Rafa Yadain رفع یدین

’ رفع یدین‘‘ دو لفظوں کا مجموعہ ہے، ’’رفع‘‘ کا مطلب ہے اٹھانا اور ’’یدین‘‘ کا مطلب ہے دونوں ہاتھ، چنانچہ ’’رفع یدین ‘‘ کا مطلب ہوا  ’’دونوں ہاتھوں کو اٹھانا‘‘، رفع یدین سے مراد نماز کی حالت میں تکبیر کہتے وقت دونوں ہاتھوں کو کانوں کی لو تک اٹھانا ہے، وتر اور عیدین کی نماز کے علاوہ عام نمازوں میں  صرف تکبیر تحریمہ کہتے وقت ہی رفعِ یدین کرنا مسنون ہے-

رفع یدین کامسئلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ سے مختلف فیہ ہے،حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بعض صحابہ کرام رفع یدین کرتے تھے اوربعض نہیں کرتے تھے۔اسی وجہ سے مجتہدین امت میں بھی اس مسئلہ میں اختلاف ہواہے،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ترک رفع یدین والی روایات کوراجح قراردیاہے،کئی اکابرصحابہ کرام کامعمول ترک رفع کاتھا،اوریہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاآخری عمل ہے۔ احناف کے نزدیک  ترک رفع یدین ہی  سنت ہے-

مسئلہ رفع یدین وجوب وعدمِ وجوب سے متعلق نہیں ہے؛ بلکہ صرف سنیت وافضیلت سے متعلق ہے، جن علماء کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف ہے، تو ان میں دونوں طرف کے لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ رفع یدین واجب یا لازم نہیں ہے، ان کے درمیان اختلاف صرف اس بارے میں ہے کہ رفع یدین سنت اور افضل ہے یانہیں؟ لہٰذا یہ بات پہلے سے ذہن نشیں ہوجانی چاہیے کہ رفع یدین نہ کرنا ان کے نزدیک بھی گناہ نہیں ہے، جو رفع یدین کے قائل ہیں، اسی طرح رفع یدین کرنا ان کے نزدیک بھی گناہ نہیں ہے جو عدمِ رفع یدین کے قائل ہیں، مسئلہ صرف حصولِ ثواب وفضیلت سے متعلق ہے۔(ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ)

احناف اور مالکی اکثریت کا یہ موقف ہے کہ صِرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہی رفع الیدین کرنا نماز کی سنت میں سے ہے، جبکہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ تمام تکبیروں میں رفع الیدین کو غیر شرعی عمل قرار دیتے ہیں۔ حنفی علما اس موقف کے لیے ابو حنیفہ سے مروی روایت کو دلیل بناتے ہیں جبکہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر تکبیروں کے ساتھ رفع الیدین سے متعلق مجموعہ احادیث کو حنفی منسوخ سمجھتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رفع الیدین آخری عمر میں ترک کر دیا تھا، شروع میں آپ رفع الیدین کرتے رہے ہیں۔ زیدیہ بھی رفع یدین کے قائل نہیں، صرف تکبیر تحریمہ کے ساتھ کرتے ہیں۔ 

دیگر اسلامی فقہا کے برخلاف ، مالکی فقہ  اہل مدینہ کے  اجماع ( اتفاق رائے) کو بھی اسلامی قانون کا ایک مستند ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس لئے جب وہ ’ رفع یدین‘‘ کی آخری دور میں مسنوخی کی بات کرتے ہیں تو اس میں زیادہ وزن ہے-

رفع یدین  شافعی، حنبلی، ظاہری اور اہل حدیث/سلفی مکاتب فکر  ور صرف کچھ مالکی میں رائج ہے۔ اور جعفریہ مکتب فکر میں بھی کچھ تبدیلی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

دنیا بھی میں اکثریت ملسمان (حنفی اور مالکی) رفع یدین کی مسوخی کے قائل ہیں اور نہیں کرتے-

رفع یدین کی بحث صدیوں سے جاری ہے اس قسم کے مباحث کی نشاندہی  احادیث میں کر دی گئی تھی اور ان سے بچاؤ کا طریقہ بھی  بتلا دیا تھا :
عبداللہ بن یسار کہتے ہیں ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ انہوں نے فرمایا یا جس کے پاس قرآن کے علاوہ کوئی تحریر ہو اسے میں قسم دیتا ہوں ہو کہ وہ گھر لوٹ کر جائے آئے تو اسے مٹا ڈالے لے لے کیونکہ پچھلی قومیں میں اس وقت ہلاک ہوئی جب وہ اپنے رب کی کتاب کو چھوڑ کر اپنے “علماء کی قیل و قال” میں پھنس گئیں [ تقید علم ،حدیث کی تاریخ نخبۃالفکر، ابن حجر عسقلانی]

ابوہریرہ نے کہا: اللہ  کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے ، اور ہم احادیث لکھ رہے تھے ، اور آپ (ص ) نے کہا:
یہ کیا ہے؟
ہم نے کہا: ہم نے جو  آپ کی احادیث سنی ہیں۔ انہوں نے فرمایا:

کیا آپ کتاب اللہ  کے علاوہ کوئی اور کتاب لکھنا چاہتے ہیں؟
تم سے پہلی امتیں گمراہ ہو گیی تھیں کیونکہ  انہوں نے کتاب اللہ کے ساتھ دوسری کتابیں لکھیں
ابوہریرہ نے کہا، اور میں نے کہا: یا رسول اللہ ، کیا ہم آپ کے بارے میں بات کر سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا: “ہاں ، میرے بارے میں بات کرو ،  کوئی حرج نہیں مگر جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولتا ہے ، اسے اپنی جگہ جہنم میں پاتے ۔” ۔ فَاللَّهُ أَعْلَمُ [“تقييد العلم للخطيب البغدادي” ص 33؛ تقید علم -٢]

 وَقَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ كِتَابَ اللَّهِ ‏ 

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “میں نےتمہارے پاس اللہ کی کتاب چھوڑی ہے، اور اگر تم اس پر قائم رہو گے تو تم کبھی گمراہ نہ ہو گے,  اور تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو بتاؤ، تم کیا کہو گے؟ لوگوں نے کہا: ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے اللہ کا حکم پہنچا دیا اور ذمہ داری ادا کر دی! ” [رواہ ‏‏‏‏ جعفر بن محمد (‏‏‏‏ جعفر صادق ) صحیح مسلم 2950, ابن ماجہ 3074,  , ابو داوو: 1905] تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الحج 19 (1218)، سنن النسائی/الحج 46 (2713)، 51 (2741)، 52 (2744)، 73 (2800)، سنن ابن ماجہ/المناسک 84 (3074)، (تحفة الأشراف: 2593)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/320، 331، 333، 340، 373، 388، 394، 397)، سنن الدارمی/المناسک 11(1846) (صحیح)» ‏‏‏‏

