فرقہ واریت کی وجوہات
ایک عام انسان دین کو اپنے قلبی سکون کے لیے اختیار کرتا ہے۔ بے شک دین اسلام میں ایسی تاثیر ہے کہ وہ اپنے قبول کرنے والوں کو سکون دیتا ہے۔اللہ کی یاد اور پیغمبر علیہ السلام کی زندگی، سیرت اور اخلاق عالیہ میں ایسا اطمینان ہے کہ انسان زندگی کی ہر مشکل کو ہنس کر جھیل جاتا ہے۔ تاہم یہ سکون بخش دین اس وقت انسان میں زبردست اضطراب پیدا کردیتا ہے جب مذہبی اختلافات کی داستان انسان کے سامنے آتی ہے۔ کفر کے فتوے، گمراہی کے سرٹیفیکیٹ، سازشوں کی داستانیں غرض تنازعات اور اختلافات کی دنیا انسان کا ذہنی سکون درہم برہم کردیتی ہے۔ جن شخصیات کو انسان معتبر سمجھتا ہے وہ غیر معتبر ہوجاتی ہیں۔ جس نقطہ نظر کو انسان باعث نجات سمجھتا ہے ، وہ گمراہی اور ضلالت قرار پاتا ہے۔ جس راستے کو انسان نجات کا راستہ سمجھتا ہے وہ عذاب کا راستہ بن جاتا ہے۔ جس منزل کو وہ جنت کا نشان سمجھتا ہے وہ جہنم کی کھائی نظر آنے لگتی ہے۔
ایسے میں انسان کسی خاص نقطہ نظر کا اسیر ہے تواپنے نقطہ نظر کے خلاف دو سطریں پڑھنا بھی اس کے لیے باعث اذیت ہوجاتا ہے۔ ایسے میں اپنے بڑو ں کی طرف سے اسے آسان ترین راستہ یہ بتایا جاتا ہے کہ صرف ہماری بات سنو۔ ہمارے علاوہ ہر شخص گمراہ ہے۔ چنانچہ انسان صرف اپنے نقطہ نظر کی باتیں سنتا اور پڑھتا ہے اور اسی میں خوشی محسوس کرتا ہے۔ تاہم اس طریقے میں سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ انسان واقعی غلط جگہ کھڑا ہو ۔اور کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے یہ بتایا جائے کہ جس بات کو تمہیں ٹھیک بتایا گیا تھا وہ غلط تھی۔تم نے اپنے لیڈروں کی اندھی پیروی کی اور گمراہی کا راستہ اختیار کرلیا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے مخاطبین کی مثال
اس سلسلے کی سب سے نمایاں مثال خود حیات طیبہ میں ملتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عام لوگوں کی نظروں میں غلط ثابت کرنے کے لیے کفار نے آپ پربدترین الزامات لگائے۔ مجنون، جادوگر، شاعر اور دیگر انتہائی گستاخانہ کلمات دن رات آپ کے بارے میں کہے جاتے تھے۔ آپ کی شخصیت، سیرت، افعال، ازدواجی زندگی اور جنگ و جہاد کے معاملات میں ہر پہلو سے کیڑے نکال کر آپ کو غیر معتبر کرنے کی کوشش کی گئی۔یہ سب کچھ کفاراور منافقین کی لیڈرشپ نے کیا مگر قرآن مجیدمیں واضح ہے کہ ان کی پیروی کرنے والے بھی قیامت میں عذاب میں ہوں گے اور جسمانی عذاب کے ساتھ اس روحانی اذیت کو بھی سہیں گے کہ انہوں نے کیوں اپنے لیڈروں کی پیروی کی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
بے شک اللہ نے کافروں پر لعنت کرچھوڑی ہے اور ان کے لیے آگ کا عذاب تیار کررکھا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہاں نہ ان کا کوئی کارسازہوگا اور نہ کوئی مددگار۔ جس دن ان کے چہرے آگ میں الٹے پلٹے جائیں گے ۔ وہ کہیں گے : کاش !ہم نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی اور ہم نے رسول کی اطاعت کی ہوتی! اور کہیں گے: اے ہمارے رب ! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی بات مانی تو انہوں نے ہمیں راہ سے بھٹکادیا۔ اے ہمارے رب !ان کو دوگنا عذاب دے اور ان پر بہت بھاری لعنت کر! (احزاب 33:64-68)
ایک انتہائی سنگین مسئلہ
ظاہر ہے کہ مذکورہ بالا معاملہ کفار کا ہے جنھوں نے اپنے لیڈروں کی باتوں میں آکر رسول کریم علیہ الصلوۃ السلام کا انکار کیا ۔ مگر کوئی سچائی کتنی چھوٹی کیوں نہ ہو، اس کاانکار اپنی ذات میں ایک جرم ہے۔ مزید یہ کہ فرقہ وارانہ اختلافات میں نہ صرف دوسرے فریق کی بات سننے سے انکار کیا جاتا ہے بلکہ دوسرے نقطہ نظر کو باطل قرار دے کر فوراً کفر اورگمراہی کی ایک مہم شروع کردی جاتی ہے۔ جبکہ صحیح روایات کے مطابق یہ ایک انتہائی خطرناک معاملہ ہے۔ ارشاد نبوی ہے۔
تم میں سے کوئی آدمی جب اپنے بھائی کو کافر کہے تو دونوں میں سے ایک اس کا مستحق بن جاتا ہے۔یا تو وہی (سننے والا)کافر ہوتا ہے جیسا کہ کہنے والا اسے کہتا ہے یا پھر (سننے والا) نہیں ہے تو پھر یہ کہنے والے پر پلٹ آئے گا۔ (بخاری، نمبر 5752)
یہ ظاہر ہے کہ انتہائی سنگین معاملہ ہے۔کفر کا نتیجہ جہنم کی وہی آگ ہے جس کا ذکر اوپر قرآن کے حوالے سے بیان ہواہے۔پھر آخرت کے علاوہ دنیا میں بھی ہم جانتے ہیں کہ یہ اختلاف ، تعصب اورفرقہ واریت وہ آگ ہے جو ہمارے معاشرے میں نفرت، دہشت اور قتل و غارت گری پھیلارہی ہے۔ ان کے علاوہ یہ پڑھے لکھے اور با شعور لوگوں کو دین سے دور کرنے کا سبب بن رہی ہے۔
