سپریم کون پارلیمنٹ ,عدالت یا  قرآن ؟ Pakistan-Supremacy of Parliament or Judiciary or Quran

دستوری معاملات سے لا علمی اور سیاست دانوں کی ذاتی مفادات کے لیے اپنی تشریحات  کی وجہ سے عام شہریوں کے ذہن میں سوالات اٹھتے ہیں کہ پارلیمنٹ ایک قانون ساز ادارہ ہے، وہ جو بھی قوانین بنا یے ان کو سپریم کورٹ یا کوئی ادارہ تبدیل نہیں کر سکتا- دستور پاکستان  ایک اسلامی مملکت کا دستور ہے قرارداد مقاصد اس کا حصہ ہے- آیین پاکستان کے مطابق کوئی قانون قرآن و سنت کے برخلاف نہیں بنایا جا سکتا- لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاکستان میں نہ پارلیمنٹ نہ عدلیہ سپریم ہے مگر آیین  سپریم قانون ہے جس کے مطابق حاکمیت اللہ کی ہے منتخب پارلیمنٹ اس کے نفاز کی زمہ دار ہے اور سپریم کورٹ آیین کی تشریح کرتی ہے- اگر کوئی ادارہ حدود سے تجاوز کرے ،  کوتاہی کرے تو عوام ان کو ہرامن طریقہ سے راہ راست پر لائیے-  دو قومی نظریہ – نظریہ پاکستان بنیاد ہے قیام پاکستان کی، جس کو مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے- پہلے کچھ معلومات … پھر دستور کی اسلامی شقوں کی اہمیت اور عملی نفاذ کا طریقه ..

کیا عدالت پارلیمنٹ کے کسی قانون کو منسوخ کر سکتی ہے؟

اس کا جواب ہاں میں ہے۔ قانونی زبان میں ایک اصطلاح عدالتی نظرثانی یا جوڈیشل ریویو استعمال کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگراعلیٰ عدالتیں پارلیمنٹ کے منظور شدہ کسی قانون کو آئین سے متصادم یا مخالف سمجھیں تو وہ اسے منسوخ یا غیر آئینی قرار دے کر ختم کر سکتی ہیں۔ اسے جوڈیشل ریویو کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں اس کی سینکڑوں، ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ امریکہ جو دنیا کے بہترین جمہوری ممالک میں سے ایک ہے، وہاں امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے کئی بار کانگریس کے منظور شدہ قوانین کو منسوخ کر دیا گیا۔ امریکی صدر دنیا کا طاقتور ترین صدر ہے، مگر امریکی سپریم کورٹ امریکی صدر کے متعدد احکامات غیر قانونی قرار دے کر ختم کر چکی ہے۔ ابھی چند دن پہلے صدر ٹرمپ کے ایک حکم کو عدالت نے ختم کر دیا۔ میڈیسن بمقابلہ ماربری ایک مشہور امریکی مقدمہ ہے، جس میں امریکی کانگریس کے منظور کردہ قانون کو عدالت نے ختم کر دیا تھا، یہ امریکہ میں جوڈیشل ریویو کی پہلی مثال ہے، یہ کیس ایک صدی پرانا ہے۔عدالت کی دلیل یہ تھی کہ وہ قانون امریکی آئین سے متصادم تھا۔ بھارتی سپریم کورٹ کے جوڈیشل ریویو کی بہت سی مثالیں دی جاتی ہیں۔ عام طور پر عدالتیں ایکٹ آف پارلیمنٹ تو ختم کر دیتی ہیں، مگر آئینی ترمیم چونکہ دو تہائی اکثریت سے کی جاتی ہے ، اس لئے اسے ختم کرتے ہوئے زیادہ سوچ بچار سے کام لیا جاتا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے کم از کم تین بھارتی آئینی ترامیم کو بھی منسوخ کیا،جبکہ بھارتی پارلیمنٹ سے منظور شدہ درجنوں قوانین آئین کی روح سے متصادم ہونے کی بنیاد پر اڑا دئیے گئے ۔ بنگلہ دیش سپریم کورٹ بھی بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کے قوانین ختم کر کے ایسا کر چکی ہے۔
  