’’جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا،‘‘(الترمذی 2906)

صَلَاة‎ کا قرآن میں ذکر ہے مگر ادا کرنے کا طریقہ نہیں،  الله تعالی نے قرآن کے ساتھ  رسول اللہ ﷺ کو بھی بھیجا تو ان کی سنت میں نماز ادا کرنے کا طریقہ موجود ہے جو کہ تواتر سے نسل در نسل منتقل ہوتا چلا آ رہا  ہے-  حدیث کی مشہور کتب تو تیسری صدی حجرہ میں لکھی گیئں تو کے کیا صدیوں سے مسلمان صَلَاة‎  ادا نہیں کر تے تھے ؟  کرتے تھے آج بھی کسی پیدایشی ملسمان نے صَلَاة‎  کسی حدیث کی کتاب سے نہیں سیکھی بلکہ اپنے والدین اور مسجد کے امام ، خطیب ، قاری اور دوسرے مسلمانوں کو دیکھ کر سیکھی – ایک مسلمان بچہ اپنے والدین کو بچپن سے گھر مسجد میں صَلَاة‎  ادا کرتے دیکھتا ہے اور ان کی بچپن سے نقل کر تا ہے اسی طرح روزہ رکھنے کی ضد کر تا ہے – جو کوئی نیا مسلمان ہوتا ہے وہ بھی مسجد میں جماعت کے ساتھ صَلَاة‎  سیکھ لیتا ہے- 

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں میں کچھ لوگ جو کہ تعداد میں کم ہیں ان کا  صَلَاة‎  کی ادا کرنے میں تھوڑا معمولی فرق ہے – جیسے رفع یدین ، سورہ فاتحہ امام کے پیچھے بھی دوہرانہ ،آمین . بلند آواز سے کہنا – یہ مسلمان دوسرے مسلمانوں پر تنقید کر تے ہیں کہ تمہاری صَلَاة‎  درست نہیں ، قبول نہ ہو گی ، تم جہنم میں جا و گے ،  تمہاری صَلَاة‎   رسول اللہ ﷺ کی صَلَاة‎  کی طرح نہیں- اپنے ان دعووں کے ثبوت میں وہ احادیث کی مشہور کتب (بخاری ، مسلم وغیرہ )  سے ریفرنس بھی پیش کرتے ہیں- ان کو شاید علم نہیں کہ یہ “کتب احادیث” دوسری ، تیسری صدی میں  رسول اللہ ﷺ کے حکم کے خلاف لکھی گیئں- اورلکھنے والے کوئی نبی یا  رسول نہیں تھے نہ ان پر وحی نازل ہوتی تھی- انہوں نے ارادی یا غیر ارادی طور پر اپنی جانبداری اور پسند کے نظریات کے  مطابق احادیث کا انتخاب کیا ظاہر ہے ان کے مخالف فقہ کے دلائل کو سپورٹ کرنے والی احادیث کی ان کی کتب میں کوئی جگہ نہ مل سکی- کیونکہ وہ یہ کتب   رسول اللہ ﷺ کے حکم کے خلاف لکھ رہے تھے تو ایسی احادیث جس سے ان کے موقف کا رد ہوتا ہے وہ بھی انہوں نے اپنی کتب میں شامل نہ کیں-

علمی خیانت ، آیات قرآن اور علم حق کو چھپانا گناہ ہے :رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (مَن سُءِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَہٗ ثُمَّ کَتَمَہُ اُلْجِمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِلِجَامٍ مِّنْ نَّارٍ) ترجمہ : ”جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی گئی، جسے وہ جانتا ہے، پھر اس نے اسے چھپایا تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔“[ ترمذی، العلم، باب ما جاء فی کتمان العلم : 2649۔ أحمد : 2؍263، ح : 7588۔ أبو داوٗد : 3658، عن أبی ہریرۃ ؓ و صححہ الألبانی]

ان کتب میں شامل اکثر احادیث رسول اللہ ﷺ یا خلفاء راشدین کی طرف سے مستند نہیں، ان کو  رسول اللہ ﷺ کے میعار کے مطابق چیک کرنا ضروری ہے- جس طرح قرآن کی تدوین ہوئی وہ انسانی تاریخ میں  ایک مثال ہے-   

صحیح  احادیث اور درجات 

واضح رہے کہ صحیح  احادیث (اس  اصطلاح سے عام مسلمان کو غلط فہمی ہوتی ہے کہ صحیح حدیث ہر لحظ سے درست ہے جبکہ صحیح حدیث کا مطلب  ہے کہ راویوں کی لڑی کا سلسہ صحیح ہے- جبکہ  رسول اللہ ﷺ نے حدیث کی درستگی اور پہچان کا میعار جو میعارمقرر فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حدیث کا متن  قرآن و سنت اور عقل کے مطابق ہونا ضروری ہے لہذا موجودہ   اصطلاح بدعة ہے)  صرف وہی نہیں ہیں جو امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں  ذکر کی ہیں، بلکہ امام بخاری نے  اپنی شرائط اور فقہی ذوق کے مطابق صحیح احادیث میں سے انتخاب کرکے اپنی کتاب میں ان کو ذکر کیا ہے- مام بخاری کے ذاتی عقائد و نظریات، رجحان فقہ شافعی کی طرف تھا، اس لیے فقہ حنفی کے مطابق احادیث اگر شامل نہ ہو سکیں تو یہ تعجب کی بات نہیں-  صحیح بخاری میں سات ہزاراور کچھ احادیث ہیں، امام بخاری  رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی کتاب “صحیح بخاری” میں بہت سی  صحیح  احادیث کو طوالت کی وجہ سے ذکر نہیں کیا ہے،   نیز خود امام بخاری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ جو صحیح احادیث میں نے ذکر نہیں کیں وہ ان سے زیادہ ہیں جن کو میں نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے،  لہذا صحیح حدیث کا مدار یہ نہیں ہے کہ وہ صحیح  بخاری میں موجود ہو، ہاں امام بخاری رحمہ اللہ نے  اپنی سخت شرائط کے ساتھ صحیح احادیث میں سے منتخب کرکے  ان میں سے چند کا انتخاب کیا ہے۔

