہ سورہ آل عمران میں فرماتے ہیں:
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا ﴿١١٥﴾ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا ﴿١١٦سورة النساء﴾
مگر جو شخص رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے، درآں حالیکہ اس پر راہ راست واضح ہو چکی ہو، تو اُس کو ہم اُسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بد ترین جائے قرار ہے  اللہ کے ہاں بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے، اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہوسکتا ہے جسے وہ معاف کرنا چاہے جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا وہ تو گمراہی میں بہت دور نکل گیا ( 4:115,116سورة النساء)  


خلاصہ کلام:
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَـٰئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّـهُ ۗ إِنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٧١سورة التوبة﴾
مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار ومعاون اور) دوست ہیں، وه بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نمازوں کو پابندی سے بجا ﻻتے ہیں زکوٰة ادا کرتے ہیں، اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا بیشک اللہ غلبے واﻻ حکمت واﻻ ہے (9:71 سورة التوبة )

 

فرائض کا پتہ ویسے ہی قرآن سے چل رہا ہے اور قرآن تو تب بھی وہی تھا جو آج ہے۔ یعنی اُس دور کے مُسلمان قُرآن اور مُعاشرے میں رائج سُنّت کے سہارے ہم سے کہیں بہتر مُسلمان تھے۔ احادیث (فرامین رسول الله ﷺ) قُرآن کے نزول کے ساتھ ساتھ اُس کی تشریح کو سُنّت کی شکل میں ابتدائی اسلامی مُعاشرے میں رائج کرنے کے لیے تھیں اور ہر سُنّت قُرآن کی تکمیل کے ساتھ ہی اسلامی مُعاشرے میں رائج ہو چُکی تھی۔ قُرآن کی تکمیل کے ساتھ ہی سُنّت کی بھی تکمیل ہو چُکی تھی، دین اسلام مکمل بلکہ نقطۂ کمال پر تھا-  جو سنت متواتر یا تسلسل جس کو لا تعداد مسلمانوں نے سنا ، دیکھا اور عمل کے ، یہ خبر واحد وغیرہ نہیں تھی- تبھی حضرت  ابوبکرؓ اور  حضرت عُمرؓ نے احادیث کے ذخیروں کو آگ لگوائی تاکہ قُرآن و سُنّت ہی آنے والی نسلوں کے لیے اسلام کا ماخذ ہو۔

 

 

چنانچہ آخری حج کے موقع پر حضرت مُحمدﷺ نے دین کی تکمیل کا اعلان کرتے ہی صحابہؓ سے کہا کہ جو یہاں موجود نہیں اُن تک دین پہںچائیں جسے ایک آیت بھی سمجھ آئی ہو وہی باقیوں کو پہنچائے۔ بعض روایات میں ہے کہ اکثر صحابہ اُس حکم کے بعد حج ادھورا چھوڑ دیا اور مکّہ سے قُرآن اور آپﷺ کا عمل جو اُنہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا (یعنی سُنّت) لے کر نکلے اور آدھی سے زیادہ دُنیا میں پھیل گئے۔

 

جن صحابہ نے نبیﷺ کو ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے دیکھا تھا ویسے ہی سکھایا جنہوں نے ہاتھ چھوڑ کر یا رفع یدین کرتے دیکھا تھا اُنہوں نے آگے ویسے ہی سکھایا۔ کوفے کی طرف جو صحابہ گئے وہ آپﷺ کو ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتا دیکھتے رہے تھے لہٰذا عراق کے سب مُسلمانوں کی اگلی نسلیں اُسی سُنت پر عمل کرنے لگیں افریقہ اور کُچھ دیگر علاقوں میں جو صحابہؓ پہنچے اُنہوں نے ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کی سُنت سکھائی لہٰذا آج تک افریقہ کے کڑوروں مُسلمان ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے اور عین سُنت نبوی ﷺ پر عمل کرتے ہیں۔ رفع یدین کرنا بھی سُنّت ہے نہ کرنا بھی عین سُنّت۔ نماز تو ایک مثال ہے۔ ہر مُلک کے مُسلمانوں نے مُختلف مُعاملات اور عبادات میں الگ الگ صحابہ سے الگ الگ سُنّت سیکھی لہٰذا سبھی تھوڑے تھوڑے مُختلف ہونے کے باوجود سُنّت پر ہی عمل کرتے ہیں۔ اللہ نے صحابہؓ کے ذریعے ہر وہ طریقۂ عبادت کسی نہ کسی مُلک میں رائج کروا دیا جو نبیﷺ نے کبھی نہ کبھی اختیار کیا تھا۔ اُس وقت کے مُسلمان جب حج کے لیے مُختلف ملکوں سے اکٹھے ہوتے تو ان اختلافات کو بھی مُحبت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ عراق والے کہتے کہ ہاتھ باندھ کر نماز کا طریقہ زیادہ مؤدّبانہ ہے مدینہ والوں کی دلیل ہوتی کہ حضوری کا احساس ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے سے زیادہ آتا ہے یہ علمی مذاکرے چلتے رہتے لیکن کوئی اس اختلاف کی بُنیاد پر ایک دوسرے کو غلط نہ کہتا۔

 

دوسری صدی ہجری: فقہاء اور مکاتب فکر:

 

 

ہر نماز مسجدِ نبوی میں ادا کی کبھی جوتے نہیں پہنے کہ میں کہیں ایسی جگہ جوتا نہ رکھ دوں جہاں محمدﷺ ننگے پاؤں گزرے ہوں۔ کبھی سواری پر نہ بیٹھے کہ کہیں میں کسی ایسی جگہ سوار ہو کر نہ گزر جاؤں جہاں سے محمدﷺ پیدل گزرے ہوں۔ لیکن وہی امام مالک جو رفع یدین اور ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کا طریقہ بتاتے ہیں ایک ایسے عالم کا احترام کرتے ہیں جو رفع یدین نہ کرنے اور ہاتھ باند کر نماز کا طریقہ بتاتا ہے اور وہ ابو حنیفہ امام جعفر کی شاگردی اختیار کئے ہوئے ہیں جو ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں اور جنہیں اب شیعہ امام سمجھا جاتا ہے۔