ایک غیر جانبدار شخص کا مسئلہ
اس معاملے کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایک غیر جانبدار شخص جو دین کا زیادہ علم نہیں رکھتا ، وہ بے چارہ کبھی دو فریقوں میں سچائی جاننے کی کوشش بھی کرے تو اس کا علم اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتا کہ وہ فنی مباحث اور علمی اختلافات کو سمجھ سکے۔وہ جس فریق کی بات سنے گا، اسے لگے گا وہی ٹھیک کہہ رہا ہے۔ایک عام آدمی ان چیزوں کوسمجھنے کے لیے زیادہ وقت نہیں نکال سکتا اور اگرنکالے گا تو آخر کار وہ اہل علم کے پاس ہی جائے گا۔ اور اس بات کا امکان ہے کہ وہ اسے صرف اپنے نقطہ نظر کی درستی اور دوسروں کی غلطی پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے ۔
ایسے میں یہ ضروری ہے کہ ایک عام آدمی کے سامنے کچھ ایسی موٹی موٹی چیزیں آجائیں جن سے وہ سمجھ سکے کہ جب اہل علم ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہیں تو کس کی بات درست ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ وہ کون سے غیر جانبدارانہ اصول ہیں جو کسی شخص کے تعصب کو بھڑکائے بغیر اور اس کے نقطہ نظر کو چیلنج کیے بغیر اس کے سامنے وہ معیار رکھ سکتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ اپنے لیڈروں کے دعووں کو پرکھ سکے۔ تاکہ کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جب اس سے سوال کرنا شروع کریں تو وہ یہ نہ کہے کہ ہم نے اپنے لیڈرو ں کی پیروی کی تھی۔ جو انہوں نے کہا وہ ہم نے مان لیا۔بلکہ وہ اپنے شعوری علم کی بنیاد پر جواب دے۔ہم کسی طور اس جواب دہی سے روز قیامت بچ نہیں سکتے۔ ایمان لانے کی آزمائش اگر غیر مسلموں کے لیے ہے تو سچائی کو سمجھنے اور اس کا انکار نہ کرنے کی ذمہ داری ایک مسلمان کی بھی ہے۔
فرقہ واریت اور گروہی تعصب کی وجوہات
ذیل میں کچھ ایسے نمایاں اصول بیان کیے جارہے ہیں جو اس معاملے میں ایک عام آدمی کی بھرپور رہنمائی کریں گے کہ مذہبی اختلافات کی شکل میں کون سا نقطہ نظر درست ہوسکتا ہے اور کون سا غلط۔
1۔فرع اور اصل کا فرق
اللہ تعالیٰ کا انسانیت پر خصوصی کرم یہ ہے کہ اس نے ختم نبوت کے بعد ہدایت کو باقی رکھنے کا بھرپور اہتمام کیا ہے۔ اس کا طریقہ یہ اختیار کیاگیا ہے کہ دین کی بنیادوں یعنی قرآن کریم اورسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکمل طور پرمحفوظ کردیا ہے۔یہ حقیقت قرآن مجیدمیں بھی بیان ہوئی اور متعدد احادیث میں بھی اس کا ذکر ہوا ہے۔
اس پوری فکری اور عملی دینی روایت میں کچھ اصولی اور بنیادی باتیں اور کچھ فروعی چیزیں ہیں۔کچھ اصل اور بنیادی احکام ہیں اور کچھ ان کے حصول میں مددگارہوتے ہیں۔کچھ احکام مقاصد کا درجہ رکھتے ہیں اور کچھ سدذریعہ(اصل ممانعت سے روکنے کے لیے ان ذرائع سے روکناجو اس حرام میں مبتلا کرسکتے ہیں) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کچھ چیزیں بالکل واضح، بین اور روشن ہیں اور کچھ کو جان بوجھ کر مبہم اور غیر واضح چھوڑ دیا گیا ہے۔
گروہی تعصب اور فرقہ واریت کو پیدا کرنے والی سب سے بنیادی چیز دراصل یہی ہے کہ لوگ اصل چیزوں کو چھوڑ کر یا غیر اہم سمجھ کر فروعیات کو دعوت کا موضوع بنالیتے ہیں۔یہاں رک جائیے اور میرا جملہ دوبارہ پڑھیے۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ فروعیات پر غور نہیں کرتے۔ میں نے یہ لکھا ہے کہ فروعیات کو دعوت کا موضوع بنالیتے ہیں۔فروعیا ت پر غور کرنے اوران کو دعوت کا موضوع بنالینے اور خود اصول و فرع میں کیا فرق ہے اور ان کی باہمی جگہ بدل دینے سے کیا ہوتا ہے میں اسے ایک مثال سے واضح کرنے کی کوشش کروں گا ۔
آمین بالجہر کا معاملہ
نماز دین کا بنیادی حکم ہے۔اس کا مقصد قرآن مجید کے مطابق اللہ کی یاد قائم کرنا ہے۔اس کا عملی طریقہ ہم تک اس طرح پہنچا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے لے کر آج تک نسل درنسل لوگ نماز پڑھتے اور اپنے بچوں کو سکھاتے چلے آئے ہیں ۔ اس عملی اہتمام کے علاوہ اہل علم ہمیشہ اپنی تحریر و تقریر میں نماز پر گفتگو کرکے اس کا طریقہ واضح کرتے رہے ہیں۔ اس طریقے میں یہ بات شامل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق قیام میں سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آمین کہی جائے۔[1] اس آمین کی آواز کتنی بلند ہو یہ سرتا سر ایک فروعی مسئلہ ہے۔اس لیے اس پر اہل علم میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس اختلاف سے نہ نمازباطل ہوتی ہے اور نہ اللہ کے ہاں اس کی قبولیت پر کوئی سوال پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ بحث اگر اہل علم کے درمیان ہی رہے وہ اپنی تحریروں میں اسے موضوع بنالیں، اس پر تحقیق کریں، اپنی مجالس میں اس پرتبادلہ خیال کریں، دلائل کا تبادلہ کریں، ایک دوسرے پر اپنا نقطہ نظر واضح کرکے انہیں قائل کرنے کی کوشش کریں تو اس سے کوئی فساد برپا نہیں ہوگا۔