صحیح احادیث پر مشتمل دیگر کتابیں اور مجموعے بھی موجود ہیں، امام مسلم رحمہ اللہ کی کتاب بھی صحیح ہے، لیکن امام مسلم رحمہ اللہ سے بھی منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا: ہر وہ حدیث جو صحیح ہو وہ میں نے اپنی کتاب میں ذکر نہیں کی ہے۔ موطا امام مالک رحمہ اللہ میں بھی صحیح احادیث ہیں، صحیح ابن حبان وغیرہ بھی صحیح ہیں۔ اسی طرح کتب ستہ اور احادیث کی دیگر کتابوں میں بھی صحیح احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ  یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے ہے کہ موجودہ نظام میں احادیث کی صرف دو ہی قسمیں صحیح اورضعیف نہیں ؛بلکہ اس کی متعدد اقسام ،مثلاً: صحیح  لذاتہ،صحیح لغیرہ ؛حسن لذاتہ،حسن لغیرہ ، ضعیف، موضوع وغیرہ وغیرہ ، پھر ضعیف کی بھی بہت سی قسمیں ہیں، اور عمل اور استدلال کے اعتبار سے بھی ان میں فرقِ مراتب  ہوتا  ہے، مثلاً حدیث صحیح کی پانچ شرطیں ہیں: (۱)سند کا اتصال(۲) راویوں کی عدالت(۳:) ضبط (۴)شذوذ (۵)علتِ قادحہ سے محفوظ ہونا۔

حدیثِ حسن بھی انہیں صفات کی حامل ہوتی ہے، البتہ اس کے کسی راوی میں ضبط کے اعتبار سے معمولی کمی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس کی حدیث نہ تو صحیح کہی جاسکتی ہے اور نہ ہی ضعیف میں شمار ہوتی ہے بلکہ وہ حدیث “حسن” شمار ہوتی ہے۔ اور حسن کی ایک قسم وہ ضعیف ہے جو تعدد طرق کی وجہ سے قوت پاکر حسن بن جاتی ہے اس کو “حسن لغیرہ” کہتے ہیں اور جو حدیث اس سے بھی کم درجہ کی  ہو وہ ضعیف کہلاتی ہے، جس کے مراتب مختلف ہوتے ہیں، سب سے کم  موضوع ہے جو  من گھڑت  ہوتی ہیں۔

صحیح اور حسن کے تو قابلِ استدلال ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ چنانچہ جمیع ابوابِ دین میں ان سے استدلال کیا جاتا ہے، البتہ ضعیف کے سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے، جمہور کی رائے یہ ہے کہ احکام یعنی حلال وحرام کے باب میں تو ضعیف کو حجت نہیں بنایا جاسکتا ہے، (بشرطے کہ اسے تلقی بالقبول حاصل نہ ہو، اور اس کے متابع اور شواہد موجود نہ ہوں) البتہ فضائلِ اعمال میں،ترغیب وترہیب، قصص، مغازی وغیرہ میں  چند شرائط کے ساتھ اس کو دلیل بنایا جاسکتا ہے۔

بقیہ قسمیں بخاری اورمسلم میں جگہ نہیں پاسکیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حدیثیں منکرہیں، جیسا کہ اس کی تفصیل شروع میں ذکر ہوئی، بلکہ  محدثین کو جو روایات پہنچیں؛ان کو انہوں نے جانچا ،ان کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان جتنے لوگ اس روایت کو نقل کرنے میں واسطہ بنتے؛ ان کے احوالِ زندگی،ان کے قوتِ حفظ ،مہارت ،ضبط اور عدالت وغیرہ کو جانچنے کے بعد اس حدیث پر صحیح ،حسن ،صحیح لغیرہ یا حسن لغیرہ اورضعیف وغیرہ کا حکم لگادیا۔ اگر روایت سب سے اعلی درجہ کی ہوتی ہے؛ تو اس کو صحیح کہہ دیتے، اگر کہیں کوئی کمی کوتاہی نظر آتی تو اس کو حسن وغیرہ کہہ دیتے،بعض مرتبہ تمام شرائط پائی جاتیں؛مگر اس کو محض اپنے خاص ذوق(علۃ خفیہ) کی وجہ سے چھوڑ دیتے۔ ہاں! اگر اس روایت کے بارے میں معلوم ہوجاتاکہ وہ جھوٹی ہے تو اس کو منکراور موضوع قرار دیتے اوراسے اپنی کتابوں میں نقل ہی نہ کرتے ۔ موضوعا ت کی کتابیں الگ سے لکھی گئی ہیں؛تاکہ کسی موضوع روایت کے بارے میں تحقیق کرنی ہوتو اس کتاب میں اس کی تفصیل مل جائے گی۔

اسی طرح صحت کی شرائط کے لحاظ میں بھی محدثین کے اذواق مختلف ہوئے ہیں، بعض ائمہ اس حوالے سے متشدد ہیں، چناں چہ جمہور کے ہاں بعض روایات صحت کے درجے کو پہنچتی ہیں لیکن وہ انہیں بھی صحت کا درجہ نہیں دیتے۔ 

“کتب” حدیث کی شرعی حثیت؟

“کتب” حدیث اور “حدیث ” دو الگ چیزیں ہیں، “کتب حدیث” رسول اللہ ﷺ نے ممنوع قرار دی اور حدیث کے بیان کی اجازت دی- کچھ صحابہ اکرام کو کمزور حافظہ کی وجہ سے لکھنے کی  خاص طور پرانفرادی  اجازت دی اور کچھ کو اجازت نہ دی- لیکن اس اجازت کے باوجود کتاب صرف ایک ، کتاب اللہ قرآن ، اور حدیث کے حفظ و بیان کی اجازت عطا فرمائی-

ایک مثال؛ انگور حلال ہے، اس سے کشمش بنتی ہے وہ حلال ہے اور اس سے شراب بنتی ہے جو حرام ہے- اگر کوئی انگور کے باغ سے کچھ انگور چوری کرکہ شراب بناتا ہے اور پکڑا جاتا ہے تو کیا انگور کے باغ کو ختم کر دیں؟ یا یہ کہ انگور چوری کرکہ شراب بنانا بند کریں- حلال انگور سے جو فوائد ہیں وہ حاصل کرنا ہی عقلمندی ہے- بھیڑ الله تعالی کا نام کے کر شرعی طریقہ سے ذبح کریں تو حلال ہے اور جھٹکے سے یا گلا گھونٹ کر ما ر دیں تو حرام-