 

لہٰذا وقت اور حالات میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ نئے مسائل کے حل فقہاء نے قرآن و سنت کی روشنی میں اجتہاد سے  نکالے- جید ائمہ کرام ، فقہاء نے ایسا کسی فرقہ بازی کے لییے نہیں کیا تھا،فقہی اختلافات کو مفاہمت، برداشت اورسمجھداری کے ساتھ قبول کیا اور ایک دوسرے کے ساتھ عزت و احترام کا تعلق قائم رکھا- بعد میں آئمہ کے نام سے فقهی مکتبہ فکر منسوب اور مشہورہو گۓ- چار مشہور فقہی مکتبہ فکر کے علماء اور مقلدین فقہی اختلافات کی باوجود  ایک دوسرے کا احترام کرتے رہے، ایک دوسرے پر کفر کے فتوے نہیں لگانے-

 

ائمہ اپنے کام کو ایک علمی کام سمجھتے تھے ، کبھی حق قرار نہیں دیتے تھے۔ اس معاملے میں امام شافعی کے اس قول کو حرف آخر کی حیثیت حاصل ہے:”رای صواب یحتمل الخطاورای غیری خطا یحتمل الصواب۔” یعنی میری رائے درست ہے گرچہ غلطی کا امکان رکھتی ہے اور دوسرے شخص کی بات غلط ہے گرچہ اس کے درست ہونے کا احتمال ہے۔

 

حدیث اور سنت میں فرق:

 

کچھ لوگوں میں عام غلط فہمی ہے کہ حدیث اور سنت ایک ہی چیز ہے۔ فی الحقیقت ؛ حدیث اور سنت دونوں ایک دوسرے سے ناصرف لسانی اعتبار سے بلکہ شریعت میں اپنے استعمال کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اسلام ؛ قرآن اور سنت پر عمل کرنے کا نام ہے۔ سنت کی تشکیل میں احادیث اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن سنت صرف احادیث سے نہیں بنی ہوتی ہے؛ سنت میں رسول اللہﷺ کی زندگی کا وہ حصہ بھی شامل ہے جو الفاظ کی شکل میں نہیں مثال کے طور پر تقریر اور یا کسی عبادت کا طریقہ ، تقریر کو محدثین حدیث میں بھی شمار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سنت میں قرآن اور حدیث میں بیان کردہ ہدایات پر عمل کرنے کا نمونہ پایا جاتا ہے؛ یہ طریقہ یا عملی نمونہ محمد رسول اللہﷺ کے زمانے میں موجود اس عہد کی نسل سے اجتماعی طور پر اگلی اور پھر اگلی نسل میں منتقل ہوتا رہتا ہے اور اس کی اس اجتماعی منتقلی کی وجہ سے اس میں نقص یا ضعف آجانے کا امکان حدیث کی نسبت کم ہوتا ہے کیونکہ حدیث ایک راوی سے دوسرے راوی تک انفرادی طور پر منتقل ہوتی ہے اور اس منتقلی کے دوران اس راوی کی حیثیت ، اعتبار اور اس کی یاداشت کا دخل ہوتا ہے۔

 

نکاح کرنا سنّت ہے، حدیث نہیں؛ قربانی کرنا سنّت ہے، حدیث نہیں؛ مسواک کرنا سنّت ہے، حدیث کوئی نہیں کہتا. کسی حدیث کو سنت سے پرکھا جا سکتا ہے-

 

اس کو واضح کرنے کے لیے اونٹ کے دودھ اور پیشاب سے ایک مخصوص بیمار کے علاج والی حدیث ہے – یہحدیث  انس بن مالک رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے اور ان سے مختلف تابعین نے روایت کیا ہے ،اور حدیث کی مختلف کتابوں میں موجود ہے ، جن میں سے صحیح البخاری میں چھ مختلف مقامات پر روایات ہے( (صحیح بخاری کتاب الطب باب الدواء بأبوال الإ بل رقم الحدیث 5686)، اورصحیح مُسلم ، صحیح ابن حبان ، سنن النسائی ، سنن ابن ماجہ ، سنن البیھقی ، سنن الترمذی ، مسند احمد ، اور دیگر بہت سی کتابوں میں بھی ہے-

 

قبیلہ عکل اور قبیلہ عُرینہ کے کچھ لوگ مدینہ المنورہ میں آئے ، کچھ عرصہ بعد وہ لوگ بیمار ہو گئے کیونکہ انہیں مدینہ المنورہ کی آب و ہوا اور وہاں کی خوراک موافق نہ ہوئی ،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ان سے اِرشاد فرمایا : “میرے پاس وہ کچھ نہیں جو تُم مانگ رہے ہو ، تُم لوگ مدینہ سے باہر چلے جاؤ ،جہاں صدقے کے اُونٹ ہیں ، اور وہاں اُونٹنیوں کا دودھ اور پیشاب پیو”- اُن لوگوں نے تعمیل کی ،اور چلے گئے ،وہاں وہ لوگ اُونٹنیوں کا دودھ اور پیشاب پیتے رہے یہاں تک شفاء یاب ، صحت مند اور موٹے ہو گئے-

 

لوگوں کے اس واقعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ان کی بیماری کا جو علاج بتایا اس کو کسی کے لیے لازم قرار نہیں دیا اور نہ ہی اس پر عمل نہ کرنے والے کے لیے کوئی وعید سنائی ، اور نہ ہی کسی اور کو یہ علاج بتایا ، اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ معاملہ ان  مریضوں  کی اپنی مرضی پر چھوڑ دیا گیا تھا کہ وہ بوقتء ضرورت اس علاج کو استعمال کرے یا نہ کرے ، اس طریقہ ء عِلاج کی خبر ملی ہے لیکن یہ بات واضح ہے کبھی کسی نے اس علاج کو بطور سُنّت اپنانے کا ذکر نہیں کیا، صحابہ کرام  کے ہاں سے اس طریقہء علاج کے ذریعے علاج کرنے کی خبر میسر نہیں ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس طریقہء علاج کو سنّت نہیں کھا جاسکتا-آج کل احادیث کے متوالے مختلف سائنسی دلائل سے اونٹ کے پیشاب سے علاج کے فوائد بیان کرتے ہیں-