کسی پاکستانی عدالت نے پارلیمنٹ کے کسی قانون یا ترمیم کو ختم کیا؟

پاکستان میں عدالتیں ایک سے زیادہ فیصلوں میں پارلیمنٹ کے منظور شدہ قوانین ختم کر چکی ہے۔ میاں نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں اینٹی ٹیررسٹ کورٹ بنائی تھیں، قانون کے مطابق اس کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل نہیں کی جا سکتی تھی۔ یہ بات پاکستانی آئین سے متصادم تھی کیونکہ آئین کے تحت ہائی کورٹس میں ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق موجودہے ۔ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کے منظور کردہ اس اینٹی ٹیررسٹ ایکٹ کی متنازع شق کو ختم کر دیا اور ہائی کورٹ میں اپیل کا حق بحال ہوگیا۔یہ مشہور کیس ہے اور اس کے حوالے دیگر کیسز میں دئیے جاتے ہیں۔ بعض دیگر قوانین کے حوالے سے بھی ایسا کیا گیا۔ اٹھارویں ترمیم منظور ہوئی ، اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا توترمیم میں موجود بعض خلا اور کمزوریوں کی بنا پر سپریم کورٹ نے اس کی نشاندہی کی اور پھر پارلیمنٹ کومزید ترامیم کر کے وہ خامیاں دور کرنا پڑیں۔ سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کی شق میں ترمیم کے خلاف آیا۔

جب پارلیمنٹ سپریم ہے تواس کا قانون کیوں چیلنج ہوا؟


یہ بات بھی ایک مغالطہ اور غلط کلیشے پر مبنی ہے۔ بنیادی نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ برطانیہ جیسے ممالک جہاں تحریری آئین موجود نہیں، وہاں پارلیمنٹ سپریم ہوتی ہے ۔ وہاں بھی عدالتیںاگرچہ جوڈیشل ریویو کاحق استعمال کرتی ہیں، مگر عام طور سے یہ انتظامی فیصلوں کے حوالے سے کیا جاتا ہے، مقننہ یعنی برطانوی پارلیمنٹ کے قوانین پر جوڈیشل ریویو نہیںآتا۔ ویسے اب برطانوی عدالتیں برطانوی پارلیمنٹ کے قوانین کا بھی جائزہ لینا شروع کر چکی ہیں۔ پاکستان کا آئین وفاقی نوعیت کا ہے، ہمارے ہاں برطانیہ کے بجائے امریکہ کو سامنے رکھا گیا۔ ہمارے پاس تحریری آئین ہے، اسی آئین کی وجہ سے پارلیمنٹ بنائی گئی ہے، اس لئے بنیادی طور پر آئین ہی سپریم ہے، پارلیمنٹ تو اس کی تخلیق ہے۔ یہاں پر کوئی یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ آئین بھی تو پارلیمنٹ کی تخلیق ہے ۔ حقیقت مگر یہ نہیں، آئین میں ترمیم اور بات ہے، پورا آئین نئے سرے سے بنانا کسی عام پارلیمنٹ کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لئے دستورساز اسمبلی چاہیے ہوتی ہے، یعنی وہ پارلیمنٹ جس نے الیکشن میں آئین بنانے کے نام پر مینڈیٹ لیا ہو۔صرف ایسی دستور ساز پارلیمنٹ ہی آئین کی خالق ہوتی ہے۔ ہمارے آئین کے مطابق اس کی تشریح کا حق عدالت کو حاصل ہے۔ مختلف آئینی شقوں کو سمجھنا، ان میں تصادم یا اس حوالے سے تشریح کا کوئی ایشو پیدا ہو تو وہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے پاس جاتا ہے۔ بھارت کا آئین بھی پاکستان کی طرح کا ہے، وہاں بھی بھارتی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ ہی آئین کی تشریح کا کام کرتی ہیں۔ یہی صورتحال بنگلہ دیش یا کسی بھی ایسے ملک کی ہے، جہاں کا آئین پاکستان، بھارت کی طرح امریکی طرز کا وفاقی ہو۔ اس لئے پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سب سے بڑھ کر امریکہ جیسے ممالک میں پارلیمنٹ اگر کوئی قانون منظور کرے اور وہ آئین یا اس کی روح یا کسی دوسرے شق سے متصادم ہو تو سپریم کورٹ اس پر نظرثانی کر کے اسے منسوخ کرنے کا حق اور اختیار رکھتی ہے۔  ایسا کرنا پارلیمنٹ کی توہین نہیں، بلکہ ان کی غلطی کا احساس دلانا ہے۔ اراکین پارلیمنٹ کو اپنی غلطی پر غور کرنا چاہیے تاکہ آئندہ ویسی غلطی نہ ہوپائے۔