لیکن جیسے ہی یہ چیزیں منبروں کا موضوع بنیں گی، وعظ و تبلیغ کا مواد قرارپائیں گی، دعوتی تحریروں اور تقریروں میں زیر بحث آنے لگیں گی، ہدایت اور گمراہی کا معیار قرا رپائیں گی، یہ معاشرے میں بدترین فساد پھیلانے کا سبب بن جائیں گی۔ تھوڑے عرصے پہلے تک اس ”آمین“ کا یہی معاملہ تھا۔ مجھے اپنی نوعمری کے وہ واقعات اچھی طرح یاد ہیں کہ جب ہماری مسجد میں کوئی شخص آکر بلند آواز سے آمین کہہ بیٹھتا تھا تو نماز کے بعد لوگ اس طرح اسے گھور گھور کر دیکھتے تھے کہ اس کا مسجد میں ٹھہرنا دوبھر ہوجاتا تھا۔ مگر الحمدللہ عمرہ وحج پر بکثرت عوام کے جانے کا یہ فائدہ ہوا ہے کہ اب لوگوں کو اندازہ ہوچکا ہے کہ یہ کوئی ایسا اہم مسئلہ نہیں۔ جس نے زور سے آمین کہنا ہے وہ کہے اور جو چاہے آہستہ کہے۔ اللہ تعالیٰ دونوں صورتوں میں اس آمین کو توجہ سے سنتے ہیں۔
اس بحث سے واضح یہ ہوا کہ اس امت کے اہل علم میں اصل معاملات پر کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔ اختلاف صرف اور صرف جزوی اور فروعی چیزوں پر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اہل علم اپنی اپنی تحقیق کے لحاظ سے جن نتائج تک پہنچیں گے بہرحال اسے بیان کریں گے۔ اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ ایک اچھی علمی روایت ہے۔ اسی کی بنا پر ہمارا دین ہر طرح کے حالات میں قابل عمل رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر جیسے ہی یہ نتائج فکر دعوت ِدین کا عنوان بنیں گے، مسئلہ پیدا ہوجائے گا۔ یہ مسئلہ اس وقت مزید سنگین ہوجاتا ہے جب لوگ ان فروعیات کو اصل کی جگہ لے جاتے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ اہم بنادیتے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ فرع میں اختلاف کرنے والا اصل میں ان کے ساتھ ہی کھڑا ہے۔ان کے نزدیک فرع اتنی اہم ہوجاتی ہے کہ وہ اصل کے اتفاق کو بالکل بھول کر فروعی اختلاف کی بنا پر فتویٰ بازی کردیتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ایک فرقہ اور متعصب گروہ وجود میں آجاتاہے۔
اکثر فرقہ وارانہ اختلافات کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ لوگ اصل کو بھول کر فرع کو اہم بنادیتے ہیں۔وہ تولہ کا سیر اورذرہ کا پہاڑ بنادیتے ہیں۔اہمیت کی یہ تبدیلی (Shift of Emphasis)
اس لیے تعصبات اور فرقہ وارانہ اختلاف کو سمجھنے کا پہلابنیادی اصول یہ ہے کہ یہ اختلافات کرنے والے زیادہ ترفروعیات پر بات کرتے ہیں اور ان کو حق و باطل کر مسئلہ بنادیتے ہیں۔ جبکہ یہ رویہ سرتاسر ایک غلط رویہ ہے جو فساد اور انتشار کا باعث بنتا ہے۔
2۔جہالت اور جذباتیت
فرقہ واریت اور گروہی تعصبات کو پھیلانے کا دوسرااہم اور بنیادی سبب جذباتیت اور جہالت ہے۔ جیسا کہ پیچھے بیان ہوا ہے کہ فروعی معاملات میں اہل علم میں ان کی تحقیق کے لحاظ سے اختلاف ہوہی جاتا ہے۔مگر محقق اہل علم کی حد تک یہ اختلاف صرف علمی اختلاف رہتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ محقق علما بالعموم یہ جانتے ہیں کہ گرچہ انہوں نے ایک رائے قائم کی ہے مگر اس معاملے میں دوسروں کی مختلف آراءبھی موجو دہیں۔ نیز وہ دین کی اصل اور فرع کا فرق بالعموم اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
بدقسمتی سے بڑے اہل علم کے رخصت ہونے کے بعد ان کی جگہ کچھ ایسے لوگ سنبھالتے ہیں جن کا علم و تحقیق سے کچھ زیادہ واسطہ نہیں ہوتا۔یہ اسلاف کا نام تو لیتے ہیں، مگر شاذ ہی کبھی اسلاف کی کتابیں انہوں نے پڑھی ہوتی ہیں۔ یہ علم کی بات تو کرتے ہیں مگر مسلمانوں کی شاندار علمی روایت کی انہیں کوئی خبر نہیں ہوتی۔ان کا کل سرمایہ علم اپنے مسلک ،اپنے گروہ، اپنی تنظیم اوراپنی جماعت کالٹریچر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کا لٹریچر اپنے نقطہ نظر کو درست ثابت کرنے کے لیے لکھا گیا ہوتا ہے، یہ کبھی سلف و خلف کے تمام علم اور تمام اہل علم کی آراءاور ان کے دلائل کا بیان نہیں ہوتا۔ اس لٹریچر میں اگر کبھی دوسروں کی بات نقل ہوتی ہے تو صرف اس لیے کہ اس پر تنقیدکرکے اسے غلط ثابت کیا جاسکے۔ورنہ اپنی بات اور اپنے نقطہ نظر کو اس میں آخری حق بناکر پیش کیا جاتا ہے۔