 

 

 

مگردارالعلوم  دیوبند اس حدیث کو منسوخ قرار دیتا ہے:”اونٹ اور گائے بھینس وغیرہ کا پیشاب حرام وناپاک ہے، اس کا پینا اور استعمال کرنا جائز نہیں، جمہور علما کا یہی مسلک ہے اور صحیح بخاری کی جو حدیث پیش کی ہے وہ منسوخ ہے یا آپ علیہ الصلاة والسلام نے قبیلہ عرینہ والوں کو بطور علاج اونٹ کا دودھ اور پیشاب پینے کی اجازت دی تھیں، کذا فی معارف السنن” (۱: ۲۷۳، ۲۷۴ مطبوعہ مکتبہ اشرفیہ دیوبند) واللہ تعالیٰ اعلم

 

 

کتابت احادیث:

 

وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں میں ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں رسول الله ﷺ سے منسوب اقوال حدیث کے نام سے پھیل گیے- جن میں اصل کے ساتھ من گھڑت احادیث بھی بڑی تعداد میں تھیں- اس سلسلے میں مختلف علماء امام بخاری، مسلم، نسائی، ابی داوود، ابن ماجہ (٢٢٥ -٣٠٣ ھ) نے شہرت پائی- ان علماء محدثین نے بہت محنت کی اور اصل کو نقل سے جدا کرنے کے کام کا بیڑا اٹھایا اور علم الحدیث کو ایک سائینسی علم کے درجہ تک لے گیے- مذھب کی تاریخ عالم میں ایسی لا جواب انسانی تحقیق اور علم کی کوئی مثال نہیں ملتی- مگر یاد رہے کہ یہ خالص انسانی کوشش تھی، وحی کا سلسلہ نبی اخرالزمان محمد ﷺ کے ساتھ اختتام پزیر ہو چکا- وحی کو اللہ کی حفاظت حاصل تھی- انسانی محنت اور کام وحی کا درجہ حاصل نہیں کر سکتا-

 

شرعی اصطلاح میں حدیث سے وہ اقوال واعمال مراد ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب ہوں، گویا حدیث کا لفظ قرآن کے مقابلہ میں بولاجاتاہے،اس لیے کہ قرآن قدیم ہے اور حدیث اس کے مقابلہ میں جدید ہے، اصطلاح میں حدیث سے مراد وہ اقوال واعمال اور تقریر(تصویب) مراد ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب ہوں-
حجت دین کے بارے میں قرآن اورحدیث میں فرق یہ ہے کہ قرآن کی نقل بہ طریقۂ تواتر ہے، جوہرطرح کے شک وشبہ سے بالاتر ہے اور علم قطعی کی موجب ہے اور حدیث اس حیثیت سے کہ ارشاد رسولﷺ ہے، البتہ رسولﷺ سے ہم تک پہونچنے میں جودرمیانی وسائط ہیں، ان کی وجہ سے احادیث کا ثبوت اس درجہ قطعی نہیں ہے، جس درجہ کی قطعیت قرآن کو حاصل ہے۔ قرآن کی ہر آیت صحیح کلام الله ہے، احادیث میں بہت درجات ہیں-
حادیث  کے مجموعے مختلف اصحاب و علماء و محدثین کے ناموں سے مشہورہویے- صحاح ستہ؛ یعنی کہ چھ مستند کتابیں (١)صحیح بخاری (٢) صحیح مسلم(٣) سنن نسائی(٤) سنن ابی داؤد (٥) سنن ابن ماجہ(٦) سنن ابن ماجہ
صحاح ستہ (٢٢٥ -٣٠٣ ھ) کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان چھ کتابوں میں جتنی روایات ہیں، سب صحیح ہیں اور نہ یہ نظریہ درست ہے کہ صرف ان ہی کتبِ ستہ کی روایات صحیح ہیں۔ باقی کتب حدیث کی روایات درجہٴ صحت تک نہیں پہنچتی ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ نہ صحاح ستہ کی ہر حدیث صحیح ہے اور نہ اُن سے باہر کی ہر حدیث ضعیف ہے حقیقت یہ ہے کہ ان کتابوں کی روایات زیادہ تر صحیح تسلیم کی جاتی ہیں، اس لیے انہیں صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔
ان کتابوں میں حدیث کی جتنی قسمیں ہیں صحیح، حسن اور ضعیف، سب موجود ہیں اور ان کو صحاح کہنا تغلیب کے طور پر ہے۔“ محدثین کی ان کتابوں میں ایک طرف دینی معلومات جمع کی گئیں اور دوسری طرف ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے کے صحیح تاریخی واقعات جمع کیے گئے ہیں۔ اس طرح احادیث کی یہ کتابیں دینی و تاریخی دونوں اعتبار سے قابل بھروسہ ہو سکتی ہیں-
احادیث کی کتابت کی خلفاء راشدین نے اجازت نہ دی اور بہت عرصہ گزر گیا- وقت نے ثابت کیا کہ ان کی بصارت اور فہم  دورس تھی جیسا کہ رسول الله ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے :
” لقد کان فیمن كان قبلکم من بني اسرائيل رجال ، یکلمون من غیر ان یکونوا انبیاء ، فان یکن من امتی منهم احد فعمر۔”
” تم سے پہلے بنی اسرائیل میں ایسے لوگ گزر چکے ہیں جن سے ( پردہ غیب سے ) کلام ہوا کرتا تھا ، اگرچہ وہ نبی نہیں تھے اگر میری امت ایسا کوئی ہوا تو وہ عمر  ہوں گے۔” ( صحیح بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ ، باب مناقب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ)
رسول اللہ ﷺ نے خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم دیا ہے ، اور حضرت عمر رضی الللہ عنہ بلا شبہ خلیفہ راشد تھے۔  فرمان رسالت مآب ﷺ ہے :
”فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بعدی فَسَيَرَى اخْتِلافًا كَثِيرًا ، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ، فَتَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ ۔”  (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)
” تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔  پس میری سنت اور خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو ۔ اس سے تمسک کرو اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو۔ خبردار ( دین میں )  نئی باتوں سے بچنا کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے۔”  (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی فضیلت، بصیرت  اور ان کے متعلق رسول اللہﷺ  کے ارشادات کی وجہ سے ان کےحدیث کی کتابت نہ کرنے کے فیصلے کی اہمیت کو نظر انداز کرنا مشکل ہے-
آپ (صلى الله عليہ وسلم) کا ارشاد ہے: “عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ لَايَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْقَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ”۔ (ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الْجَمَاعَةِ، كِتَاب الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حدیث نمبر:۲۰۹۳) ترجمہ:حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ:اللہ تعالٰیٰ میری امت کو یا (راوی نے کہا) کہ محمد صلى الله عليه وسلم کی اُمت کو ضلالت وگمراہی پر مجتمع نہیں کریگا۔