کیا چندافراد (جج ) عوامی مینڈیٹ کو رد کر سکتے ہیں؟
اس میں عددی اکثریت اور اقلیت کا سوال ہی نہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ چند افراد عوامی مینڈیٹ کی توہین کر رہے ہیں یا ان کے خلاف فیصلہ دے رہے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ملک کے آئین نے کسی ادارے کا کیا کردار دے رکھا ہے؟ سپریم کورٹ کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام اداروں کو آئینی حدود سے تجاوز نہ کرنے دے۔ آئین نے یہ حق اور ذمہ داری سپریم کورٹ کو دی ہے۔اب اگر کوئی پارٹی یا لیڈر کروڑوں افراد کے ووٹ لے کر آیا ہے اور آئین کے منافی اقدامات کرنے لگے یا قانون سازی کرے تو سپریم کورٹ کے چند ججوں ہی نے اسے ایسا کرنے سے روکنا ہے۔ ان کی تعداد کم ہوگی، مگر ان کے ساتھ ریاست اور آئین کی قوت شامل ہونے سے وزن بہت زیادہ بڑھ جائے گا، حتیٰ کہ کروڑوں کے مینڈیٹ کی حامل پارلیمنٹ کو بھی وہ فیصلہ ماننا پڑے گا۔ نہیں مانے گی تو پھر آئین کی خلاف ورزی ہوگی اور پھر اس پارلیمنٹ کا اپنا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔ اس لئے بات چند لوگوں اور عوامی مینڈیٹ کی نہیں ،بلکہ اصول اور ضابطوں کی ہے۔ (عامر ہاشم خاکوانی )

……………………………………………..

Pakistan has a written Constitution which prescribes role, function and structure of each organ of the state. All institutions are creation of the Constitution and are independent in their respective domain. This is also the spirit of and a necessary condition for successful functioning of federalism. The job of the judiciary especially that of the higher judiciary is to interpret the Constitution, protect the fundamental rights and make sure that the laws enacted by the legislature are consistent with the Constitution. There is no doubt about the fact that legislation is the sole responsibility of the parliament but the apex court has the power under the Constitution to declare any legal measure null and void if it contravenes the Constitution. Judicial intervention on this count does not represent the infringement on the role and functions of parliament... [……..]

شریعت اور آئین پاکستان

شریعت کا نام لیتے ہے ملا کا تصور ابھرتا ہے جس کے ہاتھ میں چابک اور تلوار ہو اور کسی کا ہاتھ کاٹا جا رہا ہو اور کوئی سنگسار ہو رہا ہے- یہ بات ذہنوں میں بیٹھا دی گیئی ہے کہ اس جدید دور میں ترقی کے لییے “قدیم عرب کے  قبائلی قوانین” کی کوئی گنجائش نہیں- ہم نے ترقی پزیر اقوام کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہے نہ کہ قدیم دور میں واپس جانا ہے-

یہ گمراہ کن بیانیہ ایک دھوکہ ہے جو  اقلیتی لبرل سیکولر کے لبادہ میں ملبوس(ملحد مافیا)کے زیر اثر میڈیا سے تسلسل کے ساتھ پروپیگنڈا کے زریعہ پھیلایا جاتا ہے- اس بیانیہ کی ترویج میں نام نہاد “مذہبی اشرافیہ”  اوردہشت گرد طالبان و داعیش کا بھی حصہ ہے جنہوں نے “اسلام اور شریعت” کو ہائی جیک کر رکھا ہے اور اس کو نعرہ  پر استعمال کرتے ہیں اپنے مقاصد کے حصول کے لینے- ان کے نزدیک نفاذ شریعت کی ابتدا ہی اسلامی حدود کی سزاوؤں کے نفاذ سے ہے- جو لوگ نفاذ شریعت  میں سنجیدہ ہوں گے وہ قرآن و سنت کا طریقه اختیار کریں گے- یہ حقیت نظر انداز  نہیں کرنا چاہیئے کہ رسول الله  صلی اللہ علیہ وسلم نے قوم کو اس مرحلہ کے لیے کئی سالوں پی محیط جدوجہد کے بعد تیار کیا تھا کہ مجرم خود اپنے گناہ کا اقرار کرکہ دنیاوی سزا قبول کرتے تھے:

عن أبي ھریرة أنه قال أتی رجل من المسلمین رسول اﷲ ﷺ وھو في المسجد فناداہ فقال یا رسول اﷲ! إني زنیت فأعرض عنه فتنحّٰی تلقاء وجھه۔ فقال له یارسول اﷲ! إني زنیتُ فأعرض عنه حتی ثنی ذلك علیه أربع مرات۔فلما شھد علی نفسه أربع شهادات دعاہ رسول اﷲ ﷺ فقال: (أبك جنون؟) قال: لا۔قال: (فھل أحصنت؟) قال: نعم۔ فقال رسول اﷲ ﷺ :(اذھبوا به فارجموہ)

”حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اس شخص نے آواز دی اور کہا: اے اللہ کے رسولؐ! میں زنا کا مرتکب ہوا ہوں ۔” حضورؐ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ اس نے دوبارہ کہا: ”اے اللہ کے رسولؐ! میں زنا کا مرتکب ہوا ہوں ۔” آپؐ اس پر بھی متوجہ نہ ہوئے۔ اس نے چار دفعہ اپنی بات دہرائی، پھر جب اس نے چار مرتبہ قسم کھا کر اپنے جرم کا اقرار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلا کر پوچھا: ”تو پاگل تو نہیں ؟ بولا: ‘نہیں !’ پھر آپؐ نے پوچھا: کیا تو شادی شدہ ہے؟ وہ بولا: ‘جی ہاں ‘ (میں شادی شدہ ہوں ) اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے لے جاکر سنگسار کردو۔”