یہ چیز ان لوگوں میں اپنے نقطہ نظر کے حوالے سے ایک خاص قسم کی جذباتیت پیدا کردیتی ہے۔ بلکہ ہوتا بھی یہی ہے کہ اس نقطہ نظر کو قبول کرنے والے پہلے مرحلے پر ایسے ہی جذباتی رجحان رکھتے ہیں۔ چنانچہ جہالت اور جذباتیت ملتے ہیں اور فرقہ واریت کو عروج پر پہنچادیتے ہیں۔ دوسروں کے خلاف مہم جوئی شروع ہوجاتی ہے۔ فتویٰ بازی کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔ اپنے ناقص علم اوربودی دلیلوں کو آخری سچ کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔جہاں کہیں یہ ناقص علم اور بودی دلیلیں ختم ہوجائیں وہاں جھوٹ بولنے میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا۔ یوں عوام الناس ایسے کم علم لوگوں کے فریب میں آکر یہ سمجھتے ہیں کہ اِنہوں نے تو قلم توڑدیا ہے۔ تاہم ایسے سطحی علم کے لوگ اپنی جہالت سے اتنے ناواقف نہیں ہوتے۔ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی صاحب علم ان کی جہالت کا پردہ چاک کرکے ان کی حقیقت دنیا کو دکھاسکتا ہے۔ پھر ان کے معتقدین ان سے وہ سوالات کریں گے جن کاکوئی جواب ان کے پاس نہیں ہوگا۔ اس لیے وہ پیروکاروں کو یہ تلقین کرتے ہیں کہ کبھی کسی گمراہ آدمی کی بات نہیں سننا۔کوئی کتاب کہیں اور سے ملے تو کسی ثقہ عالم (اس سے مراد وہ خود ہی ہوتے ہیں) سے تصدیق کرواکر پڑھنا۔ بلکہ اس کی ضرورت کیا ہے ، بس ہماری ہی کتابیں پڑھو اور ہماری تقریریں سناکرو۔ یہی سامان ہدایت ہے۔کاش یہ لوگ جانتے کہ یہ تلقین کفار مکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں اپنے لوگوں کو کرتے تھے کہ معاذ اللہ اس مجنون جادوگر کی بات نہ سنو،گمراہ ہوجاؤ گے۔
اس گفتگو کو ایک سچے واقعے پر ختم کررہا ہوں۔ یہ واقعہ میرے جاننے والے دو بزرگوں کا ہے۔دونوں معروف اور بڑے عالم ہیں اس لیے نام ان کا نہیں لکھ رہا۔ لیکن امید ہے کہ قارئین اسے پڑھ کر تھوڑا سا مسکرائیں گے ضرور۔ واقعہ یوں ہے کہ ایک بڑے صاحب علم سے وابستہ ایک نوجوان جب کسی دوسرے بڑے عالم کی کتابیں پڑھنے لگے تو انہوں نے اس نوجوان کو سمجھایاکہ تم اس شخص کی کتابیں نہ پڑھو۔ نوجوان نے پوچھاکہ کیوں نہ پڑھوں۔جواب ملا تم ابھی چھوٹے ہو گمراہ ہوجاؤگے۔نوجوان حاضر جواب تھا۔ فوراً جواب دیا۔ جی میں آپ کے پاس آیا تھا تو اس سے بھی چھوٹا تھا۔۔۔۔
خلاصہ یہ کہ تعصب اور فرقہ واریت پھیلانے والے لوگ یا تو کم علم ہوتے ہیں یا جذبات کے مارے ہوتے ہیں۔ صاحبان علم اور جذبات پر قابو رکھنے والے اہل علم ہمیشہ ایسی چیزوں سے دور رہتے ہیں۔
3۔غیر علانیہ نبوت
غیر علانیہ نبوت کیا ہوتی ہے، اسے جاننے کے لیے نبوت کی حقیقت سمجھنا ضروری ہے۔ نبوت اس بات کا نام ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک انسان کا انتخاب کرکے اس پر وحی اتارتے ہیں اور اسے اپنا نمائندہ بناکر دنیا کے سامنے کھڑا کردیتے ہیں۔پھروہ خود نہیں بولتا بلکہ اس کی زبان حق ترجمان سے عالم کا پروردگارکلام فرماتا ہے۔اسی لیے اس کے کلام میں یقین ہوتا ہے، ادعا ہوتا ہے، اعتماد ہوتا ہے۔ وہ لوگوں تک حق پہنچاتا ہی نہیں ان کے حق و باطل پر ہونے کا فیصلہ بھی سنادیتا ہے۔وہ ایک دنیوی چیز کو دین بتاتا ہے تو وہ چیز عین دین بن جاتی ہے۔ وہ ایک عین دینی عمل کو غیر مطلوب قرار دے دیتا ہے تو وہ دین کے دائرہ سے نکل جاتی ہے۔دین میں اس کی اطاعت لازمی ہے۔ اس کا عمل حجت ہے۔ اس کی بات حتمی ہے۔اس کی رائے قطعی ہے۔وہ ماننے والے کو حق سمجھاتا نہیں اسے منواتا بھی ہے۔اس کا راستہ سچائی کو پانے کا واحد راستہ ہوتا ہے۔اس کے سوا ہر راستہ گمراہی کا راستہ ہے۔ نبی سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔اس کا انکار کفر ہوتا ہے۔اس کا فیصلہ حق ہوتا ہے۔اس کا حکم آخری ہوتا ہے۔ یہ صرف اس کا حق ہوتاہے اور اسی کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے کفر، ضلالت اور گمراہی کا کھل کر اعلان کردے۔اس راہ میں وہ کسی کی پروا کرتا ہے اور نہ کسی کا خوف کھاتا ہے۔
نبی یہ سب کرتا ہے اور اس لیے کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ براہ راست اسے یہ کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ یہ مقام اور منصب کبھی بھی ، کسی صورت میں اور کسی قیمت پر کسی اور کو حاصل نہیں ہوسکتا۔ خاص طور پر ختم نبوت کے بعد اس کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔اب ہر شخص ایک طالب علم ہے۔ وہ دین سیکھے گا اور سمجھائے گا۔وہ حق سمجھے گا اور پہنچائے گا۔مگراس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ اس کے خلاف رائے دی جاسکتی ہے۔ اس کے راستے کے سوا دوسرا راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔
ہمارا رویہ: اپنے ناقص علم کی بنیاد پر دوسروں کا فیصلہ
بدقسمتی سے ہمارے ہاں جو لوگ خدائی فوجدار بن کر کھڑے ہوتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ نبی نہیں ہیں۔وہ کتنے بڑے عالم کیو ں نہ ہوں وہ بہرحال عام انسان ہیں۔وہ حق و باطل کا فیصلہ نہیں سناسکتے۔ وہ دوسروں کے کفر و ضلالت کا فیصلہ نہیں سناسکتے۔اس لیے کہ نبی کی طرح انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی عصمت اور کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ان کی رائے غلط ہوسکتی ہے۔ ان کا فہم باطل ہوسکتا ہے۔ ان کی تحقیق غیر مستند ہوسکتی ہے۔ان کا اجتہاد خطا ہوسکتا ہے۔ ان کا فکر حالات اور زمانے سے متاثر ہوسکتا ہے۔ان کی سوچ خواہشا ت وتعصبات کی اسیر ہوسکتی ہے۔ان کے جذبات ان کی عقل پر غالب آسکتے ہیں۔انہیں یہ حق ہے کہ پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ اپنی بات لوگوں کے سامنے پیش کریں۔ مگر اسے دین بتانے کے بجائے اپنی رائے کے طور پر پیش کریں۔نبی کی طرح اسے حق بناکر پیش نہ کریں۔انہیں یہ حق ہے کہ جس چیز کو غلط سمجھتے ہیں اسے غلط کہیں۔ مگر ساتھ میں دلیل دیں اور اس بات کو قبول کرنے کے لیے تیار رہیں کہ امکانی طور پر ان کی اپنی بات ہی غلط ہوسکتی ہے۔
پھر سب سے اہم بات جو یاد رکھنی چاہیے کہ اختلاف کرنے کا جو کچھ ان کا حق ہے وہ آراءکے بارے میں ہوسکتا ہے۔ کسی فرد کے بارے میں وہ کوئی رائے نہیں دے سکتے۔اس لیے کہ جس شخص کی غلطی انہوں نے دریافت کی ہے ، وہ ممکن ہے کہ اخلاص کے ساتھ اس نتیجہ فکر تک پہنچا ہو۔ ایسی صورت میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے کہ قیامت کے دن کسی معاملے میں حکم لگانے والا (اگرعلم اور اخلاص کے ساتھ یہ کام کرے)توغلطی کی صورت میں بھی اپنے اخلاص کی بنا پر ایک اجر کا حقدار ہوگا۔ [2]ایسے کسی شخص کے متعلق مہم جوئی کرنا، اس کے کفر وضلالت کے فتوے دینا، اس کی علمی آراءکی بنیاد پر اسے غیر ملکی ایجنٹ ثابت کرنا اس کے ایمان پر براہ راست حملہ ہے اور اس کی سزا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان کی ہے کہ جو کفر کا الزام لگائے گا وہ یا تو سچا ہے یا پھر خود اپنا ایمان کھودیتا ہے:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب کوئی آدمی اپنے بھائی کو کافر کہتا ہے تو ان دونوں میں سے کوئی ایک اس (کفر کے الزام) کا مستحق بن جاتا ہے۔“[3]
اس کا سبب بالکل سادہ ہے۔ وہ یہ کہ کوئی انسان کسی دوسرے انسان کی نیت نہیں جان سکتا۔ وہ اس کا دل چیر کر نہیں دیکھ سکتا۔ وہ اس کے ذہن کے اندر نہیں اتر سکتا۔سب سے بڑھ کرکسی دوسر ے کے متعلق رائے قائم کرنے والا خود غلط ہوسکتا ہے۔ وہ نبی نہیں۔ اس پر فرشتے نہیں اترتے۔وحی نہیں آتی۔ اسے خدائی تحفظ حاصل نہیں۔ اس لیے یہ اس کا حق ہی نہیں کہ کسی دوسرے فرد کے متعلق کوئی رائے قائم کرے۔ رائے ہمیشہ دوسرے کی رائے کے بارے میں دی جاتی ہے ۔ اس سے آگے بڑھ کر اس کی شخصیت، آخرت، ایمان اورنیت کے بارے میں کوئی فیصلہ دینا اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑکانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں یہ سب ہوتا ہے اور یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جن کا علم انتہائی ناقص ہوتا ہے۔ وہ بے چارے ساری زندگی صرف اپنا نقطہ نظر پڑھتے اور سنتے ہیں۔ انہیں اپنے علمائ، اپنے لٹریچر، اپنے گروپ اور اپنے فرقے کے علاوہ کسی اور کی خبر نہیں ہوتی۔ وہ اسی ناقص علم ،محدود دائرے، متعصبانہ سوچ اورجذبات سے بھرپور کیفیت میں دوسرے کے حق و باطل ، صحیح و غلط اور حتیٰ کے کفر و ایما ن کا فیصلہ کرنے لگتے ہیں۔ کاش یہ لوگ جانتے کہ اس جرم کی سزا کتنی بھیانک ہے۔مگر یہ لوگ اپنے دائرے میں بند رہتے ہیں اور پورے یقین سے اپنے پیروکاروں کو بتاتے ہیں کہ ہم آخری سچ بیان کررہے ہیں اور ہماری فکر سے اختلاف کسی صورت میں ممکن نہیں ہے۔ پھر وہ آگے بڑھتے ہیں اور اختلاف کرنے والے کے کفر اور پھر اس کے قتل کا فتویٰ دینے لگتے ہیں۔ یوں خد اکی دھرتی ان کے تعصبات کے سبب ظلم اور فساد سے بھر جاتی ہے اور معصوم لوگوں کی جان مال آبرو برباد ہونے لگتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ
عام لوگوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ انسان جب تک انسان ہے اور سوچ رہا ہے وہ اختلاف کرے گا۔تمام اختلافات کا حتمی فیصلہ صرف قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کرنے کے مجاز ہیں۔ انسان جب تک دنیا میں ہیں تحقیق کریں گے۔ تخلیق کریں گے۔ رائے قائم کریں گے۔ اس پر نظر ثانی کریں گے۔یہ صرف نبی ہوتا ہے جو نہ تحقیق کرتا ہے نہ تفکر کرتا اور نہ ذاتی تعصبات کی بنا پر کوئی رائے قائم کرتا ہے۔ وہ اللہ سے پاکر فیصلہ سناتاہے۔ کوئی اور یہ کرنے کی کوشش کرے گا تووہ غیر علانیہ نبوت کرے گا۔ وہ جھوٹی نبوت کرے گا۔ جھوٹی نبوت ہمیشہ فرقہ واریت، تعصب اور فساد پیدا کرتی ہے۔ جبکہ سچی نبوت جو اب صرف خاتم الانبیا والمرسلین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ہے، ہمیشہ امن، احترام، صلاح اور خیر پیدا کرے گی۔
اس نبوت کا فیصلہ ہے جسےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر یوں بیان فرمایا:
”تمہارے (مسلمانوں کے) خون، اموال اور عزتیں ایک دوسرے پر حرام ہیں، اس دن (عرفہ)، اس شہر (ذوالحجہ) اور اس شہر (مکہ) کی حرمت کی مانند۔ کیا میں نے تم تک بات پہنچادی؟ صحابہ نے (بیک آواز) عرض کیا: جی ہاں۔“
اسی موقع پر آپ نے مزید ارشاد فرمایا:
”دیکھو! میرے بعد دوبارہ کافر نہ بن جانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارتے پھرو۔“
مزید ارشاد فرمایا:
مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔
مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔
جس نے ہم (مسلمانوں) پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں۔
تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے۔ اسے کیا معلوم کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ سے اسے (ہتھیار کو)گرادے (یا چلادے) تو (مسلمانوں کو قتل کرنے کی وجہ سے) وہ جہنم کے ایک گڑھے میں جاگرے۔
جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے سے لڑ پڑیں تو وہ دونوں جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! ایک تو قاتل ہے (اس لیے جہنم میں جائے گا) لیکن مقتول کا کیا قصور؟ فرمایا: اس لیے کہ اس نے اپنے (مسلمان) ساتھی کے قتل کا ارادہ کیا تھا۔
تم میں سے کوئی آدمی جب اپنے بھائی کو کافر کہے تو دونوں میں سے ایک اس کا مستحق بن جاتا ہے۔یا تو وہی (سننے والا)کافر ہوتا ہے جیسا کہ کہنے والا اسے کہتا ہے یا پھر (سننے والا) نہیں ہے تو پھر یہ کہنے والے پر پلٹ آئے گا۔
ہم نے یہ ساری روایات صحیح بخاری سے لی ہیں اور یہ واضح کرتی ہیں کہ لوگوں کا اختلاف ذاتی نوعیت کا ہو یا مذہبی نوعیت کا اسے کسی صورت جان ،مال، آبرو اور ایما ن و نیت کی طرف نہیں جانا چاہیے۔
یہی وہ اصول ہے جس پر ایک عام آدمی بآسانی یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ مذہبی اختلافات میں غلط رویہ کیا ہوتا ہے۔ جب کبھی کوئی اختلافی مسئلہ سامنے آئے ہمیشہ یہ دیکھیے کہ کہنے والا کس جگہ کھڑا ہے۔ کیا اس نے اپنی رائے کو آخری سچ کے طور پر پیش کیا ہے یا وہ محض اسے ایک رائے سمجھ کر بیان کررہا ہے۔وہ اپنی رائے بیان کررہا ہے تو اس میں غلطی کا امکان ہوسکتا ہے ۔ اور اگر اپنی اس ناقص رائے کو حق سمجھ کر اس کی بنیاد پر دوسروں کے خلاف کفر کے فتوے دے رہا ہے تو وہ غیر علانیہ نبوت کررہا ہے۔یہ جھوٹی نبوت ہے۔ یہ کرنے والے اور اس کو ماننے والے دونوں قیامت کے دن ماخوذ ہوں گے۔
4۔منافقین اورمستشرقین کا طریقہ
رویے اور سوچ کی اگلی خرابی جو فرقہ واریت اور تعصبات کے فروغ کا ذریعہ بنتی ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن منافقین مدینہ اور مستشرقین کے طریقے کی پیروی ہے۔منافقین مدینہ کا طریقہ کیا تھااسے سمجھنا ہے تو واقعہ افک کی مثال سے سمجھئے۔ایک جہاد (غزوہ بنی مصطلق ) سے واپسی پرہماری ماں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کسی وجہ سے لشکر سے پیچھے رہ گئیں۔ایک صحابی حضرت صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ، جو لشکر کی روانگی کے بعد نگرانی پر معمور تھے وہاں سے گزرے تو آپ کو دیکھ کر صورتحال کا اندازہ کرلیا اور خاموشی سے اپنا اونٹ آپ کو پیش کردیا۔ آپ اونٹ پر سوار ہوئیں اور یہ دونوں اس طرح لشکر سے جاملے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اونٹ پر تھیں اور وہ رسی پکڑے ساتھ ساتھ آرہے تھے۔ منافقین نے یہ دیکھا اور ان دونوں پر بہتان لگاکر ایک عظیم فتنہ برپا کردیا۔ منافقین نے اتنی زبردست پروپیگنڈہ مہم چلائی کہ اچھے اچھے لوگ اس کا شکار ہوگئے۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خود سیدہ کی برات قرآن مجید میں نازل کرکے اس فتنے کا خاتمہ فرمایا۔