درج بالا دونوں احادیث کو ملا کر تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ امت کا اجماع کسی اجتہادی نیے معامله کی بات سے تعلق ہو نہ کہ وہ معاملات جو طے شدہ ہیں- جیسے حضرت عمررضی الله نے سوچ سمجھ کر تدوین احادیث نہ کرنے کا فیصلہ کیا، ان کو رسول الله کی تایید حاصل ہے پہلی حدیث کی رو سے- لہٰذا کوئی اجماع اس کے دائرۂ کے اندر ہونا چاہیے نہ کہ باہر- اس طرح اگر کوئی اجماع کرے کہ نماز کی تعداد میں تبدیلی کرلیں تو یہ اسلام کے بنیادی اصولوں سے ہٹ کر ناقابل قبول ہو گا- (واللہ اعلم)

 
اب اگر فرض کریں کہ حضرت عمر اور خلفاء راشدین کی حدیث کی کتابت نہ کرنے کی ہدایت پرمکمل طور پر عمل ہوتا تو:
1. کیا اسلام نامکمل رہتا جبکہ سنت متواتر موجود تھی؟
2. اللہ نے کتابت حدیث کے بغیر ہی اسلام کی تکمیل کا اعلان فرما دیا  (سورة المائدة 5:3)
3.اسلام کی موجودہ صورت کیا وہی ہوتی جوآخری حج کے موقع پر تھی؟
4. اگر مختلف تو کیا صورت ہوتی؟
5. اگر کوئی عالم نیک نیتی سے (تفرقہ بازی کے لیے نہیں) تاریخی حقائق کی روشنی میں احادیث کی کتابت پر حضرت عمر اور خلفاء راشدین کے عمل کو قابل عمل سمجھتا ہے، جس کا رسول اللہﷺ  نے بھی حکم دیا تو اس کو غلط کہنا کیا رسول الله کے حکم کے خلاف نہ ہوگا؟
یہ صرف علمی سوالات ہیں جوعلماء اور مسلمانوں کےغور و خوص کے لیےہی، مگر  ان پر تو رائے تو صرف اہل علم ہی  دے سکتے ہیں-

وقت کے ساتھ ساتھ کچھ علماء نے قرآن کی بجایے احادیث کو زیادہ اہمیت دینی شروع کر دی- مختلف تاویلیں فرقہ بازی کا سبب بنیں- جن علماء نے قرآن اور حدیث کو اپنے اپنے تناظر میں رکھا انہوں نے اس علمی خزانہ سے مثبت نتائج حاصل کیے باقی گمراہی کے راستہ پر چل پڑے-  اب ضرورت ہے کہ رسول الله ﷺ کے فرامین کی روشنی میں خلفاء راشدین کی فراست اور ارشادات کا از سر نو جائزہ لیا جائے- قرآن کو اولین ہدایت کا چشمہ مانتے ہوےتمام علمی خزانہ سے مستفیذ ہوں-

وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿سورة الفرقان25:30﴾

اور(روز قیامت) رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بےشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ﴿سورة الفرقان25:30﴾