(صحیح مسلم:1691، صحیح بخاری:6815، ایک عورت نے بھی اسی طرح اصرار کیا صحیح مسلم:1695)

حضرت عمر رضی الله نے مخصوص حالات میں چوری پر قطع ید پر عمل درآمد مووخر کر دیا تھا- اسلامی شریعت کا نفاذ بتدریج ہوا-

پاکستان میں نفاذ شریعت کا مطلب ملایت (ایرانی ماڈل) نہیں- یھاں ایک متفقہ  اسلامی جمہوری دستور موجود ہے جس کے مطابق قرآن و سنت کے برخلاف قانون نہیں بنایے جا سکتے- اس پر عمل درآمد کی ضرورت ہے-

آئین پاکستان  کاآرٹیکل 2 کہتا ہے کہ ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ہو گا اور آرٹیکل 2(A) میں کہا گیا ہے حاکمیت اعلی صرف اور صرف اللہ کی ہے۔

 آرٹیکل 31کہتا ہے کہ ریاست ایسے اقدام کرنے کی پابند ہے کہ شہری اس قابل ہو سکیں کہ وہ نہ صرف اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق گزار سکیں بلکہ قرآن و سنت کے مطابق زندگی کا صحیح مفہوم بھی جان سکیں۔  یہی بات آرٹیکل 2(A) میں بھی ذرا زیادہ تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔

 دستور کے آرٹیکل 31 کے تحت ریاست پابند ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جن سے لوگ اس قابل ہو سکیں کہ زندگی کا مفہوم قرآن و سنت کی روشنی میں جان سکیں۔

نفاز شریعت میں رکاوٹ کون؟

جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ،ظالم ، فاسق ہیں (قرآن،المائیدہ 44,45,47(

 اللہ کا قانون شریعت طاقتور اور کمزور سب کے لیئے برابر انصاف ہے۔ یہ طاقتور کرپٹ لٹیروں، حکمران اشرافیہ کو قبول نہیں مگر کمزور، غریب کے فائیدہ میں ہے اس لئیے سیکولر،لبرل، ملحد نما مغربی پروردہ حکمران ٹولہ جو ستر سال سے حکومت پر قابض ہے شریعت کے نفاز میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کبھی ڈکٹیٹرشپ کبھی جمہوریت کی آڑ میں شغل حرام جاری ہے۔ سیاسی فائیدہ کے لیئے اسلام کا نام عوام سے دھوکہ ہے۔

جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ،ظالم ، فاسق ہیں (قرآن،المائیدہ 44,45,47(

آپ کدھر کھڑے ہیں؟

 رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“میں تم پراحمق لوگون کی قیادت سے اللہ سبحان وتعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں. صحابہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا احمق کی قیادت کیا ہے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ حکمران جومیرے بعد آئیں گے، جومیری تعلیمات پرعمل نہیں کریں گے، جومیرے سنت پرنہیں چلیں گے، جوکوئی اس کے جھوٹ پریقین کرے گا اورظلم وجبرمیں ان کی مدد کرے گا وہ مجھ میں سے نہیں اورمیں اس میں سے نہیں اورنہ ہی وہ حوض کوثرمیں مجھ سے ملاقات کرے گا اورجوان کے جھوٹ پریقین نہیں کرے گا، وہ مجھ سے ہے اورمیں اس سے ہوں اوروہ حوض کوثرپرمجھ سے ملے گا (مسند احمد بن حنبل)

امت مسلمہ کا المیہ

عرب مالدار مگر کمزور، کفار کا سہارا ڈھونڈتے ہیں اپنی حکومت اور بادشاہتیں قائم رکھنے کے لیئے-

ایک مضبوط معاشی طور پر طاقتور پاکستان ملت اسلامیہ کا سہارا بن سکتا تھا مگر چور کرپٹ حکمران ایسا نہیں ہونے دیتے جن کو اسلام دشمن قوتوں کی مدد حاصل ہے۔

مصر اور ترکی کو بھی لوکل جنگوں میں مصروف کردیا ۔ ایران پر بھی جنگی جنون سوار ہے ۔۔ یہ ہے امت مسلمہ کا حال جو قرآن کو چھوڑ چکے ہیں ۔۔

وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿سورة الفرقان25:30﴾

اور(روز قیامت) رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بےشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ﴿سورة الفرقان25:30﴾

مزید