اللہ کے احکام اوررسول اللہ ﷺ کی سنت، شریعت کی بنیاد ہیں جس کو کوئی شخص اپنی “عقل کے دلائل یا نظریہ ضرورت” کی بنیاد پر تبدیل نہیں کر سکتا- 

احادیث میں اقوال اورسنت رسول اللہ ﷺ بھی ہیں ان سے فائدہ حاصل کرتے رہنا ہے مگرممنوع طریقہ کی بجایے حلال طریقہ سے،   رسول اللہ ﷺ نے حدیث کی درستگی اور پہچان  کا جو طریقہ فرمایا اس کے مطابق- اوراق پر حدیث کی کتب ممنوع ہیں،اب ڈیجیٹل دور ہے، علماء اس پر غور فرمائیں اور اجتہاد سے کوئی حل ڈھونڈیں-

قرآن کی تدوین کا اہم کام خلفاء راشدین نے خاص اہتمام سے کیا اور کاتب وحی زید بن ثابت کی ذمہ داری میں حفاظ اور صحابہ اکرام نے مل کر ہر آیت پر دوعینی شہادت پر قبول کیا حالانکہ وہ لوگ خود بھی حافظ تھے –

1.واضح رہے کہ احادیث کی ہرایک کتاب ایک فرد واحد کا کارنامہ ہے، وہ بھی سو، ڈھائی سو سال بعد  جو کہ نہ صحابی تھا ، نہ ہی اس کو  رسول اللہﷺ یا خلفاء راشدین کی طرف سے یہ ذمہ داری دی گی تھی – بلکہ  رسول اللہ ﷺ اور خلفا راشدین کی طرف سے اس کا م سے منع فرمایا گیا تھا-

2.رسول اللہ ﷺ کے مقرر کردہ حدیث کی درستگی اور پہچان کے  میعار کو مسترد کرکہ اپنی طرف سے اسناد کی بنیاد پر صحیح، حسن . ضعیف اورمختلف اقسام کے درجات بنایے گۓ یہ بھی بدعة ہے –

3.حدیث یا درست ہو گی یا نہیں ، کیونکہ اس کی بنیاد پرقرآن کی تفسیر ، اہم شرعی اور فقہی مسائل کا حل نکلنا ہے جس میں غلطی کی گنجائش نہیں- مشتبہ مواد تاریخ کا حصہ تو ہو سکتا ہے لیکن مقدس کلام  رسول اللہ ﷺ کیسے کہ سکتے ہیں جس پر جھوٹ کا شبہ ہو؟ کیا محدثین کو یہ حدیث یاد نہیں:

حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی وَابْنُ بَشَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَخْطُبُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَکْذِبُوا عَلَيَّ فَإِنَّهُ مَنْ يَکْذِبْ عَلَيَّ يَلِجْ النَّارَ (صحیح مسلم, :حدیث نمبر: 2)

ترجمہ:

ابوبکر بن ابی شیبہ، غندر، شعبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، منصور، ربعی بن حراش کہتے ہیں کہ اس نے سنا حضرت علی نے دوران خطبہ بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھ پر جھوٹ مت باندھو جو شخص میری طرف جھوٹ منسوب کرے گا وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ (صحیح مسلم, :حدیث نمبر: 2) یہ اہم ترین حدیث ، متواتر ہے ، جسے 62 را ویوں نے رپورٹ کیا ہے-

4.اس لیے “کتب حدیث” کی شرعی حثیت کیسے قبول کی جا سکتی ہے؟  جس کام کی بنیاد رسول اللہ ﷺ کی  وصیت  (ابی داوود 4607, ترمزی 266 ) اورسنت  خلفاء راشدین (رضی الله) کی نافرمانی پر ہو وہ بظاھر کتنا بھی فائدہ مند معلوم ہو وہ کیسے  شرعی طور پر درست ہو سکتا ہے؟

5.لیکن اس بدعة یا نافرمانی کے باوجود حدیث کی اپنی اہمیت و مرتبہ کم نہیں ہوتا- اس لیے ضروری ہے کہ ہر ایک حدیث کو  رسول اللہ ﷺ کے مقرر کردہ حدیث کی درستگی اور پہچان کے میعار پر پرکھا جایے اور پھر قبول یا مسترد کیا جایے-

دنیا بھی میں اور پاکستان میں اکثریت فقہ حنفیہ پر عمل کرتی ہے، جن پر تنقید کی جاتی ہے-یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ام ابو حنیفہ (رح) جو کہ 80 حجرہ کو کوفہ میں پیدا ہوے اور اہل سنت کو چار فقہ میں سب سے اول ہیں باقی امام شافعی، امام مالک (٩٣ھ)، احمد بن حنبل (رح )  بہت بعد کی پیدائش ہیں جیسا کہ ذیل کی ٹائم لائن سے ظاہر ہے –

  • 1ابوحنیفہ نعمان بن ثابت (80-150ھ/699-767ء)
  • 2.مالک بن انس (93-179ھ/712-795ء) موطأ امام مالک  دوسری صدی حجرہ 
  • 3.محمد بن ادریس شافعی (150-204ھ/767-820ء)
  • 4.احمد بن حنبل (164-241ھ/780-855ء)
  • محدثین 
  • 1.محمد بن اسماعیل بخاری (194-256ھ/810-870ء)
  • 2.مسلم بن حجاج (204-261ھ/820-875ء)
  • 3.ابو عیسی ترمذی (209-279ھ/824-892ء)
  • 4..سنن ابی داؤد (امام ابو داؤد متوفی   275ھ/9-888ء
  • 5۔ سنن نسائی (امام نسائی) متوفی 303ھ/16-915ء
  • 6۔ سنن ابنِ ماجہ (امام ابنِ ماجہ) متوفی 273ھ/87-886ء

امام ابو حنیفہ (رح ) ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔  نے اپنی ٹیم، شاگردوں  کے ساتھ مشاورت سے  قرآن و سنت کی بنیاد پر فقہ مرتب کیا، یہ کیس ایک شخص کا انفرادی کا م  نہیں اسی لیے تیرہ صدی کے بعد بھی یہ مقبول ترین فقہ ہے-  امام ابو حنیفہ (رح ) کے ناقدین ان پر احدیث سے لا علمی کا الزام دیتے ہیں جس کا جواب دوسرے فقہ کے علماء نے بہت مدلل طریقہ سے دیا ہے – کیا یہ بات عقل سلیم کو قبول ہو سکتی ہے کہ اتنا اہم فقہ مرتب ہو اور علم حدیث کے بغیر؟ معامله یہ ہے کے احادیث کی کتابت سے قرآن ،  رسول اللہ ﷺ ، خلفا راشدین (رضی الله) نے منع فرمایا ، کہ صرف ایک کتاب الله ، قرآن ہو گی اور کوئی کتاب نہیں ہو گی کیونکہ پہلی امتیں (یہود و نصاری ) نے دوسری کتب لکھیں (مسیحیت میں چار انجیل اور 23 دوسری کتب ، یہود نے توریت کے مقابل تلمود  لکھی  جو اب 38 جلد میں ہیں اور کتاب الله کو پس پشت دال دیا )-  