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتاب ‘ حجة اللہ البالغة’ میں ‘ المبحث السابع: مبحث استنباط الشرائع من حدیث النبی’ کے تحت مختصر لیکن بہت عمدہ بحث کی ہے ۔
شاہ ولی اللہ صاحب کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اقوال جو تبلیغِ رسالت کے باب سے نہیں ہیں(یعنی دنیاوی امور سے متعلق ہیں) ، بعض حضرات کے مناقب سے متعلق اقوال،طب سے متعلق بعض اقوال ،آپ کے دور میں کسی جزئی مصلحت کے حصول کے لیے آپ کے جاری کردہ احکامات،آپ کے عادی امور، آپ کے فیصلے(یعنی قضاء) اور آپ کے بعض احکامات کا آپ کی قوم کے بعض لوگوں کے لیے خاص ہوناوغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔
شاہ صاحب نے اس موقف کی دلیل کے طور پرکہ آپ کاہر قول ہمارے لیے شریعت نہیں ہے، ایک حدیث کو بیان کیا ہے۔حضرت خارجہ بن زید بن ثابت سے روایت ہے:
”اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال صرف اُس وقت مصدرِ شریعت ہوں گے جب ان سے آپ کامقصود احکامِ شرعیہ کو بیان کرنا ہو۔لیکن اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دنیاوی امور کے بارے میں کچھ گفتگو ایسی فرمائی جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہ ہو تو آپ کا ایسا کلام احکامِ شرعیہ کے لیے کوئی دلیل نہیں بنے گا اور نہ ہی وہ مصدر شریعت ہو گاکہ جس سے احکام نکالے جائیں، اور نہ ہی آپ کے ایسے اقوال کی پیروی لازمی ہے ۔اس کی ایک مثال یہ روایت ہے کہ آپ نے مدینہ کے بعض لوگوں کو دیکھا کہ وہ نر کھجور کے ساتھ مادہ کھجور کی پیوند کاری کرتے تھے ۔آپ نے لوگوں کو ایسا کرنے سے اشارتاً منع کر دیا جس کہ وجہ سے اگلی فصل کم ہوئی تو آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ :”پیوند کاری کرو ،کیونکہ دنیاوی امور کو تم زیادہ بہتر جانتے ہو”۔
‘سنن البیہقی’ کی ایک روایت میں ‘أَوَکُلَّ ھٰذَا نُحَدِّثُکُمْ عَنْہُ’؟ کے الفاظ بھی ہیں ۔ بعض علماء  کا خیال یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قول پر عمل ضروری ہے ۔ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ قرآن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا اور آپ کی اطاعت اُمت پر لازم ہے،لہٰذا جہاں بھی آپ کا کوئی قول آ جائے، چاہے وہ دنیا سے متعلق ہو یا دین سے ، تو اس پر عمل کرنا لازم ہو گا،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال آپ کی اطاعت میں داخل ہیں۔(واللہ اعلم)
١٤٠٠سال سے اسلام کی بنیادیں مضبوط ہیں ان میں کوئی نئی تبدیلی کی گنجائش نہیں مگر غیر ضروری ملاوٹ سے اس کو بچا کر رکھنا اور اس دور میں قرآن کے ابدی پیغام توحید کے جھنڈے تلے تمام مسلمانوں اور بنی نوع انسانی کو اکٹھا کرنا اس دور کے علماء اور مسلمانوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے-
سنت متواتر:
رسولﷺ کی سنت متواتر(پریکٹس، عمل)  علم الحدیث یا حدیث کی کتب کی تدوین سے بہت قبل، رسول الله ﷺ کی زندگی اور وصال کے بعد بھی موجود تھی  جومسلسل ، تواتر سے لاتعداد مسلمانوں کے زریعے ںسل در نسل منتقل ہوتی گی بغیر تبدیلی کے- مختلف علماء کی تحقیق میں ان کی تعداد 103 سے تقریناً 300 تک بیان کی ہے- آپ ﷺ نے فرمایا:
“تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَاتَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُوْلہِ”۔(مشکوٰۃ شریف:۲۹)
” :میں تمہارے درمیان دوچیزوں کو چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں کومضبوطی سے تھامے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ ہے۔ “
اس عام غلط فہمی کو دور کرنا لازم ہے کہ جس کے تحت حدیث کو سنت کو ایک ہی چیز سمجھا جاتا ہے۔ فی الحقیقت ؛ حدیث اور سنت دونوں ایک دوسرے سے ناصرف لسانی اعتبار سے بلکہ شریعت میں اپنے استعمال کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اسلام ؛ قرآن اور سنت پر عمل کرنے کا نام ہے۔ سنت کی تشکیل میں احادیث اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن سنت صرف احادیث سے نہیں بنی ہوتی ہے؛ سنت میں رسولﷺ کی زندگی کا وہ حصہ بھی شامل ہے جو الفاظ کی شکل میں نہیں مثال کے طور پر تقریر اور یا کسی عبادت کا طریقہ ، تقریر کو محدثین حدیث میں بھی شمار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سنت میں قرآن اور حدیث میں بیان کردہ ہدایات پر عمل کرنے کا نمونہ پایا جاتا ہے؛ یہ طریقہ یا عملی نمونہ محمدﷺ کے زمانے میں موجود اس عہد کی نسل سے اجتماعی طور پر اگلی اور پھر اگلی نسل میں منتقل ہوتا رہتا ہے اور اس کی اس اجتماعی منتقلی کی وجہ سے اس میں نقص یا ضعف آجانے کا امکان حدیث کی نسبت کم ہوتا ہے کیونکہ حدیث ایک راوی سے دوسرے راوی تک انفرادی طور پر منتقل ہوتی ہے اور اس منتقلی کے دوران اس راوی کی حیثیت ، اعتبار اور اس کی یاداشت کا دخل ہوتا ہے۔ حدیث کی اصلیت جانچنے کا پیمانہ  نبی ﷺ نے بتلا دیا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ : ” سَيَأْتِيكُمْ عَنِّي أَحَادِيثُ مُخْتَلِفَةٌ , فَمَا جَاءَكُمْ مُوَافِقًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَهُوَ مِنِّي , وَمَا جَاءَكُمْ مُخَالِفًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي “
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ، نبی صلے الله علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ میری طرف سے کچھ اختلافی احادیث آئینگی، ان میں سے جو “کتاب الله” اور “میری سنّت” کے موافق ہونگی، وہ میری طرف سے ہونگی. اور جو “کتاب الله” اور “میری-سنّت” کے خلاف ہونگی وہ میری طرف سے نہیں ہوںگی.
[(١) سنن الدارقطني: كِتَابٌ فِي الأَقْضِيَةِ وَالأَحْكَامِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، كتاب عمر رضي الله عنه إلى أبي موسى الأشعري، رقم الحديث: ٣٩٢٦(٤٤٢٧) ؛
(٢) الكفاية في علم الرواية للخطيب:التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ، رقم الحديث: ٣١١(٥٠٠٤)؛
(٣) ذم الكلام وأهله لعبد الله الأنصاري:الْبَابُ التَّاسِعُ، بَابٌ : ذِكْرُ إِعْلَامِ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ ...رقم الحديث: ٥٨٩(٦٠٦)؛
(٤) الأباطيل والمناكير والمشاهير للجورقاني: كِتَابُ الْفِتَنِ، بَابُ : الرُّجُوعِ إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ رقم الحديث:٢٧٧(٢٩٠
٥) الكامل في ضعفاء الرجال  » من ابتداء أساميهم صاد  » من اسمه صالح؛ رقم الحديث: 4284
٦) التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ  » التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ؛ رقم الحديث: ٣١١]