اس واقعے سے جو طریقہ واردات ہمارے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ جب کوئی معاملہ ایسا سامنے آئے جس کی مثبت تاویل کرنا ممکن ہواور جیسا کہ اس معاملے میں کی جاسکتی تھی کہ نبی کی اہلیہ جن سے وہ سب سے بڑھ کر راضی ہوں ایسا کام کیسے کرسکتی تھیں اور نبی کا ایک جانثاراپنے آقا کی عزت پر ڈاکہ ڈال کر کیسے صاحب ایمان رہ سکتا تھا اور یہ کرنے کے بعد پورے اعتماد سے دونوں ایک ساتھ علانیہ لشکر میں کیسے داخل ہوسکتے ہیں جبکہ ایسے کام ہمیشہ چھپ کر کیے جاتے ہیں۔ ایسے تما م مثبت امکانات کو چھوڑ کر منفی ترین امکان کو لیا جائے چاہے وہ کتنا ہی بعید ہواور اسے حقیقت بناکر پیش کردیا جائے۔ لوگوں کی نیت،ایمان اور آبرو پرحملہ کیا جائے۔ حسن ظن کو بالائے طاق رکھ کربدگمانی سے معاملے کا آغاز کیا جائے۔موقع محل، سیرت و شخصیت، عرف و شہرت سب کو نظر انداز کرکے بدترین بہتان کو بھی باآسانی لگادیا جائے۔
اس طریقہ واردات کو اگر نقطہ عروج پر کسی نے پہنچایا ہے تو وہ مستشرقین کا گرو ہ ہے۔ مستشرقین ان مغربی اہل علم کو کہتے ہیں جو مشرقی علوم اور مشرقی تہذیب کے ماہر ہوتے ہیں۔ تاہم ان کی ایک بڑی تعداد کا موضوع اسلام، قرآن اور پیغمبر اسلام کی شخصیت رہی ہے۔اس میں سے بھی زیادہ تر لوگوں کا کام یہ رہا ہے کہ وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کی شخصیت پر ہر ممکنہ حملے کرکے اسے لوگوں کی نگاہوں میں غیر معتبر بنانے کی کوشش کریں۔
دوربین اور خوردبین
ان مستشرقین کے طریقہ واردات کے بارے میں سب سے خوبصورت تبصرہ مولانا ابو الحسن علی ندوی نے یوں کیا ہے کہ یہ لوگ خوردبین سے دیکھتے اور دوسرے کو دوربین سے دکھاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ان کا مطمع نظر اسلام اور پیغمبر اسلام میں صرف خامیاں ڈھونڈنا ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو اٹھاتے اور دوسروں کو یہ چیزیں بہت بڑی اور اہم بناکر دکھاتے ہیں۔
اس کی ایک بڑی مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادیاں ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 25سال تک کی عمر، مکہ کے شہر میں جہاں زنا کرنا کوئی مسئلہ تھا نہ کوئی جرم ، انتہائی پاکدامنی کے ساتھ گزاری۔پھر ایک شریف اور باعزت خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا جو عمر میں بڑی تھیں اور بڑی وفاداری اور محبت سے ان کے ساتھ پچیس سال گزارے۔ پھریہ سب عرب کے اس قبائلی نظام میں رہ کر کیا جہاں دوسری شادی کوئی مسئلہ تھی نہ اس میں کوئی رکاوٹ حائل تھی۔ چالیس سال کی عمر میں پیغمبر بننے کے بعد آپ کی حیثیت اتنی غیر معمولی ہوچکی تھی کہ ایک اشارے پر ماننے والے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے نکاح کے لیے حاضر تھے۔ مگر آپ نے پوری جوانی نکال دی اور سیدہ کی وفات تک کوئی اور شادی نہ کی۔ان سارے حقائق کو نظر اندا ز کرکے مستشرقین محض شادیوں کی تعدادکو بنیادبناکر ایسی فتنہ انگیزی کرتے ہیں کہ غیر مسلموں کو تو چھوڑیے خود مسلمانوں کا ایمان متزلزل ہوجاتا ہے۔
یہی فتنہ پردازی سیدہ عائشہ اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہما کے نکاح کے حوالے سے کی جاتی ہے۔اس معاملے میں جوغلاظت ان کے قلم اور زبان سے نکلتی ہے اسے ایک مومن کا قلم نقل کرنے کی ہمت بھی نہیں رکھتا۔ یہی معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاد کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ مثلاً بنوقریظہ کو جنگ خندق کے موقع پر بدعہدی اور دشمنوں سے سازباز کے جرم میں یہ سزا دی گئی کہ ان کے تمام مردوں کو قتل اور تمام عورتوں بچوں کو لونڈی غلام بنالیا گیا۔یہ فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں تھا بلکہ ان کے حلیف حضرت سعد بن معاذ کا تھا جنہوں نے یہودیوں کی اپنی شریعت یعنی تورات کے قانون کے مطابق یہ فیصلہ کیا تھا۔ مگر اس واقعے کے موقع محل اور پس منظر کو الگ کرکے مستشرقین اس کو خوب اچھالتے اورنبی رحمت کے متعلق ایسا پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ عقل حیران ہوجاتی ہے۔
یہ ہم نے ایک دو نمایاں مثالیں دی ہیں وگرنہ ان لوگوں نے اس طریقہ واردات کو استعمال کرکے اتنا مکروہ پروپیگنڈہ پھیلا یا ہے اور ایسی مہم جوئی کی ہے کہ حد نہیں۔
متعصب لوگوں کا طریقہ