 امام ابو حنیفہ (رح ) نے سنت  رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین پر عمل کرتے ہوے کوئی کتاب نہیں لکھی نہ فقہ نہ حدیث کی، وہ پہلی صدی حجرہ میں پیدا ہوے جب حضرت عمر رضی اللہ اور خلفاء راشدہ کے فیصلوں کا احترم زیادہ تھا- فقہ ان کے نام سے موسوم ہے ان  کی رہنمائی میں ان کے شاگردوں نے مدون کیا- احادیث ان کیا پاس صرف ایک واسطہ سے پہنچیں اس وقت حفظ و بیان کا رواج تھا- 

صحابہٴ کرام کے درمیان فقیہ کی حیثیت رکھنے والے حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی الله) کا علمی ورثہ حضرت امام ابوحنیفہ کے مشہور استاذ شیخ حماد اور مشہور تابعی شیخ ابراہیم نخعی وشیخ علقمہ کے ذریعہ امام ابوحنیفہ تک پہونچا۔ شیخ حماد صحابیِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت انس بن مالک کے بھی سب سے قریب اور معتمد شاگرد ہیں۔ شیخ حماد  کی صحبت میں امام ابوحنیفہ تقریباً ۱۸ سال رہے اور شیخ حماد  کے انتقال کے بعد کوفہ میں ان کی مسند پر امام ابوحنیفہ کو ہی بٹھایا گیا۔ غرضے کہ امام ابوحنیفہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی الله)  کے علمی ورثہ کے وارث بنے۔ اسی وجہ سے امام ابوحنیفہ  حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایات اور ان کے فیصلہ کو ترجیح دیتے ہیں، مثلاً کتبِ احادیث میں وارد حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایات کی بناء پر ا امام ابو حنیفہ (رح )   نے نماز میں رکوع سے قبل وبعد رفعِ یدین نہ کرنے کو سنت قرار دیا۔

اصل اہلسنت و الجماعت (أهل السنة والجماعة)  امام ابو حنیفہ (رح )

رسول اللہ ﷺ نےخلفاء راشدین کو اختلافات میں فیصلہ کا اختیار عطا فرمایا ان کی سنت کو دانتوں سے پکڑنے، بدعہ و گمراہی سے بچنے کا حکم دیا-(ابوداود 4607، ترمزی 266) 

خلفاء راشدین مہدین کی سنت میں صرف ایک کتاب الله ،قرآن مدون ہوئی اور کتابت حدیث ممنوع قرار ہوئی – جس پر ایک صدی سختی سے عمل ہوا   امام ابو حنیفہ (رح ) نے بھی اس حکم کی  اطاعت کی-  

“اس رسول ﷺ کی جو اطاعت کرے اسی نے اللہ تعالٰی کی فرمانبرداری کی اور جو منہ پھیر لے تو ہم نے آپ کو کچھ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا ۔” (قرآن 4:80)

 امام ابو حنیفہ (رح ) انکار حدیث ، انکارحکم  رسول اللہ ﷺ یا انکار سنت خلفاء راشدین کے گناہ کبیرہ میں شامل نہیں اس لیے ان کو اصل اہلسنت و الجماعت (أهل السنة والجماعة) کہا  جا سکتا ہے – 

 امام ابو حنیفہ (رح ) کے پاس دین کا علم قران ، عملی / سنت ، روایات حدیث  سے  پہنچا یعنی  رسول اللہ ﷺ سے صحابی نے علم حاصل کیا اور صحابی کے شاگردوں  سے  امام ابو حنیفہ (رح ) نے دین کا علم حاصل کیا – اور دوسرے حضرات ما سوا مالک بن انس جو کہ ان کے ہم عصر تھے باقی نے ایک صدی بعد کتب اورشاگردوں کے شاگردوں کے شاگردوں سے تعلیم حاصل کی- ایک ظاہر سی بات ہے کہ قرآن کے علاوہ دوسری کتب سے حاصل کردہ علم ، عمل / سنت کے علم سے کم درجہ رکھتا ہے اور جب زیادہ وقت گزر جایے تو صرف کتب پر ہی انحصار ہوتا ہے- آج اگر کوئی شخص صرف کتب کی بنیاد پر اسلامی فقہ مرتب کرے گا تو وہ نقائض سے خالی نہ ہوگا- کتاب میں ہر چیز نہیں لکھی جا سکتی اور عملی بات کو لکھتے ہوے کچھ سے کچھ بن جاتا ہے –

اس لیے دنیا بھر میں مسلمان اکثریت کو  امام ابو حنیفہ (رح )  پر مکمل بھروسہ ہے کہ وہ قرآن و سنت اور احادیث کے مطابق جو بھی فقہی فیصلہ مرتب کریں گے وہ  درست ہو گا –

حدیث کی کتابت نہ کرنا سنت رسول اللہ ﷺ اور چاروں خلفاء راشدین کا اجماع سنت بن چکا ہے جس عمل کرنا شرعی طور پر لازم ہے – اگر ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت جو کہ ان کا حکم ہے اور خلفا راشدین کی سنت کو دانتوں سے پکڑا ہوتا ۔۔۔ ایک سنت کتاب قرآن ہے جو خلفا راشدین کی سنت ہے کہ انہوں نے یہ کم کیا  اور دوسری سنت حدیث کی کتابت کرنے سے منع فرمایا ۔۔۔ جس کو دوسری تیسری صدی میں چھوڑ کر بدعت اختیار کی ۔۔ اور  اب صدیوں سے مسلمان “ قیل و قال” کی لایعنی بحث میں الجھ کر وقت برباد کرتے ہیں ۔۔۔ ھر لا علم حدیث کے ریفرنس نکال کر دوسروں پر فتوے لگاتا پھرتا ہے ، جب الله ، رسول اللہ صلعم اور خلفاء راشدین کی سنت کی خلاف چلیں گے تو فتنہ ، فساد اور بدعت ، گمراہی کے علاوہ کچھ نہ حاصل ہو گا – کاش ہماری ترجیحات درست ہو جائیں ۔