اللَّـهُ الَّذِي أَنزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ ۗ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ ﴿١٧﴾ ہ اللہ ہی ہے جس نے حق کے ساتھ یہ کتاب اور میزان نازل کی ہے اور تمہیں کیا خبر، شاید کہ فیصلے کی گھڑی قریب ہی آ لگی ہو (42:17) تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا ﴿١﴾
نہایت متبرک ہے وہ جس نے یہ فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ سارے جہان والوں کے لیے نذیر ہو (25:1)یہی وجہ ہے کہ یہاں اس آیت میں اس کا نام فرقان رکھا ۔ اس لئے کہ یہ حق وباطل میں ہدایت وگمراہی میں فرق کرنے والا ہے اس سے بھلائی برائی میں حلال حرام میں تمیز ہوتی ہے

لہٰذا جب صاحب عقل علماء  کے سامنے جب کوئی حدیث پیش کی جاتی ہے تو وہ یہ دیکھتے کہ کہیں وہ حدیث قرآن سے تو نہیں ٹکراتی، اگر ایسا ہو تو وہ فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ نبیﷺ ایسا نہیں کہہ سکتے، یہ قرآن کے خلاف ہے۔ راوی سے سننے کی غلطی ہوئی ہو گی۔ اگر حدیث قرآن کے خلاف نہ ہو تو اسے سر آنکھوں پر رکھ لیتے ہیں۔
اگرچہ احادیث کی کتابت میں خلفاء راشدین کی مرضی شامل نہیں تھی مگر یہ کام ہوا- اس تاریخی اورمذہبی علمی خزانہ سے علماء استفادہ کرتے ہیں اور اس کو قرآن کے بعد دوسرے ماخذ کا درجہ حاصل ہے- سنت متواتر بھی حدیث میں شامل ہیں- اب اس کی افادیت سے انکار نہیں- تاریخی حقائق کا علم انسان کی عقل کے پردے ہٹا دیتا ہے- جو علم مسلمانوں کے دل میں اپنی جگہ بنا چکا ہے وہ اہم ہے- حضرت عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کو رسول اللهﷺ نے فرمایا کہ ؛… اگرتیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوتی اوران کے دل اس بات کوتسلیم سے انکارنہ کرتے تو میں اسے ( حطیم ) کوبیت اللہ میں شامل کردیتا اوردروازہ زمین کے برابرکردیتا”-  آپ ﷺ نے حطیم کو تاریخی طور پر کعبه کا حصہ ہونے کے باوجود عوامی جذبات کا خیال رکھا-


فہم قرآن:

قرآن پاک کے سمجھنے کا مسئلہ بہت اہم ہے- اصحابہ اکرام اہل لسان ہونے کی وجہ سے قرآن کو بقدر ضرورت سمجھ لیتے تھے لیکن اب ان علوم کے بغیرگہرائی سے سمجھنا مشکل ہو سکتا ہے-  دوسری بات یہ ہے کی خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سامنے ایک کھلی کتاب تھے- اولاً تو وہ اہل زبان ہونے کی وجہ سے قرآن کے ظاہر کو وہ سمجھ لیتے تھے اور ثانیاً سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی وہ بہت کچھ سمجھ لیتے وہ ایک عملی تعلیم تھی۔ ثالثاً اس کے باوجود جو بات سمجھ نہ آتی و ہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیتے۔ اس لیے صحابہ کرام اسلامی فقه اور دوسرے علوم کے محتاج نہ تھے۔ اس کے باوجود اعلام الموقعین میں علامہ ابن قیم لکھتے ہیں وہ صحابہ کرام  جو قرآن کے ظاہرو باطن دونوں پر دسترس رکھتے تھے اور قانونِ شریعت کے ماہر تھے یعنی مجتہدین و فقہا ء بن کر اجتہاد و فقاہت کے منصب پر فائز ہوئے وہ ایک لاکھ چودہ ہزار صحابہ میں سے صرف ایک سو تیس تھے یہ بھی باقی صحابہ کرام ا ور تابعین کے لیے شرح کی ضرورت کو پورا کرتے۔ اسی طرح تابعین میں بھی قانونِ شریعت کی ماہر شخصیات پیدا ہوئیں ان میں سے مدینہ کے سات تابعین فقہا ء سبہ کے نام سے معروف ہیں : (١)سعید بن المسیب (٢) عروۃ بن الزبیر (٣)  قاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیق (٤)خارجہ بن زید بن ثابت (٥) عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود (٦ )سلیمان بن یسار (٧)سالم بن عبداللہ بن عمر اپنے وقت میں یہ بھی قانون شریعت کی شر ح کر کے اس ضرورت کو پورا کرتے جب اس اجتہاد و فقاہت والی اعلی استعداد میں کمی بلکہ نابود ہونے کے حالات پیدا ہونے والے تھے تو اللہ تعالی کی تکوینی حکمت کے امام اعظم ابو حنیفہ  جو اصاغر تابعین میں سے ہیں اللہ تعالی نے ان کے اور ان کے تلامذہ کے ذریعے قانون شریعت مدون کرایا پھر اس تدوین کے عمل میں مزید ترقی ہوئی، اب مسلمانوں کوان علوم کی دو وجہ سے ضرورت ہے: (١) ان مدونہ کتب کو سمجھنے کے لیے بھی اور پھر(٢) ان مدونہ شروح قرآن و حدیث کی روشنی میں قرآن و حدیث (سنت متواتر بھی اسی میں تحریر ہے) سمجھنے کے لیے- قدیم عربی زبان جو قرآن و حدیث اور ان مدونہ کتب کی زبان ہے اس کو سمجھنے کے لیے تو آج کے جدید عرب بھی محتاج ہیں وہ بھی ان علوم کو پہلے پڑھتے ہیں پھر سمجھتے ہیں تو غیر زبان کے عجمی لوگ کیسے مستغنی ہوسکتے ہیں-
تفرقہ بازی:
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ
’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘( آل عمران، 3 : 103)
إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّـهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ( ١٥٩ سورة الأنعام)
ترجمہ : “جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں، ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے-
هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَـٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ  ( سورة الحج22:78)
اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام “مسلم” رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ –
رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ ﴿١٢٦ سورة الأعراف﴾
اے رب، ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اِس حال میں کہ ہم مسلمان  ہوں” (7:126)
اگر کوئی اپنے آپ کو قرآن و سنت پر قایم سمجھتا ہے تو وہ صرف “مسلمان” کا نام کیوں ختیار نہیں کرتا، الله کو معلوم ہے کہ کون اس کے صحیح راستہ پر ہے- پھر یہ اضافی لیبل کیوں؟
یہ لیبل مسلمان بھائیوں کو شیعہ، سُنی، دیوبندی، بریلوی، وہابی وغیرہ بنا کر لڑوانےکے علاوہ کچھ فائدہ مند نہیں، اسی لیے الله نے صرف ‘مسلمان” نام رکھا۔ جس پر ائمہ کرم عمل کرتے تھے- آپکو اس قسم کے تفرقہ باز مُلا سے نفرت اور ان آئمہ سے محبت محسوس ہو گی اور آپ مختلف طریقوں سے نماز روزہ اور دیگر عبادات کرنے والے لوگوں کو اختلاف کے باوجود محبت کی نظر سے دیکھ کر اپنے جیسا مسلمان سمجھیں۔
فرقه واریت اور شرک :
مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿٣١﴾ مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا ۖكُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ﴿٣٢
’’اسی کی طرف رجوع کرتے رہو اور اس کا تقویٰ اختیار کرو اور نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے مت ہوجاؤ، اُن( مشرکوں) میں سے جنہوں نے اپنے دین کو فرقوں میں بانٹ دیا اور گروہ در گروہ ہوگئے۔ ہر گروہ اسی پر مگن ہے جو اس کے پاس ہے‘‘۔(الروم 30:31,32)
کیا اس کھلے حکم کے بعد بھی کوئی ذی ہوش مسلمان اپنے آپ کو  دیوبندی، بریلوی، سلفی، وہابی، اہل حدیث، شیعہ، حنفی شافعی یا مالکی وغیرہ وغیرہ  کہلوانا پسند کریے گا؟
تمام مسلمان چاہتے ہین کہ قیامت کے دِن حضرت ﷺ ہماری شفاعت کریں لیکن کیا معلوم ہے کہ اللہ سورہ انعام کی آیت 159میں الله اپنے نبی کو کیا حکم دے رہے ہیں:
إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّـهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ( سورة الأنعام 159)
ترجمہ : “جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمہارا (ﷺ) کچھ واسطہ نہیں، ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے-
کیا یہ آیت پڑھ کر بھی کوئی ذی عقل مسلمان اپنے آپ کو  دیوبندی، بریلوی، سلفی، وہابی ، اہل حدیث،اہل قرآن، شیعہ، حنفی شافعی یا مالکی وغیرہ وغیرہ  کہلوانا پسند کریے گا یاصرف  مسلمان  کہلوانا چاہے گا ؟
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ
’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘( آل عمران، 3 : 103)
کیا اب بھی کوئیمسلمان ، دیوبندی، بریلوی، سلفی، وہابی ، اہل حدیث،اہل قرآن، شیعہ، حنفی شافعی یا مالکی وغیرہ وغیرہ  کہلوانا پسند کریے گا یاصرف  مسلمان  کہلوانا چاہے گا ؟
اگر تمام مذاہب و مسالک اسلام کی اصل اور بنیاد کی طرف لوٹ جائیں تو باہمی رقابت اور دوریاں قربت و محبت میں ڈھل سکتی ہیں۔ اس لیے کہ اسلام کے قرون اول اور اکابرین کے افکار میں انتہا درجہ کی وسعت و اعتدال موجود ہے جس پر ہماری ہزار سالہ مذہبی رواداری کی بے شمار شہادتیں ہمیں جھنجھوڑنے پر مجبور کرتی ہیں۔
شاہ ولی اﷲ ؒ نے اہل سنت سے مراد اہل قبلہ قرار دیے ہیں اور امام ابوحنیفہؒ نے اہل قبلہ کی تکفیر کو حرام اور ناجائز ٹھہرایا ہے۔ اگر نیرنگیاں اور تنوعات عالم موجود کا حسن ہیں تو اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر کثرت میں وحدت پیدا کرنا بھی وہ حکمت ہے جو مومن کی گم شدہ میراث ہے۔
تفرقہ بازی کی لعنت سے بچنے کے لیے کچھ قبل عمل گزارشات پیش ہیں:
  1. مسلمانوں کو چاہیےکہ تمام جید ائمہ کرام کو اپنا، اسلام کا امام، عالم سمجھیں۔ تمام نیک نام غیرمتنازعہ شیوخ، علماء کی عزت کریں-
  2. جس امام کو بہترسمجھیں اس کے فقہ  پرعمل کرتے رہیں لیکن دوسرے ائمہ کرام اور ان کے مقلدین یا غیر مقلدین (جو دراصل کسی علماء کے گروپ کے مقلد ہی ہوتے ہیں) کی تضحیک نہ کریں برابری میں عزت کریں-
  3. کچھ مسلمانوں کا خیال ہے کہ آج کے جدید دور میں قرآن، سنت، احادیث اور تمام اسلامی علوم باآسانی عام مسلمان کی دسترس میں ہیں، لہٰذا کسی امام، عالم، شیخ یا مخصوص فقه پر عمل کی ضرورت نہیں، خود ہی تحققیق کر کہ صحیح اسلام پر عمل کیا جاسکتا ہے- اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے اور کر سکتا ہے تو یہ اس کا اپنا چوائس ، اپنا فیصلہ ہے جس کی ذمہ داری اس پر ہے- مگر ان کے لیے مناسب نہیں کہ دوسرے مسلمان جو اتنا علم نہیں رکھتے اور تحقیق نہیں کر سکتے ان کوان کے چوائس کے امام یا آئمہ کی (قرآن و سنت کی حدود میں) تقلید کرنے پر تنقید کا نشانہ  بنائیں- یہی بات مقلدین کے لیے بھی ہے کہ وہ غیر مقلدین کی تنقید نہ کریں-
  4. احادیث کی کتابت اور تدوین اگرچہ خلفاء راشدین نے نہیں کی بلکہ اس سے منع فرمایا مگر یہ کام ا٢٢٥ -٣٠٣ ھ کے دوران بہت محنت سے سائنٹفک طریقه سے مکمل ہوا، جس کی مثال عالمی تاریخ مذھب میں نہیں ملتی- علم کے اس خزانہ سے علماء، مورخین علم کے موتی حاصل کرتے ہیں- اس اسلامی اور تاریخی خزانہ کو اب نظرانداز یا یکسرمسترد نہیں کیا جا سکتا- لیکن احادیث کا استعمال قرآن و سنت متواترکی روشنی میں ہی فائدہ مند ہے- قرآن کو کسی صورت میں پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا-