منافقین اور مستشرقین یہود کا یہی وہ طریقہ واردات ہے جو فرقہ واریت اور گروہی تعصب پھیلانے والے لوگ اختیار کرتے ہیں۔ بظاہر یہ اللہ اور رسول کا نام لیتے اور حمیت دین کے نام پر کھڑے ہوتے ہیں، مگر ان کا طریقہ ٹھیک یہی ہوتا ہے۔کسی عالم کی پوری زندگی اور شخصیت کو نظر انداز کرکے اس کی تحریر کا ایک جز لیا، سیاق سباق سے کاٹا اور کفر کا فتویٰ ایجاد کردیا۔اپنے نقطہ نظر اور مفروضوں کو حق کا معیار سمجھااور سامنے والے کی بات کوعین باطل قرار دے دیا۔جھوٹ اور دروغ گوئی کا سہارا لیااور کسی بھی فرد ، گروہ اور کتاب کے خلاف ایسی بھرپورمہم چلائی کہ لوگ اس کا نام سن کر کانوں پر ہاتھ رکھنے پر مجبور ہوجائیں۔کسی بات یا واقعے کو لیا موقع محل اور پس منظرکو چھپالیا اور اپنے مخاطب اور ماننے والے کو یہ باور کرادیا کہ یہ بات کرنے والا گمراہ ہے اور گمراہی پھیلارہا ہے۔
یہ طریقہ واردات سیاق و سباق ، موقع محل اور پس منظر کونظر انداز کرنے اور علمی خیانت کے دیگر طریقوں ہی سے عبارت نہیں بلکہ الزام، بہتان، جھوٹ، دروغ گوئی، دھوکہ دہی،تجسس ، بدگمانی اور دین و ایمان اور نیت پر براہ راست حملوں جیسے شدید ترین ایمانی اور اخلاقی جرائم پر مشتمل ہوتا ہے۔
ایسے لوگوں کی نیت اور مقصد اگر دین کی حفاظت ہوتا تو کبھی یہ ممکن نہیں تھا کہ یہ لوگ مسلمہ دینی اور اخلاقی حدود کو پامال کرکے دین کا دفاع کرتے۔ ان لوگوں کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ یہ خدا کے دین کی بات کرتے ہیں مگر دین ہی کی بنیادی حدود کو پامال کرتے ہیں۔ یہ نبی کا نام لیتے ہیں مگر نبی کے طریقے اور ہدایات کو بھول جاتے ہیں۔یہ عشق رسول کا دم بھرتے ہیں، مگر اخلاق رسول سے آخری درجہ میں عاری ہوتے ہیں۔یہ عدل اجتماعی کا نعرہ لگاتے ہیں، مگر قلم ہاتھ میں لے کر عدل نہیں کرتے ۔ یہ دن رات دوسروں کو درس قرآن دیتے ہیں اور قرآن کی یہ بنیادی ہدایت بھول جاتے ہیں کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں ناانصافی پر آمادہ نہ کردے۔ اس لیے ہمیشہ عدل کرو۔[4] یہ اپنے بنائے ہوئے آئینے میں دوسروں کی تصویر دیکھتے اور دکھاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کا آئینہ حقیقت کے بجائے ان کے تعصبات اور جذبات کا اسیر ہوسکتا ہے۔یہ مذہبی سیادت کے منصب پر فائز ہوکر اس بات سے نہیں ڈرتے کہ ان کی پرسش دوسروں سے زیادہ ہوگی۔یہ نہیں سوچتے کہ جو دھیلے کے امین نہیں پروردگار انہیں زمین کا خزانہ کیسے دے سکتا ہے۔ جو قلم ہاتھ میں لے کر عدل نہ کرسکے ان کے ہاتھ میں زمین کا اقتدار کیسے دیا جاسکتا ہے۔
بدقسمتی سے مستشرقین کا یہ طریقہ قول سدید [5] اور ہر حال میں عدل کے قرآنی احکام کی خلاف ورزی ہے مگر آج سب سے بڑھ کر مسلمان ہی اس طریقے کے علمبردار ہوچکے ہیں اور پروپیگنڈہ کی ایسی مہمیں چلاتے ہیں کہ یہودیوں کو بھی شرم آجائے۔
5۔غیر روایتی کام کی مخالفت
فرقہ واریت اور گروہی تعصبات کا ایک سبب یہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنے سامنے کسی ایسے عالم یا محقق کو دیکھتے ہیں جس کا کام انتہائی غیر معمولی مگر غیر روایتی ہوتا ہے۔ایسے لوگ بارہا ایک ایسے نئے کام کا آغاز کرتے اور ایک ایسا نیا طریقہ اختیار کرتے ہیں جو معاصرین کے وہم و خیال سے بلند ہوتا ہے۔ یہ غیر روایتی،مختلف اور منفرد چیز خود تعصبات کو بھڑکادیتی ہے۔ ایسے اہل علم کے متعلق میں مولانا ابوالحسن علی ندوی کا ایک اقتباس یہاں نقل کررہا ہوں جو انہوں نے علامہ ابن تیمیہ کے حوالے سے لکھا تھا۔اسے پڑھیں اور دیکھیں کہ مولانا نے کس خوبی سے اُس مخالفت کی وجوہات کا تجزیہ کیا ہے جس کا سامنا ابن تیمیہ کو اس دور کی روایات سے ہٹنے کی بنا پر کرنا پڑا۔یہ وجوہات کسی فکر، فلسفہ اور نقطہ نظر کے مخالفین کی مخالفت کو سمجھنے کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ان کو سمجھنے کے بعد فرقہ واریت اور مذہبی اختلافات کو سمجھنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔
میں یہاں یہ بتاتا چلوں کہ مولانا ابو الحسن علی ندوی ان بزرگوں میں سے ہیں جنھیں عالم عرب و عجم میں بہت عزت اور احترام کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ ان کی علمی حیثیت یہ ہے کہ بیسویں صدی میں جو پانچ سات بزرگ عالم اسلام میں چوٹی کے علما شمار کیے جاتے تھے مولانا ان میں سے ایک تھے۔ مولانا سے ذاتی طور پر مجھے بڑی عقیدت اور محبت ہے اور میں نے ان سے علمی طور پر بہت استفادہ کیا ہے۔ اب ذرا مولانا کا درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیے جو ذرا طویل ہے، مگر زبان و بیان کے اعتبار سے کمال کی چیز ہے۔
Next Page ….