  1. | اس موضوع پر مزید: اسلام: احیاء دین کامل|
  2. خلفاء راشدین نے  کتابت  حدیث کیوں نہ کی؟
  3. سنت خلفاء راشدین کی شرعی حثیت اور کتابت حدیث 

کتاب: غزوات کا بیان، باب: باب: غزوہ احزاب سے نبی کریم ﷺ کا واپس لوٹنا اور بنو قریظہ پر چڑھائی کرنا اور ان کا محاصرہ کرنا۔
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 4119
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ،‏‏‏‏ عَنْ نَافِعٍ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ:‏‏‏‏ لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ،‏‏‏‏ فَأَدْرَكَ بَعْضُهُمُ الْعَصْرَ فِي الطَّرِيقِ،‏‏‏‏ فَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ لَا نُصَلِّي حَتَّى نَأْتِيَهَا،‏‏‏‏ وَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ بَلْ نُصَلِّي لَمْ يُرِدْ مِنَّا ذَلِكَ،‏‏‏‏ فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْهُمْ.
ترجمہ:
ہم سے محمد بن عبداللہ بن محمد بن اسماء نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے جویریہ بن اسماء نے بیان کیا ‘ ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ غزوہ احزاب کے دن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تمام مسلمان عصر کی نماز بنو قریظہ تک پہنچنے کے بعد ہی ادا کریں۔ بعض حضرات کی عصر کی نماز کا وقت راستے ہی میں ہوگیا۔ ان میں سے کچھ صحابہ ؓ نے تو کہا کہ ہم راستے میں نماز نہیں پڑھیں گے۔ (کیونکہ نبی کریم ﷺ نے بنو قریظہ میں نماز عصر پڑھنے کے لیے فرمایا ہے) اور بعض صحابہ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کے ارشاد کا منشا یہ نہیں تھا۔ (بلکہ جلدی جانا مقصد تھا) بعد میں آپ ﷺ کے سامنے اس کا تذکرہ ہوا تو آپ نے کسی پر خفگی نہیں فرمائی۔ [صحیح بخاری، حدیث نمبر: 4119]

کیا ہمارے علما نے کیا یہ حدیث نہی پڑھی ؟کیا ان کو اس سے مطلب اخز کرنا مشکل ہے؟  یا فتنہ وفساد اور فرقہ واریت مقصد ہے؟

کچھ محدثین نے علمی خیانت کی یا غلطی (واللہ اعلم )جس فقہ سے ان کا تعلق تھا مخالف فقہ کی احادیث کو اپنی کتب میں شامل نہ کیا ۔۔
جو دوسروں نے کیا ۔۔۔

احقر کے نزدیک یہ بحث لاحاصل ہے ۔ یہ فروعی مسلہ ہے فرض نہیں ، مستحب ہو یا جو بھی ۔۔۔ اگر یہ اتنا اہم ہوتا تو جہاں قرآن مں تیمم کا طریقہ ہے نماز کا بھی ہو سکتا تھا ۔۔۔ مگر یہ اللہ کی حکمت اور ہمارا امتحان ہے کہ جس کے پاس جو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہنجے وہ اس پر عمل کرے ۔۔ دونوں درست ہوں گے ۔۔ جیسے خندق کے بعد یہود کے علاقہ پر عصر تک یا عصر سے پہلے پہنچنے میں دو رائے ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو مسترد نہ کیا، اس لئیے ہم کو اس طرح کے مباحث کو avoid کرنا بہتر ہے

شافعی، اہل حدیث اور دوسرے مسلمان بخاری اور مسلم کی رفع یدین والی احادیث کے حوالہ سے صلواه / نماز میں “رفع یدین” کی بار کرنا  ہی درست سمجھتے ہیں- اور اس کے ساتھ ساتھ احناف جو کہ صرف ایک بار کر تے ہیں ان پر تضحیک آمیز انداز میں تنقید کرتے اور فتوے لگا تے ہیں-

رفع یدین کے مسئلے حنفیہ کی مستدل احادیث و آثار

وَعَنْ مَالِکِ بْنِ الْحُوَےْرِثِ ص قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا کَبَّرَ رَفَعَ ےَدَےْہِ حَتّٰی ےُحَاذِیَ بِھِمَا اُذُنَےْہِ وَاِذَا رَفَعَ رَاْسَہُ مِنَ الرُّکُوْعِ فَقَالَ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِکَ وَفِیْ رِوَاےَۃٍ حَتّٰی ےُحَاذِیَ بِھِمَا فُرُوْعَ اُذُنَےْہِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
ترجمہ:
1۔ اور حضرت مالک ابن حویرث ؓ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ جب تکبیر تحریمہ کہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اتنا اٹھاتے کہ انہیں کانوں کی سیدھ تک لے جاتے تھے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر اسی طرح کرتے تھے (یعنی دونوں ہاتھ کانوں کی سیدھ تک لے جاتے تھے) اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ دونوں کو اپنے کانوں کے اوپر کی جانب لے جاتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب: نماز کا بیان، حدیث نمبر: 759)

2۔ رفع یدین صرف ایک مرتبہ
قال الْبُخَارِي، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ الْمَرْوَزِيُّ قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلْقَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً.
ترجمہ:
عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ پڑھاؤں؟ چناچہ انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی، تو انہوں نے صرف ایک بار رفع یدین کیا۔ (سنن نسائی، حدیث نمبر: 1059)تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ١٠٢٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني: صحيح