 

 

وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿سورة الفرقان25:30﴾

 

اور(روز قیامت) رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بےشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ﴿سورة الفرقان25:30﴾
  1. جو مسلمان ایمان کی چھ بنیادی ارکان اور اسلام کے پانچ ستون پر ایمان رکھتے ہیں اوراگر عمل میں کوتاہی بھی کرتے ہیں تو بھی وہ مسلمان ہیں- فروعی اختلافات کو نظر انداز کیا جانا چاھیے- ایک دوسرے پر تکفیر مت کریں-
  2. مسلمان ایک دوسرے کومہذب اور پر امن طریقه سے “امر بالمعروف اور نہی عن المنکر” کی دعوت وتبلیغ کریں مگراس کی آڑمیں زبردستی اپنا نقطہ نظر دوسروں پر ٹھونسنے سے احتراز کریں- یاد رکھیں الله منصف اعلی ہے جو اختلافی معاملات کا فیصلہ  قیامت کے دن کرے گا-  شدت پسندی اور دہشت گردی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں-
  3. تمام مسلمان اپنے آپ کو صرف اور صرف “مسلمان” کے نام سے پکاریں، کسی اور نام کی جازت نہ  دیں،جو نام الله نے دیا اس میں کوئی کمی نہیں مکمل ہے، کسی اکسٹرالیبل (extra label) کی ضرورت نہیں- اگر کوئی کسی سے فقہ یا مکتبہ فکر کی بات کرے تو مناسب طریقه سے بتلایا جا سکتا ہے- اکثر صاحب فہم لوگ ایسے سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ : “میرا مذھب ، فقہ رسول اللهﷺ اور صحابہ اکرام کا ہے، وہ اسلام پر تھے میں بھی اسی پر عمل کر رہا ہوں-”  یہ کہنا درست ہے کیونکہ تمام ائمہ کرام اور جید علماء و شیوخ  اپنے علم کی بنیاد پر یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان کا نقطہ نظر،مکتبہ فکر، فقه ہی درست اسلامی نقطہ نظر ہے جس کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے- اس لیے ہر ایک مکتبہ فکر یا فقہ کے لوگوں کےلیئے اپنے آپ کو مسلمان کہلانا قابل عزت اور قابل فخر بات ہے- اس کے علاوہ ہر نام قرآن و سنت کے خلاف ہے- ہم سب مسلمان ہیں, صرف مسلمان کہلائیں- لیبل کی ضرورت فرقہ واریت کے لیے ہے ، کون غلط ہے اور کون صحیح اس کا علم صرف اللہ کو ہے اور اللہ ہی روز قیامت اس کا فیصلہ فرمائیں گے-
  4. مسلمان اللہ کے حکم پر عمل پیرا ہو کرفرقہ واریت کی لعنت سے چھٹکارہ حاصل کریں  اورحضرت مُحمدﷺ کے خالص پیروکارکی حثیت سے دین اسلام میں مکمل طور پر داخل جائیں، اسی میں بھلائی ہے یہی صراط مستقیم ہے-
………………………

مزید پڑھیں :

  1. پہلے مسلمان ..First Muslim: مسلمانوں میں فرقہ واریت کی لعنت کو اگرفوری طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا ، توابتدا میں قرآن کے صرف ایک حکم کے مطابق  صرف ایک درست عمل کی شروعات سے شدت اور منفی رجحانات کو کم کرکہ فرقہ واریت کے خاتمہ کے سفر کا آغاز کے آجاسکتا ہے، اس پر عمل درآمد بلکل آسان ہے …[ پڑھیں …….]
  2. علم حدیث , فرقہ واریت اورقران – تحقیقی مضامین
  3. فرقہ واریت کا خاتمہ : پہلا قدم
  4. مسلمان کون؟
  5. عمر ضائع کردی
  6. اختلاف فقه اور اتحاد مسلم
  7. فرقہ واریت کیوں ؟ Why Sectarianism
  8. بریلوی , دیو بندی‎‎ کون ہیں؟
  9. بدعت ، بدا، 1
  10. بدعت – اَحاديث و اَقوالِ اَئمہ -2
  11.    فرقہ وارانہ مذہبی بیانیوں پر مختصر تبصرہ
  12. فرقہ واریت – تاویلیں، دلائل اور تجزیہ
  13. علم حدیث , فرقہ واریت اورقران – تحقیقی مضامین
  14. تقلید کی شرعی حیثیت
  15. مقلدین اورغیر مقلدین
  16. اَہْلُ السُّنَّۃ وَالْجَمَاعَۃ‘‘ کون؟
  17. تاریخی واقعات دین اسلام کی بنیاد ؟
  18. شیعہ عقائد اور اسلام
  19. شیعیت-عقائد-و-نظریات
  20. تکفیری، خوارج فتنہ 
  21. انسداد فرقہ واریت
  22. امام خامنہ ای – خونی ماتم ممنوع
  23. http://salaamone.com/urdu-index/

 

 

 

Search in the Quran
 

Search:



Download | Free Code

 

www.SearchTruth.com