تشریح
تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین یعنی ہاتھوں کے اٹھانے میں کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ تمام علماء وائمہ اس بات پر متفق ہیں۔ کہ تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرنا چاہئے۔ تکبیر تحریمہ کے علاوہ دوسرے مواقع پر رفع یدین کا مسئلہ حنفیہ و شوافع کے درمیان ایک معرکۃ الآراء مسئلے کی حیثیت رکھتا ہے۔ حنفیہ کے نزدیک صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرنا چاہئے اور شوافع کے نزدیک تکبیر تحریمہ کے علاوہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت بھی رفع یدین کرنا چاہئے۔
حق تو یہ ہے کہ دونوں طرف دلائل کے انبار ہیں اور احادیث و آثار کے ذخائز ہیں جن کی بنیادوں پر طرفین اپنے اپنے مسلک کی عمارت کھڑی کرتے ہیں۔
علمائے حنفیہ نے تمام احادیث میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ان حضرات کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کبھی تو رفع یدین کرتے ہوں اور کبھی نہ کرتے ہوں، یا یہ کہ پہلے تو آپ ﷺ رفع یدین کرتے تھے لیکن بعد میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ دوسرے مواقع کے لئے رفع یدین کو منسوخ قرار دے دیا گیا۔
حنفیہ کے پاس اپنے مسلک کی تائید میں بہت زیادہ احادیث و آثار ہیں انہیں یہاں ذکر کیا جاتا ہے تاکہ حنفی مسلک پوری طرف واضح ہوجائے۔
امام ترمذی (رح) نے ترمذی میں دو باب قائم کئے ہیں۔ پہلا باب تو رکوع کے وقت رفع یدین کا ہے۔ اس کے ضمن میں امام ترمذی (رح) نے عبداللہ ابن عمر ؓ کی حدیث نقل کی ہے جو اوپر مذکور ہوئی۔ دوسرا باب یہ ہے کہ ہاتھ اٹھانا صرف نماز کی ابتداء کے وقت دیکھا گیا ہے اس باب کے ضمن میں امام جامع ترمذی نے حضرت علقمہ ؓ کی وہ حدیث جو عبداللہ ابن مسعود ؓ سے مروی ہے نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ نے اپنے رفقاء سے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی نماز ادا کرتا ہوں چناچہ عبداللہ ابن مسعود ؓ نے نماز ادا کی اور انہوں نے صرف پہلی مرتبہ ہی (یعنی تکبر تحریمہ کے وقت) ہاتھ اٹھائے۔ اسی باب میں امام ترمذی (رح) نے براء بن عازب ؓ سے بھی اسی طرح منقول ہونا ثابت کیا ہے۔ نیز امام موصوف نے کہا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کی حدیث حسن ہے اور صحابہ وتابعین میں سے اکثر اہل علم اس کے قائل ہیں اور سفیان ثوری (رح) و اہل کوفہ کا قول بھی یہی ہے۔ جامع الاصول میں حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کی حدیث کو ابوداؤد و سنن نسائی کے حوالے سے اور براء ابن عازب ؓ کی حدیث کو بھی ابوداؤد کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ ﷺ نماز شروع فرماتے تھے تو (تکبیر تحریمہ کے وقت) دونوں ہاتھ اپنے دونوں کندھوں کے قریب تک اٹھاتے تھے اور ایسا دوبارہ نہیں کرتے تھے۔ اور ایک دوسری روایت میں یوں کہ پھر دوبارہ ہاتھوں کو نہیں اٹھاتے تھے یہاں تک کہ آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوجاتے تھے۔ اس موقع پر اتنی سی بات اور سنتے چلیے کہ اس حدیث کے بارے میں ابوداؤد نے جو یہ کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ تو ہوسکتا ہے کہ ان کے نزدیک صحیح ہونے سے مراد یہ ہو کہ اس خاص سند و طریق سے صحیح ثابت نہیں لہٰذا ایک خاص سند و طریق سے صحیح ثابت نہ ہونا اصل حدیث کی صحت پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ یا پھر یہ احتمال ہے کہ ابوداؤد کا مقصد اس حدیث کو حسن ثابت کرنا ہو جیسا کہ ترمذی نے کہا ہے لہٰذا اس صورت میں کہا جائے گا تمام ائمہ و محدثین کے نزدیک حدیث حسن قابل استدلال ہوتی ہے

حضرت امام محمد (رح) اپنی کتاب موطا میں حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کی اس روایت کو جس سے رکوع اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین ثابت ہوتا ہے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ۔ یہ سنت ہے کہ ہر مرتبہ جھکنے اور اٹھنے کے وقت تکبیر کہی جائے لیکن رفع یدین سوائے ایک مرتبہ (یعنی تحریمہ کے وقت) کے دوسرے مواقع پر نہ ہو اور یہ قول امام ابوحنیفہ (رح) کا ہے اور اس سلسلے میں بہت زیادہ آثار وارد ہیں۔

چناچہ اس کے بعد عاصم ابن کلیب خرمی کی ایک روایت جسے عاصم نے اپنے والد مکرم سے جو حضرت علی المرتضیٰ کے تابعین میں سے ہیں روایت نقل کی ہے کہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سوائے تکبیر اولیٰ کے رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
عبدالعزیز ابن حکم کی روایت نقل کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے
حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کو دیکھا وہ ابتداء نماز میں پہلی تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے اس کے علاوہ اور کسی موقع پر رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
مجاہد کی روایت نقل کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کے پیچھے نماز پڑھی ہے چناچہ وہ صرف تکبیر اولیٰ کے وقت رفع یدین کرتے تھے۔
اسود سے منقول ہے کہ میں نے حضرت عمر ابن خطاب ؓ کو دیکھا کہ وہ صرف تکبیر اولیٰ کے موقع پر رفع یدین کرتے تھے۔

لہٰذا۔ جب حضرت عمر، حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت علی المرتضیٰ ؓ جیسے جلیل القدر صحابہ کرام جو رسول اللہ ﷺ نے نہایت قرب رکھتے تھے ترک رفع یدین پر عمل کرتے تھے تو وہ عمل جو اس کے برخلاف ہے قبول کرنے کے سلسلے میں اولیٰ اور بہتر نہیں ہوگا

شرح ابن ہمام میں ایک روایت دار قطنی اور ابن عدی سے نقل کی گئی ہے جسے انہوں نے محمد ابن جابر سے انہوں نے حماد ابن سلیمان سے انہوں نے ابراہیم سے انہوں نے علقمہ سے اور انہوں نے عبداللہ سے روایت کیا ہے۔
عبداللہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر ؓ کے ہمراہ نماز پڑھی ہے چناچہ انہوں نے سوائے تکبیر اولیٰ کے اور کسی موقع پر رفع یدین نہیں کیا۔

منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوحنیفہ اور امام اوزاعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما مکہ کے دارالخیاطین میں جمع ہوئے۔ امام اوزاعی (رح) نے امام صاحب (رح) سے پوچھا کہ آپ ﷺ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کیوں نہیں کرتے؟ حضرت امام صاحب نے جواب دیا اس لئے کہ آقاے نامدار ﷺ سے اس سلسلہ میں کچھ صحت کے ساتھ ثابت نہیں ہے! امام اوزاعی نے فرمایا کہ مجھے زہری نے حضرت سالم کی یہ حدیث بیان کی کہ انہوں نے اپنے والد حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ تکبیر اولیٰ کے وقت، رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ حضرت امام ابوحنیفہ نے فرمایا کہ مجھ سے حماد نے ان سے ابراہیم نے اور ان سے علقمہ اور اسود نے اور ان دونوں نے حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ صرف ابتداء نماز میں دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے اور دوبارہ ایسا نہیں کرتے تھے۔ یہ روایت سن کر امام اوزاعی نے کہا کہ میں نے تو زہری سے نقل کیا اور انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے باپ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ سے نقل کیا ہے اور انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے باپ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ سے نقل کیا ہے اور آپ اس کے مقابلے میں حماد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ابراہیم سے اور انہوں نے عقلمہ سے نقل کیا ہے یعنی میری بیان کردہ سند آپ کی بیان کردہ سند سے عالی اور افضل ہے۔

حضرت امام اعظم نے فرمایا کہ اگر یہی بات ہے تو پھر سنو کہ حماد، زہری سے زیادہ فقیہ ہیں اور ابراہیم سالم سے زیادہ فقیہ ہیں اور اسی طرح علقمہ بھی حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کے مقابلہ میں فقہ میں کم نہیں ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کو رسول اللہ ﷺ کی رفافت و صحابیت کا شرف حاصل ہے۔ نیز اسود کو بھی بہت زیادہ فضیلت حاصل ہے۔ اور عبداللہ تو خود عبداللہ ہیں۔ یعنی عبداللہ ابن مسعود ؓ کی تعریف و توصیف کیا کی جائے کہ علم فقہ میں اپنی عظمت شان اور رسول اللہ ﷺ کی رفاقت و صحبت کی سعادت و شرف کی وجہ سے مشہور ہیں۔
گویا۔ امام اوزاعی نے تو اسناد کے عالی ہونے کی حیثیت سے حدیث کو ترجیح دی اور حضرت امام اعظم نے راویان حدیث کے فقیہ ہونے کے اعتبار سے حدیث کو ترجیح دی۔
چناچہ حضرت امام اعظم کا اصول یہی ہے کہ وہ فقیہ راوی کو غیر راویوں پر ترجیح دیتے ہیں جیسا کہ اصول فقہ میں مذکور ہے

نہایہ شرح ہدایہ میں عبداللہ ابن زبیر ؓ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو مسجد حرام میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا جو رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کر رہا تھا، انہوں نے اس آدمی سے کہا کہ ایسا مت کرو کیونکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کو رسول اللہ ﷺ نے پہلے اختیار کیا تھا اور بعد میں اسے ترک کردیا یعنی ان مواقع پر رفع یدین کا حکم پہلے تھا اب منسوخ ہوگیا ہے

حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رفع یدین کیا تو ہم نے بھی رفع یدین کیا اور جب رسول اللہ ﷺ نے اسے ترک کردیا تو ہم نے بھی ترک کردیا۔

حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ عشرہ مبشرہ (یعنی وہ دس خوش نصیب صحابہ جن کو رسول اللہ ﷺ نے ان کی زندگی ہی میں جنتی ہونے کی خوشخبری دی تھی) صرف ابتداء نماز ہی میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔
حضرت مجاہد حضرت عبداللہ ابن عمر کا معمول نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر کے پیچھے سالہا سال نماز ادا کی ہے مگر میں نے اس کو سوائے ابتداء نماز کے اور کسی موقع پر رفع یدین کرتے نہیں دیکھا۔
حالانکہ حضرت عبداللہ ابن عمر کی وہ روایت گزر چکی ہے۔ جس سے تینوں مواقع پر رفع یدین کا اثبات ہوتا ہے اور جو شوافع کی سب سے اہم دلیل ہے۔
لہٰذا اصول حدیث کا چونکہ قاعد ہے کہ راوی کا عمل اگر خود اس کی روایت کے خلاف ہو تو روایت پر عمل نہیں کیا جاتا اس لئے حضرت عبداللہ ابن عمر کی وہ روایت ساقط العمل قرار دی جائے گی۔
بہر حال۔ ان روایات وآثار سے معلوم ہوا کہ رفع یدین دونوں کے اثبات میں احادیث و آثار وارد ہیں اور صحابہ کی ایک جماعت خصوصاً حضرت عبداللہ مسعود اور ان کے تابعین رفع یدین نہ کرنے ہی کے حق میں ہیں۔ لہٰذا۔ ان تمام موافق و مخالف احادیث کا محمول یہی ہوسکتا ہے کہ ہم یہ کہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے اوقات مختلفہ میں دونوں طریقے وجود میں آئے ہیں اور امام اعظم ابوحنیفہ کے علم فقہ اور ان کی اسناد کا نطقہ منتہا حضرت عبداللہ ابن مسعود اور ان کے تابعین کی ذات گرامی ہے اور چونکہ ان کا رجحان عدم رفع یدین کی طرف ہے اس لئے امام اعظم ابوحنیفہ کے ترک رفع یدین کے مسلک ہی کو اختیار کیا ہے اور اب تمام حنفیہ اسی مسلک کے حامی اور اس مسلک پر عامل ہیں۔ علمائے حنفیہ صرف اسی قدر نہیں کہتے بلکہ ان حضرات کے نزدیک تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر مواقع پر رفع یدین کا حکم منسوخ ہے کیونکہ جب حضرت عبداللہ ابن عمر کے بارے میں یہ ثابت ہوگیا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد یہ ترک رفع یدین ہی اختیار کرتے تھے باوجود اس کے کہ رفع یدین کی حدیث کے راوی یہی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہلے تو رفع یدین کا حکم رہا ہوگا مگر بعد میں یہ حکم باوجود کثرت احادیث و آثار کے منسوخ ہے۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی (رح) نے اس مسئلے کی پوری تفصیل اپنی کتاب شرح سفر السعادۃ میں نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہاں پیش کیا گیا ہے۔ ان کی تحقیق کا حاصل یہ ہے کہ ان کے نزدیک
رفع یدین اور عدم رفع یدین دونوں ہی سنت ہیں مگر رفع یدین نہ کرنا ہی اولیٰ اور راجح ہے البتہ دیگر علماء حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ رفع یدین کا حکم اور طریقہ منسوخ ہے۔
وا اللہ اعلم۔
اس موضوع پر مزید احادیث کے مطالعہ کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقۂ نماز

 اسلام : احیاء دین کامل

فرنٹ پیج/انڈکس

مکالمہ کا تھیم ایسا ہے کے طویل مکالمہ …سوال .. جوابات … جوابات در جوابات … ممکن ہے کہ قاری کو غلط فہمی ہو کہ سارا زور احادیث کی مخالفت پر ہے … ایسا تاثر اگر ہو تو اس غلط فہمی کو دور کرنا negate کرنا ضروری ہے…